Posted in Uncategorized

کانگو بخار سے بچیئے

 

 

Posted On Thursday, September 08, 2016
جویریہ صدیق

 

۔۔۔۔ کانگو بخار کی وجہ سے ہونی والی ہلاکتوں کے باعث عوام میں تشویش پائی جاتی ہے کہ آخر یہ بخار ہے کیا اور اس کی علامات کیا ہیں ۔کانگو بخار مویشیوں کی جلد میں موجود ٹکس (چیچڑ ) کی وجہ سے ہوتا ہے.اگر یہ ٹکس کسی انسان کو کاٹ لیں تو وہ انسان کریمین گانگو ہیمرجک فیور میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ جانور کاخون،گوشت،آلائش وغیرہ بھی کانگو کے پھیلاو کا باعث ہیں۔اگر یہ انسان کے منہ ناک آنکھوں اور زخم پر لگ جائیں تو بھی انسان کانگو کا شکار ہوجاتا ہے۔

گانگو بخار پھیلانے والی hyalomma چیچڑ بھورے رنگ کی ہوتی ہے اور اس کی ٹانگوں پر سفید دھاریاں ہوتی ہیں ۔یہ جانوروں کے جسم سے چپک کر اپنی خوراک حاصل کرتی ہیں۔اگر یہ انسان کو کاٹ لیں تو علامات تین سے نو دن کے اندر اندر ظاہر ہوتی ہیں ۔جن میں فلو ،گلے میں تکلیف،ذہنی کیفیت کا بگڑنا، بخار چڑھنا ،پٹھوں میں درد ،تھکاوٹ ،دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا،جلد پر سرخ دھبے پڑ جانا،گردن میں درد اکڑاو،آنکھوں کا سرخ ہوجانا اور ان میں درد ہونا شامل ہے.اگر فوری طور پر علاج پر توجہ نا دی جائے تو جگر اور تلی بڑھ جاتی ہے .ناک کان آنکھوں اور منہ خون رسنا شروع ہوجاتا ہے اور انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے

اس بخار کا سب سے زیادہ خطرہ ان لوگوں کو ہوتا ہے مویشیوں کے بیوپاری ہیں یا گلہ بان ہیں ۔زراعت سے منسلک اور ذبیحہ خانوں میں کام کررہے ہیں .ایسے لوگوں میں یہ بخار عام افراد کی نسبت زیادہ ہونے کا امکان ہے.اس بخار کے جراثیم ایک متاثرہ شخص سے دوسرے صحت مند شخص کو فوری طور پر لگ جاتے ہیں. یہ بخار ایک انسان سے دوسرے انسان میں خون، رستے ہوئے زخم ،دیگر رطوبت اور جسمانی تعلقات سے پھیلتا ہے.

اس وقت پاکستان میں عید الاضحٰی کے موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد مویشی بازار کا رخ کررہے ہیں.اس لئے اس مرض کے پھیلنے کا خدشہ اور بڑھ گیا۔

عید الاضحٰی کے لئےخریداری کرتے ہوئے اور مویشیوں کے بیوپاری جانوروں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے منہ کو ماسک سے ڈھانپ لیں،آنکھوں پر چشمہ لگائیں اور ہاتھوں پر دستانے پہنیں، ہلکے رنگ کے کپڑے پہنیں جس کے بازو فل ہوں کہ اگر کوئی چیچڑ کپڑوں پر چپک جائے تو نظر آجائے.جوتوں کے ساتھ جرابیں پہن لیں یا لانگ بوٹ پہن کر رکھیں ۔اچھی طرح تصدیق کریں جانور بیمار تو نہیں۔

جانور کے ڈاکٹر سے معائنہ کروائیں اور جانور پر اسپرے کروالیں تو بہت بہتر ہے۔بچوں کو مویشی منڈی لیجانےسے گریز کریں۔ مویشیوں کے بیوپاری اپنے جانور رکھنے کی جگہ پر اسپرے کروائیں.اپنے جانوروں کا ویٹ ڈاکٹر سے معائنہ کروائیں.بیمار جانور کو الگ کردیں۔ورنہ باقی جانور بھی بیمار ہوجائیں گے.جانوروں پر چیچڑی کی افزائش روکنے والے اسپرے کریں یا پاوڈر کا چھڑکاو کریں.

