Posted in Army, media, Pakistan

میڈیا ، سیلف سنسر شپ اور جبری برطرفیاں

میڈیا ، سیلف سنسر شپ اور جبری برطرفیاں

جویریہ صدیق

20181018_205310

اسلام آباد:

 سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد جب میں نے شہدا پر کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا تو اندر ایک خوف تھا کہ کسی دن کوئی دیو قامت اہلکار گھر کا داخلی دروازہ توڑتے ہوئے آئیں گے اور میری گردن پر بوٹ رکھ کر مسودہ لے جائیں گے ۔انٹرویو کے دوران میں اکثر کہتی رہی کہ یہ مضامین دسمبر 2015 میں شائع ہوں گے لیکن کتاب کا تذکرہ کھل کر کسی سے نہیں کررہی تھی ۔کتاب کا ایک حرف حرف خود ٹائپ کیا۔ انگلیاں آنکھیں درد کرنے لگتیں لیکن بس یہ خوف طاری تھا بات باہر نکلی تو کتاب نہیں چھپ پائے گئ ۔کتاب بہت مشکل سے مکمل ہوئی کیونکہ جتنے لوگ اسلام آباد اور پشاور سے سانحہ کور کررہے تھے انہوں نے ایک نمبر تک شئیر کرنا گوارا نہیں کیا۔میں اپنی مدد آپ کے تحت پہلے خاندان تک پہنچی اور اسکے کے بعد ایک ایک کرکے بیشتر خاندان رابطے میں آگئے۔کتاب میں صرف یاداشتیں ہیں شائع ہوئی میں نے لواحقین کو تحفے میں دی اور کہا اتنی محنت میں نے کسی مقبولیت یا پیسے کمانے کے لئے نہیں کی ۔یہ میری طرف سے شہدا کے خاندانوں کے لئے ایک تحفہ ہے جس میں تمام شہدا کی تفصیل درج ہے اور انکی تصاویر شامل ہیں تاکہ تاریخ انہیں ہمیشہ یاد رکھے ۔

کتاب شائع ہوئے 3 سال ہوگئے لیکن مجھے کسی قسم کی دھمکی یا سنسر شپ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔کیونکہ وقت کے ساتھ حالات بدل بہت حد تک بدل گئے۔ضیاء دور ہماری نسل نے نہیں دیکھا سنا ہے اس دور میں بہت مظالم ہوئے بولنے کی آزادی نہیں تھی۔نواز شریف اور بے نظیر کے دو ادوار ہماری نسل کے بچپن کا دور تھا اس وقت سرکاری میڈیا، این ٹی ایم ، ریڈیو پاکستان، ایف ایم ون او ون ،ون ہنڈرڈ ، کارٹون نیٹ ورک  اور کچھ اخبارات اور رسالے شائع ہوتے تھے۔جس وقت پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو سب لوگ بہت ڈرے ہوئے تھے کہ پرویز مشرف بولنے لکھنے کی آزادی چھین لیں گے۔ان کے دور میں 3 نومبر کی ایمرجنسی اور میڈیا پر بندش رہی لیکن پرائیوٹ میڈیا کو آواز دینے کا سہرا بھی اس ہی آمر پرویز مشرف کو جاتا ہے۔۔

