Posted in mother, Pakistan, Uncategorized, ماں, جویریہ صدیق

بابو کی ماں

575d63910d6a9

جویریہ صدیق 

ماں نے مجھے ہمیشہ بہت پیار دیا اکلوتا جو تھا ۔ہر وقت میرے ناز نخرے اٹھانے میں مصروف رہتی یہاں تک کہ میرے ابا بھی کہہ اٹھتے کہ جب سے یہ آیا ہے صفیہ تم تو مجھے بھول ہی گئ۔ابا کی چھوٹی سی کریانے کی دوکان تھی ۔اچھا گزر بسر تھا ماں کو مجھے بابو بنانے کا بہت شوق تھا ابا کے لئے جب وہ گرم گرم پراٹھے اتراتی تو دوسری طرف میرے لئے بریڈ مکھن کے ساتھ سینک دیتی ۔اسکول کی بریک میں اسٹرابری جیم والی بریڈ  اور  گرم ماگرم چپس بنا کر لاتی اس کا تو دل کرتا مجھے سکول میں بھی نوالے خود بنا کر دیتی لیکن اس کی اجازت نہیں تھی صرف ٹفن دیے جاتی۔جب سردیاں ہوتی تو دودھ میں چاکلیٹ ڈال کر مجھے دیتی ، بہت سارے میوے صرف میرے لئے خرید کر رکھتی ۔ابا مذاق اڑاتے کیا دیسی کو ولایتی بنانے چلی ہے وہ بس مسکراتی رہتیں۔اماں اور ابا خود تو کم پڑھے لکھے تھے اس لئے میرے لئے ٹیوشن بھی ڈھونڈ لی گئی ۔دوپہر کے کھانے کے بعد اماں مجھے خود پانچ گلیاں دور چھوڑ کر آتی پر 2 گھنٹے بعد دوبارہ لینے آتی۔راستے میں مجھے ٹھنڈی بوتل خرید کردیتی کبھی قلفی تو کبھی پاپڑ ۔مجھے مسجد چھوڑ کر گھر چلی جاتیں ۔میں قرآن پاک پڑھتا ایک گھنٹے بعد پھر وہ مجھے لئےکرگھرجاتی ۔میں کھیلنے کی ضد کرتا تو سامنے میدان میں جانے کی اجازت دیتی اور خود بار بار مجھے کھڑکی سے جھانکتی رہتیں ۔میری 24 گھنٹے کی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ وہ پانچ وقت نماز بھی پڑھیں گھر کے کام بھی خود کرتیں اور روز مزے دار کھانے بھی بناتیں ۔انہیں کپڑے سینے کا بھی شوق تھا پتہ نہیں کہاں سے کپڑے ڈھونڈ کر لاتی میرے لیے پینٹ کوٹ سیتی مجھے پہناتی بہت خوش ہوتیں اور کہتی میرا بیٹا بابو بنے گا۔میں کہتا ہاں ماں میں بابو بنوں گا ۔اس ہی طرح سال گزارتے رہے میں آٹھویں کلاس میں چلا گیا ۔میں نے اماں کو کہا اب ایسے ٹفن کا ڈبہ لئے کر سکول آنے کی ضرورت نہیں ہے لڑکے میرا مذاق اڑاتے ہیں مجھے جیب خرچ چاہے میں سکول کی کینٹن سے کچھ کھاوں گا۔اماں نے بہت منت سماجت کی لیکن میں ڈٹا رہا۔پھر ماں نے مجھے روز بیس روپے جیب خرچ دینا شروع کردیا۔ابا نے آنے جانے کے لئے سائیکل خرید دی۔میں کینٹین سے بھی چیزیں کھاتا اور راستے میں رفیق ہوٹل والے بھی کچھ نا کچھ ضرور کھاتا ۔ تب بھی وہ واپسی پر میرے لئے کھانا تیار رکھتی ٹی وی اور رسالوں کی مدد سے کبھی چائنیز کھانے تو کبھی پیزا بنانے کی کوشش کرتی۔بس اس کی خواہش تھی کہ میں انگریزی بولنے والا ایک بابو بن جاوں جس کو دیکھ کر سب سلام کریں ۔

میں کالج میں تھا کہ ابا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے ۔مجھے لگا مشکل ہے کہ اب میں پڑھائی جاری رکھ سکوں مجھے کریانے کی دوکان پر بیٹھنا پڑے گا ۔پر اماں نے کہا نہیں وہ دوکان ملازم کے ساتھ سنبھال لیں گی لیکن میں پڑھائی نہیں چھوڑوں گا۔اماں جو پہلے چادر لیتی تھیں اب شٹل کاک برقعے میں دوکان جانے لگیں خود گودام والی جگہ پر نگرانی کرتیں آگے ملازم چیزیں فروخت کرتا ۔اماں کی روٹین اور بھی سخت ہوگئ ۔دوکان پھر سے اماں کی محنت سے چل پڑی۔

میں نے ان کو کہا بھی گھر پر ملازمہ رکھ لیں لیکن نہیں وہ صبح اٹھتی نماز پڑھتیں، ناشتہ بناتی دوپہر کے لئے کھانا بناتیں میرے کالج جانے کے بعد دوکان کھولتی ۔میری واپسی پر گرم روٹیاں اتراتیں مجھے کھانا کھلاتیں اور وہ واپس دوکان پر چلی جاتیں اور رات 9 بجے واپس آجاتی۔میں اپنے ماں کے احسانوں تلے دبتا جارہا تھا۔میں ہمیشہ سوچتا میری ماں عظیم عورت ہے میں خوش قسمت ہوں جو اسکا بیٹا ہوں ۔

20170110_151852

image via indileak

میں نے ڈگری مکمل کی اور مجھے اچھی سرکاری نوکری مل گئ۔میں نے ماں کو کہا اب وہ دوکان پر نہیں جائیں گی کیونکہ ان کا بیٹا بابو بن گیا ہے۔ماں نے کہا ٹھیک ہے میں نے دوکان اس ہی ملازم کو ٹھیکے پر دے دی۔میں سوٹ بوٹ میں جب بھی دفتر جاتا میرے آگے پچھے لوگ سلام صاحب سلام صاب کہتے جاتے ۔میرے اندر غرور پیدا ہونے گا۔میرے عمر کوئی 26 کے قریب ہوگئی تھی ۔اماں کے خاندان کی تمام لڑکیوں کو میں نے مسترد کردیا کیونکہ ان میں سے کوئی بابو کی بیوی بننے کے لائق نہیں تھی۔

ایک سرکاری تقریب میں میری ملاقات ٹینا سے ہوئی وہ کسی پرائیویٹ آرگنائزیشن سے وابستہ تھی۔اس کی خوبصورتی پہناوا اور بولڈنس سے متاثر ہوکر میں نے چند ہی ملاقاتوں میں اسکو پرپوز کردیا ۔ہماری شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی۔ٹینا کا خاندان بہت ہی ماڈرن تھا ان سب کے بیچ اماں کسی اور سیارے کی مخلوق لگ رہی تھیں ۔

