Posted in Uncategorized

موسم گرما کا پہناوہ لان اور چکن

 

جویریہ صدیق

خواتین اور خریداری دونوں کا  ہی چولی دامن کا رشتہ ہے گھر کے یا آفس کے کاموں سے فارغ ہوکر اکژ خواتین کو کچھ سوجھتا ہے تو وہ ہے شاپنگ۔۔  جدید تراش خراش پر مبنی ملبوسات،جوتے، میچنگ پرس میک اپ یہ وہ تمام چیزیں جن کہ بنا خواتین اپنے آپ کو ادھورا سمجھتی ہیں

مارچ کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان بھر میں گرمی کا موسم بھی شروع ہوجاتا ہے ۔گرمی کے لحاظ سے خواتین کا پہناوہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔جیسے جیسے دھوپ کی تمازت اور گرمی شدت میں اضافہ ہوتاہے خواتین کی بڑی تعداد لان اور چکن کے ملبوسات پہنا پسند کرتی ہیں اور ان کی خریداری کے لیے مارکیٹس کا رخ کرتی ہیں۔اس وقت بھی مارکیٹ میں شوخ اور خوبصورت ڈیزاینرز،برانڈز اور  ٹیکسٹایل ملزز کی طرف سے دیدہ زیب لان مارکیٹ میں آچکی ہیں۔خوبصورت لان پرنٹس،جذب نظر ماڈلز زیب تن کیے ٹی وی اخبارات اور سوشل میڈیا پر لان کے اشتہارات میں نظر آرہی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ لان کے ملبوسات کی نمائش کا بھی انعقاد بھی کیا جارہایے اور خواتین کی بڑی تعداد لان کی خریداری میں مصروف ہیں۔

پاکستان میں موسم گرما بہت طویل ہوتا ہے اس لیے گرمی میں صرف لان اور چکن کی ہی انسان کو آرام و تسکین فراہم کرسکتی ہے۔ لان کا کپڑے میں ایسا فیبرک استعمال کیا جاتا ہے جو ہوادار بھی ہے اور نمی جذب کرنے کی صلاحِت بھی رکھتا ہے۔اس ہی لیے گرمی آتے ہی ہر طرف لان اور چکن کی باہر آجاتی ہے اور خواتین بازاروں اور نمایش کا رخ کرتی ہیں تاکہ اپنے پسندیدہ ڈایزاین فورا خرید سکیں۔لان اور چکن کے سوٹ تھری پیس ،ٹو پیس اور ون پیس میں آتے ہیں جسے خریدار اپنی ضرورت کے مطابق خریدتے ہیں۔

دو ہزار چودہ میں لان چار سے پانچ پیس میں مارکیٹ میں آیی ہے جس میں لان کی قمیض اور شلوار کے ساتھ  شفون کے ڈوپٹے اور کڑھایی والے گلے اور بازو علیحدہ سے شامل ہیں۔ اس بار سفید،آسمانی نیلا،ہلکا گلابی،پیلے اورعنابی رنگ زیادہ فیشن میں ہیں تقریبا تما م  لان اور چکن ان رنگوں میں زیادہ ڈیزاین کے ساتھ مارکیٹ میں آیی ہے۔

اس سال لمبی قمیضوں کے ساتھ سمارٹیز ان ہیں اور لان کے چھوٹے ُکرتوں کے ساتھ بیل بوٹم پاجامے بھی فیشن میں ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ لان سوٹس سے جمپ سوٹ بھی بنوایے جارہے ہیں اور ان کے ساتھ گاون بھی پہنے جارہے ہیں۔لان کے ڈیزاینز میں پھول دار ،پولکا ڈاٹس ،لاینز،چنری،بلاک پرنٹس،ڈیجیٹل ،اسکرین پرنٹ اور چیک اس بار ان ہیں۔

پاکستان میں لان اور چکن کو ملا کر ایک اور فیبرک بھی لانچ کروایا گیا ہے جس کو چکن کاری کا نا م دیا گیا ہے ۔چکن کاری خواتین میں بہت زیادہ مقبول ہورہی ہے اس میں سفید ، پیلا ،ہلکا گلابی اور ارغوانی رنگ کی خاص طور پر ڈیمانڈ زیادہ ہے خواتین اس کو نیٹ ،کڑھایی والے گلوں اور شفون کے بازو لگوا کر پہنا پسند کرہی ہیں۔بہت سی ملزز اور ڈایزینرز اس کی ریڈی میڈ کولیکشین بھی سامنے لے آییں ہیں تاکہ خواتین کو کڑھایی سلایی کے جنجھٹ سے بھی بچ سکیں۔

عایشہ عمر نے بھی لیبلز کی ایکسلوز ریڈی میڈ چکن کاری رینج پہن رکھی ہے ۔ سفید رنگ کے اے لاین فراک پر لال رنگ کی جامہ وار لگایی گی ہے اور گولڈن رنگ کی کڑھایی سے مزین کیا گیا ہے اس جوڑے کو گرمی میں ہونے والی شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں بھی پہنا جاسکتا ہے ماڈل نے میچنگ بندے بھی پہن رکھے ہیں جو سوٹ پر کیے گیے کام سے ہم آہنگ ہے۔ہلکے گلابی رنگ  کےجوڑے کو روزمرہ استعمال میں بھی پہنا جاسکتا ہے لمبی قمیض اور لیس لگے ٹراوزر کے ساتھ عایشہ بہت جذب نظر لگ رہی ہیں۔ گرمی کی وجہ سے ملبوسات کی آستنیں کھلی اور پوری رکھی گیں اور سوٹ کی خوبصورتی کو اور بڑھانے کے لیے گلے کی پٹی پر بھی کڑھایی کی گی ہے۔چکن کاری میں تھوڑی تراش خراش کے ساتھ ساڑھی بھی بنایی جا سکتی ہے ماڈل نےہلکی کڑھایی سے مزین بلاوز کے ساتھ سفید رنگ کی چکن کاری ساڑھی پہن رکھی اور باڈر پر زری اور گوٹے کا کام ہوا ہے۔ساتھ میں میچنگ جیولری اور لایٹ میک اپ سے ماڈل کی خوبصورتی میں اور اضافہ ہو رہا ہے

تحریر جویریہ صدیق

ماڈل عایشہ عمر

ملبوسات لیبلزز

جیولری شہرزاد

میک اپ نتاشہ سیلون

عکاسی انیلا بادشاہ

labels summer collection Screen Shot 2013-11-27 at 12.21.02 PM Screen Shot 2013-11-27 at 12.21.15 PM Screen Shot 2013-11-27 at 12.21.35 PM

Posted in Uncategorized

خسرہ پاکستانی بچوں کا دشمن ؛ جویریہ صدیق

176889_82761396

خسرہ ایک ایسی معتدی بیماری ہے جس کی وجہ سے ہر سال  پاکستان میں سینکڑوں بچے اپنی جانسے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔

خسرہ کا وایرس بذریعہ سانس ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوجاتا ہے۔اس بیماری کا شکار زیادہ تر نو ماہ سے پانچ سال کی عمر کے بچے ہوتے ہیں۔ اسبیماری کا شکار وہ ہی بچے ہوتے ہیں جن کے والدین ان کو حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس نہیںکرواتے۔

اس بیماری کی ابتدایی علامتوں میں بچوں کو تیز بخار ،آنکھوں سے پانی بہنا،کھانسی اور منہ کےاندر سفید دانے نکل آنا شامل ہے اگر اس کا فوری علاج نا شروع کیا جایے تو چار سے پانچ دن کےدوران بچوں کے جسم پر سرخ دانے نکل آتے ہیں اور موت واقع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔۔ جو بچہ بھی خسرہ میں مبتلا ہو اس کو دیگر بچوں سے الگ کر دینا چاہیے کیونکہ سانس لینے ، چھیکنے اور کھاسنے سے یہ مرض فوری طور پر دوسروں کو منتقل ہوجاتا ہے۔ اگر فوری علاج شروع کردیا جایے تو ایک ہفتے میں بچہ دوبارہ محت مند ہوجاتا ہے۔ نوزاییدہ بچے کو نو ماہ کی عمر میں خسرہسے بچاو کے لیے پہلا ٹیکہ لگایا جاتا ہے اور دوسرا ٹیکہ ڈیرھ سال کی عمر کے بعد تاکہ بچے کو خسرہ سے محفوظ رہنے کے لیے قوت معدافت فرایم کی جاسکے ۔اگر والدین بچوں کو یہ کورس کروالیں تو بچے خسرے سے محفوظ رہتے ہیں۔

لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں والدین پولیو ویکسین کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور رہی سہی کسر شکیل آفریدی  کا ہیلتھ ورکر کے  بھیس میں جاسوسی کرنا جیسے واقعات پوری کردیتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ صحت کے مراکز میں جعلی اور زاید المعیاد ویکسن بھی بچوں کو موت میں دھکیل دیتی ہے۔

دنیا بھر میں خسرہ کے کیسسز میں ستر فیصد کمی آچکی ہے لیکن پاکستان ان پانچ ممالک کی فہرست میں شامل ہے جن میں بچے خسرہ کی پہلی ویکسن سے محروم رہ جاتے ہیں  اس ہی وجہ سے پاکستان میں یہ بیماری بڑی تعداد میں وبا کی صورت میں پھیل رہا ہے۔اس مرض نے وبایی صورت سندھ میں اختیار کی اور اس کے بعد یہ بلوچستان ، خیبر پختون خواہ ،فاٹا اور پنچاب تک پھیل چکی ہے۔اگر پاکستان میں خسرہ سے اموات کی شرح دیکھی جایے تو اس سال خسرہ کی وجہ  بیس بچےسے اپنی جان سے گیے اور پندرہ سو سے زاید متاثر ہویے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو رپورٹ ہویے جو ہلاکتیں اندورن سندھ صحراوں میں ہویی یا بلوچستان اور فاٹا کی سنگلاخ کی چٹانوں میں ان کا تو ڈیٹا تو دستیاب ہی نہیں ہے۔

حال ہی میں پندرہ می سے پاکستان کے تین صوبوں میں انسداد خسرہ مہم چلایی گی جوکہ دو ہفتے تک جاری رہی لیکن خیبر پختون خواہ میں جعلی ویکسن کی وجہ سے پچپن بچے ہسپتال میں پہنچ گیے۔جن میں سے اب تک سات بچے دم توڑ چکے ہیں۔کتنے افسوس کا مقام ہے جس ملک میں سالانہ سات لاکھ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جن کی بڑی وجہ معتدی بیماریاں ہی ہیں ان کو ویکسین بھی  ملے توجعلی ملے۔ پاکستان میں پہلے ہی والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ویکسن میں کچھ ایسے اجزا شامل ہیں جس سے ان کی اگلی نسل بانجھ ہو جایے گی وہاں حکومت اگر بچوں کو جعلی یا زاید المیاد ویکسین لگا دے گی تو والدین کا رہا سہا اعتماد بھی ویکسینشن سے ختم ہوجایے گا۔خیبر پختون خواہ کی حکومت پر بھاری ذمہ داری وہ ذمہ داروں کے خلاف قرار واقعی کاروایی کریں۔سات بے گنا ہ بچوں کے خون کی ذمہ داری محکمہ صحت خیبر پختون خواہ ہر عاید ہوتی ہے اور مجرموں کو سزا دینا حکومت کا فرض ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں روزانہ گیارہ سو بچے ان بیماریوں کی وجہ سے موت کی منہ میں چلے جاتی ہیں جن کا علاج بلکل ممکن ہے۔اگر پاکستان میں موثر طریقے سے ویکسن کی خریداری ہو اور بعد میں موثر طریقے سے انسداد پولیو مہم چلایی جایے تب ہی معصوم بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جاسکتا ہے۔عالمی ادﺍرے کے مطابق پاکستان میں خسرے کے پھیلاو کی وجہ سے مسلسل چار سال سے آنے والے سیلاب ، غذایی قلت اور لوڈشیڈنگ ہے۔

وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اٹھارہ کروڑ افراد پر مشتمل اس ملک میں صحت کے بجٹ میں اضافہ کیا جایے اور وفاق سنجیدگی ساتھ صوبوں کو درپیش صحت کے مسایل حل کرنے میں معاونت کرے تاکہ قوم کے نونہالوں کو محفوظ مستقبل دیا جاسکے۔والدین کا بھی یہ فرض ہے وہ بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا مکمل

 کورس کروایں تاکہ یہ بچے اپنی زندگی محت مندانہ طریقے سے گزار سکیں۔

View Stats
Posted in Uncategorized

فلائیٹ 202 کے مسافرانصاف کے منتظر

July 28, 2011 

تحریر: جویریہ صدیق

اج اٹھائیس جولائی دوہزار گیارہ ہے اور میں مارگلہ ہلز میں سانحہ ائیربلیوکی یادگار کے سامنے کھڑی اٹھائیس جولائی دوہزار دس کی صبح کو یاد کررہی ہو کہ کسی ذی روح کو اس بات کا اندازہ نیہیں تھا کہ ابھی چند ہی لمحوں بعد ان کے پیارے مارگلہ کے دامن میں ہمیشہ کے لئے سو جائیں گے اٹھائیس جولائی کی صبح تھی اورمیں گہری نیند میں یہ مسلسل محسوس کررہی تھی کہ موبائیل کی بیل مسلسل بج رہی ہئے مجھے بہت کوفت ہوئی کے اج میرا ویکلی اف ہے اور پھر بھی لوگوں کو چین نہیں فون اٹھایا تو اگلی طرف ڈاکٹر تابش تھیں جن کی اواز میں بہت گھبراہٹ تھی جویریہ تم زندہ ہو ٹی وی لگاو تم ٹھیک ہو نا میں نے نیند میں کہا تابش کیا مذاق ہے اس نے کہا نہیں جویریہ ابھی مارگلہ کی پہاڑیوں میں ائیر بلیو کا طیارہ کریش کر گیا ہے اور ابتدائی ناموں میں جویریہ نام شامل تھا تومیں نے تمہاری خیریت دریافت کرنے کے لئے فون کیا میں نے روتی ہوئی تابش کو تسلی دی اور اپنے افس سما ٹی وی کا رخ کیا اسلام اباد میں اس قدر موسلادھار بارش تھی اور میں سوچتی رہی کے طیارہ نے نو فلائی زون کا رخ کیا اورطیارہ مارگلہ کی طرف کیوں ایا۔فلائیٹ دو سودو کے اسو باون افراد حادثے کا شکار ہوچکے تھے

افس گئی تو حاضری کم تھی کیوں کے بارش کی شدت ایک فرلانگ اگے بھی دیکھنے نہیں دے رہی تھی ۔میں نے افس سے ائیرپورٹ کا رخ کیا ا۔ابتدائی لسٹ میں میری ہم نام جویریہ بھی شامل تھیں جو ائیربلیو کی ایک محنتی رکن مانی جاتی تھیںاوراس سانحے میں جہاں فانی سے کوچ کر چکی تھیں ۔ائیر پورٹ پر لواحیقین کی آہ و پکار اج تک کانوں مٰیں گونج رہی ہے لیکن ائیرپورٹ اور ایئر بلیو انتظامیہ کی بحسی اج بھی یاد ہے نا کوئی معلومات دینے کو تیار نا ہی بات سنے کو ایئر پورٹ پر ایک صاحب ٹی وی کا مائیک دیکھ کر میرے پاس اگئے اور کہنے لگے کہ میرے خاندان کے پانچ بزرگ اس طیارے میں ہیں اپ ہی کوئی معلومات لیں ہماری تو کوئی شنوائی نہیں میں نے ایئرپورٹ حکام کو فون کیا تواگے سے جواب ملا کہ مارگلہ کے ایس حصے میں طیارہ گراہے جو جنگل ہے ریسکیو ٹیمز کے پہچنے تک تو اگ مسافروں کو ۔۔۔۔۔ بس اس سے اگے میں اور کچھ سن نہیں سکتی تھی۔اس سے پہلے کے میں ان صاحب کو کچھ جواب دیتی کہ وزیر داخلہ رحمان ملک کہنے لگے ہم نے چھ افراد کو زندہ بچا لیا ہے لوگ ایئرپورٹ سے پمز ہسپتال کی طرف بھاگے تاہم جب ہسپتال انتظامیہ نے اس کی تردید کی تو ان مصیبت کے ماروں کا اگلہ ٹھکانہ مارگلہ کی پہاڑیاں تھیں۔لیکن وہاں توایک اعلی سرکاری شخصیت دورہ کرنے والی تھیں تو میڈیا اور لواحیقین پر لاٹھائیں برسانے کے اڈر اگئے کافی دیربعد جب یہ ہنگامہ ارائی رکی تو کتنے لواھقین اور صحافی حضرات زخمی ہوچکے تھے۔لہو لہان لواحیقین اور زخمی صحافیوں نے اگے جانے کا فیصلہ برقرار رکھا مارگلہ کے دامن میں پہنچے تو پتہ چلا اطلاع غلط تھی

