Month: January 2017
بابو کی ماں
جویریہ صدیق
ماں نے مجھے ہمیشہ بہت پیار دیا اکلوتا جو تھا ۔ہر وقت میرے ناز نخرے اٹھانے میں مصروف رہتی یہاں تک کہ میرے ابا بھی کہہ اٹھتے کہ جب سے یہ آیا ہے صفیہ تم تو مجھے بھول ہی گئ۔ابا کی چھوٹی سی کریانے کی دوکان تھی ۔اچھا گزر بسر تھا ماں کو مجھے بابو بنانے کا بہت شوق تھا ابا کے لئے جب وہ گرم گرم پراٹھے اتراتی تو دوسری طرف میرے لئے بریڈ مکھن کے ساتھ سینک دیتی ۔اسکول کی بریک میں اسٹرابری جیم والی بریڈ اور گرم ماگرم چپس بنا کر لاتی اس کا تو دل کرتا مجھے سکول میں بھی نوالے خود بنا کر دیتی لیکن اس کی اجازت نہیں تھی صرف ٹفن دیے جاتی۔جب سردیاں ہوتی تو دودھ میں چاکلیٹ ڈال کر مجھے دیتی ، بہت سارے میوے صرف میرے لئے خرید کر رکھتی ۔ابا مذاق اڑاتے کیا دیسی کو ولایتی بنانے چلی…
View original post 1,580 more words
بابو کی ماں
جویریہ صدیق
ماں نے مجھے ہمیشہ بہت پیار دیا اکلوتا جو تھا ۔ہر وقت میرے ناز نخرے اٹھانے میں مصروف رہتی یہاں تک کہ میرے ابا بھی کہہ اٹھتے کہ جب سے یہ آیا ہے صفیہ تم تو مجھے بھول ہی گئ۔ابا کی چھوٹی سی کریانے کی دوکان تھی ۔اچھا گزر بسر تھا ماں کو مجھے بابو بنانے کا بہت شوق تھا ابا کے لئے جب وہ گرم گرم پراٹھے اتراتی تو دوسری طرف میرے لئے بریڈ مکھن کے ساتھ سینک دیتی ۔اسکول کی بریک میں اسٹرابری جیم والی بریڈ اور گرم ماگرم چپس بنا کر لاتی اس کا تو دل کرتا مجھے سکول میں بھی نوالے خود بنا کر دیتی لیکن اس کی اجازت نہیں تھی صرف ٹفن دیے جاتی۔جب سردیاں ہوتی تو دودھ میں چاکلیٹ ڈال کر مجھے دیتی ، بہت سارے میوے صرف میرے لئے خرید کر رکھتی ۔ابا مذاق اڑاتے کیا دیسی کو ولایتی بنانے چلی ہے وہ بس مسکراتی رہتیں۔اماں اور ابا خود تو کم پڑھے لکھے تھے اس لئے میرے لئے ٹیوشن بھی ڈھونڈ لی گئی ۔دوپہر کے کھانے کے بعد اماں مجھے خود پانچ گلیاں دور چھوڑ کر آتی پر 2 گھنٹے بعد دوبارہ لینے آتی۔راستے میں مجھے ٹھنڈی بوتل خرید کردیتی کبھی قلفی تو کبھی پاپڑ ۔مجھے مسجد چھوڑ کر گھر چلی جاتیں ۔میں قرآن پاک پڑھتا ایک گھنٹے بعد پھر وہ مجھے لئےکرگھرجاتی ۔میں کھیلنے کی ضد کرتا تو سامنے میدان میں جانے کی اجازت دیتی اور خود بار بار مجھے کھڑکی سے جھانکتی رہتیں ۔میری 24 گھنٹے کی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ وہ پانچ وقت نماز بھی پڑھیں گھر کے کام بھی خود کرتیں اور روز مزے دار کھانے بھی بناتیں ۔انہیں کپڑے سینے کا بھی شوق تھا پتہ نہیں کہاں سے کپڑے ڈھونڈ کر لاتی میرے لیے پینٹ کوٹ سیتی مجھے پہناتی بہت خوش ہوتیں اور کہتی میرا بیٹا بابو بنے گا۔میں کہتا ہاں ماں میں بابو بنوں گا ۔