جس وقت میں نے اے ٹی وی پارلیمنٹ ڈائری کی میزبان کے طور پر جوائن کیا تو پی پی پی اقتدار میں آچکی تھی۔اس زمانے میں روز میڈیا کی عدالت لگتی تھی روز پی پی پی کا میڈیا ٹرائل ہوتا تھا اور وہ خندہ پیشانی سے اس سب کا سامنا کرتے رہے ۔کبھی کسی چینل اینکر یا رپورٹر کا بائیکاٹ نہیں کیا۔5 سال میڈیا ٹرائل اور عدالتی میڈیا کے ساتھ وہ مدت پوری گئے اور اگلی باری آئی مسلم لیگ ن کی ۔آمریت کی گود سے جنم لینے والی جماعت میڈیا کو کنٹرول کرنا بخوبی جانتی تھی۔اقتدار میں آتے ہی تنقیدی چینلز کے اشتہارات بند کردیے اور چینلز کا بائیکاٹ کردیا۔اپنے ناپسندیدہ اینکرز کو بین کرنے کے لئے ہزار جتن کئے۔دوسری طرف پی ٹی آئی نے دھرنے کےدوران مخالف میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیا ۔پرائیوٹ میڈیا بھی بالغ اور منہ زور ہوگیا اور کسی کے ہاتھ نہیں آرہا تھا۔دو ہزار چودہ کے بعد ہم نے میڈیا کے رنگ ڈھنگ بھی بدلتے دیکھے لیڈران کی نجی زندگی پر حملے ، ان کی شادیوں کی تاریخوں کا اعلان ازخود کیا جانے لگا ، کچھ کالم نگار بلاگرز ٹی وی چینلز  صحافی اینکرز پانامہ سکینڈل کے بعد باقاعدہ طور پر مسلم لیگ کے حصے کی مانند ان کے لئے مہم کرنے لگے کہ شریف خاندان بے قصور ہے ۔یہ دفاع اتنے روز و شور سے کیا جانے لگا کہ اصلی کارکنوں اور صحافیوں میں تفریق مشکل ہو گئ ۔نواز شریف دور میں من پسند چینلز پر اشتہارات کی بارش کردی گئ۔اپنے من پسند صحافیوں میں بھاری تنخواہوں کے ساتھ عہدے بانٹ دئے گئے اور یوں جمہوریت کے نام پر کرپشن کا دفاع شروع ہوگیا۔

ن لیگ کے متوالوں نے پانامہ کا ملبہ بھی آرمی آئی ایس آئی پر ڈالنے کی کوشش کی۔ جب اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو توپوں کا رخ عدلیہ کی طرف کردیا اور معزز ججوں کو متنازعہ کرنے کی کوشش کی گئ تاہم پاکستان کی عدلیہ نے تمام تر منفی مہم کے باوجود تاریخ ساز فیصلہ دیا ۔

میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز شریف  کے جیل جانے  کے بعد درباری میڈیا اور سوشل میڈیا ٹیم وقتی طور پر خاموش ہوگے ۔تاہم سوشل میڈیا پر درباری قلم نگار ،قومی سلامتی، فوج ، عدلیہ اور آئی ایس آئی کے خلاف ٹویٹس کرتے رہے ۔انکا صبح سے شام تک صرف ایک کام ہے وہ ہے کہ پاکستان کو عالمی دنیا کے سامنے متنازعہ کرنا ہے۔صبح سے شام تک یہ صرف منفی پہلو اجاگر کرتے ہیں جب کچھ نا ملے تو فوٹو شاپ تصاویر کے ساتھ کہانی گھڑ لیتے ہیں۔جب کہ پاکستان کا کوئی کھلاڑی تمغہ لے آئے کوئی پاکستانی عالمی ریکارڈ بنا لے تو ان دانشوروں کو لقوا مار جاتا ہے۔ 

آج کل مارکیٹ میں ایک اور سستا انقلابی نعرہ سامنے آیا وہ ہے سیلف سنسر شپ ۔یہ سب شروع کہاں سے ہوا جب کچھ آزاد پختونستان کا نعرہ لگانے والو نے نقیب محسود کے قتل کو اپنے عزائم اور مردہ سیاست میں روح پھونکے کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ۔پاکستان مخالف اور آرمی مخالف تقاریر شروع کردی گئ ۔اس پر کچھ صحافیوں نے فوری طور پر اس فتنے کا ساتھ دینا شروع کیا یہاں سے یہ نیا لفظ ایجاد ہوا سیلف سنسر شپ ۔اگر آپ کے ایڈیٹر کا ضمیر زندہ ہے اور وہ آپ پاکستان مخالف آرٹیکل شائع کرنے سے روک دیتا ہے یا آپ کا کرپشن کی حمایت میں لکھا مضمون اسکو صحافت کے اصولوں کے منافی لگتا ہے تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ کا آرٹیکل ردی کی ٹوکری میں چلا جاتا ہے۔

سنسر شپ پر میڈیا کے کچھ بڑے اتنا بول رہے ہیں کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی ۔ سنسر شپ بھی ایک کونے میں کانوں میں انگلیاں ٹھوس کر کہتی ہے دھیمابولو ، پہلے تولو پھر بولو اور کم ازکم سچ تو بولو ۔

