Posted in Pakistan

آزادی انقلاب مارچ اور صحافی

آزادی انقلاب مارچ اور صحافی

Posted On Wednesday, September 03, 2014   …….جویریہ صدیق…….پاکستان میں صحافیوں کے لیےحالات سازگار کبھی نہیں رہے لیکن پاکستانی صحافیوں نے حالات کا مقابلہ ہمیشہ جوانمردی سے کیا۔ کبھی دہشت گردوں تو کبھی سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ کا سامنا کیا تو کبھی خفیہ ہاتھ ان کے کام میں روڑے اٹکاتے رہے لیکن پھر بھی صحافی دن رات محنت کرکے سچ اور حقایق عوام کے سامنے لا تے رہے۔پاکستان میں اب تک 75صحافی اور 6میڈیا ورکرز فرایض کی ادائیگی کے دوران اپنے جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ان میں سے 60فیصد صحافی سیاسی جماعتیں کور کیا کرتے تھے، باقی ہیومین رایٹس، کرپشن، کرائم اور وار رپورٹ کیا کرتے تھے۔ صحافیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آزادی اور انقلاب مارچ کا اعلان کیا۔ آغاز سے ہی رپورٹرز نے پل پل کی خبر ناظرین تک پہنچائی لیکن پھر بھی دوران مارچ کارکنان نے میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں کا آغاز کردیا۔ سب سے پہلے تحریک انصاف کے کارکنان نے آبپارہ میں جیو کی ڈی ایس این جی وین پر حملہ کیا اور خاتون صحافی سمیت عملے کو ہراساں کیا اور دو گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔ عمران خان کے تندوتیز جملوں نے جلتی پر تیل ڈالا اور اگلے ہی دن دو اور جیو نیوز کے سینئر صحافی تحریک انصاف کے کارکنوں کے عتاب کا نشانہ بننے اور جیو کے کیمرہ مین کو زدوکوب کرکے اس کا کیمرہ توڑ دیا گیا۔ با ت صرف یہاں تک ختم نہیں ہوئی 22اگست کو ڈی چوک میں پھر جیو نیوز کی ٹیم کو کوریج کے دوران نشانہ بنایا گیا اور ڈی ایس این جی کے سسٹم کو زبردستی بند کروادیا۔ اس کےساتھ ساتھ دو بار جیو اور جنگ کے دفاتر پر پتھراؤ کیا گیا جس سے بلڈنگ کے بیشتر شیشے ٹوٹ اور عملے کو ہراساں کیاگیا۔ جیو اور جنگ گروپ کی جانب سے پر امن رہنے کی معتدد اپیلیں کی گیئں تاہم تحریک انصاف کے کارکنان اشتعال انگیری سے باز نہیں آئے۔

