|
Posted On Thursday, February 26, 2015 ….. جویریہ صدیق…..
آرمی پبلک اسکول کا ایک اور پھول مرجھا گیا۔میاں اسحاق امین اپنے بھائی میاں عامر امین کے ساتھ معمول کے مطابق آرمی پبلک سکول و کالج ورسک روڈ کےلیے روانہ ہوا۔16دسمبر کو دونوں ہی بھائیوں کا پرچہ تھا۔اسحاق سیکنڈ ائیر پری میڈیکل اور میاں عامر سیکنڈ ائیر پری انجینئرنگ کا طالب علم تھا۔دونوں اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ پیپر دینے میں مشغول تھے کہ دہشت گردوں کا حملہ ہوگیا۔دونوں ہی بھائیوں کو شدید زخمی حالت میں سی ایم ایچ پہنچایا گیا۔اسحاق کو جبڑے اور بازو پر گولی لگی جبکہ عامرکو پیر اور کندھے پر گولیاں لگیں۔والدین پہلے تو اپنے بچوں کو ڈھونڈتے رہے لیکن اسکول میں انہیں نا پا کر اسپتال کا رخ کیا۔دونوں بچوں کا علاج چلتا رہا۔پاک آرمی کے چیف راحیل شریف کے احکامات پر سی ایم ایچ میں تمام بچوں کے علاج کو مفت کردیا گیا،لیکن کچھ بچوں کی تشویش ناک حالت پر نو تاریخ کو میڈیکل بورڈ بیٹھا اور یہ فیصلہ ہوا کہ30 بچوں کو کراچی آغا خان اسپتال بھجوایا جائے گا، ان بچوں میں اسحاق اور عامر بھی شامل تھے۔
وقت گزرتا گیا لیکن خیبر پختون خوا کی حکومت نے بچوں کے علاج معالجے کے لیے امدای چیک دینے میں تاخیر کی تو شہداء فورم نے خود ہی اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کو کراچی بھجوانے کے انتظامات کر لیے اور26بچے کراچی چلے گئے۔لیکن ڈاکٹرز نے تین بچوں کو سفر سے روک دیا کیونکہ ان کی حالت تشویشناک تھی جن میں اسحاق،انصار اور ولید شامل تھے۔اسحاق کے جبڑے میں گولی تھی جس کے باعث اس کے دماغ میں ائیر ببل بن گیا اوروہ بینایی سے محروم ہونے کے بعد کوما میں چلا گیا۔والدین کو امید تھی کہ خیبر پختون خوا کی حکومت زخمی بچوں کے علاج میں دلچسپی دکھائے گی لیکن ایسا نا ہوا اور اسحاق21 فروری کو سی ایم ایچ میں دم توڑ گیا۔
اسحاق امین پری میڈیکل کا طالب علم تھا ۔چھٹی جماعت سے آرمی پبلک اسکول میں زیرتعلیم تھا ۔ہمیشہ سے اسکو یہی شوق تھا کہ وہ آرمی ڈاکٹر بنے گا۔اس لیے پری میڈیکل میں ایڈمیشن لیا، منزل اس کے سامنے تھی لیکن 16 دسمبر دہشت گردوں نے اس کے تمام خواب چکنا چور کردئیے اور وہ دو ماہ سے زائد موت سے جنگ لڑنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گیا۔اسحاق کے والد میاں امین کہتے ہیں کہ ان کے چار بیٹے ہیں جن میں سے دو آرمی پبلک اسکول و کالج میں سیکنڈ ائیر کے طالب علم تھے ۔ پشاور سانحے میں ان کے دونوں بیٹے شدید زخمی ہوئے جس میں سے اسحاق چل بسا اور عامر کی حالت تشویشناک ہے۔ان کے مطابق اس مشکل کی گھڑی میں آرمی چیف اور پشاور کے کور کمانڈر نے ان کا ساتھ دیا لیکن وزیراعلیٰ خیبر پختون خواہ اور صوبائی حکومت کے رویے نے انہیں شدید مایوس کیا، انہوں کہا کہ میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے بھی ناراض ہوں۔ میرا جوان بیٹا چلا گیا میرے گھر میں قیامت برپا ہے، میرا دل غم سے پھٹ رہا ہے لیکن میرے دلجوئی کے لیے کوئی نا آیا،تاہم مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے کہ اسے شہادت نصیب ہوئی اور اس نے اپنی جان پاکستان کے لیے قربان کی۔
اسحاق کے بھائیوں وقار اور اسفند یار کے مطابق اسحاق بہت زندہ دل تھا گھر میں وہ ہمیشہ امی کا ہاتھ بٹاتا تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ محلہ داروں اور رشتہ داروں کی مدد میں پیش پیش رہتا۔ہم سب جب ٹی وی دیکھ رہے ہوتے تو وہ کچن میں امی کے ساتھ رات کے کھانے میں مدد کرتا کبھی سلاد بنا لیتا تو کبھی رائتہ۔اس کو ہمیشہ اس بات کا خیال رہتا کہ ہمارے کاموں کا زیادہ بوجھ ہماری والدہ پر نا پڑے۔اسحاق کا چلے جانا ان کے لے بہت بڑا سانحہ ہے۔دہشتگردی کے اس واقعے نے ان کا زندہ دل ہنستا مسکراتا بھائی ان سے چھین لیا۔اب ہمیں اپنے دوسرے بھائی عامر کی فکر لاحق ہے کہ اسکا علاج صیح طریقے سے ہوجائے کیونکہ اس کی حالت بھی غیر تسلی بخش ہے۔
