Posted in Army, ArmyPublicSchool, Pakistan, ZarbeAzb, جویریہ صدیق

سانحہ اے پی ایس کے شہدا کی یاد میں دعائیہ تقریب جاری

پشاور: سانحہ اے پی ایس کے شہدا کی یاد میں دعائیہ تقریب جاری۔

جویریہ صدیقimg-20161215-wa0062 ۔سانحہ اے پی ایس کی دوسری برسی کے موقع پر حسن زیب شہید کے گھر پر دعائیہ تقریب میں لواحقین کی بڑی تعداد میں شرکت ۔لواحقین نے شہدا کے لئے شمعیں روشن کی اور فاتحہ خوانی کی ۔اس موقعے پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے ورثا دھاڑیں مار مار کر روتے رہے اور اپنے پیاروں کو یاد کرتے رہے۔حسن زیب شہید کے گھر میں تمام شہدا اے پی ایس کی تصاویر آویزاں ہیں لواحقین ان تصاویر کے آگے شمعیں جلا کر ان لمحات کو یاد کرتے رہے جو انہوں نے زندگی میں ساتھ گزرے تھے ۔والدین خاص طور پر سولہ دسمبر کی ہولناکی کو یاد کرکے روتے رہے ۔اپنے بچوں اور ان کے اساتذہ کے لئے فاتحہ خوانی کرنے کے ساتھ ساتھ خود کے لئے بھی صبر کی دعاء کرتے رہے ۔حسن زیب شہید نے سولہ دسمبر  اپنے اساتذہ اور ساتھیوں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا تھا ۔دو سال سے ہر ماہ ان کے گھر میں اے پی ایس فیملیز دعائیہ تقریبات میں اکٹھی ہوتی ہیں ۔

img-20161215-wa0061

img-20161215-wa0069aps-3aps-5

جویریہ صدیق صحافی اور فوٹوگرافر ہیں ۔ سانحہ آرمی پبلک سکول شہدا کی یادداشیں کتاب کی مصنفہ ہیں۔آپ انہیں ٹویٹر پر فالو کرسکتے ہیں @javerias

Posted in Army, ArmyPublicSchool, Javeria Siddique, ZarbeAzb, جویریہ صدیق

سانحہ آرمی پبلک سکول چار خاندانوں کے دو دو بیٹے ان سے بچھڑ گئے

page

جویریہ صدیق

Javeria Siddique 

۔

سانحہ آرمی پبلک سکول  سولہ دسمبرکو 2سال مکمل ہوجائے گا ۔لیکن ایسا لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو جب بچے ہنستے مسکراتے سکول گئے تھے لیکن واپس نا آسکے اور والدین کو اپنے بچے تابوت میں ملے۔دو سال مکمل ہونے گیے پر بہت سے والدین اس حقیقت کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ان کے بچے ہمیشہ ہمشہ کے لئے چلے گئے اور اب واپس نہیں آئیں گے۔جب بھی دروازے پر دستک ہو یا سکول وین کا ہارن سنائی دے توان کے دل میں یہ امید جاگ جاتی ہے کہ شاید ہمارا بیٹا واپس آگیا ہو۔

سانحہ اے پی ایس میں ایک سو سنتالیس افراد شہید ہوئے۔اس سانحے میں متاثر ہونے والے چار خاندان ایسے بھی ہیں جن کے دو دو بیٹے شہید ہوئے۔کسی بھی درد دل رکھنے والے شخص کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ ان خاندانوں پر کیا بیت رہی ہوگی۔شامویل طارق ننگیال طارق،نور اللہ درانی سیف اللہ درانی ،ذیشان احمد اویس احمد اور سید عبداللہ سید حسنین نے سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔

ننگیال طارق شہید تمغہ شجاعت  شامویل طارق شہید تمغہ شجاعت

unnamed-3

پندرہ سالہ شامویل طارق اور تیرہ سال کے ننگیال طارق بلترتیب نویں کلاس اور آٹھویں کلاس کے طالب علم تھے.دو سال پہلے ہی دونوں کو اچھی تعلیمی سہولیات کے باعث آرمی پبلک سکول ورسک روڈ میں داخل کروایا گیا۔دونوں کو پاک آرمی جوائین کرنے کا شوق تھا۔شہدا کی بہن مہوش جوکہ مقامی یونیورسٹی میں بی ایس آنر کر رہی ہیں وہ کہتی ہیں اس واقعے نے ہماری زندگی ویران کردی ہے.میرے دونوں بھائی بہت ذہین اور خوش اخلاق تھے۔

ہم آج بھی سولہ دسمبر دو ہزار چودہ میں سے نہیں نکل سکے۔ہمارے سامنے دونوں بھائیوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پڑی تھیں۔ وہ بھائی جو ہماری امیدوں کا مرکز تھے ہمارے والدین کے بڑھاپے کا سہارا تھے۔ ہمیں یقین نہیں آرہا تھا وہ چلے گئے۔میری والدہ کے آنسو اب بھی خشک نہیں ہوئے۔سولہ دسمبر سانحہ آرمی پبلک سکول ہمارے ہنستے بستے گھر کو ہمیشہ کے لئے اجڑ گیا۔.میں چاہتی ہوں کہ ان بچوں کو انصاف دیا جائے اور دہشتگردوں کو کڑی سزا دی جائے.

 

 

نور اللہ درانی شہید  تمغہ شجاعت  سیف اللہ درانی شہید تمغہ شجاعت

unnamed-2

نور اللہ سیف اللہ دونوں بھائی آرمی پبلک سکول میں
نویں کلاس اور آٹھویں کے طالب علم تھے.دونوں بچپن سے ہی آرمی پبلک سکول و کالج ورسک روڈ میں زیر تعلیم تھے.شرارتی نٹ کھٹ نور اللہ اور سیف اللہ گھر بھر کی جان تھے..اکثر دونوں کھلونا بندوقیں خریدتے اور پھر آرمی بن کر دہشتگردوں کو پکڑنے کا کھیل کھیلتے. دونوں کو آرمی میں جانے کا بہت شوق تھا نور کو بری فوج میں اور سیف کو پاک فضائیہ جوائین کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا.نور یہ کہتا تھا میں فوج میں جاکر تمام ملک دشمنوں کا خاتمہ کروں گا اور سیف کو تو جہاز اڑنے کا شوق تھا وہ کہتا تھا میں ایف سولہ طیارہ اڑاوں گا اور دشمن کے ٹھکانوں پر بمباری کرکے انہیں نیست و نابود کردوں گا..شہید طالب علموں کی بہن ثناء کہتی ہیں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا کہ وہ یاد نا آتے ہوں ہم کھانا بھی کھانا چاہیں پر چند لقموں کے بعد نوالے حلق میں پھنس جاتے ہیں.میرے والدین صبر ہمت کی مثال ہیں لیکن ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جس میں ہم روتے نا ہو.میں بس یہ دعاء کرتی ہوں کہ اللہ تعالی سب والدین کو صبر دے آمین۔

 

