Author: javeriasiddique
دیسی لبرل کے خدوخال
تحریر جویریہ صدیق
https://twitter.com/javerias
دیسی لبرل کے خدوخال
آج ہم جعلی سستے دیسی لبرلز کے خدوخال پر روشنی ڈالیں گے۔یہ لوگ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں اور کیا چاہتے ہیں اس پر تفصیل سے بات ہوگی ۔
دیسی لبرل گورا کمپلکس کا مارا ہوا ہے اسکو اندر ہی اندر اپنے ماں باپ اور گندمی رنگت پر شدید غصہ ہے ۔رنگ تو خیر فیر اینڈ لوولی سے گورا کرلیتے ہیں لیکن شناحت تبدیل کرنا قدرے مشکل کام ہے اس کے لئے لباس بول چال اور نک نیم رکھ کر کام چلایا جاتا ہے رب نواز ، کریم بخش، درخشاں ،عابدہ سے پومی موتی سونی سویٹی بن جاتے ہیں ۔
اس کے بعد پاکستان میں غریبوں کے ساتھ تصاویر بنانے کا سلسلہ شروع ہوتا بار بار سوشل میڈیا پر بولتے ہیں او گاڈ پاکستان کیوں بنایا اس کےلئے کہ لوگ یہاں غریب ہو۔پاکستان بھارت اگر ایک ملک ہوتا تو ان کے ساتھ یہ سب نا ہوتا ۔غریب عوام کے ساتھ تصاویر سوشل میڈیا پر لگا کر خود کو سماجی کارکن کہا جاتا ہے ۔
اگلے ٹرپ میں دیسی لبرل ان غریب عوام کے لئے کچھ پرانے کپڑے اور سستے برانڈ کے جوس بانٹ کر تصاویر ڈونرز کو بھیج دیتے ہیں انکے نام پر امداد بھی سمیٹ لیتے ہیں ایوارڈ بھی اور فارن ٹرپ بھی۔
کچھ لوگ جنہیں کہیں سے بھی توجہ نہیں مل رہی ہوتی وہ یکدم بہت ساری فوٹو شاپ تصاویر اٹھا کر سوشل میڈیا پر بین ڈال دیتے ہیں دیکھو بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں زیادتی ہورہی ہے۔نیچے لوگ آکر اصلی تصاویر بھی لگا دیں لیکن یہ جھوٹا پروپیگنڈا پورے زور سے کرتے ہیں پھر آپ کچھ عرصے بعد دیکھتے ہیں کہ لوکیشن میں یورپ یا امریکا لکھا نظر آتا ہے۔
دیسی لبرل صبح شام فوج اور آئی ایس آئی کا ورد کرتے ہیں ان کا دودھ والا دودھ میں پانی ملائے یا انکے گھر کی چھت ٹپکنے لگے اس کا الزام فوری طور پر فوج پر لگ جاتا ہے۔ان میں سے کوئی دیسی لبرل دو دن ٹویٹ نا کرے تو شور ڈالتے ہیں کہ فلاں سماجی کارکن اغواء ہوگیا چاہیے وہ کسی مشروب کے زیر اثر مست پڑا ہو۔
یاد رکھیں سارے دیسی لبرل اپنی زات میں دانشور، کالم نگار،سماجی کارکن اور آزادی رائے کے چمپین ہیں خودساختہ D : لیکن اگر آپ ان کے ساتھ بحث کریں تو یہ علاقائی زبانوں کی گالیوں کا کھلا استعمال کریں گے اور اگر آپ جواب دیں تو یہ انگریزی میں رپلائی لکھ کر دس اداروں اور سفارت خانوں کو ٹیگ کرکے کہیں گے یہ دہشت گرد مجھے دھمکا رہا ہے۔
دیسی لبرل جب تک ملک میں ہوتا تو صرف فوج عدلیہ کے خلاف ہوتا ہے لیکن جیسے ہی باہر نوکری ویزا یا اسائلیم مل جائے جائے تو اس کے منہ سے جھاگ نکالنا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ مذہب کو متنازع کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
دوران بحث دیسی لبرل کی یادگار تصویر
دیسی لبرل ہر حکومت کا ہم نوالہ ہم پیالہ بن جاتا اور کرپشن کو کھل کر سپورٹ کرتا ہے۔ان کے نزدیک آمریت کی کرپشن حرام ہے اور جہموریت کی کرپشن حلال ہے۔
ہر دیسی لبرل کی کوئی نا کوئی تنظیم یا این جی او ضرور ہوتی ہے جس سے وہ صرف پاکستان کے منفی پہلو سامنے لے کر آتا ہے۔لنڈے کا لبرل پاکستان کی اکثریت کو دہشتگرد گردانتا ہے اور اقلیت کے مسایل کو اپنے فواید کے لیے استعمال کرتا ہے۔حادثات اور سانحات کی صورت میں انہیں لسانی اور فرقہ وارنہ رنگ دینے کہ کوشش کرتا ہے
دیسی لبرل پاکستان دشمنوں کو کھل کر سپورٹ کرتا ہے اور پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔
ملک کے لئے کسی اچھے کام آغاز ہو یہ اسکے مخالف بن جاتے ہیں حال میں ہم نے دیکھا کہ یہ کالا باغ ڈیم کے بعد دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے بھی مخالف بن گئے ۔آرٹیکل لکھ رہے ہیں ٹویٹس کررہے ہیں بال نوچ رہے ہیں ڈیم مت بناو ۔یہاں تک درخت لگانے تک کے مخالف ہوگئے ۔
اگر کسی پرو پاکستانی صحافی کو مشکل پیش آئے تو دیسی لبرل منہ پر ٹیپ لگا لیتے ہیں لیکن کسی آوارہ اور پاکستان مخالف ٹرول کو کانٹا بھی چبھ جائے تو کرہ ارض کے ہر بڑے اخبار کی سرخی لگ جاتی ہے اس فسادی کو کالم نگار اور آزادی کا متوالا بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔
ایک طرف جعلی لبرلز اور دیسی فیمنسٹ کہتی ہیں ہمارا جسم ہماری مرضی دوسری طرف خاتون اول کے پردے کا مذاق اڑاتی ہیں۔طنز و مزاح کے نام پر دیسی لبرلز کے پاس ہر کسی کا مذاق اڑانے کا لائسنس ہے اور اگر کوئی انہیں کوئی جواب دے تو می ٹو ہوجاتاہے اور آزادی صحافت خطرے میں آجاتی ہے ۔
دوسرے ملکوں کی شہریت لے کر بیٹھے ہوئے جعلی لبرل پاکستان کے خلاف دن رات ٹویٹ کرسکتے ہیں لیکن اسلام آباد کراچی میں بیٹھے لوگ ملکی معاملات پر بات نا کریں ۔
