|
Posted On Sunday, May 17, 2015 …..جویریہ صدیق…..
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات نے بہت سے خوبصورت چہرے ذہین فطین انسان ہم سے چھین لیے۔ایسی بہت سی کلیاں وقت سے پہلے ہی مرجھا گیں جنہیں تو ابھی گلستان میں مہکنا تھا۔ دہشت گردی نے ہمارے چمن کو خزاں آلود کر رکھا ہے۔ہر روز بہت سے پاکستانیوں کو لرزہ خیز دہشت گردی کے واقعات میں جاں بحق ہونے کے بعد منوں مٹی تلے دفنا دیا جاتا ہے۔ مٹی تلے جانے والے شخص کے ساتھ اس کا خاندان بھی زندہ درگور ہو جاتاہے۔ جسم سے روح صرف اس شخص کی نہیں نکلتی جو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کا سارا خاندان بھی ایک زندہ لاش کی صورت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتاہے۔کیونکہ کوئی بھی پیارا اتنی اچانک اور تکلیف دہ موت کے بعد ساتھ چھوڑ جائے تو لواحقین کے لیے بھی زندگی سے دلچسپی اور پیار ختم ہو جاتا ہے۔وہ جیتے ہیں اس لیے کہ سانس چل رہی ہے۔
16 دسمبر سانحہ آرمی پبلک سکول اور کالج کو پورے پانچ ماہ مکمل ہوگئے جس میں کم عمر بچے اور ان کے استاتذہ کو طالبان نے اپنی بربریت کی بھینٹ چڑھا دیا۔جو بچے حصول علم کے لیے اپنی درسگاہ گئے تھے لیکن زندہ واپس نا لوٹ سکے۔گئے تو یونیفارم میں تھے لیکن واپس آئے کفن میں۔مائوں کے چاند مائوں کے پھول گئے تو مامتا کی آغوش سے نکل کر تھے لیکن واپس ملے تواتنی گولیاں پیوست تھی کہ بیان سے باہر۔ہنستے بولتے خوبصورت بچے اور ان کے استاد ابدی نیند سو گئے۔ان سب نے اپنی جانیں وطن عزیز پر قربان کردیں اور پاکستان کی تاریخ میں امر ہوگے۔
افعت اقبال آرمی پبلک کالج گرلز برانچ میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ان کے بیٹے محمد زین اقبال نے16 دسمبر کو سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔افعت اقبال کہتی ہیں زین کیا گیا میرے گھر سے رونق ہی چلی گی نا ہی اب یہاں کوئی ہنستا ہے اور ہر طرف خاموشی ہے۔زین اقبال شہید سیکنڈ ایئر پر ی میڈیکل کا طالب علم تھا۔میرا بیٹا کے جی سے سیکنڈ ایئر تک آرمی پبلک اسکول و کالج میں زیر تعلیم رہا۔آنکھوں میں ایک خواب تھا کہ ڈاکٹر بننا ہے۔ اسکول میں ہر کلاس میں پوزیشن لی اور بورڈ میں بھی ٹاپ کیا۔گذشتہ رمضان اعتکاف میں بیٹھا۔لیکن دہشت گردوں نے مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا۔16 دسمبر کو زین کا کیمسٹر ی کا پرچہ تھا،وہ بیالوجی لیب میں اپنا پیپر دے رہا تھا اور اس ہی دوران دہشت گرد نے حملہ کر ڈالا۔میرا بیٹا چلا گیا ،میرا زین چلا گیا ۔اس کے بعد سے اب زندگی سے اعتبار سا اٹھ گیا ہے۔مجھے اب مرنے کا خوف نہیں رہا مجھے اب موت سے ڈر نہیں لگتا۔
زین کی صبح کا آغاز میرے ساتھ ہوتا تھا جس ڈریسنگ ٹیبل پر میں تیاری ہوتی تھی خود بھی وہ وہاں تیار ہوتا بار بار مجھےگلے لگتا۔کبھی مجھے چومتا۔میں جب بھی اسکو دیکھتی تو سوچتی یہ کتنا شفیق اور رحم دل ڈاکٹر بنے گا۔زین خود گاڑی چلاتا اور مجھے بھی کالج ڈراپ کرتا، اس کے بعد ورسک روڈ آرمی پبلک سکول و کالج چلا جاتا۔صبح بھی اس کے پاس بہت سی باتیں ہوتی تھیں اور کالج واپسی سے تو بس شام تک اس پاس بہت سی باتیں جمع ہوتی صرف مجھ سے شیئر کرنے کے لیے وہ میرا بیٹا نہیں میرا دوست بھی تھا۔زین کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ فٹنس کا بھی بہت شوق تھا ،وہ ہر روز ورزش کرتا تھا، زرا سا وزن زیادہ ہو جاتا تو فوری تو طور پر ڈائٹنگ شروع کر دیتا ۔ہر چیز میں وہ سب سے آگے تھا اس لیے موت بھی اس کی غیر معمولی آئی اور شہید ہوکر اس نے اپنی جان پاکستان کے لیے قربان کردی۔
