June 09, 2014 ...جویریہ صدیق…
پاکستان کے مقبول ترین نیوز چینل جیو نیوز کا لائسنس پیمرا کی طرف سے پندرہ دن کے لیے معطل کردیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک کروڑ جرمانہ بھی عائد کردیا گیا۔ انیس اپریل حامد میر پر حملے بعد سے جیو ٹی وی ہو یا جنگ اخبار صحافیوں کو متعدد بار دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوئیں، ان کو ہراساں کرنے کے لیے حملے کیے گئے اور جیواخبارات لے کر جانے والی گاڑیو ں کو نذر آتش کردیاگیا۔سپریم کورٹ کا حکم آجانے کے باوجود کیبل حکام نے اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھی اور جیو نیوز کیبل پر بند رہا جبکہ جیو انٹرٹینمنٹ ، جیو کہانی ، جیو تیز اور جیو سپر کے نمبر تبدیل کردیے گئے۔جیو اور جنگ سے وابستہ کارکنان نے پھر بھی نا حوصلہ ہارا اور شب و روز حالات کا مقابل جاری رکھا۔اس دوران جیو جنگ گروپ نے معتدد بار اپیل کی کہ ان ساتھ انصاف کیا جائے، معافی کے بھی طلب گار ہوئے لیکن مخالفین نے معاملہ خراب کرنے میں کوئی کسر نا چھوڑی۔یوں چھ جون کو پیمرا نے جیو نیوز کا لائسنس پندرہ دن کے لیے معطل کردیا اور ساتھ میں ایک کروڑ جرمانہ بھی عائد کردیا۔یہ خبر جیسے ہی منظر عام پر آئی تو سوشل میڈیا پر بھی اس پر بحث شروع ہو گی اور اس فیصلے کو آذادی صحافت پر کاری ضرب قرار دیا گیا۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ نے ٹویٹ کیا کہ پاکستان کا سب سے بڑا نیوز چینل خود خبر بن گیا۔انہوں نے جیو کے لائسنس کی معطلی پر مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ تنگ نظری پرمبنی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بڑے نجی چینل کو بند کرنا آذادی صحافت پر حملہ ہے۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے ٹویٹر پر جیو کی معطلی کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان بھر کہ جنگ اور جیو دفاتر میں جا کر صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا اور مزید کہا کہ ہم مشکل کی اس گھڑی میں جیو کے ساتھ ہیں ۔
سابق پاکستانی سفیرحسین حقانی نے امریکا سے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ جمہوری حکومت میں ایسا پہلی بار ہوا ہےکہ ریگولیٹر نے براڈکاسٹر کا لائسنس ایک خبر کے اوپر معطل کردیا۔عمران اسلم نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ دیگر نجی چینل جیو ٹی وی کی مقبولیت سے خایف ہیں اس لیے وہ جیو کے خلاف زہریلا پروپوگنڈا کرنے میں مشغول ہیں۔
افراسیاب خٹک نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ جرمانہ عائد کردیا جائے لیکن کس چینل کو بند کرنا اس ادارے کے ساتھ وابستہ کارکنان اور اس چینل کے ناظرین کے ساتھ زیادتی ہے جن کا کوئی قصور ہی نہیں ۔ پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے اپنے تصویری ٹویٹ میں کہا کہ مشکل کی اس گھڑی میں وہ جیو کے کارکنوں کےساتھ ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مصطفیٰ قادری نے کہا کہ جیو پر پابندی کو ایمنسٹی آذادی اظہار پر حملہ قرار دیتی ہے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صنوبر لکھتے ہیں کہ جیو کی معطلی آذادی صحافت پر حملہ ہے۔ نیوز اینکر ناجیہ اشعر نے جیو ٹی وی کے کراچی اسٹوڈیو سے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ آج سیاہ دن ہے اور جیو کی نشریات مرکزی ہیڈ کوارٹر سے بند کردی گی ہیں۔کراچی سے خان ارسلان لکھتے ہیں کہ کیا پیمرا دیگر چینل کو بھی جیو کو بلا وجہ بند نام کرنے سے روکے گا ؟ جیو اور جینے دو۔ انجینئر شفیق ٹویٹ کرتے ہیں کہ میڈیا کی تقسم پر بہت سے لوگ خوش ہیں لیکن یہ تقسیم بولنے کی آذادی کے لیے خطرہ ہے ۔نذرانہ یوسف زئی نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ہم سب نے مل کر اپنے پر کاٹے ہیں جو کچھ میڈیا کے دیگر چینلز نے مل کر جیو کے ساتھ کیا وہ خود بھی اب اڑان نہیں بھر سکیں گے۔صحافی بینا سرور کہتی ہیں کہ ایک بہت خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے جس کا مقصد صرف جیو جنگ کو دھمکنا نہیں بلکہ پاکستان میں صحافت کو تباہ کرنا ہے۔فیضان لاکھانی نے اس تمام صورتحال کو ٹویٹ کی شکل میں سموتے ہوئے کچھ یوں کہا کہ
ہو نا ہو یہ کوئی سچ بولنے والا ہے قتیل
جس کے ہاتھوں میں قلم پائوں میں زنجیریں ہیں
مہرین سعید نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ دیگر اداروں کو اپنے ذمہ داریوں پر توجہ دینے چاہیے ان سب کی توجہ کا مرکز جیو ہی کیوں ؟ جاوید عزیز نے پشاور سے اپنے تصویری ٹویٹ میں لکھا میں اس وقت پی ایف یو جے کے ہڑتالی کمیپ میں بیٹھا ہوں یہ کیمپ جیو کی نظر بندی کے خلاف لگایا گیا ہے۔ اسد جاوید نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ کیبل آپریٹر چاہے جیو ٹی وی بند کردیں ہم انٹرنیٹ پر جیو کی لائیو اسٹریمنگ دیکھ لیں گے۔عثمان منظور نے کچھ یوں بحث کو سمیٹا میں کٹ گزروں یا سلامت رہوں، یقین ہے مجھے کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا،تمام عمر کی ایذا نصیبوں کی قسم ،میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا۔ –
See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9908#sthash.vbI7bpdg.dpuf