, July 28, 2014 ..…جویریہ صدیق……
کہتے ہیں عید تو صرف بچوں کی ہوتی ہے لیکن جس نے بھی یہ کہا ہے جملہ ادھورا کہا کیونکہ عید صرف بچوں کی نہیں خواتین کی بھی ہوتی ہے۔ رہ گئے ہم مرد حضرات تو ہم مساکین کا کیا ہے، ایک نیا سوٹ اور چپل ہماری عید کی تیاری کے لیے کافی ہے لیکن ان خواتین کی تیاری جو رمضان کے پہلے روزے سے شروع ہوتی ہے وہ چاند رات تک بھی ختم نہیں ہوتی۔سحر ی ہو، افطاری ہو، پہلا کام جو ہمیں بتا یا جاتا وہ ہے ماسٹر صاحب سے میرے کپڑوں کا ضرور پتہ کرلینا۔کبھی ان کے جوڑوں کی سلائی کبھِی میچنگ ڈوپٹہ،کبھی پیکو، کبھی ہم رنگ گوٹا کناری سب کام ہمارے ہی ذمہ داری۔یا تو ان کو بازار لے کر جایا جائے یا پھر ہم ہی یہ عجیب وغریب اشیاء بازار سے برآمد کریں۔ بہتر یہی ہے کہ ان کو بازار ہی لے جائیں۔
جیسے ہی عید کا چاند نظر آتا ہے سارے گھر کے کام چھوڑ شیشہ سنبھال کہ کھڑی ہوجاتی ہیں، چاہے بچے روتے پھر رہے ہوں، سینک برتنوں سے بھرا ہو، ہم بھوکے مر رہے ہوں، مگر ان پر چاند رات کو بازار جانا فرض ہے۔ہم اگر جرأت کرکے پوچھ بھی لیں کہ بیگم وہ سارا رمضان جو ہم آپ کو سحری اور افطاری کے اوقات میں بازار کے چکر لگواتی رہیں وہ کیا تھا؟ تو قہرآلود نظر ڈال کر کہیں گی کہ کیا آپ کی بچوں کی عید کی تیاری نہ کروں؟جو آپ کی بہنیں آجائیں گی ان کو عیدی میں کچھ نہیں دینا؟ ہم معصوم سے بن کر کہتے ہیں کہ کیا پچھلے 28دن آپ صرف اپنی تیاری کرتی رہیں؟ بس یہ سننے کی دیر ہوگی کہ وہ رونا دھونا شروع ہوگا کہ اللہ کی پناہ، ہائَے جب سے آپ کے گھر آئی ہو ،ں ملازمہ بن کر رہ گئی ہوں، اگر ذرا سا کچھ اپنے اوپر خرچ کرلیا تو آپ کا دل تنگ پڑ رہا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ ان کا ذرا سا خرچہ ہماری مہینے بھر کی تنخواہ خرچ کرگیا اور اب بھی ان کے دل کے ارمان پورے نہ ہوئے۔
گھر سے نکلیں تو سب سے پہلے یہ درزی کے پاس جائیں گے، سوٹ تیار ہے تو یہ بات باعث مسرت ہوگی، اگر نہیں ہے تو کیا بگاڑ سکتے ہیں درزی کا یا بیگم کا، فوراً کسی بوتیک پر لے جائیں اور ان کو ایک اور جوڑا خرید دیں۔ ڈیزائنر جوڑے سے نیچے تو کچھ لیں گی نہیں، آپ لاکھ کہیں کہ وہ بیگم اس کا (ریپلیکا) نقل لے لو تو کہیں گی کہ آپ کی بیگم ہوکر اب میں سستا جوڑا لوں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں بالکل بالکل میں تو کسی سلطنت کا سلطان ہوں ناں، لو بیگم اور لو، زہر کا گھونٹ بھر کر ہم یہ بات کہتے ہیں۔جوڑا خرید لیا تو اب جیو کہانی پر آنے والے شہرہ آفاق ڈرامہ سیریل میرا سلطان میں آنے والی ملکہ حورم سلطان جیسی جیولری کی باری آتی ہے۔ نقلی زیورات بیچنے والا دکاندار بھی اتنا جھوٹا ہے کہ کیا کہوں، مسلسل ہماری بیگم کو کہتا ہے باجی یہ بھِی خرید لیں وہ بھی آپ تو بالکل حورم سلطان جیسی ہیں، حالانکہ بیگم تو کھا کھا کر دایا خاتون جیسی لگنے لگی ہیں، لیکن ہم امن و امان کے پیش نظر زبان بندی پر ہی یقین رکھتے ہیں۔