پر ظالم ماں نے دیکھنا بھی پسند نہیں کیا کیونکہ اس کے سفاک باپ نے جو اسکو اپنایا نہیں ۔پھر اسکو ایک رازدار شخص کے حوالے کردیا گیا یا وہ ماں باپ میں سے خود کوئی ایک تھا جوکہ اس کو گلستان جوہر کراچی میں پھینک گیا۔پھینکنے سے پہلے اس پر تشدد کیا گیا اس کی ہڈیاں تک توڑ دی گئ۔ننھی بہت بلک بلک کر روئی ہوگی دودھ مانگتی رہی ہوگی، ماں کی گرم آغوش مانگ رہی ہوگی، باپ کی شفقت کے لئے تڑپتی ہوگی لیکن اسکو ویرانے میں مرنے کے لیے پھینک دیا گیا ۔
ننھی کا دل ضرور ضرور سے دھڑک رہا ہوگا کہ یہ کیا ہوا ماں کی کوکھ اور یہ زمیں و آسمان دونوں میرے لئے تنگ کیوں کردئے گئے ۔بہت روئی ہوگی مدد کے لئے پکارتی رہی ہوگی لیکن کوئی انسان نہیں آیا ۔وہ تین گھنٹے کی ننھی پاکستانی بے لباس کچرے میں پڑی رہی فرش سے عرش کانپ گیا انسانیت شرما گی لیکن انسانوں کو شرم نہیں آئی ۔
بہت سارے کتے اس کے گرد جمع ہوگئے ۔اسکو سمجھ نہیں آرہا ہوگا انسان زیادہ خطرناک ہیں یا یہ کتے ۔اسکو کتے نوچتے گئے۔وہ صرف تین گھنٹے کی تھی کتنی مزاحمت کرتی سانس اکھڑنے لگی کہ اچانک ایک فرشتہ صفت انسان منہاس احمد نے اسکو ان کتوں کی چنگل سے آزاد کروایا ۔یہ اس کی زندگی کا پہلا اور آخری محبت بھرا لمس تھا جوکہ اس نے محسوس کیا ہوگا۔منہاس احمد ننھی کے لئے فکر مند تھا اس نے ننھی پاکستانی کو وقت ضائع کئے بنا چھیپا ویلفیئر ٹرسٹ کے حوالے کیا اور وہ اسے لےکر ہسپتال پہنچے۔ڈاکٹر ابراہیم بخاری نے اس معصوم کے زخم صاف کئے نرم بستر پر لٹایا اس کی جان بچانے کی پوری کوشش کی ۔ننھی پاکستانی بہت بہادر تھی موت سے بہت دیر لڑتی رہی لیکن ہوس زدہ معاشرے کے انسانوں نے اس کی روح اور کتوں نے اس کے گوشت اور ہڈیوں کو بھنبھوڑ کررکھ دیا تھا ۔اس کی سانس اکھڑنے لگی اور زندگی کے بارہویں گھنٹے میں وہ دم توڑ گئ۔
یہ ہمارے معاشرے کی حقیقت ہے یہ پاکستان کی حقیقت ہے۔۔ ایک ماں یا باپ بچی کو ویرانے میں کیوں پھینک گئے تھے اس سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ بچی بغیر نکاح کے پیدا ہوئی ہوگی ۔یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے کیا واقعی ہی اس ریاست میں لوگوں کو مذہب اور قوانین سے کوئی سروکار نہیں ۔کیا لوگ واقعی ہی یہاں یہ نہیں جانتے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔بنا نکاح کے ازدواجی تعلقات رکھنے میں لوگوں کو اخلاقیات اور مذہبی قوانین نہیں یاد آتے ۔لیکن ان ہی ناجائز تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا معصوم بچہ سب کو ناجائز گناہ گار لگنے لگتا ہے۔
کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کیا معلوم کہ ماں باپ نے غربت کی وجہ سے ایسا کیا ہو یا انہیں بیٹیوں سے نفرت ہو ۔نہیں اگر اس معصوم کے سفاک ماں باپ کے دل میں چور نا ہوتا تو وہ بچہ ایدھی ہوم کے جھولے میں ڈال آتے ۔پاکستان کے تمام ایدھی ہومز میں جھولے موجود ہیں جن پر یہ لکھا ہے بچے قتل نا کریں ہمارے جھولے میں ڈال دیں ۔لیکن ایسا نہیں ہوا اور ننھی پاکستانی کو ویرانے میں موت کے حوالے کردیا گیا ۔
ننھی پاکستانی کا سفاک قتل پورے معاشرے کے منہ پر طمانچہ جوکہ کبھی تعلیم تو کبھی کرئیر تو کبھی فرسودہ رسومات کی وجہ سے نکاح میں تاخیر ڈالتا ہے۔لوگ شادی کرنے کو مشکل اور افیر چلانے کو آسان سمجھنے لگے ہیں ۔اس کے ذمہ دار والدین معاشرہ اور حکومت سب ہی ہیں ۔
متوسط طبقے کی کہ بیٹیاں جہیز نا ہونے کی وجہ سے بیٹھی رہی جاتی ہیں ۔تو کسی ماں باپ کو نوجوان اولاد کے صرف کیرئیر کی فکر ہے ان کی فطری تقاضوں سے جان بوجھ کی نظر چرائی جاتی ہے ۔یوں ناجائز تعلقات جنم لیتے ہیں اور ماں باپ کو پتہ چلنے تک بات ہاتھ سے نکل گئی ہوتی ہے۔یوں بہت سے معصوم پھول بنا کھلے مرجھا جاتے ہیں تو معاشرے سے سوال کرتے ہیں کہ نکاح کو کیوں نہیں آسان بنا دیتے ۔ہیش ٹیگ ویڈنگز کے دور میں یہ ممکن نظر نہیں آرہا اگر اس ہی طرح شادی کے نام پر پندرہ بیس دن کی تقریبات ہوتی رہیں ۔جہیز پر پابندی نہیں لگی۔اٹھارہ سے بیس سال کی عمر میں نکاح کو عام نہیں کیا گیا تو اور ننھے بے قصور پاکستانی اس ہی طرح قتل ہوتے رہیں گے۔اس ننھی پاکستانی کا قتل پورے معاشرے پر ہے اور قیامت کے دن ہم سب کو جواب دینا ہوگا ۔جہاں معاشرے میں ننھی پاکستانی کے والدین جیسے لوگ بھی موجود ہیں وہاں دوسری طرف رمضان چھیپا، منہاس احمد اور ڈاکٹر ابراہیم بخاری جیسے نیک دل اور اعلی اوصاف کے لوگ بھی جن کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں انسانیت زندہ ہے ۔ان تینوں کو سلام ۔
جویریہ صدیق صحافی مصنفہ اور فوٹوگرافر ہیں اور ان کا ٹویٹر اکاونٹ @javerias ہے
Heart touching
LikeLike
in the name of religion what could be next thing after kill the baby… 😦
LikeLike
GOOD POST
LikeLike
Read it with broken heart and wet eyes . its the cruel reality of our society .
LikeLike