رینٹ اے لبرل اور لنڈے کے دانشور یہ وقت کے ساتھ وفاداری بدل لیتے ہیں اور اپنی منافقانہ صلاحیتوں اور خوشامدی رویے سے آہستہ ٓاہستہ اپنے لئے جگہ بنا لیتے ہیں ان کا نعرہ ہے
۔مجھے ڈالر دکھا اور پاکستان کے خلاف لکھوا ۔
رینٹ اے لبرل مافیا کو پاکستان کی اساس دو قومی نظریہ سے اختلاف ہے انہیں آئین کی اسلامی شقوں سے اختلاف ہے۔اتنے خونی لبرل آپ نے دنیا میں نہیں دیکھے ہوگے جتنے پاکستان میں ہیں اور اصلی بھی نہیں دو نمبر ۔
پاکستانی جعلی دیسی لبرل جب اپنے ماں باپ کے گھر پیدا ہوا تو نرس نے افسوس سے کہا آپ کے گھر دھوکے بازی اور غداری پیدا ہوئی ہے
زلزلہ اور نقشہ بی بی
جویریہ صدیق
14 oct 2015
https://twitter.com/javerias
10اکتوبر2005 صبح کے آٹھ بج کر پچاس منٹ کو کوئی پاکستانی نہیں بھول سکتا.یہ تاریخ پلک جھپکتے میں سینکڑوں پاکستانیوں کی زندگی بدل گئ.زلزلے کے جھٹکے ہزاروں انسانوں کے خوابوں کو چکنا چور کرگیے. زندگی بھر کی کمائی جمع کرکےمحبت سے بنائے گھر منٹوں میں زمین بوس ہوگئے.علم حاصل کرنے والے بچے اپنی درس گاہوں میں کنکریٹ کے ملبے تلے دب گئے.اس قیامت خیز زلزلے میں چھیاسی ہزار سے زاید افراد جان بحق ہوئے اور پچھتر ہزار کے قریب زخمی ہوئے.اسلام آباد سے لے کر مظفرآباد ہر طرف پاکستانی نڈھال اور زخموں سے چور تھے.سب سے زیادہ نقصان آزاد کشمیر میں ہوا. ہر طرف تباہی اور ملبہ جب تک امدادی کارکن کراچی لاہور اسلام آباد سے پہنچے بہت سے لوگ اپنی زندگی ہار چکے تھے.پاک آرمی نے زخمیوں کو ریسکیو کرکے ملک کے دیگر ہسپتالوں میں منتقل کرنا شروع کیا.ریسکو کے بعد ریلیف کا شروع ہوا.عالمی ادارے اور دوست ممالک کی امدادی اور طبی ٹیمز بھی پاکستان پہنچ گئی.

ریسکیو اور ریلیف کے دوران اللہ نے اپنا معجزہ دیکھایا اور زلزلے کے 63 روز گزر جانے کے بعد ایک خاتون کو ملبے میں سے زندہ نکالا گیا . چالیس سالہ نقشہ بی بی زلزلے کے دوران اپنے کچن کے ملبے تلے دب گئ.اس کے رشتہ دار یہ سمجھتے رہے کہ وہ یا تو جاں بحق ہوگی ہے یا پھر کسی ریلیف کیمپ میں ہے.لیکن رشتہ داروں کو نقشہ ملبہ اٹھاتے وقت کچن سے ملی.وہ پہلے یہ سمجھے کہ وہ مر چکی ہے لیکن نقشہ نے جب آنکھیں کھولی تو سب حیران رہ گئے.نقشہ کو پہلے مظفرآباد منقل کیا گیا.اس کے بعد انہیں اسلام آباد پمز منتقل کردیا گیا.
نقشہ اتنے دن اکیلی بھوکی پیاسی ملبے تلے دبی رہی ڈاکٹرز کے مطابق اس ساری صورتحال نے اس کے اعصاب اور ذہنی صحت پر برا اثر ڈالا.کتنا عرصہ نقشہ کو ڈراپ پر اور مائع خوراک پر رکھا گیا کیونکہ وہ کھانے پینے سے قاصر تھی.اس کا وزن صرف پینتس کلو رہ گیا تھا.وہ چلنے پھرنے کے بھی قابل نا تھی. اتنا عرصہ ملبے میں رہنے کی وجہ سے اس کی بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کیا.ڈاکٹرز کی انتھک محنت کے بعد نقشہ نے اپنی بات اشاروں میں سمجھانا شروع کردی اور چلنا بھی شروع کردیا.

پر افسوس نقشہ کے زیادہ تر رشتہ دار اس سانحے میں چل بسے تھے. بوڑھے باپ جس کی ٹانگ زلزلے کے بعد ڈاکٹرز نے اس کی جان بچانے کی خاطر کاٹ دی تھی اور غریب بھائی نے اس کی دماغی صحت کی خرابی کی بنا پر اس کو اپنانے سے انکار کردیا. چلا بانڈے میں وہ خود کیمپ میں مقیم تھے اور نقشہ کی کفالت کے قابل نہیں تھے.میری نقشہ سے پہلی ملاقات ہسپتال میں ہوئی اور دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب ان کو اسلام آباد ایدھی ہوم منتقل کردیا گیا.میرا جب بھی ایدھی ہوم جانا ہوتا تو نقشہ سے ملاقات ہوتی صاف ستھرے کپڑوں میں نقشہ خود چل پھر سکتی تھی اپنے ہاتھ سے کھانا بھی کہا لیتی لیکن وہ نا ہی وہ کسی بات کو سمجھ پاتی اور نا ہی جواب دیے پاتی.
دوہزار پندرہ مارچ تک نقشہ ایدھی ہوم میں رہی .دو ہزار پندرہ آٹھ اکتوبر کو جب زلزلے کو دس سال مکمل ہوگئے تو مجھے نقشہ کی یاد ستائی .لیکن ایدھی ہوم جاکر مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ جب میں نے نقشہ سے ملنا چاہا تو پتہ چلا.نقشہ تو یہاں سے چلی گئ.میں نے انچارج ایدھی ہوم شکیل احمد سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ نقشہ کو ملتان ایدھی ہوم بھیج دیا گیا.کیونکہ اس صحت گرتی جارہی ہے وہ سردی برداشت نہیں کرسکتی.
اب نقشہ کو ملتان میں ڈھونڈنا ایک مسلہ تھا میں نے ٹویٹر پر ملتان کے ٹویٹر صارف سے درخواست کی مجھے نقشہ بی بی کا پتہ معلوم کرکے دیں.بہت دن کی کوشش کی بعد بالآخر 13 اکتوبر کو نقشہ مل گئ.نقشہ کا خیال تو رکھا جارہا ہے لیکن وہ اندر سے بلکل ٹوٹ چکی ہے.پہلے جو کبھی وہ مسکرا دیتی تھی اب وہ نا ہی مسکراتی ہے نا ہی کوئی رسپانس دیتی ہے. 6 سال سے وہ اپنے کسی رشتہ دار سے نہیں ملی. اب ایدھی ہوم ہی اس کا گھر ہے اور یہاں کہ رہنے والے اس کے رشتہ دار ہیں.