اسحاق شہید کے والد میاں امین نے کہا کہ میرے جوان بیٹے نے اپنی جان اس وطن پر نثار کردی لیکن اس قربانی کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں متحد ہونا ہوگا ۔ہمیں کسی کے ڈر سے بھی اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے روکنا نہیں چاہیے ۔پاکستان کے سب بچوں کو چاہیے کہ وہ سب دل لگا کر پڑھیں اپنے استاتذہ کا احترام کریں۔ہم دہشت گردی انتہا پسندی کو صرف تعلیم سے ہی شکست دے سکتے ہیں۔
شہدا وغازی فورم پشاور کے سیکریٹری ابرار احمد یوسف زئی کے مطابق اس وقت26 بچوں کو ہم علاج کے لے کراچی آغا خان بجھواچکے ہیں خیبر پختون خوا کی حکومت نے ہمیں بہت تاخیر کرکے امدادی چیک دئیے جس میں سے آدھے تاحال کیش نہیں ہوسکے ۔ہم نے اپنی آپ مدد کے تحت پیسے جمع کرکے بچوں کو کراچی بھجوایا اور ان کے علاج کے ابتدائی پیسے بھی خود فورم نے جمع کروائے۔ابرار احمد کے مطابق دو بچے ولید اور انصار اب بھی پشاور میں ہی ہیں کیونکہ ان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ ہوائی سفر کرسکتے۔ان کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت بچوں کے علاج میں دلچسپی دکھائے تاکہ زخمی بچوں کی حالت مزید بگڑنے سے روکی جاسکے۔شہدا وغازی فورم کے صدر عابد بنگش نے کہا کہ کراچی میں بچوں کے لیے آغا خان میں بہترین انتظامات کیے گے ہیں اور وزیر صحت سندھ اور ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے بھی ہر ممکن مدد کا یقین دلایا ہے۔
اسحاق امین تو اس دنیا سے شہادت کا درجہ پا کر رخصت ہوگیا لیکن اس کے لواحقین بہت کرب سے گزر رہے ہیں ایک جوان بیٹا دنیا سے چلا گیا دوسرااسپتال میں موجود ہے تو ان والدین پر کیا بیت رہی ہو کوئی بھی حساس طبیعت کا مالک شخص اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ارباب اختیار کو یہ بات سوچنا ہوگی کہ اب بھی وہ صرف سیاست برائے سیاست کرتے رہیں گے یا سیاست برائے خدمت بھی کریں گے۔
وفاق اور صوبائی نمائندوں کو چاہیے کہ شہدا آرمی پبلک سکول کے لواحقین کی داد رسی کریں،جو بچے زخمی ہیں وہ بچے پاکستان کے بہادر غازی ہیں ان کی علاج معالجے کے لیے اگر انہیں حکومتی خرچ پر باہر بھی بھیجنا پڑے تو دریغ نا کریں۔اپنے سرکاری بابوئوں کو احکامات جاری کریں کہ فائلیں ادھر ادھر گھمانے سے پرہیز کریں اور زخمی بچوں کے علاج کے لیے فنڈز جاری کریں۔ایک ایک گزرتا لمحہ کہیں زخمی بچوں کو زندگی سے دور نا کردے۔دکھی ماں باپ کے غموں کا کچھ تو احساس ہو سیاست تو ہوتی رہے گی تھوڑی عوام کی خدمت بھی ہوجائے ۔وزیر اعظم نواز شریف کو خود چاہیے کہ اس معاملے میں وہ دلچسپی لیں، وہ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں اگر بچوں کو امدادی چیک پہلے ہی مل جاتے تو شاید آج اسحاق امین ہم سب کے درمیان موجود ہوتا۔اس وقت آرمی پبلک اسکول کےشدید زخمی بچے صوبہ سندھ میں موجود ہیں ،گورنر عشرت العباد اور وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے ان بچوں کے علاج پر فوری توجہ دینا چاہیے اور زخمی بچوں کے لیے فنڈز مختص کرنا چاہیے تاکہ یہ بچے زندگی کی طرف واپس لوٹ سکیں ۔
Javeria Siddique writes for Jang
Twitter @javerias – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10693#sthash.eLSJxASM.dpuf