سید عبداللہ شاہ شہید تمغہ شجاعت  سید حسنین رضا شہید تمغہ شجاعت

unnamed-1

سانحہ آرمی پبلک سکول اپنے پیچھے بہت سی دردناک داستانیں چھوڑ گیا ہے.جس میں ایک دل سوز داستان سید فضل حسین کی بھی ہے.جن کے دونوں بیٹوں سید عبداللہ اور سید حسنین نے آرمی پبلک سکول و کالج ورسک روڈ میں سولہ دسمبر کو شہادت پائی.عبداللہ دسویں حماعت کے طالب علم تھے اور ڈاکٹر بن کر ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔جبکے سید حسنین آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے ان کی والدہ انہیں فوج میں بھیجنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ سانحے کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے لیکن والدین کی نگاہیں اب بھی  ان دونوں کی راہ تک رہے ہیں.گھر سے دو بچوں کا چلے جانا کسی قیامت سے کم نہیں۔.
شہدا کے والد فضل حسین کہتے ہیں کہ ہمارا گھر ان کے جانے بعد کسی کھنڈر کا سا سماں پیش کرتا ہے ان کی والدہ بچوں کے کپڑوں کو نکال کر چومتی ہیں اور روتی ہیں۔ہمارے بچے شروع سے ہی اے پی ایس میں زیر تعلیم تھے عبد اللہ خاص طور پر پوزیشن ہولڈر تھا۔عبداللہ کی شہادت کے بعد جب اس کا نتیجہ آیا اس کی پہلی پوزیشن تھی۔ان دوںوں کے بعد ہماری زندگی تباہ ہوگئی ان کے لئے ہمارے سارے ارمان ادھورے رہ گئے۔پر اس بات سے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ انہوں نے وطن کی خاطر جان دی۔۔پاک آرمی کے افسران نے ہمارا بہت ساتھ دیا مشکل کی گھڑی میں ہمیں اکیلا نہیں چھوڑا۔اللہ تعالی ہماری صفوں میں اتحاد کردے اس وطن میں امن و امان کردے آمین۔

 

ذیشان احمد شہید تمغہ شجاعت  اویس احمد شہید تمغہ شجاعت

unnamed

ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے صوبیدار ر اکرام اللہ کے دو بیٹوں نے بھی سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔ذیشان احمد دسویں کلاس میں اور اویس احمد آٹھویں کلاس میں تھے۔پلے گروپ سے ہی دونوں اے پی ایس میں زیر تعلیم تھے۔ذیشان ڈاکٹر بننا چاہتے تھے اور اویس کی دلچسپی کمپیوٹر میں تھی۔شہید بچوں کے والد اکرام اللہ کہتے ہیں کہ میرے دونوں بچے بہت اخلاق والے تھے۔ہمیشہ سب کی مدد کرتے۔ہمیں لگتا ہے کہ جیسے آج بھی ہم کہیں سولہ دسمبر دو ہزار چودہ میں ہی کھڑے ہیں۔ان کی والدہ بہت ہی رنجیدہ رہتی ہیں ۔میں نے خود ساری زندگی فوج میں رہ کر وطن کی خدمت کی مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے بیٹوں نے پاکستان کے لئے اپنی جان دی۔ان بچوں کی قربانی کے بعد پاکستان کے امن و امان پر بہت فرق پڑا اور صورتحال بہتر ہوئی۔میری دعاء ہے کہ اللہ تعالی پاکستان کو امن کا گہوارا بنادے آمین۔

جویریہ صدیق صحافی اور فوٹوگرافر ہیں ۔ سانحہ آرمی پبلک سکول شہدا کی یادداشیں کتاب کی مصنفہ ہیں۔آپ انہیں ٹویٹر پر فالو کرسکتے ہیں @javerias

Posted in Army, ArmyPublicSchool, ZarbeAzb, جویریہ صدیق

اے پی ایس کا غازی

 

.

 

 

 

.

 

 

 

...جویریہ صدیق.….
17 سالہ محمد طلحہ علی16 دسمبر کو موت کو ہرا کر غازی بن کر لوٹے، پر واپسی کا سفر اتنا آسان نہیں تھا، طلحہ پشاور سانحہ کے وقت ہال میں ہی موجود تھے، جب موت کی ہولی کھیلی گئی، ایک گولی طلحہ کو جبڑے میں لگی اور تین جسم کے اوپری حصے میں دائیں طرف لیکن کہتے ہیں کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے،گولیاں لگنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے طلحہ کو دوسری زندگی عطاء کی۔

طلحہ کے والد محمد علی کہتے ہیں میرے تین بچوں میں طلحہ سب سے چھوٹا ہے،نرسری کلاس سے ہی طلحہ آرمی پبلک سکول میں زیر تعلیم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سولہ دسمبر کو پشاور میں بہت ٹھنڈ تھی طلحہ نے کہا آج سکول نہیں جاتا کیونکہ سیشن کا اختتام تھا اور چھٹیاں ہونے والی تھی،لیکن پھر اٹھ گیا تیار ہوا میں خود اسے سکول چھوڑ کر آیا۔

مجھے کوئی دس بجے کے بعد اطلاع ملی کے اسکول پر حملہ ہوگیا ہے تو میں فوری طور طلحہ کو لینے کے لئے بھاگا،کچھ بچوں کو اسکول سے متصل ڈیفنس پارک میں منتقل کردیا گیا تھا، وہاں مجھے ایک بچے نے بتایا کے انکل طلحہ کو گولی لگی ہے، میں بس وہاں ہی ساکت ہوگیا، نا مجھے کچھ سنائی دے رہا تھا نا ہی دکھائی، اس بچے نے مجھے کہا انکل اس کو منہ پر گولی ہے، میں اسپتال کی طرف گیا تو ہر طرف ننھے پھولوں کی لاشیں ہی لاشیں تھیں، میں طلحہ کو ڈھونڈتا رہا نہیں ملا تو نڈھال ہو کر بیٹھ گیا۔

اتنے میں سی ایم ایچ میں ایک نیک دل بریگیڈیئر صاحب نے مجھے تسلی دی ،پانی پلایا اور اس کے بعد مجھے پتہ چلا کے طلحہ آپریشن تھیٹر میں ہے،طلحہ کی والدہ شدت غم سے نڈھال تھیں، میں نے ان کو تسلی دی کے وہ زخمی ہے، جب آپریشن کے بعد میں نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو منہ کا ایک حصہ گولی کی وجہ سے اڑ چکا تھا، میرے بیٹے کا جبڑا اور ایک طرف کے سارے دانت ٹوٹ گئے تھے زبان بھی زخمی اور جسم پر دھماکے اور گولیوں کے نشان۔

ایسا کون سا حصہ نہیں تھا جس پر زخم نا ہو میں پتہ نہیں کیسے یہ منظر دیکھ رہا تھا، مجھے لگ رہا تھا۔میں نے بہت ہمت پیدا کرکے اپنے بیٹے کو دیکھا لیکن اپنی اہلیہ کو بہت دن طلحہ کو اس حالت میں نہیں دیکھنے دیا، کیونکہ اگر وہ پہلے دن طلحہ کو ایسے دیکھ لیتی تو اپنے ہوش گنوا دیتی،جب طلحہ ہوش میں آیا تو میں اس کی والدہ کو لے کر گیا، سی ایم ایچ کے ڈاکٹرز اور عملے نے ہمارا بہت خیال رکھا، ان کی شفقت اور محنت کی بدولت طلحہ کی صحت بہتر ہونا شروع ہوئی۔

طلحہ کے چہرے پر اب بھی 16 دسمبر کی یادیں نمایاں ہیں، ایک طرف سے وہ کھانا نہیں کھا سکتا ،سخت چیزیں نہیں کھاسکتا کیونکہ تمام دانت گولی لگنے سے ٹوٹ گئے تھے.طلحہ پھر بھی خود کو نفسیاتی اور جسمانی طور ہر مضبوطی سے سنبھالے ہوئے ہے، طلحہ نے میٹرک کا امتحان اس ہی حالت میں دیا اور نو سوسے زائد نمبر حاصل کئے،اب وہ فرسٹ ائیر میں ہے لیکن ناسازی طبیعت کے باعث ریگولر کلاس نہیں لے پارہا۔

