… نوزائیدہ بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما میں ماں کا دودھ سب سے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔یہ بچوں کے لیے بہترین اور مکمل غذا ہے۔اس میں قدرتی طور پر پانی اور وہ تمام غذایت موجود ہے جس کی بچے کو ابتدائی ایام میں ضرورت ہوتی ہے۔ماں کسی بھی تیاری کے بنا بچے کو اپنا دودھ پلا سکتی ہے اور فیڈر کے خرچ سے بھی بچ سکتی ہے۔ماں کا دودھ بچوں میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے اور ان کوبدہضمی،پیٹ کا درد، دست ، کھانسی ونزلہ،نمونیا اور یرقان سے محفوظ رکھتے ہیں۔بچے کی پیدایش کے آدھے گھنٹے کے اندر اس کو ماں کا دودھ دینا شروع کردینا چاہیے۔ماں کا ابتدائی دودھ جو کولسڑم کہلاتا ہے ، بچے کے لیے بہت مفید ہوتا ہے اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ چھ ماہ تک بچے کو چوبیس گھنٹوں کے اندر کم ازکم دس سے بارہ دفعہ دودھ پلانا چاہیے۔چھ ماہ کے بعد بچے کو نرم غذا بھی شروع کروا دینی چاہیے اور ماں کو بچوں کو کم ازکم دودھ دو سال پلانا چاہیے۔
لاہورچلڈرن اہسپتال کے شعبہ نوزائیدہ اطفال کے سربراہ ڈاکٹر عرفان وحید کے مطابق ماں کا دودھ پلانا بچے کے لیے بہت اہم ہے یہ اس کو بہت سی بیماریوں سے بچاتا ہے پاؤڈر کے دودھ سے ہر ممکن اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ یہ ماں کے دودھ کا نعم البدل نہیں۔ڈاکٹر عرفان کے مطابق دودھ پلانے والی ماں غذایت سے بھرپور اشیا خوردنوش کا استعمال کرے اور بچہ جتنی بار دودھ مانگے اسے دودھ پلایا جائے۔ان کے مطابق جو بچے پاڈور کے دودھ کے برعکس ماں کا دودھ پیتے ہیں ان کا ہاضمہ درست رہتا ہے اور یہ بچے پیٹ درد،اسہال،ہیضے اور قبض سے محفوظ رہتے ہیں اور ماں بچے کے مابین محبت کا ایک خوبصورت رشتہ قائم ہوجاتاہے۔
آٹھ جنوری دو ہزار چودہ کو پنجاب حکومت نے بریسٹ فیڈنگ اور چائلڈ نیوٹریشن کے حوالے سے بورڈ کے قیام کا نوٹیفیکشن کا جاری کیا جس کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ والدین کو اس بات کی آگاہی دی جائے کہ نوزائیدہ بچوں کو ماں کے دودھ دیا جانا بہت ضروری ہے۔اس کے علاوہ سرکاری اسپتالوں میں ماں کی دودھ کی افادیت پر مواد فراہم کیا جائے اور فارمولہ دودھ تیار کرنے والی کمپنیوں کی نگرانی کی جائی گی اور اس بات کا خاص خیال رکھا جائے گا کہ ڈبے کا دودھ اور غذا کی تشہیرنا ہو۔اس بورڈ میں ماتحت عملے اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ٹریننگ بھی شامل ہے۔ بورڈ کی تشکیل تو ہوگئی تاہم اب تک اس پر عمل درآمد نظر نہیں آرہا۔ سادہ لوح عوام اسپتالوں اور میڈیکل اسٹورزمیں لگے ڈبے کے دودھ کے لگے اسشتہارات سے متاثر ہوکر اپنے بچوں کو فارمولہ ملک شروع کروادیتے ہیں جوکہ بچوں کی صحت کے لیے مفید نہیں۔ڈبے کا دودھ گھر کے بجٹ کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور اگر فیڈر جراثیم سے پاک نا ہو تو بچہ مہلک امراض میں مبتلا ہوکر والدین کے لیے اور پریشانی کا باعث بن سکتاہے۔
اس امر کی ضرورت ہے کہ اس بورڈ کی نوعیت کی طرح کے بورڈ ملک بھر میں قائم کیے جائیں اور منصوبہ بندی پر عمل درآمد بھی کروایا جائے۔اسپتالوں میں خصوصی کاؤنٹر قائم کیے جائیں جن کا کام والدین کو ماں کے دودھ کے حوالے سے آگاہی دینا ہو۔آج کل غذائی قلت کا بھی چرچا عام ہے ڈبے کا دودھ اس کے علاج میں بھی مفید نہیں، صرف ماں کا دودھ اور نرم غذا اورمعالجین کی تجویز کردہ ادویات فائدہ مند ہیں۔ حکومت کو ماں اور بچے کے صحت کے حوالے سے مراکز تحصیل اور ضلع کی سطح پر بھی قائم کرنے چاہئیں۔ شہروں تک پہنچتے ہوئے زچہ یا بچہ بہت بار اپنی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اس لیے صحت کا پیغام اور سہولیات عام کرنے کی اشدضرورت ہے۔اس حوالے سے حکومت سنجیدہ اقدامات کرے تاکہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کو کم کیا جاسکے۔ –
See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9664#sthash.BAHjeHeK.dpuf
@javerias