اس وقت ایسا محسوس ہوا کہ قیامت صغری برپا ہوچکی ہے اور میں میدان حشر میں ہوں۔ہر صحافی کے لئے پہلے خبر کی اہمیت ہوتی ہے اور اس کے بعد جذبات لیکن اس دن میرے اندر کا صحافی جیسے کہیں پیچھے رہ گیا اور صرف جذبات مغلوب اگئے ۔مردہ دلی اور نم انکھوں کے ساتھ سارا دن رپورٹس دیتی رہی ۔رات کہ وقت وہ ہی صاحب تھکے ہارے میرے پاس ائے اور کہنے لگے کہ میں ہار گیا میرے سارے بڑے چلے گئے میں نے کہا اپ حوصلہ کریں اس ہی میں اللہ کی رضا تھی ۔ وہ کہنے لگے ناقص طیارے نا اہل عملہ کرپٹ حکومت یہ ہمارا قصور ہیے میں نے پھر تسلی دیتے ہوئے کہا بھا ئی حکومت نے کہا ہے کہ اس طیارہ حادثہ کی مکمل تحقیقات سامنے لائی جائیں گئی اور معاوضہ کی بات میں نے دانستہ طور پر نا کہی وہ صاھب کہنے لگے ایسا پاکستان میں نا اج تک ہوا ہے نا ہوگا

خان بھائی تو اپنے علاقے میں واپس چلے گے لیکن میں اج بھی مارگلہ کی پہاڑیوں میں شہدائے سانحہ ایئربلیو کی یادگار کے سامنے کھڑے ہوکر سوچ رہی ہوں کے خان بھائی اپ ٹھیک کہ گئے تھے تین سو پینسٹھ دن گزرنے کے باوجود فلائیٹ دوسو دو کے مسافر اج بھی انصاف کے
منتظر ہیں

______

Posted in Uncategorized

صحافیوں کے لیے انصاف نہیں: جویریہ صدیق کا بلاگ

صحافیوں کے لیے انصاف نہیں: جویریہ صدیق کا بلاگ

May 03, 2012

ہمارے معاشرہ میں جہاں کم سنی میں تو بچوں کو سچ بولنے کی تلقین کی جاتی ہے اور بچپن سے لڑکپن تک وہ یہ ہی سبق دہراتے رہتے ہئں لیکن اس کے برعکس عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی انہیں سچ کے ساتھ جھوٹ کی امیزش کے لئے مجبور کیا جا تا ہے اور جوبھی اس بات سے انکارکرتاہے تو معاشرہ اسکا سر قلم کر دیتا ہے۔ اس ہی اصول کے تحت جب بھی کوئی صحافی ایک حد سے زیادہ سچ لکھتا ہے یا جھوٹ چھاپنے سے انکار کردیتا ہے تو یہ معاشرہ اس کو خود خبر بنا دیتا ہے ۔

سلیم شہزاد اسلام اباد کا صحافی جس کے شب و روز صرف خبر کے ساتھ وابستہ تھے اور خود اس روز خبروں کا حصہ بھی بن گئے جس روز ان کی لاش منڈی بہاوالدین کے پاس نہر سے ملی اور
قصور فقط سچ بولنا تھا

قصہ چاہے کراچی سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ولی خان بابر کا ہو تو بھی قاتلوں نے دستانے پہنے ہوئے تھے جو اب تک قاتلوں کا سراغ نہیں ملا اور ولی خان بابر کے نا معلوم قاتلوں کی تلا ش اج بھی صرف دفتری کاغذوں کی حد تک جاری ہیں ۔ولی خان بابر کے بہنیں اور بھائی جو اس کے سہرے کے پھول سجانے کا خواب دیکھ رہئے تھے اج پھول صرف اس کی قبر پر ڈالتے ہیں۔

یا مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے مکرم خان ہوں جن کو فرائض کی ادائیگی کے دوران موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ان کے قتل کی وجہ صرف سچائی کا علم تھا اور کچھ نہیں

عارف خان ہو یا مصری خان ، موسی خیل ہوں یا چشتی مجاہد، ہدایت اللہ خان ہوں یا عامر نواب ، راجہ اسد حمید ، فضل وہاب ہوں یا صلاح الدین، غلام رسول ہوں یا عبد الرزاق ،محمد ابراہیم ، ساجد تنولی ہوں یا شاہد سومرو یا لالہ حمید بلوچ ہوں یہ تمام صحافی صرف سچ کی راہ کے شہید ہیں۔

ذمہ دار چاہے ریاست ہو یا اس کے ستون ، دہشت گرد ہوں یا ملکی حالات لیکن اس تمام صورتحا ل نے پاکستان کو صحافیون کے لئے خطرناک ملک بنا دیا ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا میں صحافیوں کیلیے خطرناک ممالک میں سرفہرست دس ممالک میں شمار ہونے لگا ہے جہاں حیات اللہ سے لیکر شہزاد سلیم جیسے کئي صحافی مارے گۓ ہوں۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومتِ پاکستان سے کہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے مسلمہ بین الاقوامی معیار کے مطابق صحافیوں کی ہلاکتوں اور اغواء کے واقعات کی مکمل اور جامع تحقیقات کرائے اور ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لائے۔

تاہم اب تک نا ہی کسی صحافی کے قتل کی تحقیقات مکمل ہوئی ہے نا ہی کسی مجرم کو سزا سنائی گئی ہے اور خبریں دیتے دیتے خود خبر بن جانے والے صحافیوں کے حوالے سے اج تک یہ خبر نہیں ائی کہ کہ مقتول صحافیوں کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا مل گئی ہے تاہم اب بھی ورثا اور صحافی برادری انصاف کے لئے منتظر ہے

انصاف

ان قلم کاروں کے لئے

مانگنا

وارثوں پے واجب تھا

منصفوں پے واجب تھا

انصاف کی تکمیل تک

منصفوں کی نگرانی

قدسیوں پے واجب تھی

وقت کی عدالت میں

خلق خدا ہم سے کہتی ہے،

سارا ماجرا لکھیں

کس نے کس طرح انصاف پایا،

اپنامدعا لکھیں

Posted in Uncategorized

قیامت سے قیامت تک، جویریہ صدیق کا بلاگ

April 22, 2012

کالی گھٹاوں نے اسلام اباد کو اپنے گھیرے میں لئے رکھا تھا اور بادل برسنے کو تیار تھے شہریوں کی خوشی دیدنی تھی کہ باران رحمت بس لمحوں میں برسنے کوہے۔ بادلوں کی گھن گرج کے ساتھ موسلا دھار بارش شروع ہوگی اور ایک لمحے کے لئے جیسے زندگی رک سی گئی شہریوں نے معمولات کو روک کر بارش سے لطف اٹھانا شروع کردیا۔لیکن کسی ذی روح کو یہ علم نہیں تھا کہ بیس اپریل دو ہزار بارہ کو اٹھائیس جولائی دوہزاردس کی گھڑیاں پھر سے واپس اجائیں گئ اور اس بارایک سو ستائیس افراد بھوجا ائیر لائین کے حادثے میں اپنے پیاروں کو روتا چھوڑ جائیں گے جیسے ایک سو باون افراد فلائیٹ دو سو دو ائیربلیوحادثے کے باعث مارگلہ کے دامن جا سوئے تھے ۔

ایک دھماکے کی اواز سنائی دی اورایک سو ستائیس زندگیاں اپنے خوابوں ارمانوں خوشیوں کے ساتھ مٹی میں مل گئیں۔پہلے تو یہ گمان ہو کہ کوئی بادل ہے جو اسمان پر پھٹ گیا یا پھر یہ دھمک شائد کسی اسمانی بجلی کی ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہی تھی منزل کے پاس اکے سفینہ اجڑ گیا بھوجا ائیرلائین کا بوئینگ سیون تھری سیون حادثے کا شکار ہوکے ائیرپورٹ سے صرف تین منٹ کی دوری پہ حسین اباد کورال راولپنڈی میں گرچکا تھا۔

یہ طیارہ موسمی خرابی کا شکار ہوا یا فنی خرابی کا،پائلیٹ کی غلطی تھی یا تخریب کاری لیکن ا یک سو ستائیس خاندان تباہ ہوکرگیا اور اسلام اباد سمیت ملک بھر کی فضا کو سوگوار کرگیا۔جہاں لواحقین صدمے کا شکار حواس باختہ ائیر پورٹ کی طرف لپکے تو دوسری جانب ٹی وی کے ناظرین اس بات پر ششدر تھے کہ ابھی تو سانحہ ائیر بلیو کے زخم بھرے نہیں تھے کہ ایک اور تشتر قلب میں پیوست ہوگیا۔

