Posted in human-rights, Uncategorized

انسانیت پانی میں بہہ گیی

 

Posted On Sunday, September 06, 2015
…..جویریہ صدیق…..
انسان نے ہی زمین پرانسانوں کا جینا مشکل کردیا ہے،مسلسل خانہ جنگیوں اور بڑی طاقتوں کے جنگی جنون نے پوری دنیا کے امن کو تباہ کر رکھا ہے۔کہنے کو تو یہ بڑے ممالک چھوٹے ممالک پر اس لئے حملہ کرتے ہیں کے ہم دہشت گرد ختم کررہے ہیں۔لیکن نا ہی دہشتگرد ختم ہوتے ہیں اور نا ہی پکڑے جاتے ہیں۔ پر شہری آبادیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔اچھے بھلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد سڑکوں پر دربدر ہوجاتے ہیں۔کچھ ملکوں کے مطلق العنان حکمران عوام پر وہ ظلم ڈھا رہے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی ۔

مشرق وسطی کا امن ایک منظم سازش کے تحت تباہ کیا گیا ہے تاکہ اسرائیل کی خطے میں اجاہداری قائم ہوجائے۔ مسلم امہ میں اتفاق نہیں اسی لیے شام ،عراق،لیبا اور یمن جنگ کی وجہ سے بدحال ہیں۔وہاں کے نہتے عوام خانہ جنگی پریشان ہوکر قریبی ممالک میں پناہ لینا چاہتے ہیں لیکن کوئی عرب ملک ان کو لینے کے لئے تیار نہیں ، نا ہی دوسرے اسلامی ملک سوائے ترکی کے جس نے روہنجیا مسلمانوں کی بھی مدد کی اور اب شام کے مسلمان بہن بھائیوں کی بھی مدد کررہا ہے۔

شام خانہ جنگی کا شکار ہے۔ملک میں بشار الاسد کے جیسا حکمران اور دوسری طرف داعش کا خوف کوئی بھی انسان ایسے ماحول میں نہیں رہنا چاہتا۔اپنے لئے اچھی زندگی کون نہیں چاہتا۔لیکن جنگ کے حالات میں دیگر پڑوسی ممالک پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کردیتے ہیں۔اس کی وجہ سے بہت سے جنگ متاثرین غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کی کوشش میں موت کا شکار بن جاتے ہیں۔اس سب صورتحال میں انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کی چاندی ہے جو ہجرت کرنے والوں سے بھاری رقوم لوٹتے ہیں اور انہیں بیچ سمندر میں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔یہ ہی سب عبداللہ کردی کے ساتھ ہوا ، شام سے جان بچا کر نکلے ترکی میں پناہ لی لیکن غیرقانونی طور پر یورپ جاتے ہوئے اپنی کل کائنات اپنا خاندان گنوا بیٹھے۔عبداللہ نے کینڈا میں پناہ کے حصول کی درخواست دی لیکن رد ہوگئی پھر ترکی سے یورپ جاتے ہوئے عبداللہ کی کشتی الٹ گئی جس کے نتیجے میں اس کی بیوی اور دو بیٹے جاں بحق ہوگئے۔عبداللہ کے تین سالہ بیٹے ایلان کی لاش ترکی کے جزیرے بوردم کے ساحل سے ملی ۔ترک کوسٹ گارڈز نے بھی کیا منظر دیکھا کہ ایک ننھا وجود ساحل پر بے جان پڑا تھا۔ایک کم سن غیر قانونی تارک وطن جس کو اس لفظ کا مطلب بھی نہیں پتہ دنیا سے جا چکا تھا۔

عبداللہ کہتے ہیں جیسے ہی کشتی الٹنے لگی تو وہ ایجنٹ جس نے ہمیں یونان پہنچانے کا وعدہ کیا تھا فوری طور پر کشتی سے اتر گیا، پیچھے رہ گئے میں میری بیوی اور دو بیٹے ہمارے پاس لائف جیکٹ بھی نہیں تھی۔میری بیوی کو پانی سے بہت ڈر لگتا تھا ایک ایک کرکے وہ سب میری آنکھوں کے سامنے ڈوب گئے میں کسی کو نہیں بچا سکا۔ اب کچھ نہیں بچا میری زندگی میں۔عبداللہ کہتے ہیں میں اب اپنے اہل خانہ کو کوبانی میں دفن کرنے کے بعد کہیں نہیں جائوں گا کیونکہ ہجرت میں ان کی وجہ سے کرنا چاہتا تھا، ان کو روشن مستقبل دینا کا خواہشمند تھا۔ میں اپنی بیوی اور بچوں کو پرامن زندگی دینا چاہتا تھا۔اب یہ کوبانی میں مدفون ہیں تو میں بھی ساری زندگی یہاں ہی رہوں گا۔

ایلان کی ساحل پر تصویر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انسانیت واقعی ہی پانی میں بہہ گئی۔برطانیہ کی لکھاری ورسن شائر نے تبصرہ کیا سب کو سمجھنا ہوگا کوئی بھی انسان اس وقت تک اپنے بچوں کو کشتی میں نہیں بٹھاتا جب تک پانی زمین سے زیادہ محفوظ نا لگنے لگے۔ ورسن بالکل صحیح کہتی ہیں عبداللہ کو بھی زمین پر اور اس پر رہنے والوں سے زیادہ سمندر اور کشتی پر اعتماد تھا کہ وہ اسے ایک پرامن مقام تک لے جائے گی۔کیونکہ شام میں تو ان کے لیے زمین تنگ کردی گئی تھی۔انا پرست حکمران عوام پر جنگیں مسلط کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اس کے کتنے بھیانک اثرات نکلیں گے۔ایلان جیسے کتنے اور پھول بنا کھلے مرجھا گئے۔عبداللہ جیسے کتنے باپ ہیں جو اپنا تمام اثاثہ لٹا چکے ہیں۔لیکن طاقت ور افراد کا جنگی جنون کم ہونے کو نہیں آرہا۔