قربانی کرتے وقت بھی احتیاط برتیں اور دستانے پہنیں، منہ پر ماسک اور بندجوتے پہن کر قربانی کریں۔ جانور کے خون اور آلائشوں کو ہرگز ہاتھ نا لگائیں. قربانی کا جانور ذبیح کرنے کے بعد آدھا گھنٹہ انتظار کریں جانور کا خون اچھی طرح نکل جائے پھر گوشت بنائیں.آلائشوں کو سڑکوں پر نا پھینکیں حفظان صحت کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں تلف کریں.قربانی سے فارغ ہوتے ہی جراثیم کش صابن سے ہاتھ دھویں نہایں اور لباس تبدیل کریں۔اس بخار سے بچاو کے لئے کوئی ویکسین دستیاب نہیں اس لئے احتیاط سے ہی ایک واحد حل ہے ۔

طبی عملہ بھی ہیمرجک فیور کے مریض کا علاج کرتے ہوئے اپنی حفاظت یقنی بنائے۔ یہاں حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ تمام سرکاری ہسپتالوں میں آئسولیشن وارڈ قائم کرے اور طبی عملے کو تمام سہولیات فراہم کرے تاکہ بیماری کا علاج کرتے ہوئے وہ خود بیمار نا ہوجائیں ۔اس کے ساتھ ساتھ مریض کےگھر والے بھی مریض کے خون اور یا کسی طرح کے بھی مواد کو براہ راست ہاتھ نا لگائیں.ہر کام دستانے پہن کر کریں،آنکھوں پر چشمہ لگا کر اور منہ ڈھانپ کریں.اگر احتیاط نہیں برتی گئی تو یہ مرض فوری طور پر دوسرے انسان کو لاحق ہو جاتا ہے۔کانگوجان لیوا بخار سے بچنے کا واحد حل احتیاط ہے۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Twitter @javerias

Posted in Uncategorized

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

؛؛

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

تحریر: جویریہ صدیق

کیپٹن محمد مجاہد بشیر (شہید) اکثر اپنی زندگی میں ایک شعر پڑھا کرتے تھے
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت‘ نہ کشور کشائی
یہی شعر ان کی قبر پر کندہ ہے۔

نام مجاہد اور دل میں شہادت کی خواہش لئے جب یہ شیر دل دشمن سے ٹکرایا تو دشمن کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔پاکستان کا یہ بہادر بیٹا 8 جولائی 1986 کو پیدا ہوا۔شروع سے ہی پاکستان آرمی میں جانے کا شوق تھا۔ابتدائی تعلیم اسلام آباد ماڈل کالج سے حاصل کی ۔بی کام مکمل کیا۔ سولہ مئی 2008 کو پی ایم اے جوائن کیا اور 119 لانگ کورس میں شمولیت اختیار کی۔ 160 آر سی جی ائیر ڈیفنس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔2012 میں ایف سی ہیڈ کوارٹر خیبر پختون خوا میں پوسٹنگ ہوئی۔باجوڑ میں فرائض منصبی سنبھالے اور اپنی شہادت تک وہیں ڈیوٹی انجام دیتے رہے۔12 جولائی 2014 کو اس مرد مجاہد نے جام

namalke1.jpg

شہادت نوش کیا۔

باجوڑ کے قریب کٹ کوٹ کے مقام پر پاک آرمی کے ہیڈ کوارٹرز سے کیپٹن مجاہد نے فضل سیپی سرحدی چیک پوسٹ پر جانا تھا۔ماہ رمضان تھا کیپٹن مجاہد روزے سے تھے ہیڈ کوارٹر بریفنگ کے لئے آئے۔تاہم وہاں کام کی نوعیت کی وجہ سے دیر ہوگی ۔روزہ کھولنے کے بعد نماز سے فارغ ہوکر جب انہوں نے واپس فضل سیپی جانے کا ارادہ کیا تو سب نے منع کیا کہ اس وقت سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔لیکن پاک وطن کے اس مجاہد نے کہا چیک پوسٹ پر میرے ساتھی میرا انتظار کررہے ہوں گے، میں انہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔

کیپٹن مجاہد رات گئے اپنے دیگر دو ساتھیوں کے ہمراہ روانہ ہوگئے ۔ ۔انہیں پوسٹ پر پہنچنے کی جلدی تھی کیونکہ اس پوسٹ پر اکثر دشمن کی طرف سے حملے ہوتے رہتے تھے۔کیپٹن مجاہد خود واپس جاکر جلد سے جلد کمان سنبھالنا چاہتے تھے۔لیکن راستے میں ہی دہشت گردوں نے ان پر دو اطراف سے حملہ کر دیا۔کیپٹن مجاہد اور ان کے ساتھی مردانہ وار لڑے ۔ہر طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ ہوگئی لیکن کیپٹن مجاہد نے جوانمردی سے مقابلہ کیا اور دشمن کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔تاہم وہ اس معرکے میں شدید زخمی ہوئے اور جب تک کٹ کوٹ سے پاک فوج کی مزید نفری آئی کیپٹن مجاہد بشیر اپنے ساتھیوں کے ساتھ شہادت پاچکے تھے۔
ان کے ساتھی ان کے یونٹ ممبران ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی خوش اخلاق اور نرم مزاج تھے ۔ہمیشہ سب کے ساتھ بہت پیار اور شفقت سے پیش آتے۔وہ اپنی یونٹ کے تمام افراد سے رابطے میں رہتے۔ان کے دوستوں کے مطابق شہادت کی خواہش ان کے دل میں بہت شدید تھی۔بہادری سے لڑے اور بہادری سے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

namalke.jpg
گیارہ جنوری 2014 کو کیپٹن مجاہد صالحہ حیدر کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔2012 میں نکاح ہوگیا تھا لیکن رخصتی 2014 میں مقرر ہوئی۔شادی کے بعد کچھ عرصہ چھٹی گزارنے بعد کیپٹن مجاہد واپس محاذ جنگ پر چلے گئے۔ان کی اہلیہ صالحہ کچھ عرصہ باجوڑ ان کے پاس رہ کر آئیں۔کیپٹن مجاہد کی بیٹی صبغہ اپنے والد کی شہادت کے سات ماہ بعد فروری میں پیدا ہوئی۔صالحہ مجاہد بیوہ شہید کیپٹن مجاہد اے پی ایس میں پڑھاتی ہیں۔وہ کہتی ہیں مجاہد سے شادی ہوئی تو مجھے لگا جیسے مجھ سے زیادہ اس دنیا میں کوئی خوش نصب نہیں ہوگا ۔وہ بہت ہی نرم مزاج محبت کرنے والے انسان تھے۔
میں شادی کے بعد اکثر سوچتی اور اپنے آپ پر رشک آتا تھا کہ مجھے اتنا اچھا انسان جیون ساتھی کے طور پر ملا۔ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات میری زندگی کا کل سرمایہ ہیں۔صالحہ کہتی ہیں کیپٹن مجاہد مذہب سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ پانچ وقت کی نماز کا اہتمام باقاعدگی سے کرتے اور روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ۔وہ کہتی ہیں ان کی عادات و اطوار نے مجھے ان کا مزید گرویدہ کر دیا۔ان کی شہادت سے قبل میں باجوڑ گئی اور ہم نے کچھ دن ساتھ گزارے۔ اس کے بعد وہ مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلے گئے۔