وہہی قیامت صغری کا منظر سامنے اگیا جو دو ہزار دس میں میں دیکھ چکی تھی ہر طرف افراتفری ایئرپورٹ پر لواحیقین کی اہوبکا ایئرپورٹ انتظامیہ کی روایتی بے حسی حکومت کا دیر سے نوٹس لینا اورلوگوں کا واحد سہارا پاکستانی میڈیا ۔۔

جائے وقوع پہ بھی وہ ہی روایتی سستی امدادی ادارے کی تاخیر ہلکی سی امید کو بھی ختم کرگئی۔جانے والے تو چلے لیکن پیچھے رہ جانے والے بھی ساکت ہوکے رہ گئے ۔اسلام ابا د کی سحرش اور سونیا نے بھی اس حادثے میں اپنے والدین محمد عبداللہ اور شمیم عبداللہ کو ہمیشہ کے لئے کھوڈالا ماں اور باپ کی یہ لاڈلیاں اب دنیا میں تنہا رہ گئی ہیں یہ دونوں یتیم ہونے والی بچیاں ماں اور باپ کی میت سے لپیٹ کر صرف یہ سوال کر رہی تھیں کہ ان کو اب کون شفقت کی چھاوں میں رکھے گا یہ نا گہانی موت کیا اللہ کی رضی ہے یا پھر ان کے ماں اور باپ کو قتل کیا گیا ہے؟

وہ دنوں اپنے ماں باپ کی بچی ہوئی باقیات کوچھوڑنے پر تیار نیہں تھیں وہ دونوں میڈیا کے لوگوں رشتہ داروں اور محلہ داروں سے صرف یہ سوال کررہی تھیں کہ کس کے ہاتھ پر وہ اپنے ماں اور باپ کے خون کا لہو تلاش کریں سول ایویشین اتھارٹی ،بھوجا ائیرلائین ، کنٹرول ٹاورکا عملہ یا پائلیٹ لیکن وہاں پر مجھ سمیت کسی بھی فرد کے پاس کوئی جواب نا تھا۔ان کے والدین کی باقیات کو جب دفنانے کے لئے گھر سے اٹھایا گیا تو سب نے ان کو یہ کہا جو اللہ کی رضا اور جنازہ گاہ کی طرف چل دئے۔۔۔

ان بچیوں کی اہو بکا ان کی چیخوں سے سب ہی کے دل پھٹ رہے تھے،میں نے واپس گھر اتے ہوئے یہ سوچا کہ ہاں یہاں پاکستان میں ہونے والے حادثے اللہ کی ہی رضا ہوتے ہیں۔ چاہے وہ جنرل ضیا کے طیارے کا حادثہ ہو یا مصحف علی میرکا پلین کریش ہو،ائیر بلیو کی پرواز مارگلہ کے دامن سے ٹکراجائے یا کورال میں بھوجا ائیرلائین کی پرواز مٹی میں جائے نا اج تک کسی بھی حآدثے کی رپورٹ سامنے ائی ہے نا ائے گئ اور ایک ہفتے تک کی بات ہے سب بھول جائیں گے کہ کوئی حادثہ ہوا بھی تھا یا نہیں یاد صرف ان کو رہ جائے گا جن کے پیارے سگے ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے۔

Posted in Uncategorized

بچوں کو جنسی تشدد سے بچائیں

September 19, 2014   …..جویریہ صدیق……
ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے جنسی تشدد کا شکار ہو جاتا ہے ۔اس کی بڑی وجہ جنس، تولیدی صحت جیسے موضوعات پر چھایا ہوا سکوت ہے ،والدین اپنے بچوں کو آگاہی سے محروم رکھتے ہیں یہی خاموشی اس جرم کو مزید پھیلا رہی ہے۔جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے جس میں کسی کم سن بچے یا بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ایک بحث چھڑ جاتی ہے کہ پاکستانی معاشرہ حکومت،پولیس سب ناکام ہیں جو بچوں کی حفاظت یقینی نہیں بنا پارہے لیکن یہاں پر والدین کے کردار کو زیر بحث کیوں نہیں لایا جاتا ؟ کیا ماں باپ اور خاندان کے دیگر لوگوں کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت یقینی بنایں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ بچے بازاروں اور گلیوں کا رخ اکیلے نا کریں۔زیادہ تر واقعات تب رونما ہوتے ہیں جب بچے اکیلے گھر سے با ہر جایں یا پھر گھر میں اکیلے ملازمین یا کسی رشتہ دار کے ساتھ ہوں اور ماں با پ یا بڑے بہن بھائی ان کے قریب نا ہو۔

اٹھارہ سال سے کم عمر انسان بچہ کہلاتا ہے اور اگر کسی بچے کو جسمانی تشدد یا زیادتی کا نشانہ بنانا جائے ،اس کو جسمانی سزا دی جائے ،اس کو فحاشی پر مبنی مواد دکھایا جائے،اس کے جسم کو ہاتھ لگایا جائے یہ سب استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔اس استحصال سے بچے کو بچانے کے لیے والدین،بڑے بہن بھایوں اور اساتذہ کا کردار قابل ذکر ہے۔اگر یہ سب مل کر بچوں کو اپنی جسمانی حفاظت کے حوالے سے مکمل آگاہی دیں تو بہت سے واقعات رونما ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں۔بچے جنسی زیادتی کا شکار صرف گھر سے باہر نہیں گھر میں بھی ہوسکتے ہیں۔ ان کو آگاہی دینا ضروری ہے کہ وہ کسی بھی ملازم یا رشتہ دار کے کمرے میں جانے اور اکیلا ساتھ جانے سے گریز کریں۔ والدین دیگر لوگوں کو منع کریں کہ وہ ان کےبچوں کو بلاوجہ گود میں نا لیں اور پیار نا کریں،بچوں کو یہ بتا یا جائے اگر انہیں کوئی ہاتھ لگائے،ڈرائے دھمکائے تو خوف زدہ نا ہوں بلکہ فوراً والدین کو اس بات سے آگاہ کریں۔

والدین اور استاتذہ کوسب سے پہلے تین سے آٹھ سال کے بچوں کو بہت پیار سے اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ۔ ان کو یہ بات بہت پیار سے باور کروائی جائے کہ کسی سے کوئی چیز لے کر نہیں کھانی ہے کیونکہ بہت سے واقعات کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے جب کوئی ملازمین،رشتہ داروں یا خوانچہ فروشوں میں بچے کو مفت میں کوئی چیز دے کر بچے کا اعتماد حاصل کرتا ہے اور بعد میں انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتا ہیں۔اس لیے بچے کو یہ بات بتائی جائے کہ گھر کے افراد اور استاتذہ کے علاوہ کسی سے کوئی چیز نا لیں۔کم سن بچوں کو اس بات کی آگاہی دیں کے کہ ان کے جسم کو کوئی بھی ہاتھ لگائے جس سے ان کو بر ا محسوس ہو تو وہ فوراً ماں باپ کو آگاہ کریں اگرا سکول میں ایسا کوئی کرتا ہے تو فوراً اپنے ٹیچرز کو مطلع کریں ۔اس عمر کے بچوں کو گھریلو ملازمین سے بھی دور رکھیں اور اپنی نگرانی میں ہی اسکول سے لیں،ٹیوشن یا قرآن پڑھاتے وقت بھی اپنے بچوں کو ایسے کمرے میں استاتذہ کے ساتھ بٹھائیں جہاں سے آپ ان پر نظر رکھ سکیں ،اس عمر کے بچوں کو ہرگز بھی کمرے میں اکیلا نا چھوڑیں۔ اگر والدین خود مصروف ہیں تو دادا دادی یا نانا نانی اس سلسلے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔اگر اس عمر میں بچہ کسی جسمانی تشدد یا جنسی زیادتی کا شکار ہوجائے تو اس کے اثرات بچے کی اعصابی اور نفسیاتی صحت پر زندگی بھر کے لیے برا اثر چھوڑ جاتے ہیں ۔

نو سے بارہ سال کے عمر کے بچے تھوڑا بہت اپنا خیال رکھ سکتے ہیں ان کو ایسا آسان زبان میں لکھا مواد پڑھنے کے لیے دیں کہ وہ اپنی حفاظت یقینی بنائیں والدین بچوں سے دوستانہ روابط رکھیں اور ان کو کہیں کہ اگر کوئی بھی فرد ان کو برے ارادے سے ہاتھ لگائے، چھپ کر ہاتھ لگائےیا ڈرانے کی کوشش کرے تو فوراً یہ بات والدین کو بتائیں