غازی طلحہ کہتے ہیں میرے حوصلے بلند ہیں اس سانحے کے بعد میرے اندر بہت ہمت آگئی ہے، میں نے پری انجینئرنگ میں ایڈمیشن لے لیا ہے، میرا خواب ہے کہ میں سول انجینئر بنوں، مجھے میتھس، فزکس اور مطالعہ پاکستان بہت پسند ہیں، اب میں طبیعت میں بہتری محسوس کرتا ہوں تو کرکٹ کھیلنا پسند کرتا ہوں لیکن امی کو فکر ہوتی ہے وہ مجھے کہتی ہے ان ڈور گیم کھیلو۔

جب بھی16 دسمبر یاد آتا ہے تو چلے جانے والے دوست بہت یاد آتے ہیں، پر میں اسے وطن کی خاطر ایک عظیم قربانی گردانتا ہوں، جب اس دن کی ہولناکی یاد آتی ہے تو میں اس وطن عزیز پر جان قربان کرنے والوں کی داستانیں پڑھتا ہوں، اس سے میرے اندر جذبہ حب الوطنی مزید بڑھ جاتا ہے، میرے منہ پر گولی لگی اب بھی میرے زخم مکمل طور پر بھرے نہیں لیکن پھر بھی میرا جذبہ جوان ہے، مجھے باہر جاتے ہوئے ماسک پہنا پڑھتا ہے لیکن پھر بھی میں زندگی کی جنگ لڑ رہا ہوں۔

مجھے امید ہے مزید علاج سے میں مکمل طور پر نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئوں گا، میں اس بات سے مکمل آگاہ ہوں کہ مکمل صحت یاب ہونے میں کافی وقت لگے گا، لیکن میں خود کو نفسیاتی طور پر مکمل صحت مند محسوس کرتا ہوں اورخود کو خوش رکھتا ہوں، میرے والدین میرے خاندان اور دوستوں کی توجہ اور پیار نے مجھے ٹوٹنے نہیں دیا۔16 دسمبر کے بعد سے مجھے رات کو جلد نیند نہیں آتی تو میں خود کو کتابوں میں مگن کرلیتا ہوں،پر میرے بہت سے غازی ساتھی بہت تکلیف میں ہیں وہ ڈرتے ہیں رات کو سو نہیں پاتے جسمانی اور نفسیاتی تکلیف سے وہ نڈھال ہیں۔

طلحہ کہتے ہیں اس سانحے نے ہم میں وہ جذبہ بیدار کردیا ہے کہ دہشتگردی کو ختم ہم نے ہی کرنا ہے، اچھی تعلیم حاصل کرکے ہر شعبے میں ترقی کرکے اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ اس سانحے نے مجھے وطن کی قدر سیکھا دی ہے، کس طرح ہمارے بڑوں نے قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا اب ہم بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

نوجوان غازی کا حوصلہ اور جذبہ اپنی جگہ لیکن اب بھی طلحہ کو علاج کی ضرورت ہے اور اچھی تعلیم کی بھی لیکن یہ حکومتی معاونت کے بغیر ممکن نہیں، طلحہ کی ناک سرجری چہرے کی سرجری اور دوبارہ دانت لگنے کا عمل جاری ہے، جنرل راحیل شریف کی ہدایت پر اے پی ایس سانحے کے تمام بچوں کا علاج سی ایم ایچ میں مفت ہوا،لیکن اب پھر سے اے پی ایس کے بہت سے غازی دوبارہ فالو اپ چیک کے منتظر ہیں، بچوں کے چہروں کی سرجری، ان کی ہڈیوں کی بحالی اور نفسیاتی صحت پر کام فوری طور پر کرنا ہوگا۔
Javeria Siddique
twitter@javerias

Posted On Tuesday, September 08, 2015

Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan, Uncategorized

ایک ماں کی فریاد

Posted On Sunday, May 17, 2015   …..جویریہ صدیق…..
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات نے بہت سے خوبصورت چہرے ذہین فطین انسان ہم سے چھین لیے۔ایسی بہت سی کلیاں وقت سے پہلے ہی مرجھا گیں جنہیں تو ابھی گلستان میں مہکنا تھا۔ دہشت گردی نے ہمارے چمن کو خزاں آلود کر رکھا ہے۔ہر روز بہت سے پاکستانیوں کو لرزہ خیز دہشت گردی کے واقعات میں جاں بحق ہونے کے بعد منوں مٹی تلے دفنا دیا جاتا ہے۔ مٹی تلے جانے والے شخص کے ساتھ اس کا خاندان بھی زندہ درگور ہو جاتاہے۔ جسم سے روح صرف اس شخص کی نہیں نکلتی جو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کا سارا خاندان بھی ایک زندہ لاش کی صورت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتاہے۔کیونکہ کوئی بھی پیارا اتنی اچانک اور تکلیف دہ موت کے بعد ساتھ چھوڑ جائے تو لواحقین کے لیے بھی زندگی سے دلچسپی اور پیار ختم ہو جاتا ہے۔وہ جیتے ہیں اس لیے کہ سانس چل رہی ہے۔

16 دسمبر سانحہ آرمی پبلک سکول اور کالج کو پورے پانچ ماہ مکمل ہوگئے جس میں کم عمر بچے اور ان کے استاتذہ کو طالبان نے اپنی بربریت کی بھینٹ چڑھا دیا۔جو بچے حصول علم کے لیے اپنی درسگاہ گئے تھے لیکن زندہ واپس نا لوٹ سکے۔گئے تو یونیفارم میں تھے لیکن واپس آئے کفن میں۔مائوں کے چاند مائوں کے پھول گئے تو مامتا کی آغوش سے نکل کر تھے لیکن واپس ملے تواتنی گولیاں پیوست تھی کہ بیان سے باہر۔ہنستے بولتے خوبصورت بچے اور ان کے استاد ابدی نیند سو گئے۔ان سب نے اپنی جانیں وطن عزیز پر قربان کردیں اور پاکستان کی تاریخ میں امر ہوگے۔

افعت اقبال آرمی پبلک کالج گرلز برانچ میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ان کے بیٹے محمد زین اقبال نے16 دسمبر کو سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔افعت اقبال کہتی ہیں زین کیا گیا میرے گھر سے رونق ہی چلی گی نا ہی اب یہاں کوئی ہنستا ہے اور ہر طرف خاموشی ہے۔زین اقبال شہید سیکنڈ ایئر پر ی میڈیکل کا طالب علم تھا۔میرا بیٹا کے جی سے سیکنڈ ایئر تک آرمی پبلک اسکول و کالج میں زیر تعلیم رہا۔آنکھوں میں ایک خواب تھا کہ ڈاکٹر بننا ہے۔ اسکول میں ہر کلاس میں پوزیشن لی اور بورڈ میں بھی ٹاپ کیا۔گذشتہ رمضان اعتکاف میں بیٹھا۔لیکن دہشت گردوں نے مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا۔16 دسمبر کو زین کا کیمسٹر ی کا پرچہ تھا،وہ بیالوجی لیب میں اپنا پیپر دے رہا تھا اور اس ہی دوران دہشت گرد نے حملہ کر ڈالا۔میرا بیٹا چلا گیا ،میرا زین چلا گیا ۔اس کے بعد سے اب زندگی سے اعتبار سا اٹھ گیا ہے۔مجھے اب مرنے کا خوف نہیں رہا مجھے اب موت سے ڈر نہیں لگتا۔

