معین کو انصاف کون دے گا ؟ |
|
Posted On Thursday, January 08, 2015 ……جویریہ صدیق……
سات سالہ معین کو گھر سے نکلتے وقت یہ نہیں پتہ تھا کہ اب کی بار وہ گھر سے نکلا تو پھر کبھی واپس لوٹ کر نہیں جاسکے گے۔معین نے بھی بارہ ربیع الاول کے لیے اپنے گھر اور گلی کو سجانا تھا۔سارے ملک میں ہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت کو منانے کی تیاریاں عروج پر تھیں۔معین نے بھی بس گھر گلی کو سجانا تھا ہری جھنڈیوں سے تھوڑی موم بتیاں جتنے پیسے جیب میں تھےوہ تو تھوڑے تھے لیکن جذبہ بہت بڑا۔دکان پر گیا لیکن موت کی نظر اس پر پڑگی۔ہم سب ہمیشہ بچوں کو یہ تو بتاتے ہیں کہ بیٹا گھر سے باہر مت جائو اچھا باہر جانا ہے کسی دوست کو ساتھ لے جائو کسی اجنبی سے بات مت کرنالیکن ہم سب انہیں یہ بتانا کیوں بھول جاتے ہیں کہ انہیں صرف اجنبیوں سے خطرہ نہیں بلکہ ان لوگوں سے بھی خطرہ ہے جو انہیں گھر کے اندر اور گھر سے باہر انکل یا نام نہاد چاچو ،ماموں دوست بن کر ملتے ہیں۔
گرین ٹائون لاہور کے رہائشی محمد یٰسین کا بیٹا معین کہیں دور دراز حادثے کا شکار نہیں گھر کے قریب مسجد میں اس کے ساتھ وہ انسانیت سوز سلوک کیا گیا جس لکھتے یا بولتے ہوئے انسان کی روح کانپ جائے۔دکان پر کھڑے ننھے معین کو قاری ثاقب اپنے ساتھ مسجد میں لیے گیا سب سے اوپر والے کمرے میں اس معصوم بچے کے ساتھ زیادتی کی اس کے بعد اس کا گلا کاٹنے کی کوشش کی اور بعد میں اس کو پھانسی دی، جب تک اس کی سانس کی ڈوری ٹوٹ نا گئی اس کو لٹکائے رکھا۔جب یہ سب حیوانیت بربریت بچے کے ساتھ رواں تھی تو دوسری طرف محمد یٰسین اور ان کی اہلیہ دیوانہ وار اسے علاقے کی گلیوں میں ڈھونڈ رہے تھے۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ علاقے کی مسجد میں قاری اس کے ساتھ ایسا انسانیت سوز سلوک کرے گا جو آج تک نا کسی نے سنا ہوگا نا ہی دیکھا ۔
جمعرات سے لاپتہ معین کا پتہ جمعے کو اس وقت پتہ چلا جب نمازی مسجد میں آئے اور ایک کی نظر اوپر کمرے میں موجود معین کی لاش پر پڑی۔وہ بچہ جو ہنستا کھیلتا گھر سے نکلا تھا ۔وہ بچہ جو اپنے والدین کی آنکھوں کا تارہ تھا اب اسکا برہنہ مردہ وجود سیڑھیوں کے ساتھ لٹک رہا تھا۔ماں باپ پر تو غشی کے دورے پڑنے لگے ۔وہ ماں جس نے اسے گھر سے نکلتے وقت سوئیٹر ٹوپی موزے سب پہنائے تھے ان کی آنکھوں کا تارہ برہنہ رسی سے جھول رہا تھا بس ایک پیر میں موزہ رہ گیا تھا ۔ معین پر کیا بیتی ہوگی ، کتنا رویا ہوگا ،کتنی منتیں کی ہوں گی، امی کے پاس جانے دو ، مجھے چھوڑ دو ،لیکن شیطان ثاقب کو ترس نا آیا اور مسجد جیسی مقدس جگہ کا تقدس پا مال کیا اپنے منصب کو داغدار کیا اور لوگوں کو اعتماد توڑ کر رکھ دیا کہ ان بچے مسجد میں بھی محفوظ نہیں۔
