June 05, 2014 .…جویریہ صدیق….آپ بھی سوچ رہے ہوں گے پاکستان میں اتنا کچھ ہو رہا ہے، سیاسی ماحول میں اتنی ہلچل ہے، حکومت نے نئے مالیاتی سال کا بجٹ پیش کر دیا ہے اور میں بلاگ لکھ رہی ہوں ماحولیات پر؟ ایسا کیوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ماحولیات یا ماحولیاتی آلودگی سننے میں تو شاید بہت بورنگ لگتا ہے لیکن بنی نوع انسان کی بقا صرف اس ہی بات میں ہے کہ فوری طور پر ماحولیات کو پہنچنے والے نقصانات کو کم کرنے کے لئے ہمیں ماحول دوست اقدامت کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں 5جون کو عالمی یوم ماحولیات منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں ماحول کی حفاظت کے حوالے سے آگاہی کو مزید پھیلانا ہے۔ اس بار یہ دن ’’آواز بلند کریں سطح سمندر بلند نہ کریں‘‘ کے عنوان کے ساتھ چھوٹے جزیروں کی حفاظت کے لیے منایا جارہا ہے۔ اس عنوان سے صاف ظاہر ہے انسانی سرگرمیاں درجہ حررات کو مسلسل بلند کر رہی ہیں جس کی وجہ سے گرمی اور سیلاب کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور چھوٹے جزیرے اپنا وجود کھو رہے ہیں۔ کرۂ ارض کے درجہ حررات میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور ان کے پانی سے دریاؤں میں طغیانی آرہی ہے جو کہ سیلاب کی صورت میں بستیوں کی بستیاں اجاڑ جاتے ہیں اور سطح سمندر میں اضافہ کررہے ہیں۔
انسانی سرگرمیوں نے ہی ماحول کو تبدیل کیا ہے، کارخانوں سے نکلنے والا دھواں، گاڑیوں، موٹرسائیکلوں سے نکلنے والا دھواں، فریج اے سی اور پرفیوم سے نکلنے والی گیس، کیڑے مار ادویات، پینٹ سازی کی صنعت میں، گاڑیاں بنانے میں، دھاتوں کی صفائی میں، پلاسٹک کی صنعت میں کاربن ٹیٹرا کلورائیڈ کا استمعال ماحول کو بہت نقصان پہنچا چکا ہے اور پہنچا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلات کی کٹائی، گندے فضلہ جات کا صاف پانی میں ڈال دینا، کچرا پھیلا دینا اور زمین پر زہریلے کیمیکلز کا چھڑکاؤ دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں سے سی ایف سی اور سی ٹی سی گیسز پیدا ہوتی ہیں جن سے اوزان کی تہہ میں شگاف آگیا ہے اور یوں ہم سورج کی آنے والی الٹرا وائیلٹ شعاعوں(بالائے بنفشی شعاؤں کی تابکاری) سے بھی متاثر ہیں اور اپنی ہی سرگرمیوں سے بنی ہوئی زہریلی گیسوں کا نشانہ بھی۔
گرین ہاؤس گیسز اور گلوبل وارمنگ نے آج نباتات کی نشوونما، ایکو سسٹم، بارش کا نظام، زراعت اور موسموں کی بروقت تبدیلی کا نظام درہم برہم کردیا ہے۔ موسمی تغیرات کی ہی وجہ سے کبھی سونامی، کبھی سیلاب، کبھی گرمی، کبھی آبی مخلوق کی اموات اور کبھی خشک سالی نے انسانوں کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ متعدد بیماریاں جن میں جلد کا سرطان، پھپڑوں کا سرطان، دمہ، بلڈ پریشر، بہرہ پن، قوت مدافعت میں کمی اور اندھا پن، آنکھوں کی دیگر بیماریاں شامل ہیں جو انسان کو تنگ کیے ہوئے ہیں۔ ان تمام تبدیلوں اور بیماریوں کے پیچھے صرف اور صرف ہماری ماحول دشمن سرگرمیاں کار فرما ہیں۔
ہم سے پہلے نسلیں جتنا ماحول کو نقصان پہنچا سکتی تھیں وہ یہ کر چکی ہیں، اب اس وقت ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان نقصانات کا ازالہ کریں۔ سب سے پہلے ہمیں شجرکاری پرزور دینا ہوگا، جتنے زیادہ پودے لگائے جائیں گے اتنا ہی گرمی کی شدت میں کمی ہوگی اور ماحول میں آکسیجن کی شرح زیادہ ہوگی۔ زمین کا سرکنا، کٹاؤ کم ہوگا، ہم لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب سے بھی محفوظ رہیں گے۔ کوڑا کرکٹ کو سڑکوں پر کھلے عام نہ پھینکیں بلکہ باقاعدہ طریقے سے تلف کریں۔ پلاسٹک کے شاپر بلکل استعمال نہ کریں بلکہ کپڑے کا تھیلا استعمال کریں، پلاسٹک یا ٹائر بلکل نہ جلائیں، اپنی گاڑی کی مکمل ٹوننگ کرائیں تاکہ وہ کم دھواں چھوڑے۔ پانی کے صاف پانی میں کوڑا کرکٹ یا فضلہ ڈالنے سے گریز کریں، کارخانوں کے مالکان فیکٹری سے نکلنے والے مواد اور دھویں پر فلٹریشن پلانٹ نصب کریں تاکہ ماحول کو مضر صحت کیمکلز سے محفوظ رکھا جاسکے۔ کیڑے مار ادویات کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔ فصلوں کو کیڑے کے حملوں سے بچانے کے لیے صرف ایسے اسپرے یا ادویات کا استعمال کیا جائے جو میتھائل برومانیڈ سے پاک ہوں۔ اے سی فریج یا پرفیوم باڈی اسپرے تک خریدتے ہوئے دیکھیں کیا ان پر اوزن فرینڈلی لکھا ہے اور سی ایف سی گیس سے پاک ہیں۔ اس کے ساتھ ہم سب اپنے گھر کے لان، کیاری یا بالکونی میں بھی باغیچہ بنا سکتے ہیں جس سے ماحول بھی خوشگوار رہے گا اور مزے مزے کے پھل اور سبزیاں بھی ہمیں مفت ملیں گی۔
اوزون میں شگاف کی وجہ سے زمین کا درجۂ حرارت پچھلی صدی سے ایک فارن ہائیٹ بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس ہی لیے ہمیں ماحول دشمن کیمیائی عناصر کے استعمال کے خاتمے کے لیے قانوں سازی اور مناسب پالسیوں کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نواز شریف سے گزارش کے وہ پاکستان ماحولیات کے غیر فعال اداروں کو دوبارہ سے فعال کریں تاکہ ہم سب مل کر کرۂ ارض کو تباہی سے بچا سکیں۔ –
See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9893#sthash.0zXTFDuU.dpuf