اگر اس وقت کی حکومت زلزلہ زدگان کی مکمل بحالی کردیتی تو آج نقشہ اپنے پیاروں کے ساتھ ہوتی. آٹھ اکتوبر کو بہت سے پیکج چلے نیوز آئیں پروگرام نشر ہوئے پر سب نقشہ کو فراموش کرگیے. شاید یہ تحریر پڑھ کر بہت سی مارننگ اور ایونگ شو کے اینکرز نقشہ کے پاس پہنچ جائیں گے اس کا کرب دیکھا کر ریٹنگ بڑھانے کی کوشش کریں گے.پر یہ مسلہ کا حل نہیں ہے اگر نقشہ کے گھر والوں کی مکمل بحالی کردی جاتی اور مظفرآباد میں ہی ہسپتال سے اسے مفت طبی علاج معالجے کی سہولت تاحیات فراہم کردی جاتی .تو آج نقشہ اپنے پیاروں کے ساتھ مختلف زندگی گزار رہی ہوتی.
ایدھی ہوم ایک ایسا فلاحی ادارہ ہے جہاں لاکھوں لوگ پناہ لئے ہوئے ہیں.عبد الستار ایدھی اور بلقیس ایدھی نے کبھی اپنے فلاحی ادارے کو اپنی ذاتی تشہیر کے لئے استعمال نہیں کیا.چپ کرکے یہ دونوں عظیم شخصیت اور ایدھی ہوم سے منسلک افراد خدمت خلق میں مصروف ہیں.ہر ہفتے نقشہ کا طبیمعائنہ ہوتا ہے ایک مددگار اس کو چلنے پھیرنے میں مدد دیتی ہے.اس کو کھانا کھلاتی ہے.میں سوچتی ہوں اگر حکومت زلزلہ متاثرین کی آبادکاری مکمل طور پر کردیتی تو آج نقشہ شاید ایک خوش گوار زندگی گزار رہی ہوتی.نقشہ آج بھی خلاؤں میں کچھ ڈھونڈتی رہتی ہے شاید زلزلے سے پہلے کے دن یاد کرتی ہوگی.
نقشہ کو دیکھ کر آٹھ اکتوبر کے وہ تمام درد یاد آجاتے ہیں .اس کے چہرے پر آٹھ اکتوبر کا کرب دائمی طور پر نقش ہوگیا ہے. آٹھ کتوبر 2005 کو کس طرح لوگ ملبے تلے دبے مدد کے لئے پکار رہے تھے اور ہمارے ادارے ناکافی مشینری کے باعث انہیں نا بچا سکے.آج بھی صورتحال یہ ہی ہے کہیں آگ لگ جاتی کہیں چھت گر جاتئ ہے تو بھی ہمارے ریسکیو کی مشنری نا کافی ہے اور لوگ سسک سسک کر مرجاتے ہیں. ہماری حکومت اور اپوزیشن کی ترجیحات پر لوگوں کے لئے صحت عامہ کی سہولیات باعزت روزگار مفت تعلیم اور سر چھپانے کے لئے ایک چھت مہیا کرنا کب آئے گا کچھ معلوم نہیں. نقشہ کو زلزلہ تو نا مار سکا لیکن ہمارے معاشرے کی بے حسی ضرور اسے مار گئ ہے.25 اکتوبر ۲۰۱۵ کو نقشہ بی بی کا ایدھی ہوم ملتان میں انتقال ہوگیا۔
یہ تحریر ۲۰۱۵ میں جنگ میں شایع ہویی۔
کیپٹن مجاہد بشیر شہید
کیپٹن محمّد مجاہد بشیر شہید ، .
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت … نہ کشور کشائی
نام مجاہد اور دل میں شہادت کی خواہش لئے جب یہ شیر دل دشمن سے ٹکرایا تو دشمن کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا ۔ پاکستان کا یہ بہادر بیٹا 8 جولائی 1986 ء کو پیدا ہوا ۔ شروع سے ہی پاکستان آرمی میں جانے کا شوق تھا ۔ ابتدائی تعلیم اسلام آباد ماڈل کالج سے حاصل کی ۔ بی کام مکمل کیا ۔ سولہ مئی 2008 ء کو پی ایم اے جوائن کیا اور 119 لانگ کورس میں شمولیت اختیار کی ۔ 160 آر سی جی ائیر ڈیفنس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔2012 میں ایف سی ہیڈ کوارٹر خیبر پختون خوا میں پوسٹنگ ہوئی ۔ باجوڑ میں فرائض منصبی سنبھالے اور اپنی شہادت تک وہیں ڈیوٹی انجام دیتے رہے ۔ 12 جولائی 2014 ء کو اس مرد مجاہد نے جام شہادت نوش کیا ۔
باجوڑ کے قریب کٹ کوٹ کے مقام پر پاک آرمی کے ہیڈ کوارٹرز سے کیپٹن مجاہد نے فضل سیپی سرحدی چیک پوسٹ پر جانا تھا۔ماہ رمضان تھا کیپٹن مجاہد روزے سے تھے ہیڈ کوارٹر بریفنگ کے لئے آئے ۔ تاہم وہاں کام کی نوعیت کی وجہ سے دیر ہوگی ۔روزہ کھولنے کے بعد نماز سے فارغ ہوکر جب انہوں نے واپس فضل سیپی جانے کا ارادہ کیا تو سب نے منع کیا کہ اس وقت سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔لیکن پاک وطن کے اس مجاہد نے کہا چیک پوسٹ پر میرے ساتھی میرا انتظار کررہے ہوں گے، میں انہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ۔
کیپٹن مجاہد رات گئے اپنے دیگر دو ساتھیوں کے ہمراہ روانہ ہوگئے ۔ انہیں پوسٹ پر پہنچنے کی جلدی تھی کیونکہ اس پوسٹ پر اکثر دشمن کی طرف سے حملے ہوتے رہتے تھے ۔ کیپٹن مجاہد خود واپس جاکر جلد سے جلد کمان سنبھالنا چاہتے تھے ۔ لیکن راستے میں ہی دہشت گردوں نے ان پر دو اطراف سے حملہ کر دیا۔کیپٹن مجاہد اور ان کے ساتھی مردانہ وار لڑے ۔ ہر طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ ہوگئی لیکن کیپٹن مجاہد نے جوانمردی سے مقابلہ کیا اور دشمن کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔تاہم وہ اس معرکے میں شدید زخمی ہوئے اور جب تک کٹ کوٹ سے پاک فوج کی مزید نفری آئی کیپٹن مجاہد بشیر اپنے ساتھیوں کے ساتھ شہادت پاچکے تھے ۔
