Posted in child-sexual abuse, human-rights

بچوں کو جنسی تشدد سے بچائیں

تحریر جویریہ صدیق 

 

پاکستانی بچے جنسی تشدد کا شکار ہورہے اور معاشرتی خاموشی و سکوت اس برائی پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔عام طور پر خاندان بچے کو قصوروار ٹھہرا کر اسے خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔جبکے یہ بات یاد رکھنی چاہیے ایک معصوم بچہ جوکہ باہر کی دنیا کی گندگی اور خطرات سے واقف نہیں آپ اسکو مورد الزام نہیں ٹہرا سکتے۔حال ہی میں ایک پھر قصور شہر میں تین بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا ۔جو حکومت اور پولیس کی کارگردگی پر سوالیہ نشان ہیں کہ بچے اغوا ہورہے ہیں قتل ہورہے ہیں لیکن عوام کی کوئی شنوائی نہیں ۔
یہاں پر یہ سوال بھی جنم دیتا ہے کہ ہمارے بچوں کو کس کس سے خطرہ ہے اور ہم انہیں جنسی تشدد سے بچا کیسے سکتے ہیں۔
اس کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جنسی تشدد سے مراد کیا ہے اٹھارہ سال سے کم عمر انسان بچہ ہے کوئی بھی بالغ شخص بچے کے پوشیدہ اعضاء کو ہاتھ لگایے،چومے،بچے کےاعضاء دیکھے،بچے کی برہنہ ویڈیو بنایے،جنسی زیادتی کرے یا بد فعلی یا بچوں کو مجبور کرے کہ بالغوں کے اعضا کو ہاتھ لگایے یہ سب جنسی تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ عام طور پر ۵ سے ۱۲ سال کی عمر کے درمیان بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔
بچے صرف باہر ہی جنسی تشدد کا نشانہ نہیں بنتے بلکے گھر میں بھی یہ خطرہ ان پر منڈلاتا ہے بہت سے بچے اپنے انکلز،رشتہ داروں، گھروں میں ملازموں ،کزنز اور کچھ کیسز میں خواتین کی ہوس کا نشانہ بنتے ہیں۔کچھ بچےسکولز،ٹیوشنز،دوکاندار،محلے داروں ،اپنےمذہبی اساتذہ،وین بس اور کار ڈرایور کی حیوانیات کا شکار بن جاتے ہیں۔یہ بات لازم نہیں کہ بچے پر حملہ کویی عادی مجرم کرے گا بظاہر بہت شریف نظر آنے والے افراد اس مکروہ فعل کو انجام دیتے ہیں۔یہ مسلہ تمام سماجی طبقات کا مسلہ ہے۔
اس تمام صورتحال سے بچانے کے لیے ہمیں اپنے بچوں کو اس حوالے سے آگاہی دینا ہوگی۔ہمیں بچوں کو انکے جسم کے حوالے سے اور اپنی حفاظت کیسے کی جایے اس بارے میں انہیں مکمل اگاہی دینا ہوگی۔
بچوں کو یہ بتایا جایے کہ انکے جسم کے پوشیدہ حصے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔صرف ان کی ماما انہیں نہلا اور کپڑے تبدیل کرواسکتی ہیں اس کے علاوہ نانی دادی بڑی بہن یا ملازمہ وہ بھی والدین کی اجازت کے بعد یہ کام کرسکتی ہیں۔ ورکنگ خواتین کے بچوں کی زمہ داری اکثر انکے گھرکام کرنے والوں پر ہوتی ہے۔تاہم آپ اپنے ملازمین پر بھی مکمل اعتماد نہیں کرسکتے اپنے گھر کے بڑوں کو کہیں کہ انکی نگرانی میں بچے کے کام کیے جایں،اگر ورکنگ لیڈیز کا بجٹ اجازت دیتا ہے تو وہ بچوں کے کمرے اور لاونچ میں کیمرہ لگا لیں تاکہ دفتر سے بھی وہ اپنےبچے پر نظر رکھ سکیں۔اگر یہ سب ممکن نا ہو تو اپنے آفس والوں کو قائل کریں کہ آفس میں بچوں کی نرسرئ ہونی چاہیے تاکہ کام کے ساتھ ساتھ خاتون اپنے بچے کا بھی مکمل خیال کرسکے۔یہاں پر ایک بات کرنا بہت ضروری ہے کہ بچہ صرف ماں کی زمہ داری نہیں باپ بھی اسکی پرورش اور حفاظت کا مکمل ذمہ دار ہے۔