اس وقت میڈیا ورکرز کے اوپر جو سب سے بڑی تلوار لٹک رہی ہے وہ میڈیا کے اندر سے ہی ہے باہر سے نہیں۔آپ کو کیا لگا سیلف سنسر شپ ان کے لئے سب سے بڑا خطرہ  ہے نا نا یہ تو باتیں آزادی صحافت کے تمغے لینے وغیرہ کے لئے پھیلائی جاتی ہیں ۔اصل سنسر شپ تو اس بات پر ہے کہ میڈیا میں اپنے ادارے میں جاری میڈیا ورکرز کے استحصال پر کچھ نا بولو۔آپ ٹویٹر کے کسی بھی صحافی دانشور کی ٹائم لائن پر اس سے مختلف میڈیا کے اداروں میں تنخواہ میں تاخیر اور جبری برطرفیوں کے حوالے سے سوال کریں وہ آپ کو جواب نہیں دیے گا لیکن ویسے وہ دانشور سارا دن مگرمچھ کے آنسو بہائے گا۔ 

اکثر یہ ہی میڈیا کے بڑے منٹوں میں مڈ کرئیر جونیئرز کو ادارے سے یہ کہہ کر نکلوا دیتے ہیں کہ یہ نکما ہے جبکہ وہ محنتی کارکن ہوتا ہے بس ان کچھ بڑوں کو انکی شکل پسند نہیں ہوتی ۔پھرمقافات عمل ہوتا ہے جب ان بڑوں

کومالکان کم ریٹنگ اور سفید ہاتھی ہونے پر نکال دیتے ہیں تو یہ مگرمچھ کے آنسو بہائے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت پسند ہیں نا اس لئے ہمیں نوکری سے نکال دیا ۔جبکے ان کچھ بڑوں کو آپ نے اداروں میں دیکھیں تو ان سے بڑا مطلعق العنان کوئی نہیں ۔

عام میڈیا ورکرز کی بات کی جائے تو میڈیا میں کوئی جاب سیکورٹی نہیں جب کسی بڑے کا دل کرے وہ چھوٹے کو لات مار کر باہر کردے گا۔بیورو میں جھاڑو پھیر کر محنتی رپورٹرز کو فالتو سامان کی طرح باہر کردیا جاتا ہےتب جمہوریت یا آزادی صحافت خطرے میں نہیں آتی۔خاتون اینکر شادی کرلے یا حاملہ ہوجائے اس نوکری خطرے کی زد میں آجاتی ایچ آر کے مطابق موٹی لڑکی کا بھلا ٹی وی پر کیا کام ؟۔جو بیچاری نوکری بچا بھی لے اسکا بچہ گھر میں اسکے بنا تڑپتا ہے کیونکہ بہت سے دفاتر میں نرسری نام کی چیز نہیں ۔اکثر سفارشیوں کی چاندی ہوجاتی اور محنتی لوگ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔جاب کے تو کوئی ٹائمنگ نہیں کہا جاتا ہے کہ آپ میڈیا میں ہوکر نو سے پانچ والی جاب چاہتے ہو ایسا تو ممکن نہیں۔پر جب سیلری کی بات آئے وہ فکسڈ رہتی ہے رپورٹر کیمرہ مین میڈیا ورکر اس امید پر بوڑھا ہوجاتا کہ شاید اب اسکی سیلری میں ایک صفر بڑھ جائے ایسا بمشکل ہوتا ہے بلکے ناممکن ہے۔

میڈیا کو حکومت سے بڑی بڑی رقوم اشتہارات کی مد میں ملتی رہیں لیکن تنخواہ کی بات کریں تو حالات بہت خراب ہیں آپ اپنی تنخواہ کیوں مانگ رہے ہیں زیادہ مسئلہ ہے تو دوسری جگہ چلے جائیں ورکرز خاموش ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے یہ نوکری گئ تو دوسری نہیں ملے گئ ۔نئ جاب اوپنگز تو آتی ہی نہیں ہر سال نئے گریجویٹس انٹرن شپ کے نام پر بیگار کی طرح کام کرتے ہیں اور آخر میں ادارے کی طرف سے ملنے والے سرٹیفکیٹ کو لے کر گھر بیٹھ جاتے ہیں ۔میڈیا میں کوئی معاشی بحران نہیں ہے۔

