Posted in Uncategorized

انتشار کی سیاست کیوں ؟

August 13, 2014   ……..جویریہ صدیق……..جب سے ہوش سنبھالا ہے جمہوری حکومتوں کو منتخب ہونے کےساتھ ہی پھر فوری طور پر برطرف ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نادیدہ قوتیں کبھی جمہوری حکومت کو سکون سے پانچ سال آرام سے مکمل کرنے دیں۔ جنرل ضیاء کے طویل دور کے بعد جب نوجوان لیڈر بینظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو عوام کو ان سے بہت سے امیدیں تھی لیکن ان کے پورا ہونے سے پہلے ہی غلام اسحق خان نے 9اگست 1990میں ان کی حکومت بر طرف کردی۔ 1990میں الیکشن کے بعد میاں محمد نواز شریف کو حکومت بنانے کا موقع ملا لیکن بہت سی وجوہات کی بنا پر پہلے وزیر اعظم نواز شریف پھر صدر غلام اسحق دونوں ہی مستعفی ہوگئے ۔نگران حکومت آئی 1993میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے۔ یوں صرف 5سالوں میں 3بار انتخابات کروادیئے گئے۔ 1993میں اقتدار کا ہما بینظیرکے سر پر بیٹھا لیکن ان کی حکومت صدر فاروق لغاری نے 1996میں برطرف کردی۔اس کے بعد ایک بار پھر نواز شریف اقتدار میں آئیے اور مختلف بحرانوں کی زد میں رہنے کے بعد بالاآخر اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف نے 1999 میں ان کا تختہ دھڑن کردیا۔

یوں اسی سے نوے کی دہائی میں اس بات کا اندازہ لگنا کچھ مشکل نہیں کہ پاکستان میں عوام کے مینڈیٹ اور انتخابی عمل کی کچھ زیادہ وقعت نہیں۔ میرے ہم عمر پاکستانیوں نے پہلی فوجی حکومت 12اکتوبر 1999میں دیکھی\ ایک طاقتور صدرپرویز مشرف جس نے بلا شرکت غیرے 9سال ملک پر حکومت کی۔ اس دوران پاکستان نے 5وزیر اعظم دیکھے جن میں ظفر اللہ خان جمالی،شوکت عزیز اور یوسف رضا گیلانی۔2 نگران وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین اور محمد میاں سومرو۔ان کے اس طویل دور حکومت میں دو بار الیکشن ہوئے ۔2008میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی، اس کے بعد پرویز مشرف کے طویل دور حکومت کا سورج غروب ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت 2008سے 2013تک قاvم رہنے والی وہ واحد منتخب جمہوری حکومت ہے جس نے 5سال مکمل کیے جس میں پارلیمنٹ سے منتخب کیے گئے صدر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے حکومت کی۔ اس جمہوری روایت کے قائم ہونے کے بعد 2013کے الیکشن سے بہت توقعات رکھی جارہی تھیں۔ پاکستان کے سنجیدہ حلقوں میں کافی طمانیت تھی کہ پاکستان اب صیح معنوں میں جمہوریت کی پٹری پر چڑھ چکا ہے۔ 2013کے الیکشن میں خاص طور پر نوجوانوں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا،ووٹ کاسٹ کیے ،اپنے اپنے لیڈران کے لیے خوب مہم چلائی۔2013کے انتخابات میں میاں محمد نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوگئے۔سیاسی پنڈت تو پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کی پیشن گوئیاں کررہے تھے لیکن الیکشن کے نتائج کے مطابق عمران خان کی جماعت پارلیمان میں نشستوں کے حساب سے تیسرے نمبر پر آئی اور خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی لیکن عمران خان نے اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا اور شروع دن سے وہ الیکشن کمیشن، نگران حکومت، عدلیہ اور مسلم لیگ ن پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں، آج حکومت کو بنے ڈیڑھ سال کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن عمران خان کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ اپنے حکومتی صوبے خبیر پختون خواہ میں تو متاثر کن کارکردگی دکھانے سے قاصر ہیں لیکن وفاق پر ہر روز تنقید کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ اب انقلاب کا نعرہ لگا رہے ہیں تو عمران خان صاحب انقلاب سب سے پہلے آپ اپنے صوبے خیبر پختون خوا سے شروع کیوں نہیں کرتے؟ کیا دہشت گردی سے نڈھال صوبہ آپ کی توجہ کا پہلا مرکز نہیں ہونا چاہیے تھا؟ اپنی شکست کے غم میں عمران خان نے مئی 2013 سے اب تک خیبر پختون خوا کو مکمل فراموش کر رکھا ہے۔ ہر روز عمران خان ایک نئی فہرست کے ساتھ آجاتے ہیں کہ یہ سب بھی دھاندلی میں ملوث ہیں۔ پہلے توپوں کا رخ مسلم لیگ نواز، ریٹرینگ آفیسرز اور نگران حکومت پر رہا، بعد میں جنگ، جیو، جسٹس ریٹائرڈ افتخار محمد چوہدری، جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمن رمدے اور جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی بھی ان کے الزامات کی زد میں آگئے۔ کاش کہ عمران خان اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرلیتے اور اس صوبے میں مکمل محنت کرکے ایک مثال قائم کرتے جہاں عوام نے ان پر مکمل اعتماد کیا۔