بچوں کو یہ بتایا جایے اگر انکوکوئی ہاتھ لگایے جس سے انکو برا محسوس ہو یا کویی انکے پوشیدہ حصے ( گھر میں ان اعضا کا آپ جو بھی نام لیتے ہیں اس ہی نام سے انہیں بتایں) کو ہاتھ لگایں تو وہ فوری طور پر آپ کوبتایں، شور مچا دیں اور اس جگہ سے بھاگ جایں اور سیدھا آپ کو شکایت کریں۔اگر آپ گھر پر نہیں ہیں تو آپ کو فون پر اطلا ع کریں یا گھر میں موجود کسی اور بڑے کو اعتماد میں لیں۔
بعض اوقات اگر کویی بچہ جنسی تشدد کا شکار ہو تو وہ خود کو مجرم محسوس کرنے لگتا ہے اور سہم کر رہ جاتا ہے۔جب بچے کا خوف زیادہ بڑھ جایے تو اس میں یہ علاماتیں نظر آنے لگتی ہیں۔بچے کی نیند خراب ہوتی ہے، وہ ڈرتا ہے، بستر گیلا کرتا ہے، گھر سے باہر جانے سے انکار کرتا ہے۔ سکول نا جانے کی ضد کرتا ہے بولنا کھیلنا کم کردیتا ہے۔ جلدی تھک جاتا ہے۔ ڈیپریشن کا شکار ہوجاتا ہے ،بعض اوقات بہت غصہ کرتا ہے اس کا جسم درد کرتا ہےاور جنسی زیادتی کی صورت میں اسکے نازک اعضاء سے خون رستا ہے اور زخم بھی ہوتے ہیں۔بعض اوقات بچہ خودکشی تک پر آجاتا ہے۔یہ علامات مختلف ایج گروپ میں مزید مخلتف ہوسکتی ہیں۔
اس صورتحال میں ماں یا باپ میں سے کویی بھی ایک بچے کو اعتماد میں لے کر ساری صورتحال کا پتہ کرے ۔اس کے لیے ماہر نفیسات کی بھی مدد لی جاسکتی ہے۔والدین خود بھی انٹرنیٹ سے مواد حاصل کرکے بچے کی مدد کرسکتے ہیں۔کرییر دولت سب انسان حاصل کرسکتا ہے لیکن صحت مند اولاد ہر بار نصیب نہیں ہوتی۔ جنسی تشدد کسی بھی بچے کو نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔اس لیے اپنے بچوں کو مکمل وقت دیں انہیں اپنا دوست بنایں تاکہ وہ اپنے دل کی ہر بات آپ سے کر سکیں۔
اگر بچہ خدانخواستہ جنسی تشدد کا شکار ہوگیا ہے تو اس کے علاج کے ساتھ اس کو روزمرہ زندگی کی طرف واپس لاییں اسکو سکول خود چھوڑ کر آئیں اور واپسی پر بھی خود لیں۔اگر اسکے ساتھ بیٹھنا بھی پڑے تو ساتھ بیٹھیں ،اسکو خود پارک لے کر جاییں اسکے ساتھ کھیلیں۔اسکو مکمل توجہ دیں اور اسکی بات سنیں۔اس ضمن اساتذہ بھی بہت بڑا رول ادا کرسکتے ہیں اور بڑے بہن بھایی بھی معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔یہ بات رکھیں بچہ اور بچی دونوں خطرے کی زد میں ہوتے ہیں تو دونوں کو مکمل تعلیم دی جایے کہ کس طرح سے وہ اپنی حفاظت کو یقینی بنایں۔بچوں کو اس بات کی تلقین کریں کہ وہ  ملازم رشتہ داروں اور اجنبیوں سے مناسب فاصلہ رکھیں کسی بھی شخص کی گود میں نا بیٹھیں اور آپ کی اجازت کے بنا کسی سے تحفہ نالیں۔اگر والدین گھر پر نہیں باہر گئے ہوئے ہیں تو بچوں کو نانا نانی دادا دادی یا بڑے بہن بھایی کے پاس چھوڑ کر جائیں انہیں ملازموں کے ساتھ اکیلا نا چھوڑیں۔آٹھ سال سے بڑے بچوں کو اپنی حفاظت کے حوالے سے کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔کبھی بھی اپنے بچے کو بازار ٹیوشن اور پارک اکیلا نا بھیجیں۔
رابعہ خان ماہر نفسیات ہیں 12 سال سے وہ اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ فیس بک پر اپنے پیج Healing-Souls-Rabia-Khan