استاتذہ بچوں کے بہت اچھے دوست ہوتے ہیں انہیں بھی یہ خیال رکھنا چاہیے کہ بچوں کے کیا مسائل ہیں کہیں کوئی وین والا،مالی،چوکیدار،پی ٹی ماسڑ تو بچوں کو تنگ تو نہیں کر رہا ،فارغ اوقات میں گپ شپ کرتے ہوئے استاتذہ بچوں سے ان کے مسائل اور اس کےحل پر ضرور بات کریں۔اس عمر کے بچوں کو بھی اکیلا گھر سے نا نکلنے دیں کھیل کا میدان ہو یا ٹیوشن سینٹر خود ہی لے کر آئیں اور چھوڑنے بھی خود جائیں ،جہاں تک کوشش ہو ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کا خیال رکھیں اور گلیوں میں بے جا پھرنے پر پابندی لگائیں۔بہت سے ماں باپ لاپرواہی برتتے ہیں، خود ٹی وی لگا کر اپنی جان چھڑانے کے لیے بچوں کو گلی میں نکال دیتے ہیں۔ایسا بالکل مت کریں بہت سے خوانچہ فروش،چرسی اور جرائم پیشہ صرف اسی تاک میں ہوتے ہیں کہ بچہ تھوڑا آگے سناٹے کی طرف جائےاور پھر یہ اس کو بہلا پھسلا کر اپنے ٹھکانے پر لے جائیں۔

بات کی جائے تیرہ سے اٹھارہ سال کے بچوں کی تو یہ بلوغت اور جسمانی تبدیلیوں کے دور سے گزرتے ہیں اور ان کا اثر دل دماغ اور نفسیات پر زیادہ ہوتا ہے ۔والدین کو اس وقت اپنے بچوں کو ان کی ظاہری و مخفی جسمانی ،تولیدی تبدیلیوں کے حوالے ان کو مکمل آگاہی دینی چاہیے۔اس کے ساتھ بہت سارا پیار اور اعتماد بھی تاکہ بچے ان تبدیلیوں سے ڈر نا جائیں بلکہ بہادری سے مقابلہ کریں۔

جنسی تشدد صرف غریبوں کا مسئلہ نہیں ہے بچہ چاہے امیروں کا ہو یا متوسط طبقے کا بھی ہو والدین کی غفلت سے وہ بھی تشدد کا شکار ہوسکتا ہے ۔جنسی تشدد کا شکار صرف لڑکیاں ہی نہیں لڑکے بھی ہوتے ہیں اس لیے والدین دونوں کی حفاظت یقینی بنائیں۔یہ کام صرف ماں کا نہیں ہے بلکہ والدین اور خاندان کے لوگ مل کر ہی ایسے انجام دے سکتے ہیں اور بچوں کو حفاظت ممکن بنا سکتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں بلوغت، جنسی تبدیلیوں اور سیکس کو ایک ایسا شجرہ ممنوعہ بنا دیا گیا کہ جس کے بارے میں بات ہی کرنا گناہ ہے اور اسی سکوت کے باعث پاکستانی بچے استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔بچوں کو اعتماد دیں ان کو جنسی اعضاء کے بارے میں معلومات دیں ان کی حفاظت کا طریقہ کار بتائیں،ان کو جنسی تشدد کے حوالے سے آگاہ کریں۔آگاہی ہی ایک ایسی طاقت ہے جو آج کل کے دور میں بچوں کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10213#sthash.Xcz2r0tc.dpuf

Posted in Uncategorized

اکتوبر چھاتی کے کینسر سے بچاؤ کا مہینہ

October 04, 2014   ……..جویریہ صدیق……..
پاکستانی خواتین میں چھاتی کا سرطان تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس موذی مرض سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیےعالمی دنیا اور پاکستان بھر میں ماہ اکتوبر بریسٹ کینسر سے بچاؤ کے طور پر منایا جاتاہے۔ ایشائی ممالک میں پاکستان میں چھاتی کے کینسر کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ہر سال 40ہزار سے زائد خواتین اس مرض کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہر دس میں سے ایک پاکستانی عورت کو چھاتی کے سرطان کا خطرہ لاحق ہے۔پاکستان میں چھاتی کے سرطان سے ہلاکت کی بڑی وجہ خواتین کا اس مرض کی تشخیص،علاج میں اور اس پر بات ہی کرنے سے کترانا ہے۔خواتین اس وقت ڈاکٹر کا رخ کرتی ہیں جس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔طبی ماہرین کے مطابق اگر اس مرض کی جلد تشخیص ہوجایے تو اس کا مکمل علاج ممکن ہے۔

چھاتی کے کینسر کی شناخت اور تشخیص خود خواتین سب سے پہلے کر سکتی ہیں۔خواتین اپنا معائنہ خود کریں اگر کوئی تبدیلی ان کو محسوس ہو تو فوری علاج پر توجہ دیں۔ مغربی ممالک میں بڑی عمر کی خواتین اس کا شکار ہوتی ہیں جن کی عمر 50اور 60کے درمیان ہو لیکن پاکستان میں کم عمر خواتین میں اس کی شرح زیادہ ہے اور 30سے 40کی عمر کی خواتین اس کا زیادہ شکار بنتی ہیں۔ اس کے ساتھ دیگر بہت سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے خواتین اس مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔ اگر یہ بیماری موروثی ہو اور خاندان کی دیگر خواتین اس کا شکار ہوچکی ہوں، اگر خاتون کا وزن زیادہ ہو اور وہ سہل پسندی کا شکار ہو، جن خواتین کو ماہواری بہت کم عمر میں شروع ہوئی ہوجیسے 8یا 9سال اور جن کا ماہانہ ایام کا دور 50سال کی عمر کے بعد بھی جاری رہے،جن خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش 30سال کے بعد ہو، ان سب میں چھاتی کے سرطان کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خواتین اپنی تشخیص خود کریں، اگر چھاتی یا بغل کی طرف گلٹی نمودار ہو، جلد پرزخم اور خراشیں جو ٹھیک نہیں ہو رہی ہوں، کھال کی ساخت یا رنگ میں تبدیلی آجائے تو طبی ماہرین سے فوری رابطہ کریں۔ ضروری نہیں کہ تمام زخم یا گلٹیاں سرطان کی ہی علامات ہوں لیکن احتیاط بہترہے۔ اگر اس مرض کی تشخیص بروقت ہوجائے تو علاج کے ذریعے مکمل صحت یاب ہونے کی شرح 80فیصد ہے۔

ازخود معائنے کے بعد خواتین کو فوری طور پر معالج سے رجوع کرکے میمو گرافی اور کلینکل بریسٹ ایگزامینشن کروانا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ صحت مند خواتین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ 30سال عمر کے بعد کم ازکم 5سال میں ایک مرتبہ میمو گرافی ضرور کروائیں۔ 40سال کی عمر کے بعد ہر 2سال بعد اور 50سال عمر ہوجانے کے بعد ہر سال میمو گرافی کروانی چاہیے۔ میمو گرافی ایک خاص قسم کا ایکسرے ہوتا ہے جس سے چھاتی میں موجود ہر طرح کے سرطان کی تشخیص ہوجاتی ہے۔

دنیا بھر میں 16فیصد خواتین بریسٹ کینسر کے شکار ہو جاتی ہیں اور اس کے باعث 5لاکھ موت کے منہ چلی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً 40ہزار خواتین اس موذی مرض میں مبتلا جان سے جاتی ہیں۔یہ تعداد صرف ان خواتین کی ہے جو علاج کےلیے اسپتالوں کا رخ کرتی ہیں، ان کے کا تو شمار ہی نہیں جو اسپتالوں میں شرم اور غربت کے باعث آنے سے قاصر ہیں۔ اس مرض سے بچنے کے لیے آگاہی بہت ضروری ہے، خواتین جیسے ہی کوئی بھی گلٹی محسوس کریں تو فوری طور پر اپنے شوہر یا دیگر اہل خانہ کو اعتماد میں لیں اور ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ کینسر پہلے مرحلے میں تو مخصوص خلیوں میں ہی رہتا ہے لیکن دوسرے مرحلے کے آغاز سے یہ جسم کے دیگر حصوں میں پھیلنا شروع ہوجاتا ہے جو بہت خطر ناک ثابت ہوتا ہے۔ چھاتی کے کینسر کے ابتدائی دنوں میں درد محسوس نہیں ہوتا اس کی وجہ سے علاج میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ اس لیے کسی بھی قسم کے زخم رطوبت یا گلٹی کی صورت میں دیر نہ کریں، ڈاکٹر کے پاس جائیں اور ٹیسٹ کروائیں۔ پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے لیے مختلف طریقے موجود ہیں جن میں سرجری، ریڈی ایشن، آپریشن، کیموتھراپی شامل ہیں۔

