|
|||||
Posted On Tuesday, August 11, 2015 | |||||
قصور میں بچوں کے ساتھ وہ حیوانیت برتی گئ کہ پاکستان میں ہر درد مند دل کانپ اٹھا۔ کیا کوئی انسان کسی بھی معصوم بچے کے ساتھ ایسا کرنے کا سوچ بھی سکتاہے۔لیکن ہاں! قصور میں معصوم بچوں کے ساتھ بد فعلی کی گئی ،اس دوران ان کی ویڈیوز بنائی گئی پھر ان کو بلیک میل بھی کیا گیا۔کیا بیتی ہوگی ان معصوم کلیوں پر جن کے ساتھ تین طرح کے جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ان واقعات نے ان ننھی کلیوں کے دماغ پر کیا اثرات چھوڑے ہوں گے۔ جب بھی کوئی بچہ اس طرح کے ظلم کا شکار ہوتا ہے تو جسمانی چوٹ کے ساتھ ساتھ گھائو ان کی روح پر بھی لگتے ہیں۔اس طرح کے حادثے بچوں کی نفسیاتی صحت کو مکمل طور پر تباہ کردیتے ہیں۔ پاکستان جہاں ایسے موضوعات پر بات کرنا ہی معیوب سمجھا جاتا ہے وہاں جب ایک بچہ اس طرح کے سانحے کا شکار ہوجائے تو وہ اپنے لب خوف اور شرمندگی کے باعث سی لیتا ہے۔حالانکہ اس طرح کے واقعے میں بچے کا کوئی قصور نہیں ہوتا، لیکن خوف شرمندگی کے باعث وہ چپ رہنے لگ جاتا ہے اور ہر وقت خوفزدہ رہتا ہے۔اپنے دوستوں رشتہ داروں سے ملنے سے کتراتا ہے۔اسکول یا مدرسے جانے سے انکار کرتا اور گھر پر رہنے کو ترجیح دیتا ہے، اگر یہ واقعہ گھر میں ہی کسی قریبی رشتہ دار کے سبب پیش آیا ہو تو بچے گھر سے بھاگنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ نفسیاتی علامات کے ساتھ جسمانی اثرات بھی نمایاں ہوتے ہیں جن میں جسم پر چوٹ، جلے ہوئے نشان موجود ہوتے ہیں، بخار، جسم میں درد اور بستر گیلا کرنا بھی اس کی علامات میں شامل ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ماں باپ بچوں کی چال ڈھال سے بھی اس بات کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں کہ ان کے بچے کے ساتھ یہ حادثہ رونما ہوا ہے۔ اس ساری صورتحال میں ماں باپ کو بہت شفقت کے ساتھ اپنے بچے سے وجہ اور واقعہ دریافت کرنا چاہیے۔بچہ شاید کچھ عرصہ بات کو چھپائے گا،لیکن ماں باپ کی شفقت کی وجہ سے وہ ضرور اپنی آپ بیتی بیان کرے گا۔ والدین ایسے بچے کو خاص طور پر توجہ دیں اس کے علاج اور خوراک کا خاص خیال کریں۔اس کو فوری طور پر اسپتال لے کر جائیں تاکہ اسے کسی بھی قسم کے انفیکشن سے بچایا جاسکے۔ اس کو اکیلا گھر پر رہنے اور اکیلا درسگاہ جانے سے ڈر لگے تو گھر کے افراد ڈیوٹیاں بانٹ لیں لیکن بچے کو اکیلا مت چھوڑیں۔اگر بچے کی طبیعت میں گھر والوں کے پیار اور توجہ کے باوجود بہتری نا آئے تو اس کو فوری طور پر ماہر نفسیات کو دکھایا جائے۔ پاکستان کے تقریبا تمام سرکاری اسپتالوں میں ماہر نفسیات موجود ہیں اور ان کی کونسلنگ کی وجہ سے بچہ چند دن میں واضح بہتری محسوس کرے گا۔اگر جنسی زیادتی کے بعد بچے کے علاج پر توجہ نا دی جائے تو اس کے بہت بھیانک اثرات ہوسکتے ہیں۔ بچے خود کشی کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور بعض اوقات گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔ جنسی زیادتی کا واقعہ کسی بھی بچے کے ساتھ پیش آسکتا ہے، اس کے خطرات کو کم کرنے کے لیے والدین ہی معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔کبھی بھی بچوں کی جسمانی یا نفسیاتی صحت کو پس پشت نا ڈالیں۔ان کی بات غور سے سنیں اگر وہ کسی چیز کی شکایت کررہے ہیں ،تو اس پر دھیان دیں۔جنسی زیادتی کا واقعہ لازمی نہیں کہ باہر بازار یا کسی ویران جگہ پر ہو یہ گھر میں بھی ہوسکتا ہے ،اسکول میں بھی یا کھیل کے میدان میں بھی ، اس لیے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں ان کی ذمہ داری پورے طریقے سے اٹھائیں۔