Posted in Uncategorized

اسسٹنٹ پروفیسر شہناز نعیم شہید

 


 

 

.

 

..جویریہ صدیق……
کسی بھی بچے کا ماں باپ کے بعد اگر کسی اور سے شفقت انسیت اور پیار کا رشتہ قائم ہوتا ہے تو وہ استاد محترم کے ساتھ ہے۔بچہ اپنی ماں کے ساتھ ساتھ جس رشتے سے پیار توجہ کا طلب گار ہوتا ہے وہ صرف استاد کا ہے۔ماں باپ بچے کو چلنا سکھاتے ہیں اور استاد بچے کو دنیا میں چلنے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں بچہ اپنے دن کا آدھا حصہ اپنے استاد کے ساتھ گزارتا ہے اور یہ ہی استاتذہ کرام بچے کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

آرمی پبلک اسکول سمیت پاکستان بھر کے طالب علموں نے ’’ٹیچرز ڈے‘‘ کے موقع پرا پنے استاتذہ کو نذرانہ عقیدت پیش کیا۔اس کے ساتھ بالخصوص ان استاتذہ کو یاد کیا جنہوں نے سولہ دسمبر کو سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔

اسسٹنٹ پروفیسر شہناز نعیم شہید بھی ان استاتذہ شامل تھیں جو سولہ دسمبر کو حسب معمول درس و تدریس میں مصروف تھیں۔لیکن دہشت گرد اچانک موت پر بن نازل ہوئے اور وہ بربریت برتی گئی کہ دھرتی کانپ اٹھی۔میڈم شہناز نے کمپیوٹر لیب میں اپنے طالب علموں کے ساتھ شہادت پائی ۔

اسسٹنٹ پروفیسر شہناز نعیم شہید 1995 سے اے پی ایس کے ساتھ منسلک تھیں،کمپیوٹر سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، وہ آرمی پبلک اسکول و کالج ورسک روڈ میں آٹھویں جماعت سے سیکنڈ ائیر تک کے طالب علموں کو کمپیوٹر پڑھاتی تھیں،1995 میں سرجن نعیم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی، اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں اور ایک بیٹے سے نوازا، شہناز نعیم نے درس و تدریس کا عمل شادی اور بچوں کی پیدایش کے بعد بھی جاری رکھا۔

ان کے شوہر ڈاکٹر سرجن نعیم کہتے ہیں کہ شہناز شہید نے جس طرح اسکول اور گھر کی ذمہ داریوں کو اٹھا رکھا تھا میں حیران ہوتا تھا کہ یہ اتنی ہمت کہاں سے لاتی ہے،گھر کے سب کام بچوں کی پرورش پھر ساتھ میں جاب لیکن وہ سب کام احسن طریقے سے کر لیتی،صبح سات بجے ہم سب گھر سے چلے جاتے ،وہ 2 بجے تک سکول سے واپس آتی کھانا بنانا بچوں کو پڑھنا پھر میں رات تک واپس آتا ہم مل کر کھانا کھاتے، مجھے کبھی بھی وہ گھریلو معاملات میں نہیں الجھاتی تھیں، میری شریک حیات مجھے بہت اچھی طرح سمجھتی تھیں کیونکہ میں ہر روز سرجری میں مصروف ہوتا اس لیے مجھے بہت سی ذمہ داریوں سے بری الذمہ کر دیتی۔

وہ اسکول کی سینئر استاتذہ میں سے ایک تھیں، بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ وہ ان کی تربیت پر بھی توجہ دیتی، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اگر بچے کو کوئی پریشانی ہے تو وہ دور کرسکیںتاہم ڈسپلن کی خلاف ورزی بالکل برداشت نہیں کرتیں، میڈم طاہرہ قاضی ان پر خاص اعتماد کرتی تھیں، مختلف فیصلوں میں ان کی مشاورت لیتی تھیں۔

