Posted in Uncategorized

پہلے تولو پھر بولو

 

Posted On Saturday, July 25, 2015
…..جویریہ صدیق……
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے دھاندلی الزامات کی سیاست کے غبارے سے ہوا نکال دی،رپورٹ آنے کے بعد نواز شریف ایک طاقت ور وزیراعظم کے طور پر ابھرے ہیں،جبکہ تحریک انصاف کو اخلاقی طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دو سال سے تحریک انصاف دھاندلی اور الزامات کی سیاست میں مصروف تھی،2013کے الیکشن ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو پوری امید تھی کہ وہ الیکشن جیت کر وزیراعظم بن جائیں گے،پر قسمت کو کچھ اور منظور تھا اور مسلم لیگ ن کو فتح نصیب ہوئی اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بن گئے،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان سیاست میں بھی اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے، لیکن ایسا نہیںہوا، وہ شکست کو قبول نہیں کر پائے اورحکومت کے خلاف جلسے شروع کردیئے اور 14 اگست 2014 سے 126 دن طویل دھرنے کا آغاز کردیا۔

دھرنوں میں ہر روز الزام تراشیاں کبھی سول نافرمانی پر اکسایا گیا،دھرنے میں کارکنان نے پارلیمنٹ ہائوس کا دروازہ توڑ دیا کچھ کارکنان نے پی ٹی وی پر حملہ کرڈالا،پھر تحریک انصاف کے اراکین نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا، گیلی شلواریں ،بزدل اور چور اس طرح کے نازیبا الفاظ سیاسی مخالفین کے لیے بولے گئے، یہ سیاہ باب جمہوری تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا،عمران خان روز انقلاب کی تاریخیں دیتے رہے لیکن 126 روز گزر گئے انقلاب نہیں آیا،آتا بھی کیسے انقلاب عوام انقلاب لاتے ہیں امپائر نہیں۔

عمران خان صاحب نے جو35 پنکچر کو بنیاد بنا کر2013کے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا، وہ بھی ایک جھوٹ نکلا، خان صاحب نے کہا مجھے سیمسن شرف نے 35 پنکچر کا بتایا،سیمسن شرف نے کہا عمران خان نے بنا تحقیق کے ٹویٹ کردیا،مجھے اعجاز حسین نے مرتضیٰ پویا کے گھر بتایا،جب امریکی سفیر وہاں کھانے پر وہاں مدعو تھے،مرتضیٰ پویا نے کہا میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں اور امریکی سفارت خانے سے بھی تردید آگئ،تاہم ایک سنی سنائی من گھڑت بات پر عمران خان اور ان کی جماعت کے لوگوں نے سابق نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب اور سینئر صحافی نجم سیٹھی پر الزامات کی بو چھاڑ کردی۔

بات صرف یہاں ختم نہیں ہوئی جیو ٹی وی پر بھی دھاندلی کا الزام عائد کردیا۔عمران خان نے اپنے کارکنان کو جنگ جیو گروپ کے خلاف اکساتے رہے،تحریک انصاف کے کارکنان نے جیو اور جنگ سے وابستہ صحافیوں کا جینا دوبھر کردیا۔

عمران خان نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر الزام عائد کیا کہ وہ بھی دھاندلی کے ذمہ دار ہیں،تاہم جوڈیشل کمیشن میں ان کا نام نہیں لیا،بات یہاں نہیں ختم ہوئی، فخر الدین جی ابراہیم اور جسٹس ر خلیل الرحمٰن رمدے پر بھی الیکشن میں دھاندلی کروانے کا الزام عائد کیا،تاہم تحریک انصاف ثبوت دینے سے قاصر رہی،بیشتر باتیں صرف جھوٹ تھیں۔

دھرنوں میں بہت سے الزامات لگائے گئے بہت سی شخصیات کی تمسخر اڑایا گیا لیکن تحریک انصاف نے جوڈیشل کمیشن میں اس کے حوالے سے بھی شواہد دینے میں قاصر رہی، اگر تحریک انصاف کے جوڈیشل کمیشن میں پیش کرنے کے لیے کوئی ثبوت ہی نہیں تھے تو 126 دن کا دھرنا کس بات کے لیے دیا تھا،کیا عمران خان ایک جمہوری جماعت کے سربراہ ہوتے ہوئے بھی جمہوریت پر شب خون مارنا چاہتے تھے،کون تھا دھرنوں کا ماسٹر مائنڈ کہاں سے آئی اتنی فنڈنگ کہ جس میں ایک ڈی جے کا ہی بل کروڑوں کا ہو تو باقی دھرنے کے اخراجات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

16 دسمبر کے پشاورسانحے کے بعد تحریک انصاف پر دبائو بڑھ گیا تھا کہ دھرنا ختم کرکے اپنے حکومتی صوبے میں کام کرے جو کے دھرنے جلسوں کی وجہ سے یکسر نظر انداز ہورہا تھا،تاہم16 دسمبر کے بعد بھی پی ٹی آئی کی توجہ چار حلقوں ،35 پنکچر پر رہی،باہمی مشاورت کے بعد جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ، تاہم پی ٹی آئی اہم ثبوت پیش میں ناکام رہی،جوڈیشل کمیشن نے منظم دھاندلی اور عوام کا مینڈیٹ چرانے کا الزام یکسر مسترد کردیا۔

یہ رپورٹ منظر عام پر آتے ہی ن لیگی کارکنان میں خوشی کی لہر دوڑ گئ،جب کہ تحریک انصاف کے کارکنان نے اس موقع پر سوشل میڈیا پر معزز عدلیہ کے خلاف پوسٹس شیئر کروانا شروع کردیں۔

یہ کیسا رویہ ہے جب عمران خان نے کھلے دل کے ساتھ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو قبول کرلیا ہے تو ان کے سوشل میڈیا ٹیم کو بھی اس بات کو فالو کرنا چاہیے،انفرادی پوسٹ تو کوئی بھی کرسکتا ہے لیکن ایک منظم سوشل میڈیا ٹرینڈ صرف پارٹی کے اعلیٰ عہدیدار کے ایما پر بن سکتا ہے،اس لیے عمران خان اپنے سوشل میڈیا ونگ کے لیے بھی کچھ ضابطہ اخلاق ترتیب دیں. جھوٹا پروپیگنڈہ بہت دن تک نہیں چل سکتا سچ ایک دن سامنے آجاتا ہے۔

نواز شریف تو ایک فاتح کی طرح تقریر کرگئے ہیں، انہوں نے نرم لہجے میں دوسال کی باتوں کو فراموش کرنے کا عندیہ دیا ہے،اب بال پی ٹی آئی کے کورٹ میں ہے کہ وہ اب بھی الزامات شکست کا بوجھ ساتھ لے کر چلیں گے یا پھر اب عوامی خدمت پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔اس کے ساتھ ساتھ عوام اس بات کی بھی منتظر ہے کہ پی ٹی آئی ہر اس شخص سے معافی مانگے جس پر ان دوسالوں میں الزامات عائد کئے گئے،تحریک انصاف کو اب جمہوری طریقے سے پارلیمان میں بیٹھ کر عوام کی فلاح بہبود پر کام کرنا چاہیے،اگر عوام کے لیے کام کریں گے تو عوام خود ہی ووٹ دے کر حکومت سے نواز دے گی یہ امپائر کی انگلی کب دھوکہ دے جائے کیا معلوم جمہوری پارٹی کے لیڈر کے لیے یہ سب مناسب نہیں کہ حکومت حاصل کرنے کے لئے غیر جمہوری طاقتوں کا سہارا لیے،اس سب دھرنا تماشہ سے ایک بات تو کھل کر سامنے آئی پہلے تولو پھر بولو ورنہ بعد میں پشیمانی ہوگی۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang

twitter@javerias

Posted in Uncategorized

ون ویلنگ ، جان لیوا تفریح

Posted On Thursday, July 23, 2015
……جویریہ صدیق…..
اکثر فلموں میں ہوتا ہے کہ ہیروئین ولن کے نرغے میں ہو تو ہیرو موٹر سائیکل پر کئی فٹ رکاوٹیں عبور کرتا ہوا آتا ہے پھر زمین پر موٹر سائیکل گول گھما کر خوب اسٹائل کے ساتھ سارے غنڈوں کو مار گراتا ہے اور ہیروئین کو بچا کر لے جاتا ہے،لیکن ایسا صرف فلموں میں ہی ممکن ہے کہ موٹرسائیکل کو لیے کئی فٹ کی چھلانگ لگالی، چلتی ہوئی بس کے نیچے سے موٹرسائیکل گزار دی، ایک ہاتھ سے موٹر سائیکل بھی سنبھالی ہوئی ہے، دوسرے ہاتھ سے دشمنوں کی دھلائی، فلموں میں یہ سب سین ماہر انسٹرکٹرز کی نگرانی میں فلمائے جاتے ہیں۔فلمساز کی یہ کوشش ہوتی ہے کسی بھی انسان کو خطرے میں ڈالے بنا بہترین ایکشن سین فلمائے جائیں تاکہ شائقین کی داد وصول کی جائے۔

یہ ہی ایکشن فلمز دیکھ دیکھ کر نوجوان لڑکے بھی خود کو ہیرو سمجھنے لگ جاتے ہیں.بیشتر کو یہ معلوم نہیں کہ فلم انڈسٹری کے بڑے بڑے ہیرو بھی ایکشن سین سے کتراتے ہیں اور ان کی یہ سین ڈپلیکیٹ آرٹسٹ کرتے ہیں، تاہم نوجوان لڑکے فلموں کو ہی حقیقت سمجھ کر موٹرسائیکل لے کر گھر سے نکلتے ہیں اور یہ ہی ہیرو گیری ان کی جان لے جاتی ہے یا عمر بھر کی معذوری دے جاتی ہے،عید کے روز سے اب تک چار سو سے زائد زخمی لڑکوں کو اسلام آباد کے مختلف اسپتالوں میں لایا گیا ہے،یہ سب ون ویلنگ کے نتیجے میںاسپتال پہنچے۔ پمز اسپتال کے ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ کے مطابق30 لڑکوں کی حالت تشویشناک ہے۔

