April 22, 2012
کالی گھٹاوں نے اسلام اباد کو اپنے گھیرے میں لئے رکھا تھا اور بادل برسنے کو تیار تھے شہریوں کی خوشی دیدنی تھی کہ باران رحمت بس لمحوں میں برسنے کوہے۔ بادلوں کی گھن گرج کے ساتھ موسلا دھار بارش شروع ہوگی اور ایک لمحے کے لئے جیسے زندگی رک سی گئی شہریوں نے معمولات کو روک کر بارش سے لطف اٹھانا شروع کردیا۔لیکن کسی ذی روح کو یہ علم نہیں تھا کہ بیس اپریل دو ہزار بارہ کو اٹھائیس جولائی دوہزاردس کی گھڑیاں پھر سے واپس اجائیں گئ اور اس بارایک سو ستائیس افراد بھوجا ائیر لائین کے حادثے میں اپنے پیاروں کو روتا چھوڑ جائیں گے جیسے ایک سو باون افراد فلائیٹ دو سو دو ائیربلیوحادثے کے باعث مارگلہ کے دامن جا سوئے تھے ۔
ایک دھماکے کی اواز سنائی دی اورایک سو ستائیس زندگیاں اپنے خوابوں ارمانوں خوشیوں کے ساتھ مٹی میں مل گئیں۔پہلے تو یہ گمان ہو کہ کوئی بادل ہے جو اسمان پر پھٹ گیا یا پھر یہ دھمک شائد کسی اسمانی بجلی کی ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہی تھی منزل کے پاس اکے سفینہ اجڑ گیا بھوجا ائیرلائین کا بوئینگ سیون تھری سیون حادثے کا شکار ہوکے ائیرپورٹ سے صرف تین منٹ کی دوری پہ حسین اباد کورال راولپنڈی میں گرچکا تھا۔
یہ طیارہ موسمی خرابی کا شکار ہوا یا فنی خرابی کا،پائلیٹ کی غلطی تھی یا تخریب کاری لیکن ا یک سو ستائیس خاندان تباہ ہوکرگیا اور اسلام اباد سمیت ملک بھر کی فضا کو سوگوار کرگیا۔جہاں لواحقین صدمے کا شکار حواس باختہ ائیر پورٹ کی طرف لپکے تو دوسری جانب ٹی وی کے ناظرین اس بات پر ششدر تھے کہ ابھی تو سانحہ ائیر بلیو کے زخم بھرے نہیں تھے کہ ایک اور تشتر قلب میں پیوست ہوگیا۔
وہہی قیامت صغری کا منظر سامنے اگیا جو دو ہزار دس میں میں دیکھ چکی تھی ہر طرف افراتفری ایئرپورٹ پر لواحیقین کی اہوبکا ایئرپورٹ انتظامیہ کی روایتی بے حسی حکومت کا دیر سے نوٹس لینا اورلوگوں کا واحد سہارا پاکستانی میڈیا ۔۔
جائے وقوع پہ بھی وہ ہی روایتی سستی امدادی ادارے کی تاخیر ہلکی سی امید کو بھی ختم کرگئی۔جانے والے تو چلے لیکن پیچھے رہ جانے والے بھی ساکت ہوکے رہ گئے ۔اسلام ابا د کی سحرش اور سونیا نے بھی اس حادثے میں اپنے والدین محمد عبداللہ اور شمیم عبداللہ کو ہمیشہ کے لئے کھوڈالا ماں اور باپ کی یہ لاڈلیاں اب دنیا میں تنہا رہ گئی ہیں یہ دونوں یتیم ہونے والی بچیاں ماں اور باپ کی میت سے لپیٹ کر صرف یہ سوال کر رہی تھیں کہ ان کو اب کون شفقت کی چھاوں میں رکھے گا یہ نا گہانی موت کیا اللہ کی رضی ہے یا پھر ان کے ماں اور باپ کو قتل کیا گیا ہے؟
وہ دنوں اپنے ماں باپ کی بچی ہوئی باقیات کوچھوڑنے پر تیار نیہں تھیں وہ دونوں میڈیا کے لوگوں رشتہ داروں اور محلہ داروں سے صرف یہ سوال کررہی تھیں کہ کس کے ہاتھ پر وہ اپنے ماں اور باپ کے خون کا لہو تلاش کریں سول ایویشین اتھارٹی ،بھوجا ائیرلائین ، کنٹرول ٹاورکا عملہ یا پائلیٹ لیکن وہاں پر مجھ سمیت کسی بھی فرد کے پاس کوئی جواب نا تھا۔ان کے والدین کی باقیات کو جب دفنانے کے لئے گھر سے اٹھایا گیا تو سب نے ان کو یہ کہا جو اللہ کی رضا اور جنازہ گاہ کی طرف چل دئے۔۔۔
ان بچیوں کی اہو بکا ان کی چیخوں سے سب ہی کے دل پھٹ رہے تھے،میں نے واپس گھر اتے ہوئے یہ سوچا کہ ہاں یہاں پاکستان میں ہونے والے حادثے اللہ کی ہی رضا ہوتے ہیں۔ چاہے وہ جنرل ضیا کے طیارے کا حادثہ ہو یا مصحف علی میرکا پلین کریش ہو،ائیر بلیو کی پرواز مارگلہ کے دامن سے ٹکراجائے یا کورال میں بھوجا ائیرلائین کی پرواز مٹی میں جائے نا اج تک کسی بھی حآدثے کی رپورٹ سامنے ائی ہے نا ائے گئ اور ایک ہفتے تک کی بات ہے سب بھول جائیں گے کہ کوئی حادثہ ہوا بھی تھا یا نہیں یاد صرف ان کو رہ جائے گا جن کے پیارے سگے ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے۔