پاکستانی عوام کے مینڈیٹ کی توہین صرف عمران خان ہی نہیں کر رہے بلکے اس میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری بھی پیش پیش ہیں، وہ سیاسی کارکنوں میں مذہبی جذبات کو ابھا کر انقلاب برپا کرنے کی تیاریوں میں ہے۔ یہ انقلاب عمران خان کے انقلاب سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ عمران خان تو ذاتی حملے اور دھاندلی کا شور ڈال کر چپ ہو جاتے ہیں لیکن طاہر القادری اپنے مذہبی پیرا کاروں کو شہادت اور سول نافرمانی پر اکسا رہے ہیں۔ ان حالات میں مسلم لیگی رہنما تدبر سے کام لیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے لیڈران کو ساتھ ملا کر کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔ عوام کسی انقلاب کے متحمل نہیں جو مذہبی جنونیت اور ذاتی عناد پر مشتمل ہو۔ حکومت کو آئے ہوِے صرف ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا ہے اس لیے حکومت کو کارکردگی دکھانے کا موقع ملنا چاہئے۔

انتخابی عمل کوئی مذاق نہیں جس میں کروڑوں ووٹ ڈالے گئے ہوں۔ عوام کے مینڈیٹ کا احترام عمران خان اور طاہر القادری پر واجب ہے اور خدارا ملک کو نوے کی سیاست میں نہ لے جائیں۔ اس وقت پنجاب اور جڑواں شہر اسلام آباد اور راولپنڈی بند ہیں، اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار ہے اور غریب عوام کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ اپنے ذاتی مقاصد کو قومی مقاصد کا لبادہ اڑا کر عوام کے جذبات کے ساتھ کھیل اب بند ہونا چاہئے۔

عمران خان یہ بات جانتے ہیں کہ وہ اسمبلی میں اتنی اکثریت نہیں رکھتے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا سکیں یہی حال طاہر القادری کا ہے جن کی نمائندگی ایوان میں موجو د ہی نہیں اس لے دونوں کو سڑکوں پر آنا زیادہ آسان لگتا ہے۔ پاکستانی عوام بھی جذباتی ہیں اس طرح کی اشتعال انگیز تقاریر سے جلد متاثر ہوجاتے ہیں۔ جمہوری نظام میں سڑکوں پر فیصلے نہیں ہوتے بلکہ مذاکرات کے ذریعے سے مسائل کا حل نکا لا جاتا ہے۔ 2013 کے انتخابات کو عالمی مبصر شفاف ترین الیکشن قرار دے چکے ہیں۔ عمران خان اور دیگر انقلابیوں کو مکمل اقتدار حاصل کرنے کے لیے اب اگلے انتخابات تک انتظار کرنا ہوگا اور اگر ابھی اپنے حکومتی صوبے پر فوری توجہ نہ دی تو شاید اگلے الیکشن تک ان پارٹی کا پارلیمان سے مکمل صفایا ہی ہوجائے۔ انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ اپنی شکست کے بدلے میں ملک کو ہی آگ میں جھونک دیں۔ انتشار کی سیاست ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے اور ذمہ دارں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔

Javeria Siddique is a Journalist and Photographer works for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10042#sthash.cNdnLrjf.dpuf

Author:

Journalist writes for Turkish Radio & Television Corporation . Photographer specialized in street and landscape photography Twitter @javerias fb: : https://www.facebook.com/OfficialJaverias

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s