ہپاٹائٹس ایک مہلک مرض |
|
Posted On Thursday, January 15, 2015 …..جویریہ صدیق……
پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے کیس تیزی سے سامنے آرہے ہیں ۔پاکستان جہاں پر صحت و صفائی کے اصولوں پر عمل کا فقدان نظر آتا ہے وہاں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ہیپاٹایٹس یعنی سوزش جگر ایک ایسی بیماری ہے جو کہ وائرس کی وجہ سے جگر پر حملہ آور ہوتی ہے ۔اس کی پانچ اقسام ہیں ۔
ہیپاٹائٹس اے
ہیپاٹائٹس بی
ہیپاٹائٹس سی
ہیپاٹائٹس ڈی
ہیپاٹائٹس ای
اس بیماری کے ہونے کی سب سے بڑی وجہ گندا پانی ،بازار کا مضر صحت کھانا،استعمال شدہ طبی آلات کا استعمال، متاثرہ انتقال خون سے اور متاثرہ شخص کی رطوبت کسی صحت مند انسان میں منتقل ہوجائے، یہ ہیپاٹائٹس پھیلنے کا سبب ہے۔
اگر سب سے پہلے بات کی جائے سوزش جگر کی پہلی قسم کی تو ہیپاٹائٹس اے صحت صفائی کے اصولوں کا خیال نا رکھنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔اگر رفع حاجت کے بعد ہاتھ نا دھوئے جائیں اور صابن کا استعمال نا کیا جائے تو جراثیم آسانی سے ہاتھ کے ذریعے سے پیٹ میں چلے جاتے ہیں۔اس کی ابتدائی علامات میں بخار،قے،پیٹ درد اور یرقان کا ہونا شامل ہے۔طبیعت بوجھل محسوس ہوتی ہے اور بھوک ختم ہوجاتی ہے۔مریض کا فضلہ بھی اس مرض کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس بیماری سے بچنے کے لیے ضروری ہے علامات ظاہر ہونے پر فوری طور پر معالج سے رجوع کیا جائے ۔بازار کے کھانے سے اجتناب کیا جائے۔منرل واٹر پیا جائے اگر وہ خرید سے باہر ہو تو ابالا ہوا پانی مریض کو دیا جائے۔کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ اچھی طرح دھوئے جائیں اور پھل سبزیوں کو بھی دھو کر استعمال کیا جائے۔بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے سے اس بیماری کی تشخص کی جاتی ہے۔معالج کی تجویز کردہ ادویات سے اس کو کنٹرول کیا جاتاہے۔یہ مرض چند دن بعد چلا جاتا ہے اس دوران پانی زیادہ پیا جائے،جوس لیے جائیں تاکہ پانی کی کمی جسم میں نا ہو۔اس کے لیے ویکسین بھی دستاب ہے جس کے باعث اس بیماری سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
ہیپاٹایٹس بی وہ قسم ہے جس کی وجہ سے سالانہ دس لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔یہ متعدی مرض ہے اور پاکستان میں جگر کے سرطان ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہیپاٹایٹس بی ہے۔ہیپاٹایٹس بی کے پھیلنے کی بڑی وجہ استعمال شدہ سرنج کا استعمال کرنا، جراثیم آلود طبی آلات کا استعمال ،متاثرہ شخص کے ساتھ جنسی ملاپ،متاثرہ خون سے،متاثرہ حاملہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے ،پارلرز اور باربرز کے جراثیم آلود اوزاروں سے،جراثیم سے پاک نا کیے جانے والے آلات سے ناک کان چھیدوانے اور ٹیٹوز بنوانے سے،دانتوں کے علاج میں جراثیم سے پاک آلات جراحی نا استعمال کرنے سے پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔اس بیماری کی علامات دیر سے ظاہر ہوتی ہیں جو ہوتی ہیں ان میں فلو کا ہونا،تھکاوٹ،ہلکا بخار،سردرد،معدے میں درد،پیٹ میں درد ،جوڑوں میں درد،بھوک کا نا لگنا،پیشاب کی رنگت کا تبدیل ہوجانا،آنکھوں کا رنگ پیلا ہوجانا شامل ہے۔ان علامات کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے ایک بلڈ ٹیسٹ سے اس مرض کی تشخص ہوجاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ لیور کی بایوپسی بھی کی جاتی ہے تاکہ یہ بھی تشخص کی جا سکے کہ بیماری نے جگر کو کس حد تک متاثر کیا ہے۔اس سے بچائو کے لیے ضروری ہے کہ ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ مریضوں کا علاج کرتے وقت ،آلات جراحی استعمال کرتے وقت،خون کے ٹیسٹ کے وقت اپنی حفاظت یقنی بنائیں۔خون کی صفائی کے عمل سے گزرنے والے اور تھیلسمیا میں مبتلا افراد اس بیماری کا زیادہ شکار ہوجاتے ہیں اسپتال ان مریضوں کی حفاظت یقینی بنائے کہ انہیں آلات اور مشینوں سے جراثیم منتقل نا ہوں۔ہمیشہ ڈسپوزبل سرنج استعمال کی جائے۔خون ہمشہ معیاری بلڈ بینک سے لیں۔ہیپاٹایٹس بی سے بچنے کے لیے ویکسین دستیاب ہے اس کا کورس کیا جائے۔بچوں کو حفاظتی ٹیکہ جات میں اب ہیپاٹایٹس سے بچائو کی ویکسین بھی لگائی جاتی ہے۔