وہ کہتی ہیں کہ اتنا پیار کرنے والا انسان جب چھوڑ کر چلا جائے تو زندگی بے مقصد محسوس ہوتی ہے۔شروع شروع میں تو میرے ضبط کے سارے بند ٹوٹ جاتے اور مجھے بالکل قرار نہیں آتا تھا ۔لیکن جب میں شہید ہونے والے دیگر فوجیوں کی بیواؤں سے ملی تو ان کا صبر دیکھ کر مجھے انتہائی حوصلہ ملا۔میں نے زندگی کو ایک بار پھر مجاہد کی یادوں کے ساتھ آگے بڑھایا۔
صبغہ فاطمہ جو کیپٹن مجاہد کی شہادت کے بعد پیدا ہوئی اس نے اپنے والد کا لمس تو محسوس نہیں کیا لیکن اس کی والدہ اسے باقاعدگی سے اس کے شہید بابا کی قبر پر لے کر جاتی ہیں۔صبغہ اپنی ماما کے فون پر جب کیپٹن مجاہد کی تصاویر دیکھتی ہیں تو بابا، بابا کہہ کر ان کو پکارتی ہے اور خوب شور مچاتی ہے مگراس کے بابا اس کو جواب دینے کے لئے اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔گزشتہ دنوں جب عالمی یوم والد منایا جارہا تھا تو ننھی شہزادی صبغہ نے یہ دن اپنے شہید بابا کی قبر پر منایا۔ابھی تو وہ اتنی کم سن ہے کہ اسے معلوم نہیں کہ اس کی زندگی کا سب سے خوبصورت رشتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلا گیا ہے۔

مسز کیپٹن مجاہد بشیر کہتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر کی یادوں کے سہارے زندگی گزار رہی ہیں اور صبغہ فاطمہ ان کی متاعِ کُل ہے۔وہ کہتی ہیں کہ مجاہد کی شہادت نے انہیں بالکل توڑ کر رکھ دیا تھا لیکن گھر والوں اور سسرال والوں کی محبت اور شفقت نے انہیں ہمت دی کہ وہ زندگی کو آگے لے کر چل سکیں ۔میرے اور صبغہ کے لئے ان کا چلے جانا ناقابل تلافی نقصان ہے۔تاہم ہمیں ان کی قربانی پر فخر ہے انہوں نے اپنی جان پاکستان کے لئے قربان کی۔
آگے چل کر جب ننھی صبغہ زندگی میں قدم بڑھائے گی تو اس کا ہاتھ تھامنے کے لئے اس کے بابا موجود نہیں ہوں گے۔اس کے اردگرد تمام بچے جب اپنے ماما بابا کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہوں گے تو ایک پل کو وہ رُک کر سوچے گی ضرور کہ میرے بابا میرے ساتھ کیوں نہیں ہیں۔سب کام میری ماما کو اکیلے کیوں کرنے پڑرہے ہیں۔لیکن جیسے جیسے شعور بیدار ہوگا تو وہ اپنے عظیم والد کی عظیم قربانی پر فخر کرے گی۔ہم سب کا بھی فرض ہے کہ ہم اپنے شہدا اور ان کے لواحقین کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھیں۔اس ملک کی اساس کیپٹن مجاہد جیسے شیر جوانوں اور صالحہ مجاہد اور صبغہ فاطمہ جیسی عظیم بیٹیوں کی قربانیوں پر کھڑی ہے۔

صبغہ فاطمہ کے نقصان کا خلا کبھی بھی پر نہیں ہوسکتا لیکن تمام پاکستانیوں کو اس کے والد کی قربانی اور اس کی والدہ کے صبر و استقامت پر پر فخر ہے۔۔کیپٹن مجاہد اور ان جیسے دیگر پاک فوج کے شہداء کی قربانیوں کی بنیاد پر آج وطن عزیز میں امن قائم ہوا ہے۔اللہ تعالی ہمارے شہدا کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

جویریہ صدیق ممتاز صحافی اور مصنفہ ہیں ۔ ان کی کتاب ’سانحہ آرمی پبلک سکول‘ شہدا کی یادداشتیں حال ہی میں شائع ہوئی ہے ۔

javeriasiddique@hotmail.com

twitter@Javerias

 

 

 

Read 1882 times

Posted in Pakistan, Uncategorized

اسلام آباد کے نواح میـں24ہزار سال پرانےغار

 

اسلام آباد کے نواح میـں24ہزار سال پرانےغارShahAllahDittaCavesinIslamabad_2-22-2016_216150_l

اسلام آباد … جویریہ صدیق ….