ڈاکٹر نعیم کہتے ہیں وہ بہت سادہ طبیعت کی مالک تھیں، نا شاپنگ کی دلدادہ نا ہی فیشن کی شوقین، بس فٹنس کا شوق تھا ، واک کرتیں کہ میں فٹ رہ سکیں، ہماری دونوں بیٹیاں پری میڈیکل کی طالب علم ہیں اور بیٹا اے پی ایس ورسک روڈ پر ہی پڑھتا ہے، شہناز کے جانے کے بعد زندگی تبدیل ہوگئ ، بس اب ہم زندگی گزار رہے اس جانے کے بعد جب تمام گھر کی ذمہ داریاں مجھ پر ہیں تو مجھے شدت سے ان کی کمی کا احساس ہےتاہم اس موقع پر ہمارے رشتہ داروں نے مشکل کی گھڑی میں ہمارا بہت ساتھ دیا۔

ڈاکٹر نعیم سولہ دسمبر کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں اس دن کی ہولناکی ذہن سے کبھی مٹ نہیں سکتی۔ ہال کے بالکل نزدیک کمپیوٹر لیب میں شہناز طالب علموں کو پڑھا رہی تھی کہ دہشت گردوں نے حملہ کردیا،شہناز لیب سے باہر آئی اور یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ ہوکیا رہا ہے لیکن پوائنٹ بلینک پر انہیں نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد ان کے طالب علموں کو جو لیب میں موجود تھے، شہناز نے اپنے روحانی بچوں کے ساتھ اس جہان فانی سے کوچ کیا۔

میں لیڈی ریڈنگ اسپتال میں تھا، اس وقت سرجری میں مصروف تھا جب فارغ ہوا تھا فون پر لاتعداد مس کالز تھیں ایمرجنسی میں زخمی اور لاشیں آنا شروع ہوگی، تھوڑی دیر میں مجھے اپنا بیٹا مل گیا وہ بھی اس ہال میں تھا تاہم اللہ نے اس کو محفوظ رکھاتاہم شہناز کا پتہ نہیں چل رہا تھا میں اس ہی کشمکش میں مریض بھی دیکھ رہا تھا، پھر پانچ بجے مجھے شہناز کی شہادت کی اطلاع ملی ان کا جسد خاکی مجھے سی ایم ایچ سے ملا۔

جب آرمی پبلک اسکول جنوری میں دوبارہ کھلا تو میں اپنے بیٹے غازی انیس نعیم کو اسکول لے کر واپس گیا تو مجھے راستے میں ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سکول اب کبھی نہیں آباد ہوگا.پر میں سکول میں بچے ان کے والدین کی بڑی تعداد دیکھ کر حیران رہ گیا۔آرمی چیف راحیل شریف اور ان کی اہلیہ بچوں کے استقبال کے لئے موجود تھی، شہید بچوں کے والدین غازی بچوں کا جذبہ دیکھنے کے لائق تھا۔میں اس وقت زار وقطار رونے لگا شاید میں نے اتنے بہادر اور محب وطن لوگ پہلے نہیں دیکھے تھے، مجھے یقین ہے یہی جذبہ ہمارے ملک پر کبھی آنچ نہیں آنے دے گا ،دہشت گردی نے خاندان کے خاندان تباہ کردیئے لیکن ہمارے لوگ اتنے بہادر ہیں کہ ان جذبہ حب الوطنی متزلزل نہیں ہوسکا۔

پاکستان کے تمام لوگوں خاص طور پر طالب علموں کو آرمی پبلک اسکول کے شہدا پر ناز ہے۔ان شہدا نے اسکول میں اپنی جان وطن پر قربان کردی۔میڈم شہناز دنیا میں موجود تو نہیں لیکن ان کا نام تاریخ میں امر ہوگیا۔تاریخ یہ یاد رکھے گی کہ دہشت گردی کے خلاف میں پاکستانیوں کی بہت قربانیاں ہیں جن میں آرمی پبلک اسکول کے نہتے طالب علم اور استاتذہ کی قربانی سرفہرست ہے۔ کمیپوٹر لیب میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم آج بھی میڈیم شہناز نعیم کی کمی کو محسوس کرتے ہیں۔ان کے لئے دعاگو ہیں ان کی قربانی پر نازاں ہیں پاکستان کے تمام اساتذہ کو سلام ۔
Javeria Siddique
Twitter @javerias

Posted On Monday, October 05, 2015

Author:

Journalist writes for Turkish Radio & Television Corporation . Photographer specialized in street and landscape photography Twitter @javerias fb: : https://www.facebook.com/OfficialJaverias

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s