اس ہی طرح سال گزارتے رہے میں آٹھویں کلاس میں چلا گیا ۔میں نے اماں کو کہا اب ایسے ٹفن کا ڈبہ لئے کر سکول آنے کی ضرورت نہیں ہے لڑکے میرا مذاق اڑاتے ہیں مجھے جیب خرچ چاہے میں سکول کی کینٹن سے کچھ کھاوں گا۔اماں نے بہت منت سماجت کی لیکن میں ڈٹا رہا۔پھر ماں نے مجھے روز بیس روپے جیب خرچ دینا شروع کردیا۔ابا نے آنے جانے کے لئے سائیکل خرید دی۔میں کینٹین سے بھی چیزیں کھاتا اور راستے میں رفیق ہوٹل والے بھی کچھ نا کچھ ضرور کھاتا ۔ تب بھی وہ واپسی پر میرے لئے کھانا تیار رکھتی ٹی وی اور رسالوں کی مدد سے کبھی چائنیز کھانے تو کبھی پیزا بنانے کی کوشش کرتی۔بس اس کی خواہش تھی کہ میں انگریزی بولنے والا ایک بابو بن جاوں جس کو دیکھ کر سب سلام کریں ۔
میں کالج میں تھا کہ ابا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے ۔مجھے لگا مشکل ہے کہ اب میں پڑھائی جاری رکھ سکوں مجھے کریانے کی دوکان پر بیٹھنا پڑے گا ۔پر اماں نے کہا نہیں وہ دوکان ملازم کے ساتھ سنبھال لیں گی لیکن میں پڑھائی نہیں چھوڑوں گا۔اماں جو پہلے چادر لیتی تھیں اب شٹل کاک برقعے میں دوکان جانے لگیں خود گودام والی جگہ پر نگرانی کرتیں آگے ملازم چیزیں فروخت کرتا ۔اماں کی روٹین اور بھی سخت ہوگئ ۔دوکان پھر سے اماں کی محنت سے چل پڑی۔
میں نے ان کو کہا بھی گھر پر ملازمہ رکھ لیں لیکن نہیں وہ صبح اٹھتی نماز پڑھتیں، ناشتہ بناتی دوپہر کے لئے کھانا بناتیں میرے کالج جانے کے بعد دوکان کھولتی ۔میری واپسی پر گرم روٹیاں اتراتیں مجھے کھانا کھلاتیں اور وہ واپس دوکان پر چلی جاتیں اور رات 9 بجے واپس آجاتی۔میں اپنے ماں کے احسانوں تلے دبتا جارہا تھا۔میں ہمیشہ سوچتا میری ماں عظیم عورت ہے میں خوش قسمت ہوں جو اسکا بیٹا ہوں ۔
image via indileak
میں نے ڈگری مکمل کی اور مجھے اچھی سرکاری نوکری مل گئ۔میں نے ماں کو کہا اب وہ دوکان پر نہیں جائیں گی کیونکہ ان کا بیٹا بابو بن گیا ہے۔ماں نے کہا ٹھیک ہے میں نے دوکان اس ہی ملازم کو ٹھیکے پر دے دی۔میں سوٹ بوٹ میں جب بھی دفتر جاتا میرے آگے پچھے لوگ سلام صاحب سلام صاب کہتے جاتے ۔میرے اندر غرور پیدا ہونے گا۔میرے عمر کوئی 26 کے قریب ہوگئی تھی ۔اماں کے خاندان کی تمام لڑکیوں کو میں نے مسترد کردیا کیونکہ ان میں سے کوئی بابو کی بیوی بننے کے لائق نہیں تھی۔
ایک سرکاری تقریب میں میری ملاقات ٹینا سے ہوئی وہ کسی پرائیویٹ آرگنائزیشن سے وابستہ تھی۔اس کی خوبصورتی پہناوا اور بولڈنس سے متاثر ہوکر میں نے چند ہی ملاقاتوں میں اسکو پرپوز کردیا ۔ہماری شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی۔ٹینا کا خاندان بہت ہی ماڈرن تھا ان سب کے بیچ اماں کسی اور سیارے کی مخلوق لگ رہی تھیں ۔