اساتذہ بھی بچوں کو آگاہی دیں کہ وہ اپنی حفاظت کس طرح سے کریں،کسی بھی شخص کو یہ اجازت نا دیں کہ وہ آپ کے بچے کو چومے، گود میں اٹھائے یا اس کا دوست بن جائے۔اپنے بچوں کو یہ سکھائیں کہ انہوں نے غیر افراد سے کتنا فاصلہ رکھنا ہے۔ اب قصور میں بچوں کی نفسیاتی بحالی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ملزمان نے نا صرف بچوں کے ساتھ گھنائونا کام کیا بلکہ ان کی ویڈیو بنا کر انہیں بلیک میل کیا۔یہ سب چیزیں کسی بھی بچے کی شخصیت کو مسخ کرنے کے لیے بہت کافی ہیں۔ اس لیے میڈیا بھی بچوں کے انٹرویو لینے سے پرہیز کرے اور بار بار ان سے سوالات سے گریز کرے۔اس کے ساتھ ساتھ خادم اعلیٰ سے یہ سوال ہے کہ ایک عرصہ ہوا کہ آپ صوبہ پنجاب کے حکمران ہیں اور آج تک پولیس کے حالات جوں کے توں ہیں۔جب منصف ہی مجرم بنے ہوں تو کون انصاف مانگنے تھانے جائے گا۔ والدین اور بچے کس کرب سے گزررہیں ہیں اور پولیس نے مجرمان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ شہباز شریف صاحب معاشرہ کنکریٹ کی عمارتوں پر تعمیر نہیں ہوتا، معاشرہ صرف انصاف کے بل بوتے پر کھڑا ہوتا ہے۔اگر معاشرے میں انصاف نہیں ہوگا تو ایسے واقعات روز سامنے آئیں گے، اس لیے حکومت کو یہ مک مکا والے پولیس تھانے کے کلچر کو تبدیل کرنا ہوگا ۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی افراد کا ہر کیس میں اثر انداز ہونا یہ بہت غلط ہے ہم انہیں تبدیلی کے لیے ووٹ دیتے ہیں یا غنڈے بدمعاشوں کی پشت پناہی کے لیے ؟؟تمام سیاست دانوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی فوٹو شوٹ اور سیاست چمکانے سے گریز کریں ۔بچوں کو کوریج یا سیاستدانوں کے طرف سے کسی تحفے کی ضرورت نہیں ہے۔انہیں اس وقت علاج اور انصاف کی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بچوں کے حقوق کے لیے موثر قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے لیے آواز اٹھائیں۔ والدین سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، انہیں باہر کے خطرات سے آگاہ کریں۔ ان کی صحت تعلیم اورحفاظت کے لیےمناسب انتظام کریں۔بچے کو یہ تعلیم دیں کہ اس جسم کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا، اگر کوئی ایسا کرے تو شور مچا کر اس کو منع کریں اور فوری طور پر اپنے والدین کو مطلع کریں۔جب تک ہم ان موضوعات پر اپنے بچوں کو آگاہی نہیں دیں گے باہر کے خطرات سے آگاہی نہیں دیں گے تو جرائم اسی طرح بڑھتے رہیں گے۔تمام باشعور پاکستانیوں سے گزارش ہے صرف اپنے ہی نہیں ارداگرد تمام بچوں کا بھی خیال رکھیں اگر کسی بھی فرد یا گروہ پر شک ہو کہ وہ بچوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں تو بچوں کو بھی چوکنا کردیں اور ان کے والدین کو بھی خطرے سے آگاہ کریں۔مجرمان کو جب تک سزائیں نہیں ملیں گی ہم اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ نہیں بنا سکتے ۔اس لیے قصور میں بچوں کے ساتھ اس مکروہ فعل میں ملوث افراد کو کڑی سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے کا سوچے بھی نہیں۔اگر حکومت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بچوں کے درندہ صفت مجرمان کو چھوڑ دیا گیا تو تباہی کے اثرات کئی نسلوں تک پھیل جائیں گے۔ حکمرانوں سے گزارش ہے یہ اسلامی ملک ہے قانون کی پرواہ نا سہی تھوڑی خدا خوفی ہی کرلیں۔ |