ان کے ساتھی ان کے یونٹ ممبران ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی خوش اخلاق اور نرم مزاج تھے ۔ ہمیشہ سب کے ساتھ بہت پیار اور شفقت سے پیش آتے۔وہ اپنی یونٹ کے تمام افراد سے رابطے میں رہتے۔ان کے دوستوں کے مطابق شہادت کی خواہش ان کے دل میں بہت شدید تھی ۔ بہادری سے لڑے اور بہادری سے اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔
گیارہ جنوری 2014 ء کو کیپٹن مجاہد صالحہ حیدر کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ۔ 2012 ء میں نکاح ہوگیا تھا لیکن رخصتی 2014 ء میں مقرر ہوئی ۔شادی کے بعد کچھ عرصہ چھٹی گزارنے بعد کیپٹن مجاہد واپس محاذ جنگ پر چلے گئے ۔ ان کی اہلیہ صالحہ کچھ عرصہ باجوڑ ان کے پاس رہ کر آئیں ۔ کیپٹن مجاہد کی بیٹی صبغہ اپنے والد کی شہادت کے سات ماہ بعد فروری میں پیدا ہوئی۔صالحہ مجاہد بیوہ شہید کیپٹن مجاہد اے پی ایس میں پڑھاتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں مجاہد سے شادی ہوئی تو مجھے لگا جیسے مجھ سے زیادہ اس دنیا میں کوئی خوش نصب نہیں ہوگا ۔ وہ بہت ہی نرم مزاج محبت کرنے والے انسان تھے ۔
میں شادی کے بعد اکثر سوچتی اور اپنے آپ پر رشک آتا تھا کہ مجھے اتنا اچھا انسان جیون ساتھی کے طور پر ملا ۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات میری زندگی کا کل سرمایہ ہیں ۔ صالحہ کہتی ہیں کیپٹن مجاہد مذہب سے خاص لگاؤ رکھتے تھے ۔ پانچ وقت کی نماز کا اہتمام باقاعدگی سے کرتے اور روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ۔ وہ کہتی ہیں ان کی عادات و اطوار نے مجھے ان کا مزید گرویدہ کر دیا ۔ ان کی شہادت سے قبل میں باجوڑ گئی اور ہم نے کچھ دن ساتھ گزارے ۔ اس کے بعد وہ مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلے گئے ۔
وہ کہتی ہیں کہ اتنا پیار کرنے والا انسان جب چھوڑ کر چلا جائے تو زندگی بے مقصد محسوس ہوتی ہے ۔ شروع شروع میں تو میرے ضبط کے سارے بند ٹوٹ جاتے اور مجھے بالکل قرار نہیں آتا تھا ۔ لیکن جب میں شہید ہونے والے دیگر فوجیوں کی بیواؤں سے ملی تو ان کا صبر دیکھ کر مجھے انتہائی حوصلہ ملا ۔ میں نے زندگی کو ایک بار پھر مجاہد کی یادوں کے ساتھ آگے بڑھایا ۔
صبغہ فاطمہ جو کیپٹن مجاہد کی شہادت کے بعد پیدا ہوئی اس نے اپنے والد کا لمس تو محسوس نہیں کیا لیکن اس کی والدہ اسے باقاعدگی سے اس کے شہید بابا کی قبر پر لے کر جاتی ہیں ۔ صبغہ اپنی ماما کے فون پر جب کیپٹن مجاہد کی تصاویر دیکھتی ہیں تو بابا ، بابا کہہ کر ان کو پکارتی ہے اور خوب شور مچاتی ہے مگراس کے بابا اس کو جواب دینے کے لئے اس دنیا میں موجود نہیں ہیں ۔ گزشتہ دنوں جب عالمی یوم والد منایا جارہا تھا تو ننھی شہزادی صبغہ نے یہ دن اپنے شہید بابا کی قبر پر منایا ۔ ابھی تو وہ اتنی کم سن ہے کہ اسے معلوم نہیں کہ اس کی زندگی کا سب سے خوبصورت رشتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلا گیا ہے ۔
مسز کیپٹن مجاہد بشیر کہتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر کی یادوں کے سہارے زندگی گزار رہی ہیں اور صبغہ فاطمہ ان کی متاعِ کُل ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ مجاہد کی شہادت نے انہیں بالکل توڑ کر رکھ دیا تھا لیکن گھر والوں اور سسرال والوں کی محبت اور شفقت نے انہیں ہمت دی کہ وہ زندگی کو آگے لے کر چل سکیں ۔میرے اور صبغہ کے لئے ان کا چلے جانا ناقابل تلافی نقصان ہے۔تاہم ہمیں ان کی قربانی پر فخر ہے انہوں نے اپنی جان پاکستان کے لئے قربان کی ۔آگے چل کر جب ننھی صبغہ زندگی میں قدم بڑھائے گی تو اس کا ہاتھ تھامنے کے لئے اس کے بابا موجود نہیں ہوں گے ۔ اس کے اردگرد تمام بچے جب اپنے ماما بابا کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہوں گے تو ایک پل کو وہ رُک کر سوچے گی ضرور کہ میرے بابا میرے ساتھ کیوں نہیں ہیں۔سب کام میری ماما کو اکیلے کیوں کرنے پڑرہے ہیں ۔ لیکن جیسے جیسے شعور بیدار ہوگا تو وہ اپنے عظیم والد کی عظیم قربانی پر فخر کرے گی۔ہم سب کا بھی فرض ہے کہ ہم اپنے شہدا اور ان کے لواحقین کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھیں۔اس ملک کی اساس کیپٹن مجاہد جیسے شیر جوانوں اور صالحہ مجاہد اور صبغہ فاطمہ جیسی عظیم بیٹیوں کی قربانیوں پر کھڑی ہے ۔
صبغہ فاطمہ کے نقصان کا خلا کبھی بھی پر نہیں ہوسکتا لیکن تمام پاکستانیوں کو اس کے والد کی قربانی اور اس کی والدہ کے صبر و استقامت پر پر فخر ہے ۔ ۔کیپٹن مجاہد اور ان جیسے دیگر پاک فوج کے شہداء کی قربانیوں کی بنیاد پر آج وطن عزیز میں امن قائم ہوا ہے ۔ اللہ تعالی ہمارے شہدا کے درجات بلند فرمائے ۔ آمین .