جب ہماری بیگم میرا سلطان جیسے ملبوسات اور زیورات سے فارغ ہوجاتی ہیں تو باری آتی ہے جوتوں کی۔ساری دکان کے جوتے نکلوا دیں گی اور آخر میں یہ کہہ کر اٹھ جائیں گی کہ کوئی بھی جوتا اچھا ہی نہیں۔پانچ چھ دکانوں میں سیلزمینوں کو ناکوں چنے چبوا کر آخر میں ایک جوتا لے ہی لیں گی۔ اب نمبر ہے مہندی کا، ہم بچے اٹھائے اٹھائے تھک کر چور ہوجاتے ہیں لیکن نہ اب تک ہماری باری آئی ہے، نہ ہی بچوں۔ ہم یہ سوچ کر خوش ہوجاتے ہیں کہ چلو یہ پارلر میں ہیں تو جب تک ہم گاڑی سے باہر چلتی پھرتی خوبصورتی کو سراہ سکیں گے لیکن پارلر سے مہندی لگواتے وقت بچے بھی ہمیں دے جائیں گی اور گاڑی کے شیشے پر بلائیں لگا جائیں گی۔ہائے ری قسمت بچوں کے ابا کو نوٹس بھی کس نے کرنا ہے۔ بچے ہم سے مختلف فرمائش کرتے رہیں گے، ابا آئس کریم، ابا پاپ کارن، ابا باتھ روم یہ سب ہم ہی کو کرنا پڑے گا۔
ان کے لوازمات کے بعد اب ہماری خریداری کی باری آتی ہے، شہر کے سب سے سستے بازار کی سب سے سستی دکان کا رخ کرتی ہیں اور 70فیصد سیل والی دکان سے ہمیں ایک عدد شلوار سوٹ اور جوتا مل ہی جاتی ہے۔ اس دکان میں اپنے ماتحت لوگوں سے بھی ملاقات ہوجاتی ہے اور وہ بنا عیدی لیے جان نہیں چھوڑتے۔بچوں کی شاپنگ کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ اب ہماری شامت ختم لیکن ابھی ان کو گول گپے چاٹ کھانی ہوتی ہے۔ان کے فولادی ہاتھوں پر تو مہندی لگی ہوئی ہوتی ہے اس لیے ان کو اور بچوں کو ہم ہی گول گپے چاٹ کھلاتے ہیں۔خود تو بھوکے ہی مر جاتے ہیں۔ ان تمام ترچاند رات کی ستم ظریفوں کے بعد جب ہم کہتے ہیں کہ بیگم صبح عید کی نماز کے لیے جلدی اٹھنا ہے چلو واپس چلیں تو کہتی ہیں کہ چوڑیاں تو ابھی رہتی ہیں، مہندی ابھی ہی خشک ہوئی ہے۔
اب ان کو چوڑیاں پہنانے کے لیے لے کرچلو ہم نے مذاقاً پوچھ لیا بیگم آپ کے ہاتھ کے سائز کی چوڑیاں بنتی بھی ہیں تو فوراً ناراض ہو جائیں گی۔اس ناراضگی کو ختم کرنے کے لیے آپ کو مزید شاپنگ کے لیے پیسے نکالنا ہوں گے۔ورنہ یہ جھگڑا میکے تک پہنچ جائے گا۔ بس یہ اس کے بعد بھی اپنی شاپنگ میں مگن پرس، کلپ، میک اپ اور ہم رہیں گاڑی میں سڑتے۔
گھر پہنچ کر بھی سب کام ہم سے ہی کروائیں گی کیونکہ ان کے ہاتھ تو حنا سے مزین ہیں۔ ڈرائنگ روم کی صفائی، بچوں کو کھانا کھلانا اور کچن کے سب کام کرکے جب ہم چار بجے بستر پر دراز ہوتے ہیں۔ تو ٹھیک دو گھنٹے بعدعید کی نماز کے لئے چھے بجے اٹھاتے ہوئے بیگم کہتی ہیںکہ کوئی نماز روزے کی پروا نہیں بس صرف سونے کا شوق ہے، خیر انسان صرف صبر کے گھونٹ پینے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا ہے ۔چاند مبارک، عید مبارک !!
Javeria Siddique is a Journalist and Photographer works for Daily Jang
Contact at https://twitter.com/#!/javerias – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9994#sthash.3cGcbV64.dpuf