مجھے تو بس کام اور ٹینا کے علاوہ کچھ نہیں نظر آتا تھا۔امی جی کہیں دور پیچھے رہ گئ۔وہ کھانا بنا کر انتظار کرتی رہتیں میں ٹینا باہر سے کھانا کھا آتے ۔شادی کے کچھ عرصے بعد جب ٹینا دوبارہ آفس جانے لگی تو اماں جی نے اعتراض کیا بیٹا اب بہو کو یہ گھر سنبھالنے کی ضرورت ہے ۔میں نے ان کو سختی سے جھٹک دیا کہ اب کیا آپ دقیانوسی ساس کا رول ادا کریں گی ۔وہ خاموش ہوگئیں ۔

گھر میں جھگڑے بڑھنے لگے ٹینا کو اماں سے بہت سی شکایتیں تھیں ۔کبھی اماں اسکو پوری آستین کے کپڑے پہنے کو کہتی تو کبھی اسکو وقت بے وقت گھر سے باہر جانے پر روکتی ۔کبھی مجھے کہتیں کہ میں صراط مستقیم پر چلوں ۔اماں میری سرگرمیوں سے واقف ہورہی تھیں ۔نوکری کے چند سالوں میں میرے پاس اپنا بنگلہ کار جائیداد سب موجود تھے ۔اب ٹینا کی فرمائشیں صرف سرکار کی مقرر کردہ تنخواہ میں تو پوری نہیں ہوسکتی تھیں پھر میرا اپنا بھی کچھ لائف اسٹائل تھا۔

ایک دن تو حد ہوگی میرے باس آئے ہوئے تھے اماں اپنے وہ ہی بوسیدہ سے مرینے کے سوٹ میں آگئی میں کیا بولتا ٹینا نے کہا یہ ملازمہ ہے جاو دفع ہوجاو پانی لاو۔میں شاید اس وقت بہرا ہوگیا تھا جو ٹینا کو کچھ نہیں کہا الٹا باس کے جانے کے بعد اماں سے لڑ پڑا کہ آپ کو فقیروں والے حلیے میں مہمانوں کے سامنے نہیں آنا چاہیے تھا۔اماں خاموش رہیں اور آنسو ان کی آنکھوں سے گرتے رہے۔ٹینا نے کہنا شروع کردیا مجھے الگ گھر میں رہنا ہے میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔

میں نے بھی سوچا پرانے گھر میں ان کو چھوڑ آتا ہوں وہاں کریانے کی دوکان سے معقول آمدنی بھی اماں کو ملتی رہے گی۔لیکن ٹینا نے کہا ایسا مت وہ دوکان اور گھر بھی اب لاکھوں مالیت کہ ہیں وہ ہمارے بچوں کے کام آئیں گے ۔آپ ان کو اولڈ ہوم چھوڑ آئیں ۔وہاں میں سال کے پیسے بھی جمع کروادیں گے اور اماں جی کا خیال بھی رکھا جائے گا ۔میں پلاننگ کرنا شروع ہوگیا ۔اماں کے سارے احسانات پیار قربانیاں فراموش کرگیا۔

اس دن تو حد ہوگئی ٹینا کی دوست جوکہ بہت بڑے سیاستدان کی بیٹی ہے اماں اس کے سامنے پھر بوسیدہ لباس میں آگئیں۔ٹینا نے رو کر میرا آفس بیٹھنا محال کردیا۔میں گھر آیا اور اماں سے کہا کہ آخر ان کا مسئلہ کیا وہ کیونکہ سوسائٹی میں ہماری بے عزتی کروارہی ہیں ۔جب سب کچھ گھر میں موجود ہے تو وہ اچھا لباس کیوں نہیں پہنتی ۔

بہت سال میں وہ پہلی بار بولیں بیٹا میں اس گھر میں اپنی روٹی حلال کرکے کھاتی ہو تمہارے گھر میں کا کام کرتی ہوں اس کے عوض تمہاری بیوی مجھے کھانا دے دیتی ہے۔لیکن تمہاری لائی حرام کی اترن نہیں پہن سکتی۔یہ سن کر  میرا سر وہ گھوما میں نے ان گھسیٹتے ہوئے گھر سے نکالا گاڑی میں دھکیلا اور اولڈ ہوم چھوڑ آیا۔

مجھے کبھی اپنے فیصلے پر ندامت نہیں ہوئی۔چھ ماہ گزر گئے میں نے اپنی ماں کا حال بھی نہیں پوچھا۔ٹی وی دیکھتے ہوئے نظر پڑی مارنگ شو پر پڑی ۔ ہوسٹ ماں کا عالمی دن منا رہی تھی ۔پتہ نہیں کیوں میں نے بھی پروگرام دیکھنا شروع کردیا ۔بہت سی مائیں اپنے بچوں سے گلے شکوے کررہی تھیں ۔آخری کونے میں ایک عورت اپنا منہ ڈوپٹے  چھپا رہی تھی۔وہ ہاتھ میں کیسے بھول سکتا وہ بوڑھا نجیف ہاتھ میری ماں کا تھا ایک جلے کا نشان دوسرا اس کے قریب بڑا کالا تل وہ میری ہی ماں تھی بابو کی ماں ۔۔

مارننگ شو میں بیٹھی تمام ماوں نے اپنے بچوں سے بہت گلے شکوے کئے روتی رہیں کچھ تو اپنے بچوں کو بدعائیں بھی دیں ۔اب مائک میری ماں کے آگے تھا میرا دل دھک دھک کرنے لگا میری ماں کیا بولے گی۔ان کا چہرا چادر میں چھپا تھا وہ بولنے لگیں میرا دماغ سن ہورہا تھا دل پھٹ رہا تھا

 ” میری تربیت میں ہی کھوٹ تھا جو آج میں ایک دارالامان میں موجود ہوں ۔میں اپنے آپ سے شرمندہ ہوں کہ میں اپنی اولاد کی اچھی پرورش نہیں کرسکی قصور وار وہ نہیں ہم ہیں “

میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا سب ماوں نے اپنے بیٹوں کو کوسا بدعائیں دیں صرف میری ماں نے خود کو قصور وار قرار دیا ۔جبکہ قصور ان کی تربیت کا نہیں تھا۔ میرے اندر کے کمپلیکس لالچ اور ہوس نے گھر کرلیا تھا ۔میں نے روتے روتے گاڑی نکالی سارے ملازم مجھے مجھے دیکھتے رہ گئے ۔سگنل پر بھی لوگ مجھے دیکھتے رہے میں روتا روتا اولڈ ہوم پہنچا تو معلوم پڑا ماں نے میرے بھیجے پیسوں کو کبھی ہاتھ میں لگایا وہ یہاں سے بھی کپڑے سیی کر حق حلال کا کھا رہی تھی۔

میں نے ماں کے پاوں پکڑ لئے اپنا سر ان کے پیروں میں رکھ دیا ۔اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگی ۔میری ماں نے کہا رب سے معافی مانگو اسکو راضی کرو۔اس کے بعد میں اپنی ماں کو ساتھ لئے آیا تمام برائیوں سے توبہ کرکے صرف رزق حلال کمانے لگا۔میری بیوی نے شروع میں بہت شور ڈالا لیکن میں نے اس کو صاف کہہ دیا بیوی تو مجھے اور مل جائے گی لیکن ماں نہیں ۔پھر وہ خاموش ہوگئ اور میرے گھر کا سکون لوٹ آیا ۔اب جب بھی میں گھر سے نکلتا ہوں تو ماں کو سلام کرکے اور واپس آتا ہوں تو پہلے ان کا چہرہ دیکھتا ہوں زندگی میں صرف سکون ہی سکون ہے۔اگر آپ بھی کسی ماں کے بابو ہیں اور آپ کی ماں اولڈ ہوم میں ہے تو اس کو واپس لئے آئیں کہیں ایسا نا ہو دنیا میں ملی جنت آپ سے چھین جائے۔

Javeria Siddique is Journalist, Author and Photographer.

