April 26, 2014 …..جویریہ صدیق…..
پاکستان کے حالات تو آپ سب کے سامنے ہی ہیں، حکمران سب اچھا ہونے کا نعرہ بلند کرتے ہیں لیکن حققیت میں ایسا کچھ نہیں۔ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال ہو یا معیشت کی، افراط زر یا مہنگائی ہو، لسانی تعصب یا فرقہ وارنہ واقعات ہوں، ریپ قتل وغارت ان سب نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے لیکن ملک میں معاشرے کی بھیانک سچائیوں کو جھوٹ کی آمیزش کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور اس ہی پر اکتفا کرکے سب اچھا کا راگ الاپتے ہوئے سچائی سے منہ موڑ لیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے مزید ظالموں اور مظلوموں کا جنم ہوتا ہے۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی حالیہ رپورٹ میں سال 2013کا جائزہ پیش کیا ہے جس میں 7مہینے کی مدت موجودہ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کےبھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بالکل بھی تسلی بخش نہیں۔ سابقہ اور موجودہ حکومت کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاص دھیان بھی نہیں رہا۔ پاکستان میں پر تشدد واقعات میں 14فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔14ہزار قتل کے واقعات پولیس کو رپورٹ کیے گئے۔694افراد خود کش حملوں میں جاں بحق ہوئے اورڈرون حملوں میں 199افراد لقۂ اجل بنے۔ 503افراد پولیس مقابلوں میں جاں بحق ہوئے اور دوسری طرف 227افراد کو مختلف جرائم کی پاداش میں پھانسی کی سزا سنائی گئی لیکن عمل درآمد کسی ایک پر بھی نہیں ہوا۔
بات ہو اگر جبری گمشدگی کی تو 2013میں 90سے زائد افراد لاپتہ ہوئے اور 129مسخ شدہ لاشیں ملیں جن پر شبہ یہ ہی ہے کہ یہ بھی گمشدہ افراد تھے۔صرف کراچی میں ہی تشدد کے مختلف واقعات میں 3218افراد جان سے گئے۔فرقہ وارنہ واقعات ہوں تو دو سو حملوں میں 687افراد جان کی بازی ہار گئے۔ پشاور چرچ بم دھماکے میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے سو زائد پاکستانی شہری لقمہ اجل بن گئے اور ہزارہ میں دہشت گردی کے واقعے میں اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والے دو سو افراد جان سے گئے۔بات ہو دہشت گردی کی تو 45خود کش حملے ہوئے جبکہ 31ڈارون حملے ہوئے۔
آزادیٔ رائے کے حوالے سے بھی 2013میں حالات سازگار نہیں رہے۔11صحافیوں کو دوران ڈیوٹی قتل کردیا گیا اور معتدد بار صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز پر حملے کیے گئے۔ پاکستان ورلڈ فریڈم انڈیکس کے مطابق 159ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان میں خواتین کی صورتحال بھی 2013میں نامساعد رہی۔ غیرت کے نام پر 869خواتین کو قتل کردیا گیا۔ آٹھ سو سےزائد خواتین نے خود کشی کرلی۔ 56خواتین کو صرف بیٹی پیدا کرنے کی جرم میں قتل کیا گیا۔ 150خواتین کو تیزاب پھینک کر جھلسا دیا گیا۔ 25سو سے زائد خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی جن میں سے 150گینگ ریپ رپورٹ ہوئیں۔کوئٹہ میں خواتین طالبات کی بس کو ٹارگٹ کیا گیا جس کے نتیجے میں 15طالبات زندہ جل گئیں اور 22شدید زخمی ہوکر اسپتال پہنچ گئیں۔
