![]() |
|
|||||
Posted On Sunday, May 24, 2015 | ||||||
پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا سورج22مئی کو ایک بار پھر طلوع ہوا۔سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملے کے بعد آنے والے تعطل کو زمبابوے کی کرکٹ ٹیم نے ختم کیا اور یوں پاکستانی شائقین نے ایک عرصے بعد ہوم گروانڈ پر میچ دیکھا۔پاکستانی شایقین کرکٹ نے جمعہ کی نماز کے بعد سے ہی قذافی اسٹیڈیم کا رخ کرلیا حالانکہ میچ شام کو شروع ہونا تھا۔طویل لمبی قطاریں لیکن شائقین نے بہت حوصلے کے ساتھ گرمی برداشت کی اور سیکورٹی اہلکاروں سے بھرپور تعاون کیا۔جو شائقین ٹی وی پر میچ دیکھ رہے تھے انہوں نے تمام کام صبح ہی ختم کرلیے بس دل میں یہ دعا تھی کہ پاکستان جیت جائے اور میچ کے دوران بجلی نا جائے۔ میچ شروع ہوا پاکستانی شائقین نے کھل کر زمبابوے کی ٹیم کو بھی سپورٹ کیا اور پاکستانی ٹیم کوبھی۔پاکستانی اس بات پر بہت خوش ہیں کہ زمبابوے نے تمام تر مشکل حالات کے باوجود پاکستان کا رخ کیا۔شائقین نے پاک زمبابوے کرکٹ دوستی کے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔بہت سے شائقین نے میچ کے لیے خصوصی لباس زیب تن کیا اور سب کی نظروں کا مرکز رہے۔زمبابوے کی ٹیم نے مقررہ اورز میں172 رنز بنائے۔محمد سمیع نے چار اورز میں36 رنز دے کر تین کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا ،وہاب ریاض نے 38 رنز دے کر دووکٹیں لیں۔پاکستانی ٹیم نے جب اپنی اننگز کا آغاز کیا تو احمد شہزاد اور احمد مختار کی بیٹنگ نے جیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔پاکستان نے مطلوبہ ہدف 19اعشاریہ 3 اوورز میں پانچ وکٹ پر حاصل کیا۔83 رنز بنا کر احمد مختار مین آف دی میچ قرار پائے۔ جہاں شائقین کرکٹ اسٹیڈیم اور گھروں میں اس میچ سے لطف اندوز ہوئے ،وہاں سوشل میڈیا پرٹوئپس پل پل ٹوئٹس کرکے اپنی خوشی کا اظہار کرتے رہے۔وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے ٹوئٹ کیا، دہشت گردی سے ستائے لوگوں اور شہروں کو واپس نارمل زندگی کی طرف جاتا دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے ۔جے یو آئی کے رہنما جان اچکزئی نے ٹوئٹ کیا ،ویل ڈن پاکستان اور شاباش ٹیم زمبابوے انکی ٹیم نے بھی اچھا کھیلا۔ایم پی اے حنا بٹ حیات نے ٹوئٹ کیا آج پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کا بڑا دن ہے۔ایم این اے اسد عمر نے ٹوئٹ کیا ، لالا نے ایک شاٹ میں دل خوش کردیا ایک بار پھر یاد دلایا کہ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ ایم این اے مایزہ حمید نے ٹوئٹ کیا۔ پاک خون شہیداں کی ہم کو قسم پھول ہر سو امن کے کھلائیں گے ہم میچ سے قبل اور فتح کے بعد بھی کھلاڑیوں اور سابق سینئر کھلاڑیوں نے بھی ٹوئٹ کیے شعیب ملک نے ٹویٹ کیا یہ اعزاز کی بات ہے کہ میں گرین کٹ میں ملبوس ہوں اور یہ بات خوش آئند ہے کہ انٹرنشل کرکٹ آج پھر سے پاکستان میں بحال ہوگئی۔احمد شہزاد نے ٹوئٹ کیا ہر دکھ کے بعد سکھ آتا ہے اور آج پاکستان میں یہ ثابت ہوگیا الحمد اللہ آج پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوگئی۔عمر اکمل نے ٹوئٹ کیا شائقین کا شکریہ جنہوں نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کیا اور ہم پر اعتماد کرنے کے لیے شکریہ زمبابوے۔سعید اجمل نے ٹوئٹ کیا ہم زمبابوے کو خوش آمدید کہتے ہیں ہماری قوم کرکٹ سے محبت کرتی ہے۔ وسیم اکرم نے ٹوئٹ کیا ،کیاشائقین ہیں، کیا ٹیم ہے، کیا ملک ہے اور کیا جیت ہے کرکٹ واپس پاکستان آگئی۔ فنکار اور گلوکار بھی ہرے رنگ کے ملبوسات میں ملبوس ہوکر شائقین کرکٹ کا جذبہ بڑھاتے رہے اور ٹوئٹ کرتے رہے۔گلوکار کیو بی نے ٹوئٹ کیا کرکٹ سے محبت پاکستانیوں کے خون میں ہے۔میرا ہاشمی نے ٹوئٹ کیا کہ آج پاکستان جیتا ہے ہر دہشت گرد سے ہر طالبان کے حامی سے ۔ اداکارہ مائرہ خان نے ٹوئٹ کیا چھ سال بعد کرکٹ ملک میں واپس آیا مجھے امید ہے سب اچھا ہوگا۔اداکار عدنان ملک نے ٹوئٹ کیا 30ہزار لوگ ایک ساتھ اسٹیڈیم میں ترانہ پڑھ رہے ہیں پاکستان زندہ باد۔ سینئر صحافی حامد میر نے ٹوئٹ کیا آج پاکستان اور زمبابوے نے مل کر قذافی اسٹیڈیم میں دہشت گردی کو شکست دی۔نیوز کاسٹر رابیعہ انعم نے ٹوئٹ کیا، پاکستان جیت گیا اور دہشت گردی ہار گئی۔صحافی فیضان لاکھانی نے ٹوئٹ کیا تو آج پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ایک بار پھر سے بحا ل ہوگیا۔صحافی نوشین یوسف نے ٹوئٹ کیا، شکریہ زمبابوے آپ کی ٹیم کے پاکستان آنے کی وجہ سے آج پاکستانی شائقین کے چہروں پر خوشی ہے۔رائٹر سمیع چوہدری نے ٹوئٹ کیا اوئے آئی سی سی، ہن آرام اے۔فکشن رائٹر مبشر علی زیدی نے ٹویٹ کیا ،زمبابوے نے دل جیت لیا اور پاکستان نے میچ جیت لیا۔براڈکاسٹر نازیہ میمن نے ٹوئٹ کیا آج پاکستان نے عمدہ کارکردگی دکھائی بہترین بیٹنگ۔ مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ٹوئٹ کرتے رہے اور پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی اور پاکستان کی جیت کو سراہتے رہے۔جاوید آفریدی نے ٹوئٹ کیا شکر الحمد اللہ آج پاکستانیوں کے مسکراتے چہروں کے ساتھ حالات نارمل کی طرف لوٹ آئے۔صہیب اظہر نے ٹوئٹ کیا،شکریہ زمبابوے شکریہ پی سی بی آج چھ سال بعد کرکٹ پاکستان واپس آئی۔افشاں منصب نے ٹوئٹ کیا، زمبابوے کی ٹیم کی حفاظت پر مامور پنجاب پولیس زندہ با،د دوسرے ٹوئٹ میں کہا میچ کوئی بھی جیتے اصل فتح کھیل ،مسکراہٹ اور پاکستان کی ہوئی۔ ہاری ہے تو دہشت اور ہارا ہے تو دشمن۔ جمیل قاضی نے ٹوئٹ کیا مختار اور شہزاد کی اننگز نے اکتوبر 1997 میں قذافی اسٹیڈیم کے پاک بھارت میچ میں آفریدی اور اعجاز کی اننگز یاد دلا دی۔نومی فہیم نے ٹوئٹ کیا پاکستان ٹیم اور تمام کرکٹ لورز کو کرکٹ کی پاکستان واپسی اور ہوم گرئوانڈ پر فتح مبارک ہو۔ کچھ ٹوئپس مزاحیہ ٹوئٹس بھی کرتے رہے ،سرفراز احمد نے کہا کہ خادم اعلیٰ نے لاہور سے زمبابوے تک فلائی اوور بنانے کا اعلان کردیا۔محسن حجازی نے ٹوئٹ کیا موقع ہے اب تو مشہور بھی ہے زمبابوے کے تمام کھلاڑیوں کو رعایتی نرخوں پر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی دی جاسکتی ہے۔حیدر نقوی نے ٹوئٹ کیا جس طرح لاہوری قذافی اسٹیڈیم پہنچ رہے ہیں لگتا ہے میچ کے بعد کھانے کا بھی انتظام ہے۔آم اچار نے ٹوئٹ کیا ،شاباش مختار احمد جیو اور جیتے رہو شہزادے۔اریب نے ٹوئٹ کیا ،میں حیران ہوں احمد شہزاد اتنی دیر بنا سیلفی لیے کیسے گرائونڈ میں کھڑا رہے۔ twitter@javerias |