اب عید پر اس موت کے کھیل کا کیا جواز بنتا ہے ماں باپ ایک، ایک روپیہ جوڑ کر اپنے بیٹے کو موٹرسائیکل دلاتے ہیں کہ ان بچے کو تعلیمی ادارے تک جانے میں تنگی نا ہو،پر بچے اپنے والدین کی طرف سے دی جانے والی اس سہولت کا غلط استعمال کرتے ہیں جوکہ ان کی جان کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی خطرہ ہے۔یہ نوجوان لڑکے گروہ کی صورت میں اچانک شاہراہوں میں آکر مقابلہ شروع کردیتے ہیں کوئی لیٹ کر موٹرسائیکل چلاتا ہے تو کوئی فرنٹ ویل کو ہوا میں کرکے یہ ہی سب کرتب دیکھاتے ہوئے توازن بگڑنے پر یا تو سڑک پر جا گرتے ہیں یا پھر کسی گاڑی کی زد میں آجاتے ہیں۔

اگر ہیلمٹ پہنا ہو تو پھر بھی بچت ہوجاتی ہے، لیکن بحیثیت قوم ہم قانون شکنی کو فیشن سمجھتے ہیں تو اس لیے اکثر ون ویلنگ والے منچلے ہیلمٹ بنا ہی کرتب دیکھاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوتے ہیں،سر زمین پر لگتا اور اس ہیڈ انجری کے باعث فوری طور پر موت ہوجاتی ہے،اگر خوش قسمتی سے جان بچ بھی جائے تو ہاتھ بازو یا ٹانگ تو ضرور ٹوٹ جاتی ہے۔

کبھی ان خود سر نوجوان لڑکوں نے سوچا ہے کہ ان کی اس حرکت کا ان کے خاندان پر کیا اثر پڑتا ہے ماں باپ کتنے ارمان سے یہ سواری خرید کر دیتے ہیں کہ بیٹا محنت کرکے کچھ بن کر دکھائے گا لیکن یہ ہی بیٹے ون ویلنگ کی وجہ سے ہونے والے حادثے میں عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں،مہنگا علاج ادویات ماں باپ پر مزید بوجھ ڈال دیتی ہیں۔

کچھ داد و تحسین سمیٹنے کے لیے کچھ فیس بک اپ لوڈز کے لیے لڑکے ون ویلنگ کرتے ہیں اور موت کا یہ کھیل صرف ان کو ہی نہیں ان کے خاندان کو بھی تباہ کرجاتا ہے،اکثر لڑکے ون ویلنگ کرتے وقت جب کسی گاڑی کی زد میں آتے ہیں تو وہ شخص خواہ مخواہ میں پھنس جاتا ہے جو گاڑی چلا رہا ہے،حالانکہ قصور صرف ون ویلنگ کرنے والا کا ہوتا ہے جو یہ کرتب کسی میدان میں کرنے کے بجائے شاہراہ پر کرتا ہے اور سب کی جان خطرے میں ڈالتا ہے۔

حکومت اور ٹریفک پولیس ون ویلنگ پر سخت پابندی عائد کرے،خلاف ورزی کرنے والے کے لیے سزا اور جرمانہ دونوں عائد کیےجائیں۔نوجوانوں کے لیے مختلف کھیلوں کو فروغ دیا جائے تاکہ وہ اپنا فارغ وقت مثبت سرگرمیوں میں گزاریں،اس کے لیے مزید پارکس کھیلوں کے میدان کی تعمیر نا گزیر ہے،اگر ہم اپنے قوم کے نوجوانوں کو اچھی اور سستی تفریح فراہم کریں گے تو بہت حد تک ون ویلنگ جیسی خرافات میں سے یہ نکل آئیں گے،اس کے ساتھ ساتھ والدین بھی بچوں پر نظر رکھیں اور ون ویلنگ جیسی خونی تفریح کی حوصلہ شکنی کریں۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

twitter @javerias

Posted in Uncategorized

عید اور سیاسی قیادت کی بے حسی

Posted On Tuesday, July 21, 2015
…..جویریہ صدیق…..
عوام جنہیں ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں تو پھر یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان ترقی اور فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ ان کی غمی خوشی میں بھی ان کا ساتھ دیں گے۔ پہلے یہ ہی ہوتا ہے کہ بہت سے عوامی نمائندے کھلی کچہری لگاتے تھے اور عید کے تہوار پر عوام الناس کے لیے اپنے گھر کے دروازے کھول دیتے تھے۔ پر دہشت گردی کے واقعات نے حکمرانوں اور عوام کے درمیان ایک وسیع فاصلہ قائم کردیا۔ حکمرانوں اور دیگر سیاستدانوں نے تو جدید سیکورٹی کا سہارا لے کر خود اپنی حفاظت تو یقنی بنالی لیکن عوام دہشت گردوں کا تر نوالہ بنتے رہے۔ مہنگی بلٹ پروف گاڑیوں کے ساتھ بیس،تیس پروٹوکول کی گاڑیوں اور سینکڑوں سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ سفر کرنے والے سیاست دانوں سے کوئی غریب ملنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا ہے۔ اگر کوئی سائل آگے بڑھنے کی کوشش بھی کرے، اپنا مدعا بیان کرنا بھی چاہے تو سیکورٹی اہلکار اس کو رسک سمجھ کر مار پیٹ کرتے ہیں اور فوری طور پر منظر سے ہٹا دیتے ہیں۔ اکثر اوقات بات غریب کو تھانے میں بند کرنے تک جاکر ختم ہوتی ہے۔

ووٹ مانگتے وقت تو سیاستدان ہر طرح کا پروٹوکول توڑ کر عوام میں گھل مل جاتے ہیں لیکن حکمرانی ملتے ہی اسی عوام میں گھلنے ملنے سے کتراتے ہیں کہ سیکورٹی رسک ہے، ہمیں دہشت گردوں نے دھمکیاں دے رکھی ہیں،عوام اپنے دکھ، کرب، اپنی تکلیفات کبھی بھی حکمرانوں کے اونچے محلات کے اس پار تک نہیں پہنچا پاتے۔اس بار عید الفطر کو پاکستان کے عوام نے آرمی پبلک سکول کے ننھے شہداء اور ان کے عظیم اساتذہ کے نام کیا۔سرکاری طور پر اس کا اعلان نہیں ہوا لیکن عوام نے خود اپنے بہن بھائیوں کا درد محسوس کرتے ہوئے عید پر شہداء کو یاد کیا،تاہم سرکاری سطح پر وہی روایتی بے حسی اور مجرمانہ سکوت چھایا رہا۔ عوام منتظر رہے کہ حکمران یا اپوزیشن لیڈرز میں سے کوئی تو آئے گا جو ان کے ساتھ عید کی نماز پڑھے گا، ان کو گلے لگائے گا، ان کے آنسو پونچھے گا، پر ایسا کوئی بھی درد دل رکھنے والا سیاست دان نہیں آیا۔ فیس بک اورٹویٹرپر سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیمز نے سانحہ آرمی پبلک سکول کے لواحقین کے لیے تعزیتی پیغامات لکھ دیے،بس اور کچھ نہیں ایک دوسرے کو نیچا دیکھنے کے لیے ٹرینڈ بھی بنا دیئے، پروفائل تصاویر بھی تبدیل کرلیں لیکن شہید بچوں کے والدین کو کسی نے گلے نہیں لگایا، تسلی نہیں دی، آنکھوں سے رواں آنسو نہیں صاف کئے، سر پر دست شفقت نہیں رکھا۔

صرف پشاور ہی کیا ملک کے دوسرے حصوں میں بھی دہشت گردی کی وجہ سے اپنی جان سے جانے والوں کے پیارے روتے رہے لیکن حکمرانوں اور انقلاب کے دعوے دار اپنی نجی مصروفیات میں مست رہے۔ سب سے پہلے بات ہو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف صاحب کی تو یہ تو حالت سفر میں ہی رہتے ہیں، کبھی ایک ملک، کبھی دوسرا ملک، پاکستان کے دورے پر تو کم ہی آتے ہیں۔ کہاں جلاوطنی میں ہر وقت شکوہ کنا ں رہتے تھے کہ وطن کی یاد بہت ستاتی ہے۔ اب جب اللہ نے دعائیں سن لیں، ان کو وطن واپس لے آئے، عوام نے ووٹ دے کر حکمرانی بھی دے دی تو ان کا دل پاکستان میں لگتا نہیں۔ عید کا دن انہیں اور خاتون اول بیگم کلثوم نواز کو آرمی پبلک سکول کے شہداء کے لواحقین کے ساتھ منانا چاہیے تھا، سانحہ صفورا، امامیہ مسجد اور شکار پور مسجد میں شہید ہونے والے افراد کے گھر والوں کے ان کے سر پر دست شفقت رکھ کر منانا چاہیے تھا، پر ایسا نہیں ہوا۔ وزیراعظم نواز شریف کو ضرب عضب کے پہلے جواں سال شہید کیپٹن آکاش ربانی کے گھر جانا چاہیے تھا، ان کے اہل خانہ کی عظمت کو سلام کرنا چاہیے تھا لیکن وزیراعظم کی نجی مصروفیات ملک سے زیادہ اہم ہیں، ملک کے عوام سے بڑھ کر ہیں۔