پاکستانی خواتین کی بڑی تعداد اس بیماری سے محفوظ رہ سکتی ہیں اگر وہ اپنے طرز رہن سہن میں تبدیلی لے آئیں۔ گھر کے کام سے فارغ ہوکر مناسب ورزش کا اہتمام کریں۔ روزانہ 30منٹ چہل قدمی کریں، وزن بالکل نہ بڑھنے دیں۔ کالے رنگ کے زیر جامے دھوپ میں نکلتے وقت ہرگز بھی نہ پہنیں۔ متوازن غذا کا استعمال کریں۔ چکنائی، گوشت سے پرہیز کریں، تازہ پھل، دالیں، گندم، باجرہ، مکئی کا آٹا اور سبزیاں کھا ئیں۔گوشت میں صرف مرغی اور مچھلی استعمال کریں وہ بھی بھاپ میں پکائیں۔ تیل اور گھی کا استعمال کم سے کم کریں۔ زیادہ تر پاکستانی خواتین تمباکو نوشی کی عادی نہیں لیکن آج کل فیشن میں شیشے کا استعمال بڑھ رہا ہے، اس سے پرہیز کیا جائے کیونکہ کہ تمباکو کے دھوئیں سے کینسر کا امکان بڑھ جاتاہے۔ پیٹرول، ڈیزل کا دھواں بھی خواتین کے لیے خطرناک ہے، باہر جاتے وقت منہ کو ماسک سے ڈھانپ لیں۔ دورانِ گفتگو چھاتی کے سرطان کو زیرموضوع لائیں تاکہ جن خواتین کو اس مرض کے حوالے سے آگاہی نہیں وہ بھی اس سے آگاہ ہوجائیں۔ آگاہی، تشخیص اور علاج کے ذریعے بہت سی قمیتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10253#sthash.o1QKZgS5.dpuf

Posted in Uncategorized

سول نافرمانی اور سوشل میڈیا

Monday, August 18, 2014   ……جویریہ صدیق……
عمران خان کا آزادی مارچ تو اسلام آباد پہنچ گیا لیکن یہ بات عیاں ہے کہ پی ٹی آئی نے اس حوالے سے خاص تیاری نہیں کی تھی۔ انتظامات کے ساتھ ساتھ ویژن کا بھی فقدان نظر آرہا ہے۔عوام توسارا دن پنڈال میں بغیر انتظامات کے لیڈر کے انتظار میں رہتے ہیں لیکن عمران خان جب نیند پوری کرکے بنی گالہ سے واپس دھرنے کے مقام پر آتے ہیں تو اس وقت دن ڈھل چکا ہوتاہے۔ موسیقی کے تڑکے ساتھ پر جوش و ولولے سے بھر پور تقاریر کا آغاز ہوتا ہے جو کہ رات گئے تک جاری رہتا ہے تاکہ کارکنان کا مورال اپ کروایا جاسکے۔دو دن سے جاری تقاریر کا حاصل وصول تو کچھ نہیں لیکن 17اگست کو عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کرکے پورے پاکستان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ عمران خان نے کہا کہ نہ وہ اب ٹیکس دیں گے نہ ہی بجلی اور گیس کے بل جمع کروائیں گے۔ انہوں کہا کہ سب پاکستانی میرا ساتھ دیں اور ہم سب مل کر میاں نواز شریف کو وزیر اعظم ہاؤس سے گریبان پکڑ کر نکال دیں۔عمران خان نے حکومت کو دو دن کا وقت دیتے ہوئے مزید کہا کہ اگر حکومت مستعفی نہ ہوئی تو وہ اپنے کارکنوںکو مزید روک نہیں سکیں گے۔
اس بیان کے سامنے آتے ہی ملک بھر میں بحث چھڑ گی اور مختلف حلقے اس غیر سنجیدہ بیان کو ملک اور قوم کے ساتھ مذاق گردانتے رہے۔ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ جمہوریت کسی سول نافرمانی کی تحریک متحمل نہیں ہوسکتی۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ سول نافرمانی گڈے گڑیا کا کھیل نہیں، عمران خان کا سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان قوم کے ساتھ مذاق ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ سول نافرمانی کا اعلان غیر آئینی ہے اور مظاہروں اور دھرنوں سے ملکی معیشت کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے۔ وفاقی وزیر دفاع اور پانی وبجلی خوآجہ آصف نے کہا کہ جو بجلی کا بل دے گا اس کو ہی بجلی ملے گی۔ اے این پی کے اسفند یار ولی نے کہا کہ اگر جمہوریت پٹری سے اتری تو ذمہ دار عمران خان اور طاہر القادری ہوں گے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے صورتحال پر کچھ یوں تبصرہ کیا کہ کسی صورت میں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے، ہمیں حالیہ بحران کا مل کر حل نکالنا ہوگا۔ عمران خان کے بیان کے ردعمل میں اعتزاز احسن نے کہا کہ عمران خان اور طاہر القادری عوام کو استعمال کررہے ہیں، ان کو دھرنوں سے ناکامی ملی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے عمران خان کو خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو سول نافرمانی کا مشورہ کس نے دیا؟سول نافرمانی حکومت سے زیادہ ریاست کے خلاف ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی بحث گرم رہی اور سول ڈ س اوبیڈینس یعنی سول نا فرمانی کا ٹرینڈ سب سے اوپر رہا۔ مریم نواز شریف نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ سول نافرمانی گاندھی جی کے پرچار کا حصہ تھی قائد اعظم نے کبھی سول نافرمانی کی بات نہیں کی، دوسرے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کچھ آرام کرلیں کیونکہ آپ جتنا بولتے ہیں ویسے ویسے آپ کے نظریات عیاں ہورہے ہیں۔ صحافی مشتاق منہاس نے کہا کہ عمران خان اور گلو بٹ کی ذہنیت میں کوئی خاص فرق نہیں، دونوں ہی شعوری طور پر لاقانونیت کا پر چار کررہے ہیں۔ اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے کہا کہ بیشتر پاکستانی تو پہلے بھی بل اور ٹیکس نہیں دیتے۔ صحافی انصار عباسی نے کہا کہ اب بجلی اور گیس چوروں کے مزے ہوجائیںگے ،عمران خان بھی گلو بٹ کے نظریے پر عمل پیراہیں۔ لاہور کے ڈاکٹر فیصل نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ جب عمران خان کے دائیں بائیں شیخ رشید اور جمشید دستی ہوں گے تو حالات ایسے ہی ہوں گے۔ صحافی اور شاعر فاضل جمیلی نے ٹویٹ کیا کہ دو دن کے بعد عوام اور نواز شریف جانیں عمران خان تو بنی گالا محل میں جا کر سو جائیں گے۔ندا یوسف زئی نے اس کو عمران خان کی سیاسی خود کشی قرار دیا۔ نورالعین حسن نے کہا کہ عوام کی تمام نافرمانیاں اب پی ٹی آئی کے کھاتے میں جائیں گی۔ مبشر اکرام نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ آج عمران خان کے سول نافرمانی کے بیان کے بعد ان کی تمام امیدیں عمران خان سے ختم ہوگئی ہیں۔ شہزادی توصیف نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ عمران خان کی تقریر صرف ایک مذاق ہے۔ ارمغان احمد نے کہا کہ اگر عوام نے ٹیکس دینا چھوڑ دیا تو بے دخل افراد کی بحالی اور دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ممکن ہوگا۔
کچھ لوگ سول نافرمانی کو ازراہِ مذاق لیتے رہے اور مزاحیہ ٹویٹ کیے، محمد طاہر اکبر نے کہا کہ میں فیس بک اور ٹویٹر استعمال نہیں کروں گا کیونکہ انٹرنیٹ بلز پر جی ایس ٹی ہے۔ احسن عباس رضوی نے کہا کہ ہماری حکومت سول نافرمانی والوں کی بجلی کاٹ دیں اور باقی پاکستان کی بجلی پوری ہوجائے گی۔ انالحق نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ اگر گاندھی جی زندہ ہوتے تو عمران خان کی تجویز پر اپنا عدم تشدد کا فلسفہ بھول کر تشدد پر اتر آتے۔ مریم مصطفیٰ نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ سول نا فرمانی کے بعد سے ملک میں کارخانے بجلی اور گیس سے نہیں عمران خان کے جنون سے چلیں گے۔ رافیہ زکریا نے کہا کہ سول نافرمانی کے بعد کوئی ٹریفک اشاروں پر نہیں رکے گا۔ انعم حمید نے کہا کہ کیا اب ا سکول کالجز کی فیس معاف ہوگی۔ وقاص حبیب نے کہا کہ وہ چائے پینے جارہے ہیں اور بل ول نہیں دیں گے تاہم تھوڑی دیر بعد ٹویٹ کیا کہ شاید کل سے سول نافرمانی شروع ہوگی، وہ بل دے کر ہی چائے پی کر آئے ہیں ۔