تحریر: جویریہ صدیق 
http://hilal.gov.pk/…/hilal-u…/item/2250-2016-08-12-06-44-02
جہاز کی سیاست
جویریہ صدیق
Twitter @javerias
جہاز کی سیاست
بچپن میں کبھی گھر گھر اور کھلونوں سے کھیلنے کا دل نہیں کرتا تو میری دوست جو عمر میں ہم سب بڑی تھی اپنی بلیک جیکٹ اور کالا چشمہ پہن کر
چھوٹی سے بیٹری والی گاڑی پر جھنڈا لگا کر سیاست دان بن جاتئ اور دوسری سفید ڈوپٹہ پہن کر خاتون سیاست دان بن جاتی بھائی کو پانی والی پستول دے کر گن مین بنالیا جاتا پھر فخر سے گلی کے چھوٹے بچوں کو احکامات جاری کرتے اور ہم سب بچے غریب ووٹرز کی طرح جی جی کرتے رہتے ۔نوے کی دہائی میں ایک پجارو دو گن مین کالا چشمہ سفید شلوار قمیض اور سفید ڈوپٹہ آپ کو سیاست دان بنا دیتا تھا
تاہم دو ہزار اٹھارہ میں سیاست دان بنانے کے لئے بڑے محلات کروڑ روپے اوپر کی بلٹ پروف کاریں ، 15 سے 20 سیکورٹی کی گاڑیاں، گوچی کے مہنگے چشمے اور مفلر ، چینل کے بروچ ، میڈیا کے کیمرے، سوشل میڈیا ٹیم کے ٹویٹس ، پھول پھینکنے اور حق میں نعرے لگانے کے لئے ہائر کے گئے لوگ ، میک آرٹسٹ، ڈی جے اور 3 سے 4 نجی جہاز چاہیے ہوتے ہیں ۔اگر سیاست دان کے پاس اپنا ذاتی جہاز نا بھی ہو تو بھی کوئی فکر نہیں انویسٹر ہے نا۔
جہاز کی سیاست زندہ باد
پاکستان کے لئے موزوں درخت
حالیہ گرمی ، لوڈ شیڈنگ اور ہیٹ اسٹروک کے باعث اموات نے پاکستان کی عوام کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کردیا کہ گرمی سے کس طرح بچا جائے ۔اس کے لئے سب سے آسان حل یہ ہی کہ درخت لگائیں جائیں ۔درخت آکسیجن مہیا کرتے ہیں، کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں ۔درخت ماحول کو صاف رکھتے ہیں سیلاب طوفانوں کو روکتے ہیں ۔سایہ مہیا کرتے ہیں پھل دیتے ہیں، پرندوں کو رہائش،جانوروں کو خوراک مہیا کرتے ہیں ۔درخت آنکھوں کو سکون دیتے ہیں اور ہمیں آلودگی سے بچاتے ہیں ۔
فیس بک اور ٹویٹر پر بہت سے ماحول دوست افراد نے مہم بھی شروع کردی کہ آئیے درخت لگائیں لیکن کیا آپ اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستان کی آب و ہوا اور محل وقوع کے حساب سے کون سے درخت لگانا موزوں رہے گا۔اس ہی لئے پاکستان ڈائری میں ہم نے یونیورسٹی آف ایگرکلچر فیصل آباد کے شبعہ فارسٹری کے چئیرمین پروفیسر محمد طاہر صدیقی کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کیا تاکہ وہ ہمیں درختوں کے حوالے سے مکمل آگاہی دے سکیں ۔۔
پروفیسر محمد طاہر صدیقی نے بتایا کہ درخت قدرت کا انمول تحفہ ہیں ان کی موجودگی انسانوں جانوروں اور پرندوں سب کے لئے یکساں اہم ہے ۔درخت اپنی بڑھوتری اور ساخت کے اعتبار سے مختلف زمینوں، موسمی حالات میں مخصوص اقسام پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ مخلتف درخت مخصوص آب و ہوا زمین درجہ حرارت بارش میں پروان چڑھ سکتے ہیں ۔مثال کے طور پر ٹھنڈے علاقوں کا درخت پائن گرم مرطوب علاقوں میں نہیں بڑھ سکتا ہے۔لہذا موسمی حالات و تغیرات درختوں کے چناو میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن کا ادراک ہونا بہت ضروری ہے۔
پنجاب کی آب و ہوا اور موزوں درخت
جنگلات کے نقطہ نظر سے جنوبی پنجاب میں زیادہ تر خشک آب و ہوا برداشت کرنے والے درخت پائے جاتے ہیں ۔ آب و ہوا خشک ہے تو یہاں پر خشکی پسند درخت زیادہ کاشت کئے جائیں جو خشک سالی برداشت کرسکیں ۔بیری،شریں،سوہانجنا،کیکر، پھلائی،کھجور ،ون،جنڈ،فراش لگایا جائے ۔اسکےساتھ آم کادرخت اس آب وہوا کےلئےبہت موزوں ہے۔وسطی پنجاب میں نہری علاقےہیں اس میں املتاس،شیشم،جامن،توت،سمبل،پیپل،بکاین،ارجن،لسوڑا لگایاجائے۔شمالی پنجاب میں کچنار، پھلائی،کیل، اخروٹ،بادام،دیودار،اوک کے درخت لگائے جائیں ۔کھیت میں کم سایہ دار درخت لگائیں انکی جڑیں بڑی نا ہوں اور وہ زیادہ پانی استعمال ناکرتاہو ۔سفیدہ صرف وہاں لگائیں جہاں زمین خراب ہو یہ سیم و تھور ختم کرسکتاہے روز سفیدہ 25 لیٹرپانی پیتا ہے۔جہاں زیرزمین پانی کم ہو اور فصلیں ہوں وہاں سفیدہ نالگائیں ۔
اسلام آباد اور سطح مرتفع پوٹھوہار کے لئے موزوں درخت
پروفیسر محمد طاہر صدیقی کے مطابق خطہ پوٹھوہار کے لئے موزوں درخت دلو؛پاپولر،کچنار،بیری،چنار ہیں ۔اسلام آباد میں لگا پیپر ملبری الرجی کاز کررہا ہے اس کو ختم کرنا چاہیے۔خطے میں اس جگہ کے مقامی درخت لگائے جائیں تو ذیادہ بہتر ہے ۔زیتون کا درخت بھی یہاں لگائے جانا موزوں ہے۔
سندھ میں موزوں درخت
ساحلی علاقوں میں پام ٹری اور کھجور لگانا چاہیے۔کراچی میں املتاس، برنا، نیم، گلمہور،جامن،پیپل،بینیان،ناریل اشوکا لگایا جائے۔اندرون سندھ میں کیکر،بیری پھلائی،ون،فراش،سہانجنا، آسٹریلین کیکر لگناچاہیے۔