بات ہو ہر وقت انقلاب انقلاب کرنے والے عمران خان صاحب کی تو انہوں نے بھی مناسب نہیں سمجھا کہ ان کے صوبے میں دہشت گردی کے ستائے ہوئے عوام کے زخموں پر مرہم رکھا جائے یا سی ایم ایچ پشاور میں ضرب عضب میں زخمی ہونے والے فوجی افسران کی عیادت کی جائے۔ ایک ٹویٹ آئی ڈی پیز کے لیے دوسرا ٹویٹ شہدا آرمی پبلک سکول کے لیے کیا اور بس بات ختم۔ سارا رمضان اپنے ذاتی اسپتال کے لیے چندہ اکھٹا کیا، افطاریاں کیں لیکن شہدائے آرمی پبلک اسکول کے لواحقین کو ایک بار بھی ن پوچھا۔کہیں تعزیت کرنے جانا ہو تو یہ بھی بہانہ تیار ہوتا ہے کہ موسم کی خرابی کے باعث فلائی نہیں کرسکے۔ ان ہی کے جماعت کے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نے پوپلزئی صاحب کے ساتھ عید کرلی جبکہ ان کے صوبے میں سیلاب سے متاثرہ لوگ امداد کے منتظر تھے۔ دیگر وزراء بھی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد میں رہے۔

بات ہو اگر پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی تو عید پر لندن روانہ ہوگئے، وہاں سے ویڈیو لنک پر سیلاب سے ڈوبے ہوئے پنجاب کا معائنہ کررہے ہیں۔جنوبی پنجاب میں سو سے زائد بستیاں زیر آب ہیں۔ کئی ایکڑ پر فصلیں تباہ ہوگئیں۔ تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب کی نجی مصروفیات اہم ہیں۔ خادم اعلیٰ لگتا ہے اس بار سیلاب کو ہی معطل کردیں گے جو ان کی گڈ گورننس کا پول کھولنے ہرسال آجاتا ہے۔ بات ہو مفاہمت کی سیاست کے چیمپئن سابق صدر آصف علی زرداری کی تو پورا رمضان ان کی پارٹی کے حکومتی صوبے میں لوگ گرمی اور لوڈشیڈنگ سے مرتے رہے لیکن یہ سامان اٹھا کر دبئی چلے گئے، اہم مشاورتی اجلاس جو کرنے تھے، عوام کی جان سے بڑھ کر اجلاس اہم ہوگئے۔ بزرگ وزیر اعلیٰ جب تک جاگےتو سندھ میں سینکڑوں افراد گرمی کے باعث جان کی بازی ہار چکے تھے۔ عید پربھی سندھ حکومت کے وزراء کو مرنےوالوں کے لواحقین کا خیال تک نہیں آیا۔

اس کے برعکس اگر اعلیٰ عسکری قیادت پر نظر ڈالی جائے تو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے شہدائے آرمی پبلک اسکول کے لواحقین کو افطار پر مدعو کیا، ان کے ساتھ وقت گزارا، ان کی اہلیہ بھی ان کے ساتھ موجود تھیں جو شہید بچوں کی ماؤں کو گلے لگا کر ان کا غم بانٹتی رہیں۔ آرمی چیف نے عید شمالی وزیرستان میں اگلے مورچوں پر سپاہیوں کے ساتھ منائی اور قیام بھی وہیں کیا۔ شمالی وزیرستان میں عمائدین سے بھی ملے۔ کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ نے عید سانحہ مستونگ کے شہداء کے لواحقین کے ساتھ منائی، بعد ازاں وہ اس بہادر چوکیدار طالب حسین کے گھر گئے جس نے ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی پر خودکش حملہ آور کو روکتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔کراچی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے عید کا روز سانحہ صفورا کے شہداء کے لواحقین کے ساتھ گزرا اور انہیں تسلی دی۔سانحے صفورا کی تحقیقات پر پیش رفت سے آگاہ کیا۔ ڈی جی رینجرز سندھ بلال اکبر نے بھی سرحدی علاقوں کا دورہ کیا۔

آرمی کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے، سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ حکومت کا کام انتظامی امور چلانا ہے۔ضرب عضب کے بعد سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی تو آئی لیکن دہشت گردوں نے اس آپریشن کا بدلہ عوام سے لینے کے لیے کچھ ایسے وار کئے جن کا درد آج بھی محسوس ہوتا ہے۔ آرمی پبلک اسکول میں ننھے پھولوں کو مسل دیا، امامیہ مسجد اور شکار پور مسجد میں دہشت گردی، سانحہ صفورا اور سانحہ مستونگ سب پاکستان کے قلب پر حملہ تھا۔ان تمام واقعات کے بعد اپنے پیاروں کے بنا لواحقین کی یہ پہلی عید تھی، تو پہلے کس کا فرض بنتا تھا لواحقین کی داد رسی کرنے کا؟ پہلا فرض وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کا بنتا تھا، اس کے بعد صدر پاکستان ممنون حسین کا، اس کے بعد تمام وزرائے اعلیٰ کا، پھر آصف علی زرداری اور عمران خان کا لیکن یہ تو صرف ذاتیات کی سیاست میں مصروف ہیں۔ ہر کسی کو اپنا مفاد پیارا ہے اور ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ کسی بوڑھی ماں کے آنسو صاف کرسکیں جس کا جوان بیٹا دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا،کسی بیوہ اور یتیم بچوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھ دیں جن کو دہشت گردوں نے ہر خوشی سے محروم کردیا۔

بس ٹی وی پر آکر حوصلے اور تسلی کے پیغامات دے دیتے ہیں یا پھر فون سے کوئی ٹویٹ یا فیس بک میسج کر کہ مشکل کی گھڑی میں ہم آپ کے ساتھ ہیں وغیرہ وغیرہ جیسے روایتی گھسے پٹے پیغامات ۔کیا خاک یہ لوگ عوام کے ساتھ ہیں، جن کے امریکا، برطانیہ، دبئی کے دورے نہیں ختم ہوتے۔ ایک طرف ان کی اہل و عیال لاکھوں کی شاپنگ کرتے ہیں تو دوسری طرف کہتے ہیں ہم عید نہیں منا رہے، کیا منافقت ہے یہ۔ منائیں عید لیکن جھوٹ تو نہ بولیں، عوام آنکھیں، کان سب رکھتے ہیں۔اگلی بار جب اس طرح کے لوگ ووٹ مانگتے آئیں تو عوام کو چاہیے انہیں ووٹ دینے کے بجائے ان ہی کی طرح یا تو فیس بک اسٹیٹس اپ لوڈ کرلیں یا ٹویٹ کردیں، ووٹ اس شخص کو دیں جس کی سیاست اس کی ذات نہیں عوام کے گرد گھومتی ہو، جو خدمت خلق کاجذبہ رکھتا ہو۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang Twitter @javerias

Posted in Uncategorized

پنکچر کی سیاست35

 

Share
Posted On Sunday, July 05, 2015
…..جویریہ صدیق……
گذشتہ برس تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے تبدیلی انقلاب کا نعرہ لگاتے ہوئے اسلام آباد پر یلغار کر ڈالی،جلائو گھیراو دھمکیوں اور پر تشدد تقاریر کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا، کبھی ایمپائر کی انگلی، کبھی اوئے نواز شریف، کبھی اوئے جنگ جیو، کبھی35 پنکچر ہر کسی پر الزامات کی بارش،دل پھر بھی نا بھرا تو عوام کو سول نافرمانی پر اکسا دیا، تب بھی دال نا گلی تو پارلیمنٹ ہائوس اور پی ٹی وی پر حملہ کرڈالا،عمران خان اور طاہر القادری کو کچھ سوجھ ہی نہیں رہا تھا کہ کیا کر گزریں کہ جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیں تاہم عوام نے اس تبدیلی کو مسترد کردیا۔

16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر ہولناک حملے کے بعد ملک بھر سے دبائو بڑھ گیا کہ دھرنا ختم کرکے عمران خان اپنے حکومتی صوبے میں جائیں اور کچھ کام کریں،خیبر پختون خوا کی ساری صوبائی حکومت بھی دھرنا ڈالے اسلام آباد بیٹھی تھی اور پیچھے یہ واقعہ رونما ہوگیا۔آرمی پبلک اسکول کے شہدا کے لواحقین کی داد رسی ویسے نہیں کی جیسے کرنی چاہیے تھی۔والدین عمران خان اور کے پی کی صوبائی حکومت سے بہت ناراض ہوئے،اتنے بڑے سانحے کے باوجود پی ٹی آئی کی توجہ الزامات پر ہی رہی کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی چار حلقے کھول دو،35 پنکچر کی وجہ سے ہم الیکشن ہار گئے وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں کے والدین دربدر انصاف کے لیے ٹھوکریں کھاتے رہے،انہیں پلانٹڈ کہہ کر تخت بنی گالہ نے اپنی توجہ دوبارہ وفاقی حکومت کے گرد گھیرا تنگ کرنے پر لگا دی۔

جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تاہم اس کے بعد سے اب تک تحریک انصاف اس میں دھاندلی کے حوالے سے اہم ثبوت پیش کرنے میں ناکام نظر آتی ہے،جیو ٹی وی کے اینکر و صحافی حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ 35 پنکچر کا الزام صرف ایک سیاسی بات تھی،اس بات کے سامنے آتی ہی سنجیدہ حلقوں میں بحث چھڑ گئی کہ پاکستان تحریک انصاف کس طرح کی سیاست کررہی ہے جس کا مرکز صرف جھوٹ الزامات اور نفرت پر مبنی ہے۔35پنکچر ایک جھوٹی کہانی بنا کر سینئر صحافی و سابق نگراں وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔دھرنے سے لے کر اب تک پی ٹی آئی نے ان کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جیو اور جنگ کے ملازمین کو دوران دھرنا زدوکوب کیا گیا،دھرنے میں ہر روز اشتعال آمیز بیانات دے کر ادارے کے خلاف عوام میں نفرت پھیلائی گئی اور طویل عرصے تک پی ٹی آئی نے جیو اور جنگ کا بائیکاٹ کئے رکھا،سوشل میڈیا پر اس خبر کے آنے کے بعد سے کہ35 پنکچر محض ایک سیاسی بیان تھا، مختلف ٹرینڈ سامنے آئے اور تحریک انصاف سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ معافی مانگیں ان تمام افراد سے جن کی اس جھوٹ کے باعث دل آزاری ہوئی ،تاہم صرف عارف علوی صاحب نے ہمت دکھائی اور ٹوئٹ کرکے معافی طلب کی ۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ ’’ 35 پنکچر کے الزام سے متعلق کئی افواہیں تھیں جن پر میں یقین کر بیٹھا‘‘۔

