September 19, 2014 …..جویریہ صدیق……
ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے جنسی تشدد کا شکار ہو جاتا ہے ۔اس کی بڑی وجہ جنس، تولیدی صحت جیسے موضوعات پر چھایا ہوا سکوت ہے ،والدین اپنے بچوں کو آگاہی سے محروم رکھتے ہیں یہی خاموشی اس جرم کو مزید پھیلا رہی ہے۔جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے جس میں کسی کم سن بچے یا بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ایک بحث چھڑ جاتی ہے کہ پاکستانی معاشرہ حکومت،پولیس سب ناکام ہیں جو بچوں کی حفاظت یقینی نہیں بنا پارہے لیکن یہاں پر والدین کے کردار کو زیر بحث کیوں نہیں لایا جاتا ؟ کیا ماں باپ اور خاندان کے دیگر لوگوں کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت یقینی بنایں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ بچے بازاروں اور گلیوں کا رخ اکیلے نا کریں۔زیادہ تر واقعات تب رونما ہوتے ہیں جب بچے اکیلے گھر سے با ہر جایں یا پھر گھر میں اکیلے ملازمین یا کسی رشتہ دار کے ساتھ ہوں اور ماں با پ یا بڑے بہن بھائی ان کے قریب نا ہو۔
اٹھارہ سال سے کم عمر انسان بچہ کہلاتا ہے اور اگر کسی بچے کو جسمانی تشدد یا زیادتی کا نشانہ بنانا جائے ،اس کو جسمانی سزا دی جائے ،اس کو فحاشی پر مبنی مواد دکھایا جائے،اس کے جسم کو ہاتھ لگایا جائے یہ سب استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔اس استحصال سے بچے کو بچانے کے لیے والدین،بڑے بہن بھایوں اور اساتذہ کا کردار قابل ذکر ہے۔اگر یہ سب مل کر بچوں کو اپنی جسمانی حفاظت کے حوالے سے مکمل آگاہی دیں تو بہت سے واقعات رونما ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں۔بچے جنسی زیادتی کا شکار صرف گھر سے باہر نہیں گھر میں بھی ہوسکتے ہیں۔ ان کو آگاہی دینا ضروری ہے کہ وہ کسی بھی ملازم یا رشتہ دار کے کمرے میں جانے اور اکیلا ساتھ جانے سے گریز کریں۔ والدین دیگر لوگوں کو منع کریں کہ وہ ان کےبچوں کو بلاوجہ گود میں نا لیں اور پیار نا کریں،بچوں کو یہ بتا یا جائے اگر انہیں کوئی ہاتھ لگائے،ڈرائے دھمکائے تو خوف زدہ نا ہوں بلکہ فوراً والدین کو اس بات سے آگاہ کریں۔
والدین اور استاتذہ کوسب سے پہلے تین سے آٹھ سال کے بچوں کو بہت پیار سے اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ۔ ان کو یہ بات بہت پیار سے باور کروائی جائے کہ کسی سے کوئی چیز لے کر نہیں کھانی ہے کیونکہ بہت سے واقعات کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے جب کوئی ملازمین،رشتہ داروں یا خوانچہ فروشوں میں بچے کو مفت میں کوئی چیز دے کر بچے کا اعتماد حاصل کرتا ہے اور بعد میں انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتا ہیں۔اس لیے بچے کو یہ بات بتائی جائے کہ گھر کے افراد اور استاتذہ کے علاوہ کسی سے کوئی چیز نا لیں۔کم سن بچوں کو اس بات کی آگاہی دیں کے کہ ان کے جسم کو کوئی بھی ہاتھ لگائے جس سے ان کو بر ا محسوس ہو تو وہ فوراً ماں باپ کو آگاہ کریں اگرا سکول میں ایسا کوئی کرتا ہے تو فوراً اپنے ٹیچرز کو مطلع کریں ۔اس عمر کے بچوں کو گھریلو ملازمین سے بھی دور رکھیں اور اپنی نگرانی میں ہی اسکول سے لیں،ٹیوشن یا قرآن پڑھاتے وقت بھی اپنے بچوں کو ایسے کمرے میں استاتذہ کے ساتھ بٹھائیں جہاں سے آپ ان پر نظر رکھ سکیں ،اس عمر کے بچوں کو ہرگز بھی کمرے میں اکیلا نا چھوڑیں۔ اگر والدین خود مصروف ہیں تو دادا دادی یا نانا نانی اس سلسلے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔اگر اس عمر میں بچہ کسی جسمانی تشدد یا جنسی زیادتی کا شکار ہوجائے تو اس کے اثرات بچے کی اعصابی اور نفسیاتی صحت پر زندگی بھر کے لیے برا اثر چھوڑ جاتے ہیں ۔
