Posted in Uncategorized

مشقت کا شکار پاکستانی بچے

June 12, 2014   …….جویریہ صدیق…….

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق1 (3)کے مطابق 14سال سے کم عمر کے بچے کو کسی بھی قسم کی فیکٹری، کان کنی یا دیگر مشقت طلب ملازمت یا کام پر نہیں رکھا جاسکتا۔ بچوں کے حقوق کے کنونشن کی شق نمبر 32کے مطابق بچوں کو یہ حق حاصل ہے کہ انہیں ایسی جگہوں اور حالات میں کام کرنے سے بچایا جائے جس سے ان کی صحت کو نقصان ہویا ان کی تعلیم میں رکاوٹ آجائے۔ ان تمام قوانین کے باوجود پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ 20لاکھ بچے مشقت کا شکار ہیں جن میں آدھے 10سال کی عمر سے بھی کم ہیں۔

پاکستان کے آئین کی شق (25)اے کے تحت تما م بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری حکومت پر ہے لیکن یہ تمام مشقت کا شکار بچے تعلیم کے زیور سے بھی محروم ہیں۔ یہ معصوم بچے طبقاتی استحصال کی وجہ سے صبح سے شام تک کارخانوں میں کام کرتے ہیں،کانوں میں سے نمک اور کوئلہ نکالتے ہیں، کوڑا چن کر اپنے لیے روٹی خریدتے ہیں، سڑکوں پر اخبار بیچتے اور بوٹ پالش کرتے ہیں، بھٹوں پر مزدوری کرکے گھر چلاتے ہیں، ورکشاپ میں چھوٹا بن کر قیمتی گاڑیوں کی مرمت میں حصہ لیتے ہیں، خود پیٹ بھر کر کھانا ملے بھی یا نہیں لیکن ہوٹلوں میں بیرے بن کر سارا دن گاہکوں کے جھوٹے برتن اٹھاتے ہیں یا پھر ان کو میڈ اور سرونٹ بنا کر کسی بھی متمول گھرانے میں غلامی پر بھیج دیا جاتا ہے۔

جس عمر میں عام بچے کھلونوں، غباروں اور چاکلیٹس سے دل بہلاتے ہیں وہاں پر جبری مشقت کرنے والے بچے ان سہولتوں سے محروم رہتے ہیں، ان کو تو پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ ان بچوں کی معصوم خواہشات معاشی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ شدید گرمی ہو یا سردی ان بچوں کو اپنا کام مکمل کرنا ہوتا ہے اور اگر وہ ایسا کرنےسے قاصر رہیں تو ان کو جسمانی سزائیں دی جاتی ہیں اور فاقہ کشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں ایک رپورٹ کے مطابق 2010 سے اب تک گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کے 50واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 25بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ایسے بے شمار کیسز ہیں جو رپورٹ ہوئے ہی نہیں۔ آج 12جون کو دنیا بھر میں بچوں سے مشقت کے خلاف عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 21کروڑ 50لاکھ سے زائد بچے مزدوری کررہے ہیں جن میں آدھے جبری مشقت کا شکار ہیں۔ قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں نظر نہیں آتا اس لیے یہ بچے غلامی، جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہیں۔

پاکستان اس وقت چائلڈ لیبر کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے، گھر میں غربت، یتیمی، ناخواندگی، تنگ دستی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ایک کروڑ سے زائد بچے کام کاج میں اپنا بچپن کھو چکے ہیں۔ پاکستان میں چائلڈ لیبر کا 72فیصد حصہ بچے اور 28فیصد حصہ بچیاں ہیں۔ اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی بڑی وجہ معاشرتی بے حسی اور حکومت کی عدم توجہی ہے۔ حکومت کے پاس وسائل ہیں لیکن اس کا دھیان گلی گلی خاک چھانتے بچوں کی طرف نہیں۔ اسی طرح یہ میڈ اور سرونٹ بچوں کا جو نیا رواج نکل پڑا ہے اس میں معصوم بچے سارا سارا دن کام کرتے ہیں، نہ ان کو پیٹ بھر کر کھانا ملتا ہے نہ مکمل آرام اور کچھ کو تو ان کے گھر والوں سے بھی نہیں ملنے دیا جاتا، اب یہ سب حکومت نہیں تو نہیں کر رہی یہ سب ہم سب مل کر کررہے ہیں۔

کیا ایک مشقت کرنے والے بچے کو ہم اپنے بگ بجٹ کچن سے دو وقت کا کھانا نہیں دے سکتے؟ کیا اپنے بچوں کی کتابیں نہیں دے سکتے؟ ایک بچے کی تعلیم کا ذمہ خود نہیں لے سکتے؟ ان کو صاف پانی اور کپڑے نہیں دے سکتے؟ ہمارے مطابق ہماری حکومت تو بے حس ہے ہی لیکن کیا ہم بھی بے حس نہیں؟ اگر ایک بچے کی معاشی مجبوری اس کو کارخانے، ہوٹل، ورکشاپ، گھر تک کام پر لے آئی ہے تو کیا ہم اس کی یہ مجبوری خریدنے کے بجائے اس کی مدد کیوں نہیں کرتے۔ اگر وہ ملازمت کر رہا ہو تو کیا تعلیم، اچھا کھانا اور مکمل آرام کا حق وہ کھو دیتا ہے؟ بلکل نہیں اس لیے آج ہم سب کو یہ سوچنا ہوگا کہ ایک معصوم پھول کے ساتھ ہمیں غیر انسانی سلوک جاری رکھنا ہے یا پھر وہ رویہ اختیار کرنا ہے جس کا درس ہمیں مذہب اسلام دیتاہے۔ کیا ہم 17کروڑ مل کر بھی ان ایک کروڑ جبری مشقت کا شکار بچوں کو تاریکی سے نکال کر تعلیم کی روشنی میں نہیں لا سکتے؟ ہم سب کو سوچنا ہوگا۔ –

See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9918#sthash.WPG5uAds.dpuf

Author:

Journalist writes for Turkish Radio & Television Corporation . Photographer specialized in street and landscape photography Twitter @javerias fb: : https://www.facebook.com/OfficialJaverias

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s