|
|||||
Posted On Friday, June 26, 2015 | |||||
26 جون کو انسداد منشیات اور غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد منشیات کے انسانی زندگی پر مضر اثرات کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔دنیا بھر میں کروڑوں افراد منشیات کے عادی ہیں،ہیروئن، شراب، حشیش ،افیون ،مورفن، گانجا ،بھنگ ،چرس،کوکین ،سیگریٹ نوشی اور خوب آور ادویات کی صورت میں یہ زہر اپنے اندر اتار رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تیس کروڑ سے زائد افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہیں اور پاکستان میں ساٹھ لاکھ سے زائد نشے کے عادی ہیں،نشہ کرنے کے پیچھے بہت سے سماجی نفسیاتی اور معاشی عوامل کار فرما ہیں،بہت سے افراد بری صحبت کی وجہ سے اس میں مبتلا ہوتے ہیں،کچھ بچے والدین کی عدم توجہی اور پیسے کی فروانی کے باعث اس عادت کو اپناتے ہیںتو کچھ فیشن کے طور پر ۔کچھ لوگ اپنے حالات سے فرار کے لیے اسے استعمال کرتےہیں،شروع میں تو یہ شاید انکو یہ کوئی وقتی لطف دے جاتی ہو لیکن آہستہ آہستہ یہ نشہ انسان کو کنٹرول کرنا شروع کردیتا ہے اور انسان اسکا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔نشہ نا ملنے کی صورت میں وہ بے چین ہونے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ شخص زندگی سے دور ہوجاتا ہے۔ نشہ صرف انسان کی صحت نہیں سماجی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کردیتا ہے،نشہ کرنے والا شخص اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہو جاتا ہے،جمع پونجی منشیات کی خرید میں اڑا ڈالتا ہے اور صاحب فراش ہوجاتا ہے،صحت الگ متاثر ہوتی ہے انسان تھکا ہوا محسوس کرتا ہے، نیند کا غلبہ طاری رہتا ہے،سر میں درد جسم میں درد رہتا ہے،بعد میں منشیات انسان کے دماغ نظام تنفس نظام ہضم ،دل جگر کو نقصان پہنچاتی ہے،منشیات کا استعمال کرنے والے افراد کینسر ،دل کے عارضے اور سرنج سے اسے استعمال کرنے والے ایچ آئی وی میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں،کچھ افراد نشے کی اوور ڈوز سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس لیے اس کے استعمال کو ترک کرنا بہت ضروری ہے اور اس کے حوالے سے آگاہی بیدار کرنا سب سے اہم ہے،پاکستان میں اس وقت بیس لاکھ افراد ہیروئن اور پندرہ لاکھ چرس کی علت کا شکار ہیں،سیگریٹ نوشی ، شراب نوشی ،شیشہ ،بھنگ اس کے علاوہ ہیں، حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ مکمل طور پر منشیات کے کاروبار کو کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف ان راستوں کو سیل کرنا چاہیے جہاں سے یہ بن کر عوام تک پہنچتی ہیں دوسرا مزید بحالی صحت کے مراکز کا قیام جہاں نشے کی لت میں مبتلا افراد کا علاج کیا جائے۔ پاکستان میں اینٹی نارکوٹکس فورس منشیات کے پھیلاو کو روکتی ہے،افغانستان سے افیون کی 70فیصد سپلائی ہوتی ہے،اس کو پاکستان کے ذریعے اسمگل کیا جاتا ہے،اس ہی وجہ سے 1995 میں اے این ایف کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ منشیات کے استعمال نقل و حمل اور پھیلائو کو روکا جاسکے۔ اے این ایف نے 1995 سےجون 2015 تک افیون 160 ٹن، مارفین 63 ٹن، ہیروئین 41 ٹن اور چرس 330 ٹن منشیات پکڑی ہے،جنہیں ہر یوم انسدادمنشیات پر جلا دیا گیا،2010 میں پاکستان کو پوپی فری ملک قرار دے دیا گیا جس میں اے این ایف کا کلیدی کردار ہے۔ یہ چھوٹا سا وفاقی ادارہ اپنےطور پر بہت سے سیمینار،لیکچرز اور واکز کا اہتمام بھی کرواتا ہے تاکہ عوام میں شعور اجاگر ہولیکن یہ لمحہ فکریہ کے یہ ادارہ حکومت کی سرپرستی سے مکمل طور پر محروم ہے اس ادارے کا کوئی بھی دفتر سرکاری زمین پر نہیں، تمام دفاتر یہاں تک کہ اس کے زیرانتظام ہسپتال بھی کرائے کی بلڈنگ میں واقع ہیں۔ صرف چار ہزار کی نفری پر مشتمل اے این ایف کی کارکردگی قابل ستائش ہے لیکن حکومت کی عدم توجہی لمحہ فکریہ ہے،حکومت کو اے این ایف کے ساتھ مل کر فوری طور پر بحالی مراکز صحت کو پاکستان بھر میں قائم کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ خواتین کے لیے علیحدہ ڈرگ ٹریٹمنٹ سنٹر کا قائم عمل میں لایا جائے، میڈیا پر موثر کمپین چلائی جائے، جس سے عوام کو منشیات کے مضر اثرات سے آگاہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ بھی ایسے افراد پر نظر رکھیں جو اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں اور ان کی اطلاع فوری طور اے این ایف کو دیں http://www.anf.gov.pk پر جاکر اپنی شکایت درج کرواسکتے ہیں۔والدین بھی اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھیں کہ وہ کس طرح کی کمپنی میں اٹھتے بیٹھتے ہیں،اسکول کالج انتظامیہ بھی بچوں اور دیگر عملے کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں،اگر کسی کو نشے کی لت میں مبتلا دیکھیں تو اس کی مدد کریں،ہم صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے ہیں ہم سب کو انسداد منشیات میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،اس جرائم میں ملوث افراد کی نشاندہی کرکے اور اسکو استعمال کرنے والوں کی بحالی صحت میں مدد کرکے،عوام حکومت مل کر ہی اے این ایف کو مضبوط کرسکتے ہیں،تب ہی یہ ادارہ ملک سے منشیات کے گھناؤنے کاروبار کو مکمل طور پرختم کرسکتا ہے۔ Javeria Siddique writes for Daily Jang Twitter @javerias |
|||||