بس میڈیا مارکیٹ میں بہت سے چینلز آگئے اکثر نئے ٹی وی لانچ ہوکر فلاپ ہوجاتے ہیں بڑے ناموں کی وجہ سے چھوٹے بھی ادھر کا رخ کرتے ہیں ۔پر ہوتا کیا ہے بڑے صحافی فوری طور “اصولی” موقف اپناتے ہوئے ڈیل اور یوٹرن مار جاتے اور چھوٹے دربدر ہوجاتے ہیں نا نئے دفتر جوگے رہتے ہیں نا پرانے میں جانے کی جگہ ملتی ہے ۔بہت سے میڈیا ورکرز کو چھٹی نہیں ملتی، میڈیکل نہیں ملتا، فیول نہیں ملتا، تنخواہ نہیں ملتی لیکن پھر بھی میڈیا ورکر اس انڈسٹری کو اپنے پتھر باندھے پیٹ اور کمزور کندھوں پر لے کر چل رہا ہے ۔اس سب پر وہ لوگ کیوں نہیں کچھ بولتے جو اس ملک میں آزادی صحافت کے چمپیئن بنے پھر رہے انہوں نے خود پر کیا سیلف سنسر شپ عائد کرلی ہے کہ صحافی بھائی کے لئے تو نہیں بولنا۔ ویسے تو بہت بولتے ہیں اتنا بولتے ہیں کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی سیاسی لیڈر کی چپل چادر بیگ آنسو چشمے مسکراہٹ لباس ہر چیز پر بولتے ہیں لیکن بس صحافی کے لئے نہیں بولتے۔میڈیا میں، سنسر شپ، تنخواہوں میں تاخیر اور جبری برطرفیوں کی زمہ دار حکومت، آرمی اور آئی ایس آئی نہیں خود میڈیا مالکان ، انتظامیہ ،اور میڈیا کے بڑے ہیں ۔ میڈیا کے درد کا مداوا کون کرے گا جب پی ایف یو جے خود تین حصوں میں تقسیم ہوچکی ہو۔جب صحافی خود جھوٹ بولیں کہ انہیں جمہوریت کا ساتھ دینے پر نکال دیا گیا جبکہ اصل وجہ یہ ہوکہ سیٹھ یا مالکن کو اپنا کاروباری مفاد عزیز ہو۔ وہ ادارے میں ڈوان سایزنگ کرے اور الزام آپ ایجنسی پر لگا دیں یہ تو صحافتی بددیانتی ہے۔میڈیا کے حالات خراب نہیں حالات صحافیوں کے خراب ہیں انہیں چاہیے کہ سچ بولیں اور میڈیا کی سیاست کو عیاں کر دیں ۔
ہر چیز کی زمہ داری فوج پر ڈال معاملات حل نہیں ہوگے مسئلے کا حل اپنی صفوں میں تلاش کریں۔

Posted in Pakistan, social media

دیسی لبرل کے خدوخال

تحریر جویریہ صدیق 

https://twitter.com/javerias

 

دیسی لبرل کے خدوخال

آج ہم جعلی سستے دیسی لبرلز کے خدوخال پر روشنی ڈالیں گے۔یہ لوگ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں اور کیا چاہتے ہیں اس پر تفصیل سے بات ہوگی ۔

دیسی لبرل گورا کمپلکس کا مارا ہوا ہے اسکو اندر ہی اندر اپنے ماں باپ اور گندمی رنگت پر شدید غصہ ہے ۔رنگ تو خیر فیر اینڈ لوولی سے گورا کرلیتے ہیں لیکن شناحت تبدیل کرنا قدرے مشکل کام ہے اس کے لئے لباس بول چال اور نک نیم رکھ کر کام چلایا جاتا ہے رب نواز ، کریم بخش، درخشاں ،عابدہ سے پومی موتی سونی سویٹی بن جاتے ہیں ۔

