10اکتوبر2005 صبح کے آٹھ بج کر پچاس منٹ کو کوئی پاکستانی نہیں بھول سکتا.یہ تاریخ پلک جھپکتے میں سینکڑوں پاکستانیوں کی زندگی بدل گئ.زلزلے کے جھٹکے ہزاروں انسانوں کے خوابوں کو چکنا چور کرگیے. زندگی بھر کی کمائی جمع کرکےمحبت سے بنائے گھر منٹوں میں زمین بوس ہوگئے.علم حاصل کرنے والے بچے اپنی درس گاہوں میں کنکریٹ کے ملبے تلے دب گئے.اس قیامت خیز زلزلے میں چھیاسی ہزار سے زاید افراد جان بحق ہوئے اور پچھتر ہزار کے قریب زخمی ہوئے.اسلام آباد سے لے کر مظفرآباد ہر طرف پاکستانی نڈھال اور زخموں سے چور تھے.سب سے زیادہ نقصان آزاد کشمیر میں ہوا. ہر طرف تباہی اور ملبہ جب تک امدادی کارکن کراچی لاہور اسلام آباد سے پہنچے بہت سے لوگ اپنی زندگی ہار چکے تھے.پاک آرمی نے زخمیوں کو ریسکیو کرکے ملک کے دیگر ہسپتالوں میں منتقل کرنا شروع کیا.ریسکو کے بعد ریلیف کا شروع ہوا.عالمی ادارے اور دوست ممالک کی امدادی اور طبی ٹیمز بھی پاکستان پہنچ گئی.
ریسکیو اور ریلیف کے دوران اللہ نے اپنا معجزہ دیکھایا اور زلزلے کے 63 روز گزر جانے کے بعد ایک خاتون کو ملبے میں سے زندہ نکالا گیا . چالیس سالہ نقشہبیبی زلزلے کے دوران اپنے کچن کے ملبے تلے دب گئ.اس کے رشتہ دار یہ سمجھتے رہے کہ وہ یا تو جاں بحق ہوگی ہے یا پھر کسی ریلیف کیمپ میں ہے.لیکن رشتہ داروں کو نقشہ ملبہ اٹھاتے وقت کچن سے ملی.وہ پہلے یہ سمجھے کہ وہ مر چکی ہے لیکن نقشہ نے جب آنکھیں کھولی تو سب حیران رہ گئے.نقشہ کو پہلے مظفرآباد منقل کیا گیا.اس کے بعد انہیں اسلام آباد پمز منتقل کردیا گیا. نقشہ اتنے دن اکیلی بھوکی پیاسی ملبے تلے دبی رہی ڈاکٹرز کے مطابق اس ساری صورتحال نے اس کے اعصاب اور ذہنی صحت پر برا اثر ڈالا.کتنا عرصہ نقشہ کو ڈراپ پر اور مائع خوراک پر رکھا گیا کیونکہ وہ کھانے پینے سے قاصر تھی.اس کا وزن صرف پینتس کلو رہ گیا تھا.وہ چلنے پھرنے کے بھی قابل نا تھی. اتنا عرصہ ملبے میں رہنے کی وجہ سے اس کی بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کیا.ڈاکٹرز کی انتھک محنت کے بعد نقشہ نے اپنی بات اشاروں میں سمجھانا شروع کردی اور چلنا بھی شروع کردیا.
پر افسوس نقشہ کے زیادہ تر رشتہ دار اس سانحے میں چل بسے تھے. بوڑھے باپ جس کی ٹانگ زلزلے کے بعد ڈاکٹرز نے اس کی جان بچانے کی خاطر کاٹ دی تھی اور غریب بھائی نے اس کی دماغی صحت کی خرابی کی بنا پر اس کو اپنانے سے انکار کردیا. چلا بانڈے میں وہ خود کیمپ میں مقیم تھے اور نقشہ کی کفالت کے قابل نہیں تھے.میری نقشہ سے پہلی ملاقات ہسپتال میں ہوئی اور دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب ان کو اسلام آباد ایدھی ہوم منتقل کردیا گیا.میرا جب بھی ایدھی ہوم جانا ہوتا تو نقشہ سے ملاقات ہوتی صاف ستھرے کپڑوں میں نقشہ خود چل پھر سکتی تھی اپنے ہاتھ سے کھانا بھی کہا لیتی لیکن وہ نا ہی وہ کسی بات کو سمجھ پاتی اور نا ہی جواب دیے پاتی. دوہزار پندرہ مارچ تک نقشہ ایدھی ہوم میں رہی .دو ہزار پندرہ آٹھ اکتوبر کو جب زلزلے کو دس سال مکمل ہوگئے تو مجھے نقشہ کی یاد ستائی .لیکن ایدھی ہوم جاکر مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ جب میں نے نقشہ سے ملنا چاہا تو پتہ چلا.