Twitter @javerias fb : Official Javerias

Posted in Army, ArmyPublicSchool, Pakistan, ZarbeAzb, جویریہ صدیق

سانحہ اے پی ایس کے شہدا کی یاد میں دعائیہ تقریب جاری

پشاور: سانحہ اے پی ایس کے شہدا کی یاد میں دعائیہ تقریب جاری۔

جویریہ صدیقimg-20161215-wa0062 ۔سانحہ اے پی ایس کی دوسری برسی کے موقع پر حسن زیب شہید کے گھر پر دعائیہ تقریب میں لواحقین کی بڑی تعداد میں شرکت ۔لواحقین نے شہدا کے لئے شمعیں روشن کی اور فاتحہ خوانی کی ۔اس موقعے پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے ورثا دھاڑیں مار مار کر روتے رہے اور اپنے پیاروں کو یاد کرتے رہے۔حسن زیب شہید کے گھر میں تمام شہدا اے پی ایس کی تصاویر آویزاں ہیں لواحقین ان تصاویر کے آگے شمعیں جلا کر ان لمحات کو یاد کرتے رہے جو انہوں نے زندگی میں ساتھ گزرے تھے ۔والدین خاص طور پر سولہ دسمبر کی ہولناکی کو یاد کرکے روتے رہے ۔اپنے بچوں اور ان کے اساتذہ کے لئے فاتحہ خوانی کرنے کے ساتھ ساتھ خود کے لئے بھی صبر کی دعاء کرتے رہے ۔حسن زیب شہید نے سولہ دسمبر  اپنے اساتذہ اور ساتھیوں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا تھا ۔دو سال سے ہر ماہ ان کے گھر میں اے پی ایس فیملیز دعائیہ تقریبات میں اکٹھی ہوتی ہیں ۔

img-20161215-wa0061

img-20161215-wa0069aps-3aps-5

جویریہ صدیق صحافی اور فوٹوگرافر ہیں ۔ سانحہ آرمی پبلک سکول شہدا کی یادداشیں کتاب کی مصنفہ ہیں۔آپ انہیں ٹویٹر پر فالو کرسکتے ہیں @javerias

Posted in Javeria Siddique, TRT Urdu, Uncategorized, جویریہ صدیق

. آگاہی ایوارڈ پاکستان سے ٹی آر ٹی اُردو سروس کو جویریہ صدیق کے پروگرام “پاکستان ڈائری” پر ایوارڈملکی اورغیر ملکی کوریج

 

آگاہی ایوارڈ پاکستان سے ٹی آر ٹی اُردو سروس کو جویریہ صدیق کے پروگرام “پاکستان ڈائری” پر ایوارڈ

آگہی ایوارڈ نے پاکستان ڈائری میں لکھے گئے گھریلو باغبانی کے آرٹیکل اور ریڈیو پروگرام کو ایوارڈ کا حقدار ٹھہرایا ۔اس آرٹیکل میں گھر میں کیمیکل سے پاک سبزیوں اور پھلوں کو اگانے کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی گئی تھی

12.12.2016 ~ 15.12.2016

آگاہی ایوارڈ پاکستان سے  ٹی آر ٹی اُردو سروس کو  جویریہ صدیق کے پروگرام

سلام آباد : مختلف شعبہ جات میں اعلی کارکردگی

کا مظاہرہ کرنے والے صحافیوں کو آگہی میڈیا ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ٹی آر ٹی اردو سروس سے وابستہ صحافی جویریہ صدیق کو شعبہ زراعت میں 2016 کے بہترین صحافی ہونے کا ایوارڈ دیا گیا۔جویریہ صدیق کے سلسلہ وار پروگرام پاکستان ڈائری نے عوام میں بہت کم وقت میں مقبولیت پائی ۔ٹی آر ٹی اردو سروس کی اس مثبت کاوش کو پاکستان بھر میں سراہا گیا۔

آگہی ایوارڈ نے پاکستان ڈائری میں لکھے گئے گھریلو باغبانی کے آرٹیکل اور ریڈیو پروگرام کو ایوارڈ کا حقدار ٹھہرایا ۔اس آرٹیکل میں گھر میں کیمیکل سے پاک سبزیوں اور پھلوں کو اگانے کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

اگہی ایوارڈ 2016 میں مارچ 2015 سے اگست 2016 تک نشر اور شائع ہونے والی رپورٹس شامل تھیں ۔آگہی ایوارڈ کے منتظمین عامر جہانگیر اور پریوش چوہدری کے مطابق اس سال 3500 سے زائد نامزدگیاں سامنے آئی جس میں سے 48 صحافیوں کو ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا۔آگہی ایوارڈ پاکستان میں کام کرنے والوں صحافیوں کے لئے واحد ایوارڈ ہیں۔جس میں پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا ریڈیو اور ان لائن میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو ان کی اعلی کارکردگی پر ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔2012 میں پہلی بار اس ایوارڈ کا اجرا ہوا تھا۔

2016 کے بہترین نیوز اینکر کے ایوارڈ وسیم بادامی اور عائشہ بخش کے نام ہوئے ۔مستند ترین اینکر نسیم زہرہ قرار پائیں ۔جب کے انویسٹیگٹیو جرنلسٹ آف دی دئیر کا مشترکہ ایوارڈ  اے ار وائی کے پروگرام پاور پلے پروگرام کے اینکر ارشد شریف اور پروڈیوسر عدیل راجہ کے نام ہوا۔مقبول ترین چینل اے آر وائی قرار پایا۔


http://www.trt.net.tr/urdu/pkhstn/2016/12/12/aghy-ywrdd-pkhstn-sy-tty-ar-tty-urdw-srws-khw-jwyryh-sdyq-khy-prwgrm-pkhstn-ddy-ry-pr-ywrdd-628962

پاکیستانین اوسکاری صاحب‌لرینه وئریلدی

آگاه اؤدول‌لری اوچون بو ایل اؤلکه سویه‌سینده اوچ مین 500دن چوخ شخص یازی‌لی مطبوعات، تلویزیون، رادیو و اینترنت مئدیاسی داخیل 35 کاتگوریده نامیزد گؤستریلدی

13.12.2016 ~ 15.12.2016

پاکیستانین اوسکاری صاحب‌لرینه وئریلدی

پاکیستانین اوسکاری اولا‌راق بیلینن آگاه اؤدولو صاحب‌لرینه وئریلدی.