زین کی صبح کا آغاز میرے ساتھ ہوتا تھا جس ڈریسنگ ٹیبل پر میں تیاری ہوتی تھی خود بھی وہ وہاں تیار ہوتا بار بار مجھےگلے لگتا۔کبھی مجھے چومتا۔میں جب بھی اسکو دیکھتی تو سوچتی یہ کتنا شفیق اور رحم دل ڈاکٹر بنے گا۔زین خود گاڑی چلاتا اور مجھے بھی کالج ڈراپ کرتا، اس کے بعد ورسک روڈ آرمی پبلک سکول و کالج چلا جاتا۔صبح بھی اس کے پاس بہت سی باتیں ہوتی تھیں اور کالج واپسی سے تو بس شام تک اس پاس بہت سی باتیں جمع ہوتی صرف مجھ سے شیئر کرنے کے لیے وہ میرا بیٹا نہیں میرا دوست بھی تھا۔زین کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ فٹنس کا بھی بہت شوق تھا ،وہ ہر روز ورزش کرتا تھا، زرا سا وزن زیادہ ہو جاتا تو فوری تو طور پر ڈائٹنگ شروع کر دیتا ۔ہر چیز میں وہ سب سے آگے تھا اس لیے موت بھی اس کی غیر معمولی آئی اور شہید ہوکر اس نے اپنی جان پاکستان کے لیے قربان کردی۔

ابھی پورے پاکستان نے مائوں کا عالمی دن منایا لیکن میں یہ دن نہیں منایا کیونکہ میرا بیٹا جو ہر مدرز ڈے پر مجھے پھول دیتا تھا کارڈز بنا کر دیتا تھا، وہ اس بار میرے ساتھ نہیں تھا ۔ہم زندگی گزر رہے ہیں اس لے کیونکہ سانس چل رہی ہے لیکن جی نہیں رہے۔حکومت نے ہماری داد رسی نہیں کی بس کچھ کام دنیا دکھاوے کے لیے کردئیے ہیں۔ مشکل کی گھڑی میں ہمیں بالکل تنہا چھوڑے رکھا۔کوئی امداد دینے کی بات کررہا تھا تو کوئی اسکول کے نام تبدیل کرنے کی بات کرتا رہا۔پر ہم سب ایک حقیقی ہمدردی سے محروم رہے۔میں خیبر پختون خواہ کے حکمرانوں اور عمران خان سے کہنا چاہتی ہوں اپنے بچوں کو واپس لائیں انہیں بھی خیبر پختون خوا کے تعلیمی اداروں میں داخل کروائیں ۔تاکہ انہیں احساس ہو کہ عوام کس قسم کی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔اب بھی بچے خوف کے سائے تلے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ان کی شخصیت پر اس کے کیا اثرات کیا پڑیں گے حکمران اس سے واقف نہیں۔

افعت اقبال کہتی ہیں کہ میرا بیٹا زین میرا سب سے اچھا دوست اس دنیا سے چلا گیا میرے لیے اس دنیا میں کوئی کشش نہیں لیکن میں چاہتی ہوں کہ باقی سب بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت فوری طور پر اقدام کرے۔میری اس قوم کی مائوں سے بھی التجا ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت پر بہت دھیان دیں، ماں کی اولاد کی تربیت میں غفلت کا خمیازہ پوری قوم بھگتی ہے۔میں نے اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانا چاہا ،اس پر دن رات محنت کی لیکن منزل کہ قریب آکر ایک ایسی ماں کا بیٹا جس کی ماں نے اسکی تربیت میں کوتاہی برتی مجھ سے اور اس قوم سے ایک قابل اور سنہرے مستقبل والے بچے کو چھین لیاگیا۔دہشت گرد بھی ایک ماں کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور ایک ڈاکٹر بھی اس قوم کی مائوں کو دیکھنا ہوگا کہ ان بچوں کی کیا سرگرمیاں ہیں کہیں وہ کسی ملک دشمن عناصر کی برین واشنگ کا شکار تو نہیں ہوگیا۔ماں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اس بچہ کیا پڑھ رہا کس کے ساتھ اٹھ بیٹھ رہا ہے۔

مجھے وفاقی اور صوبائی حکومت نے مایوس کیا ،اگر صدر ،وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ ہماری حفاظت کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے، دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی نہیں کراسکتے تو مستعفی ہوجائیں۔میرے بیٹا اگر زندہ ہوتا تو بہت قابل ڈاکٹر بنتا لیکن مجھے فخر ہے کہ وہ شہید ہوا اس کا لہو اس وطن کے لیے بہا ۔دہشت گردی سے نڈھال عوام کے لیے بہت سے اقدامات کی فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے بچوں کے قاتلوں کو سخت سزا دی جائے۔حکومت اس حادثے سے متاثر ہونے والے خاندانوں کی ذہنی نفسیاتی صحت کی بحالی کے لیے مستقل بنیادوں پر کام کرے۔ میری گزارش ہے کہ 16 دسمبر کو عام تعطیل ہونی چاہیے اور نصاب میں بھی ان بچوں اور ان کے استاتذہ کی قربانی اسباق کو شامل کرنا چاہیے۔شہدا آرمی پبلک سکول اور کالج کی شہدا کی یادگار تعمیر کی جائے تاکہ ان کی قربانی کو تا قیامت پاکستان کے لوگ یاد رکھیں۔میرا بیٹا میرا خواب تھا میرا خواب کی تعبیر سے پہلے ہی اس توڑ دیا گیا ۔ حکومت اور آرمی دہشت گردوں کا خاتمہ کرے تاکہ پھر کوئی ماں یہ دن نا دیکھے۔ – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10847#sthash.GwYJB2Nk.dpuf

Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan

بینش عمر شہید تمغہ شجاعت

11899792_10153093634323061_6483232467340070293_n

. جویریہ صدیق……آج ماں سے محبت کا عالمی دن ہے۔ ماں ایک ایسا رشتہ جو بے غرض بے لوث محبت کرتا ہے۔ماں جب اپنی آغوش میں اولاد کو لیتی ہے ایک زمانے کے غم مٹا دیتی ہے۔اس کی آغوش کی ٹھنڈک میں ہر درد کی تاثیر ہے۔ماں قربانی احساس اور ایثار کا دوسرا نام ہے۔ماں کی بانہوں کا حصار بچے کو وہ سکون دیتا ہے جو دنیا کی کسی اور نعمت سے حاصل نہیں۔ پشاور کی اٹھایس سالہ بینش عمر شہید تمغہ شجاعت بھی ممتا کے خمیر سے بنی تھی۔کمپیوٹر ساینس میں ایم اے کیا۔ عمرزیب بٹ کے ساتھ رشتہ ازداوج میں منسلک ہویی اور اللہ نے تین بار بینش کے آنگن میں اپنی رحمت کا نزول کیا۔بڑی بیٹی حباء منجھلی بیٹی عنایہ اور سب سے چھوٹی گڑیا عفف ۔ممتا کے عہدے پر فایز ہونے کے بعد بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا،پھر جب جاب کرنے کا فیصلہ کیا تو درس و تدریس کا انتخاب کیا۔بینش ایک نی نسل کو اپنے ہاتھوں سے پروان چڑھانے کی خواہش مند تھیں۔آرمی پبلک سکول پشاور میں تدریس کا آغاز کیا اور آٹھویں جماعت کو کمپیوٹر پڑھانے لگیں۔

بچوں کو ہر دل استاد بینش کوشش کرتی کہ کمپیوٹر کی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ بچوں کی اخلاقی اور دینی اطوار پر تربیت کریں۔استاد اگر کم عمر ہو تو بہت جلد بچوں کا دوست بن جاتا ہے اور بچے بھی بلا جھجک اپنے مسایل استاد ساتھ زیر بحث لیے آتے ہیں۔بینش بھی اپنے طالب علموں کی بہترین دوست تھی۔ماں استاد اور دوست بینش نے سولہ دسمبر کو بھی اپنے بچوں کو تنہاہ نا چھوڑا۔سکول میں حباء کے جی کلاس میں تھی اور نھنی گڑیا عفف سکول کے ہی ڈے کیر میں تھی۔لیکن بینش نے اپنی اولاد کے بحایے اپنے روحانی بچوں کو فوقیت دی۔نہتی روحانی ماں نے دہشت گردوں کو للکارا معصوم بچوں کو جانے دو۔ان کا کیا قصور ہے۔بینش نے بچوں کو ہال سے نکالنے کی کوشش کی لیکن ظالم دہشت گرد جدید اسلحے کے ساتھ ہر طرف موجود تھے۔کچھ بچے نکلنے میں کامیاب بھی ہوگیے لیکن دہشت گردوں کی ایک گولی بنیش کے بازو میں پیوست ہویی اور وہ اسٹیج کے پاس گر گی اس کے بعد تو جسیے گولیوں کی بوچھاڑ ہوگی اور گردن میں لگنے والی گولی باعث بینش شہادت کے اس رتبے پر فایز ہوگیں ۔

