March 27, 2014 …جویریہ صدیق
…لیڈی ہیلتھ ورکرز پاکستان کے شبعہ صحت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں جہاں خواتین کو مرد ڈاکٹرز یا اسپتالوں تک نہیں جانے کی اجازت نہیں وہاں یہ ایک لاکھ پچس ہزار سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز زچہ و بچہ کی طبی ضروریات میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔لیڈی ہیلتھ ورکرز کی بنیادی ذمہ داریوں میں حاملہ اور بیمار خواتین کو طبی مدد دینا، حاملہ خواتین کا ریکارڈ رکھنا، بچوں کی پیدایش کا ریکارڈ، نوزائیدہ بچوں اور کم عمر بچوں کے علاج میں معاونت اور خاندانی منصوبہ بندی کے مشورے اور ادویات فراہم کرنا بھی شامل ہے لیکن اس کے علاوہ دو اہم اضافی ذمہ داریاں بھی ان کے نازک کندھوں پر ہیں جن میں گھر گھر جاکر بچوں کو انسداد پولیو ویکسین پلانا اور ڈینگی بخار کے خلاف بھی مہم میں حصہ لینا ہے۔
ان تمام تر خدمات کے باوجود لیڈی ہیلتھ ورکرز کے لیے حالات پاکستان میں سازگار نہیں ان کی ماہانہ تنخواہ صرف سات ہزار روپے ہے اور وہ بھی ان کو کئی ماہ تک نہیں ملتی اور اگر وہ اس کا تقاضہ کریں تو ان پر پولیس کے ذریعے سے ان پر لاٹھی چارچ کروادیا جاتاہے۔ان کی یہ تخواہ پہلے اس سے بھی کم تھی لیکن مہنگائی کے اس دور میں تنخواہ میں کھوکھلے اضافے کے بعد سے چھ ماہ سے لیڈی ہیلتھ ورکرز اپنی تنخواہ سے محروم ہیں۔انسداد پولیو مہم میں ان کی تین دن کی ڈیوٹی کے ان کو صرف ہزار روپے ملتے ہیں اورا سں پر ستم ظریفی تو دیکھیں کہ جب سردی گرمی میں یہ انسداد پولیوویکسین لیے گھر گھر جاتی ہیں تو ان کا استقبال پتھروں،لاٹھیوں اور گولیوں سے ہوتاہے۔ اسامہ بن لادن کی مبینہ ہلاکت میں ہیلتھ ورکرز کے استعمال میں اب لیڈی ہیلتھ ورکرز اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر انسداد پولیو مہم میں حصہ لیتی ہیں اس کے علاوہ پاکستان کی بڑی آبادی اس ویکسین کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے جس کا خمیازہ یہ بے چاری ہیلتھ ورکرز کو بھگتنا پڑتا ہے۔دوہزار بارہ سے اب تک بائیس ہیلتھ ورکرز اپنی جان سے گئے جن میں چھ لیڈی ہیلتھ ورکرز تھیں اور کل ہی ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کو اغوا کے بعد چمکنی خیبر پختون خواہ میں موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ان سب کا جرم یہ تھا کہ یہ قوم کا مستقبل اور نونہال مفلوج نہیں دیکھ سکتی تھیں اور قوم کے دشمن پاکستان کو مفلوج ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز جو قوم کی معمار ہیں زچہ اور بچہ کی صحت میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں اور ہم ان کو اس محنت کا کیا صلہ دے رہے ہیں ؟ وہ ہماری قوم کی ماؤں کی صحت کا خیال رکھتی ہے، حمل میں ان کو مفید مشوروں سے نوازتی ہیں زچگی میں ان کی معاون ہوتی ہیں، بچے کی پیدایش سے لے کر پانچ سال کی عمر تک ان کی صحت کی ضامن رہتی ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی کے مشوروں سے مضبوط معاشرے کی بیناد رکھتی ہیں۔انسداد پولیو ویکسین سے معاشرے کو مفلوج ہونے سے بچاتی ہیں لیکن ہم ہمارا معاشرہ اور حکومت ان کے احسانات کا بدلہ اس طرح سے اتار رہے ہیں کہ یہ چھ چھ ماہ فقط چند ہزار روپے کی تنخواہ سے محروم ہیں۔ سخت محنت کرکے ایک نسل کو صحت مند زندگی فراہم کرتی ہیں ہم ان کو گولیوں اور حقارت آمیز رویے کا شکار بناتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت تک چوبیس پولیو کے نئے کیسزز سامنے آچکے ہیں، گذشتہ سال یہ تعداد اٹھاون تھی۔ زچگی میں ہر سال پاکستان میں 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں اور ایک ہزار میں سے 48 بچے پیدائش کے پہلے ماہ میں ہی فوت ہوجاتے ہیں اور 40 اعشاریہ 4 فیصد بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں، اس صورتحال کو بنیادی سطح پر صرف لیڈی ہیلتھ ورکرز ہی ٹھیک کرسکتی ہیں۔ اگر ہم لیڈی ہیلتھ ورکرز کی نوکریوں کو مستقل کریں ان کی تنخواہوں میں معقول اضافہ کریں ان کو دوران انسداد مہم میں مکمل سیکورٹی فراہم کریں اور ان کی استعدادکار میں اضافہ کے لیے ورکشاپس اور ٹرینگ کا انتطام کیا جائے تو اوپر ذکر کی گئی صورتحال میں نمایاں فرق آسکتا ہے۔
پنجاب حکومت نے حال ہی میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ریگولر کرنے کا بل پاس کیا ہے اس طرح سے باون ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز کا مستقبل محفوظ ہوگیا لیکن بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی دیگر صوبوں کوبھی ایسے اقدامات کرنے ہوں گے اور مزید تقرریاں کرنی ہوں کیونکہ موجودہ تعداد ایک لاکھ تیس ہزار صرف ساٹھ فیصد آبادی کی دسترس میں ہے، باقی چالیس فیصد آبادی ان کی خدمات سے محروم ہے۔اس لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی استعدکار میں اضافہ اور ان کی تعداد میں اضافے کی فوری ضرورت ہے، اس کے ساتھ ادویات کی مستقل فراہمی، ضروری آلات کی موجودگی، حفاظتی ٹیکوں کا اسٹاک اور عوام الناس کی معلومات کے لیے خاندانی منصوبہ بندی اور دوران حمل ضروری معلومات کے کتابچے ان کے پاس یقینی بنائے جائیں۔اس کیساتھ ساتھ چمکنی میں قتل ہونے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز سلمیٰ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے اور اس کے پانچ بچوں کی مالی کفالت کا بندوبست خیبر پختون خواہ کی حکومت کو فوری طور پر کرنا چاہئے۔ – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9681#sthash.TyYsftbr.dpuf