ایسلام آباددا گئچیریلن اؤدول مراسیمینده ت‌رت تورکیه‌نین سسی رادیوسو اوردوجا سرویسی اوچون پروگرام حاضرلایان جوریه صدیقی 2016 تاریم کاتگوریسینده اؤدول قازاندی.

صدیقی پروگرامی پاکیستان جمعیتی و تورکیه‌نین سسی رادیوسونون اوردوجا پروگرامی پاکیستاندا قیسا بیر مدتده شؤهرت قازاندی.

آگاه اؤدولو اونون باغچی‌لیق ایله علاقه‌لی یازی‌لاری و رادیو پروگرامین‌دان اؤترو وئریلمیش‌دیر.

اونون یازی‌لاری اینسان‌لاری میوه و یاشیللیقلاری نئجه یئتیش‌دیره بیله‌جگی قونوسوندا حساسلاشدیرمیشدیر.

آگاه اؤدول‌لری اوچون بو ایل اؤلکه سویه‌سینده اوچ مین 500دن چوخ شخص یازی‌لی مطبوعات، تلویزیون، رادیو و اینترنت مئدیاسی داخیل 35 کاتگوریده نامیزد گؤستریلدی.

آگاه اؤدول‌لرینه ژورنالیستلر ماراق گؤستردی و آگاه اؤدول‌لری پاکیستاندا سوسیال مئدیا یولو ایله 6 میلیون‌دان چوخ انسانا چاتدی و خالق‌لارین سئچه‌نگی اؤدول‌لری کاتگوریلری اوچون اس‌ام‌اس یولو ایله هارداسا 1.5 میلیون نفره اولاشیلدی.

بؤلگه‌ده ایلک دفعه آگاه اؤدول‌لری خالق‌لارین سئچه‌نگی کاتگوریلرینی اؤلچه‌بیلمک اوچون بؤیوک بیر بیلگی و دویارلی‌لیق تحلیلی ائتدیرمیش‌دیر

http://www.trt.net.tr/turki/khwltwr-w-sn-t/2016/12/13/pkhystnyn-wskhry-shblrynh-wy-ryldy-629798

В Исламабаде состоялась церемония награждения AGAHI

Жаверия Сиддик (Javeria Siddique), занимающаяся подготовкой программ для радио Голос Турции на языке урду, была удостоена награды в категории Сельское хозяйство – 2016

13.12.2016 ~ 15.12.2016

В Исламабаде состоялась церемония награждения AGAHI

В Исламабаде состоялась церемония награжденияAGAHI – награды, которую называют пакистанским Оскаром.

Жаверия Сиддик (Javeria Siddique), занимающаяся подготовкой программ для радио “Голос Турции” на языке урду, была удостоена награды в категории “Сельское хозяйство – 2016”.

Программа “Общество Пакистана”, автором которой является Жаверия Сиддик,  стала очень популярной. В этой программе она рассказывает о том, как нужно правильно выращивать фрукты и овощи.

На получение премий AGAHI в 35 категориях были номинированы более трех с половиной тысячи представителей всех видов СМИ – прессы, телевидения, радио и интернета.


Pakistan: Großes Interesse für AGAHI-Preise

Auszeichnung für Programmgestalterin der Urdu-Redakiton der TRT-Stimme der Türkei

13.12.2016 ~ 15.12.2016

Pakistan: Großes Interesse für AGAHI-Preise

Die als Oscar Pakistans bekannten AGAHI-Preise sind verliehen worden. Bei der Preisverleihung in Islamabad wurde Javeria Siddique, die Programme für die Urdu-Redaktion von TRT – Stimme der Türkei vorbereitet, in der Agrar Kategorie 2016 ausgezeichnet. Das Programm von Siddique erlangte in der pakistanischen Gesellschaft und im Urdu-Programm der Stimme der Türkei in kürzester Zeit großen Ruhm. Der AGAHİ-Preis wurde ihr für ihre Artikel und Radioprogramme zu Gartengestaltung verliehen. Mit ihren Artikeln wurden Menschen zum Obst- und Gemüseanbau sensibiliert. Dieses Jahr wurden in ganz Pakistan mehr als 3500 Menschen aus Printmedien, Fernsehen, Radio und Internet für die AGAHİ-Preise nominiert. Die AGAHI-Preise erreichten in Pakistan über die sozialen Netzwerke mehr als 6 Millionen Menschen, für die Kategorie Preise des Volkes wurden über SMS 1,5 Millionen Menschen errreicht.


..

La Voz de Turquía recibe el premio de AGAHI, el Óscar de Pakistán

Javeria Siddique, quien prepara un programa para el departamento de Urdú de la Voz de Turquía de la TRT, ganó el premio en la categoría de Agricultura 2016

13.12.2016 ~ 15.12.2016

La Voz de Turquía recibe el premio de AGAHI, el Óscar de Pakistán

Se entregaron los premios de AGAHI conocidos como el Óscar de Pakistán.

Javeria Siddique, quien prepara un programa para el departamento de Urdú de la Voz de Turquía de la TRT, ganó el premio en la categoría de Agricultura 2016.

Siddique ganó el premio por sus artículos y su programa sobre jardinería.

Los artículos de Siddique narran cómo se cultivan frutas y verduras.

A los premios de AGAHI se presentaron candidatos más de tres mil 500 artículos en 35 categorías, entre ellas prensa escrita, televisión, radio e internet.

Los premios de AGAHI alcanzaron más de 6 millones de personas a través de la red social, y obtuvieron el voto de casi 1,5 millones de personas para la categoría de “Premios de la Elección del Pueblo”.

Los premios de AGAHI por primera vez analizaron la información y la sensibilidad del pueblo gracias a la categoría de la “Elección del Pueblo”.


فارسی

جوایز AGAHI به صاحبانشان اعطا شد

Javeria Siddique تهیه کننده برنامه برای سرویس زبان اردو در رادیو صدای ترکیه تی آر تی، در رشته کشاورزی 2016 جایزه دریافت کرد

13.12.2016 ~ 15.12.2016

جوایز AGAHI  به صاحبانشان اعطا شد

جوایز AGAHI که بعنوان اسکار پاکستانی شناخته می شود به صاحبانشان اعطا شد.

در مراسم اعطای جوایز که در اسلام آباد ترتیب یافت، Javeria Siddique تهیه کننده برنامه برای سرویس زبان اردو در رادیو صدای ترکیه تی آر تی، در رشته کشاورزی 2016 جایزه دریافت کرد.

برنامه Javeria Siddique با عنوان جامعه پاکستان و برنامه رادیو صدای ترکیه به زبان اردو در کوتاه مدت در پاکستان به شهرت دست یافت.

جایزه AGAHI بخاطر مقالات مربوط به باغچه داری و برنامه هایی رادیوی به وی اعطا شده است.

نوشتجات وی انسانها را در رابطه با نحوه پرورش میوه و سبزیجات حساستر کرده است.