اس کے بعد پاکستان میں غریبوں کے ساتھ تصاویر بنانے کا سلسلہ شروع ہوتا بار بار سوشل میڈیا پر بولتے ہیں او گاڈ پاکستان کیوں بنایا اس کےلئے کہ لوگ یہاں غریب ہو۔پاکستان بھارت اگر ایک ملک ہوتا تو ان کے ساتھ یہ سب نا ہوتا ۔غریب عوام کے ساتھ تصاویر سوشل میڈیا پر لگا کر خود کو سماجی کارکن کہا جاتا ہے ۔

اگلے ٹرپ میں دیسی لبرل ان غریب عوام کے لئے کچھ پرانے کپڑے اور سستے برانڈ کے جوس بانٹ کر تصاویر ڈونرز کو بھیج دیتے ہیں انکے نام پر امداد بھی سمیٹ لیتے ہیں ایوارڈ بھی اور فارن ٹرپ بھی۔

کچھ لوگ جنہیں کہیں سے بھی توجہ نہیں مل رہی ہوتی وہ یکدم بہت ساری فوٹو شاپ تصاویر اٹھا کر سوشل میڈیا پر بین ڈال دیتے ہیں دیکھو بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں زیادتی ہورہی ہے۔نیچے لوگ آکر اصلی تصاویر بھی لگا دیں لیکن یہ جھوٹا پروپیگنڈا پورے زور سے کرتے ہیں پھر آپ کچھ عرصے بعد دیکھتے ہیں کہ لوکیشن میں یورپ یا امریکا لکھا نظر آتا ہے۔

دیسی لبرل صبح شام فوج اور آئی ایس آئی کا ورد کرتے ہیں ان کا دودھ والا دودھ میں پانی ملائے یا انکے گھر کی چھت ٹپکنے لگے اس کا الزام فوری طور پر فوج پر لگ جاتا ہے۔ان میں سے کوئی دیسی لبرل دو دن ٹویٹ نا کرے تو شور ڈالتے ہیں کہ فلاں سماجی کارکن اغواء ہوگیا چاہیے وہ کسی مشروب کے زیر اثر مست پڑا ہو۔

یاد رکھیں سارے دیسی لبرل اپنی زات میں دانشور، کالم نگار،سماجی کارکن اور آزادی رائے کے چمپین ہیں خودساختہ D : لیکن اگر آپ ان کے ساتھ بحث کریں تو یہ علاقائی زبانوں کی گالیوں کا کھلا استعمال کریں گے اور اگر آپ جواب دیں تو یہ انگریزی میں رپلائی لکھ کر دس اداروں اور سفارت خانوں کو ٹیگ کرکے کہیں گے یہ دہشت گرد مجھے دھمکا رہا ہے۔

دیسی لبرل جب تک ملک میں ہوتا تو صرف فوج عدلیہ کے خلاف ہوتا ہے لیکن جیسے ہی باہر نوکری ویزا یا اسائلیم مل جائے جائے تو اس کے منہ سے جھاگ نکالنا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ مذہب کو متنازع کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔

20181017_041421

دوران بحث دیسی لبرل کی یادگار تصویر

دیسی لبرل ہر حکومت کا ہم نوالہ ہم پیالہ بن جاتا اور کرپشن کو کھل کر سپورٹ کرتا ہے۔ان کے نزدیک آمریت کی کرپشن حرام ہے اور جہموریت کی کرپشن حلال ہے۔

ہر دیسی لبرل کی کوئی نا کوئی تنظیم یا این جی او ضرور ہوتی ہے جس سے وہ صرف پاکستان کے منفی پہلو سامنے لے کر آتا ہے۔لنڈے کا لبرل پاکستان کی اکثریت کو دہشتگرد گردانتا ہے اور اقلیت کے مسایل کو اپنے فواید کے لیے استعمال کرتا ہے۔حادثات اور سانحات کی صورت میں انہیں لسانی اور فرقہ وارنہ رنگ دینے کہ کوشش کرتا ہے

دیسی لبرل پاکستان دشمنوں کو کھل کر سپورٹ کرتا ہے اور پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ 