بینش دنیا سے چلی گیئں لیکن زندہ جاوید ہوکر جب بھی طالب علم استاد کی عظمت کے بارے میں پڑھیں گے تو تاریخ کے اوراق پر روحانی ماں استانی بینش عمر شہید کا نام جلی حروف سے لکھا ہویا پایں گے۔بینش عمر شہید تمغہ شجاعت کے شوہر عمر زیب بٹ کہتے ہیں کہ میں نے اور بینش نے ساتھ تعلیم حاصل کی۔اپنی بہترین دوست کو ہی میں نے اپنا شریک حیات چنا۔بینش کہ آتے ہی میری زندگی میں بہار آگی خوش اخلاق سب سے شفقت اور احترام سے ملتی بینش پل بھر میں سب کو گرویدہ بنا لیتی۔امور خانہ داری میں ماہر مجھے ہر چیز بس تیار ملتی۔میرے والدین کی خدمت اپنے والدین کی خدمت اور ساتھ میں درس و تدریس لیکن کبھی تھکن کا شایبہ نہیں۔پندرہ دسبمر کو مجھے آفس فون کیا اور کہا کہ ایک عزیزہ ہسپتال میں داخل ہیں ان کی عیادت کے لیے جانا ہے۔میرے ساتھ گی ان کی خیریت دریافت کی بعد میں ہم بچوں کو بھی چیک اپ کے لیے گیے دو بیٹوں کی طبعیت ناساز تھی ۔میں نے بینش سے کہا بھی کہ کل سکول مت جاو لیکن بینش نے کہا چھٹی کرنے سے روحانی بچوں کا حرج ہوتا ہے۔

سولہ دسمبر عناییہ تو گھر پر ہی تھی لیکن حباء اور عفف بینش کے ساتھ ہی سکول گیں۔جب میں آفس جانے لگا تو روز کی طرح بینش میری ہر چیز تیار کرکے گی ہویی تھی،عناییہ کے لیے بھی ہر چیز رکھی ہویی تھی ۔میں آفس چلا گیا۔کہ اچانک دوست نے بتایا کہ آرمی پبلک سکول ورسک روڈ پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔میں دوست کے ساتھ ہی وہاں پہنچا بینش کو بہت فون کیے امید یہ ہی تھی کہ بینش خیریت سے ہوگی سب بچے محفوظ ہوں گے۔نا ہی بینش کا پتہ چل رہاتھا نا ہی میری دونوں بیٹوں کا ۔آرمی کا آپریشن چل رہا تھا تو ہم سکول میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔میری بیٹاں تو آرمی نے باحفاظت اپنی تحویل میں لے لیں تھیں اور ان کو قریب ہی محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا میرا بھایی انہیں لے کر گھر چلا گیا مجھے مزید حوصلہ ہوا کہ میری دوست میری محبت میری غم گسار بینش زندہ ہوگی۔لیکن تلاش اس وقت ختم ہویی جب ہسپتال میں شہید ہونے والوں کی فہرست میں بینش کا نام سرفہرست تھا۔میں ہسپتال گیا تو قیامت صغری برپا تھی ہر طرف چیخ و پکار نھنے بچوں کی کفن میں لپٹی ہویی لاشیں۔میں کیا پورا پشاور شہر رو رہا تھا کہ اتںے بے گناہوں کا خون ایک ساتھ پہلے کبھی نا بہا تھا۔میں بینش کو ڈھونڈتا رہا ایک کفن میں لپٹے ہویے جسد خاکی کا ہاتھ کچھ باہر تھا وہ میری بینش کا ہاتھ تھا۔’

بینش چلی گی اپنی جان اس وطن کے لیے قربان کرگی لیکن عمر بٹ کے مطابق حباء عنایہ تو اس عمر میں ہی نہیں ہیں کہ انہیں اپنی ماں کی قربانی کا ادراک ہو۔چار سال کی حباء ہر وقت اپنی ماں کا ڈوپٹہ لیے پھرتی ہے اور عنایہ کو کہتی ہے کہ میں ہو بنیش تمہاری ماما۔کبھی اپنی ماما کے جوتے پہن لیتی ہے تو کبھی ماما کی جیولری پہن کر گھر گھر کا کھیل کھیلتی ہے۔جب رات ہوتی ہے تو یہ دونوں روتی ہیں کہ ماما کہاں ہیں تو میں خود کو بہت بے بس محسوس کرتا ہوں کہ ماں کا لمس ان کے لیے نہیں لا سکتا۔عفف تو صرف چار ماہ کی تھی جب بینش چلی گی وہ تو اس کرب سے ابھی آشنا نہیں جس سے حباء اور عناییہ گزر رہی ہیں۔میں میری والدہ اور ساس ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ تینوں بچیوں کو کسی چیز کی کمی نا ہو لیکن والدہ کی کمی کویی پورا نہیں کرسکتا۔بینش کی شہادت کے بعد میری بیٹی حباء نے چند ہی روز بعد پارک جانے کی ضد کی میری لیے سوگ کی کفیت میں اسے پارک لیجانا مشکل تھا لیکن اس ضد کے آگے ہار مان کر جب میں پارک گیا تو وہ پارک میں بھی بینش کو دھونڈتی رہی کہ کہیں سے ماں سامنے آجایے اور ماں کو یاد کرکے زاروقطار روتی رہی۔اس وقت میرے دل پر جو گزری وہ میرا اللہ ہی جانتا ہے۔میں اپنی بچیوں کو ہر ہفتے انکی شہید ماں کی قبر پر لے جاتا ہوں ہم اس کی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہیں اور پھولوں سے اسے سجا دیتے ہیں۔اب چند دن پہلے ابھی ہم عمرے پر گیے تب بھی پاکستان سے سرزمین حجاز تک بینش کا ڈوپٹہ حباء کے ساتھ رہا۔’

انیس سو سنتالیس میں پاکستان کے قیام کے وقت میرے خاندان کے سترہ افراد نے جام شہادت نوش کیا تھا اور سولہ دسبمر کو بنیش بھی پاکستان پر قربان ہوگی۔مجھے اپنی اہلیہ کی قربانی پر فخرہے۔جب تک میری اہلیہ حیات رہی اس کی زندگی کا مقصد بچوں کی اچھی تربیت تھا۔اس نے اپنے شاگردوں کی جان بچاتے ہویے اپنی جان قربان کی اور استاد شاگرد کے رشتے کو امر گرگی۔ہر بچہ کے لیے وہ ماں کی شفقت رکھتی تھی وہ اکثر کہتی تھی یہ میرے شاگرد نہیں میرے بیٹے ہیں۔گذشتہ برس عالمی یوم ماں پر بینش نے پورے گھر کو سجایا میری اور اپنی والدہ کو تحایف دیے اور ہماری بیٹیوں کو بھی اس دن کی اہمیت سے آگاہ کیا۔اس ماں کے عالمی دن پر میری بچیوں کے ماں ان کے پاس نہیں لیکن میں اپنی بیٹوں کے ساتھ میں یہ دن اپنی شہید اہلیہ کی قبر پر حاضری دیے کر منا رہا ہوں ۔میری بیٹاں اپنی شہید ماں کے لیے کارڈز اور پھول لے کر ان کی قبر کے پاس مدرز ڈے منا رہی ہیں

