March 24, 2014 …جویریہ صدیق…چوبیس مارچ کو دنیا بھر میں ٹی بی ”تپ دق“ کے مرض سے بچاوٴ کے حوالے سے عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد تپ دق کے حوالے سے عوام الناس میں آگاہی پھیلانا ہے اور اس بیماری سے مقابلے کے طریقہ کار کو عام کرنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں تقریبا 16لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں اور ہر سال 4لاکھ نئے مریضوں کا مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
یہ موذی مرض مائیکرو بیکٹریم ٹیوبر کلوسس نامی جراثیم کے باعث ہوتا ہے۔یہ بیماری انسان پر حملہ آور ہوکر اس کے پھیپھڑوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ جسم کے دیگر حصوں کو بھی انفیکشین میں مبتلا کرسکتی ہے جن میں دماغ، اعضائے تولید، گردے اور جلد شامل ہے۔ متاثرہ شخص کے کھانسنے تھوکنے سے یہ بیماری اور پھیلتی ہے۔ اگر اس کا علاج نہ شروع کروایا جائے تو مریض کی وجہ سے مزید 10سے 15افراد اس بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ ایک ہی جگہ پر زیادہ لوگوں کا رہنا، تازہ ہوا کا گزرنا ہو اور گندگی کے باعث یہ مزید پھیلتا ہے۔ اس کے جراثیم ہوا کے ذریعے سے خون میں شامل ہوکر جسم کو متاثر کردیتے ہیں۔
اس کی ابتدائی علامتوں میں مسلسل بخار، تین سے چار ہفتے تک کھانسی کا کم نہ ہونا، رات کو ٹھنڈے پسینے آنا، تھوک میں خون کا آنا، بھوک میں کمی اور وزن میں کمی شامل ہے۔ ان علامتوں کی صورت میں فوری طور پر طبی معائنہ کروایا جائے اور تین اوقات میں بلغم کے نمونے لے کر ٹیسٹ کروایا جائے اور سینے کا ایکسرے بھی کروانا بھی ضروری ہے۔
ٹی بی اب مکمل قابل علاج ہے، مریض کو چھ ماہ مسلسل دوائیاں دی جاتی ہیں، اس طریقہٴ علاج کو ڈاٹس کہا جاتا ہے۔ اس علاج میں 2ماہ، 5ماہ اور علاج مکمل پر بلغم کا جائزہ کیا جاتا ہے۔ ٹی بی کا علاج شروع ہوتے ہی مریض صحت مند محسوس کرنے لگتا ہے لیکن اس کا 8ماہ تک علا ج مکمل کرنا ضروری ہے کیونکہ اگر اس کا علاج مکمل نا کروایا جائے تو یہ بیماری سر دوبارہ اٹھا لیتی ہیں پھر بعض اوقات اس پر ٹی بی کی ادویات بھی کام نہیں کرتی اور مرض لاعلاج ہوجاتا ہے۔ اس لیے بہت ضروری کے علاج کو بیچ میں نہ چھوڑا جائے۔
ٹی بی سے بچاوٴ بھی ممکن ہے اگر نومولود بچوں کو بی سی جی ویکسین لگوا دی جائے تو یہ ان کو ٹی بی سے محفوظ رکھنے میں معاون ہے۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا اس کو جگہ جگہ تھوکنے سے پرہیز کرنا چاہیے، کھانستے یا چیھنکتے وقت رومال سے منہ ڈھانپ لیا جائے تو دیگر رشتہ دار اس سے محفوظ رہیں گے۔ ٹی بی کے مریض کو روشن اور ہوا دور کمرے میں رکھیں۔ علاج کے ابتدائی ہفتوں میں بچوں اور پبلک مقامات سے دور رہیں، تاہم علاج کے درمیانی دورانیے میں مریض سے جراثیم کسی کو منتقل نہیں کرسکتا اور دیگر لوگ اس کے جراثیم سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر ماں ٹی بی میں مبتلا ہے تب بھی وہ اپنے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے تاہم کھانستے اور چھینکتے وقت اپنے منہ پر رومال رکھے کیونکہ ماں کا دودھ تو جراثیم سے مکمل پاک ہے لیکن کھانسنے اور چھینکنے سے یہ جراثیم بچے کو منتقل ہوسکتے ہیں۔ مریض کے کپڑوں، چادروں اور استعمال کی چیزوں کو بھی دھوپ لگوائی جائے۔
غربت اور لاعلمی کی وجہ سے مرض بہت تیزی سے دنیا میں پھیل رہا ہے اور ہر سال دنیا میں 30لاکھ افراد اس بیماری کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پاکستان اس بیماری کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے اور یہاں اس مرض پھیلنے کی بڑی وجہ حکومت اور محمکہ صحت کی عدم توجہی ہے اور اس کے علاوہ عوام کا حفظان صحت کے اصولوں اور صاف صفائی کا خیال نہ رکھنا اور گندگی میں یہ مرض زیادہ سر اٹھاتا ہے۔ اس مرض پر قابو پانے کے لیے اس مرض کے حوالے سے آگاہی کا ہونا بہت ضروری ہے کہ یہ مرض مکمل قابل علاج ہے اور ادویات کے مکمل کورس سے اس مرض سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ ماحول کو گندگی سے پاک رکھ کر بھی ہم اس مرض کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں اور اپنے اردگر لوگوں کو ازخود آگاہی سے بھی اس مرض کو کم کیا جاسکتا ہے۔
Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer.
Contact at https://twitter.com/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9673#sthash.6m3KNFLX.dpuf