سے شہریوں کو آگاہی فراہم کرتی ہیں ان کے مطابق اکثر بچے اس وجہ سے بھی جنسی تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں جب انہیں گھر سے مکمل توجہ نہیں مل رہی ہوتی ۔ان پر جنسی تشدد کرنے والا شخص اس بات سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے کہ بہت عرصہ انکے گھر میں یہ بات کسی کو بھی معلوم نہیں ہوگی نا ہی یہ بچہ خود بول سکے گا ۔بچے کو وہ شروع میں اپنے قریب کرنے کے لئے چاکلیٹ ٹافیوں آئیس کریم اور دیگر تحائف کا استعمال کرتا ہے جب بچے کا اعتماد جیت لیتا ہے اسکے بعد اپنے جال میں پھنس لیتا ہے۔وہ کہتی ہیں ۔
ماں باپ کو چاہیے وہ بلاوجہ بچوں کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ نا کریں انہیں اعتماد دیں ۔اگر بچہ کسی چیز سے انکار کررہا ہے تو اسکے انکار کو زبردستی اقرار میں تبدیل نا کریں اور وجہ جانیں بچہ منع کیوں کررہا ہے۔بچے جھوٹ نہیں بول رہے ہوتے وہ اتنی کم عمر میں کہانیاں نہیں بنا سکتے ۔والدین اپنی سوشل لائف ورکنگ لائف میں سے اپنی اولاد کے لئے بھی وقت نکالیں ۔
رابعہ خان کہتی ہیں بعض اوقات سب تعلیم اور آگاہی کے باوجود بچے جنسی تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ بچے معصوم ہیں اور انکی تاک میں بیٹھے لوگ شاطر ہیں ۔والدین تب بھی بچے کو الزام نہیں دے سکتے ۔سانحے کی صورت میں بچے کی بحالی پر مکمل توجہ دیں وہ علاج کے بعد دوبارہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ جائے گا۔
ہم میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد اور سول سوساسٹی کے ممبرا ن بھی اس ضمن بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کسی بچے کو بھی تکلیف میں دیکھ کر ہم اس کے والدین کو رازداری سے آگاہ کرسکتے ہیں۔کسی بھی بچے کو اکیلا دیکھ کر اسکے گھر تک پہنچا سکتے ہیں اور اسکے والدین سے یہ گزارش کریں کہ بچے کو اکیلا باہر نا بھیجیں۔اسکے ساتھ اپنے اردگرد بہت سے والدین کو اس حوالے سے آگاہی دیں کہ انکا بچہ گھر اور باہر کن خطرات سے دوچار ہوسکتا ہے۔یہ سانحہ کسی بھی عمر کے بچے کے ساتھ پیش آسکتا ہے بچہ کبھی بھی یہ سانحہ بھول نہیں پاتا اس لیے اسکو چپ یا خاموش کرنا مسلے کا حل نہیں ہے۔اسکو قصوروار نہیں ٹہرنا چاہیے اس کے ساتھ نرمی برتے ہویے اسکے علاج اور مکمل بحالی طرف توجہ دینا چاہیے ۔بچوں کو خطرہ صرف باہر نہیں گھر میں بھی موجود کچھ افراد سے ہوتا ہے یہ بہت چالاکی سے بچوں کا پھنس لیتے ہیں اس لیے اپنے بچوں کا مکمل خیال کریں۔ہمارے بچے اور بچیاں دونوں خطرے کی زد میں ہیں ہم سب مل کر ہی ان کی حفاظت کرسکتے ہیں۔جنسی تبدیلیوں اور تولیدی صحت پر بات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔بلوغت کے دور سے گزرنے والوں بچوں کو ماں باپ کی خصوصی ضرورت ہے انہیں جسمانی تبدیلوں کے بارے مکمل اگاہی دیں انکے سرکل پر نظر رکھیں انکی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کو بھی اپنے علم میں لایں کہیں انکو کویی بلیک میل تو نہیں کررہا۔اپنے بچوں کی مالی ضروریات اور جذباتی خواہشات کا خیال کریں تاکہ وہ استحسال کا شکار نا ہوسکیں۔آخر میں ایک بہت ضروری گزارش اگر کوئی بچہ یا بچی جنسی تشدد کا شکار ہوجائے تو اس کے لئے انصاف کی آواز اٹھانے سے پہلے اس بچے اور بچی اسکے خاندان کی پرایویسی کا خیال کریں اس کی
تصاویر اور شناخت نا ظاہر کریں ۔