نو سے بارہ سال کے عمر کے بچے تھوڑا بہت اپنا خیال رکھ سکتے ہیں ان کو ایسا آسان زبان میں لکھا مواد پڑھنے کے لیے دیں کہ وہ اپنی حفاظت یقینی بنائیں والدین بچوں سے دوستانہ روابط رکھیں اور ان کو کہیں کہ اگر کوئی بھی فرد ان کو برے ارادے سے ہاتھ لگائے، چھپ کر ہاتھ لگائےیا ڈرانے کی کوشش کرے تو فوراً یہ بات والدین کو بتائیں
استاتذہ بچوں کے بہت اچھے دوست ہوتے ہیں انہیں بھی یہ خیال رکھنا چاہیے کہ بچوں کے کیا مسائل ہیں کہیں کوئی وین والا،مالی،چوکیدار،پی ٹی ماسڑ تو بچوں کو تنگ تو نہیں کر رہا ،فارغ اوقات میں گپ شپ کرتے ہوئے استاتذہ بچوں سے ان کے مسائل اور اس کےحل پر ضرور بات کریں۔اس عمر کے بچوں کو بھی اکیلا گھر سے نا نکلنے دیں کھیل کا میدان ہو یا ٹیوشن سینٹر خود ہی لے کر آئیں اور چھوڑنے بھی خود جائیں ،جہاں تک کوشش ہو ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کا خیال رکھیں اور گلیوں میں بے جا پھرنے پر پابندی لگائیں۔بہت سے ماں باپ لاپرواہی برتتے ہیں، خود ٹی وی لگا کر اپنی جان چھڑانے کے لیے بچوں کو گلی میں نکال دیتے ہیں۔ایسا بالکل مت کریں بہت سے خوانچہ فروش،چرسی اور جرائم پیشہ صرف اسی تاک میں ہوتے ہیں کہ بچہ تھوڑا آگے سناٹے کی طرف جائےاور پھر یہ اس کو بہلا پھسلا کر اپنے ٹھکانے پر لے جائیں۔
بات کی جائے تیرہ سے اٹھارہ سال کے بچوں کی تو یہ بلوغت اور جسمانی تبدیلیوں کے دور سے گزرتے ہیں اور ان کا اثر دل دماغ اور نفسیات پر زیادہ ہوتا ہے ۔والدین کو اس وقت اپنے بچوں کو ان کی ظاہری و مخفی جسمانی ،تولیدی تبدیلیوں کے حوالے ان کو مکمل آگاہی دینی چاہیے۔اس کے ساتھ بہت سارا پیار اور اعتماد بھی تاکہ بچے ان تبدیلیوں سے ڈر نا جائیں بلکہ بہادری سے مقابلہ کریں۔
جنسی تشدد صرف غریبوں کا مسئلہ نہیں ہے بچہ چاہے امیروں کا ہو یا متوسط طبقے کا بھی ہو والدین کی غفلت سے وہ بھی تشدد کا شکار ہوسکتا ہے ۔جنسی تشدد کا شکار صرف لڑکیاں ہی نہیں لڑکے بھی ہوتے ہیں اس لیے والدین دونوں کی حفاظت یقینی بنائیں۔یہ کام صرف ماں کا نہیں ہے بلکہ والدین اور خاندان کے لوگ مل کر ہی ایسے انجام دے سکتے ہیں اور بچوں کو حفاظت ممکن بنا سکتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں بلوغت، جنسی تبدیلیوں اور سیکس کو ایک ایسا شجرہ ممنوعہ بنا دیا گیا کہ جس کے بارے میں بات ہی کرنا گناہ ہے اور اسی سکوت کے باعث پاکستانی بچے استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔بچوں کو اعتماد دیں ان کو جنسی اعضاء کے بارے میں معلومات دیں ان کی حفاظت کا طریقہ کار بتائیں،ان کو جنسی تشدد کے حوالے سے آگاہ کریں۔آگاہی ہی ایک ایسی طاقت ہے جو آج کل کے دور میں بچوں کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Contact at https://twitter.com/#!/javerias
javeria.siddique@janggroup.com.pk – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10213#sthash.Xcz2r0tc.dpuf