. جویریہ صدیق……آج ماں سے محبت کا عالمی دن ہے۔ ماں ایک ایسا رشتہ جو بے غرض بے لوث محبت کرتا ہے۔ماں جب اپنی آغوش میں اولاد کو لیتی ہے ایک زمانے کے غم مٹا دیتی ہے۔اس کی آغوش کی ٹھنڈک میں ہر درد کی تاثیر ہے۔ماں قربانی احساس اور ایثار کا دوسرا نام ہے۔ماں کی بانہوں کا حصار بچے کو وہ سکون دیتا ہے جو دنیا کی کسی اور نعمت سے حاصل نہیں۔ پشاور کی اٹھایس سالہ بینش عمر شہید تمغہ شجاعت بھی ممتا کے خمیر سے بنی تھی۔کمپیوٹر ساینس میں ایم اے کیا۔ عمرزیب بٹ کے ساتھ رشتہ ازداوج میں منسلک ہویی اور اللہ نے تین بار بینش کے آنگن میں اپنی رحمت کا نزول کیا۔بڑی بیٹی حباء منجھلی بیٹی عنایہ اور سب سے چھوٹی گڑیا عفف ۔ممتا کے عہدے پر فایز ہونے کے بعد بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا،پھر جب جاب کرنے کا فیصلہ کیا تو درس و تدریس کا انتخاب کیا۔بینش ایک نی نسل کو اپنے ہاتھوں سے پروان چڑھانے کی خواہش مند تھیں۔آرمی پبلک سکول پشاور میں تدریس کا آغاز کیا اور آٹھویں جماعت کو کمپیوٹر پڑھانے لگیں۔
بچوں کو ہر دل استاد بینش کوشش کرتی کہ کمپیوٹر کی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ بچوں کی اخلاقی اور دینی اطوار پر تربیت کریں۔استاد اگر کم عمر ہو تو بہت جلد بچوں کا دوست بن جاتا ہے اور بچے بھی بلا جھجک اپنے مسایل استاد ساتھ زیر بحث لیے آتے ہیں۔بینش بھی اپنے طالب علموں کی بہترین دوست تھی۔ماں استاد اور دوست بینش نے سولہ دسمبر کو بھی اپنے بچوں کو تنہاہ نا چھوڑا۔سکول میں حباء کے جی کلاس میں تھی اور نھنی گڑیا عفف سکول کے ہی ڈے کیر میں تھی۔لیکن بینش نے اپنی اولاد کے بحایے اپنے روحانی بچوں کو فوقیت دی۔نہتی روحانی ماں نے دہشت گردوں کو للکارا معصوم بچوں کو جانے دو۔ان کا کیا قصور ہے۔بینش نے بچوں کو ہال سے نکالنے کی کوشش کی لیکن ظالم دہشت گرد جدید اسلحے کے ساتھ ہر طرف موجود تھے۔کچھ بچے نکلنے میں کامیاب بھی ہوگیے لیکن دہشت گردوں کی ایک گولی بنیش کے بازو میں پیوست ہویی اور وہ اسٹیج کے پاس گر گی اس کے بعد تو جسیے گولیوں کی بوچھاڑ ہوگی اور گردن میں لگنے والی گولی باعث بینش شہادت کے اس رتبے پر فایز ہوگیں ۔
بینش دنیا سے چلی گیئں لیکن زندہ جاوید ہوکر جب بھی طالب علم استاد کی عظمت کے بارے میں پڑھیں گے تو تاریخ کے اوراق پر روحانی ماں استانی بینش عمر شہید کا نام جلی حروف سے لکھا ہویا پایں گے۔بینش عمر شہید تمغہ شجاعت کے شوہر عمر زیب بٹ کہتے ہیں کہ میں نے اور بینش نے ساتھ تعلیم حاصل کی۔اپنی بہترین دوست کو ہی میں نے اپنا شریک حیات چنا۔بینش کہ آتے ہی میری زندگی میں بہار آگی خوش اخلاق سب سے شفقت اور احترام سے ملتی بینش پل بھر میں سب کو گرویدہ بنا لیتی۔