ہاتھ دھونے کا عالمی دن |
|
Posted On Wednesday, October 15, 2014 ……..جویریہ صدیق……..
15اکتوبر کو ہاتھ دھونے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔سو سے زائد ممالک اس دن کو مناتے ہیں تاکہ عوام الناس میں ہاتھ دھونا کیوں ضروری ہے کا شعور اجاگر کیا جاسکے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 2008ءسےہوا۔ 15اکتوبرہاتھ دھونے کے عالمی دن پر عوام الناس میں آگاہی پھیلائی جاتی ہے کہ صابن کے استعمال سے ہمارے ہاتھ جراثیم سے محفوظ ہوجاتے ہیں اور ساتھ ساتھ ہم متعدد بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ اس دن اسکولوں میں خاص طور پر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ چھوٹے بچوں میں صابن اور ہاتھ دھونے کی افادیت اجاگر ہو۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں ہر سال چار لاکھ بچے صرف اسہال اور نمونیا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اس کی بڑی وجہ حفظان صحت کے اصولوں پر عمل نہ کرنا ہے۔ پاکستان میں شرح پیدائش 3اعشاریہ 5فیصد ہے لیکن ان میں 1اعشاریہ 45فیصد بچے بلوغت سے پہلے ہی وفات پا جاتے ہیں، اس کے پیچھے بہت سے عوامل کارفر ما ہیں جن میں زچہ بچہ کی صحت ،غربت، نکاسیٔ آب کا ناقص نظام، طبی سہولتوں کا فقدان اور حفظان صحت کے اصولوں سے لاپروائی برتنا شامل ہیں۔ ہر ایک ہزار میں سے 55بچے پانچویں سالگرہ نہیں دیکھ پاتے جس کی اہم وجہ پاکستان میں غربت، کم علمی اور صفائی کا خیال نہ کرنا ہے۔ ماہرین کے مطابق صابن ایک ایسی چیز ہے جو کم قیمت بھی ہے اور جراثیم کش بھی ہے۔اس کے استعمال سے انسان بہت سی بیماریوں کو روک سکتا ہے۔
15اکتوبر کو دنیا بھر میں یہ آگاہی دی جاتی ہے کہ ہاتھ دھونا کیوں ضروری ہے اور کس وقت ہاتھ لازمی دھویا جائے اور ہاتھ دھونے کا طریقہ کیا ہے۔ ہاتھ دھونا اس لیے بہت ضروری ہے کہ روزمرہ کام کاج اور سرگرمیوں میں بہت سے جراثیم ہاتھوں پر لگ جاتے ہیں اور اگر ان ہی جراثیم والے ہاتھوں کے ساتھ ہم کھانا کھا لیں تو پیٹ میں جاکر یہ جراثیم معتدد بیماریوں کا باعث بنتے ہیں جن میں اسہال،نمونیا،ٹی بی ،خناق،یرقان،چکن پاکس،خسرہ،ہیضہ،کھانسی،بخار اور فلو شامل ہیں۔اس لیے یہ بہت ضروری ہے کسی بھی وقت کچھ کھاتے ہوئے اور کھانا بننے سے پہلے ہاتھ لازمی دھو لیے جائیں۔ چہرے پر ہاتھ لگاتے ہوئے اور آنکھوں پر ہاتھ پھیرتے وقت بھی ہاتھ لازمی دھلے ہوئے ہوں۔کسی قسم کی صفائی کے بعد بھی لازمی ہاتھ دھوئیں۔ جانوروں اور پالتو جانوروں کو ہاتھ لگانے یا ان کے ساتھ کھیلنے کے بعد بھی ہاتھ دھویں۔ جھوٹے بچوں کو صاف کرتے وقت ان کا ڈائپر تبدیل کرنے کے بعد مائیں لازمی ہاتھ صابن سے دھوئیں۔ انسانی فضلے میں متعدد جراثیم ہوتے ہیں اس لیے رفع حاجت کے بعد لازمی ہاتھ صابن کے ساتھ دھویں۔
ہاتھ دھونے کے لیے پانی اور صابن کا استعمال کیا جائے،پہلے ہاتھوں کو اچھی طرح گیلا کیا جائے، اس کے بعد صابن کو ہاتھوں پر رگڑیں ،30سے 40سیکنڈ تک،پہلے ہتھیلیوں پر صابن کی جھاگ بنائیں، اس کے بعد انگلیوں کے درمیان اوپر کی طرف سے اور نیچے سے۔پھر انگوٹھے اور تمام انگلیوں کو صابن کی جھاگ سے صاف کریں۔ناخنوں کو دھوئیں، اس کے بعد کلائی تک صابن لگائیں۔ آخر میں پانی سے ہاتھ دھوئیں۔ اس بات کا دھیان رکھیں کہ ہاتھ میں صرف انگلیوں کو ہی نہیں مکمل ہاتھ کو دھویا جائے جس میں ہتھیلی، پشت، ناخنوں اور انگلیوں کے درمیانی خلا کو دھونا لازمی ہے۔ ہاتھ ہمیشہ کھلی ہوا میں سوکھنے دیں اگر ہاتھ خشک کرنا جلدی مقصود ہو تو تولیہ صاف ہو یا ٹشو پیپر کا استعمال کریں۔ اگر آپ کا نل بھی گندا ہوگیا ہے تو اسے بھی دھو لیں۔ آپ سفر میں ہیں یا گھر سے باہر اور صابن موجود نہیں تو لیکویڈ سوپ کا استعمال کریں۔
15اکتوبر کو اس بات کا شعور خاص طور پر اجاگر کیا جاتا ہے کہ بچوں میں ہاتھ صاف رکھنے کی عادت کو عام کیا جائے۔بڑوں کی نسبت بچوں میں قوت مدافت کم ہوتی ہے اور وہ جلد ہی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔اس لیے ان کی حفاظت کے لیے سب کو مل کر صحت کے اصولوں کو عام کرنا ہوگا۔والدین خود اپنے بچوں کی صحت صفائی کا خیال کریں اور انہیں بھی نرمی سے بار بار سمجھائیں کہ ہاتھ دھونا، نہانا اور صاف رہنا ان کی صحت کے لیے کتنا ضروری ہے۔ صابن سے ہاتھ دھونا مختلف بیماریوں اسہال، نمونیہ، ہیضہ اور فلو وغیرہ کے امکان کو پچاس فیصد کم کردیتا ہے۔ اگر ماں کے ہاتھ صابن سے دھلے ہوئے ہوں تو 44فیصد بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا دین ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، نماز کی پابندی، پانچ بار وضو اور غسل سے بھی انسان بہت سے جراثیم سے بچ جاتا ہے۔ اگر والدین اپنی صفائی کا خیال رکھیں گے تو بچے ان کی ہی تقلید کریں گے۔
حکومت وقت کا فرض ہےکہ سیلاب زدہ علاقوں، آئی ڈی پیز اور قحط متاثرہ افراد کے لیے دیگر امداد کے ساتھ ساتھ صابن بھی لازمی فراہم کریں تاکہ ان علاقوں میں بڑے اور بچے اسہال، نمونیہ اور آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ بچوں کی ہلاکتوں میں کمی کے لیے حکومت کو آگاہی کے ساتھ ساتھ ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ جن میں ویکسنیشن، بچوں کی بہتر خوارک، حفاظتی ٹیکہ جات اور صحت کی بہتر سہولتیں دینا شامل ہے۔ان اقدامات کے بعد ہی ہم پاکستانی بچوں کو محفوظ مستقبل دے سکتے ہیں۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10284#sthash.o49Y22YT.dpuf