ہیپاٹایٹس سی کی بات کی جائے تو یہ بھی جگر کو متاثر کرتا ہے اور اگر یہ بڑھ جائے تو جگر کے کینسر کا باعث بنتا ہے۔اس کی علامات بھی دیر سے ظاہر ہوتی ہیں۔اس کی علامات میں بھی تھکاوٹ،جوڑوں میں درد ، پیٹ میں درد،جسم پر خارش اور زخم،گہرے رنگ کا پیشاب آنا اور یرقان کا ہونا۔اس کے پھیلنے کی بڑی وجہ میں کسی ایسے شخص کا خون لگ وا لینا جو اس مرض سے متاثرہ ہو۔جراثیم آلود طبی آلات کا استعمال،متاثرہ سرنج،متاثرہ شخص سے غیر محفوظ جنسی تعلق اورنشہ کرنے والے افراد اس کا بڑی تعداد میں شکار ہوجاتے ہیں۔ہیپاٹایٹس سی وائرس ٹیسٹ کے ذریعے سے اس بیماری کی تشخص کی جاتی ہے۔ادویات کے ذریعے سے اس کا علاج ممکن ہے۔تاہم صرف معالج کی ہی تجاویز پر عمل کیا جائے۔اپنے رشتہ داروں کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسی تمام اشیا جن پر متاثرہ شخص کا خون یا رطوبت لگی ہو اس کو احتیاط سے تلف کیا جائے کوئی بھی ان کی ذاتی استعمال کی اشیاء برش،نیل کٹر ،قینچی وغیرہ استعمال نا کرے۔اس بیماری میں مبتلا لوگ اپنا خون اور اعضاء عطیہ نا کریں۔ہیپاٹایٹس سی کے لیے ویکسین دستیا ب نہیں۔
ہیپاٹایٹس ڈی کا شکار زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو پہلے سے ہیپاٹایٹس بی ہو۔اگر ایسا ہو جایے تو یہ بیمار کو بے حد پیچیدہ کر دیتا ہے۔تاہم اگر ہیپاٹایٹس بی کی ویکسین لگوائی گئی ہو تو یہ ہیپاٹایٹس ڈی سے بھی بچاتی ہے۔اس کی علامات میں بھی فلو،درد،متلی ہونا،بھوک کا کم لگنا،پیٹ میں درد،یرقان شامل ہے۔
ہیپاٹایٹس ای کے پھیلنے کی بڑی وجہ آلودہ پانی اور بازار کا کھانا ہے۔ہاتھ دھوئے بغیر کھانا بنانا اور ہاتھ دھوے بنا کھانا کی وجہ سے یہ زیادہ پھیلتا ہے۔غیر محفوظ انتقال خون ،تعلقات اور متاثرہ انسان کی رطوبت بھی اس کے پھیلائو کا ذریعہ ہے۔اس کی علامات میں شدید تھکاوٹ ،وزن میں کمی،بھوک میں کمی،یرقان،جگر میں درد،بخارشامل ہے۔ڈاکٹر سے علاج اور ادویات کے ساتھ ساتھ مکمل آرام کیا جائے ادویات کا استعمال کیا جائے ۔متوازن غذا کا استعمال کیا جائے۔پانی کا استعمال زیادہ کیا جائے اور تازہ پھل کے جوسز۔منشیات اور شراب نوشی کا استعمال ترک کردیا جائے۔
ہیپاٹایٹس اے اور ای ناقص غذا، آلودہ پانی کی وجہ سے پھیلتا ہے اور اس کے تدارک کے لیے ہمیں صابن سے ہاتھ دھونے کی عادت کو اپنا ضروری ہے۔سفر پر جانے سے پہلے ہیپاٹایٹس اے کی ویکسن کا کورس کرلیں تاکہ باہر کے کھانوں اور پبلک ٹوائلٹ سے پھیلنے والے والے جراثیم سے بچا جاسکے۔کھانا اچھی طرح پکا کر کھایا جائے کچے گوشت سے پرہیز کیا جائے۔بچوں کی نیپی تبدیل کرنے کے بعد لازمی ہاتھ دھوئے جائیں۔پانی ہمیشہ ابال کر پیا جائے۔ہیپاٹایٹس بی ،سی اور ڈی سے بچائو کے لیے خون اور جسمانی رطوبت سے بچا جائے۔ اس کے علاوہ ذاتی استعمال کی اشیاء ریزر،شیونگ کا سامان،ٹوتھ برش کسی کے ساتھ شیر نہیں کیا جائے۔ہیپاٹایٹس بی کی ویکسین لگوائی جائے۔مکمل پاک آلات سے ناک یا کان چھیدوایا جائے۔اگر متاثرہ خاتون حاملہ ہے تو باقاعدگی سے ڈاکٹر کو معائنہ کروائے تاکہ بچے کو اس بیماری کے اثرات سے بچایا جائے۔انجکشن کے بجائے ادویات کا استعمال کیا جائے۔محفوظ تعلقات کے طریقے اپنائے جائیں کیونکہ متاثرہ شوہر سے یہ بیماری بیوی کو ہوجاتی ہے اور بیوی متاثرہ ہے تو یہ شوہر کو ہونے کا بھی امکان ہے۔دانتوں کے علاج کے لیے ہمیشہ ماہر ڈاکٹر کے پاس جایا جائےکیونکہ دندان ساز بھی اس بیماری کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اگر ان کے آلات اسٹرلائز نا ہوں تو یہ بیماری کو پھیلا دیتے ہیں ۔اگر ہیپاٹایٹس کو ابتدائی مرحلے میں نا روکا جائے تو آگے چل کر یہ جگر کے سرطان کا باعث بن جاتا ہے دیگر یہ کہ جگر فیل ہوسکتا ہے،پیٹ میں پانی بھر سکتا ہے اس لیے علاج میں بالکل تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10578#sthash.MebGZqoM.dpuf