||||||
Month: August 2016
ون ویلنگ جان لیوا شوق
![]() |
||
Posted On Thursday, July 23, 2015 | ||
اکثر فلموں میں ہوتا ہے کہ ہیروئین ولن کے نرغے میں ہو تو ہیرو موٹر سائیکل پر کئی فٹ رکاوٹیں عبور کرتا ہوا آتا ہے پھر زمین پر موٹر سائیکل گول گھما کر خوب اسٹائل کے ساتھ سارے غنڈوں کو مار گراتا ہے اور ہیروئین کو بچا کر لے جاتا ہے،لیکن ایسا صرف فلموں میں ہی ممکن ہے کہ موٹرسائیکل کو لیے کئی فٹ کی چھلانگ لگالی، چلتی ہوئی بس کے نیچے سے موٹرسائیکل گزار دی، ایک ہاتھ سے موٹر سائیکل بھی سنبھالی ہوئی ہے، دوسرے ہاتھ سے دشمنوں کی دھلائی، فلموں میں یہ سب سین ماہر انسٹرکٹرز کی نگرانی میں فلمائے جاتے ہیں۔فلمساز کی یہ کوشش ہوتی ہے کسی بھی انسان کو خطرے میں ڈالے بنا بہترین ایکشن سین فلمائے جائیں تاکہ شائقین کی داد وصول کی جائے۔ یہ ہی ایکشن فلمز دیکھ دیکھ کر نوجوان لڑکے بھی خود کو ہیرو سمجھنے لگ جاتے ہیں.بیشتر کو یہ معلوم نہیں کہ فلم انڈسٹری کے بڑے بڑے ہیرو بھی ایکشن سین سے کتراتے ہیں اور ان کی یہ سین ڈپلیکیٹ آرٹسٹ کرتے ہیں، تاہم نوجوان لڑکے فلموں کو ہی حقیقت سمجھ کر موٹرسائیکل لے کر گھر سے نکلتے ہیں اور یہ ہی ہیرو گیری ان کی جان لے جاتی ہے یا عمر بھر کی معذوری دے جاتی ہے،عید کے روز سے اب تک چار سو سے زائد زخمی لڑکوں کو اسلام آباد کے مختلف اسپتالوں میں لایا گیا ہے،یہ سب ون ویلنگ کے نتیجے میںاسپتال پہنچے۔ پمز اسپتال کے ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ کے مطابق30 لڑکوں کی حالت تشویشناک ہے۔ اب عید پر اس موت کے کھیل کا کیا جواز بنتا ہے ماں باپ ایک، ایک روپیہ جوڑ کر اپنے بیٹے کو موٹرسائیکل دلاتے ہیں کہ ان بچے کو تعلیمی ادارے تک جانے میں تنگی نا ہو،پر بچے اپنے والدین کی طرف سے دی جانے والی اس سہولت کا غلط استعمال کرتے ہیں جوکہ ان کی جان کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی خطرہ ہے۔یہ نوجوان لڑکے گروہ کی صورت میں اچانک شاہراہوں میں آکر مقابلہ شروع کردیتے ہیں کوئی لیٹ کر موٹرسائیکل چلاتا ہے تو کوئی فرنٹ ویل کو ہوا میں کرکے یہ ہی سب کرتب دیکھاتے ہوئے توازن بگڑنے پر یا تو سڑک پر جا گرتے ہیں یا پھر کسی گاڑی کی زد میں آجاتے ہیں۔ اگر ہیلمٹ پہنا ہو تو پھر بھی بچت ہوجاتی ہے، لیکن بحیثیت قوم ہم قانون شکنی کو فیشن سمجھتے ہیں تو اس لیے اکثر ون ویلنگ والے منچلے ہیلمٹ بنا ہی کرتب دیکھاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوتے ہیں،سر زمین پر لگتا اور اس ہیڈ انجری کے باعث فوری طور پر موت ہوجاتی ہے،اگر خوش قسمتی سے جان بچ بھی جائے تو ہاتھ بازو یا ٹانگ تو ضرور ٹوٹ جاتی ہے۔ کبھی ان خود سر نوجوان لڑکوں نے سوچا ہے کہ ان کی اس حرکت کا ان کے خاندان پر کیا اثر پڑتا ہے ماں باپ کتنے ارمان سے یہ سواری خرید کر دیتے ہیں کہ بیٹا محنت کرکے کچھ بن کر دکھائے گا لیکن یہ ہی بیٹے ون ویلنگ کی وجہ سے ہونے والے حادثے میں عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں،مہنگا علاج ادویات ماں باپ پر مزید بوجھ ڈال دیتی ہیں۔ کچھ داد و تحسین سمیٹنے کے لیے کچھ فیس بک اپ لوڈز کے لیے لڑکے ون ویلنگ کرتے ہیں اور موت کا یہ کھیل صرف ان کو ہی نہیں ان کے خاندان کو بھی تباہ کرجاتا ہے،اکثر لڑکے ون ویلنگ کرتے وقت جب کسی گاڑی کی زد میں آتے ہیں تو وہ شخص خواہ مخواہ میں پھنس جاتا ہے جو گاڑی چلا رہا ہے،حالانکہ قصور صرف ون ویلنگ کرنے والا کا ہوتا ہے جو یہ کرتب کسی میدان میں کرنے کے بجائے شاہراہ پر کرتا ہے اور سب کی جان خطرے میں ڈالتا ہے۔ حکومت اور ٹریفک پولیس ون ویلنگ پر سخت پابندی عائد کرے،خلاف ورزی کرنے والے کے لیے سزا اور جرمانہ دونوں عائد کیےجائیں۔نوجوانوں کے لیے مختلف کھیلوں کو فروغ دیا جائے تاکہ وہ اپنا فارغ وقت مثبت سرگرمیوں میں گزاریں،اس کے لیے مزید پارکس کھیلوں کے میدان کی تعمیر نا گزیر ہے،اگر ہم اپنے قوم کے نوجوانوں کو اچھی اور سستی تفریح فراہم کریں گے تو بہت حد تک ون ویلنگ جیسی خرافات میں سے یہ نکل آئیں گے،اس کے ساتھ ساتھ والدین بھی بچوں پر نظر رکھیں اور ون ویلنگ جیسی خونی تفریح کی حوصلہ شکنی کریں۔ Javeria Siddique writes for Daily Jang twitter @javerias |
||
ذیابیطس کا عالمی دن
Posted On Saturday, November 14, 2015 | ||
14 نومبر کو دنیا بھر میں ذیابیطس (شوگر) سے بچائو کا دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کامقصد اس بیماری کے حوالے سے عوام الناس میں آگاہی پھیلانا ہے، اس دن سیمینارز اور واکس منعقد کی جاتی ہیں تاکہ اس بیماری کی علامات، علاج اور احتیاط کو عام کیاجائے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2030 تک جن بیماریوں کی وجہ سے زیادہ اموات ہوتی ہیں ان میں ذیابیطس بیماری ساتویں نمبر پر پہنچ جائے گی، اس بیماری سے 80 فیصد اموات ترقی پذیر ممالک میں ہوتی ہیں، پاکستان میں 70 لاکھ سے زائد افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ شوگر یا ذیابیطس ہے کیا؟ شوگر ایک ایسی بیماری ہے جس میں خون میں گلوکوز کی مقدار ایک حد سے زیادہ تجاوز کرجاتی ہے،لبلبہ انسولین بنانا بہت کم کردیتا ہے، انسولین انسانی جسم میں شوگر کو کنٹرول رکھتا ہے۔اس بیماری کی دو اقسام ہیں۔ ذیابیطس ٹائپ ون ذیابیطس ٹائپ ٹو ٹائپ ون ذیابیطس عمر کے کسی بھی حصے میں ہوجاتی ہے ، بچے بھی اس کا شکار بنتے ہیں اس بیماری میں انسانی جسم میں انسولین بنانے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے ،اس کی علامت میں پیشاب کا کثرت سے آنا،بہت زیادہ پیاس لگنا،بھوک کا بار بار لگنا،نظر کی خرابی،پیروں کا جلنا اور وزن میں نمایاں کمی ہوجاتی ہے۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس زیادہ تر عمر رسیدہ اور بالغ افراد کو ہوتی ہے، اس بیماری میں خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور انسولین بنانے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں 17 کروڑ افراد اس بیماری کا شکار ہیں، اس بیماری کی وجوہات میں وزن کی زیادتی، موروثیت، متوازن غذا نا لینا اور ورزش نا کرنا شامل ہیں، اس کی علامات کچھ یوں ہیں بہت پیاس لگنا، رات کو بار بار پیشاب آنا، دھندلا نظر آنا،زخموں کا نا بھرنا،تھکن ہونا شامل ہے، حمل میں بھی کچھ خواتین شوگر کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ قابل علاج ہے دوران حمل بس طبی نگرانی کی ضرورت ہے لیکن کچھ کیسز میں زچگی کے بعد خواتین ٹائپ ٹو ذیابیطس کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ذیابیطس کا علاج موجود ہے پرہیز اور دوائیوں کے ساتھ ایک صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں، سب سے پہلے وزن کو کم لیا جائے، متوازن غذا کھائی جائے اور چکنائی سے پرہیز کیا جائے، تمباکو نوشی سے پرہیز کیا جائے، اپنے بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھا جائے، اپنے پائوں کا خیال رکھا جائے کہ اس پر کوئی زخم نا آئے، اس کے ساتھ اپنی آنکھوں،گردوں اور دل کا طبی معائنہ کروایا جائے تاکہ یہ جان سکیں کہ اس بیماری کی وجہ سے اعضاء پر کتنا اثر ہوا ہے، ادویات بر وقت لی جائیں،ڈاکٹر کو باقاعدگی سے دکھایا جائے۔ ٹائپ ون ذیابیطس کے علاج میں انسولین کے انجیکشن لگتے ہیں، بلڈ شوگر لیول کو مانیٹر کیا جاتا ہے، ٹائپ ٹو میں دوا ، غذا اور وزن کو کنٹرول کرکے علاج کیا جاتا ہے، اگر شوگر کے علاج پر توجہ نا دی جائے تو یہ بیماری دل،آنکھوں، گردوں، شریانوں کو شدید نقصان پہنچاتی ہے، اس بیماری کی وجہ سے بانجھ پن، ہارٹ اٹیک اور فالج کا امکان بڑھ جاتا ہے، کچھ کیسز میں یہ بینائی کو ختم کردیتی ہے۔ پاکستان میں اس مرض کے بڑھنے کی وجہ عوام میں سہل پسندی، وزن کی زیادتی، مرغن کھانوں کا شوق، ورزش نا کرنا اور تمباکو نوشی کا استعمال ہے، پاکستان میں زیادہ تر افراد ٹائپ ٹو کے شکار ہیں، جس کی وجہ صرف وزن کی زیادتی اور ورزش نا کرنا ہے، اس لئے خود کو اور اپنے ارداگرد لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ صحت طرز زندگی کو اپنائیں متوازن غذا کھائیں اور ہلکی چہل قدمی ضرور کریں.غذا میں سبزی پھل اور سلاد لازمی شامل کیا جائے، پانی زیادہ سے زیادہ پیا جائے، اگر شوگر کی کوئی بھی علامت خود میں دیکھیں تو معالج سے رابطہ کریں دیر نا کریں۔ Javeria Siddique writes for DailyJang Twitter @javerias |
اسپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب اور سوشل میڈیا
![]() |
|
|||||
Posted On Tuesday, November 10, 2015 | ||||||
ایاز صادق 268 ووٹ لیے کر ایک بار پھر قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوگئے۔ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے امیدوار شفقت محمود نے 31 ووٹ حاصل کِئے۔ایاز صادق نے ڈپٹی اسپیکرمرتضیٰ جاوید عباسی سے عہدے کاحلف لیا۔یوں ایاز صادق ایک بار پھراسپیکر اسمبلی بن گئے۔ وزیراعظم نوازشریف اور عمران خان نے بھی ووٹ کاسٹ کیا۔سردار ایاز صادق کو ایک ہی اسمبلی سے دو مرتبہ اسپیکر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا ہے۔ اپنے خطاب میں بیسویں نو منتخب اسپیکر اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ یہ جیت صرف میری نہیں پارلیمنٹ اور جمہوریت کی جیت ہے-انہوں نے کہا مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ 1996 میں اپنے سیاسی کرئیر کا آغاز تحریک انصاف سے کرنے والے ایاز صادق 1998 میں اختلافات کے باعث پارٹی کو خیرباد کہہ گئے۔2002 میں مسلم ن کے ٹکٹ سے منتخب ہوئے اور عمران خان کو این اے122 میں شکست دی۔ 2008 میں پی پی پی کے امیدوار کو شکست دی اور2013 میں ایک بار پھر عمران خان کو این اے122 میں شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ایاز صادق کےلئے 2013 الیکشن کے بعد سفر بہت کٹھن رہا۔پی ٹی آئی کی طرف سے الزامات نے انہیں متنازعہ بنا دیا،تاہم انہوں نے تمام صورتحال کا سامنا خندہ پیشانی سے کیا۔ سوشل میڈیا پر بھی ان کی ذات پر حملے جاری رہے انہیں جعلی اسپیکر تک کہا گیا لیکن انہوں نے اس پر خاموشی اختیار کئے رکھی۔ 22اگست کو الیکشن ٹربیونل نے انہیں ڈی سیٹ کردیا اور این اے 122 میں دوبارہ انتخاب کا حکم دیا۔عمران خان نے خود تو ان کے مدمقابل الیکشن لڑنے سے گریز کیا اور اپنی پارٹی کے رکن علیم خان کو ٹکٹ دیا۔11 اکتوبر کو ایک بار پھر ایاز صادق اس حلقے سے منتخب ہوگئے۔ ایاز صادق کے اسپیکر منتخب ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ان کا نام کا ٹرینڈ ٹاپ پر چلا گیا۔بہت سے سوشل میڈیا یوزر ٹوئٹس کرنے لگے۔ایم این اے خرم دستگیر نے ٹوئٹ کیا ڈیموکریٹ 268 اور موبوکریٹ 31۔ایم این اے مائزہ حمید نے ٹوئٹ کیا آج پی ٹی آئی ایاز صادق کو مسٹرا سپیکر کہہ کر مخاطب کررہی ہے۔مسلم لیگ ن آئین اور جمہوریت کا احترام کرتی ہے۔ایم پی اے حنا بٹ نے ٹوئٹ کیا آج دوبارہ ایاز صادق نے اسیپکر کا گائون پہن لیا انہیں بہت مبارک ہو ۔ صحافی طارق بٹ نے ٹوئٹ کیا 2013 میں جب ایاز صادق نے حلف اٹھایا تھا اس وقت انہیں 258 ملے تھے جب کہ آج انہیں 268 ووٹ ملے ہیں۔ صحافی نازیہ میمن نے ٹوئٹ کیا ایاز صادق واضح اکثریت سے منتخب ہوگئے۔ افشاں منصب نے ٹوئٹ کیا ایاز صادق صاحب کے شائستہ لہجے اور عاجزی نے انہیں مزید گریس فل بنا دیا ہے۔ ایمان حاضر مزاری نے ٹوئٹ کیا ویلکم بیک ایاز صادق۔باسط حبیب نے ٹوئٹ کیا اسپیکر صاحب نے پہلے بھی پارلیمنٹ کو نیوٹرل چلایا تھا آگے بھی ایسا ہوگا۔ ساجد شاد نے ٹوئٹ کیا خوش آمدید جناب اسپیکر ۔واجد رسول نے ٹوئٹ کیا ایاز صادق ایک بارپھر اسیکر منتخب ہوگئے تمام جہوریت پسندوں کو مبارک ہو۔ طنزو مزاح پر مبنی بھی ٹوئٹس ہوئے آصفہ رائے نے ٹوئٹ کیا شفقت محمود کی اخلاقی فتح ہوئی ہے۔کامل نے ٹوئٹ کیا آج تو ایاز صادق نے عمران خان کو ہرانے کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی۔ محمد عثمان نے ٹوئٹ کیا شیخ رشید کا مائیک آئندہ بھی بند رہے گا اور کسی کا استعفیٰ منظور نہیں ہوگا۔ |
||||||
ڈینگی بخار
![]() |
||
Posted On Wednesday, October 21, 2015 | ||