— جو بچے غربت کے باعث گھروں سے دور ہیں وہ جنسی زیادتی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں یہاں پر لڑکے اور لڑکی دونوں اس کی زد میں آتے ہیں ۔جس کا واحد حل یہ ہے کہ ان بچوں کو حکومت اور مخیر حضرات ملازمتوں سے ہٹائیں اور ان کی تعلیم کھانے پینے اور رہائش کا بندوبست کریں ۔بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے غلیظ لوگوں کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ دیگر لوگ یہ مکروہ فعل کرنےکی ہمت نہ کریں ۔

IMG-20171001-WA0229IMG-20171001-WA0228IMG-20171001-WA0230

 

 

 Javeria Siddique
 Journalist and Photographer  
 Turkish Radio and Television Corporation 
 Author of Book on Army Public School Attack Peshawar 
Posted in health, Javeria Siddique, Pakistan, rain

ڈینگی بخار احتیاط واحد حل تحریر جویریہ صدیق

Screenshot_20190903-233809_Chrome
تحریر  …..جویریہ صدیق…..
ڈینگی بخار نے آج کل پھر عوام کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا ہے ،کراچی، راولپنڈی، ملتان اور پشاور کے عوام اس بخار سے سب سے زیادہ متاثر ہوئےہیں ۔
ڈینگی بخار کا علاج اگر بروقت نا کروایا جائے تو یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، ڈینگی بخار مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، یہ مچھر صاف پانی پر افزائش پاتا ہے اور اس کے کاٹنے سے انسان ڈینگی بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
یہ مچھر زیادہ تر گھروں میں افزائش پاتا ہے، اس مچھر کی ایک مخصوص پہچان ہے اس کے جسم پر سیاہ سفید نشان ہوتے ہیں، ڈینگی پھیلانے والا مچھر زیادہ تر گرم مرطوب علاقوں میں پایا جاتا ہے، اس مچھر کے کاٹنے سے ہر سال کروڑوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
ڈینگی چھوت کی بیماری نہیں ہے کسی متاثرہ مریض سے یہ صحت مند شخص کو نہیں ہوتا، یہ ایک مخصوص مچھر aedes aegypiti کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، ہر سال بائیس ہزار سے زائد افراد اس بخار کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس بخار کی علامتیں چار سے چھ دن میں ظاہر ہوتی ہیں، اچانک 104 فارن ہائٹ تکتیز بخار ، سر میں درد،جوڑوں میں درد،آنکھوں کے پیچھے درد، قے، جسم پر سرخ دھبے اس بخار کی علامات میں شامل ہیں، اگر اس کے علاج پر توجہ نا دی جائے تو یہ ڈینگی بخار ڈینگی ہیمرجک فیور میں تبدیل ہو جاتا ہے،جس کے باعث خون میں سفید خلیے بہت کم ہوجاتے ہیں، بلڈ پریشر لو ہوجاتا ہے، مسوڑوں، ناک، منہ سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے اور جگر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، انسان کومہ میں چلا جاتا ہے اور اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