نقشہ تو یہاں سے چلی گئ.میں نے انچارج ایدھی ہوم شکیل احمد سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ نقشہ کو ملتان ایدھی ہوم بھیج دیا گیا.کیونکہ اس صحت گرتی جارہی ہے وہ سردی برداشت نہیں کرسکتی. اب نقشہ کو ملتان میں ڈھونڈنا ایک مسلہ تھا میں نے ٹویٹر پر ملتان کے ٹویٹر صارف سے درخواست کی مجھے نقشہبیبی کا پتہ معلوم کرکے دیں.بہت دن کی کوشش کی بعد بالآخر 13 اکتوبر کو نقشہ مل گئ.نقشہ کا خیال تو رکھا جارہا ہے لیکن وہ اندر سے بلکل ٹوٹ چکی ہے.پہلے جو کبھی وہ مسکرا دیتی تھی اب وہ نا ہی مسکراتی ہے نا ہی کوئی رسپانس دیتی ہے. 6 سال سے وہ اپنے کسی رشتہ دار سے نہیں ملی. اب ایدھی ہوم ہی اس کا گھر ہے اور یہاں کہ رہنے والے اس کے رشتہ دار ہیں. اگر اس وقت کی حکومت زلزلہ زدگان کی مکمل بحالی کردیتی تو آج نقشہ اپنے پیاروں کے ساتھ ہوتی. آٹھ اکتوبر کو بہت سے پیکج چلے نیوز آئیں پروگرام نشر ہوئے پر سب نقشہ کو فراموش کرگیے. شاید یہ تحریر پڑھ کر بہت سی مارننگ اور ایونگ شو کے اینکرز نقشہ کے پاس پہنچ جائیں گے اس کا کرب دیکھا کر ریٹنگ بڑھانے کی کوشش کریں گے.پر یہ مسلہ کا حل نہیں ہے اگر نقشہ کے گھر والوں کی مکمل بحالی کردی جاتی اور مظفرآباد میں ہی ہسپتال سے اسے مفت طبی علاج معالجے کی سہولت تاحیات فراہم کردی جاتی .تو آج نقشہ اپنے پیاروں کے ساتھ مختلف زندگی گزار رہی ہوتی. ایدھی ہوم ایک ایسا فلاحی ادارہ ہے جہاں لاکھوں لوگ پناہ لئے ہوئے ہیں.عبد الستار ایدھی اور بلقیس ایدھی نے کبھی اپنے فلاحی ادارے کو اپنی ذاتی تشہیر کے لئے استعمال نہیں کیا.چپ کرکے یہ دونوں عظیم شخصیت اور ایدھی ہوم سے منسلک افراد خدمت خلق میں مصروف ہیں.ہر ہفتے نقشہ کا طبیمعائنہ ہوتا ہے ایک مددگار اس کو چلنے پھیرنے میں مدد دیتی ہے.اس کو کھانا کھلاتی ہے.میں سوچتی ہوں اگر حکومت زلزلہ متاثرین کی آبادکاری مکمل طور پر کردیتی تو آج نقشہ شاید ایک خوش گوار زندگی گزار رہی ہوتی.نقشہ آج بھی خلاؤں میں کچھ ڈھونڈتی رہتی ہے شاید زلزلے سے پہلے کے دن یاد کرتی ہوگی. نقشہ کو دیکھ کر آٹھ اکتوبر کے وہ تمام درد یاد آجاتے ہیں .اس کے چہرے پر آٹھ اکتوبر کا کرب دائمی طور پر نقش ہوگیا ہے. آٹھ کتوبر 2005 کو کس طرح لوگ ملبے تلے دبے مدد کے لئے پکار رہے تھے اور ہمارے ادارے ناکافی مشینری کے باعث انہیں نا بچا سکے.آج بھی صورتحال یہ ہی ہے کہیں آگ لگ جاتی کہیں چھت گر جاتئ ہے تو بھی ہمارے ریسکیو کی مشنری نا کافی ہے اور لوگ سسک سسک کر مرجاتے ہیں. ہماری حکومت اور اپوزیشن کی ترجیحات پر لوگوں کے لئے صحت عامہ کی سہولیات باعزت روزگار مفت تعلیم اور سر چھپانے کے لئے ایک چھت مہیا کرنا کب آئے گا کچھ معلوم نہیں. نقشہ کو زلزلہ تو نا مار سکا لیکن ہمارے معاشرے کی بے حسی ضرور اسے مار گئ ہے.25 اکتوبر ۲۰۱۵ کو نقشہ بی بی کا ایدھی ہوم ملتان میں انتقال ہوگیا۔
Journalist writes for Turkish Radio & Television Corporation .
Photographer specialized in street and landscape photography
Twitter @javerias fb: : https://www.facebook.com/OfficialJaverias
View All Posts