ملک کے لئے کسی اچھے کام آغاز ہو یہ اسکے مخالف بن جاتے ہیں حال میں ہم نے دیکھا کہ یہ کالا باغ ڈیم کے بعد دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے بھی مخالف بن گئے ۔آرٹیکل لکھ رہے ہیں ٹویٹس کررہے ہیں بال نوچ رہے ہیں ڈیم مت بناو ۔یہاں تک درخت لگانے تک کے مخالف ہوگئے ۔

اگر کسی پرو پاکستانی صحافی کو مشکل پیش آئے تو دیسی لبرل منہ پر ٹیپ لگا لیتے ہیں لیکن کسی آوارہ اور پاکستان مخالف ٹرول کو کانٹا بھی چبھ جائے تو کرہ ارض کے ہر بڑے اخبار کی  سرخی لگ جاتی ہے اس فسادی کو  کالم نگار اور آزادی کا متوالا بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔

ایک طرف جعلی لبرلز اور دیسی فیمنسٹ کہتی ہیں ہمارا جسم ہماری مرضی دوسری طرف خاتون اول کے پردے کا مذاق اڑاتی ہیں۔‏طنز و مزاح کے نام پر دیسی لبرلز کے پاس ہر کسی کا مذاق اڑانے کا لائسنس ہے اور اگر کوئی انہیں کوئی جواب دے تو می ٹو ہوجاتاہے اور آزادی صحافت خطرے میں آجاتی ہے ۔

‏دوسرے ملکوں کی شہریت لے کر بیٹھے ہوئے جعلی لبرل پاکستان کے خلاف دن رات ٹویٹ کرسکتے ہیں لیکن اسلام آباد کراچی میں بیٹھے لوگ ملکی معاملات پر بات نا کریں ۔ 

رینٹ اے لبرل اور لنڈے کے دانشور یہ وقت کے ساتھ وفاداری بدل لیتے ہیں اور اپنی منافقانہ صلاحیتوں  اور خوشامدی رویے  سے آہستہ ٓاہستہ اپنے لئے  جگہ بنا لیتے ہیں ان کا نعرہ ہے

۔مجھے ڈالر دکھا اور پاکستان کے خلاف لکھوا ۔

رینٹ اے لبرل مافیا ‏ کو پاکستان کی اساس دو قومی نظریہ سے اختلاف ہے انہیں آئین کی اسلامی شقوں سے اختلاف ہے۔اتنے خونی لبرل آپ نے دنیا میں نہیں دیکھے ہوگے جتنے پاکستان میں ہیں اور  اصلی بھی نہیں دو نمبر ۔

پاکستانی جعلی دیسی لبرل جب اپنے ماں باپ کے گھر پیدا ہوا تو نرس نے افسوس سے کہا آپ کے گھر دھوکے بازی اور غداری  پیدا ہوئی ہے 

Posted in kashmir, Pakistan

زلزلہ اور نقشہ بی بی

جویریہ صدیق 

14 oct 2015 

https://twitter.com/javerias

IMG_20181008_121120

10اکتوبر2005  صبح کے آٹھ بج کر پچاس منٹ کو کوئی پاکستانی نہیں بھول سکتا.یہ تاریخ پلک جھپکتے میں سینکڑوں پاکستانیوں کی زندگی بدل گئ.زلزلے کے جھٹکے ہزاروں انسانوں کے خوابوں کو چکنا چور کرگیے. زندگی بھر کی کمائی جمع کرکےمحبت سے بنائے گھر منٹوں میں زمین بوس ہوگئے.علم حاصل کرنے والے بچے اپنی درس گاہوں میں کنکریٹ کے ملبے تلے دب گئے.اس قیامت خیز زلزلے میں چھیاسی ہزار سے زاید افراد جان بحق ہوئے اور پچھتر ہزار کے قریب زخمی ہوئے.اسلام آباد سے لے کر مظفرآباد ہر طرف پاکستانی نڈھال  اور زخموں سے چور تھے.سب سے زیادہ نقصان آزاد کشمیر میں ہوا. ہر طرف تباہی اور ملبہ جب تک امدادی کارکن کراچی لاہور اسلام آباد سے پہنچے بہت سے لوگ اپنی زندگی ہار چکے تھے.پاک آرمی نے زخمیوں کو ریسکیو کرکے ملک کے دیگر ہسپتالوں میں منتقل کرنا شروع کیا.ریسکو کے بعد ریلیف کا شروع ہوا.عالمی ادارے اور دوست ممالک کی امدادی اور طبی ٹیمز بھی پاکستان پہنچ گئی.