مجھے تو بس کام اور ٹینا کے علاوہ کچھ نہیں نظر آتا تھا۔امی جی کہیں دور پیچھے رہ گئ۔وہ کھانا بنا کر انتظار کرتی رہتیں میں ٹینا باہر سے کھانا کھا آتے ۔شادی کے کچھ عرصے بعد جب ٹینا دوبارہ آفس جانے لگی تو اماں جی نے اعتراض کیا بیٹا اب بہو کو یہ گھر سنبھالنے کی ضرورت ہے ۔میں نے ان کو سختی سے جھٹک دیا کہ اب کیا آپ دقیانوسی ساس کا رول ادا کریں گی ۔وہ خاموش ہوگئیں ۔
گھر میں جھگڑے بڑھنے لگے ٹینا کو اماں سے بہت سی شکایتیں تھیں ۔کبھی اماں اسکو پوری آستین کے کپڑے پہنے کو کہتی تو کبھی اسکو وقت بے وقت گھر سے باہر جانے پر روکتی ۔کبھی مجھے کہتیں کہ میں صراط مستقیم پر چلوں ۔اماں میری سرگرمیوں سے واقف ہورہی تھیں ۔نوکری کے چند سالوں میں میرے پاس اپنا بنگلہ کار جائیداد سب موجود تھے ۔اب ٹینا کی فرمائشیں صرف سرکار کی مقرر کردہ تنخواہ میں تو پوری نہیں ہوسکتی تھیں پھر میرا اپنا بھی کچھ لائف اسٹائل تھا۔
ایک دن تو حد ہوگی میرے باس آئے ہوئے تھے اماں اپنے وہ ہی بوسیدہ سے مرینے کے سوٹ میں آگئی میں کیا بولتا ٹینا نے کہا یہ ملازمہ ہے جاو دفع ہوجاو پانی لاو۔میں شاید اس وقت بہرا ہوگیا تھا جو ٹینا کو کچھ نہیں کہا الٹا باس کے جانے کے بعد اماں سے لڑ پڑا کہ آپ کو فقیروں والے حلیے میں مہمانوں کے سامنے نہیں آنا چاہیے تھا۔اماں خاموش رہیں اور آنسو ان کی آنکھوں سے گرتے رہے۔ٹینا نے کہنا شروع کردیا مجھے الگ گھر میں رہنا ہے میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔
میں نے بھی سوچا پرانے گھر میں ان کو چھوڑ آتا ہوں وہاں کریانے کی دوکان سے معقول آمدنی بھی اماں کو ملتی رہے گی۔لیکن ٹینا نے کہا ایسا مت وہ دوکان اور گھر بھی اب لاکھوں مالیت کہ ہیں وہ ہمارے بچوں کے کام آئیں گے ۔آپ ان کو اولڈ ہوم چھوڑ آئیں ۔وہاں میں سال کے پیسے بھی جمع کروادیں گے اور اماں جی کا خیال بھی رکھا جائے گا ۔میں پلاننگ کرنا شروع ہوگیا ۔اماں کے سارے احسانات پیار قربانیاں فراموش کرگیا۔
اس دن تو حد ہوگئی ٹینا کی دوست جوکہ بہت بڑے سیاستدان کی بیٹی ہے اماں اس کے سامنے پھر بوسیدہ لباس میں آگئیں۔ٹینا نے رو کر میرا آفس بیٹھنا محال کردیا۔میں گھر آیا اور اماں سے کہا کہ آخر ان کا مسئلہ کیا وہ کیونکہ سوسائٹی میں ہماری بے عزتی کروارہی ہیں ۔جب سب کچھ گھر میں موجود ہے تو وہ اچھا لباس کیوں نہیں پہنتی ۔
بہت سال میں وہ پہلی بار بولیں بیٹا میں اس گھر میں اپنی روٹی حلال کرکے کھاتی ہو تمہارے گھر میں کا کام کرتی ہوں اس کے عوض تمہاری بیوی مجھے کھانا دے دیتی ہے۔لیکن تمہاری لائی حرام کی اترن نہیں پہن سکتی۔یہ سن کر میرا سر وہ گھوما میں نے ان گھسیٹتے ہوئے گھر سے نکالا گاڑی میں دھکیلا اور اولڈ ہوم چھوڑ آیا۔