شاہ اللہ دتہ اسلام آباد کے جنوب مغرب میں واقع گاؤں ہےجو تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔مقامی لوگ کہتے ہیں کہ سات سو سال پہلے شاہ اللہ دتہ نام کے بزرگ نے اس گاؤں کو بسایا۔ ان کا مزار بھی اسی گاؤں میں واقع ہے۔

مارگلہ کے دامن میں بسے اس گاؤں میں بہت سی تاریخِ جگہیں ہیں ۔اس گاؤں سے سکندر اعظم اور مغل حکمران بھی گزر کر گئے۔ یہاں شیر شاہ سوری کا قائم کردہ کنواں اور دیوار بھی واقع ہیں۔اسلام آباد میں رہنے والے لوگوں میں سے بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ شاہ اللہ دتہ گاؤں میں واقع غاربدھ مت دور کے ہیں۔

تاریخ دانوں کے مطابق یہ غار چوبیس ہزار سال پرانے ہیں اور ان پر بدھوں کے مذہبی پیشوا ’مہاتما بدھ‘ کے نقوش تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نقوش تو مٹ گئے ہیں لیکن غار کے خدوخال ویسے ہی ہیں۔

ان غاروں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غاروں میںکسی زمانے میں سرائے قائم تھے اور مسافر یہاںٹھہرتے تھے۔غاروں میں دروازے کھڑکیاں موجود ہیں۔غار کے نزدیک قدرتی پانی کا چشمہ ہے جو صدیوں سے رواں ہے۔غار کے قریب بہت سے پرانے برگد کے درخت بھی لگے ہیں ۔محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق یہ درخت بھی تقریباًسات سو سال پرانے ہیں۔

یہ جگہ سی ڈی اے کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ یہاں آنے کا راستہ بہت دشوار ہے اور سڑک خستہ حالی کا شکار ہے۔ان غاروں کے اردگرد پہاڑوں پر کرشنگ جاری ہے اور درخت کاٹے جارہے ہیںجس کی وجہ سے علاقے میں ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے اور اس جگہ کا حسن ماند پڑ رہا ہے۔

یہاں پر ایک سو سال پرانا باغ بھی تھا جس کی نشانی اب صرف ایک درخت کے روپ میں ہی رہ گئی ہے ۔باقی تمام درخت’ ٹمبر مافیا‘ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

دوہزار گیارہ میں اس وقت کے سی ڈی اے چیئرمین نے سادھو کا باغ دوبارہ آباد کرنے کے لئے سنگ بنیاد بھی رکھا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ ان غاروں میں چند افراد نے اپنی رہائش گاہیں بھی بنا رکھی ہیں۔سی ڈی اے نے ان تمام معاملات پر چشم پوشی کررکھی ہے۔

یہ یونیسکو کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔سی ڈی اے فوری طور پر یہاں پہاڑوں پر کرشینگ کو روکوائے، پہاڑوں پر غیر قانونی تعمیرات پر پابندی عائد کرے اور شاہ اللہ دتہ میں واقع تاریخی مقامات کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کرے۔

اس جگہ پر نا ہی کوئی قیام وطعام کی جگہ ہے نا ہی سی ڈی اے کی طرف سے کوئی معلوماتی بورڈ نصب ہیں جس سے سیاحوں کو اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے۔یہاں سب سے پہلے سڑک تعمیر ہونی چاہئے جبکہ جگہ جگہ سائن بورڈز بھی نصب کئے جانے چاہئیں۔سی ڈی اے کی طرف سے گائیڈ بھی ہونے چاہیں جو سیاحوں کو اس جگہ کی تاریخ بیان کرسکیں۔