برای جوایز AGAHI در سطح این کشور بیش از هزار و 500 نفر در 35 رشته منجمله مطبوعات، تلویزیون، رادیو و اینترنت بعنوان نامزد نشان داده شدند.

جامعه روزنامه نگاران به جوایز مذکور توجه خاصی نشان دادند. بطوریکه جوایز AGAHI از طریق رسانه های اجتماعی پاکستان به بیش از 6 میلیون نفر و جوایز گزینه ملتها نیز از طریق اس ام اس به حدود 1 و نیم میلیون نفر رسیده است.


Agahi’  mükafatı sahiblərinə təqdim  edilib

Pakistanın  Oscarı   olaraq  qəbul  edilən    ‘Agahi’  mükafatı sahiblərini  tapdı.

14.12.2016 ~ 15.12.2016

‘Agahi’  mükafatı sahiblərinə təqdim  edilib

İslamabadda təşkil edilən mükafat mərasimində TRT Türkiyənin Səsi Radiosunun Urduca  departamentinin yayım  proqramında   efirə   buraxılmaq  üzrə   hazırlanan  Pakistan Cəmiyyəti veriliş 2016 Kənd Təsərrüfatı nominasiyasında mükafata   layiq  görüldü.   Verilişin  müəllifi  Javeria Siddique olub.

Javeria Siddiquein,  Türkiyənin   səsi    radiosunun   Urduca   rəhbərliyinin  yayım  proqramı   üçün  hazırladığı  ‘Pakistan Cəmiyyəti’  adlı  veriliş  Pakistanda reytinq   rekordu qırdı.

Qeyd  edək  ki, 2016  Agahi Mükafatlarına  üç min 500-dən çox  məqalə,  məktub  və şərh, televiziya, radio və internet mediası daxil  olmaqla   35   kateqoriyada namizəd göstərildi.

Agahi Mükafatlarına jurnalistlərin də  böyük  marağı olub

Posted in Army, ArmyPublicSchool, Javeria Siddique, ZarbeAzb, جویریہ صدیق

سانحہ آرمی پبلک سکول چار خاندانوں کے دو دو بیٹے ان سے بچھڑ گئے

page

جویریہ صدیق

Javeria Siddique 

۔

سانحہ آرمی پبلک سکول  سولہ دسمبرکو 2سال مکمل ہوجائے گا ۔لیکن ایسا لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو جب بچے ہنستے مسکراتے سکول گئے تھے لیکن واپس نا آسکے اور والدین کو اپنے بچے تابوت میں ملے۔دو سال مکمل ہونے گیے پر بہت سے والدین اس حقیقت کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ان کے بچے ہمیشہ ہمشہ کے لئے چلے گئے اور اب واپس نہیں آئیں گے۔جب بھی دروازے پر دستک ہو یا سکول وین کا ہارن سنائی دے توان کے دل میں یہ امید جاگ جاتی ہے کہ شاید ہمارا بیٹا واپس آگیا ہو۔

سانحہ اے پی ایس میں ایک سو سنتالیس افراد شہید ہوئے۔اس سانحے میں متاثر ہونے والے چار خاندان ایسے بھی ہیں جن کے دو دو بیٹے شہید ہوئے۔کسی بھی درد دل رکھنے والے شخص کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ ان خاندانوں پر کیا بیت رہی ہوگی۔شامویل طارق ننگیال طارق،نور اللہ درانی سیف اللہ درانی ،ذیشان احمد اویس احمد اور سید عبداللہ سید حسنین نے سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔

ننگیال طارق شہید تمغہ شجاعت  شامویل طارق شہید تمغہ شجاعت

unnamed-3

پندرہ سالہ شامویل طارق اور تیرہ سال کے ننگیال طارق بلترتیب نویں کلاس اور آٹھویں کلاس کے طالب علم تھے.دو سال پہلے ہی دونوں کو اچھی تعلیمی سہولیات کے باعث آرمی پبلک سکول ورسک روڈ میں داخل کروایا گیا۔دونوں کو پاک آرمی جوائین کرنے کا شوق تھا۔شہدا کی بہن مہوش جوکہ مقامی یونیورسٹی میں بی ایس آنر کر رہی ہیں وہ کہتی ہیں اس واقعے نے ہماری زندگی ویران کردی ہے.میرے دونوں بھائی بہت ذہین اور خوش اخلاق تھے۔

ہم آج بھی سولہ دسمبر دو ہزار چودہ میں سے نہیں نکل سکے۔ہمارے سامنے دونوں بھائیوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پڑی تھیں۔ وہ بھائی جو ہماری امیدوں کا مرکز تھے ہمارے والدین کے بڑھاپے کا سہارا تھے۔ ہمیں یقین نہیں آرہا تھا وہ چلے گئے۔میری والدہ کے آنسو اب بھی خشک نہیں ہوئے۔سولہ دسمبر سانحہ آرمی پبلک سکول ہمارے ہنستے بستے گھر کو ہمیشہ کے لئے اجڑ گیا۔.میں چاہتی ہوں کہ ان بچوں کو انصاف دیا جائے اور دہشتگردوں کو کڑی سزا دی جائے.

 

 

نور اللہ درانی شہید  تمغہ شجاعت  سیف اللہ درانی شہید تمغہ شجاعت

unnamed-2

نور اللہ سیف اللہ دونوں بھائی آرمی پبلک سکول میں
نویں کلاس اور آٹھویں کے طالب علم تھے.دونوں بچپن سے ہی آرمی پبلک سکول و کالج ورسک روڈ میں زیر تعلیم تھے.شرارتی نٹ کھٹ نور اللہ اور سیف اللہ گھر بھر کی جان تھے..اکثر دونوں کھلونا بندوقیں خریدتے اور پھر آرمی بن کر دہشتگردوں کو پکڑنے کا کھیل کھیلتے. دونوں کو آرمی میں جانے کا بہت شوق تھا نور کو بری فوج میں اور سیف کو پاک فضائیہ جوائین کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا.نور یہ کہتا تھا میں فوج میں جاکر تمام ملک دشمنوں کا خاتمہ کروں گا اور سیف کو تو جہاز اڑنے کا شوق تھا وہ کہتا تھا میں ایف سولہ طیارہ اڑاوں گا اور دشمن کے ٹھکانوں پر بمباری کرکے انہیں نیست و نابود کردوں گا..شہید طالب علموں کی بہن ثناء کہتی ہیں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا کہ وہ یاد نا آتے ہوں ہم کھانا بھی کھانا چاہیں پر چند لقموں کے بعد نوالے حلق میں پھنس جاتے ہیں.میرے والدین صبر ہمت کی مثال ہیں لیکن ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جس میں ہم روتے نا ہو.میں بس یہ دعاء کرتی ہوں کہ اللہ تعالی سب والدین کو صبر دے آمین۔

 