مجھے کبھی اپنے فیصلے پر ندامت نہیں ہوئی۔چھ ماہ گزر گئے میں نے اپنی ماں کا حال بھی نہیں پوچھا۔ٹی وی دیکھتے ہوئے نظر پڑی مارنگ شو پر پڑی ۔ ہوسٹ ماں کا عالمی دن منا رہی تھی ۔پتہ نہیں کیوں میں نے بھی پروگرام دیکھنا شروع کردیا ۔بہت سی مائیں اپنے بچوں سے گلے شکوے کررہی تھیں ۔آخری کونے میں ایک عورت اپنا منہ ڈوپٹے چھپا رہی تھی۔وہ ہاتھ میں کیسے بھول سکتا وہ بوڑھا نجیف ہاتھ میری ماں کا تھا ایک جلے کا نشان دوسرا اس کے قریب بڑا کالا تل وہ میری ہی ماں تھی بابو کی ماں ۔۔
مارننگ شو میں بیٹھی تمام ماوں نے اپنے بچوں سے بہت گلے شکوے کئے روتی رہیں کچھ تو اپنے بچوں کو بدعائیں بھی دیں ۔اب مائک میری ماں کے آگے تھا میرا دل دھک دھک کرنے لگا میری ماں کیا بولے گی۔ان کا چہرا چادر میں چھپا تھا وہ بولنے لگیں میرا دماغ سن ہورہا تھا دل پھٹ رہا تھا
” میری تربیت میں ہی کھوٹ تھا جو آج میں ایک دارالامان میں موجود ہوں ۔میں اپنے آپ سے شرمندہ ہوں کہ میں اپنی اولاد کی اچھی پرورش نہیں کرسکی قصور وار وہ نہیں ہم ہیں “
میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا سب ماوں نے اپنے بیٹوں کو کوسا بدعائیں دیں صرف میری ماں نے خود کو قصور وار قرار دیا ۔جبکہ قصور ان کی تربیت کا نہیں تھا۔ میرے اندر کے کمپلیکس لالچ اور ہوس نے گھر کرلیا تھا ۔میں نے روتے روتے گاڑی نکالی سارے ملازم مجھے مجھے دیکھتے رہ گئے ۔سگنل پر بھی لوگ مجھے دیکھتے رہے میں روتا روتا اولڈ ہوم پہنچا تو معلوم پڑا ماں نے میرے بھیجے پیسوں کو کبھی ہاتھ میں لگایا وہ یہاں سے بھی کپڑے سیی کر حق حلال کا کھا رہی تھی۔
میں نے ماں کے پاوں پکڑ لئے اپنا سر ان کے پیروں میں رکھ دیا ۔اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگی ۔میری ماں نے کہا رب سے معافی مانگو اسکو راضی کرو۔اس کے بعد میں اپنی ماں کو ساتھ لئے آیا تمام برائیوں سے توبہ کرکے صرف رزق حلال کمانے لگا۔میری بیوی نے شروع میں بہت شور ڈالا لیکن میں نے اس کو صاف کہہ دیا بیوی تو مجھے اور مل جائے گی لیکن ماں نہیں ۔پھر وہ خاموش ہوگئ اور میرے گھر کا سکون لوٹ آیا ۔اب جب بھی میں گھر سے نکلتا ہوں تو ماں کو سلام کرکے اور واپس آتا ہوں تو پہلے ان کا چہرہ دیکھتا ہوں زندگی میں صرف سکون ہی سکون ہے۔اگر آپ بھی کسی ماں کے بابو ہیں اور آپ کی ماں اولڈ ہوم میں ہے تو اس کو واپس لئے آئیں کہیں ایسا نا ہو دنیا میں ملی جنت آپ سے چھین جائے۔
Javeria Siddique is Journalist, Author and Photographer.