تاریخی غاروں کی حفاظت کے لئے محکمہ آثار قدیمہ کی مدد لینی چاہیے۔یہاں مزید پودے لگانے بھی ضرورت ہے ۔پہاڑ کی کٹائی کا کام فوری طور پر روکا جائے۔

سی ڈی اے کی زرا سی توجہ سے یہ جگہ ناصرف سیاحوں کے لئے نہایت دلچسپی کا باعث بن سکتی ہے بلکہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی اسے شامل ہونے کا موقع مل سکے گا۔

Posted in health, human-rights, Pakistan, Uncategorized, ،خصوصی_افراد

 

 

پاکستان ڈائری-11

پاکستان ڈائری-

11

عمارہ انور پاکستان کی ایک باہمت بیٹی ہے۔عمارہ پیدائشی طور پر نابینا ہیں لیکن عمارہ نے اپنی تعلیم اور ترقی کی راہ میں اسکو کبھی حائل نہیں ہونے دیا۔انیس سو ستاسی میں پیدا ہونے والی عمارہ نے تمام تعلیم عام اداروں میں حاصل کی

17.03.2016 ~ 25.10.2016

پاکستان ڈائری-11

 
 
00:00/05:23

عمارہ انور پاکستان کی ایک باہمت بیٹی ہے۔عمارہ پیدائشی طور پر نابینا ہیں لیکن عمارہ نے اپنی تعلیم اور ترقی کی راہ میں اسکو کبھی حائل نہیں ہونے دیا۔انیس سو ستاسی میں پیدا ہونے والی عمارہ نے تمام تعلیم عام اداروں میں حاصل کی ۔ایف اے ایف سیون ٹو کالج اور بی بی اے اورایم بی اے کی ڈگری نمل یونیورسٹی سے حاصل کیااوراب جاب کررہی ہیں۔

میں نے خود زمانہ طالب علمی میں عمارہ کو بہت قریب سے دیکھا ہماری ملاقات اکثر تقریری مقابلوں میں ہوا کرتی تھی۔عمارہ زمانہ طالب علمی سے ہی بہت کانفیڈینٹ اور انڈیپنڈنٹ رہی ہے۔عمارہ نے کبھی اپنے لئے ہمدردی کو پسند نہیں کیا وہ بھی باقی طالب علموں کی طرح ہر چیز میں حصہ لیتی۔اکثر کالج اور یونیورسٹی کے لئے تقریری مقابلوں میں انعامات جیت کر آتیں۔ عمارہ اس وقت پاکستان فاونڈیشن فائٹنگ بلائنڈنس کے ساتھ منسلک ہیں۔

عمارہ کہتی ہیں کہ جب سے میرا جنم ہوا میں نے اپنی فیملی کو بہت سپورٹو پایا۔ ریٹینا ڈی ٹیچمنٹ کی وجہ سے میں دیکھ نہیں سکتی اورمیرا بھائی بھی نہیں دیکھ سکتا۔میرے والدہ اور والد نے جس قدر ہم پر محنت کی ہماری تعلیم اور صحت کا خیال رکھا وہ الفاظ میں بیان کرنے سے میں قاصر ہوں۔میرے والدین نے مجھے خود مختار بنایا مجھے ہمدردی سیمٹنے کا کوئی شوق نہیں میں پڑھی لکھی پاکستانی ہوں اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہوں

زمانہ طالب علمی کی تصاویر

عمارہ اپنے دور طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں نے ابتدائی تعلیم فیصل آباد میں حاصل کی اس کے بعد تمام تعلیم اسلام آباد میں حاصل کی۔مجھے ہمیشہ استاتذہ اور کلاس فیلوز نے مثبت رسپانس دیا۔میں نے تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا اور سکول کالج میں تقریری مقابلوں میں انعامات جیتے۔میری والدہ ہمیں خود پڑھاتی ہماری صلاحیتوں پر کام کرتیں۔وہ خود استاد رہیں ہیں تو انہوں نے جدید تکینک کےساتھ مجھے اور میرے بھائی کو پڑھایا۔

مسٹر اینڈ مسز انور

ایف اے تک تو میرے ساتھ پیر لکھنے کے لئے کوئی ہیپلر ہوتا تھا لیکن بی بی اے ایم بی اے میں کمپیوٹر کی مدد سے میں نے خود ٹائیپنگ کرکے پیپر دیے۔ماڈرن ٹیکنالوجی نے زندگی کو بہت آسان بنا دیا۔مجھے یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں تو اتنی ٹیکنالوجی عام نہیں تھی تو میرے والدین مجھے اور میرے بھائی کو بریل اور آڈیو کی مدد سے پڑھاتے تھے۔پر اب ہم فون ٹیبز اور لیپ ٹاپ کی مدد سے بہت آسانی کے ساتھ بہت سا کام کرجاتے ہیں۔

عمارہ کہتی ہیں کہ میرے والدین نے ہمشہ ہمیں عام تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائی کیونکہ وہ ہمیں معاشرے سے کاٹ کر نہیں رکھنا چاہتے تھے۔میں نے صرف تین سال سپیشل تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کی اس کے بعد صرف عام اداروں میں زیر تعلیم رہی۔اس کا مجھے بہت فائدہ ہوا۔وہ والدین غلط کرتے ہیں جو اپنے فزیکل چیلنجڈ بچوں کو ایک کمرے کی حد تک محدود کردیتے ہیں یا انہیں لوگوں سے چھپاتے ہیں۔دنیا کے ہر شخص میں کچھ نا کچھ کمی ہے کوئی بھی اس دنیا میں پرفیکٹ نہیں۔

عمارہ کہتی ہیں کہ خود کو ہمدردی کا مرکز بنانے سے بہتر ہے کہ انسان محنت کرے اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈالے۔میں دیگر لوگوں کی طرح تمام مسائل کا مقابلہ کرکے محنت کررہی ہوں ۔مشکلات کس کی زندگی میں نہیں آتی سب کی زندگی میں آتی ہیں بس ہمیں ان کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔میں اس وقت پاکستان فاونڈیشن فائٹنگ بلائنڈنس کے ساتھ پروگرام اسپیشلیسٹ کے طور پر کام کررہی ہوں اور ہمارا کام بنیائی سے محروم لوگوں کے لئے مختلف پراجیکٹس پر کام کرنا ہے۔جس میں آن لائن لائبری آڈیو ورلڈ اور آئی ٹی ریسرچ شامل ہے۔

عمارہ کہتی ہیں والدین کا رول بہت اہم ہے سب سے پہلے اپنے خصوصی بچوں کو پیار دیں ۔ان پر بھی انویسٹ کریں جیسے اپنے دیگر بچوں پر بھی کام کرتے ہیں۔خصوصی بچوں پر محنت کریں وہ کسی گناہ کا نتیجہ نہیں ہیں۔وہ فزیکلی چلینجڈ لیکن بلکل نارمل ہیں اللہ تعالی کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں۔سب ایسے بچوں کو تھوڑا زیادہ ٹائم اور زیادہ پیار کریں۔ان کے استاتذہ سے ملیں ان کے ساتھ مل بچوں کی زندگی آسان بنائیں۔ان کے مشاغل میں دلچسپی لیں اور ان کے ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے لئے والدین اور استاتذہ ان کا بھرپور ساتھ دیں۔اس طرح یہ بچے معاشرے کے کارآمد شہری بن جائیں گے۔

http://www.trt.net.tr/urdu/slslh-wr-prwgrm/2016/03/17/pkhstn-ddy-ry-11-452891