سید عبداللہ شاہ شہید تمغہ شجاعت  سید حسنین رضا شہید تمغہ شجاعت

unnamed-1

سانحہ آرمی پبلک سکول اپنے پیچھے بہت سی دردناک داستانیں چھوڑ گیا ہے.جس میں ایک دل سوز داستان سید فضل حسین کی بھی ہے.جن کے دونوں بیٹوں سید عبداللہ اور سید حسنین نے آرمی پبلک سکول و کالج ورسک روڈ میں سولہ دسمبر کو شہادت پائی.عبداللہ دسویں حماعت کے طالب علم تھے اور ڈاکٹر بن کر ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔جبکے سید حسنین آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے ان کی والدہ انہیں فوج میں بھیجنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ سانحے کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے لیکن والدین کی نگاہیں اب بھی  ان دونوں کی راہ تک رہے ہیں.گھر سے دو بچوں کا چلے جانا کسی قیامت سے کم نہیں۔.
شہدا کے والد فضل حسین کہتے ہیں کہ ہمارا گھر ان کے جانے بعد کسی کھنڈر کا سا سماں پیش کرتا ہے ان کی والدہ بچوں کے کپڑوں کو نکال کر چومتی ہیں اور روتی ہیں۔ہمارے بچے شروع سے ہی اے پی ایس میں زیر تعلیم تھے عبد اللہ خاص طور پر پوزیشن ہولڈر تھا۔عبداللہ کی شہادت کے بعد جب اس کا نتیجہ آیا اس کی پہلی پوزیشن تھی۔ان دوںوں کے بعد ہماری زندگی تباہ ہوگئی ان کے لئے ہمارے سارے ارمان ادھورے رہ گئے۔پر اس بات سے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ انہوں نے وطن کی خاطر جان دی۔۔پاک آرمی کے افسران نے ہمارا بہت ساتھ دیا مشکل کی گھڑی میں ہمیں اکیلا نہیں چھوڑا۔اللہ تعالی ہماری صفوں میں اتحاد کردے اس وطن میں امن و امان کردے آمین۔

 

ذیشان احمد شہید تمغہ شجاعت  اویس احمد شہید تمغہ شجاعت

unnamed

ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے صوبیدار ر اکرام اللہ کے دو بیٹوں نے بھی سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔ذیشان احمد دسویں کلاس میں اور اویس احمد آٹھویں کلاس میں تھے۔پلے گروپ سے ہی دونوں اے پی ایس میں زیر تعلیم تھے۔ذیشان ڈاکٹر بننا چاہتے تھے اور اویس کی دلچسپی کمپیوٹر میں تھی۔شہید بچوں کے والد اکرام اللہ کہتے ہیں کہ میرے دونوں بچے بہت اخلاق والے تھے۔ہمیشہ سب کی مدد کرتے۔ہمیں لگتا ہے کہ جیسے آج بھی ہم کہیں سولہ دسمبر دو ہزار چودہ میں ہی کھڑے ہیں۔ان کی والدہ بہت ہی رنجیدہ رہتی ہیں ۔میں نے خود ساری زندگی فوج میں رہ کر وطن کی خدمت کی مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے بیٹوں نے پاکستان کے لئے اپنی جان دی۔ان بچوں کی قربانی کے بعد پاکستان کے امن و امان پر بہت فرق پڑا اور صورتحال بہتر ہوئی۔میری دعاء ہے کہ اللہ تعالی پاکستان کو امن کا گہوارا بنادے آمین۔

جویریہ صدیق صحافی اور فوٹوگرافر ہیں ۔ سانحہ آرمی پبلک سکول شہدا کی یادداشیں کتاب کی مصنفہ ہیں۔آپ انہیں ٹویٹر پر فالو کرسکتے ہیں @javerias

Posted in Army, ArmyPublicSchool, ZarbeAzb, جویریہ صدیق

اے پی ایس کا غازی

 

.

 

 

 

.

 

 

 

...جویریہ صدیق.….
17 سالہ محمد طلحہ علی16 دسمبر کو موت کو ہرا کر غازی بن کر لوٹے، پر واپسی کا سفر اتنا آسان نہیں تھا، طلحہ پشاور سانحہ کے وقت ہال میں ہی موجود تھے، جب موت کی ہولی کھیلی گئی، ایک گولی طلحہ کو جبڑے میں لگی اور تین جسم کے اوپری حصے میں دائیں طرف لیکن کہتے ہیں کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے،گولیاں لگنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے طلحہ کو دوسری زندگی عطاء کی۔

طلحہ کے والد محمد علی کہتے ہیں میرے تین بچوں میں طلحہ سب سے چھوٹا ہے،نرسری کلاس سے ہی طلحہ آرمی پبلک سکول میں زیر تعلیم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سولہ دسمبر کو پشاور میں بہت ٹھنڈ تھی طلحہ نے کہا آج سکول نہیں جاتا کیونکہ سیشن کا اختتام تھا اور چھٹیاں ہونے والی تھی،لیکن پھر اٹھ گیا تیار ہوا میں خود اسے سکول چھوڑ کر آیا۔

مجھے کوئی دس بجے کے بعد اطلاع ملی کے اسکول پر حملہ ہوگیا ہے تو میں فوری طور طلحہ کو لینے کے لئے بھاگا،کچھ بچوں کو اسکول سے متصل ڈیفنس پارک میں منتقل کردیا گیا تھا، وہاں مجھے ایک بچے نے بتایا کے انکل طلحہ کو گولی لگی ہے، میں بس وہاں ہی ساکت ہوگیا، نا مجھے کچھ سنائی دے رہا تھا نا ہی دکھائی، اس بچے نے مجھے کہا انکل اس کو منہ پر گولی ہے، میں اسپتال کی طرف گیا تو ہر طرف ننھے پھولوں کی لاشیں ہی لاشیں تھیں، میں طلحہ کو ڈھونڈتا رہا نہیں ملا تو نڈھال ہو کر بیٹھ گیا۔

اتنے میں سی ایم ایچ میں ایک نیک دل بریگیڈیئر صاحب نے مجھے تسلی دی ،پانی پلایا اور اس کے بعد مجھے پتہ چلا کے طلحہ آپریشن تھیٹر میں ہے،طلحہ کی والدہ شدت غم سے نڈھال تھیں، میں نے ان کو تسلی دی کے وہ زخمی ہے، جب آپریشن کے بعد میں نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو منہ کا ایک حصہ گولی کی وجہ سے اڑ چکا تھا، میرے بیٹے کا جبڑا اور ایک طرف کے سارے دانت ٹوٹ گئے تھے زبان بھی زخمی اور جسم پر دھماکے اور گولیوں کے نشان۔

ایسا کون سا حصہ نہیں تھا جس پر زخم نا ہو میں پتہ نہیں کیسے یہ منظر دیکھ رہا تھا، مجھے لگ رہا تھا۔میں نے بہت ہمت پیدا کرکے اپنے بیٹے کو دیکھا لیکن اپنی اہلیہ کو بہت دن طلحہ کو اس حالت میں نہیں دیکھنے دیا، کیونکہ اگر وہ پہلے دن طلحہ کو ایسے دیکھ لیتی تو اپنے ہوش گنوا دیتی،جب طلحہ ہوش میں آیا تو میں اس کی والدہ کو لے کر گیا، سی ایم ایچ کے ڈاکٹرز اور عملے نے ہمارا بہت خیال رکھا، ان کی شفقت اور محنت کی بدولت طلحہ کی صحت بہتر ہونا شروع ہوئی۔