لیکن یہ معافی انہیں مہنگی پڑ گئی ساری قیادت ایک دم ان پر برہم ہوگی اوروہ معافی سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے۔ پارٹی کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے کہا کہ عارف علوی نے غلط کیا۔ نعیم الحق کے مطابق 35 پنکچر کا بیان سیاسی ہے لیکن اس میں سچائی بھی ہے، نعیم الحق کہتے ہیں امریکی سفیر، مرتضیٰ پویا، سیمسن شرف اور ڈاکٹر اعجاز حسین کو ٹی وی پر آنا چاہیے۔اس لیے نجم سیٹھی سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔تاہم مرتضیٰ پویا نے ٹی وی پر آکر یہ کہہ دیا کہ انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی نا ہی امریکی سفیر نے ایسا کچھ کہا۔ امریکی سفارت خانے سے بھی یہ تردید آگئ کہ امریکی سفیر کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔سیمسن شرف نے کہا کہ مجھے ڈاکٹر اعجاز نے کہا میرے پاس کچھ معلومات ہیں جو میں آپ سے شیئر کروں گا، میں نے 35پنکچر کا ذکر پارٹی کور کمیٹی کی میٹنگ میں کیا تو عمران خان نے ٹوئٹ کردیا ،جس کو پارٹی نے پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا لیکن شواہد اکھٹے نہیں کیے۔ڈاکٹر اعجاز نے کہا ان کہ تحقیق انٹرنیٹ کی معلومات پر مبنی تھی۔

بات جو بھی ہو جس نے بھی کی کسی کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا اس لیے اس مسئلے کو جوڈیشل کمیشن میں نہیں اٹھایا گیا۔کیا سیاست اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک سنی سنائی بات کو عام کردینا، اس پر لوگوں کی تذلیل کرنا دھرنے سے لے کر پی ٹی آئی کی قیادت اور سوشل میڈیا ٹیم نے نجم سیٹھی پر الزامات کی بوچھاڑ کردی، آج جب ان کے لیڈر عمران خان نے یہ اعتراف کردیا ہے کہ یہ محض سیاسی بیان تھا تب بھی باقی سب پارٹی عہدیدار اپنی جھوٹی انا کے غلام ہیں اور اب بھی35پنکچرکے جھوٹ کا دفاع کررہے ہیں،دھرنے میں تو بہت دعوے کیے گئے لیکن جوڈیشل کمیشن میں نا کافی ثبوت۔

تحریک انصاف کے ووٹرز پر اس کا کیا اثر پڑے گا پہلے تو آپ نے نوجوانوں کو ایک ایسی تصویر پیش کی کہ اس ملک میں سارے سیاستدان کرپٹ ہیں ،جھوٹے ہیں، انہوں نے تحریک انصاف کا مینڈیٹ چوری کرلیا۔اب وہ ہی یوتھ آج کیا سوچ رہی ہوگی کہ دھرنوں کی بنیاد ایک جھوٹ پر رکھی گئی،35 پنکچر صرف ایک سیاسی دعویٰ تھا۔ارے سیاست کرنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں، دوسروں پر الزامات لگانا وہ بھی صرف اپنی ذاتی تسکین کے لیے کہاں کا انصاف ہے۔پی ٹی آئی اس وقت خود دھڑوں کا شکار ہے، پرانے تمام عہدیداروں کو نکال کر لوٹوں کو بھرتی کیا جارہا ہے تو تبدیلی کیسے آئے گی؟کیا ہی بہتر ہوتا کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ اور دیگر حماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر الیکشن کمیشن کی اصلاحات کے لیے کام کرتی لیکن ایسا نا ہوا۔

کے پی کے میں ہونے میں بلدیاتی انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی اور بعض جگہوں پر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا۔اگر تحریک انصاف اتنی ہی سنجیدہ اور انقلابی جماعت ہے تو اپنے وزرا اور پولیس کو مداخلت سے کیوں نہیں روکا گیا؟

الیکشن ہونے سے پہلے دھاندلی کو روکنے کے لیے اصلاحات کیوں نہیں کی؟

2013 کے الیکشن میں دھاندلی کا الزام تو پی ٹی آئی نے نجم سیٹھی اور نواز شریف پر عائد کردیا لیکن جب خیبر پختون خوا میں دھاندلی ہوئی تو فوری طور پر کہا گیا ہم نہیں الیکشن کمیشن اس کا ذمہ دار ہے پی ٹی آئی کا ہر معاملہ میں دوغلا معیار کیوں ہے؟

جب کہ پولیس چیف منسٹر کے انڈر من مانی کرتی رہی اور وزرا بھی پولنگ اسٹیشنز پر دخل دیتے رہے،تب بھی تحریک انصاف کا دامن صاف ہے باقی سب برے ہیں تو یہ رویہ اب اس جماعت کو ختم کرنا ہوگا۔

اب بھی وقت ہے پی ٹی آئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے نکل آئے اور تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن کمیشن کی اصلاحات کے لیے کام کرے تاکہ 2018 کے الیکشن صاف اور شفاف ہوسکیں، جھوٹ کا سہارا لے کر نا ہی سیاست ہوسکتی ہے نا ہی انقلاب آسکتا ہے، البتہ جگ ہنسائی ضرور ہوتی ہے جو آج کی35پنکچر کی وجہ سے پی ٹی آئی کی ہورہی ہے،پی ٹی آئی کو من گھڑت کہانی معافی مانگنی چاہیے اور ان تمام دھرنے کے شرکاء سے بھی جن کو دھرنے میں یہ جھوٹی کہانی روز سنائی گئی۔ اگر تحریک انصاف واقعی ملک کی تقدیر سنوارنے کی خواہشمند ہے تو ایمپائر کی انگلی کی طرف نا دیکھے بلکے ترقیاتی کاموں میں حصہ لے۔خیبر پختون خوا کو مثالی صوبہ بنائے، صرف باتوں،الزامات اور جھوٹی کہانیوں سے انقلاب نہیں آیا کرتے اور نا ہی ووٹ ملتے ہیں۔عوام کی خدمت کریں تب جاکر عوام آپ کو مینڈیٹ دے گی۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
twitter@javerias

Posted in Uncategorized

انسدادمنشیات اور ہماری ذمہ داریاں

Share
Posted On Friday, June 26, 2015
…… جویریہ صدیق……‎
26 جون کو انسداد منشیات اور غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد منشیات کے انسانی زندگی پر مضر اثرات کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔دنیا بھر میں کروڑوں افراد منشیات کے عادی ہیں،ہیروئن، شراب، حشیش ،افیون ،مورفن، گانجا ،بھنگ ،چرس،کوکین ،سیگریٹ نوشی اور خوب آور ادویات کی صورت میں یہ زہر اپنے اندر اتار رہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تیس کروڑ سے زائد افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہیں اور پاکستان میں ساٹھ لاکھ سے زائد نشے کے عادی ہیں،نشہ کرنے کے پیچھے بہت سے سماجی نفسیاتی اور معاشی عوامل کار فرما ہیں،بہت سے افراد بری صحبت کی وجہ سے اس میں مبتلا ہوتے ہیں،کچھ بچے والدین کی عدم توجہی اور پیسے کی فروانی کے باعث اس عادت کو اپناتے ہیںتو کچھ فیشن کے طور پر ۔کچھ لوگ اپنے حالات سے فرار کے لیے اسے استعمال کرتےہیں،شروع میں تو یہ شاید انکو یہ کوئی وقتی لطف دے جاتی ہو لیکن آہستہ آہستہ یہ نشہ انسان کو کنٹرول کرنا شروع کردیتا ہے اور انسان اسکا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔نشہ نا ملنے کی صورت میں وہ بے چین ہونے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ شخص زندگی سے دور ہوجاتا ہے۔

نشہ صرف انسان کی صحت نہیں سماجی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کردیتا ہے،نشہ کرنے والا شخص اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہو جاتا ہے،جمع پونجی منشیات کی خرید میں اڑا ڈالتا ہے اور صاحب فراش ہوجاتا ہے،صحت الگ متاثر ہوتی ہے انسان تھکا ہوا محسوس کرتا ہے، نیند کا غلبہ طاری رہتا ہے،سر میں درد جسم میں درد رہتا ہے،بعد میں منشیات انسان کے دماغ نظام تنفس نظام ہضم ،دل جگر کو نقصان پہنچاتی ہے،منشیات کا استعمال کرنے والے افراد کینسر ،دل کے عارضے اور سرنج سے اسے استعمال کرنے والے ایچ آئی وی میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں،کچھ افراد نشے کی اوور ڈوز سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اس لیے اس کے استعمال کو ترک کرنا بہت ضروری ہے اور اس کے حوالے سے آگاہی بیدار کرنا سب سے اہم ہے،پاکستان میں اس وقت بیس لاکھ افراد ہیروئن اور پندرہ لاکھ چرس کی علت کا شکار ہیں،سیگریٹ نوشی ، شراب نوشی ،شیشہ ،بھنگ اس کے علاوہ ہیں، حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ مکمل طور پر منشیات کے کاروبار کو کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف ان راستوں کو سیل کرنا چاہیے جہاں سے یہ بن کر عوام تک پہنچتی ہیں دوسرا مزید بحالی صحت کے مراکز کا قیام جہاں نشے کی لت میں مبتلا افراد کا علاج کیا جائے۔

پاکستان میں اینٹی نارکوٹکس فورس منشیات کے پھیلاو کو روکتی ہے،افغانستان سے افیون کی 70فیصد سپلائی ہوتی ہے،اس کو پاکستان کے ذریعے اسمگل کیا جاتا ہے،اس ہی وجہ سے 1995 میں اے این ایف کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ منشیات کے استعمال نقل و حمل اور پھیلائو کو روکا جاسکے۔ اے این ایف نے 1995 سےجون 2015 تک افیون 160 ٹن، مارفین 63 ٹن، ہیروئین 41 ٹن اور چرس 330 ٹن منشیات پکڑی ہے،جنہیں ہر یوم انسدادمنشیات پر جلا دیا گیا،2010 میں پاکستان کو پوپی فری ملک قرار دے دیا گیا جس میں اے این ایف کا کلیدی کردار ہے۔