۔میرے خاندان نے قیام پاکستان کے لیے قربانی دی اور اب بینش نے اس ملک کی بقا کے لیے قربانی دی۔یہ وقت میری معصوم بیٹیوں کے لیے بہت کٹھن ہے لیکن بڑے ہوکر انہیں اپنی ماں پر فخر ہوگا۔میری گزارش ہے کہ حکومت اور آرمی ملک سے دہشت گردوں کا خاتمہ کردیں اور سانحہ پشاور کے مجرمان ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایں ۔لواحقین کے ساتھ تمام معلومات شئیر کی جایں۔اب وقت آگیا ہے تمام پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا اور ہمیں اپنی افواج اور حکومت کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا۔مجھے میری اہلیہ بنیش عمر شہید تمغہ شجاعت پر فخر ہے اس نے ایک عظیم ماں ایک عظیم استاد کی صورت میں اپنے روحانی بچوں کے لیے اس وطن کے لیے اپنی جان قربان کردی –

Posted On Sunday, May 10, 2015  

 

Posted in ArmyPublicSchool

اسحاق امین شہید

Posted On Thursday, February 26, 2015   ….. جویریہ صدیق…..
آرمی پبلک اسکول کا ایک اور پھول مرجھا گیا۔میاں اسحاق امین اپنے بھائی میاں عامر امین کے ساتھ معمول کے مطابق آرمی پبلک سکول و کالج ورسک روڈ کےلیے روانہ ہوا۔16دسمبر کو دونوں ہی بھائیوں کا پرچہ تھا۔اسحاق سیکنڈ ائیر پری میڈیکل اور میاں عامر سیکنڈ ائیر پری انجینئرنگ کا طالب علم تھا۔دونوں اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ پیپر دینے میں مشغول تھے کہ دہشت گردوں کا حملہ ہوگیا۔دونوں ہی بھائیوں کو شدید زخمی حالت میں سی ایم ایچ پہنچایا گیا۔اسحاق کو جبڑے اور بازو پر گولی لگی جبکہ عامرکو پیر اور کندھے پر گولیاں لگیں۔والدین پہلے تو اپنے بچوں کو ڈھونڈتے رہے لیکن اسکول میں انہیں نا پا کر اسپتال کا رخ کیا۔دونوں بچوں کا علاج چلتا رہا۔پاک آرمی کے چیف راحیل شریف کے احکامات پر سی ایم ایچ میں تمام بچوں کے علاج کو مفت کردیا گیا،لیکن کچھ بچوں کی تشویش ناک حالت پر نو تاریخ کو میڈیکل بورڈ بیٹھا اور یہ فیصلہ ہوا کہ30 بچوں کو کراچی آغا خان اسپتال بھجوایا جائے گا، ان بچوں میں اسحاق اور عامر بھی شامل تھے۔

وقت گزرتا گیا لیکن خیبر پختون خوا کی حکومت نے بچوں کے علاج معالجے کے لیے امدای چیک دینے میں تاخیر کی تو شہداء فورم نے خود ہی اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کو کراچی بھجوانے کے انتظامات کر لیے اور26بچے کراچی چلے گئے۔لیکن ڈاکٹرز نے تین بچوں کو سفر سے روک دیا کیونکہ ان کی حالت تشویشناک تھی جن میں اسحاق،انصار اور ولید شامل تھے۔اسحاق کے جبڑے میں گولی تھی جس کے باعث اس کے دماغ میں ائیر ببل بن گیا اوروہ بینایی سے محروم ہونے کے بعد کوما میں چلا گیا۔والدین کو امید تھی کہ خیبر پختون خوا کی حکومت زخمی بچوں کے علاج میں دلچسپی دکھائے گی لیکن ایسا نا ہوا اور اسحاق21 فروری کو سی ایم ایچ میں دم توڑ گیا۔

اسحاق امین پری میڈیکل کا طالب علم تھا ۔چھٹی جماعت سے آرمی پبلک اسکول میں زیرتعلیم تھا ۔ہمیشہ سے اسکو یہی شوق تھا کہ وہ آرمی ڈاکٹر بنے گا۔اس لیے پری میڈیکل میں ایڈمیشن لیا، منزل اس کے سامنے تھی لیکن 16 دسمبر دہشت گردوں نے اس کے تمام خواب چکنا چور کردئیے اور وہ دو ماہ سے زائد موت سے جنگ لڑنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گیا۔اسحاق کے والد میاں امین کہتے ہیں کہ ان کے چار بیٹے ہیں جن میں سے دو آرمی پبلک اسکول و کالج میں سیکنڈ ائیر کے طالب علم تھے ۔ پشاور سانحے میں ان کے دونوں بیٹے شدید زخمی ہوئے جس میں سے اسحاق چل بسا اور عامر کی حالت تشویشناک ہے۔ان کے مطابق اس مشکل کی گھڑی میں آرمی چیف اور پشاور کے کور کمانڈر نے ان کا ساتھ دیا لیکن وزیراعلیٰ خیبر پختون خواہ اور صوبائی حکومت کے رویے نے انہیں شدید مایوس کیا، انہوں کہا کہ میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے بھی ناراض ہوں۔ میرا جوان بیٹا چلا گیا میرے گھر میں قیامت برپا ہے، میرا دل غم سے پھٹ رہا ہے لیکن میرے دلجوئی کے لیے کوئی نا آیا،تاہم مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے کہ اسے شہادت نصیب ہوئی اور اس نے اپنی جان پاکستان کے لیے قربان کی۔

اسحاق کے بھائیوں وقار اور اسفند یار کے مطابق اسحاق بہت زندہ دل تھا گھر میں وہ ہمیشہ امی کا ہاتھ بٹاتا تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ محلہ داروں اور رشتہ داروں کی مدد میں پیش پیش رہتا۔ہم سب جب ٹی وی دیکھ رہے ہوتے تو وہ کچن میں امی کے ساتھ رات کے کھانے میں مدد کرتا کبھی سلاد بنا لیتا تو کبھی رائتہ۔اس کو ہمیشہ اس بات کا خیال رہتا کہ ہمارے کاموں کا زیادہ بوجھ ہماری والدہ پر نا پڑے۔اسحاق کا چلے جانا ان کے لے بہت بڑا سانحہ ہے۔دہشتگردی کے اس واقعے نے ان کا زندہ دل ہنستا مسکراتا بھائی ان سے چھین لیا۔اب ہمیں اپنے دوسرے بھائی عامر کی فکر لاحق ہے کہ اسکا علاج صیح طریقے سے ہوجائے کیونکہ اس کی حالت بھی غیر تسلی بخش ہے۔

اسحاق شہید کے والد میاں امین نے کہا کہ میرے جوان بیٹے نے اپنی جان اس وطن پر نثار کردی لیکن اس قربانی کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں متحد ہونا ہوگا ۔ہمیں کسی کے ڈر سے بھی اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے روکنا نہیں چاہیے ۔پاکستان کے سب بچوں کو چاہیے کہ وہ سب دل لگا کر پڑھیں اپنے استاتذہ کا احترام کریں۔ہم دہشت گردی انتہا پسندی کو صرف تعلیم سے ہی شکست دے سکتے ہیں۔

