جویریہ صدیق ۔۔۔ عورتوں کے حقوق کے لئے تو بہت آواز اٹھائی جاتی ہے لیکن کبھی کسی نے مظلوم مردوں کے لیے بھی آواز اٹھائی ہے۔رمضان سے لے کر شعبان تک خواتین ان کی جیب تو صاف کرتی ہی کرتی ہیں لیکن ساتھ میں بیگار میں کام بھی کرواتی ہیں۔ایک تو پتہ نہیں کون بول گیا کہ
کہتے ہیں عید تو صرف بچوں اور عورتوں کی ہوتی ہے لیکن جس نے بھی یہ کہا ہے بلکل غلط کہا ہمیں کیوں بھول گئے ۔عید ہماری بھی تو ہوتی ہے لیکن اس عورتوں اور بچوں کی دنیا میں مردوں کی پرواہ کیسے ہے ۔ ان خواتین کی تیاری جو رمضان کے پہلے روزے سے شروع ہوتی ہے وہ چاند رات تک بھی ختم نہیں ہوتی۔سحر ی ہو افطاری لسٹ تیار “اجی سنتے ہیں ” بس یہ جملہ سن کر ہمیں اپنے بٹوے کا حجم سکڑتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔پہلے عشرے میں نیک بخت کہتی ہیں آخری عشرہ تو بلکل خریداری میں مصروف ہوکر ضائع نہیں کیا جاسکتا اس لئے آپ پہلے عشرے میں ہی عید کی شاپنگ کروادیں۔
ہم بھی بھولے پن میں آکر سحری افطاری میں ایک نیک سعادت مند شوہر کی طرح انہیں بازاروں اور مالز میں لے جاتے ہیں۔بعض اوقات روزے کی حالت میں بھی ہم یہ شاپنگ کا کشت کاٹتے ہیں۔ برینڈڈ لان کی دوکانوں پر ایسے رش ہوتا ہے جیسے مفت لان بانٹ رہی ہوں۔ایک قیمض جس کے ساتھ نا ڈوپٹہ نا شلوار قیمت چار ہزار ہم نے دوکاندار کو کہا کیوں میاں اس پر ہیرے موتی لگے ہیں ۔وہ کہنا لگا اس پرتین کرسٹل کی بٹن لگیں ہیں اس وجہ سےیہ چار ہزار کاہے۔
بیگم نے کہا ہم نے تو یہ ہی شرٹ لینی ہے ۔مجھ غریب نے دل میں سوچا پھر سوچ کر کہا خرید لو یہ قمیض بیگم آگے چل کر ہاتھ تنگ ہوا تو یہ ہی بٹن قمیض سے اتار کر بیچ دیں گے ۔بیگم نے سختی سے ہمارا گھٹیا آئیڈیا جھڑک دیا۔
چارہزار کی قمیض کے بعد میچنگ ٹراوز 2 ہزار ڈوپٹہ کے نام پر ایک پھندہ نما چیز 1500 میں خریدنے کے بعد بیگم خراماں خراماں جوتوں کی دوکان کی طرف بڑھنے لگی ۔جوتے دو ہزار سے شروع ہوکر 20 ہزار پر ختم ہورہے تھے ۔بس خاکسار اس ہی وقت دعا کرنے لگ گیا مہنگے جوتوں میں سائز ہی نا ہو ۔سینکڑوں جوتے نکلوانے کے بعد جب غریب سیلز مین بے ہوش ہونے کے قریب تھا تب شاید بیگم کو اس پر ترس آگیا اور ایک تین ہزار کی جوتی پسند کرلی۔بیگم اب تک مجھے کئی ہزار روپے کی پڑ چکی تھیں۔
میری طبعیت کچھ مکدر سی ہونی لگے دل ڈوبنے لگا مجھے احساس ہونے لگے کہہ آخر مرد ہارٹ اٹیک سے ہی کیوں مرتے ہیں ۔
ہم نے مریل سی آواز میں کہا بیگم آو گھر چلیں باقی شاپنگ کسی اور دن کر لینا کہنے لگی اب آئیں ہیں تو بچوں کی چیزیں بھی خرید کر جائیں گے میں نے میک اپ اور جیولری بھی خریدنی ہے ۔ایک دوکان سے دوسری ایک منزل سے دوسری منزل کسی نے خادم یعنی ہمیں پوچھا تک نہیں کہ ایک سوٹ چپل تم بھی خرید لو۔