یہ چھوٹا سا وفاقی ادارہ اپنےطور پر بہت سے سیمینار،لیکچرز اور واکز کا اہتمام بھی کرواتا ہے تاکہ عوام میں شعور اجاگر ہولیکن یہ لمحہ فکریہ کے یہ ادارہ حکومت کی سرپرستی سے مکمل طور پر محروم ہے اس ادارے کا کوئی بھی دفتر سرکاری زمین پر نہیں، تمام دفاتر یہاں تک کہ اس کے زیرانتظام ہسپتال بھی کرائے کی بلڈنگ میں واقع ہیں۔

صرف چار ہزار کی نفری پر مشتمل اے این ایف کی کارکردگی قابل ستائش ہے لیکن حکومت کی عدم توجہی لمحہ فکریہ ہے،حکومت کو اے این ایف کے ساتھ مل کر فوری طور پر بحالی مراکز صحت کو پاکستان بھر میں قائم کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ خواتین کے لیے علیحدہ ڈرگ ٹریٹمنٹ سنٹر کا قائم عمل میں لایا جائے، میڈیا پر موثر کمپین چلائی جائے، جس سے عوام کو منشیات کے مضر اثرات سے آگاہ کیا جائے۔

اس کے ساتھ عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ بھی ایسے افراد پر نظر رکھیں جو اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں اور ان کی اطلاع فوری طور اے این ایف کو دیں http://www.anf.gov.pk پر جاکر اپنی شکایت درج کرواسکتے ہیں۔والدین بھی اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھیں کہ وہ کس طرح کی کمپنی میں اٹھتے بیٹھتے ہیں،اسکول کالج انتظامیہ بھی بچوں اور دیگر عملے کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں،اگر کسی کو نشے کی لت میں مبتلا دیکھیں تو اس کی مدد کریں،ہم صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے ہیں ہم سب کو انسداد منشیات میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،اس جرائم میں ملوث افراد کی نشاندہی کرکے اور اسکو استعمال کرنے والوں کی بحالی صحت میں مدد کرکے،عوام حکومت مل کر ہی اے این ایف کو مضبوط کرسکتے ہیں،تب ہی یہ ادارہ ملک سے منشیات کے گھناؤنے کاروبار کو مکمل طور پرختم کرسکتا ہے۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Twitter @javerias

Posted in Uncategorized

سن اسٹروک اور احتیاطی تدابیر

 

…..جویریہ صدیق……
پاکستان میں اس وقت گرمی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے سن اسٹروک کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔کراچی میں حالیہ گرمی کی لہر کے باعث دو سو سے زائد افراد سن اسٹروک کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔سن اسٹروک سورج کی شعائوں اور گرمی کے باعث ہوتا ہے۔اس کی ابتدائی علامتوں میں سر میں اچانک سخت درد،بخار ہوجانا،آنکھوں کے آگے اندھیرا آنا،قے آنا ،سانس لینے میں دشواری اور پسینہ نا آنا شامل ہے۔اگر کسی بھی شخص میں یہ علامتیں دیکھیں تو اسکو فوری طور پر ٹھنڈی جگہ یا سایہ دار جگہ پر منتقل کریں۔متاثرہ شخص کے کپڑے کم کردیں۔جوتے اتار دیں۔ٹھنڈا پانی دیں مریض کے ماتھے سر گردن ہاتھوں پر ٹھنڈی پٹیاں رکھیں۔اگر طبیعت میں بہتری آئے تو متاثرہ شخص کو نہانے کا کہیں۔لیکن اگر طبیعت میں بہتری نا آئے تو فوری طور پر اسپتال کا رخ کریں۔

اللہ تعالی نے قدرتی طور پر انسان کے جسم میں درجہ حرارت کو کنڑول کرنے کا نظام بنا رکھ ہے۔انسان جلد کے مساموں سے پانی خارج کرتا ہے اور گرمی میں یہ اخراج زیادہ ہوجاتا ہے اگر ہم پانی نا پئیں اور زیادہ وقت گرمی میں رہیں تو اس نظام میں بگاڑ آجاتا ہے اور انسان ہیٹ یا سن اسٹروک کا شکار ہوجاتا ہے۔ہیٹ اور سن اسٹروک میں معمولی سا فرق ہے سورج کی شعاعوں سے براہ راست متاثر ہونے والا شخص سن اسٹروک کا شکار ہوتا ہے اور گرم جگہ پر کام کرنے والا یا بنا بجلی کے گرمی میں کام کرنے والا شخص ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوتا ہے۔اس کا زیادہ شکار وہ ہی لوگ ہوتے ہیں جو گرمی میں سر ڈھانپ کر نا نکلیں جنہوں نے مناسب پانی کی مقدار نا پی رکھی ہو یا وہ گرم جگہ پر کام کرتے ہوں ۔اس کے ساتھ ساتھ شراب نوشی کرنے والے افراد اور وہ لوگ جنہوں نے موسم کے حساب سے کپڑے نا پہنے ہوں وہ بھی اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

سن اسٹروک کسی بھی عمر کے افراد کو ہوسکتا ہے بہت زیادہ گرمی میں کام کرنا سخت ورزش کرنا دھوپ میں کسی کھیل کا حصہ بننا،بجلی کا نا ہونا،پانی کا دستیاب نا ہونا اور ہوا میں نمی کے تناسب میں کمی کے باعث یہ کسی بھی عمر کے بچے عورت یا مرد کو ہوسکتا ہے۔اگر اس کے علاج پر فوری طور پر توجہ نا دی جائے تو بعض اوقات انسان کومہ میں چلا جاتا ہے جو کہ اسکی موت کا باعث بن جاتا ہے۔

پمزاسپتال کے میڈیکل اسپیشلسٹ ڈاکٹر سلمان شفیع کے مطابق زیادہ گرمی میں کام یا سفر ہیٹ اسٹروک کا باعث بنتا ہے اگر کوئی شخص بہت دیر دھوپ میں کام کرنے کے بعد بے ربط گفتگو کرنے لگے یا بہت پانی پینے کے باوجود اس کو پیشاب کی حاجت نا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس شخص کے جسم کا درجہ حرارت بگڑ چکا ہے۔اس کے ساتھ اگر کوئی شخص دھوپ میں بے ہوش ہوجائے اس کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔جب ہمارے پاس گرمی سے متاثر کوئی مریض آتا ہے تو ہم اس بہت سے فلوئیڈ لگاتے ہیں خاص طور پر ڈرپ بھی ٹھنڈی ہوتی ہے۔تاہم اگر کوئی مریض بے ہوشی کی حالت میں آئے تو سب سے پہلے ہم اسکے سانس کی بحالی پر توجہ دیتے ہیں۔

ڈاکٹر سلیمان کے مطابق روزہ دار کوشش کریں کہ وہ پانی کا تناسب سحری میں اور افطاری میں نارمل رکھیں ۔ہلکی پھلکی غذائیں لیں، مرغن کھانوں سے پرہیز کریں۔ہلکے رنگ کے کپڑے استعمال کریں سفید رنگ موزوں ترین ہے۔اپنے کام صبح یا عصر کے بعد انجام دیں۔تاہم دفتری فرائض کی ادائیگی کے لیے اگر دھوپ میں جانا ناگزیر ہو تو ٹوپی کپڑا یا چھتری کا استعمال کریں۔اپنے ساتھ پانی کی بوتل رکھیں گرمی لگے توکپڑے کو گیلا کرکے بھی سر گردن پر رکھ سکتے ہیں۔ان کے مطابق اگر کوئی شخص اچانک ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوجائے تو اسکو گیلا کرکے پنکھے یا اے اسی میں لے جائیں ۔اگر بجلی نا ہو تو ٹب میں پانی تھوڑی برف ڈال کر مریض کو گردن تک لٹا دیا جائے۔اگر لوڈشیڈنگ یا پانی کی کمی کے باعث یہ بھی ممکن نا ہو تو مریض کو ٹھنڈی پٹیاں کی جائیں اور اسکو ٹھنڈا پانی پلایا جائے۔ہیٹ یا سن اسٹروک سے اس ہی طرح بچا جاسکتا ہے کہ عین دوپہر میں دھوپ میں نکلنے سے پرہیز کیا جائے اور اگر نکلنا ناگزیر ہے تو پھر سر گردن چہرے کو ڈھانپ لیا جائے۔

جیسے ہی گرمیوں میں یہ محسوس ہو کہ جسم کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جسم گرم ہو جائے لیکن پسینہ نا آرہا ہو طبیعت بوجھل محسوس ہو سر میں سخت درد شروع ہوجائے یا دل کی دھڑکن تبدیل ہوجائے تو سمجھ جائیں کہ آپ سن اسٹروک کا شکار ہوگئے ہیں۔فوری طور پر ٹھنڈا پانی پئیں لیٹ جائیں ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کریں اگر طبیعت میں سدھار نا آئے تو فوری تو پر ڈاکٹر کو دکھائیں کیونکہ یہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔گرمی میں پانی زیادہ سے زیادہ پئیں، ڈبے کے جوس اور فریزی ڈرنکس سے مکمل پرہیز کریں۔ گرمی میں شاپنگ سے پرہیز کریں اگر جانا ہو تو گاڑی کسی سائے دار جگہ پر پارک کریں اور گاڑی میں ہرگز بچوں کو نا چھوڑیں۔کیونکہ گرمی میں گاڑی کا درجہ حررات فوری طور پر بڑھ جاتا ہے۔احتیاط کریں کیونکہ سن اسٹروک کے باعث دماغ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Twitter @javeria