ابھی پورے پاکستان نے مائوں کا عالمی دن منایا لیکن میں یہ دن نہیں منایا کیونکہ میرا بیٹا جو ہر مدرز ڈے پر مجھے پھول دیتا تھا کارڈز بنا کر دیتا تھا، وہ اس بار میرے ساتھ نہیں تھا ۔ہم زندگی گزر رہے ہیں اس لے کیونکہ سانس چل رہی ہے لیکن جی نہیں رہے۔حکومت نے ہماری داد رسی نہیں کی بس کچھ کام دنیا دکھاوے کے لیے کردئیے ہیں۔ مشکل کی گھڑی میں ہمیں بالکل تنہا چھوڑے رکھا۔کوئی امداد دینے کی بات کررہا تھا تو کوئی اسکول کے نام تبدیل کرنے کی بات کرتا رہا۔پر ہم سب ایک حقیقی ہمدردی سے محروم رہے۔میں خیبر پختون خواہ کے حکمرانوں اور عمران خان سے کہنا چاہتی ہوں اپنے بچوں کو واپس لائیں انہیں بھی خیبر پختون خوا کے تعلیمی اداروں میں داخل کروائیں ۔تاکہ انہیں احساس ہو کہ عوام کس قسم کی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔اب بھی بچے خوف کے سائے تلے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ان کی شخصیت پر اس کے کیا اثرات کیا پڑیں گے حکمران اس سے واقف نہیں۔
افعت اقبال کہتی ہیں کہ میرا بیٹا زین میرا سب سے اچھا دوست اس دنیا سے چلا گیا میرے لیے اس دنیا میں کوئی کشش نہیں لیکن میں چاہتی ہوں کہ باقی سب بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت فوری طور پر اقدام کرے۔میری اس قوم کی مائوں سے بھی التجا ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت پر بہت دھیان دیں، ماں کی اولاد کی تربیت میں غفلت کا خمیازہ پوری قوم بھگتی ہے۔میں نے اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانا چاہا ،اس پر دن رات محنت کی لیکن منزل کہ قریب آکر ایک ایسی ماں کا بیٹا جس کی ماں نے اسکی تربیت میں کوتاہی برتی مجھ سے اور اس قوم سے ایک قابل اور سنہرے مستقبل والے بچے کو چھین لیاگیا۔دہشت گرد بھی ایک ماں کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور ایک ڈاکٹر بھی اس قوم کی مائوں کو دیکھنا ہوگا کہ ان بچوں کی کیا سرگرمیاں ہیں کہیں وہ کسی ملک دشمن عناصر کی برین واشنگ کا شکار تو نہیں ہوگیا۔ماں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اس بچہ کیا پڑھ رہا کس کے ساتھ اٹھ بیٹھ رہا ہے۔
مجھے وفاقی اور صوبائی حکومت نے مایوس کیا ،اگر صدر ،وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ ہماری حفاظت کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے، دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی نہیں کراسکتے تو مستعفی ہوجائیں۔میرے بیٹا اگر زندہ ہوتا تو بہت قابل ڈاکٹر بنتا لیکن مجھے فخر ہے کہ وہ شہید ہوا اس کا لہو اس وطن کے لیے بہا ۔دہشت گردی سے نڈھال عوام کے لیے بہت سے اقدامات کی فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے بچوں کے قاتلوں کو سخت سزا دی جائے۔حکومت اس حادثے سے متاثر ہونے والے خاندانوں کی ذہنی نفسیاتی صحت کی بحالی کے لیے مستقل بنیادوں پر کام کرے۔ میری گزارش ہے کہ 16 دسمبر کو عام تعطیل ہونی چاہیے اور نصاب میں بھی ان بچوں اور ان کے استاتذہ کی قربانی اسباق کو شامل کرنا چاہیے۔شہدا آرمی پبلک سکول اور کالج کی شہدا کی یادگار تعمیر کی جائے تاکہ ان کی قربانی کو تا قیامت پاکستان کے لوگ یاد رکھیں۔میرا بیٹا میرا خواب تھا میرا خواب کی تعبیر سے پہلے ہی اس توڑ دیا گیا ۔ حکومت اور آرمی دہشت گردوں کا خاتمہ کرے تاکہ پھر کوئی ماں یہ دن نا دیکھے۔ – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10847#sthash.GwYJB2Nk.dpuf