ڈینگی بخار نے آج کل پھر عوام کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا ہے ،کراچی، راولپنڈی، ملتان اور پشاور کے عوام اس بخار سے سب سے زیادہ متاثر ہوئےہیں ۔ ڈینگی بخار کا علاج اگر بروقت نا کروایا جائے تو یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، ڈینگی بخار مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، یہ مچھر صاف پانی پر افزائش پاتا ہے اور اس کے کاٹنے سے انسان ڈینگی بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہ مچھر زیادہ تر گھروں میں افزائش پاتا ہے، اس مچھر کی ایک مخصوص پہچان ہے اس کے جسم پر سیاہ سفید نشان ہوتے ہیں، ڈینگی پھیلانے والا مچھر زیادہ تر گرم مرطوب علاقوں میں پایا جاتا ہے، اس مچھر کے کاٹنے سے ہر سال کروڑوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ ڈینگی چھوت کی بیماری نہیں ہے کسی متاثرہ مریض سے یہ صحت مند شخص کو نہیں ہوتا، یہ ایک مخصوص مچھر aedes aegypiti کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، ہر سال بائیس ہزار سے زائد افراد اس بخار کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس بخار کی علامتیں چار سے چھ دن میں ظاہر ہوتی ہیں، اچانک 104 فارن ہائٹ تکتیز بخار ، سر میں درد،جوڑوں میں درد،آنکھوں کے پیچھے درد، قے، جسم پر سرخ دھبے اس بخار کی علامات میں شامل ہیں، اگر اس کے علاج پر توجہ نا دی جائے تو یہ ڈینگی بخار ڈینگی ہیمرجک فیور میں تبدیل ہو جاتا ہے،جس کے باعث خون میں سفید خلیے بہت کم ہوجاتے ہیں، بلڈ پریشر لو ہوجاتا ہے، مسوڑوں، ناک، منہ سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے اور جگر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، انسان کومہ میں چلا جاتا ہے اور اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ ڈینگی بخار کو ایک بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے تشخیص کیا جاتا ہے، ٹیسٹ اگر مثبت آجائے تو فوری طور پر علاج شروع کیا جاتا ہے، اس مرض کے لئے کوئی مخصوص دوا تو دستیاب نہیں ہے، ڈاکٹر مریض کے جسم میں نمکیات پانی کی مقدار کو زیادہ کرتے ہیں اور ساتھ میں انہیں درد کو کم کرنے کی ادویات دی جاتی ہیں، ڈینگی ہمیرجک فیور میں پلیٹ لیٹس لگائی جاتی ہیں،اس مرض سے بچنے کا واحد حل احتیاط ہے.انسان خود کو مچھر کے کاٹنے سے بچائے۔ ڈینگی بخار سے بچنے کے لئے یہ احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں، سب پہلے تو کسی بھی جگہ پر پانی کھڑا نہ ہونے دیں، اگر پانی ذخیرہ کرنا ہو تو اس کو لازمی طور پر ڈھانپ دیں، گھر میں لگے پودوں اور گملوں میں پانی جمع نا ہونے دیں، کوڑاکرکٹ جمع نہ ہونے دیں، پرانے ٹائر خاص طور پر ان مچھروں کی آماجگاہ ہوتے ہیں انہیں گھر پر نا رکھیں، گھر میں پانی کی ٹینکی کو ڈھانپ کر رکھیں، باتھ روم میں بھی پانی کھڑا نا ہونے دیں اور اس کا دروازہ بند رکھیں، روم کولرز میں سے پانی نکال دیں، اسٹور کی بھی صفائی کریں اور وہاں بھی اسپرے کریں، اگر تب بھی مچھروں سے نجات نا ہو تو مقامی انتظامیہ سے اسپرے کی درخواست کریں۔ اپنی حفاظت کے لئےمچھر مار اسپرے استعمال کریں یا مچھربھگائو لوشن استعمال کریں، پورے بازو کی قمیض پہنیں اور جو حصہ کپڑے سے نا ڈھکا ہو جیسا ہاتھ ، پائوں، گردن وغیرہ وہاں پر لوشن لگائیں، گھر میں جالی لگوائیں اور بلاضرورت کھڑکیاں نا کھو لیں، ڈینگی کا مچھر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت زیادہ کاٹتا ہے، اس لئے اس وقت خاص طور پر احتیاط کریں، سوتے وقت نیٹ کے اندر سوئیںاورکوائیل کا استعمال کریں۔ ڈینگی کا علاج اگر بروقت شروع کروالیا جائے تو مریض جلد صحت یاب ہو جاتا ہے، اس بات کا خاص خیال رکھاجائےکہ مریض کوپانی ،جوس ،دودھ ،فروٹس اور یخنی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کروایا جائے، سیب کے جوس میں لیموں کا عرق بھی مریض میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے، اس کو ہرگز بھی اسپرین نا دی جائے۔ تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ستمبر، اکتوبر اور نومبر جو ڈینگی مچھر کے افزائش کے ماہ ہیں، ان میں متواتر اسپرے کروائیں، جہاں پانی کھڑا ہو وہاں پر خاص طور پر اسپرے بہت ضروری ہے۔ عوام میں اس مرض سے بچنے کے لئے آگاہی پھیلائیں، اسپتالوں میں ڈینگی بخار سے متعلق معلوماتی کائونٹر قائم کئے جائیں، اس مرض کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے اگر ان مچھروں کی افزائش نا ہونے دی جائے، 2011 جیسی صورتحال سے بچنے کے لئے تمام صوبائی حکومتوں اور مقامی حکومتوں کو کام شروع کردینا چاہئے۔ |
||
چھاتی کا سرطان
![]() |
||
Posted On Saturday, October 10, 2015 | ||
اکتوبر کے مہینے میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جاتی ہے،چھاتی کا سرطان پاکستانی خواتین پر خطرے کی تلوار کی طرح لٹک رہا ہے، اگر خواتین کو اس کے مرض حوالے سے مکمل آگاہی دی جائے تو اس کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہےکیونکہ اگر اس سرطان کو ابتدائی طور پر تشخیص کر لیا جائے تو مریض کے صحت مند ہونے کے امکان بہت زیادہ ہیں. اس مرض کی تشخیص بہت آسان ہے اگر چھاتی میں تکلیف ہو،کوئی ایسا زخم ہو جس میں خون یا مواد رسنا بند نا ہو، ایک چھاتی کا سائز بہت بڑا ہوجائے،یا اس میں گلٹی محسوس ہو،سوجن ہو،اگر چھاتی کا رنگ اور ساخت بدل جائے،اس میں درد ہو،.نپل میں درد تکلیف،خارش،یا زخم ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر کو دکھائیں،چھاتی میں بننے والی اکثر گلٹیاں درد نہیں کرتی اس لئے جس وقت کینسر کا پتہ چلتا ہے یہ بہت حد تک پھیل چکا ہوتا ہے۔ اس لئے تیس سال کی عمر کے بعد 5 سال میں ایک مرتبہ میموگرافی ضرور کروائیں اور اگر اوپر درج کوئی بھی علامت مستقبل نظر آئے تو فوری طور پر ڈاکٹر کو دکھائیں، چالیس سال سے اوپر کی خواتین کو ہر دو سال بعد میمو گرافی کرانا لازم ہے، پچاس سال سے اوپر کی خواتین ہر سال میموگرافی احتیاطی طور پر کروالیں، ان خواتین کو اس خطرہ زیادہ ہے جن کے ہاں بچوں کی پیدائش تیس سال کی عمر کے بعد ہو، اگر خاندان میں یہ بیماری پہلے بھی کسی قریبی عزیز کوہوچکی ہو،یا جن خواتین کو ماہانہ ایام بہت کم عمری میں شروع ہوئے ہوں اور ختم پچاس سال کی عمر کے بعد ہوں، سہل پسندی ، موٹاپا، تمباکو نوشی اور شراب نوشی بھی اس مرض کے امکان کو بڑھاتے ہیں۔ لازمی نہیں کہ ہر گلٹی کینسر کی علامت ہو لیکن پھر بھی احتیاط بہتر ہے اور ڈاکٹر سے رابطہ کرنا ضروری ہے۔ بریسٹ کینسر دو طرح کا ہوتا ہے ایک کینسر بریسٹ میں موجود ڈیکٹس میں بنتا ہے یہ بریسٹ سے باہر دیگر جسم کے حصوں میں نہیں پھیلتا، دوسری قسم کے بریسٹ کینسر میں یہ بریسٹ سے نکل کر دوسرے حصوں میں پھیل سکتا ہے ، مرض کی تشخیص میموگرافی، الٹرا سائونڈ، ایم آر آئی سے ہوتی ہے اور اس مرض کا علاج سرجری، بائیوپسی ،کیمیو تھراپی اور ریڈیو تھراپی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی خاتون اگر اس موذی مرض کا شکار ہوجائے تو خاندان کا کردار اس کے لئے ایک بہت بڑی سپورٹ بن سکتا ہےجوکہ اسکو اس مرض سے لڑنے کی طاقت دیتا ہے، یہ کسی بھی عمر کی خاتون کو ہوسکتا ہے لیکن نوجوان خواتین میں یہ کیسز کم سامنے آتے ہیں، لیکن پر جیسے ہی اوپر درج علامات مستقل خاتون کو اپنے اندر محسوس ہوتو فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کیا جائے۔ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلا رہی ہیں تو اس مرض کی اسکرینگ یا میموگرافی تک وہ اپنا دودھ بچے کو پلا سکتی ہیں، تاہم ریڈیو ایکٹیو اور کیمو تھراپی کے دوران وہ بچے کو دودھ نا پلائیں اس وقت روکے رکھیں جب تک ریڈیو ایکٹیو اثرات جسم سے زائل نا ہوجائیں، ماں کے دودھ سے بچے کو کینسر نہیں ہوتا لیکن کینسر کے علاج دوران استعمال ہونے والی ریڈیشن بچے کے لئے خطرناک ہے۔ خواتین مرض کی تشخیص خود بھی کرسکتی ہیں، ماہانہ ایام کے بعد بی ایس ای یعنی بریسٹ سیلف ایگزمینشن سب سے موزوں ہے، شیشے کے سامنے یا نہاتے ہوئے بازو اوپر کرکے خواتین یہ چیک کریں کہ بریسٹ میں کوئی تبدیلی یا گلٹی تو نہیں، اپنی بغل کو بھی چیک کریں اس میں کوئی گلٹی تو نہیں، دوسرے طریقے میں خاتون لیٹ کر بھی خود کو چیک کرسکتی ہے جس میں ایک کندھے کی نیچے تکیہ ہو ایک بازو سر کے نیچے اور دوسرے ہاتھ سے خاتون اپنا معائنہ کرے، ہر ماہ اس عمل کو دہرائیں۔ بریسٹ کینسر سے بچنے کے لئے صحتمندانہ سرگرمیاں اپنانے کی ضرورت ہے روزانہ واک، وزن کو کنٹرول میں رکھنا، تمباکو نوشی سے دور رہنا اور گوشت چکنائی کا کم سے کم استعمال اس مرض کے امکان کو کم کرتا ہےجو مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں ان میں بھی اس کا امکان بہت کم ہوتا ہے، اس کے ساتھ خواتین کاٹن کے زیر جامے استعمال کریں بہت فٹنگ ریشمی جالی والے زیر جاموں سے پرہیز کریں، رات کو ان زیر جاموں کو اتار کر سوئیں۔ پاکستان میں اس طرح کے موضوعات پر کم بات کی جاتی ہے جس کی وجہ سے خواتین شرم کی وجہ سے اپنی بیماری بیان نہیں کرپاتی اور مسئلہ گھمبیر ہوجاتا ہے، اگر کینسر کی تشخیص بروقت ہوجائے تو بہت سی قیمتی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں، اکتوبر میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے آگاہی دی جاتی ہے تاکہ خواتین کو اس موذی مرض سے بچایا جائے، بات کریں ایک دوسرے کو آگاہی دیں۔ حکومت پاکستان بھی اپنا کردار ادا کرے خواتین میں اس مرض کی آگاہی کے لئے کتابچے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اور طبی مراکز پر مہیا کرے، اس مرض کی تشخیص اور علاج کو عام آدمی کی پہنچ تک لائے ، اس کے علاج کے خرچ کو حکومت اس حد تک کم کرے کہ ایک غریب شخص بھی اس بیماری کا علاج کرواسکے، جس ملک میں اربوں روپے کی سڑکیں بنتی ہوں اگر تھوڑا بجٹ صحت کا شعبے کا بڑھا دیا جائے تو ہم اپنی قوم کا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں، ایک صحت مند عورت ہی صحت معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ |
||
اسسٹنٹ پروفیسر شہناز نعیم شہید
![]() |
||
…
.
..جویریہ صدیق…… آرمی پبلک اسکول سمیت پاکستان بھر کے طالب علموں نے ’’ٹیچرز ڈے‘‘ کے موقع پرا پنے استاتذہ کو نذرانہ عقیدت پیش کیا۔اس کے ساتھ بالخصوص ان استاتذہ کو یاد کیا جنہوں نے سولہ دسمبر کو سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔ اسسٹنٹ پروفیسر شہناز نعیم شہید بھی ان استاتذہ شامل تھیں جو سولہ دسمبر کو حسب معمول درس و تدریس میں مصروف تھیں۔لیکن دہشت گرد اچانک موت پر بن نازل ہوئے اور وہ بربریت برتی گئی کہ دھرتی کانپ اٹھی۔میڈم شہناز نے کمپیوٹر لیب میں اپنے طالب علموں کے ساتھ شہادت پائی ۔ اسسٹنٹ پروفیسر شہناز نعیم شہید 1995 سے اے پی ایس کے ساتھ منسلک تھیں،کمپیوٹر سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، وہ آرمی پبلک اسکول و کالج ورسک روڈ میں آٹھویں جماعت سے سیکنڈ ائیر تک کے طالب علموں کو کمپیوٹر پڑھاتی تھیں،1995 میں سرجن نعیم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی، اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں اور ایک بیٹے سے نوازا، شہناز نعیم نے درس و تدریس کا عمل شادی اور بچوں کی پیدایش کے بعد بھی جاری رکھا۔ ان کے شوہر ڈاکٹر سرجن نعیم کہتے ہیں کہ شہناز شہید نے جس طرح اسکول اور گھر کی ذمہ داریوں کو اٹھا رکھا تھا میں حیران ہوتا تھا کہ یہ اتنی ہمت کہاں سے لاتی ہے،گھر کے سب کام بچوں کی پرورش پھر ساتھ میں جاب لیکن وہ سب کام احسن طریقے سے کر لیتی،صبح سات بجے ہم سب گھر سے چلے جاتے ،وہ 2 بجے تک سکول سے واپس آتی کھانا بنانا بچوں کو پڑھنا پھر میں رات تک واپس آتا ہم مل کر کھانا کھاتے، مجھے کبھی بھی وہ گھریلو معاملات میں نہیں الجھاتی تھیں، میری شریک حیات مجھے بہت اچھی طرح سمجھتی تھیں کیونکہ میں ہر روز سرجری میں مصروف ہوتا اس لیے مجھے بہت سی ذمہ داریوں سے بری الذمہ کر دیتی۔ وہ اسکول کی سینئر استاتذہ میں سے ایک تھیں، بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ وہ ان کی تربیت پر بھی توجہ دیتی، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اگر بچے کو کوئی پریشانی ہے تو وہ دور کرسکیںتاہم ڈسپلن کی خلاف ورزی بالکل برداشت نہیں کرتیں، میڈم طاہرہ قاضی ان پر خاص اعتماد کرتی تھیں، مختلف فیصلوں میں ان کی مشاورت لیتی تھیں۔ ڈاکٹر نعیم کہتے ہیں وہ بہت سادہ طبیعت کی مالک تھیں، نا شاپنگ کی دلدادہ نا ہی فیشن کی شوقین، بس فٹنس کا شوق تھا ، واک کرتیں کہ میں فٹ رہ سکیں، ہماری دونوں بیٹیاں پری میڈیکل کی طالب علم ہیں اور بیٹا اے پی ایس ورسک روڈ پر ہی پڑھتا ہے، شہناز کے جانے کے بعد زندگی تبدیل ہوگئ ، بس اب ہم زندگی گزار رہے اس جانے کے بعد جب تمام گھر کی ذمہ داریاں مجھ پر ہیں تو مجھے شدت سے ان کی کمی کا احساس ہےتاہم اس موقع پر ہمارے رشتہ داروں نے مشکل کی گھڑی میں ہمارا بہت ساتھ دیا۔ ڈاکٹر نعیم سولہ دسمبر کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں اس دن کی ہولناکی ذہن سے کبھی مٹ نہیں سکتی۔ ہال کے بالکل نزدیک کمپیوٹر لیب میں شہناز طالب علموں کو پڑھا رہی تھی کہ دہشت گردوں نے حملہ کردیا،شہناز لیب سے باہر آئی اور یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ ہوکیا رہا ہے لیکن پوائنٹ بلینک پر انہیں نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد ان کے طالب علموں کو جو لیب میں موجود تھے، شہناز نے اپنے روحانی بچوں کے ساتھ اس جہان فانی سے کوچ کیا۔ میں لیڈی ریڈنگ اسپتال میں تھا، اس وقت سرجری میں مصروف تھا جب فارغ ہوا تھا فون پر لاتعداد مس کالز تھیں ایمرجنسی میں زخمی اور لاشیں آنا شروع ہوگی، تھوڑی دیر میں مجھے اپنا بیٹا مل گیا وہ بھی اس ہال میں تھا تاہم اللہ نے اس کو محفوظ رکھاتاہم شہناز کا پتہ نہیں چل رہا تھا میں اس ہی کشمکش میں مریض بھی دیکھ رہا تھا، پھر پانچ بجے مجھے شہناز کی شہادت کی اطلاع ملی ان کا جسد خاکی مجھے سی ایم ایچ سے ملا۔ جب آرمی پبلک اسکول جنوری میں دوبارہ کھلا تو میں اپنے بیٹے غازی انیس نعیم کو اسکول لے کر واپس گیا تو مجھے راستے میں ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سکول اب کبھی نہیں آباد ہوگا.پر میں سکول میں بچے ان کے والدین کی بڑی تعداد دیکھ کر حیران رہ گیا۔آرمی چیف راحیل شریف اور ان کی اہلیہ بچوں کے استقبال کے لئے موجود تھی، شہید بچوں کے والدین غازی بچوں کا جذبہ دیکھنے کے لائق تھا۔میں اس وقت زار وقطار رونے لگا شاید میں نے اتنے بہادر اور محب وطن لوگ پہلے نہیں دیکھے تھے، مجھے یقین ہے یہی جذبہ ہمارے ملک پر کبھی آنچ نہیں آنے دے گا ،دہشت گردی نے خاندان کے خاندان تباہ کردیئے لیکن ہمارے لوگ اتنے بہادر ہیں کہ ان جذبہ حب الوطنی متزلزل نہیں ہوسکا۔ پاکستان کے تمام لوگوں خاص طور پر طالب علموں کو آرمی پبلک اسکول کے شہدا پر ناز ہے۔ان شہدا نے اسکول میں اپنی جان وطن پر قربان کردی۔میڈم شہناز دنیا میں موجود تو نہیں لیکن ان کا نام تاریخ میں امر ہوگیا۔تاریخ یہ یاد رکھے گی کہ دہشت گردی کے خلاف میں پاکستانیوں کی بہت قربانیاں ہیں جن میں آرمی پبلک اسکول کے نہتے طالب علم اور استاتذہ کی قربانی سرفہرست ہے۔ کمیپوٹر لیب میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم آج بھی میڈیم شہناز نعیم کی کمی کو محسوس کرتے ہیں۔ان کے لئے دعاگو ہیں ان کی قربانی پر نازاں ہیں پاکستان کے تمام اساتذہ کو سلام ۔ Posted On Monday, October 05, 2015 |
||
ریبیز سے بچائو ممکن ہے
![]() |
|
|||||
Posted On Tuesday, September 29, 2015 | ||||||
ریبیز بیماری کتے اور دیگر دودھ پلانے والے جانوروں کے کے کاٹنے کی وجہ سے انسانوں کو لاحق ہوتی ہے،ہر سال تقریباً 59 ہزار لوگ ریبیز کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ریبیز کے ننانوے فیصد کیسز کتے کے کاٹنے کے وجہ سے ہوتے ہیں باقی ایک فیصد دیگرجانوروں جیسےبلی ،بندر، گائے ،گھوڑے، چمگادڑ، لومڑی،بھیڑیے، نیولے اور اسکنگ کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ ریبیز متاثرہ جانور کے تھوک سے،ناخن اور کاٹنے سے یہ پھیلتا ہے ، اس بیماری کا شکار زیادہ تر بچے ہوتے ہیں، بچے اپنی حفاظت سے آگاہ نہیں ہوتے جانوروں کو خوب تنگ کرتے ہیں اس لئے حملے کا شکار ہوجاتے ہیں، یوں بچے کو اپنے پالتو جانوروں یا باہر گلی کوچوں میں رہنے والے کتوں کے وجہ ریبیز وائرس منتقل ہوجاتا ہے۔ ریبیز سے بچائو ممکن ہے اگر اس سے بچائو کی ویکسین لگوائی جائے لیکن بہت سے لوگوں میں اس کے حوالے سے آگاہی نہیں۔ 28 ستمبر کو دنیا بھر میں ریبیز ڈے منایا جاتا ہے تاکہ عوام میں اس بیماری کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے،یہ بیماری جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے، گلوبل الائنس فار ریبیز کنٹرول کے مطابق اگر پالتو جانوروں کو اینٹی ریبیز ویکسین لگوائی جائے اور خود ان کو رکھنے والے افراد بھی اپنی ویکسین کروالیں تو اس بیماری سے بچنے کے امکان سو فیصد ہیں۔ ریبیز بیماری کی علامت کچھ یوں ہے سر میں درد،بخار،الٹیاں،نگلنے میں تکلیف،نیند کا نا آنا،جسم میں اینٹھیں اٹھنا،بہت زیادہ تھوک کا منہ سے نکلنا ، پانی سے ڈر لگنا،پاگل پن ،ہوش کھو بیٹھنا اور فالج شامل ہے،اس ہی لئے اگر کتا بلی چمگادڑ لومڑی وغیرہ میں سے کوئی بھی جانور کاٹ لے تو فوری طور پر ڈاکٹر کو دکھائیں دیر نا کریں،جنگلی جانور تو کم ہی انسانوں میں ریبیز کا سبب بنتے ہیں لیکن گھر میں پالے گئے کتے کی وجہ سے ربیبز سب سے زیادہ پھیلتا ہے، اگر گھر میں رکھے ہوئے جانوروں کی ویکسین باقاعدگئ سے لگوائی جائے تو ان میں اس بیماری کے ہونے کے چانس تقریبا ختم ہوجاتے ہیں۔ ریبیز ایک ایسی بیماری ہے جس کے لئے کوئی مخصوص علاج نہیں، بہت کم لوگ اس بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد بچ پاتے ہیں، اس لئے احتیاط ہی اس بیماری سے بچنے کا واحد حل ہے، اگر کتا یا کوئی اور جانور ہاتھ پر یا جسم کے کسی اور حصے پر کاٹ جائے تو فوری طور پر اس زخم کو پندرہ منٹ تک پانی سے دھویں اور صابن بھی لگاتے جائیں، اس کے بعد جراثیم کش محلول لگائیں، فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس جائیں۔ اس بیماری سے مکمل طور پر تو نہیں بچاجاسکتا لیکن اس کے ہونے کے امکان کو کم کیا جاسکتا ہے، اپنے پالتو جانوروں بلی اور کتے کو باقاعدگی سے vet کو دکھائیں، اس کا ویکسین کورس مکمل کریں، اپنے گھریلو جانوروں کو جنگلی جانوروں سے دور رکھیں، اکثر جنگلی جانوروں کے حملے کے باعث پالتو جانور ریبیز کا شکار ہوجاتے ہیں، اگر اپنے علاقے میں کوئی بھی بیمار کتا دیکھیں یا جنگلی جانور فوری طور پر انتظامیہ کو اطلاع کریں۔ پاکستان میں ریبیز کے حوالے سے بہت کم آگاہی ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال پانچ سے چھ سو پاکستانی ریبیز کی وجہ سے جاں بحق ہوجاتے ہیں، بہت سے پاکستانی اس مرض کا شکار گلی کوچوں میں رہنے والے کتوں کے کاٹنے کی وجہ سے ہوتے ہیں، اس کے بعد پالتو کتے کی وجہ سے کیونکہ اس کو اپنی حفاظت کے لئے رکھ تو لیتے ہیں پر حفظان صحت کے اصولوں کا خیال نہیں کرتے، ہاتھ صابن سے نہیں دھوتے، جانوروں کو ویکسین کا کورس نہیں کرواتے نا ہی بیشتر پاکستانیوں کی جیب اس بات کی اجازت دیتی ہے۔ حکومت اس ضمن بہتر کردار ادا کرسکتی ایک تو اینٹی ریبیز ویکسین کو عوام کہ دسترس میں پہنچائے اور اس کی قیمت بہت کم رکھی جائے۔ دوسرا جانوروں کے لئے بھی اینٹی ریبیز ویکسین شفاء خانوں پر موجود ہونی چاہیے۔اس کے ساتھ گلیوں میں پاگل کتوں اور بیمار کتوں کو فوری طور پر انتظامیہ شہری آبادی سے نکالے، اس کے ساتھ عوام میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ جانوروں سے کھیلنے یا دیکھ بھال کے بعد ہاتھ صابن سے دھوئیں اور جراثیم کش محلول کا استعمال کریں۔ اگر اپنے پالتو جانور پر زخم دیکھیں یا اس کے رویے میں تبدیلی فوری طور پر اس کو ڈاکٹر کو دکھائیں۔ واضح رہے ریبیز میں موت کا امکان ننانوے فیصد ہے ، اس لئے احتیاط ہی اس بیماری کا علاج ہے۔Javeria Siddique writes for Daily Jang |
||||||
کانگو بخار
کانگو بخار جان لیوا بخار ہے جو مویشیوں کی جلد میں موجود ٹکس (چیچڑ ) کی وجہ سے ہوتا ہے،اگر یہ ٹکس کسی انسان کو کاٹ لیں تو وہ انسان فوری طور پر کانگو بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے، کریمین کانگو ہیمرجک فیور ایسا بخار ہے جس کے جراثیم ایک متاثرہ شخص سے دوسرے صحت مند شخص کو فوری طور پر لگ جاتے ہیں، یہ ایک متعدی بیماری ہے، جس میں شرح اموات بہت زیادہ ہے۔ اس بخار کا سب سے زیادہ خطرہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جو لائیو اسٹاک ، زراعت اور ذبیحہ خانوں سے منسلک ہیں،ایسے تمام لوگوں میں یہ بخار عام افراد کی نسبت زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ کانگو بخار ایک انسان سے دوسرے انسان میں یہ خون، متاثرہ شخص کے اعضاء ،رطوبت اور جسمانی تعلقات سے پھیلتا ہے، جبکہ طبی عملے میں اگر انہوں نے اپنا حفاظتی لباس نا پہنا ہو انکو متاثرہ شخص کا علاج کرتے ہوئے یہ لاحق ہوسکتا ہے، متاثرہ مریض کے لئے استعمال کئے گئے طبی آلات بھی اگر کسی بھی اور شخص کے لئے استعمال کئے جائے تو وہ بھی اس کا شکار ہوجائے گا۔ اس بخار کی ابتدائی علامات کچھ یوں ہیں، اگر ٹکس کاٹ جائیں تو تین سے نو دن کے درمیان بخار چڑھنا شروع ہوجاتا ہے، پٹھوں میں درد ،تھکاوٹ ،گردن میں درد اکڑائو،آنکھوں کا سرخ ہوجانا اور ان میں درد ہونا،دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا،جلد پر سرخ دھبے پڑ جانا شامل ہے۔ اگر فوری علاج پر توجہ نا دی جائے تو جگر اور تلی بڑھ جاتی ہے ، ناک، کان، آنکھوں اور مسوڑوں سے خون رسنا شروع ہوجاتا ہے اور انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اگر بروقت علاج شروع ہوجائے تو صحتیابی ممکن ہے، علاج میں دیر ہوجائے تو زیادہ تر کیسز میں مریض اس بیماری کے دوسرے ہفتے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے، اس سے بچائو کے لئے کوئی ویکسین دستیاب نہیں اس لئے احتیاط سے ہی اس بخار سے بچا جاسکتا ہے۔ طبی عملہ بھی ہیمرجک فیور کے مریض کا علاج کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں پر دستانے پہنے، منہ کو ڈھانپے خصوصی جوتے پہنے اور آلات جراحی استعمال کرتے ہوئے یہ حفاظت یقنی بنائے کہ انہیں یہ آلات ہرگز نا چبھیں اور نا ہی کسی اور پر استعمال ہوں۔اس کے ساتھ ساتھ مریض کو آئسولیشن وارڈ میں رکھا جائے اور دیگر مریضوں اور افراد کا داخلہ وہاں ممنوع ہو،مریض کے زیر استعمال چادریں تولیہ اور دیگر اشیاء کو تلف کردیا جائے۔ اس کے ساتھ مریض کے لواحقین بھی ماسک اور دستانے پہن کر اس کہ تیمارداری کریں،اس کے خون اور یا کسی طرح کے بھی مواد کو ہاتھ نا لگائیں،ہر کام دستانے پہن کر اور منہ ڈھانپ کر کریں، مریض کی وہ اشیاء جو جراثیم آلود ہوجائیں ان کو تلف کردیں،اس کے بعد پورے گھر میں جراثیم کش اسپرے بھی کروائیں۔ اس وقت پاکستان میں عید الاضحٰی کے موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد مویشی بازار کا رخ کررہے ہیں، اس لئے اس مرض کے پھیلنے کا خدشہ اور بڑھ گیا ہے،خریداری کرتے ہوئے اور مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے پورے آستین والی قمیض پہنیں ،ہاتھوں پر دستانے پہنیں،منہ کو ماسک سے ڈھانپ لیں، ہلکے رنگ کے کپڑے پہنیں کہ اگر کوئی چیچڑ کپڑوں پر چپک جائے تو نظر آجائے۔جوتوں کے ساتھ جرابیں پہن لیں، ہاتھ جراثیم کش صابن سے دھوئیں،جانور کو باندھنے والی جگہ پر چونے کا چھڑکائو کردیں۔ مویشیوں کا کاروبار کرنے والے اپنے جانور رکھنے کی جگہ پر اسپرے کروائیں،جانوروں کا ڈاکٹر سے معائنہ کروائیں،کسی جانور پر بھی ٹکس نظر آئیں تو اس کو فوری طور پر الگ کردیںورنہ باقی جانور بھی بیمار ہوجائیں گے۔جانوروں پر چیچڑی کی افزائش روکنے والے اسپرے کریں یا پاوڈر کا چھڑکائو کریں، اس ضمن میں انتظامیہ محکمہ لائیو اسٹاک اور ویٹس معاون ثابت ہوسکتے ہیں،ان سے مکمل آگاہی کے بعد جانوروں کے بیوپاری احتیاطی تدابیر یقینی بناسکتے ہیں۔ قربانی کا جانور لینے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ کہیں جانور بیمار تو نہیں یا اس کی جلد پر ٹکس تو نہیں چپکی ہوئیں،جس وقت قربانی ہو تو اس وقت جانور کے خون اور آلائشوں کو ہرگز ہاتھ نا لگائیں،منہ بھی احتیاط کے طور پر ڈھانپ لیں،جانورذبح کرنے کے بعد آدھا گھنٹا انتظار کریں تاکہ جانور میں سے خون نکل جائے پھر کھال اتاریں اور گوشت بنائیں،خون ہرگز بھی اپنے جسم اور منہ پر نا لگنے دیں۔ قربانی سے فارغ ہوکر نہا کر کپڑے تبدیل کریں ، ہرگز بھی مویشیوں کی آلائشوں کو آبادیوں اور سڑکوں پر نا پھینکیں، انہیں محکمہ صحت کے بتائے طریقوں کے مطابق تلف کریں،گوشت کو اچھی طرح پکا کر کھائیں،اگر کسی بھی شخص میں کانگو فیور کی علامت دیکھیں تو اس کو فوری طور پر اسپتال لائیں،بروقت علاج سے بہت سی جانیں بچ سکتی ہیں۔ |
|
تعلیم کے نام پر دکانداری!!