unnamed (1) (1)
ریسکیو اور ریلیف کے دوران اللہ نے اپنا معجزہ دیکھایا اور زلزلے کے 63 روز گزر جانے کے بعد ایک خاتون کو ملبے میں سے زندہ نکالا گیا . چالیس سالہ نقشہ بی بی زلزلے کے دوران اپنے کچن کے ملبے تلے دب گئ.اس کے رشتہ دار یہ سمجھتے رہے کہ وہ یا تو جاں بحق ہوگی ہے یا پھر کسی ریلیف کیمپ میں ہے.لیکن رشتہ داروں کو نقشہ ملبہ اٹھاتے وقت کچن سے ملی.وہ پہلے یہ سمجھے کہ وہ مر چکی ہے لیکن نقشہ نے جب آنکھیں کھولی تو سب حیران رہ گئے.نقشہ کو پہلے مظفرآباد منقل کیا گیا.اس کے بعد انہیں اسلام آباد پمز منتقل کردیا گیا.
نقشہ اتنے دن اکیلی بھوکی پیاسی ملبے تلے دبی رہی ڈاکٹرز کے مطابق اس ساری صورتحال نے اس کے اعصاب اور ذہنی صحت پر برا اثر ڈالا.کتنا عرصہ نقشہ کو ڈراپ پر اور مائع خوراک پر رکھا گیا کیونکہ وہ کھانے پینے سے قاصر تھی.اس کا وزن صرف پینتس کلو رہ گیا تھا.وہ چلنے پھرنے کے بھی قابل نا تھی. اتنا عرصہ ملبے میں رہنے کی وجہ سے اس کی بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کیا.ڈاکٹرز کی انتھک محنت کے بعد نقشہ نے اپنی بات اشاروں میں سمجھانا شروع کردی اور چلنا بھی شروع کردیا.