ڈینگی بخار کو ایک بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے تشخیص کیا جاتا ہے، ٹیسٹ اگر مثبت آجائے تو فوری طور پر علاج شروع کیا جاتا ہے، اس مرض کے لئے کوئی مخصوص دوا تو دستیاب نہیں ہے، ڈاکٹر مریض کے جسم میں نمکیات پانی کی مقدار کو زیادہ کرتے ہیں اور ساتھ میں انہیں درد کو کم کرنے کی ادویات دی جاتی ہیں، ڈینگی ہمیرجک فیور میں پلیٹ لیٹس لگائی جاتی ہیں،اس مرض سے بچنے کا واحد حل احتیاط ہے.انسان خود کو مچھر کے کاٹنے سے بچائے۔
ڈینگی بخار سے بچنے کے لئے یہ احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں، سب پہلے تو کسی بھی جگہ پر پانی کھڑا نہ ہونے دیں، اگر پانی ذخیرہ کرنا ہو تو اس کو لازمی طور پر ڈھانپ دیں، گھر میں لگے پودوں اور گملوں میں پانی جمع نا ہونے دیں، کوڑاکرکٹ جمع نہ ہونے دیں، پرانے ٹائر خاص طور پر ان مچھروں کی آماجگاہ ہوتے ہیں انہیں گھر پر نا رکھیں، گھر میں پانی کی ٹینکی کو ڈھانپ کر رکھیں، باتھ روم میں بھی پانی کھڑا نا ہونے دیں اور اس کا دروازہ بند رکھیں، روم کولرز میں سے پانی نکال دیں، اسٹور کی بھی صفائی کریں اور وہاں بھی اسپرے کریں، اگر تب بھی مچھروں سے نجات نا ہو تو مقامی انتظامیہ سے اسپرے کی درخواست کریں۔
اپنی حفاظت کے لئےمچھر مار اسپرے استعمال کریں یا مچھربھگائو لوشن استعمال کریں، پورے بازو کی قمیض پہنیں اور جو حصہ کپڑے سے نا ڈھکا ہو جیسا ہاتھ ، پائوں، گردن وغیرہ وہاں پر لوشن لگائیں، گھر میں جالی لگوائیں اور بلاضرورت کھڑکیاں نا کھو لیں، ڈینگی کا مچھر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت زیادہ کاٹتا ہے، اس لئے اس وقت خاص طور پر احتیاط کریں، سوتے وقت نیٹ کے اندر سوئیںاورکوائیل کا استعمال کریں۔
ڈینگی کا علاج اگر بروقت شروع کروالیا جائے تو مریض جلد صحت یاب ہو جاتا ہے، اس بات کا خاص خیال رکھاجائےکہ مریض کوپانی ،جوس ،دودھ ،فروٹس اور یخنی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کروایا جائے، سیب کے جوس میں لیموں کا عرق بھی مریض میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے، اس کو ہرگز بھی اسپرین نا دی جائے۔
تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ستمبر، اکتوبر اور نومبر جو ڈینگی مچھر کے افزائش کے ماہ ہیں، ان میں متواتر اسپرے کروائیں، جہاں پانی کھڑا ہو وہاں پر خاص طور پر اسپرے بہت ضروری ہے۔
عوام میں اس مرض سے بچنے کے لئے آگاہی پھیلائیں، اسپتالوں میں ڈینگی بخار سے متعلق معلوماتی کائونٹر قائم کئے جائیں، اس مرض کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے اگر ان مچھروں کی افزائش نا ہونے دی جائے، 2011 جیسی صورتحال سے بچنے کے لئے تمام صوبائی حکومتوں اور مقامی حکومتوں کو کام شروع کردینا چاہئے۔
Javeria Siddique 
Twitter @javerias

یہ تحریر 2015 میں شائع ہوئی ۔