دوسری طرف ہفتے کو ڈی چوک میں پولیس نے میڈیا کوریج کے لیے موجود صحافیوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 7نجی چینلز کے 6رپورٹرز، 18کیمرہ مین اور 4میڈیا ورکرز زخمی ہوئے۔ ان کو زدوکوب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مائیک اور کیمرے بھی توڑ دئیے گئے۔ دونوں ہی واقعات میں اعلیٰ حکام اور سیاسی قیادت کی طرف سے زبانی مذمت تو آگئی لیکن نقصان کا ازالہ یا مدد نہیں فراہم کی گئی۔ پی ایف یوجے کے صدرافضل بٹ نے اس صورتحال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ملک بھر میں صحافتی تنظیموں کی طرف سے پر امن احتجاج کی کال دی ہے، ان کے مطابق صحافیوں پر حملے افسوس ناک ہیں لیکن صحافیوں کو بھی چاہیے کہ وہ غیر جانبدار ہوکر رپورٹنگ کریں اور سنسنی پھیلانے سے گریز کریں۔ آزادی اور انقلابی مارچ میں جہاں پرایویٹ میڈیا تو نشانہ بنا ہی وہاں پر سرکاری ٹی وی پی ٹی وی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ شاہراہ دستور سے صرف چند منٹ کے فاصلے پر پی ٹی وی کی عمارت واقع ہے، پیر کی صبح تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سینکڑوں کارکنان نے پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ کیا اور اس پر قابض ہوگئے۔ مسلح کارکنان نے ٹی وی کے کنٹرول روم پر قبضہ کرکے پی ٹی وی کی نشریات بند کروادی۔ بعد میں پاک فوج کے افسران اور جوان جوکہ اس وقت ریڈ زون کی سیکورٹی پر مامور ہیں، ان کی مداخلت پر مظاہرین نے عمارت خالی کر دیاس کے بعد مظاہرین نے اپنی توپوں کا رخ پر جیو کی طرف کردیا اور جیو نیوز کے رپورٹرز کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ ڈی ایس این جی پر ڈنڈے برساتے رہے۔ اس ساری صورتحال پر صحافیوں کی عالمی تنظیم آئی ایف جے نے کہا ہے کہ پاکستان میں جاری مارچ میں صحافیوں پر پہ در پہ حملوں نے میڈیا کے لیے حالات کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ پولیس کا کام صحافیوں کی حفاظت کرنا ہے، ان پر تشدد کرے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ آئی ایف جے کے ڈائریکٹر جین ورتھنگٹن نے کہا ہے کہ پاکستانی صحافی بہت مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ صحافیوں پر حملے قابل مذمت ہیں حکومت اور سیاسی جماعتیں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے اس لیے دیگر طبقہ فکر کے مؤقف کا احترام کریں اور چینلز کو آزادی کے ساتھ سب کا مؤقف بیان کرنے دیں۔ ان کے مطابق سیاسی جماعتیں آزادیٔ رائے پر قدغن نہ لگائیں۔ پی ٹی وی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ نے کہا کہ سیاسی کارکنان کے طرف سے سرکاری ٹی وی پر حملہ افسوس ناک ہے، اس معاملے فوری طور پر چھان بین کی جائے اور صحافی بنا حفاظتی اقدامات کے کوریج سے گریز کریں یا فاصلہ رکھ کر کوریج کریں۔ آئی ایف جے نے پاکستانی صحافیوں کے لیے حفاظتی ہدایت نامہ جاری کیا جو اس وقت آزادی اور انقلابی مارچ کور کررہیں۔اس کے مطابق صحافی مکمل پلان کے ساتھ کوریج کے لیے جائیں، کوشش کریں کہ اپنی ٹیم کے ساتھ رہیں۔ موبائل فون چارج کرکے لے کر جائیں فرسٹ ایڈ کٹ ساتھ رکھیں، آنسو گیس سے بچنے کے لیے ماسک اور چشمے ساتھ رکھیں۔ شوخ لباس پہننے سے گریز کریں، کھلے کپڑے پہنیں اور آرام دہ جوتے پہن کر جائیں۔بالکل چھوٹا سا بیگ لے کر جائیں جس میں پانی اور کھانے کی اشیاء ہوں۔ کوریج کے مقام پر پہنچ کر اپنے آفس کےشناختی کارڈ چھپا کر رکھیں، اگر ہجوم مشتعل ہے تو لوگوں بھی استعمال نہ کریں۔ لوگوں سے فاصلہ رکھیں اور کسی کا انٹرویو لینا مقصود ہو تو اس شخص کو ہجوم سے الگ لے جا کر بات کریں۔اگر مارچ کور کرتے ہوئے ہنگامے شروع ہوجائیں تو فوری طور پر بھاگ کر اس جگہ سے دور ہو جائیں،ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ ہرگز نہ اتاریں۔مظاہرین سے مکمل دور رہیں، ان کی کسی اشیاء کو ہاتھ نہیں لگائیں۔ اگر پولیس آنسو گیس کا استعمال کرے تو پانی سے منہ پر چھڑکاؤ کریں اور فوری طور پر اپنی عینک اور ماسک پہن لیں۔ اگر ربڑ کی گولیاں فائر ہوں تو فوری طور پر کسی چیز کی آڑ لے لیں۔ آئی ایف جے کے مطابق صحافی ہیلمٹ، آیئ شیلڈ، بلٹ پروف جیکٹ لازمی طور پر استعمال کریں۔ کوریج کے دوران پولیس اور دھرنے کے شرکاء سے نرمی سے بات کریں، سیکورٹی حکام سے مکمل تعاون کریں، ان کو فوراً اپنا آفس کارڈ دکھائیں۔اگر ڈی ایس این جی میں یا آفس کی کار سے کوریج کررہے ہیں تو گاڑی کے دروازے بند رکھیں۔ کیمرہ مین کوشش کریں کہ وہ کسی بلندی سے عکس بندی کریںاور ہجوم سے اجتناب کریں۔

اب چینلز انتظامیہ پر فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو مکمل حفاظتی اقدامات کہ ساتھ دھرنے اور دیگر اساینمنٹس پر بھجوائیں۔ اس کے ساتھ حکومت انتظامیہ اور سیاسی جماعتیں بھی اپنے لوگوں کو پابند کریں کہ وہ میڈیا کو ان کا کام آزادی کے ساتھ کرنے دیں۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10150#sthash.TiHz0MTA.dpuf

Author:

Journalist writes for Turkish Radio & Television Corporation . Photographer specialized in street and landscape photography Twitter @javerias fb: : https://www.facebook.com/OfficialJaverias

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s