, May 03, 2014 …جویریہ صدیق…
یوم صحافت آتا ہے اور گزر جاتا ہے لیکن سوائے بیانات اور وعدوں کے کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آتے۔پاکستان میں پہلے بھی صحافیوں کے لیے حالات سازگار نہیں تھے لیکن نائن الیون کے بعد تو پاکستان دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے خطرناک ملک بن کر رہ گیا۔حفاظتی اقدامات کے بغیر ہی پاکستانی صحافیوں نے دہشت گردی کی جنگ اور افغانستان میں ہونے والے واقعات سے دنیا بھر کو آگاہ کیا۔لیکن آہستہ آہستہ پاکستان میں ہی دہشت گردی کی جنگ لڑی جانے لگی۔ہر روز کے دھماکے،کالعدم تنظیمیں،ایجنسیاں اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ان سب نے ملک میں صحافت کو پاکستان کا مشکل ترین شعبہ بنا دیا۔اگر صرف نائن الیون کے بعد کی صورتحال دیکھی جائے تو72 صحافیوں اور6 میڈیا ورکرز کوفرائض کی ادائیگی کے دوران بے رحمانہ طریقے سے قتل کردیا گیا۔ ان سب کا قصور کیا تھا سچ بولنا،سچ چھاپنا اور سچ نشر کرنا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صحافت خطرناک ترین شعبوں میں شمار ہونے لگا ہے اور دو ہزار آٹھ سے جمہوریت کی بحالی کے بعد سے 43 صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے جس میں صرف جیو سے تعلق رکھنے والے رپورٹر ولی خان بابر کے قاتلوں کو سزا ہوسکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صحافیوں کو کالعدم تنظیموں،سیاسی جماعتوں اور سیکورٹی اداروں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ان تمام حملوں کا مقصد صرف آذادی صحافت کو سلب کرنا تھا۔صحافیوں کا قتل، ان کو دی جانے والی دھمکیاں ، میڈیا ہاؤسز پر حملے اور دیگر خطرات سے حکومت مکمل طور پر نمٹ سکی اور نا ہی صحافیوں کی حفاظت کے لیے پی پی پی اور مسلم لیگ ن کسی مربوط پالیسی کے ساتھ سامنے آئی۔
اگر ہم سال2014 کی بات کریں تو اس سال کا پہلا سورج ہی ایک صحافی کی زندگی کا چراغ گل کرگیا۔لاڑکانہ کے صحافی شان ڈاہر کا کیا قصور تھا صحافی ہونا یا پھر پاکستانی صحافی ہونا ان کا جرم تھا۔اس کے بعد کراچی میں تین میڈیا کارکنان کو جنوری میں ہی فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔سلسلہ یہاں نہیں تھما۔راولپنڈی میں گھر واپسی پر ہارون احمد کو دوران ڈکیتی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔فروری میں بلوچستان میں صحافی افضل خواجہ کو نامعلوم افراد گولیوں کا نشانہ بنا گئے۔مارچ میں ابرار تنولی کو مانسہرہ میں مار دیاگیا۔محرکات واضح کہ سچ کی آواز کو دبانا۔ اینکر رضا رومی پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں ان ڈرائیور جان سے گیا۔حملوں میں شدت کے باوجود نا حکومت نے ناہی سیکورٹی اداروں نے سنجیدگی دکھائی اور نہتے صحافیوں کی جان و مال محفوظ کرنے کے لیے اقدامات کیے۔
لیکن ان تمام واقعات نے اس وقت نیا موڑ لیا جب پاکستان کے معروف صحافی اور اینکر حامد میر کو انیس اپریل کو کراچی میں قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا اس حملے میں حامد میر شدید زخمی ہوگئے تاہم اب وہ بروصحت ہیں۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ تما م اسٹیک ہولڈر اس بات پر غور کرتے کہ سینئر صحافی کو کس نے اور کیوں نشانہ بنایا ؟ لیکن ایسا نا ہوا اور جیو کے مد مقابل چینلز نے صرف اس بات کو اٹھا لیا کہ ایک سیکورٹی ایجنسی کا نام کیوں لیا گیا۔اس بحث میں بیشتر اینکرز اور صحافی صاحبان نے اس بات کو فراموش ہی کردیا کہ زخمی صحافی اور اس کے اہل خانہ پر کیا بیت رہی ہوگی۔پاکستان میں غداری کا سرٹیفکیٹ تو اتنا عام ہے اتنا عام تو برتھ سرٹیفکیٹ بھی نا ہوگا۔ہر طرف یہ شور مچ گیا کہ جیو جنگ گروپ وطن دشمنی پر اتر آیا ہے کیا مذاق ہے آپ ایک چینل کا مقابلہ ریٹنگ میں تو نہیں کرسکتے نا ہی اس اخبار کی اشاعت کا مقابلہ کرسکتے ہیں تو پھر مقابلہ صرف الزامات سے ہی چلانا مناسب سمجھا گیا۔کیا واقعی یہ تما م چینل جنگ اور جیو گروپ کی حب الوطنی اور قربانیوں سے آگا ہ نہیں یا پھر یہ سب پروفیشنل جیلیسی کا نتیجہ ہے۔