ایلان کی ساحل پر مردہ حالت میں تصویر دیکھ کر سوشل میڈیا پر بھونچال آگیا ، ملکی اور غیر ملکی فیس بک اور ٹوئٹر صارفین نے اپنے غم کا اظہار کیا۔ پانچ ،چھ ٹرینڈ ایلان کی اس دردناک موت کو زیر بحث لانے کے لیے بنائے گئے۔ مغربی ممالک میں لوگ خوش آمدید پناہ گزین اور انسانیت پانی میں بہہ گئی ٹرینڈ کے ساتھ اپنے دل کا غبار نکلتے رہے۔ برطانوی صحافی امول راجن نے ٹویٹ کیا ڈیوڈ کیمرون آپ اس وقت بہت بے حس لگ رہے آپ کو جنگ سے متاثرین افراد کو برطانیہ میں پناہ دینی چاہیے۔سابق برطانوی وزیر ڈیوڈ ملی بینڈ نے ٹویٹ کیا ہمارا یہ ہی پیغام ہے کہ اردن سے لے کر جرمنی تک اور برطانیہ سے امریکا ہر جگہ پناہ گزنیوں کو خوش آمدید کہا جائے۔

جبکہ پاکستانی سوشل میڈیا یوزرز نے’’ عرب حکمرانوں شرم کرو‘‘ اور’’ بشار الاسد بچوں کا قاتل‘‘ ٹرینڈ کیا۔ صحافی نوشین یوسف نے ٹویٹ کیا اس وقت شام کے دو اعشاریہ چھ ملین بچے تعلیم سے محروم ہوچکے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ دو ملین بچے پناہ گزین کے طور پر ہمسایہ ممالک میں مقیم ہیں۔شینا عابدہ نے طنزیہ ٹویٹ کیا لاکھوں شامی ہجرت کرگئے میدان صاف ہے اب شام ، لبنان کو اسرائیل کے حوالے کردو۔حماد ذوالفقار نے ٹویٹ کیا

کعبے کی قسم عرش پہ محشر کی گھڑی تھی

اک طفل کی جان موج طلاطم سے لڑی تھی

کل شام سے جنت میں بھی ماتم کا سماں ہے

پانی کے کنارے پہ کوئی لاش پڑی تھی۔

دوسری طرف مشرق وسطی خلیجی ریاستوں میں سوشل میڈیا یوزر نے اپنی حکومتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ شام کے پناہ گزینوں کی ذمہ داری یورپ پر نہیں ہم پر زیادہ عائد ہوتی ہے۔سوال تو یہاں یہ پیدا ہوتا ہے ہر بات میں امت مسلمہ کے بڑے بھائی بننے والے سعودیہ عرب اور ایران کہاں ہیں۔اس موقع پر کیا ان کا فرض نہیں بنتا ہے وہ شامی بھائیوں کی مدد کے لیے سامنے آئیں۔دیگر امیر اسلامی ممالک کہاں ہیں ؟ پاکستان بنگلہ دیش متحدہ عرب امارت کویت قطر کوئی تو آئے جو ان لوگوں کی مدد کرے جو ترکی سے یونان تک زندگی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔

کیا امت مسلمہ صرف نصابی کتابوں اورجہادی لٹریچر تک محدود ہے۔کیا واقعی ہی اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو اپنا ذاتی مفاد اور فرقہ بندیاں زیادہ عزیز ہیں۔ننھے ایلان کی موت بھی کیا ان حکمرانوں کو غفلت کی نیند سے نہیں اٹھا سکی۔ اب بھی وقت ہے اسلامی ممالک کو اتحاد کرکے اس خانہ جنگی کو ختم کرنا چاہیے اپنی سرحدیں جنگ متاثرہ افراد کے لیے کھول دینا چاہئیں، ورنہ بہت سے ایلان زندگی کی بازی ہار جائیں گے اور اللہ کے حضور یہ ہی ننھے پھول مسلم امہ کےحکمرانوں کے خلاف مقدمہ لڑیں گے۔دنیا میں تو شاید وقتی بچت ہوجائے لیکن ایلان کے مجرمان روز قیامت کہیں بھی پناہ نہیں حاصل کرسکیں گے۔

ایلان تو چلا گیا لیکن اپنے دیگر شامی بہن بھائیوں کے لیے یورپ کی سرحد قانونی طور پر کھول گیا اس ننھے فرشتے کی قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی جس نے پورے پورپ کو ہلا کر رکھ دیا ۔ وہاں کے عوام سراپا احتجاج ہوکر اپنی حکومتوں سے مطالبہ کرنے لگے کہ جنگ متاثرین کو پناہ دی جائے۔ان کی حکومتوں نے ایسا ہی کیا اور اب شامی مہاجرین کو پناہ دینے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔پر افسوس اسلامی ممالک کے حکمران کے دل ایلان کی اس قربانی پر بھی نا پگھل سکے اور نا ہی ساحل پر پڑی ایلان کی لاش ان میں انسانیت کو جگا سکی۔
Javeria Siddique writes for Daily jang
twitter@javerias

Author:

Journalist writes for Turkish Radio & Television Corporation . Photographer specialized in street and landscape photography Twitter @javerias fb: : https://www.facebook.com/OfficialJaverias

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s