امور خانہ داری میں ماہر مجھے ہر چیز بس تیار ملتی۔میرے والدین کی خدمت اپنے والدین کی خدمت اور ساتھ میں درس و تدریس لیکن کبھی تھکن کا شایبہ نہیں۔پندرہ دسبمر کو مجھے آفس فون کیا اور کہا کہ ایک عزیزہ ہسپتال میں داخل ہیں ان کی عیادت کے لیے جانا ہے۔میرے ساتھ گی ان کی خیریت دریافت کی بعد میں ہم بچوں کو بھی چیک اپ کے لیے گیے دو بیٹوں کی طبعیت ناساز تھی ۔میں نے بینش سے کہا بھی کہ کل سکول مت جاو لیکن بینش نے کہا چھٹی کرنے سے روحانی بچوں کا حرج ہوتا ہے۔
سولہ دسمبر عناییہ تو گھر پر ہی تھی لیکن حباء اور عفف بینش کے ساتھ ہی سکول گیں۔جب میں آفس جانے لگا تو روز کی طرح بینش میری ہر چیز تیار کرکے گی ہویی تھی،عناییہ کے لیے بھی ہر چیز رکھی ہویی تھی ۔میں آفس چلا گیا۔کہ اچانک دوست نے بتایا کہ آرمی پبلک سکول ورسک روڈ پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔میں دوست کے ساتھ ہی وہاں پہنچا بینش کو بہت فون کیے امید یہ ہی تھی کہ بینش خیریت سے ہوگی سب بچے محفوظ ہوں گے۔نا ہی بینش کا پتہ چل رہاتھا نا ہی میری دونوں بیٹوں کا ۔آرمی کا آپریشن چل رہا تھا تو ہم سکول میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔میری بیٹاں تو آرمی نے باحفاظت اپنی تحویل میں لے لیں تھیں اور ان کو قریب ہی محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا میرا بھایی انہیں لے کر گھر چلا گیا مجھے مزید حوصلہ ہوا کہ میری دوست میری محبت میری غم گسار بینش زندہ ہوگی۔لیکن تلاش اس وقت ختم ہویی جب ہسپتال میں شہید ہونے والوں کی فہرست میں بینش کا نام سرفہرست تھا۔میں ہسپتال گیا تو قیامت صغری برپا تھی ہر طرف چیخ و پکار نھنے بچوں کی کفن میں لپٹی ہویی لاشیں۔میں کیا پورا پشاور شہر رو رہا تھا کہ اتںے بے گناہوں کا خون ایک ساتھ پہلے کبھی نا بہا تھا۔میں بینش کو ڈھونڈتا رہا ایک کفن میں لپٹے ہویے جسد خاکی کا ہاتھ کچھ باہر تھا وہ میری بینش کا ہاتھ تھا۔’
بینش چلی گی اپنی جان اس وطن کے لیے قربان کرگی لیکن عمر بٹ کے مطابق حباء عنایہ تو اس عمر میں ہی نہیں ہیں کہ انہیں اپنی ماں کی قربانی کا ادراک ہو۔چار سال کی حباء ہر وقت اپنی ماں کا ڈوپٹہ لیے پھرتی ہے اور عنایہ کو کہتی ہے کہ میں ہو بنیش تمہاری ماما۔کبھی اپنی ماما کے جوتے پہن لیتی ہے تو کبھی ماما کی جیولری پہن کر گھر گھر کا کھیل کھیلتی ہے۔جب رات ہوتی ہے تو یہ دونوں روتی ہیں کہ ماما کہاں ہیں تو میں خود کو بہت بے بس محسوس کرتا ہوں کہ ماں کا لمس ان کے لیے نہیں لا سکتا۔عفف تو صرف چار ماہ کی تھی جب بینش چلی گی وہ تو اس کرب سے ابھی آشنا نہیں جس سے حباء اور عناییہ گزر رہی ہیں۔