ماں باپ نے معین کی لاش اٹھائی اور بازار میں لے آئے اور انصاف کی دہائی دی ۔میڈیا کے جمع ہوجانے پر انتظامیہ حرکت میں آئی اور تفتیش کے بعد قاری ثاقب نے اپنا جرم قبول کرلیا۔اس کے اقبال جرم کی وڈیو فیس بک اور ٹوئیٹر پر ہرجگہ موجود ہے اور سفاک ملزم بہت ڈھٹائی سے اپنے جرم کا اعتراف کررہا ہے۔سارے واقعے کی تفصیل بتا رہا ہے اور معافی کا طلب گار ہے۔کس بات کی معافی چاہتا ہے وہ؟ بچے کے ساتھ زیادتی کی ؟ اس معصوم بچے کا گلا کاٹ دینے کی ؟ اس کو پھانسی دینے کی ؟ مسجد کا تقدس پامال کرنے کی ؟ یا اپنے منصب کے ساتھ غداری کی ؟ کیا ایسے مجرم کو معافی ملنی چاہئے ؟ جس نے ایک معصوم بچے کو مسجد میں زیادتی کا نشانہ بنایا۔
تین تاریخ کو جب اس حادثے کی اطلاع سامنے آئی تو ہر شخص اس واقعے پر حیران رہ گیا کہ مسجد میں کوئی ایسا کرنے کا بھی سوچ سکتا ہے؟ لیکن مجھے بہت گلہ ہے ان تمام لوگوں سے جنہوں نے معین کی ننھی لاش کی تصاویر ہر جگہ بنا بلر’ دھندلی‘ کیے اپ لوڈ کردی۔بچے کی برہنہ لاش کی تصاویر یوں اپ لوڈ کرنا اس کی بے حرمتی کے مترادف ہے۔واقعے کی مذمت بغیرتصاویر کے بھی کی جاسکتی تھی لیکن فیس بک اور ٹوئیٹر پر لائیکس اور ری ٹویٹ کی بھوکی عوام کو کون سمجھائے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔سب نے مذمت کرلی اور اب سب چپ ہیں۔کچھ دن تک شاید بھول بھی جایں گے۔یاد رہ جائے گا صرف معین کے والدین کو۔
معین کے ماں باپ اب بھی تھانے کے چکر لگا رہے ہیں اور اپنے بیٹے کے لیے انصاف کے متمنی ہیں۔قاری ثاقب پولیس کی تحویل میں وڈیو پیغام ریکارڈ کروا کر معافی مانگ رہا ہے ۔سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ مطالبہ کرتے رہے کہ معین کے قاتل کو فوجی کورٹ میں پھانسی ملنی چاہیے۔اس کے لیے کوئی معافی نہیں۔جس نے بچے پر رحم نہیں کیا اس پر بھی رحم نہیں ہونا چاہیے۔پاکستان میں بڑے بڑے اینکرز تو ایسے موضوعات کو اپنے پروگرام میں گفتگو کا حصہ ہی نہیں بناتے لیکن بہت سے کالم نویسوں نے یہ ہی رائے دی فوجی کورٹس کی پہلی پھانسی معین کے قاتل کو ملنی چاہیے۔ معین کو انصاف کون دے گا ،سوشل میڈیا ،میڈیا ،اخبارات لوگوں کے فیس بک اسٹیٹس یا ٹویٹر پر ٹویٹس ،ہرگز نہیں۔انصاف صرف قانون نفاذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں ہی دے سکتے ہیں۔
معین تو چلا گیا لیکن اگر ابھی والدین کی آنکھیں نا کھولیں تو کیا کہا جاسکتا ہے کیوں اپنے بچوں کو گلی محلوں بازاروں میں اکیلا بھیج دیتے ہیں۔اگر پیدا کرتے ہیں تو ان کی حفاظت کو ذمہ کیوں نہیں لیتے؟ ان کو کیوں نہیں بتاتے کہ بہت سے درندے منہ کھولے ا ن کو نگلنے کو تیار ہیں۔جب تک قاتلوں کو سزا نہیں ملے گی اس وقت تک یہ حیوانیت جاری رہے گے ۔میں نے گذشتہ سال بچوں کی حفاظت کے پیش نظر ایک بلاگ لکھا تھا جس میں والدین کو یہ آگاہی دی گئی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو جنسی زیادتی سے بچا سکتے ہیں۔اس کو پڑھیں تاکہ ہمارے نونہال جنسی زیادتی جیسے مکروہ فعل سے محفوظ رہ سکیں۔
http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10213
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10548#sthash.dQLrR51H.dpuf