بلوچستان کے لئے موزوں درخت
جونپر درخت زیارت میں لگایا جائے ۔زیارت میں جونپیر کا قدیم جنگل بھی موجود ہے۔باقی بلوچستان خشک پہاڑی علاقہ ہے اس میں ون کرک ،پھلائی، کیر، بڑ،چلغوزہ پائن، اولیو ایکیکا،لگایا جائے۔
کے پی کے اور شمالی علاقہ جات میں درخت
پروفیسر محمد طاہر صدیقی کہتے ہیں کے پی کے میں شیشم،دیودار پاپولر،کیکر،ملبری،چنار،پائن ٹری لگایا جائے۔
درخت لگانےکاوقت، تیاری اور اسکی حفاظت
اگر آپ سکول کالج یا پارک میں درخت لگا رہے ہیں تو درخت ایک قطار میں لگے گئیں اور ان کا فاصلہ دس سے پندرہ فٹ ہونا چاہیے۔گھر میں لگاتے وقت دیوار سے دور لگائیں ۔آپ بنا مالی کے بھی درخت لگا سکتے ہیں نرسری سے پودا لائیں ۔ زمین میں ڈیڑھ فٹ گہرا گڑھا کھودیں۔نرسری سے بھل ( اورگینک ریت مٹی سے بنی) لائیں اس میں ڈالیں ۔پودا اگر کمزور ہے اس کے ساتھ ایک چھڑی باندھ دیں ۔پودا ہمیشہ صبح کے وقت لگائیں یا شام میں لگائیں ۔دوپہرمیں نا لگائیں اس سے پودا سوکھ جاتا ہے۔پودا لگانے کے بعد اس کو پانی دیں ۔گڑھا نیچا رکھیں تاکہ اس میں پانی رہیں ۔ہر ایک دن چھوڑ کر پانی دیں ۔سردی میں ہفتے میں دو بار پودے کے گرد کوئی جڑی بوٹی نظر آئے تو اسکو کھرپے سے نکال دیں۔اگر پودا مرجھانے لگے تو گھر کی بنی ہوئی کھاد یا یوریا فاسفورس والی کھاد اس میں ڈالیں لیکن بہت زیادہ نہیں ڈالنی کھاد اس سے بھی پودا سڑ سکتا ہے ۔بہت سے درخت جلد بڑے ہوجاتے ہیں کچھ کو بہت وقت لگتا ہے۔سفیدہ پاپولر سنبل شیشم جلدی بڑے ہوجاتے ہیں دیودار اور دیگر پہاڑی درخت دیر سے بڑے ہوتے ہیں۔ گھروں میں کوشش کریں شہتوت،جامن، سہانجنا،املتاس، بگائن نیم لگائیں ۔
پروفیسر محمد طاہر صدیقی کہتے ہیں کہ ہمیں بہت درخت لگانا ہوں گے ۔چائنہ چالیس ہزار درختوں کا شہر آباد کرنے جارہا ہے تو ہم کیوں نہیں یہ کرسکتے ۔جاپان میں بچہ پیدا ہوتا ہے اسکے کے نام سے درخت لگ جاتا ہے ۔اگر ہم نے گرمی اور سانس کی بیماریوں سے بچنا ہے تو درخت لگائیں ۔
http://www.trt.net.tr/urdu/slslh-wr-prwgrm/2017/07/12/pkhstn-ddy-ry-27-769406
ٓارٹیکل ٹی ار ٹی اردو پر شایع ہوا
شاہ اللہ دتہ غار
اسلام آباد کے نواح میـں24ہزار سال پرانے غار
اسلام آباد …جویریہ صدیق ….شاہ اللہ دتہ اسلام آباد کے جنوب مغرب میں واقع گاؤں ہےجو تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔مقامی لوگ کہتے ہیں کہ سات سو سال پہلے شاہ اللہ دتہ نام کے بزرگ نے اس گاؤں کو بسایا۔ ان کا مزار بھی اسی گاؤں میں واقع ہے۔
مارگلہ کے دامن میں بسے اس گاؤں میں بہت سی تاریخِ جگہیں ہیں ۔اس گاؤں سے سکندر اعظم اور مغل حکمران بھی گزر کر گئے۔ یہاں شیر شاہ سوری کا قائم کردہ کنواں اور دیوار بھی واقع ہیں۔اسلام آباد میں رہنے والے لوگوں میں سے بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ شاہ اللہ دتہ گاؤں میں واقع غاربدھ مت دور کے ہیں۔
تاریخ دانوں کے مطابق یہ غار چوبیس ہزار سال پرانے ہیں اور ان پر بدھوں کے مذہبی پیشوا ’مہاتما بدھ‘ کے نقوش تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نقوش تو مٹ گئے ہیں لیکن غار کے خدوخال ویسے ہی ہیں۔
ان غاروں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غاروں میںکسی زمانے میں سرائے قائم تھے اور مسافر یہاں ٹھہرتے تھے۔غاروں میں دروازے کھڑکیاں موجود ہیں۔غار کے نزدیک قدرتی پانی کا چشمہ ہے جو صدیوں سے رواں ہے۔غار کے قریب بہت سے پرانے برگد کے درخت بھی لگے ہیں ۔محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق یہ درخت بھی تقریباًسات سو سال پرانے ہیں۔
یہ جگہ سی ڈی اے کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ یہاں آنے کا راستہ بہت دشوار ہے اور سڑک خستہ حالی کا شکار ہے۔ان غاروں کے اردگرد پہاڑوں پر کرشنگ جاری ہے اور درخت کاٹے جارہے ہیںجس کی وجہ سے علاقے میں ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے اور اس جگہ کا حسن ماند پڑ رہا ہے۔
یہاں پر ایک سو سال پرانا باغ بھی تھا جس کی نشانی اب صرف ایک درخت کے روپ میں ہی رہ گئی ہے ۔باقی تمام درخت’ ٹمبر مافیا‘ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
دوہزار گیارہ میں اس وقت کے سی ڈی اے چیئرمین نے سادھو کا باغ دوبارہ آباد کرنے کے لئے سنگ بنیاد بھی رکھا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ ان غاروں میں چند افراد نے اپنی رہائش گاہیں بھی بنا رکھی ہیں۔سی ڈی اے نے ان تمام معاملات پر چشم پوشی کررکھی ہے۔
یہ یونیسکو کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔سی ڈی اے فوری طور پر یہاں پہاڑوں پر کرشینگ کو روکوائے، پہاڑوں پر غیر قانونی تعمیرات پر پابندی عائد کرے اور شاہ اللہ دتہ میں واقع تاریخی مقامات کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کرے۔
