Posted in ChildLabor, Pakistan

دس سالہ ارم کی قاتل ناصرہ یا معاشرہ؟

January 08, 2014   …جویریہ صدیق…

دس سالہ ارم نے نہ عام بچوں کی طرح کبھی کھلونوں سے کھیلا اور نہ ہی کبھی ٹافی یا چاکلیٹ کے ضد کی۔ گلی سے ہر روز قلفی والا اور چھلی ریت کی آواز لگاتا ہوا ریڑھی والا بھی گزرتا تھا تاہم ارم کبھی بیس روپے کا نوٹ دبائے گلی کے طرف نہیں بھاگی۔ کبھی کبھی بندر کا تماشہ دکھانے والا مداری بھی آتا اور ساتھ بھالو بھی لاتا لیکن ارم کو اس تماشے پر تالی بجانے کا حق نہیں تھا اور وہ اس نظارے سے بھی محروم تھی۔ جب دوسرے سارے بچے یونیفارم پہن کر سکول جاتے تو ارم ان کے جھوٹے برتن سیمٹتی۔ جب دوپہر کو بچے تعلیم کا زیور حاصل کرکے گھر آتے تو ارم سارے گھر کا جھاڑو پونچا اور برتن دھو کر اس انتظار میں ہوتی کہ کب یہ بچے کھانا کھایں تو ان کا بچا ہوا جھوٹا کھانا اس کے نصیب میں آئے۔شام کو جب علاقے کے سب بچے میدان میں خوب دوڑتے، کرکٹ کھیلتے، پتنگیں اڑاتے تو ارم بھی یہ سوچتی کے کاش وہ بھی اڑ سکتی اور اڑتے اڑتے ایک ایسے گھر میں چلی جاے جہاں وہ بھی صبح ماں کی نرم آواز کے ساتھ اٹھے، ماں اس کو اپنے ہاتھوں سے نوالے کھلائے، اس کے بال سنوارے، اس کو اسکول بھیجے، جب وہ اسکول سے واپس آیے تو اس کی ماں اس کو آغوش میں لے کر خود کھانا کھلائے۔وہ اپنی ماں کی گود میں لیٹے گھنٹوں کارٹون دیکھے،اس کے کمرے میں خوب سارے کھلونے ہوں خوب ساری ٹافیاں، چپس اور جوس ہوں۔

لیکن ارم کی زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ باپ کا سایہ اٹھنے کے بعد ماں اس کو لاہور کے ایک گھر میں غلام بنا گئی۔آج کل ان غلام بچوں کو میڈ یا سرونٹ کہا جاتاہے۔ لاہور کے الطاف اور ناصرہ کو صرف دوہزار ماہوار پر ارم کی صورت میں غلام مل گیا۔ارم اپنے ننھے منے ہاتھوں سے سارا سارا دن برتن دھوتی، جھاڑو پونچا اور کپڑوں کی دھلائی ایسا کیا کام نہیں تھا جو دس سالہ ارم کے ذمے نہ ہو۔ ذرا سی بھی غلطی کی گنجائش نہیں تھی۔ اگر کبھی ننھی ارم سے کوئی غلطی ہوجاتی تو ناصرہ اس کو زدوکوب کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی اور اس کو کھانا بھی نہ دیتی۔

پھر ایک دن ناصرہ نے دس سالہ ارم پر رقم چوری کا الزام لگا دیا۔دو دن تک کمرے میں اس کو بھوکا پیاسا باندھے رکھا اور اس پر تشدد کرتی رہی اور پیسوں کا مطالبہ کرتی رہی لیکن ارم کے پاس اس الزام کا کوئی جواب ہی نہیں تھا، جو جرم اس سے سرزد ہی نہیں ہوا تو وہ کیا جواب دیتی۔ ناصرہ اس کو مارتی رہی اور ارم دم توڑ گئی۔ ارم کے خون کے چھینٹے کس کے گریبان پر ہیں، کیا ناصرہ اکیلی اس کی قاتل ہے یا معاشرہ اس کا قاتل ہے؟؟

دستیاب اعدادوشمارکے مطابق پاکستان میں 14سال سے کم عمر33لاکھ سے زائد بچے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں جن میں 24لاکھ لڑکے جبکہ 9لاکھ بچیاں شامل ہیں۔ جبری مشقت کے شکار یہ بچے سارا سارا دن کام کرتے ہیں اور یوں ان بچوں کی معصوم خواہشیں معاشرتی نا ہمواریوں اور معاشی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔

پاکستان کے آئین کے مطابق 14سال سے کم عمر بچوں سے مشقت پرپابندی ہے اور آئین کے ارٹیکل25 Aکے مطابق ہر بچے کی تعلیم کی ذمے داری ریاست پر عائد ہوتی ہے تاہم پاکستان میں ان قوانین پرعملدرآمد نظرنہیں آتا۔

پاکستان میں بچوں کے حقوق کی تنظیم سیو دی چلڈرن کے ارشد محمود کے مطابق 2010ء سے اب تک گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کے 45واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 22بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ایسے بے شمار کیسز ہیں جو رپورٹ ہوئے ہی نہیں۔ ان کے مطابق جبری مشقت کے خلاف نئی قانون سازی کی فوری ضرورت ہے اور حکومت اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، وطن عزیز کے روشن مستقبل کیلئے ان نونہالوں کو مشقت کی تاریکیوں سے نکال کر تعلیم کی روشنی سے منور کرنا ہو گا۔ تفکرات کی تصویر بنے ان معصوم چہروں پر زندگی کی مسکراہٹیں بکھیرنا، حکومت ہی نہیں پوری قوم کی ذمے داری ہے۔ معاشرے کو اس لعنت کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی اور جو بھی بچوں کو ملازمت پر رکھے یا رکھوائے ان دونوں پر جرمانہ عائد کرنا چاہیے تاکہ معصوم بچوں کا قتل عام اور استحصال بند ہو۔

Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer.

Contact at https://twitter.com/javerias

See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9447#sthash.XdsgQGw4.dpuf

Author:

Journalist writes for Turkish Radio & Television Corporation . Photographer specialized in street and landscape photography Twitter @javerias fb: : https://www.facebook.com/OfficialJaverias

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s