گھر آکر سکون کا سانس لیا چلو شاپنگ ختم اب سارا رمضان آرام سے گزرے گا لیکن اگلے ہی دن معلوم ہوا کہ وہ تو عید کے پہلے دن کی شاپنگ تھی اب تو دو دن کے لئے مزید چیزیں خریدنی ہیں ۔ہم نے درخواست بھی کی بیگم کچھ اعتدال سے چلیں پھر وہ ہی آنسو میکے جانے کی دھمکی اپنے والد صاحب کی امیری کے قصے ۔کیا کرتے پھر چپ کرکے بازار چل پڑے شوہر کی تے نخرہ کی۔
بیگم نے کچھ ان سلے سوٹ خریدے باقی بچوں کی شاپنگ۔ہم نے گزارش کی بیگم کچھ ہمارے لئے بھی خرید لیں تو کہا درزی کو لٹھا خرید دیا تھا وہ آپ کا کرتا بنا دے اور چپل زیادہ مہنگی نہیں لینی ایسی ہی مسجد کے باہر گم گئ سیل سے خرید دو گی۔
ہم بس مرجھا کر رہے گئے ہماری اماں کس چاہ سے ہمیں تیار کرتی تھیں پر بیگم کے سامنے منہ بند رکھنے پر ہی اکتفا کیا۔اس کے بعد بھی تابعدار کی سختی میں کمی نہیں آئی۔ہر روز حکم ماسٹر صاحب سے میرے کپڑوں کا ضرور پتہ کرلینا ۔،کبھی پیکو، کبھی ہم رنگ گوٹا کناری سب کام ہمارے ہی ذمہ داری۔گرمی کے روزے اور بیگم کے نخرے چاند نکلنے کا اعلان ہوا تو خوشی دگنی ہوگی۔چلو آج کچھ باہر رونق میلا دیکھ کر آتے ہیں۔
ارے یہ کیا عید کا چاند کیا نظر آیا یہ تو گھر کے کام چھوڑ پھر شیشہ سنبھال کہ کھڑی ہوگئ بچے اور ہم بھوکے بیٹھے پر ان پر چاند رات کو بازار جانا فرض ہے۔ہم اگر تھوڑی ہمت جمع کرکے پوچھ بھی لیں کہ بیگم وہ سارا رمضان جو ہم آپ کو سحری اور افطاری کے اوقات میں بازار کے چکر لگواتے رہے وہ کیا تھا ؟ تو بس یہ سننے کی دیر ہوگی کہ وہ رونا دھونا شروع ہوگا کہ اللہ کی پناہ ہائَے جب سے آپ کے گھر آئی ہو ں ملازمہ بن کر رہ گی ہوں ۔میرے تو اتنے رشتے آئے تھے ہائے اماں ابا نے کنگال اور کنجوس کے پلے باندھ دیا ۔
ہمارے پاس اس گھریلو جنگ کو ختم کرانے کا ایک ہی آپشن ہے کہ بیگم کو پھر بازار لئے جائیں گھر سے نکلیں تو سب سے پہلے یہ درزی کے پاس جایں گے روئیں دھویں گی سوٹ نا تیار ہونے پر اس کو سخت سست کہہ کر کسی ڈیزائنر سٹور سے ریڈی میڈ سوٹ لے کر چاٹ کھا کر چوڑیاں پہن کر مہندی لگا جب یہ شاپنگ مال سے برآمد ہوتی ہیں تو ہمارا بچوں کو سنبھال سنبھال کر تراہ نکل گیا ہوتا لیکن ہم امن و امان کے پیش نظر زبان بندی پر ہی یقین رکھتے ہیں۔
آخرکار اپ ٹو 50 فیصد سیل والی دوکان سے ہمیں ایک عدد شلوار سوٹ اور جوتا مل ہی جاتا ہے۔ ان تمام ترچاند رات کی ستم ظریفوں کے بعد جب ہم رات کے دو تین بجے گھر پہنچتے ہیں تو خود مہندی والے ہاتھ لئے بیٹھ جاتی ہیں اور سارے کام ہمارے زمے۔ کچھ دیر ہی کمر سیدھی کی ہوتی ہے کہ بیگم کی چنگاڑتی آواز آتی نماز روزے کا تو شوق نہیں اٹھ جائیں عید کی نماز نہیں پڑھنی ۔ہم آنکھیں ملتے ملتے اٹھ جاتے ہیں اور مسجد جاکر اپنے جیسے مظلوم بھائیوں کو بغل گیر ہوکر کہتے ہیں عید مبارک
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Twitter @javerias |