اس جگہ پر نا ہی کوئی قیام وطعام کی جگہ ہے نا ہی سی ڈی اے کی طرف سے کوئی معلوماتی بورڈ نصب ہیں جس سے سیاحوں کو اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے۔یہاں سب سے پہلے سڑک تعمیر ہونی چاہئے جبکہ جگہ جگہ سائن بورڈز بھی نصب کئے جانے چاہئیں۔سی ڈی اے کی طرف سے گائیڈ بھی ہونے چاہیں جو سیاحوں کو اس جگہ کی تاریخ بیان کرسکیں۔
تاریخی غاروں کی حفاظت کے لئے محکمہ آثار قدیمہ کی مدد لینی چاہیے۔یہاں مزید پودے لگانے بھی ضرورت ہے ۔پہاڑ کی کٹائی کا کام فوری طور پر روکاجائے۔
سی ڈی اے کی زرا سی توجہ سے یہ جگہ ناصرف سیاحوں کے لئے نہایت دلچسپی کا باعث بن سکتی ہے بلکہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی اسے شامل ہونے کا موقع مل سکے گا۔
یہ مضمون 2016 میں جنگ اور جیو کی ویب پر شائع ہوا۔
مصنفہ جویریہ صدیق
Twitter@javerias
موسم برسات میں احتیاط لازم
۔۔
اسلام آباد….جویریہ صدیق….ملک اس وقت شدید بارشوں کی لپیٹ میں ہے اور محکمہ موسمیات نے ندی نالوں میں طغیانی اور نشیبی علاقوں کے زیر آب آنے کی پیشگوئی کی ہے۔ملک کے بالائی علاقوں کشمیر فاٹا خیبر پختون خواہ بالائی پنجاب اور جڑواں شہروں میں بھی گھن گرج کے ساتھ بارش کا سلسلہ جاری ہے جس نے سردی میں اضافہ کردیا ہے۔
مسلسل بارش کی وجہ سے متعدد مکانات بھی منہدم ہوئے۔بلوچستان کے علاقوں خضدار، قلات، چمن، چاغی اور زیارت بارش سے زیادہ متاثر ہوئے۔بارشوں کے باعث خیبر پختونخواہ اور فاٹا میں بھیمتعدد افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے۔
تاہم مسلسل بارش کے دوران کچھ احتیاطی تدابیر اپنا کر بہت سے حادثات کو ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔سب سے پہلے تو ٹی وی خبروں اخبارات ریڈیو یا محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ سے موسم کے حوالے سے آگاہ رہیں۔اگر آپ نشیبی علاقے میں رہائش پذیر ہیں توقیمتی سامان کو بالائی منزل پر شفٹ کرلیں۔
اگر ہوسکے تو ممکنہ سیلاب یا طغیانی سے بچنے کے لئے کسی رشتہ دار کے گھر چلے جائیں۔موسم ٹھیک ہونے پر واپس لوٹ آئیں۔چھت ڈالتے وقت یہ خیال رکھیں کہ وہ مضبوط اور پائیدار ہو۔ پاکستان میں بہت سے لوگ اپنی جان سے محض اس لئے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کہ کمزرو ہونے کی وجہ سے چھت گرتی ہے۔
بارشوں سے پہلے گھر میں چھت یا دیواروں کی لیکج کو چیک کروالیں۔گھر میں موجود ڈرینج سسٹم اور گٹر بھی چیک کروائیں۔ اگر کوئی بلاک ہے تو پلمبر اس کو کھول دے گا اوربارش میں نکاسی آب میں آسانی رہے گی۔ابتدائی طبی امداد کا سامان ادویات بھی خرید کر رکھ لیں تاکہ بارش میں نا جانا پڑے۔
اگر بارش اور سیلاب کی پیشنگوئی کی گئ ہو تو مناسب خوراک،اشیائے خوردونوش اور پینے کے صاف پانی کا بھی ذخیرہ کرلیں۔گھر میں ٹارچ سیل اور موم بتیاں بھی لازمی ہونی چاہیں۔تاہم اہم نمبر موبائل کے ساتھ ایک ڈائری میں لکھ کر بیگ یا پرس میں ساتھ رکھ لیں۔
بارش میں بہت سے حادثات بجلی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ کسی بھی گیلی تار یا ٹوٹی ہوئی تار کو ہاتھ لگانے سے پرہیز کریں۔ دوران بارش کسی بھی بجلی کی چیز کو ننگے پاوں یا گیلے ہاتھ نا لگالیں۔غیر ضروری بجلی کے آلات کو بند کردیں۔اگر بارش کے باعث کوئی بجلی کی تار یا چیز خراب ہوجائے تو خود ٹھیک کرنے سے پرہیز کریں اور الیکٹریشن ہو کو بلائیں ۔
اگر گھر میں پانی داخل ہوجائے تو گیس اور بجلی کے مین سوئچ بند کردیں۔خود ٹارچ یا پورٹیبل لیمپ کا استعمال کریں۔اگر پانی زیادہ داخل ہوجائے تو پہلے اپنی جان کی حفاظت کریں اور خود کو محفوظ مقام پر منتقل کریں۔
باہر کسی بھی بجلی کے پول اور سائن بورڈ سے دوررہیں۔ایمرجنسی کی صورت میں ریسکیو اداروں کو مدد کے لئے فون کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ بارش میں حفظان صحت کے اصولوں کا بھی خیال رکھیں۔گندے ہاتھ منہ پر نا لگائیں۔کوئی بھی پھل ،سبزی بنا ہاتھ دھوئے نا کاٹیں نا کھائیں۔بازار کی اشیاء خاص طور پر پکوڑے، سموسے وغیرہ کھانے سے پرہیز کریں ۔پانی ابال کر پئیں۔
برسات میں خاص طور پر ہیضہ نزلہ زکام اسہال عام ہوجاتا ہے جس سے بچنے کا واحد حل حفظان صحت کے اصولوں پر کاربند رہنا ہے۔
برسات میں مچھروں کی بھی بہتات ہوجاتی ہے اس کے ساتھ کیڑے مکوڑے بھی ان سے بچنے کے لئے ریپلنٹ کا ستعمال کیا جائے اور اسپرے کیا جائے۔بچوں پر خاص نظر رکھیں اور انہیں برسات میں ندی نالوں میں نہانے سے منع کریں۔