حکمرانوں کی طرف سے جنگ اخبار کو متعدد بار بند کرنے کی ناکام کو ششیں کی گئیں۔ جیو ٹی وی کی نشریات پر آمر نے پابندی لگا ئی لیکن جنگ جیو گروپ کی عوام میں مقبولیت کوئی کم نا کرسکا۔ مشکلات کے باوجود اس ادارے نے سچ کے علم کو بلند رکھا،اس سچ کی لڑائی میں ادارے نا صرف اقتصادی پاپندیاں برداشت کی بلکے جانی نقصان بھی برداشت کیا۔ 2007 میں روزنامہ جنگ سے تعلق رکھنے والے صحافی زبیر احمد کو میر پور خاص میں موت کی گھاٹ اتار دیاگیا۔2008 میں جنگ گروپ کے رسالے اخبار جہاں کے کالم نویس چشتی مجاہد کو کوئٹہ میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ 2009 میں جیو کے موسیٰ خان خیل کو سوات میں سے قتل کردیاگیا۔17 جون2011 میں ہی جیو جنگ گروپ کے انگریزی روزنامے دی نیوز کے سیف اللہ خان نے بم دھماکے میں جاں بحق ہوئے۔ 2011 میں جیو کے رپورٹر ولی خان بابرکو کراچی میں قتل کردیا گیا۔ 2012 میں حامد میر کی گاڑی کے نیچے سے دھماکہ خیز مواد ملا۔ 2013 میں ہی جیو کے پروڈیوسر سالک جعفری انچولی دھماکے میں چل بسے، اسی سال شمالی وزیرستان میں جیو کے رپورٹرملک محمد ممتاز کو قتل کردیا گیا لیکن جنگ جیو گروپ کے حوصلے پست نا ہوئے اور آذادی صحافت کے اصولوں پر کار بند پر رہتے ہوئے عوام کو سچ دکھاتے رہے۔
حامد میر پر قاتلانہ کے بعد میڈیا واضح طور پر دو حصوں میں بٹ گیا ایک طرف جیو اور باقی تمام میڈیا دوسری طرف اب مدمقابل اداروں کی یہ کوشش ہے کی جنگ جیو گروپ پر پابندی عائد ہولیکن اگر یہ ادارے ایک بار آنکھوں سے تعصب کی پٹی اتار کر دیکھیں تو اگر ایک بار صحافتی آزادی کو روند دیا گیا تو اس کا اثر باقی اداروں پر بھی ہوگا۔ ایک بار بولنے کی آزادی کی چھین لی گئی تو کیا تمام چینلز آزادنہ طور پر تجزیے اور تبصرے کرسکے گے۔ لفاظی، الزامات ان کے دور رس نتائج کیا نکلیں گے؟ کیا ان تما م ٹی وی چینلز کے مالکان نے سوچا ہے اور ان کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنے صحافیوں نے اس کے سنگین نتائج پر غور کیا ہے۔ لواحقین کی طرف سے الزام آتا جیو من و عن اس کو نشر کرتا ہے لیکن اس پر دو ہفتے سے تماشہ صرف دوسرے چینلز نے لگا رکھاہے، اداروں کی آپسی لڑائی کو ہو ا دی جارہی ہے یہ وقت لڑائی کا نہیں ہے بلکہ خود کو ان خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار کرنے کا ہے جو موجودہ حالات میں صحافیوں کو درپیش ہیں۔ کیا صحافت ہمیں یہ سکھاتی ہے؟ کہ اپنے زخمی ساتھی کا ساتھ دینے کے بجائے اس کے لیے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرنے کے بجائے ہم اس کے ساتھ ہونے والے واقعے کا رخ ہی موڑ دیں اور سب کو لاحاصل بحث میں الجھا دیں۔ آج ہم کیسے یوم صحافت منائیں؟ جب کہ ہم متحد ہی نہیں آج ہم ایک دوسرے کو توصحافت کے اصول تو پڑھا رہے ہیں لیکن خود اپنی اصلاح کو تیا ر نہیں۔اگر یوم صحافت پر ہم خود احتسابی نہیں کریں گے تو ہمیں خطرہ اور کسی سے نہیں اپنے آپ سے زیادہ ہوجائے گا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں حکومت صحافیوں کو تحفظ فراہم کرے اور اپنی سیکورٹی اداروں کے بارے میں تحقیق کرے اور صحافیوں کے خلاف کاروائیاں کرنے والے افراد کو کٹہرے میں لایا جائے۔اگر یہ ہی سلسلہ جاری رہا توآزادی اظہار اور جرائم کا پردہ چاک کرنے کی جدوجہد پر منفی اثر ہوگا۔وقت کی ضرورت کے ہم سب مل کر بیٹھیں اور آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیں تاکہ آئندہ ہم صحافت اور صحافیوں کو محفوظ مستقبل دیں سکیں۔
Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer.
Contact athttps://twitter.com/javerias – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9784#sthash.CWubkhoL.dpuf