![]() |
|
|||||
Posted On Friday, August 28, 2015 | ||||||
16 دسمبر 2014 کو پشاور آرمی پبلک اسکول پشاور میں اپنے شاگردوں کے ساتھ اردو کی استاد سحر افشاں نے بھی جام شہادت نوش کیا،سحر افشاں سانحہ پشاور کے ان پہلے شہیدوں میں تھیں جنہیں دہشتگردوں نے نشانہ بنایا،ان کے غازی شاگرد کہتے ہیں ہماری بہادر میڈیم نے دہشتگردوں کو بہت کہا بچوں کو جانے دو یہ بہت چھوٹے ہیں ان سے کس بات کا بدلہ لے رہے ہو،لیکن انہوں نے ہماری ٹیچر کو پوائنٹ بلینک پر نشانہ بنایا اور وہ ہمارے سامنے شہید ہوگئیں۔سحر افشاں شہید23 نومبر1981 ء کوپشاور میں پیدا ہوئیں۔ وہ شروع سے پڑھائی میں بہت بہترین اور اردو سے خاص لگائو رکھتی تھیں،بچپن سے ہی یہ ٹھان لی کہ اردو ادب میں ہی ماسٹرز کروں گی۔ہمیشہ اسکالر شپ جیتے ،چاہے اسکول ہو کالج یا یونیورسٹی ہر دل عزیز اور استاتذہ کی آنکھوں کا تارہ ۔2006 میں ایم اے کرنے کے بعد تدریس کا شعبہ اختیا ر کیا اور آرمی پبلک اسکول میں آٹھویں نویں میٹرک فرسٹ ایئر کو اردو پڑھاتی تھیں۔کوئی بھی تقریب ہو انتظامات سحر افشاں کو ملتے۔بیت بازی ، مقابلہ مضمون نویسی اور مباحثوں کی تیاری بھی طالب علموں کو سحر ہی کرواتیں۔سحر سنجیدہ مزاج استاد تھیں۔اردو پڑھانے کےساتھ ساتھ بچوں کی دیگر صلاحیتوں پر بھی محنت کرتیں۔ان کے بہت سے طالب علم مقابلوں میں انعامات جیت کرآتے۔16 دسمبر کو سحر افشاں معمول کے مطابق اسکول گئیں، لیکن لوٹ کر واپس نا آسکیں اور اپنے شاگردوں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ شہید سحر افشاں کے بڑے بھائی فواد گل کہتے ہیں سحر بہت محنتی اور ملنسار تھیں ۔سحر ہر فن مولا تھیں جہاں ایک طرف وہ اردو کی بہترین استاد تھیں تو دوسری طرف ہر ایونٹ بھی احسن طریقے سے آرگنائز کرواتیں۔کلاسز اور ہال کی سجاوٹ اتنی عمدہ کرواتی کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔اسکول سے آنے بعد سحر ایم فل کی کلاس لینے پشاور یونیورسٹی جاتی، اس کے بعد آکر گھر بھی سنبھالتی ۔میں اپنی بہن کی صلاحتیں دیکھ کر دنگ رہ جاتا کہ کس طرح اس نے پروفیشنل لائف اور گھر میں توازن رکھا ہوا ہے، ہم دونوں بہت اچھے دوست تھے ، ہر وقت گپ شپ باتیں نوک جھوک وہ گھر بھر کی جان تھی۔ میرے والد ڈاکٹر تھے ان کا انتقال2006 میں ہوگیا تھا، اس کے بعد سے ہماری کفالت ہمارے ماموں نے کی، تب سے بس میری زندگی کا کل اثاثہ میری ماں،میرے ماموں اور چھوٹی بہن تھے۔16 دسمبر کو میں نے ہی سحر کو نیند سے جگایا بہت سردی تھی، اسکا اٹھنے کا دل نہیں کررہا تھا۔ میں نے کہا سحر اٹھو کہیں تمہیں دیر نا ہوجائے سحر اٹھی اور تیار ہوگئی لیکن اس کی اسکول وین وقت پر نہیں آئی وہ بہت دیر انتظار کرتی رہی آخر ساڑھے سات بجے وین آگئ۔وہ اسکول چلی گئی اور میں دفتر۔ کوئی گیارہ بجے کے قریب اپنے بینک کی طرف سے کورٹ میں پیش تھا جب مجھے اطلاع ملی کہ آرمی پبلک اسکول اور کالج پر حملہ ہوگیا۔ میں جج صاحب کو بتایا اور سیدھا ورسک روڈ کی طرف بھاگا۔ بہن کو بہت فون کئے لیکن وہ اٹھا نہیں رہی تھی۔گھر پر امی بہت پریشان ہورہی تھی۔عینی شاہدین کے مطابق جس وقت سحر نے مسلح افراد کو ہال کر طرف آتے دیکھا تو انہوں نے اپنے ارداگرد بچوں کو فوری طور پر محفوظ جگہ پر منتقل کرنا چاہا پر اتنی مہلت نا ملی اور پوائنٹ بلینک پر دہشت گردوں نے انہیں نشانہ بنایا۔فواد گل کہتے ہیں کہ جس وقت مجھے اپنی شہید بہن کا جسد خاکی ملا تو چہرابالکل سلامت تھا لیکن دماغ کا دائیاں حصہ گولیوں کے باعث مکمل طور پر اڑ چکا تھا۔ان کی گردن کندھے پر بھی گولیاں لگی تھیں۔ سحر کے جانے سے زندگی کی تمام خوشیاں ہم سے روٹھ گئی ہیں میری والدہ شدید علیل ہیں، سحر کے یوں اچانک چلے جانے نے انہیں توڑ کر رکھ دیا ہے۔ سحر کی شہادت کے بعد مجھے سی ایم ایچ سے فون آیا کہ آپ کی بہن کا فون ہمارے پاس ہے آپ لے جائیں، جب مجھے فون ملا تو بالکل صیح تھا تاہم کچھ عرصہ بعد خود بخود اس کی اسکرین ٹوٹ گئی، میں نےسحر کے فون کو دیگر اشیاء کے ساتھ سنبھال کر رکھ لیا ہے۔ سحر کے کمرے میں اس کی تمام اشیاء موجود ہیں لیکن وہ نہیں ہے۔پھر بھی میں حوصلہ کے ساتھ تمام امور کو چلا رہا ہوں۔ان کے غازی شاگرد بھی انہیں یاد کرتے ہیں اور ہم سے اپنے والدین کے ہمراہ ملنے آجاتے ہیں۔ میری اور میری والدہ کی یہ خواہش ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے،.مجھے اپنی بہن اور ہر آرمی پبلک سکول کے شہید کی قربانی پر فخر ہے۔ |