Javeria Siddique works for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10070#sthash.WUIN5O7n.dpuf

Posted in Uncategorized

انقلابی مون سون

, August 26, 2014   ………جویریہ صدیق………اگست میں انقلابی مارچ کے مون سون نے بہت سےپاکستانیوں کو سیاسی بخار میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس وقت واضح طور پاکستانی تین حصوں میں بٹ گےہیں۔ ایک ہی گھر میں درمیانی عمر کے افراد مسلم لیگ ن کے حامی یعنی حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے، اس ہی گھر کے نوجوان انقلاب کے لے پر جوش پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے ساتھ کھڑے اور تیسرا طبقہ وہ ہے جو ان دونوں کو یہ سمجھانے میں لگا ہوا ہے کہ پاکستان کسی نئے تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا، سب کی ترجیحات ملک کی ترقی پرمرکوز ہونی چاہیئے ذاتیات پر نہیں۔

موجودہ حالات میں بیشتر پاکستانی ٹی وی کے آگے بیٹھے رہتے ہیں اور دن رات تجزیئے سننے کے بعد خود بھی کافی حد تک مفکر بن گئے۔ جیسے ہی بریکنگ نیوز ٹی وی پر چلتی ہے پاکستانی عوام فوری طور پر فیس بک اور ٹویٹر پر اپنی آرا کا برملا اظہار کرنے لگ جاتے ہیں۔ سب اپنے اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں اور اگر کوئی ان سے اختلاف کی جرأت کرے تو اس کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیتے ہیں۔ 13دن ہوگئے اسلام آباد میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، ہر روز ان دونوں پارٹیوں کی طرف سے نئے مطالبات سامنے آجاتے ہیں۔ پرجوش اور جذباتی تقاریر کارکنان کا جوش گرمانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کبھی وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں، کبھی الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام لگاتے ہیں تو کبھی توپوں کا رخ جیو جنگ گروپ کی طرف کردیتے ہیں اور جس دن کہنے کو کچھ نہ ہو تو اپنی شادی کا شوشہ چھوڑ کر پورے پاکستان کو ہی حیران کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے کبھی حکومت کی بر طرفی کا مطالبہ کیا تو کبھی اسمبلیاں توڑنے کا مطالبہ اور اس دن تو حد ہوگی کہ جس دن کارکنان کو قومی اسمبلی پر قابض ہونے کا کہہ دیا اور کہا کہ یہاں پارلیمنٹ میں شہدا کا قبرستان بنے گا بعد میں خیر وہ اس مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے، کل وہ کفن لیے آئے جس سے عوامی کارکنان کی بڑی تعداد کی آنکھوں سے آنسو چھلک گئے۔ یہ خطابات کا سلسلہ 13دن سے جاری ہے، عوام سڑکوں پر موجود ہیں اور انقلابی اس کو اپنی اخلاقی فتح قراد دے رہے ہیں۔ انقلاب کے خواہاں پاکستانیوں کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت بری طرح ناکام ہوچکی ہے اس لیے ان کو مستعفی ہوکر گھر واپس جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ملک میں دمادم مست قلندر ہوگا۔ اب یہ دم مست قلندر کیا ہوتا ہے سیانے کہتے ہیں کہ رات گئے شاہراہِ دستور پر موسیقی کی دھن پر دم مست قلندر ہی ہوتا ہے خیر لیکن اس سے انقلاب تو آنے رہا۔

دوسری طرف ایک طبقہ حکومت کو سپورٹ کر رہا ہے ان کے مطابق جمہوریت کا تسلسل ملک میں بر قرار رہنا چاہیے اس لیے 2018سے پہلے انتخابات کا خواب نہ ہی دیکھا جائے۔ مسلم لیگ کے حامیوں کے مطابق حکومت نے مظاہرین کو بہت حد تک فری ہینڈ دے رکھا ہے اس لیے اس آزادی کا ناجائز فائدہ نا اٹھایا جائے۔ وزیر اعظم بھی یہ خود کہہ چکے ہیں کہ ٹانگیں نہ کھینچی جائیں اور ہمیں کام کرنے دینا چاہئے۔ جی میاں صاحب اگر آپ چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ سنجیدگی سے لے لیتے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتے تو آج یہ حالات ہی نہیں ہوتے۔

خیرآج کل خوب انقلاب کے حامیوں اور حکومت کے حامیوں میں گرما گرم بحث جاری ہے۔گھر ہو سوشل میڈیا، دفاتر ہو یا تفریح گاہیں، یہ دنوں ہر دم بس ایک دوسرے سے لڑنے کو تیار اور اکثر اوقات اس طرح کی سیاسی بحث کا اختتام دوستی کے اختتام کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اس ساری صورتحال پر پاکستانی غیرجانبدارسنجیدہ طبقہ بہت سے فکرات کا شکار ہے کیونکہ اگر عوامی سطح پر ہم برداشت اور تحمل سے ایک دوسرے کا مؤقف سننے سے گریزاں ہیں تو ہمارے لیڈران سے پھر ہم آپس میں تحمل مزاجی یا مذاکرات کی امید کیوں رکھتے ہیں۔ اس طبقے کے مطابق اب اس تمام سیاسی بحران کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ملک میں انتشار کی کیفیت پھیل گی اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔اب لیڈران کو اپنی اپنی انا اور ذاتی عناد کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملکی مفاد میں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ان دھرنوں کو ختم کیا جائے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کی جائے۔ اپوزیشن اور حکومت با مقصد مذاکرات کرے اور الیکشن کمیشن میں اصلاحات کے لیے ممبران اسمبلی سفارشات مرتب کریں۔

کب آئے گا، انقلاب اور کب ملے گی، آزادی اس کا انتظار تو سب کو ہے لیکن یہ انقلابی مون سون بادلوں سے تو برسنے سے رہا، اس کے لیے ہم سب کو محنت کرنی ہو گی لیکن قوانین اور جمہوریت کے دائرہ کار میں رہ کر۔اس وقت مہنگائی، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی عوام کا بڑا مسئلہ ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے 9لاکھ حکومت اور عوام کی توجہ کے زیادہ مستحق ہیں۔ اس لیے اب سب مل کر سوچنا ہوگا کہ سب کے اپنے اپنے تجزیے تبصرے مفادات زیادہ اہم ہیں یا پاکستان۔ لیڈران کی انا 9لاکھ آئی ڈی پیز سے بڑھ کر تو نہیں اس لیے سیاسی اختلافات کو ختم کرکے فوری طور پر تکلیف میں مبتلا ہم وطنوں کے درد کا مداوا ضروری ہے۔ دنیا ہماری سیاسی ناپختگی کا مذاق اڑا رہی ہے اس لیے ہمیں سیاسی مسائل کو حل کرکے فوری طور پر بین الاقوامی حالات کے مطابق اپنی سفارتی تعلقات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔نہ ہمیں نیا پاکستان چاہیے نہ ہی روشن پاکستان ہمیں صرف قائد اعظم کا پاکستان چاہیے جس میں اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کا تصور موجود ہے۔ بہت ہوا بس اب اس انقلابی بخار کو اتار پھینکنا ہوگا اس میں ہی پاکستان کی بقا ہے۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10110#sthash.j9m4eDGf.dpuf