طلحہ کے چہرے پر اب بھی 16 دسمبر کی یادیں نمایاں ہیں، ایک طرف سے وہ کھانا نہیں کھا سکتا ،سخت چیزیں نہیں کھاسکتا کیونکہ تمام دانت گولی لگنے سے ٹوٹ گئے تھے.طلحہ پھر بھی خود کو نفسیاتی اور جسمانی طور ہر مضبوطی سے سنبھالے ہوئے ہے، طلحہ نے میٹرک کا امتحان اس ہی حالت میں دیا اور نو سوسے زائد نمبر حاصل کئے،اب وہ فرسٹ ائیر میں ہے لیکن ناسازی طبیعت کے باعث ریگولر کلاس نہیں لے پارہا۔

غازی طلحہ کہتے ہیں میرے حوصلے بلند ہیں اس سانحے کے بعد میرے اندر بہت ہمت آگئی ہے، میں نے پری انجینئرنگ میں ایڈمیشن لے لیا ہے، میرا خواب ہے کہ میں سول انجینئر بنوں، مجھے میتھس، فزکس اور مطالعہ پاکستان بہت پسند ہیں، اب میں طبیعت میں بہتری محسوس کرتا ہوں تو کرکٹ کھیلنا پسند کرتا ہوں لیکن امی کو فکر ہوتی ہے وہ مجھے کہتی ہے ان ڈور گیم کھیلو۔

جب بھی16 دسمبر یاد آتا ہے تو چلے جانے والے دوست بہت یاد آتے ہیں، پر میں اسے وطن کی خاطر ایک عظیم قربانی گردانتا ہوں، جب اس دن کی ہولناکی یاد آتی ہے تو میں اس وطن عزیز پر جان قربان کرنے والوں کی داستانیں پڑھتا ہوں، اس سے میرے اندر جذبہ حب الوطنی مزید بڑھ جاتا ہے، میرے منہ پر گولی لگی اب بھی میرے زخم مکمل طور پر بھرے نہیں لیکن پھر بھی میرا جذبہ جوان ہے، مجھے باہر جاتے ہوئے ماسک پہنا پڑھتا ہے لیکن پھر بھی میں زندگی کی جنگ لڑ رہا ہوں۔

مجھے امید ہے مزید علاج سے میں مکمل طور پر نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئوں گا، میں اس بات سے مکمل آگاہ ہوں کہ مکمل صحت یاب ہونے میں کافی وقت لگے گا، لیکن میں خود کو نفسیاتی طور پر مکمل صحت مند محسوس کرتا ہوں اورخود کو خوش رکھتا ہوں، میرے والدین میرے خاندان اور دوستوں کی توجہ اور پیار نے مجھے ٹوٹنے نہیں دیا۔16 دسمبر کے بعد سے مجھے رات کو جلد نیند نہیں آتی تو میں خود کو کتابوں میں مگن کرلیتا ہوں،پر میرے بہت سے غازی ساتھی بہت تکلیف میں ہیں وہ ڈرتے ہیں رات کو سو نہیں پاتے جسمانی اور نفسیاتی تکلیف سے وہ نڈھال ہیں۔

طلحہ کہتے ہیں اس سانحے نے ہم میں وہ جذبہ بیدار کردیا ہے کہ دہشتگردی کو ختم ہم نے ہی کرنا ہے، اچھی تعلیم حاصل کرکے ہر شعبے میں ترقی کرکے اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ اس سانحے نے مجھے وطن کی قدر سیکھا دی ہے، کس طرح ہمارے بڑوں نے قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا اب ہم بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

نوجوان غازی کا حوصلہ اور جذبہ اپنی جگہ لیکن اب بھی طلحہ کو علاج کی ضرورت ہے اور اچھی تعلیم کی بھی لیکن یہ حکومتی معاونت کے بغیر ممکن نہیں، طلحہ کی ناک سرجری چہرے کی سرجری اور دوبارہ دانت لگنے کا عمل جاری ہے، جنرل راحیل شریف کی ہدایت پر اے پی ایس سانحے کے تمام بچوں کا علاج سی ایم ایچ میں مفت ہوا،لیکن اب پھر سے اے پی ایس کے بہت سے غازی دوبارہ فالو اپ چیک کے منتظر ہیں، بچوں کے چہروں کی سرجری، ان کی ہڈیوں کی بحالی اور نفسیاتی صحت پر کام فوری طور پر کرنا ہوگا۔
Javeria Siddique
twitter@javerias