DSC_0628 (1)
پر افسوس نقشہ کے زیادہ تر رشتہ دار اس سانحے میں چل بسے تھے. بوڑھے باپ جس کی ٹانگ زلزلے کے بعد ڈاکٹرز نے اس کی جان بچانے کی خاطر کاٹ دی تھی اور غریب بھائی نے اس کی دماغی صحت کی خرابی کی بنا پر اس کو اپنانے سے انکار کردیا. چلا بانڈے میں وہ خود کیمپ میں مقیم تھے اور نقشہ کی کفالت کے قابل نہیں تھے.میری نقشہ سے پہلی ملاقات ہسپتال میں ہوئی اور دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب ان کو اسلام آباد ایدھی ہوم منتقل کردیا گیا.میرا جب بھی ایدھی ہوم جانا ہوتا تو نقشہ سے ملاقات ہوتی صاف ستھرے کپڑوں میں نقشہ خود چل پھر سکتی تھی اپنے ہاتھ سے کھانا بھی کہا لیتی لیکن وہ نا ہی وہ کسی بات کو سمجھ پاتی اور نا ہی جواب دیے پاتی.
دوہزار پندرہ مارچ تک نقشہ ایدھی ہوم میں رہی .دو ہزار پندرہ آٹھ اکتوبر کو جب زلزلے کو دس سال مکمل ہوگئے تو مجھے نقشہ کی یاد ستائی .لیکن ایدھی ہوم جاکر مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ جب میں نے نقشہ سے ملنا چاہا تو پتہ چلا.نقشہ تو یہاں سے چلی گئ.میں نے انچارج ایدھی ہوم شکیل احمد سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ نقشہ کو ملتان ایدھی ہوم بھیج دیا گیا.کیونکہ اس صحت گرتی جارہی ہے وہ سردی برداشت نہیں کرسکتی.
اب نقشہ کو ملتان میں ڈھونڈنا ایک مسلہ تھا میں نے ٹویٹر پر ملتان کے ٹویٹر صارف سے درخواست کی مجھے نقشہ بی بی کا پتہ معلوم کرکے دیں.بہت دن کی کوشش کی بعد بالآخر 13 اکتوبر کو نقشہ مل گئ.نقشہ کا خیال تو رکھا جارہا ہے لیکن وہ اندر سے بلکل ٹوٹ چکی ہے.پہلے جو کبھی وہ مسکرا دیتی تھی اب وہ نا ہی مسکراتی ہے نا ہی کوئی رسپانس دیتی ہے. 6 سال سے وہ اپنے کسی رشتہ دار سے نہیں ملی. اب ایدھی ہوم ہی اس کا گھر ہے اور یہاں کہ رہنے والے اس کے رشتہ دار ہیں.
اگر اس وقت کی حکومت زلزلہ زدگان کی مکمل بحالی کردیتی تو آج نقشہ اپنے پیاروں کے ساتھ ہوتی.  آٹھ اکتوبر کو بہت سے پیکج چلے نیوز آئیں پروگرام نشر ہوئے پر سب نقشہ کو فراموش کرگیے. شاید یہ تحریر پڑھ کر بہت سی مارننگ اور ایونگ شو کے اینکرز  نقشہ کے پاس پہنچ جائیں گے اس کا کرب دیکھا کر ریٹنگ بڑھانے کی کوشش کریں گے.پر یہ مسلہ کا حل نہیں ہے اگر نقشہ کے گھر والوں کی مکمل بحالی کردی جاتی اور مظفرآباد میں ہی ہسپتال سے اسے مفت طبی علاج معالجے کی سہولت تاحیات فراہم کردی جاتی .تو آج نقشہ اپنے پیاروں کے ساتھ مختلف زندگی گزار رہی ہوتی.
ایدھی ہوم ایک ایسا فلاحی ادارہ ہے جہاں لاکھوں لوگ پناہ لئے ہوئے ہیں.عبد الستار ایدھی اور بلقیس ایدھی نے کبھی اپنے فلاحی ادارے کو اپنی ذاتی تشہیر کے لئے استعمال نہیں کیا.چپ کرکے یہ دونوں عظیم شخصیت  اور ایدھی ہوم سے منسلک افراد خدمت خلق میں مصروف ہیں.ہر ہفتے نقشہ کا طبیمعائنہ ہوتا ہے ایک مددگار اس کو چلنے پھیرنے میں مدد دیتی ہے.اس کو کھانا کھلاتی ہے.میں سوچتی ہوں اگر حکومت زلزلہ متاثرین کی آبادکاری مکمل طور پر کردیتی تو آج نقشہ شاید ایک خوش گوار زندگی گزار رہی ہوتی.نقشہ آج بھی خلاؤں میں کچھ ڈھونڈتی رہتی ہے شاید زلزلے سے پہلے کے دن یاد کرتی ہوگی.
نقشہ کو دیکھ کر آٹھ اکتوبر کے وہ تمام درد یاد آجاتے ہیں  .اس  کے چہرے پر  آٹھ اکتوبر کا کرب دائمی طور پر نقش ہوگیا ہے. آٹھ کتوبر 2005 کو کس طرح لوگ ملبے تلے دبے مدد کے لئے پکار رہے تھے اور ہمارے ادارے ناکافی مشینری کے باعث انہیں نا بچا سکے.آج بھی صورتحال یہ ہی ہے کہیں آگ لگ جاتی کہیں چھت گر جاتئ ہے تو بھی ہمارے ریسکیو کی مشنری نا کافی ہے اور لوگ سسک سسک کر مرجاتے ہیں. ہماری حکومت اور اپوزیشن کی ترجیحات پر لوگوں کے لئے صحت عامہ کی سہولیات باعزت روزگار  مفت تعلیم اور سر چھپانے کے لئے ایک چھت مہیا کرنا کب آئے گا  کچھ معلوم نہیں. نقشہ کو زلزلہ تو نا مار سکا لیکن ہمارے معاشرے کی بے حسی ضرور اسے مار گئ ہے.25 اکتوبر ۲۰۱۵ کو نقشہ بی بی کا ایدھی ہوم ملتان میں انتقال ہوگیا۔

یہ تحریر ۲۰۱۵ میں جنگ میں شایع ہویی۔