Posted in Uncategorized

آپریشن ضرب عضب کا ایک سال

Share
Posted On Monday, June 15, 2015
…..جویریہ صدیق……
امریکا میں تو نائن الیون جیسا دہشتگردی کا واقعہ ایک بار ہوا لیکن اس واقعے کی قیمت پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں اتحادی بننے کے بعد ہر روز چکائی۔سیکڑوں نائن الیون جیسے واقعات پاکستان میں رونما ہوئے جس میں70 ہزار سے زائد پاکستانی اپنی جان سے گئے۔ طالبان ہوں القاعدہ ہو یا ’را‘ کے آلہ کار سب کے نشانے پر معصوم پاکستانی۔ دہشت گردی نے پاکستانی عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔کچھ مصلحت پسند سیاست تب بھی دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا راگ الاپتے رہے،لیکن کراچی میں اصفہانی ہینگر پر دہشت گردانہ حملے کے بعد عوام کی طرف سے یہ مطالبہ شدت اختیار کرگیا کہ دہشتگردوں کے خلاف فوری بڑے آپریشن کا آغاز کیا جائے،پاک آرمی اس پہلے بھی آپریشن راہ راست، آپریشن راہ نجات،آپریشن المیزان اور آپریشن راہ حق کے ذریعے سے شدت پسندی کا خاتمہ کرچکی تھی،لیکن شمالی وزیرستان میں بڑے آپریشن کی اشد ضرورت کی جارہی تھی۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نواز شریف نے جون 2014 میں ضرب عضب آپریشن کا آغاز کیا۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار مبارک پر اس آپریشن کا نام رکھا گیا، یہ تلوار رسول اللہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ بدر اور غزوہ احد میں استعمال کی، اس کا مطلب ہے کاٹ دینے والی ضرب۔آپریشن ضرب عضب سے پہلے عام شہریوں کو علاقہ چھوڑنے کی تلقین کی گئ۔ساڑھے دس لاکھ لوگوں نے نقل مکانی کی جنہیں بنوں اور بکا خیل میں عارضی طور پر پناہ دی گئ۔آرمی نے تمام لوگوں کو باقاعدہ رجسٹر ڈکرکے کیمپوں میں منتقل کیا۔15 جون کو پہلی کاروائی میں 120 دہشت گرد مارے گئے اور بارودی ذخیرے تباہ ہوئے۔آپریشن میں ابتدائی طور پر لڑاکا جیٹ طیاروں،گن شپ ہیلی کاپٹر کوبرا نے اہداف کو نشانہ بنایا بعد میں زمینی کاروائی کا آغاز ہوا۔میر علی، میران شاہ،ڈانڈے درپہ خیل،غلام علی ،شوال،بویا،سپلگاہ،زراتا تنگی میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا،ان کاروائیوں میں دہشتگردوں کو بھاری نقصان پہنچا اور متعدد گولہ بارود کے ٹھکانے تباہ کئے گئے۔

اکتوبر میں ضرب عضب کے ساتھ ساتھ خیبر ایجنسی میں خیبر ون اور ٹو کا بھی آغاز کردیا گیا۔ضرب عضب نے کامیابی سے اپنے اہداف پورے کرنا شروع کئے تو پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں طور پر کمی آئی،تاہم بزدل دشمن نے بدلے کی آگ میں پشاور میں آرمی پبلک سکول و کالج پر حملہ کردیا،ان کا مقصد بچوں کو یرغمال بنانا نہیں تھا ،ان بزدل دہشتگردوں کا مقصد صرف پاک افواج اور پاکستانی شہریوں کے قلب پر حملہ کرنا تھا،پر بزدل طالبان اور بھارت کے پالتو دہشتگرد پاکستانیوں کے حوصلے کو پست نہیں کرسکے،سانحہ پشاور کے بعد قوم نے ایک بار پھر متحد ہوکر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا فیصلہ کیا۔اس موقع پر آرمی چیف راحیل شریف کا کردار قابل ستائش ریا، جہاں وہ ایک شفیق بڑے بھائی کی طرح سانحہ پشاور کے شہدا کو دلاسا دیتے رہے تو دوسری طرف ماہر سپہ سالار کی طرح دہشت گردی کے خلاف نئی حکمت علمی ترتیب دیتے گئے۔

وزیراعظم نواز شریف نے پھانسی پر عائد پابندی کو ختم کردیا اور ملٹری کورٹس کی منظوری دےدی،دہشتگردوں کو پھانسیاں دے کر انہیں زمانے بھر کے آگے نشان عبرت بنا ڈالا یو ں دوسرے بزدل دہشت گردوں کے حوصلے بھی مزید پست ہوگئے،اب دہشتگردی کی کاروائیاں گذشتہ سالوں کے مقابلے میں کم ہوگئیں۔

آپریشن ضرب عضب کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے اور اس دوران 2763 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیاگیا۔

آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق شمالی وزیرستان سے 18087 ہتھیار اور 253 ٹن دھماکہ خیز مواد برآمد کیاگیا،دہشت گردوں کے 837 خفیہ ٹھکانے تباہ کئے گئے،اس آپریشن کے نتیجے میں بیشتر علاقہ دہشتگردوں سے خالی کروالیا گیا،ملک کی خاطر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے 347 فوجی جوانوں اور افسران نے جام شہادت نوش کیا.یہ ان نوجوانوں کی قربانی کا نتیجہ ہے کہ وزیرستان کے لوگ آج واپس اپنے علاقوں میں لوٹ رہے ہیں،اب ان افراد کو یہ اطمینان ہے کہ وہ اپنے گھر کو لوٹ رہے ہیں جو اب مکمل طور پر پرامن ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق اس آپریشن پر 44 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں اور اس آپریشن نے اپنے اہداف کامیابی سے حاصل کئے۔ان کے مطابق آئی ڈی پیز کی واپسی اور مکمل بحالی کے لیے 130 ارب روپے خرچ ہوں گے۔پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عندیہ دیا ہے دہشتگردوں کے خلاف اس وقت تک کاروائی جاری رہے گی جب تک کہ ملک سے شدت پسندوں کا خاتمہ نا ہوجائے۔

پاکستانیوں کی بھی یہ ہی خواہش ہے کہ یہ آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچے اور وطن عزیز میں مکمل امن ہوجائے، تاہم اب بھی ایک بہت بڑا چیلنج درپیش ہے چین کے صدر ژی جن پنگ کے دورہ پاکستان جس میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا اعلان کیا گیا،اس کے بعد سے دہشتگردی کی ایک نئی لہر سامنے آئی اور یہ ثبوت عیاں ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را اس میں ملوث ہے۔پاک فوج کو سندھ اور بلوچستان میں ان عناصر کا خاتمہ کرنا ہوگا جو دشمن کے آلہ کار ہیں۔پاکستان کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا ،نئی بندرگاہوں کی تعمیر ناگزیر ہے،جس طرح ضرب عضب میں دہشتگردوں کی کمر توڑی گئ اس ہی طرح پاکستان کے دیگر شہروں میں وطن دشمن سرگرمیوں میں مصروف افراد اور مافیا کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کرنا ہوگا،قوم کی نگاہیں راحیل شریف کی طرف ہیں کس طرح سپہ سالار قوم کو مکمل طور پر دہشت گردی سے نجات دلوائے گا،قوم کے ہر اس سپوت کو سلام جس نے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ضرب عضب میں حصہ لیا اور دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا،قوم کی ان مائوں کو سلام جن کے جوان بیٹوں نے مادر وطن پر اپنی جان نچھاور کردی اور ان کے حوصلے اب بھی بلند ہیں،قوم کے ان غازیوں کو بھی سلام جن کی بدولت آج دہشتگردی میں قدرے کمی آئی ہے۔

پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد
Javeria Siddique writes for Daily Jang
twitter @javerias

Posted in Uncategorized

’روہنگیا‘‘دنیا کی مظلوم ترین قوم

Share
Posted On Thursday, June 11, 2015
…..جویریہ صدیق……
مہذب معاشروں میں اب بھی غیر مہذب افراد بستے ہیں جو رنگ نسل مذہب کی بنیاد پر دیگر افراد کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے جنہیں خود ساختہ مہذب کہلانے والے میانمار (برما)کے بدھ مت اکثریتی آبادی کے مظالم کا سامنا کرنا پڑرہا ہے،دو سو سال سے روہنگیا مسلمان اس خطے میں مقیم ہیں اور اب میانمار کی حکومت انہیں اپنا شہری ماننے پر تیار نہیں،میانمار کی حکومت کہتی ہے یہ بنگلہ دیشی ہیں اور بنگلہ دیش کی حکومت یہ کہتی ہے کہ یہ ہمارے شہری نہیں۔امن کا نوبل انعام سر پر سجائے لیڈر آنگ سان سوچی بھی اس معاملے پر چپ سادھ کر بیٹھے ہوئے ہیں،کیوں نا چپ ہوں جب اسلامی ممالک چپ بیٹھے ہیں تو ایک بدھ مت کے پیروکار لیڈر سے کیا امید لگائی جائے۔

روہنگیا مسلمانوں پر میانمار میں طرح طرح کی غیر انسانی پابندیاں عائد ہیں،نا ہی وہ کوئی کاروبار کرسکتے ہیں نا ہی ان کو زمین خریدنے کا اختیار حاصل ہے،نا ہی انکے پاس شہریت ہے یہاں تک کہ ان کے شادی کرنے بچے پیدا کرنے اور تعلیم پر بھی بہت سی پابندیاں عائد ہیں،میانمار حکومت کی پالیسی مسلمانوں سے نفرت اور تعصب پر مبنی ہے،اقوام متحدہ نے اپیل کی تمام روہنگیا مسلم کا اندراج کیا جائے لیکن میانمار نے کہا کہ اگر وہ خود کو بنگالی مسلمان کہیں گے تو ٹھیک ورنہ روہنگیا کو ہم نہیں مانتے۔