Posted in Uncategorized

آزادی انقلاب مارچ اور صحافی

September 03, 2014   …….جویریہ صدیق…….پاکستان میں صحافیوں کے لیےحالات سازگار کبھی نہیں رہے لیکن پاکستانی صحافیوں نے حالات کا مقابلہ ہمیشہ جوانمردی سے کیا۔ کبھی دہشت گردوں تو کبھی سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ کا سامنا کیا تو کبھی خفیہ ہاتھ ان کے کام میں روڑے اٹکاتے رہے لیکن پھر بھی صحافی دن رات محنت کرکے سچ اور حقایق عوام کے سامنے لا تے رہے۔پاکستان میں اب تک 75صحافی اور 6میڈیا ورکرز فرایض کی ادائیگی کے دوران اپنے جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ان میں سے 60فیصد صحافی سیاسی جماعتیں کور کیا کرتے تھے، باقی ہیومین رایٹس، کرپشن، کرائم اور وار رپورٹ کیا کرتے تھے۔ صحافیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آزادی اور انقلاب مارچ کا اعلان کیا۔ آغاز سے ہی رپورٹرز نے پل پل کی خبر ناظرین تک پہنچائی لیکن پھر بھی دوران مارچ کارکنان نے میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں کا آغاز کردیا۔ سب سے پہلے تحریک انصاف کے کارکنان نے آبپارہ میں جیو کی ڈی ایس این جی وین پر حملہ کیا اور خاتون صحافی سمیت عملے کو ہراساں کیا اور دو گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔ عمران خان کے تندوتیز جملوں نے جلتی پر تیل ڈالا اور اگلے ہی دن دو اور جیو نیوز کے سینئر صحافی تحریک انصاف کے کارکنوں کے عتاب کا نشانہ بننے اور جیو کے کیمرہ مین کو زدوکوب کرکے اس کا کیمرہ توڑ دیا گیا۔ با ت صرف یہاں تک ختم نہیں ہوئی 22اگست کو ڈی چوک میں پھر جیو نیوز کی ٹیم کو کوریج کے دوران نشانہ بنایا گیا اور ڈی ایس این جی کے سسٹم کو زبردستی بند کروادیا۔ اس کےساتھ ساتھ دو بار جیو اور جنگ کے دفاتر پر پتھراؤ کیا گیا جس سے بلڈنگ کے بیشتر شیشے ٹوٹ اور عملے کو ہراساں کیاگیا۔ جیو اور جنگ گروپ کی جانب سے پر امن رہنے کی معتدد اپیلیں کی گیئں تاہم تحریک انصاف کے کارکنان اشتعال انگیری سے باز نہیں آئے۔

دوسری طرف ہفتے کو ڈی چوک میں پولیس نے میڈیا کوریج کے لیے موجود صحافیوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 7نجی چینلز کے 6رپورٹرز، 18کیمرہ مین اور 4میڈیا ورکرز زخمی ہوئے۔ ان کو زدوکوب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مائیک اور کیمرے بھی توڑ دئیے گئے۔ دونوں ہی واقعات میں اعلیٰ حکام اور سیاسی قیادت کی طرف سے زبانی مذمت تو آگئی لیکن نقصان کا ازالہ یا مدد نہیں فراہم کی گئی۔ پی ایف یوجے کے صدرافضل بٹ نے اس صورتحال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ملک بھر میں صحافتی تنظیموں کی طرف سے پر امن احتجاج کی کال دی ہے، ان کے مطابق صحافیوں پر حملے افسوس ناک ہیں لیکن صحافیوں کو بھی چاہیے کہ وہ غیر جانبدار ہوکر رپورٹنگ کریں اور سنسنی پھیلانے سے گریز کریں۔ آزادی اور انقلابی مارچ میں جہاں پرایویٹ میڈیا تو نشانہ بنا ہی وہاں پر سرکاری ٹی وی پی ٹی وی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ شاہراہ دستور سے صرف چند منٹ کے فاصلے پر پی ٹی وی کی عمارت واقع ہے، پیر کی صبح تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سینکڑوں کارکنان نے پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ کیا اور اس پر قابض ہوگئے۔ مسلح کارکنان نے ٹی وی کے کنٹرول روم پر قبضہ کرکے پی ٹی وی کی نشریات بند کروادی۔ بعد میں پاک فوج کے افسران اور جوان جوکہ اس وقت ریڈ زون کی سیکورٹی پر مامور ہیں، ان کی مداخلت پر مظاہرین نے عمارت خالی کر دیاس کے بعد مظاہرین نے اپنی توپوں کا رخ پر جیو کی طرف کردیا اور جیو نیوز کے رپورٹرز کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ ڈی ایس این جی پر ڈنڈے برساتے رہے۔ اس ساری صورتحال پر صحافیوں کی عالمی تنظیم آئی ایف جے نے کہا ہے کہ پاکستان میں جاری مارچ میں صحافیوں پر پہ در پہ حملوں نے میڈیا کے لیے حالات کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ پولیس کا کام صحافیوں کی حفاظت کرنا ہے، ان پر تشدد کرے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ آئی ایف جے کے ڈائریکٹر جین ورتھنگٹن نے کہا ہے کہ پاکستانی صحافی بہت مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ صحافیوں پر حملے قابل مذمت ہیں حکومت اور سیاسی جماعتیں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے اس لیے دیگر طبقہ فکر کے مؤقف کا احترام کریں اور چینلز کو آزادی کے ساتھ سب کا مؤقف بیان کرنے دیں۔ ان کے مطابق سیاسی جماعتیں آزادیٔ رائے پر قدغن نہ لگائیں۔ پی ٹی وی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ نے کہا کہ سیاسی کارکنان کے طرف سے سرکاری ٹی وی پر حملہ افسوس ناک ہے، اس معاملے فوری طور پر چھان بین کی جائے اور صحافی بنا حفاظتی اقدامات کے کوریج سے گریز کریں یا فاصلہ رکھ کر کوریج کریں۔ آئی ایف جے نے پاکستانی صحافیوں کے لیے حفاظتی ہدایت نامہ جاری کیا جو اس وقت آزادی اور انقلابی مارچ کور کررہیں۔اس کے مطابق صحافی مکمل پلان کے ساتھ کوریج کے لیے جائیں، کوشش کریں کہ اپنی ٹیم کے ساتھ رہیں۔ موبائل فون چارج کرکے لے کر جائیں فرسٹ ایڈ کٹ ساتھ رکھیں، آنسو گیس سے بچنے کے لیے ماسک اور چشمے ساتھ رکھیں۔ شوخ لباس پہننے سے گریز کریں، کھلے کپڑے پہنیں اور آرام دہ جوتے پہن کر جائیں۔بالکل چھوٹا سا بیگ لے کر جائیں جس میں پانی اور کھانے کی اشیاء ہوں۔ کوریج کے مقام پر پہنچ کر اپنے آفس کےشناختی کارڈ چھپا کر رکھیں، اگر ہجوم مشتعل ہے تو لوگوں بھی استعمال نہ کریں۔ لوگوں سے فاصلہ رکھیں اور کسی کا انٹرویو لینا مقصود ہو تو اس شخص کو ہجوم سے الگ لے جا کر بات کریں۔اگر مارچ کور کرتے ہوئے ہنگامے شروع ہوجائیں تو فوری طور پر بھاگ کر اس جگہ سے دور ہو جائیں،ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ ہرگز نہ اتاریں۔مظاہرین سے مکمل دور رہیں، ان کی کسی اشیاء کو ہاتھ نہیں لگائیں۔ اگر پولیس آنسو گیس کا استعمال کرے تو پانی سے منہ پر چھڑکاؤ کریں اور فوری طور پر اپنی عینک اور ماسک پہن لیں۔ اگر ربڑ کی گولیاں فائر ہوں تو فوری طور پر کسی چیز کی آڑ لے لیں۔ آئی ایف جے کے مطابق صحافی ہیلمٹ، آیئ شیلڈ، بلٹ پروف جیکٹ لازمی طور پر استعمال کریں۔ کوریج کے دوران پولیس اور دھرنے کے شرکاء سے نرمی سے بات کریں، سیکورٹی حکام سے مکمل تعاون کریں، ان کو فوراً اپنا آفس کارڈ دکھائیں۔اگر ڈی ایس این جی میں یا آفس کی کار سے کوریج کررہے ہیں تو گاڑی کے دروازے بند رکھیں۔ کیمرہ مین کوشش کریں کہ وہ کسی بلندی سے عکس بندی کریںاور ہجوم سے اجتناب کریں۔

اب چینلز انتظامیہ پر فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو مکمل حفاظتی اقدامات کہ ساتھ دھرنے اور دیگر اساینمنٹس پر بھجوائیں۔ اس کے ساتھ حکومت انتظامیہ اور سیاسی جماعتیں بھی اپنے لوگوں کو پابند کریں کہ وہ میڈیا کو ان کا کام آزادی کے ساتھ کرنے دیں۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10150#sthash.KXD3Hqqz.dpuf