![]() |
||
Posted On Sunday, September 13, 2015 | ||
بچے کی صحت اور تعلیم وہ دو چیزیں ہیں جن کے بارے میں والدین بہت فکر مند رہتے ہیں، ماں ہراس چیز سے بچے کو بچاتی ہے جس سے بچے کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ والد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خوب محنت کریں تاکہ بچے کی تمام ضروریات اور خواہشات پوری کی جاسکیں، جس وقت بچے کے اسکول جانے کا مرحلہ آتا ہےتو ماں باپ سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اپنے جگر گوشے کو کس اسکول میں داخل کروایا جائے جہاں اسکو شفیق استاد ملیں جو اس کی تعلیمی اور روحانی تربیت میں معاون ثابت ہوں۔ ماں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ادارہ ایسا ہو جہاں اس کو استاد بہت پیار سے بڑھائیں اسکے بچے کو گرمی سردی سے محفوظ رکھنے کا انتظام ہو، کینٹن میں معیاری اشیاء ملتی ہوں اور گھر سے زیادہ دور نا ہو۔والد اس کے ساتھ یہ دیکھتے ہیں کہ فیس کتنی ہے اسکول کا رزلٹ ریکارڈ کیسا ہے اسکول میں بچوں کی سیکورٹی کے لئے کیا انتظام ہے اورا سکول بچوں کو سکالر شپ دیتا ہے یا نہیں۔ والدین دیگر احباب سے مشورہ کرتے ہیں اخبارات دیکھتے ہیں اور بہت سے کچھ پرائیویٹ اسکولز کے اشتہارات سے مرعوب ہوجاتے ہیں، اسکولز کے اشتہارات میں سو فیصد رزلٹ کے ساتھ اسکالر شپ ، جنریٹرز ، سیکورٹی مطالعاتی دوروں اور مناسب فیس کو خاص طور پر نمایاں کرکے چھپوایا گیا ہوتا ہے۔ والدین بھی سوچتے ہیں چلو اچھا ہے اسکول میں اے سی بھی ہے ، ہمارا بچہ گرمی سے پریشان نہیں ہوگا، اسکول میں ہیٹر بھی سردی سے محفوظ رہے گا، پھر سب سے بڑھ کر رزلٹ اچھا ہے اسکول کا نام بڑا ہے ہمارا بچہ ایک قابل شہری بن کر یہاں سے نکلے گا۔ لیکن والدین کو یہ نہیں پتہ ہوتا جس دن سے بچہ اپنے ننھے ننھے قدم اٹھا کر اسکول جائے گا والدین کی آزمائش وہاں سے ہی شروع ہوجائے گی، سب سے پہلے ایڈمیشن فیس اس کے ساتھ کتابوں کی فیس اس کے بعد جنریٹر کی فیس پھر پینسل کلرز کی فیس گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس بھی ٹیکس اس کے علاوہ۔ 16 دسمبر کے دلخراش واقعے کے بعد اب بہت سے پرائیویٹ اسکولز نے ایک اور فیس کا اضافہ کیا ہے سیکورٹی کے نام پر ماں باپ کی جیبیں خالی کروانا، یوں کل ملا کر ایک بچے کا ایڈمیشن ماں باپ کو 40سے 90 ہزار کے درمیان اوسط پڑتا ہے۔ ماں باپ چپ کرکے اس چکی میں پستے رہتے ہیں، لیکن سلسلہ یہاں نہیں رکتا، اسکول میں ہر ہفتے کوئی نا کوئی فنکشن ہوتا ہے جس کے لئے نت نئے ملبوسات کا مطالبہ بھی ماں باپ سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد ویلکم پارٹیز، فیرول پارٹیز اور عید ملن کی مد میں بھی والدین سے ہی پیسے لئے جاتے ہیں۔ بات ہو بچوں کے یونیفارم کی تو بھی اسکولز نے اپنے من پسند مہنگے برانڈز کے حوالے کر رکھے ہیں، جس کی قیمت تین ہزار سے دس ہزار تک پہنچا دی۔ ماں باپ اگر درزی سے سلوا کر یونیفارم بچوں کو پہنا کر بھیج دیں تو بچوں کو واپس بھیج کر یہ کہا جاتا ہے جہاں سے ہم نے کہا ہے وہاں سے ہی خرید کر بچے کو یونیفارم پہنائیں۔ کتابیں جو اتنے مہنگے داموں والدین کو فروخت کی جاتی ہیں وہ بھی پرانی ہوتی ہیں اور سیشن کے اختتام پر واپس لے لی جاتی ہیں، جنریٹر کے نام پر جو پیسے ماں باپ سے لئے جاتے ہیں کبھی بچوں سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ جنریٹرز تو اکثر خراب ہوتے ہیں، سیکورٹی کے نام پر جو والدین سے پیسے لئے جاتے ہیں وہ بھی کوئی خاص سیکورٹی نہیں کسی عام شخص کو وردی پہنا دی جاتی ہے اور ایک ناکارہ سا کیمرہ لگا کر والدین کو تسلی کرادی جاتی ہے۔ بات ہو نصاب کی تو اس میں سے اسلامیات اور مطالعہ پاکستان تو بالکل خارج کردیا گیا ہے، دیگر علوم پر تو توجہ دی جارہی ہے لیکن مذہب اور دو قومی نظریے سے دور کیا جارہا ہے، جو ملک نجی اسکولوں کو فنڈ دیتے ہیں ، اسکول کی انتظامیہ اس ملک کی ثقافت اور زبان اپنے نصاب میں شامل کردیتے ہیں، جو چھوٹے بچوں پر اضافی بوجھ ہے۔ اسکول میں کام کرنے والی استاتذہ کی تنخواہ بہت کم ہے، دس سے پندرہ ہزار ایک ایم ایس سی پاس استاد کو دی جاتی ہے اور انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مغربی لباس پہن کر آئیں، اب جب استاتذہ کا اتنا استحصال ہورہا ہو وہ کیا خاک بچوں کی تربیت پر توجہ دیں گی۔ حال ہی میں اسلام آباد لاہور اور کراچی کے بہت سے پرائیویٹ اسکولز نے یکدم فیسوں میں تیس سے پچاس فیصد اضافہ کردیا، اس اضافے کی وجہ سے متوسط طبقے کے لیے یہ مشکل ہوگیا کہ وہ اپنے دو یا ایک بھی بچوں کی فیس ادا کرسکیں۔ ایک پرائیوٹ اسکول نے کلاس نرسری سے کلاس تھری تک کے بچوں کی فیس 75 ہزار کردی، دوسرے اسکول نے تو اسکو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور نئے سیشن پر بچوں سے ڈیڑھ لاکھ فیس وصول کی۔ اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے تینوں شہروں میں متاثرہ والدین پرامن احتجاج کرتے ہوئے دہائی دینے لگے کیا اچھی اور سستی تعلیم پر متوسط طبقے کا حق نہیں فیسوں میں یکدم اتنا اضافہ کیوں؟ متاثرہ والدہ مسز عاصمہ نے کہاتمام پرائیویٹ اسکول حکومت اور والدین کے آگے جواب دہ ہیں انہیں اس بات سے سب کو آگاہ کرنا چاہیے کہ ماں باپ سے وصول کیا جانے والا پیسہ کہاں خرچ ہورہا ہے، والدین کوئی اے ٹی ایم نہیں، تعلیم کے نام پر یہ نجی اسکول دکانداری چلا رہے ہیں، حکومت اس پر ایکشن کیوں نہیں لے رہی، نا ان کے پاس تجربہ کار استاد ہیں نا لیب، لائبریری اور کھیل کے لئے کھلے میدان تو نہیں یہ اتنے پیسے کس بات کے وصول کررہے ہیں۔ والدین کے نمائندہ عالیہ آغا اور محسن خان کہتے ہیں اس وقت ہمارے ساتھ تمام والدین رابطے میں ہیں.ہم یہ معاملہ صدر پاکستان ممنون حسین اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں کہ کس طرح نجی سکول تعلیم کو صرف پیسے بنانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ ایجوکیشن انسٹیٹیوشن ریگولیٹری اتھارٹی کو فعال بنایا جائے۔ یہ تمام صورتحال بہت افسوسناک ہے،حکومت کو فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے ان اسکولز کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے، سستی تعلیم ہر بچے کا حق ہے، اس لئے حکومت فوری طور پر والدین اور پرائیویٹ اسکول کے نمائندوں کے ساتھ فیسوں کے مسئلے کا حل نکالے تاکہ بچے آرام سے اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھ سکیں۔ |
||