ریاست راخائن میں بددھوں نے روہنگیا مسلمانوں پر وہ مظالم ڈھائے جس کی مثال نہیں ملتی،مردوں کو جلایا گیا عورتوں کی عصمت دری کرکے ان کے اعضاء کاٹ کر درختوں پر لٹکا دیے گئے اور معصوم بچے ان کو بھی نہیں بخشا گیا ان کے گلے کاٹ دئیے گئے.اقوام عالم چپ رہی امت مسلمہ چپ رہی کسی نے بھی میانمار کی حکومت پر دباؤ نہیں ڈالا کسی نے اپنے سفیر احتجاجی طور پر واپس نہیں بلائے،کیونکہ مرنے والے مسلمان اور مارنے والے بدھ مت کے پیروکار جو تھے۔

کچھ روہنگیا مسلمانوں نے سوچا میانمار کی زمین تو ہم پر تنگ کردی گئ ہے کیونکہ نا کسی قریبی ممالک میں پناہ لی جائے، بدترین طریقے سے ہزاروں افراد چند کشتیوں میں ٹھونس دئیے گئے۔ ایجنٹس کو پیسے دے کر سمندر میں پہنچے تو ملائشیا، تھائی لینڈ اورانڈونیشیا نے انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا، تین ممالک کے درمیان یہ بھٹکتے رہے،بھوک تنگ دستی ہزاروں لوگ کشتیوں پر اور ہر سو پھیلا وسیع سمندر، پر مہذب دنیا کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

لوگ سمندر میں تڑپ تڑپ کر جان دینے لگے کئی افراد آبی مخلوق کا لقمہ بن گئے،لیکن وہ مغربی ممالک جن کے ہاں کتے بلیوں کو بھی حقوق حاصل ہیں انہوں نے بھی سسکتے بلکتے انسانوں کےلیے آواز نہیں بلند کی، انڈونیشیا کے قریب جب روہنگیا مسلمانوں کی کشتیوں پر خوراک پھینکی گئی تو لڑائی چھینا چھپٹی میں سینکڑوں جانیں چلی گئیں۔

ایران سعودیہ عرب متحدہ عرب امارات، پاکستان کسی بڑے اسلامی ملک کی حکومت نے مدد تو کیا آواز بھی اٹھانا مناسب نہیں سمجھا،اس موقع پر گیمبیا جیسے ایک چھوٹے افریقی ملک نے روہنگیا مسلمانوں کو اپنانے کا اعلان کیا،اس ملک نے گزارش کہ ہے کشتیوں پر پھنسے انسانوں کو بڑے ممالک کے بحری بیڑے ہمارے ملک چھوڑ جائیں،ہم ان کی آباد کاری کے لیے تیار ہیں۔

یہ بات تمام بڑے ممالک کے منہ پر ایک طمانچہ نہیں کہ گیمبیا نے روہنگیا مسلمانوں کے لیے آواز بلند کی اور اپنی سر زمین بھی پیش کردی،جبکہ دیگر بڑے اسلامی ممالک اور مغربی ممالک تماشہ دیکھتے رہے،ہاں سنا ہے پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھی ایک قرارداد پاس کی ہے،وزیراعظم نے بھی ایک کمیٹی بنائی ہے،لیکن اس کا فائدہ کیا بوٹ میں سوار لوگوں کے لیے ایک منٹ تاخیر کا مطلب موت ہےلیکن اسلامی ممالک کی مصلحتیں مغربی ممالک کی اسلام دشمنی کہیں بے گناہ انسانوں کی جان خطرے میں ڈال رہی ہے۔

کیا محسوس کررہے ہوں گے کشتیوں پر سوار انسان نیچے سمندر اوپر آسمان نا ہی کوئی خشکی کا ٹکڑا دور دور تک اور نا ہی انسانیت کا کچھ اتہ پتہ.مسلمان فرقہ بندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں مغربی ممالک کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی ہے کیا کوئی انسان بھی اس زمین پر بستے ہیں جو مشکل میں گھیرے انسانوں کو سمندر سے بچا کر لے آئیں۔

اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی سب سے ستائی ہوئی قوم قرار دیا ہے لیکن میرا خیال میںیہ انہیں روہنگیا کو دنیا کی سوتیلی قوم قرار دینا چاہیے تھا کیونکہ اتنی بڑی زمین پر نا ہی ان کے لئے خشکی کا ٹکڑا ہے اور نا ہی کوئی قوم ان کو پناہ دینے کو تیار ہے،سمندروں میں صرف انسان ہی نہیں انسانیت بھی دم توڑ رہی ہے۔

ترکی نے اب اپنا امدادی جہاز بھیجا ہے ایک ملین ڈالر امداد کا بھی اعلان کیا ہےلیکن دیگر اسلامی ممالک کہاں ہیں کیا تم اسلامی ممالک فوری طور پر اپنے بحری بیڑے بھیج کر ان مسلمانوں کو بچا کر دوبارہ آباد کرنا چاہیے،بنگلہ دیش کی بھارت نواز وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کہہ رہی ہیں کہ غیر ملکی تارکین وطن ملک کی شبیہہ خراب کررہے ہیں شاید ان جیسے حکمرانوں میں خدا خوفی ختم ہوگئ ہے لیکن پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف ،ترکی کے صدر طیب اردوان، سعودیہ عرب کے شاہ سلیمان کو فوری طور پر مشترکہ امدادی کاروائیاں کرکے ان مسلمانوں کو بچانا چاہیے۔

اس کے ساتھ میانمار پر سفارتی دبائو ڈال کر وہاں رہنے والے روہنگیا مسلمانوں کو انکے بنیادی حقوق دلوائے جائیں،اب تک صرف چار ہزار روہنگیا قوم کے افراد کو بچایا جاچکا ہے لیکن اب سینکڑوں کھلے سمندر میں بھوکے پیاسے بھٹک رہے ہیں۔

میانمار (برما) کی سفاکی تو سب کے سامنے کھل کر عیاں ہے جوکہ تیرہ لاکھ سے زائد آبادی والے روہنگیا کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہےلیکن عالمی دنیا کی مجرمانہ خاموشی اس مسئلے کو مزید گھمبیر کررہی ہے،میانمار کی نسل پرستانہ اور روہنگیا دشمن پالیسی کو مزید نظرانداز کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوگا،میانمار پر عالمی دنیا زور دے کہ انسانیت سوز پالیسیاں تبدیل کرے اور روہنگیا مسلمانوں کو حقوق دے،کشتیوں میں پھنسے افراد کو فوری طور پر خشکی پر لا کر آباد کیا جائے،انہیں شہریت ملنی چاہئے اور مساوی حقوق بھی۔اقوام متحدہ اور عالمی امن فوج اس ضمن میں بہترین کردار ادا کرسکتی ہے، عالمی برادری اور مسلم امہ خواب غفلت سے جاگے اور اپنا کردار ادا کرے۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Twitter @javerias

Posted in Uncategorized

قصہ ایک معصوم کبوتر کا‎

 

Share
Posted On Thursday, June 04, 2015
…..جویریہ صدیق ……
بھلا کبوتر کو کیا پتہ کہ وہ پاکستان سے اڑ کر بھارت نہیں جاسکتا، اس پرندے پر یہ حقیقت آشکار نہیں کہ بھارتی حکام پاکستان سے کتنا بغض رکھتے ہیں،معصوم کبوتر کو کیا معلوم انسانوں نے زمینی کیا فضائی کیا سمندری حدود بھی مقرر رکھی ہیں اور کوئی پاسپورٹ ویزہ اور دیگر سفری دستاویزات کے بنا ان جغرافیائی لکیروں کی پار نہیں کرسکتا۔ اس کبوتر نے پھر بھی جسارت کر ڈالی پاکستان سے اڑا اور بھارت کی حدود میں دھر لیا گیا وہ بھی جاسوسی کے الزام میں.بیچارے کبوتر کو جیل میں ڈال کر تفتیش کی گئی ،وہ بے زبان کیا بولتا قصور تو اس کا صرف یہ تھا کہ وہ پاکستان سے اڑ کر بھارت آگیا،ایکسرے ہوئے ،الٹرا سائونڈ بھی کروایا گیا لیکن بھارتی حکام کے ہاتھ کچھ نا آیا۔ پاکستان کے بغض میں مبتلا بھارتی میڈیا بھی اس کبوتر کی خبر کو اچھالنے لگ گیا کہ سرحد پار کرتے ہوئے ایک جاسوس دھر لیا گیا۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہی ہے کہ ایک معصوم پرندے کو جاسوسی کے الزام میں دھر لیا گیا اور شور یہ ڈالا گیا کہ اس کے پاس اردو میں لکھا ایک خط بھی ہے اور پاکستان کے ضلع نارووال کا فون نمبر بھی درج ہے،پتہ نہیں کسی کبوتر باز عاشق کا یہ پیغام رساں بھارت کے علاقے پٹھان کوٹ پہنچ گیا اور وہاں اس بیچارے کو پابند سلاسل کردیا گیا،بیچارے کبوتر کا قصور صرف پاکستانی کبوترہونا ہے،بھارتی پولیس اور خفیہ ادارے کی مشترکہ کاروائی میں امن و محبت کی علامت کبوتر کو گرفتار کر لیا گیا۔

اب اس معصوم بے قصور کبوتر کے ساتھ کیا ہو وہ تو کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن بھارتی حکام کی پاکستان دشمنی کھل کر سامنے آگئی ۔ایک کبوتر کو جاسوسی کے الزامات میں زیر حراست رکھنا بھارتی حکام کی بوکھلاہٹ کو صاف ظاہر کرتا ہے،یہ خبر جیسے ہی منظر عام پر آئی بھارت کی میڈیا اور سوشل میڈیا پر خوب جگ ہنسائی ہوئی۔ٹوئپس بھارت کے ساتھ اگلے پچھلے حسابات چکتا کرتے نظر آئے۔