میں میری والدہ اور ساس ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ تینوں بچیوں کو کسی چیز کی کمی نا ہو لیکن والدہ کی کمی کویی پورا نہیں کرسکتا۔بینش کی شہادت کے بعد میری بیٹی حباء نے چند ہی روز بعد پارک جانے کی ضد کی میری لیے سوگ کی کفیت میں اسے پارک لیجانا مشکل تھا لیکن اس ضد کے آگے ہار مان کر جب میں پارک گیا تو وہ پارک میں بھی بینش کو دھونڈتی رہی کہ کہیں سے ماں سامنے آجایے اور ماں کو یاد کرکے زاروقطار روتی رہی۔اس وقت میرے دل پر جو گزری وہ میرا اللہ ہی جانتا ہے۔میں اپنی بچیوں کو ہر ہفتے انکی شہید ماں کی قبر پر لے جاتا ہوں ہم اس کی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہیں اور پھولوں سے اسے سجا دیتے ہیں۔اب چند دن پہلے ابھی ہم عمرے پر گیے تب بھی پاکستان سے سرزمین حجاز تک بینش کا ڈوپٹہ حباء کے ساتھ رہا۔’
انیس سو سنتالیس میں پاکستان کے قیام کے وقت میرے خاندان کے سترہ افراد نے جام شہادت نوش کیا تھا اور سولہ دسبمر کو بنیش بھی پاکستان پر قربان ہوگی۔مجھے اپنی اہلیہ کی قربانی پر فخرہے۔جب تک میری اہلیہ حیات رہی اس کی زندگی کا مقصد بچوں کی اچھی تربیت تھا۔اس نے اپنے شاگردوں کی جان بچاتے ہویے اپنی جان قربان کی اور استاد شاگرد کے رشتے کو امر گرگی۔ہر بچہ کے لیے وہ ماں کی شفقت رکھتی تھی وہ اکثر کہتی تھی یہ میرے شاگرد نہیں میرے بیٹے ہیں۔گذشتہ برس عالمی یوم ماں پر بینش نے پورے گھر کو سجایا میری اور اپنی والدہ کو تحایف دیے اور ہماری بیٹیوں کو بھی اس دن کی اہمیت سے آگاہ کیا۔اس ماں کے عالمی دن پر میری بچیوں کے ماں ان کے پاس نہیں لیکن میں اپنی بیٹوں کے ساتھ میں یہ دن اپنی شہید اہلیہ کی قبر پر حاضری دیے کر منا رہا ہوں ۔میری بیٹاں اپنی شہید ماں کے لیے کارڈز اور پھول لے کر ان کی قبر کے پاس مدرز ڈے منا رہی ہیں
۔میرے خاندان نے قیام پاکستان کے لیے قربانی دی اور اب بینش نے اس ملک کی بقا کے لیے قربانی دی۔یہ وقت میری معصوم بیٹیوں کے لیے بہت کٹھن ہے لیکن بڑے ہوکر انہیں اپنی ماں پر فخر ہوگا۔میری گزارش ہے کہ حکومت اور آرمی ملک سے دہشت گردوں کا خاتمہ کردیں اور سانحہ پشاور کے مجرمان ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایں ۔لواحقین کے ساتھ تمام معلومات شئیر کی جایں۔اب وقت آگیا ہے تمام پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا اور ہمیں اپنی افواج اور حکومت کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا۔مجھے میری اہلیہ بنیش عمر شہید تمغہ شجاعت پر فخر ہے اس نے ایک عظیم ماں ایک عظیم استاد کی صورت میں اپنے روحانی بچوں کے لیے اس وطن کے لیے اپنی جان قربان کردی –
Posted On Sunday, May 10, 2015