Posted On Tuesday, September 08, 2015

Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan, ZarbeAzb, جویریہ صدیق

شہید رفیق رضا بنگش‎

13754116_1770452179899252_934988793871424411_n

 …..جویریہ صدیق……

یوں تو آرمی پبلک اسکول کے شہید اساتذہ اور بچوں کا چالیسواں ہوچکا ہے لیکن لواحقین کے لیے16 دسمبر کے بعد سے وقت تھم گیاہے۔وہ زندگی سے وابستہ امیدیں اور تمام رونقیں منوں مٹی تلے دبا چکے ہیں۔شہدا کے لواحقین ہیں اس لیے صبر و استقامت کی مثال تو ہیں لیکن ہیں تو انسان ہی نا جیتے جاگتے، اپنے پیاروں کو کھو دینے کا غم انہیں اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے۔جانے والے چلے گئے لیکن لواحقین کو زندگی بھر کا روگ دے گئے۔جہاں پہلے پھول مسکرایا کرتے تھے اب وہاں خزاں کا موسم ہے۔
رفیق رضا بنگش بھی ان ہی ایک پھولوں میں ایک پھول ہے جو 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر حملے کے دوران مرجھا گیا۔رفیق شہید بھی ہال میں دوسرے بچوں کے ساتھ موجود تھا ،جہاں ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی جارہی تھی۔طالبان ظالمان موت کی صورت میں نازل ہوئے اور بچوں ان کے استاتذہ پر گولیاں برسانی شروع کردی۔رفیق بنگش کو بھی سر میں گولی لگی اور یوں صرف 15 سال کی عمر میں اس نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ جام شہادت نوش کرلیا۔
زندگی سے بھرپور تابعدارمیٹرک کا طالب علم رفیق رضا بنگش ہمیشہ کلاس میں پوزیشن لیتا تھا۔پانچ سال سے آرمی پبلک سکول میں زیر تعلیم تھا ،والدین نے اس لیے آرمی پبلک سکول میں داخل کروایا کیونکہ یہ پشاور کے بہترین اسکولوں میں شمار میں ہوتا ہے۔رفیق کے ساتھ ہی اس کے چھوٹے بھائی مرتجب رضا بنگش کو بھی آرمی پبلک سکول میں داخل کروایا گیا اور یوں دونوں بھائی روزانہ ساتھ اسکول جاتے۔ رفیق پوزیشن ہولڈر ہونے کے ساتھ ساتھ اسکول میں نعت خوانی کرتا اور رمضان ،ربیع الاول میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ضرور حصہ لیتا۔
رفیق رضا بنگش سائنس کا طالب علم تھا لیکن وہ سائنس کو روزمرہ زندگی پر بھی اپلائی کرتا،گھر میں کوئی چیز بھی خراب ہوجاتی رفیق اپنا ٹول بکس اٹھاتا اور خود ہی گھر میں چیزیں ٹھیک کرنا شروع کردیتا اور اکثر کامیابی سے انہیں ٹھیک کردیتا۔رفیق کو بچپن سے ہی گاڑیوں کا بہت شوق تھا پہلے تو خوب سارے کھلونے جمع کرتا اور پھر خوب کار ریسنگ ہوتی۔عمر کے ساتھ ساتھ گاڑیوں میں اس قدر دلچسی بڑھی کہ ڈرایونگ ہی سکھ ڈالی۔اپنی ایک چھوٹی سے گاڑی ڈیزائن کی اور اسکول کے بعد بس ایک ہی مشغلہ اس چھوٹی گاڑی کو روز جدید چیزوں سے لیس کرتے رہنا۔رفیق کی یہ خواہش تھی کہ وہ اسکول کے سائنس پراجیکٹس کی نمائش میں اپنی یہ چھوٹی ڈیزائن کردہ گاڑی کو لے کر جائے گا لیکن ایسا نا ہوا اور وہ اپنی اس خواہش کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگیا۔
رفیق رضا بنگش کے والد عابد بنگش نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کا لخت جگر ان کو یوں اچانک چھوڑ جائے گا۔ 16 دسمبر کو وہ اپنے دفتر میں کام میں مصروف تھے کہ میسج آیا آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوگیا ہے ماتحت سے موٹر سائیکل لی کیونکہ وہاں گاڑی لے کر جانا ناممکن تھا ، راستہ جام ہوچکا تھا وہاں پہنچے ۔موٹر سائیکل جانے تک کی جگہ نہیں تھی اور وہ پیدل ہی اپنے بچوں کو ڈھونڈتے رہے مرتجب رضا بنگش تو اللہ کے کرم سے محفوظ رہا لیکن رفیق رضا بنگش کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔عابد بنگش نے مختلف اسپتالوں میں چکر لگائے اپنے بیٹے کو ڈھونڈتے رہے ۔بیٹے کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتے رہے لیکن ان کی تلاش سی ایم ایچ میں اس وقت ختم ہوئی جب ان کے شہید بیٹے رفیق رضا بنگش کا جسد خاکی ان کے سامنے موجود تھا ۔سفید کفن میں لپٹا معصوم ننھا شہید وطن کی خاطر اپنی جان قربان کر چکا تھا۔
رفیق بنگش کے ساتھ اس کے دوستوں مبین شاہ اور محمد یاسین نے بھی شہادت پائی۔یہ سب ساتھ پلے بڑھے اور ایک ساتھ ہی سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔رفیق رضا بنگش شہید کی والدہ بہت بے چین ہیں ان پر غموں کا پہاڑ جو ٹوٹ پڑا اتنا نازوں سے پالا بیٹا طالبان کی بربریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔وہ ہر وقت ہر پل اس بات کی منتظر رہتی ہیں کہ کب کون سا لمحہ آئے اور وہ رفیق کو چاہےا یک پل کیوں نا ہو دوبارہ دیکھ سکیں ،بس کسی طرح ان کا لخت جگر واپس آجائے لیکن ایسا ممکن نہیں۔رفیق تو شہادت کا درجہ پا کر جنت میں چلا گیا۔ماں کا دل بے قرار ہے ہر پل ہروقت ہر آہٹ پر وہ صرف اپنے بیٹے کو پکار رہا ہے۔رفیق کی کاپیاں کتابیں کھلونے کپڑے سب ہی تو موجود ہیں وہ گاڑی بھی جس کو اس نے سائنسی نمائش میں لے کر جانا تھا بس اگر کوئی موجود نہیں ہے تو وہ رفیق خود ہے۔جو اپنے تمام پیاروں کو چھوڑکر چلا گیا۔
رفیق بنگش کے والد عابد بنگش کہتے ہیں کہ اس واقعے نے ان سب کی زندگی کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ رفیق جیسے انمول کو کھونے کا کرب بیان سے باہر ہے لیکن وطن پر جان نچھاور کرکے اس نے ہم سب کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی بار ان کی ہمشیرہ انہیں کینیڈا امیگریشن کے لیے کہہ چکی ہیں لیکن رفیق جب تک زندہ رہا اس نے ہر بار کہا کہ ہماراو طن پاکستان ہے اور ہمیں کسی غیر ملک میں جاکر کبھی نہیں رہیں گے۔ہمارا جینا بھی یہاں ہےاور مرنا بھی یہاں ہے یہ بات وہ سچ کرگیا اور اس مادر وطن پر اپنی جان نثار کردی۔شہید رفیق رضا بنگش کے بھائی مرتجب رضا بنگش کے مطابق میرا بھائی ہم سب کو بہت پیارا تھا لیکن میرے خیال میں اللہ تعالی کو وہ ہم سب سے زیادہ پیارا تھا اس لیے اس کو شہادت کے رتبے پر فائز کرکےاللہ نے اپنے پاس بلوالیا۔ مرتجب کا کہنا ہے میں نے اپنے آنسو روک لیے ہیں کیونکہ میرے بھائی کو میرے آنسو سے تکلیف نا ہو ۔میں نے اسکول جانا دوبارہ شروع کردیا ہے کیونکہ ہم پاکستانی بچے کسی دہشتگرد سے نہیں ڈرتے لیکن بھائی کی کمی کا احساس مجھے شدت سے ہے پہلے ہم دونوں ساتھ جاتے تھے اور اب میں اکیلا اسکول جاتا ہوں۔
رفیق رضا بنگش شہید کے خاندان کے مطابق ہم اپنے بیٹے کی قربانی پر نازاں ہے لیکن یہ وقت قوم کے متحد ہونے کا ہے ہم سب کو اپنے مفادات کو پس پشت رکھتے ہوئے اب صرف اس مادر وطن کے لیے متحد ہونا ہوگا۔ سول سوسائٹی کو مل کر فوج کا ساتھ دینا ہوگا تب ہی ہم سن مل کر ہی اس دہشت گردی کو ختم کرسکتے ہیں۔بچوں کی قربانی کو ہم رائیگاں نہیں جانے دےسکتے ،صرف متحد ہو کر ہی ہم دہشت گردی کے اس ناسور کو معاشرے سے اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں ۔
تمام پاکستانی جہاں شہید بچوں کے لیے رنجیدہ ہیں وہاں انہیں ان ننھے شہیدوں پر فخر بھی ہے کہ آرمی پبلک سکول میں بچوں اور استاتذہ نےموت کا جرات سے سامنا کیا اور وطن کے لیے جان قربان کردی،شہید رفیق رضا بنگش کو سلام، آرمی پبلک اسکول کے تمام شہدا کی عظمت اور جرات کوسلام۔

 

Posted On Thursday, January 22, 2015