مشکت عمیر نے تصویری ٹوئٹ کیا پاکستان کا ایس ایس جی کبوتر اسکواڈ مشن کے لیے تیار ہے۔سارہ احمد نے ٹوئٹ کیا پاکستانی کبوتر نے بھارت پر حملہ کردیا۔سب سے دلچسپ ٹوئٹ عمار مسعود نے کیا،شرم کرو حیا کرو،ہمارا کبوتر رہا کرو۔چوہدری جہانزیب نے ٹوئٹ کیا ،میں کبوتر ہوں دہشت گرد نہیں۔ فرحان خان نے ٹوئٹ کیا بھارت ہمارا معصوم کبوتر واپس کرو۔صائم رضوی نے ٹوئٹ کیا،بڑا انڈیا بنا پھرتا ہے

ایک کبوتر سے ڈرتا ہے۔ہادیہ شاہ نے ٹوئٹ کیا ایک زمانہ تھا بھارت ہمارے ایٹم بم سے ڈرتا تھا ، اب تو ان کو ڈرانے کے لیے ایک کبوتر ہی کافی ہے۔عثمان علی خان نے ٹوئٹ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست کہلانے والے ملک کو ایک پاکستانی کبوتر سے ڈر لگتا ہے.بہت ہی حیرت ناک اور شرمناک بات ہے ، عمران لودھی نے ٹوئٹ کیا قوم کا کبوتر واپس لایا جائے۔

بھارت پاکستان دشمنی میں اتنا آگے جا چکا ہے کہ اس کی نفرت کا نشانہ ایک معصوم کبوتر بھی بن گیا،بھارت خود اپنے تمام پڑوسی ممالک میں دہشتگردی میں ملوث پایا گیا ہے، حالیہ کراچی اور بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردی کے واقعات کے تانے بانے بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے جا کر ملتے ہیں،بھارت کی یہ عادت ہے وار بھی خود کرتا ہے اور شور بھی خود ہی مچاتا ہے۔

ایک کبوتر کر ہی کیا سکتا ہے پرانے وقتوں میں لوگ ایسے پیغام رسانی کے لیے استعمال کرتے تھے وہ بھی اب متروک ہوگیا،اس کبوتر پر اگر کچھ درج بھی تھا تو ہوسکتا ہے اس مالک نے اسکی شناخت کے لیے لکھوایا ہو،پر بھارت کو پاکستان پر الزام تراشی کا موقع چاہیے.ایک کبوتر گرفتار کیا اور پاکستان کے خلاف زہر افشانی شروع۔چند دن پہلے ہی بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ سرحد پار سے ہونے والی دہشتگردی کا مقابلہ دہشت گرد بھیج کر ہی کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا دہشت گرد تیار کرکے سرحد پار بھجیں جائیں۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ردعمل میں کہا یہ بیان پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں بھارت کے ملوث ہونے کا ثبوت ہے۔

بھارت کو ہوش کے ناخن لینا ہوگے جس ملک میں خود اتنی غربت دہشتگردی اور علیحدگی کی تحاریک چل رہی ہوں اسے پڑوسی پر نظر رکھنے بجائے اپنے داخلی مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔پاکستان بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے لیکن بھارت کی طرف سے الزام تراشیاں اور دہشتگردوں کی پشت پناہی کوئی نیک شگون نہیں،اگر 2015 میں بھی بھارت مہذب پڑوسی کی طرح رہنا نہیں سیکھ سکتاتو یہ رویہ خطے کے امن کو متاثر کرسکتا ہےاور کبوتر جیسے معصوم پرندے کو جیل میں ڈالنا اور کچھ نہیں بھارت کی اپنی کم علمی جہالت اور پاکستان دشمنی کا شاخسانہ ہے جو ان کی جگ ہنسائی کرواگیا۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Twitter @javerias

Posted in Uncategorized

تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر

تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر Share
Posted On Monday, June 01, 2015
…..جویریہ صدیق……
دنیا بھر میں 31مئی کو انسداد تمباکو نوشی کا دن منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس میں تمباکو کے استعمال سے پہنچنے والے نقصانات سےآگاہ کرنا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال ایک ارب افراد تمباکو کا استعمال کرتے ہیں جن میں سے تقریبا ًچھ ملین افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، ان میں دس فیصد وہ ہیں جو خود تو سگریٹ نہیں پیتے لیکن اپنے اردگرد تمباکو نوشی کے دھویں سے متاثر ہوتے ہیں۔ہر سال سولہ فیصد مرد اور آٹھ فیصد خواتین تمباکو نوشی کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔بات کی جائے پاکستان کی تو ہر سال ایک لاکھ افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے لقمہ اجل بنتے ہیں۔

پاکستان میں تمباکو کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے،نوجوان نسل سگریٹ ،شیشہ اور گٹکا کی دلدادہ ہے اور بنا اس کے نقصانات کو جانے اس کا استعمال کررہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق 45فیصد مرد اور چھ فیصد خواتین پاکستان میں تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہیں۔ سگریٹ ہو سگار ہو ،گٹکا،یا حقہ اگر آپ تمباکو استعمال کررہے ہیں تو پھیپھڑوں کا سرطان،خوراک کی نالی کا سرطان، منہ کا کینسر،عارضہ قلب، کولیسٹرول، ٹی بی،دمہ اور ہائی بلڈ پریشر جیسے خطرناک امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔اگر تمباکو نوشی خواتین کریں تو ان بیماریوں کے ساتھ ساتھ ماہانہ ایام کی خرابی،اسقاط حمل اور کمزور قبل از وقت بچوں کی پیدائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

صحبت کے زیر اثر لوگ تمباکو نوشی کا استعمال تو شروع کردیتے ہیں لیکن جب یہ اپنا اثر دیکھنا شروع کرکے انسان کو بیمار کرنا شروع کرتا ہے تو اس لت سے جان چھڑانا آسان کام نہیں. لیکن اگر انسان پختہ ارادہ کرلے تو پھر آہستہ آہستہ تمباکو نوشی ترک کی جاسکتی ہے،تمباکو کی لت انسان کی نفسیاتی اور جسمانی ضرورت بن جاتی ہے اس لیے اس کو ترک کرنے کے لیے دماغ اور جسم دونوں پر کام کرنا پڑتا ہے،جب بھی یہ ارادہ کریں کہ آپ تمباکو نوشی ترک کررہے ہیں تو اپنے اہل خانہ اور دوستوں کو اعتماد میں لیں تاکہ وہ آپ کے ساتھ تعاون کریں۔

اگر آپ پوری سگریٹ کی ڈبی پیتے ہیں تو پلان کے پہلے پندرہ دن اس کو آدھا استعمال کریں سولہویں دن سے چوتھائی اور دوسرے مہینے میں تین سے چار اور45دن بعد ایک یا دو کر دیں،جس وقت آپ کو زیادہ سگریٹ کی طلب ہو اپنا دھیان ہٹائیں ،اپنے اس پلان میں ورزش کو شامل کریں،پانی زیادہ سے زیادہ پئیں،پھلوں کا استعمال کریں۔اگر زیادہ بے چینی ہو تو ببل گم چبائیں یا گاجر پودینے کا استعمال کریں۔ نفسیاتی طور پر اپنے آپ سے خود بات کریں اپنے آپ کو سمجھائیں کے تمباکو آپ کے لیے بہت خطرناک ہے۔

تمباکو نوشی ترک کرتے ہوئے پہلے چند ہفتے انسان بہت چڑچڑا ہوجاتا ہے،کیونکہ تمباکو میں شامل نکوٹین وقتی طور پر جسم اور دماغ کو سکون پہنچاتی ہے.اس لیے اس کو استعمال نا کرنے پر انسان غصہ کرنے لگتا ہے سر میں درد، نیند کی کمی، بے چینی ،کھانسی میں اضافہ،ڈپریشن،قبض،پیٹ کی خرابی اور توجہ مرکوز کرنے میں دشواری عام طور پر تمباکو چھوڑنے کی علامتوں میں شامل ہے،ان سب چیزوں سے گھبرائیں نہیں بلکے ان کا مقابلہ کریں۔

پھلوں سبزیوں اور پانی کا زیادہ استعمال کریں،خود کومصروف رکھیں، ہلکی ورزش کریں روز نہائیں،اس دورانیہ میں ایسے ماحول سے کچھ عرصہ دور رہیں جو آپ کو سگریٹ نوشی کی طرف راغب کرتا ہو ۔اگر آپ اپنی مدد آپ نہیں کرسکتے تو معالج سے رجوع کریں ان کی ادویات اور کونسلنگ فائدہ مند ہے، تمباکو نوشی ترک کرتے ہی آپ کی صحت بتدریج بہتر ہونا شروع ہوجائے گی،بلڈ پریشر دل کی دھڑکن نارمل ہوجائے گی،کھانسی،الرجی بھی نا ہونے کے برابر رہ جائیں گی،سرطان ،فالج اور دل کے دورے کا امکان بھی نارمل افراد جتنا ہوجائے گا۔

حکومت انسداد تمباکو نوشی کے حوالے سے موثر اقدامات کرے،پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی سے سختی سے عمل درآمد کروائے،اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو سگریٹ اور شیشہ مہیا کرنے والے دکانداروں اور کیفے ہوٹلز پر جرمانہ عائد کیا جائے، سگریٹ اسمگلنگ پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دی جائے،تمباکو سے بنی اشیاء کے اشتہارات پر مکمل پابندی ہو اور پیکٹ پر وزارت صحت کی وارننگ لازمی چھپی ہوئی ہو۔اس کے ساتھ ساتھ حکومت اس انڈسٹری پر اور پراڈکٹس ٹیکس عائد کرے تاکہ یہ قوت خرید سے نکل جائے۔

ایسی عادت کو ترک کردینا چاہیے جو آپ کے ساتھ آپ کے اہل خانہ کے لیے بھی مضر ہے،زندگی کی طرف واپس آئیں اور محسوس کریں زندگی تمباکو نوشی کے بنا کتنی حسین ہے،کسی بھی چیز کی لت اچھی نہیں اس لیے اپنی صحت زندگی خاندان کہ خاطر اس زہر کو پینا چھوڑ دیں۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Twitter @javerias