دوران بارش ڈرائیونگ سے گزیز کریں اگر ڈارئیونگ کرنا ناگزیر ہو تو نشیبی علاقوں میں گاڑی لے جانے سے پرہیز کریں۔اپنے گھر والوں کو اپنے روٹ سے آگاہ کریں۔
نکلنے سے پہلے گاڑی کی لائٹس، وائپر، ہیٹر اور فیول چیک کرلیں۔موبائل ساتھ لازمی رکھیں۔گاڑی کی رفتار کم رکھیں اور آگے والی گاڑی سے مناسب فاصلہ رکھیں۔ہلکی آواز میں ریڈیو سنتے رہیں تاکہ حالات سے باخبر رہیں۔ہیڈ لائٹس آن رکھیں۔
کسی بھی راہ چلتے شخص یا موٹر سائیکل سوار کے پاس گاڑی کی رفتار بہت کم کردیں تاکہ وہ کیچڑ سے محفوظ رہیں۔اگر بارش زیادہ ہوجائے تو کسی محفوظ جگہ پر یا سروس اسٹیشن پر گاڑی پارک کرکے پارش کے تھمنے کا انتظار کریں۔کسی بھی ندی نالے کو کراس کرنے سے گریز کریں کیونکہ پانی کی رفتار گاڑی کو بہا لے کر جاسکتی ہے۔اس لئے متبادل راستہ اختیار کریں۔تیز رفتاری صرف آپ کے لئے نہیں بلکے اردگرد لوگوں کے لئے بھی خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
بارشوں میں جلد پر بھی بہت سے جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں۔اس لئے جلد کی حفاطت کریں ۔منہ پر گندے ہاتھ نا لگائیں۔ہاتھوں کو صابن یا ہیںڈ واش سے دھویں اور منہ کو دن میں تین سے چار بار دھویں۔کوئی گندہ تولیہ یا کپڑا منہ پر نا استعمال کریں۔
سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ قدرتی طور پر ہوا سے آپ کا منہ خشک ہوجائے۔بارش بھی چند حفاظتی تدابیر اپنا کر ہم بہت سی بیماریوں اور حادثات سے بچ سکتے ہیں اور موسم کو بہترین طریقے سے انجوائے کرسکتے ہیں۔
بجلی اور پاکستانی
یہ آرٹیکل 2013 میں لکھا گیا تھا آج 2017 میں بھی
صورتحال وہ ہی ہے
جویریہ صدیق
میرخیال ہے پاکستان میں سب سے زیادہ بولے جانے والا
لفظ آج کل بجلی ہے ۔۔۔۔
یہ بجلی کیا ہوتی ہے ۔۔۔
یہ بجلی کب آئے گی ۔۔۔
صبح سات بجے پاکستان
ہو ہائے امی امی بجلی چلی گی ۔۔۔ میں سکول کیسے جا سکوں گا ۔۔ ارے پپو دیکھ تو سہی بجلی ہماری ہی گی ہے یا پورے محلے کی ؟؟؟؟ ۔۔ اماں نہیں سب کی گئی ہے۔۔ پپو اماں اماں بجلی کب آیے گی ؟؟؟ اے موئے میرا سر نا کہا تیرا نانا کیا وزارت پانی بجلی میں ہے مجھے کیا پتہ ۔۔ جا اپنے باپ سے پوچھ ۔۔۔ پپو ابا ابا بجلی کب آیے گی ؟؟؟ پپو اپنی ماں سے پوچھ میرے کپڑے استر ی ہیں یا نہیں ؟؟ پپو ؛ ابا بجلی نہیں ہے ۔۔۔چلو کویی بات نہیں میں کچھ کرتا ہوں کویی ایسے کپڑے پہن لیتا ہوں جن کو استری کا ضرورت نا ہو۔۔۔۔ یا آگ کی تپش سے استری گرم کرلیتا ۔ ہائےگیس بھی نہیں آرہی ۔۔۔۔۔۔ورنہ ارے او بیگم غسل خانے میں پانی نہیں ۔۔ جی مجازی خدا صاحب بجلی نہیں ہے ارے تو جاو بالٹیاں ہی بھر لاو ۔۔ کیا کیا ان بجلی والوں کی تو ۔۔۔۔۔۔ ٹوں ٹوں سنسر
﴿ اپنے اپنے شہر کے مطابق ادارے کا نام وغیرہ وغیرہ استمعال کرسکتے ہیں﴾
یہ تھا قیامت خیز پاکستانی صبح کا منظر
دوپہر کا منظرنامہ
ہاے صبح سات بجے سے لایٹ گی ۔ اما ں کھانے میں کیا بنا ہے ارے بچوں صبح سے گیس ہے نا بجلی کیا بناتی میں ارے راجو بیٹا جا پاس والے تندور سے کچھ لے کر آجا ۔۔۔۔ اماں اتنی گرمی ہے پیدل باہر گیا نا تو سن اسٹروک ہوجائے گا۔کیا اول فول بک رہا ہے۔گیلا تولیہ سر پر رکھ سائیکل پر جا کچھ کھانے کا سامان تو ہو اور سن پپو کو بھی لے جا پاس والے ٹیوب ویل سے پانی کی بالٹیاں بھی بھر لانا گھر میں پانی کی ایک بوند بھی نہیں ۔۔۔
ہاے ہاے کب آیے گی لایٹ؟؟؟؟
شام کا منظر
پپو اماں سے ۔۔۔۔ اماں اماں لایٹ اگی ۔ چلو میرا یورینفام اور ابا کے کپڑے استری کردو پیاری اماں ، نا تجھے کپڑوں کی پڑی ہویی ہے جا جاکہ پانی کی موٹر چلا کویی منہ دھونے کا پانی تو ہو
بیگم لو میں گھر آگیا ارے یہ گھر کی کیا حالت بنا رکھی ہے۔آپ کو صبح سات سے شام تک بنا بجلی رہنا پڑتا تو میں پوچھتی کہ کون سے گھر کے کام اور کون سا گھر جلدی کریں نہا لیں میں چاے لاتی ہوں بھر بجلی نا چلی جاے۔پانی تو پلا دو گھر میں ٹھنڈا پانی نہیں ہے۔کبھی کبھی مجھے لگتا ہے یہ بجلی والے ہمیں دوزخ کی تیاری دنیا میں ہی کروارہے ہیں۔جلدی کرو موبائیل بھی چارجنگ پر لگاو۔استری والے کپڑے نکالو ۔میں ایسا کرتی ہوں واشنگ مشین لگا لیتی ہوں ۔
رات کا وقت پاکستان میں ہر جگہ
بات سنیں مجھے تو بس ٹی وی پر فواد خان ماہرہ کو دیکھنا ہے ۔۔۔۔۔ بیگم دیکھو مجھے خبرنامہ دیکھنا ضد مت کرو ۔۔۔۔۔ ابا کیا ہے آپ لوگوں کو مجھے ریموٹ دیں مجھے میچ دیکھنا ہے
او او
بجلی چلی گی
بجلی کب آیے گی ؟؟؟؟
ابا ایک سستا سا یو پی ایس ہی لیے لیں اگر ہمارے بھی پانامہ میں اکاونٹس ہوتے تو آج ہی جنریٹر خرید لاتا۔
آپ کو تو ہمارا خیال ہی نہیں
ارے پپودیکھ تو سہی
صرف ہماری بجلی گی ہے یا سب کی
اماں نا ہماری نا ان کی پورے پاکستان کی
ٹوں ٹوں ۔۔۔ ٹوں ٹوں