2013میں ہر 10میں سے 3بچے اسکول میں بنیادی تعلیم سے محروم رہے۔35فیصد بچے غذائی قلت کا شکار رہے۔ 1204بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنے جن میں 60فیصد تعداد بچیوں کی تھی۔ 1کروڑ 20لاکھ بچے جبری مشقت کا شکار ہوئے اور آدھے ان میں سے دس سال سے کم عمر تھے۔ 8لاکھ بچے معتدد بیماریوں کا شکار ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو تو 2013میں بجٹ میں تعلیم کا حصہ صرف دو فیصد تھا۔ 55لاکھ بچے اسکول سے باہر تھے اور عالمی رینکنگ میں پاکستان ناخواندہ افراد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہا۔ملک میں فرضی اسکولوں کی تعداد2ہزار 188ہے اور غیر فعال اسکولوں کی تعداد 5827ہے۔
صحت کے شعبے پر نظر ڈالیں تو 1127افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر،1786افراد کے لیے اسپتال میں صرف ایک بسترہیں۔ پولیو کے 85کیسز سامنے آئے جن میں سے 60صرف فاٹا میں تھے۔ انسداد پولیو مہم کے دوران 20ہیلتھ ورکرز کو قتل کردیا گیا اور اس ہی وجہ سے 47ہزار بچے پولیو سے بچاؤ کی ویکسین سے محروم رہ گئے۔ 16
ہزار سے زائد افراد ڈینگی بخار کا شکار ہوئے اور 24ہزار خسرہ سے متاثر ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری میں مزید اضافہ دیکھا گیا اور ملک میں 37لاکھ 20ہزار سے زائد افراد بیروزگار ہیں۔ دو ملین پاکستانی جبری مشقت کا شکار رہے۔
اگر پاکستانیوں کے طرز بودوباش کی تو33فیصد پاکستانی نکاسی آب کی سہولت سے محروم ہیں اور 40فیصد اموات آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریاں تھیں۔ فاٹا، خصدار، کوہلو، کراچی سے اندرون ملک نقل مکانی کی گئی۔کراچی میں سیاسی تشدد اور فرقہ بندی کے باعث بہت سے علاقے نو گو ایریا بن کر رہ گئے۔ قدرتی اور مصنوعی آفات کے باعث 10لاکھ پاکستانی بے گھر ہوئے۔ملک بھر میں 60فیصد قیدی بغیر عدالتی کارروائی کے جیل میں بند رہے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق پاکستانی حکومت کی انسانی حقوق کے حوالے سے عدم توجہی تشویش ناک ہے اور فوری طور پر ٹھوس اقدامت کی ضرورت ہےلیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا کہ اگر حکومت توجہ نہیں دیتی تو کیا معاشرہ اپنی اصلاح خود نہیں کرسکتا۔ اوپر درج کیے گئے مظالم کے اعدادوشمار کی وجہ صرف حکومت کی لاپروائی یا دہشت گرد ہی نہیں بلکے اس پیچھے ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ ہے۔یہ رویہ پرتشدد،تعصب، جہالت، تنگ نظری اور توہم پرستی پر مشتمل ہے۔ جب تک پاکستانی معاشرہ اپنی اصلاح خود نہیں کرے گا تب تک ان مظالم کی مزید آبیاری ہو گی اور روز نئے واقعات جنم لیں گے۔معاشرتی اقدار صرف اسلامی تعلیمات سے ہی مضبوط کیے جاسکتے ہیں،اس ضمن میں علمائے کرام، اساتذہ، ڈاکٹرز اور سوشل ورکرز اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ حکومت اور عدلیہ کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انصاف کی فراہمی میں تعطل نہ ہو کیونکہ انصاف میں تاخیر بھی مزید جرائم کو جنم دیتی ہے۔ اس ضمن میں قانون و انصاف کے اداروں کو مزید فعال بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر ہم سب مل کر ملک کے قانون کا احترام کرنا شروع کردیں تو بھی انسانی حقوق کا مسئلہ بہت حد تک حل ہوسکتا ہے۔
Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer.
Contact athttps://twitter.com/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9771#sthash.KPUVPAYM.dpuf