شہدا وغازی فورم پشاور کے سیکریٹری ابرار احمد یوسف زئی کے مطابق اس وقت26 بچوں کو ہم علاج کے لے کراچی آغا خان بجھواچکے ہیں خیبر پختون خوا کی حکومت نے ہمیں بہت تاخیر کرکے امدادی چیک دئیے جس میں سے آدھے تاحال کیش نہیں ہوسکے ۔ہم نے اپنی آپ مدد کے تحت پیسے جمع کرکے بچوں کو کراچی بھجوایا اور ان کے علاج کے ابتدائی پیسے بھی خود فورم نے جمع کروائے۔ابرار احمد کے مطابق دو بچے ولید اور انصار اب بھی پشاور میں ہی ہیں کیونکہ ان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ ہوائی سفر کرسکتے۔ان کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت بچوں کے علاج میں دلچسپی دکھائے تاکہ زخمی بچوں کی حالت مزید بگڑنے سے روکی جاسکے۔شہدا وغازی فورم کے صدر عابد بنگش نے کہا کہ کراچی میں بچوں کے لیے آغا خان میں بہترین انتظامات کیے گے ہیں اور وزیر صحت سندھ اور ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے بھی ہر ممکن مدد کا یقین دلایا ہے۔

اسحاق امین تو اس دنیا سے شہادت کا درجہ پا کر رخصت ہوگیا لیکن اس کے لواحقین بہت کرب سے گزر رہے ہیں ایک جوان بیٹا دنیا سے چلا گیا دوسرااسپتال میں موجود ہے تو ان والدین پر کیا بیت رہی ہو کوئی بھی حساس طبیعت کا مالک شخص اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ارباب اختیار کو یہ بات سوچنا ہوگی کہ اب بھی وہ صرف سیاست برائے سیاست کرتے رہیں گے یا سیاست برائے خدمت بھی کریں گے۔

وفاق اور صوبائی نمائندوں کو چاہیے کہ شہدا آرمی پبلک سکول کے لواحقین کی داد رسی کریں،جو بچے زخمی ہیں وہ بچے پاکستان کے بہادر غازی ہیں ان کی علاج معالجے کے لیے اگر انہیں حکومتی خرچ پر باہر بھی بھیجنا پڑے تو دریغ نا کریں۔اپنے سرکاری بابوئوں کو احکامات جاری کریں کہ فائلیں ادھر ادھر گھمانے سے پرہیز کریں اور زخمی بچوں کے علاج کے لیے فنڈز جاری کریں۔ایک ایک گزرتا لمحہ کہیں زخمی بچوں کو زندگی سے دور نا کردے۔دکھی ماں باپ کے غموں کا کچھ تو احساس ہو سیاست تو ہوتی رہے گی تھوڑی عوام کی خدمت بھی ہوجائے ۔وزیر اعظم نواز شریف کو خود چاہیے کہ اس معاملے میں وہ دلچسپی لیں، وہ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں اگر بچوں کو امدادی چیک پہلے ہی مل جاتے تو شاید آج اسحاق امین ہم سب کے درمیان موجود ہوتا۔اس وقت آرمی پبلک اسکول کےشدید زخمی بچے صوبہ سندھ میں موجود ہیں ،گورنر عشرت العباد اور وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے ان بچوں کے علاج پر فوری توجہ دینا چاہیے اور زخمی بچوں کے لیے فنڈز مختص کرنا چاہیے تاکہ یہ بچے زندگی کی طرف واپس لوٹ سکیں ۔
Javeria Siddique writes for Jang
Twitter @javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10693#sthash.eLSJxASM.dpuf

Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan, ZarbeAzb, جویریہ صدیق

شہید رفیق رضا بنگش‎

13754116_1770452179899252_934988793871424411_n

 …..جویریہ صدیق……

یوں تو آرمی پبلک اسکول کے شہید اساتذہ اور بچوں کا چالیسواں ہوچکا ہے لیکن لواحقین کے لیے16 دسمبر کے بعد سے وقت تھم گیاہے۔وہ زندگی سے وابستہ امیدیں اور تمام رونقیں منوں مٹی تلے دبا چکے ہیں۔شہدا کے لواحقین ہیں اس لیے صبر و استقامت کی مثال تو ہیں لیکن ہیں تو انسان ہی نا جیتے جاگتے، اپنے پیاروں کو کھو دینے کا غم انہیں اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے۔جانے والے چلے گئے لیکن لواحقین کو زندگی بھر کا روگ دے گئے۔جہاں پہلے پھول مسکرایا کرتے تھے اب وہاں خزاں کا موسم ہے۔
رفیق رضا بنگش بھی ان ہی ایک پھولوں میں ایک پھول ہے جو 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر حملے کے دوران مرجھا گیا۔رفیق شہید بھی ہال میں دوسرے بچوں کے ساتھ موجود تھا ،جہاں ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی جارہی تھی۔طالبان ظالمان موت کی صورت میں نازل ہوئے اور بچوں ان کے استاتذہ پر گولیاں برسانی شروع کردی۔رفیق بنگش کو بھی سر میں گولی لگی اور یوں صرف 15 سال کی عمر میں اس نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ جام شہادت نوش کرلیا۔
زندگی سے بھرپور تابعدارمیٹرک کا طالب علم رفیق رضا بنگش ہمیشہ کلاس میں پوزیشن لیتا تھا۔پانچ سال سے آرمی پبلک سکول میں زیر تعلیم تھا ،والدین نے اس لیے آرمی پبلک سکول میں داخل کروایا کیونکہ یہ پشاور کے بہترین اسکولوں میں شمار میں ہوتا ہے۔رفیق کے ساتھ ہی اس کے چھوٹے بھائی مرتجب رضا بنگش کو بھی آرمی پبلک سکول میں داخل کروایا گیا اور یوں دونوں بھائی روزانہ ساتھ اسکول جاتے۔ رفیق پوزیشن ہولڈر ہونے کے ساتھ ساتھ اسکول میں نعت خوانی کرتا اور رمضان ،ربیع الاول میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ضرور حصہ لیتا۔
رفیق رضا بنگش سائنس کا طالب علم تھا لیکن وہ سائنس کو روزمرہ زندگی پر بھی اپلائی کرتا،گھر میں کوئی چیز بھی خراب ہوجاتی رفیق اپنا ٹول بکس اٹھاتا اور خود ہی گھر میں چیزیں ٹھیک کرنا شروع کردیتا اور اکثر کامیابی سے انہیں ٹھیک کردیتا۔رفیق کو بچپن سے ہی گاڑیوں کا بہت شوق تھا پہلے تو خوب سارے کھلونے جمع کرتا اور پھر خوب کار ریسنگ ہوتی۔عمر کے ساتھ ساتھ گاڑیوں میں اس قدر دلچسی بڑھی کہ ڈرایونگ ہی سکھ ڈالی۔اپنی ایک چھوٹی سے گاڑی ڈیزائن کی اور اسکول کے بعد بس ایک ہی مشغلہ اس چھوٹی گاڑی کو روز جدید چیزوں سے لیس کرتے رہنا۔رفیق کی یہ خواہش تھی کہ وہ اسکول کے سائنس پراجیکٹس کی نمائش میں اپنی یہ چھوٹی ڈیزائن کردہ گاڑی کو لے کر جائے گا لیکن ایسا نا ہوا اور وہ اپنی اس خواہش کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگیا۔
رفیق رضا بنگش کے والد عابد بنگش نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کا لخت جگر ان کو یوں اچانک چھوڑ جائے گا۔ 16 دسمبر کو وہ اپنے دفتر میں کام میں مصروف تھے کہ میسج آیا آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوگیا ہے ماتحت سے موٹر سائیکل لی کیونکہ وہاں گاڑی لے کر جانا ناممکن تھا ، راستہ جام ہوچکا تھا وہاں پہنچے ۔موٹر سائیکل جانے تک کی جگہ نہیں تھی اور وہ پیدل ہی اپنے بچوں کو ڈھونڈتے رہے مرتجب رضا بنگش تو اللہ کے کرم سے محفوظ رہا لیکن رفیق رضا بنگش کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔عابد بنگش نے مختلف اسپتالوں میں چکر لگائے اپنے بیٹے کو ڈھونڈتے رہے ۔بیٹے کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتے رہے لیکن ان کی تلاش سی ایم ایچ میں اس وقت ختم ہوئی جب ان کے شہید بیٹے رفیق رضا بنگش کا جسد خاکی ان کے سامنے موجود تھا ۔سفید کفن میں لپٹا معصوم ننھا شہید وطن کی خاطر اپنی جان قربان کر چکا تھا۔
رفیق بنگش کے ساتھ اس کے دوستوں مبین شاہ اور محمد یاسین نے بھی شہادت پائی۔یہ سب ساتھ پلے بڑھے اور ایک ساتھ ہی سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔رفیق رضا بنگش شہید کی والدہ بہت بے چین ہیں ان پر غموں کا پہاڑ جو ٹوٹ پڑا اتنا نازوں سے پالا بیٹا طالبان کی بربریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔وہ ہر وقت ہر پل اس بات کی منتظر رہتی ہیں کہ کب کون سا لمحہ آئے اور وہ رفیق کو چاہےا یک پل کیوں نا ہو دوبارہ دیکھ سکیں ،بس کسی طرح ان کا لخت جگر واپس آجائے لیکن ایسا ممکن نہیں۔رفیق تو شہادت کا درجہ پا کر جنت میں چلا گیا۔ماں کا دل بے قرار ہے ہر پل ہروقت ہر آہٹ پر وہ صرف اپنے بیٹے کو پکار رہا ہے۔رفیق کی کاپیاں کتابیں کھلونے کپڑے سب ہی تو موجود ہیں وہ گاڑی بھی جس کو اس نے سائنسی نمائش میں لے کر جانا تھا بس اگر کوئی موجود نہیں ہے تو وہ رفیق خود ہے۔جو اپنے تمام پیاروں کو چھوڑکر چلا گیا۔
رفیق بنگش کے والد عابد بنگش کہتے ہیں کہ اس واقعے نے ان سب کی زندگی کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ رفیق جیسے انمول کو کھونے کا کرب بیان سے باہر ہے لیکن وطن پر جان نچھاور کرکے اس نے ہم سب کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی بار ان کی ہمشیرہ انہیں کینیڈا امیگریشن کے لیے کہہ چکی ہیں لیکن رفیق جب تک زندہ رہا اس نے ہر بار کہا کہ ہماراو طن پاکستان ہے اور ہمیں کسی غیر ملک میں جاکر کبھی نہیں رہیں گے۔ہمارا جینا بھی یہاں ہےاور مرنا بھی یہاں ہے یہ بات وہ سچ کرگیا اور اس مادر وطن پر اپنی جان نثار کردی۔شہید رفیق رضا بنگش کے بھائی مرتجب رضا بنگش کے مطابق میرا بھائی ہم سب کو بہت پیارا تھا لیکن میرے خیال میں اللہ تعالی کو وہ ہم سب سے زیادہ پیارا تھا اس لیے اس کو شہادت کے رتبے پر فائز کرکےاللہ نے اپنے پاس بلوالیا۔ مرتجب کا کہنا ہے میں نے اپنے آنسو روک لیے ہیں کیونکہ میرے بھائی کو میرے آنسو سے تکلیف نا ہو ۔میں نے اسکول جانا دوبارہ شروع کردیا ہے کیونکہ ہم پاکستانی بچے کسی دہشتگرد سے نہیں ڈرتے لیکن بھائی کی کمی کا احساس مجھے شدت سے ہے پہلے ہم دونوں ساتھ جاتے تھے اور اب میں اکیلا اسکول جاتا ہوں۔
رفیق رضا بنگش شہید کے خاندان کے مطابق ہم اپنے بیٹے کی قربانی پر نازاں ہے لیکن یہ وقت قوم کے متحد ہونے کا ہے ہم سب کو اپنے مفادات کو پس پشت رکھتے ہوئے اب صرف اس مادر وطن کے لیے متحد ہونا ہوگا۔ سول سوسائٹی کو مل کر فوج کا ساتھ دینا ہوگا تب ہی ہم سن مل کر ہی اس دہشت گردی کو ختم کرسکتے ہیں۔بچوں کی قربانی کو ہم رائیگاں نہیں جانے دےسکتے ،صرف متحد ہو کر ہی ہم دہشت گردی کے اس ناسور کو معاشرے سے اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں ۔
تمام پاکستانی جہاں شہید بچوں کے لیے رنجیدہ ہیں وہاں انہیں ان ننھے شہیدوں پر فخر بھی ہے کہ آرمی پبلک سکول میں بچوں اور استاتذہ نےموت کا جرات سے سامنا کیا اور وطن کے لیے جان قربان کردی،شہید رفیق رضا بنگش کو سلام، آرمی پبلک اسکول کے تمام شہدا کی عظمت اور جرات کوسلام۔

 

Posted On Thursday, January 22, 2015

Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan

پشاور کے بچوں کے لہو پر سیاست

  Posted On Thursday, January 15, 2015   …..جویریہ صدیق…….
کسی بھی انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کے بچے ہوتے ہیں۔ماں اپنی کوکھ میں نو ماہ رکھ کر بچے کو پیدا کرتی ہے تو ورثا بچے کی آمد پر پھولے نہیں سماتے ۔ بچے کے ناز نخرے اس کی کلکاریاں اس کی شرارتیں بس خاندان بھر کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔اگر بچہ کو ہلکی سی بھی چوٹ لگ جایے یا معمولی سی بیماری آجایے تو ماں کے دل پر جو قیامت بیتی ہے اس کا حال صرف ماں ہی بیان کرسکتی ہے۔باپ بھی اتنی ہی شفقت بچے کو دیتا ہے جتنی ماں بچے کو محبت دیتی ہے۔دونوں کی کوشش ہوتی ہے بچے کو ایک ہلکی سی خراش بھی نا پہنچے۔
آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچے بھی اپنے والدین کی آنکھوں کا تارہ تھے ان کے دل کا قرار اور زندگی کا کل اثاثہ ۔موت طالبان کی صورت میں آئی اور بچوں کے ساتھ وہ حیوانیت برتی گی کہ ظلم و بربریت کی ایسی مثال پہلے ملتی ہی نہیں۔مائوں نے اپنے جیتےجاگتے شہزادے سکول بھیجے تھے جب واپس ملے تو کسی کے چہرے پر گولیاں تھیں کسی کا گلا کاٹ دیا گیا تھا کسی پھول کا جسم گولیوں سے چھلنی ملا تو کسی تو جلا دیا گیا تھا۔پشاور کی مائیں روتی رہیں چیختی رہیں لیکن ان کے ہنستے کھیلتے بچے تابوتوں میں بے جان پڑے تھے۔مائیں ان کا نام لیتی رہی ان کو اٹھنے کا کہتی رہیں لیکن جنت کے پھول تو واپس جنت جا چکے تھے۔
اس سانحے کے بعد امید تھی کی سیاسی قیادت ایک ہوجائے لیکن ایسا نا ہوا کچھ دن سوگ کا لبادہ اوڑھے رکھنے کی بیکار کوشش کے بعد وہ ہی آپس کے الزامات،طعنے،لڑائی کی سیاست کا آغاز کردیاگیا۔اس دوران لواحقین کو یکسر فراموش کردیا۔پہلے ایک دو دن تو فوٹو شوٹ کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتی ارکان کے وزٹ ہوتے رہے اس کے بعد وہ ہی دھاندلی دھاندلی کا واویلا شروع ہوگیا۔پھر انقلابی لیڈر کی شادی آگئی۔لواحقین اگر یاد رہے تو صرف آرمی کو لواحقین کے مطابق ٰصرف آرمی کے نمائندے ہماری دلجوئی کرنے آئے۔انہیں گلہ ہے اس بات کا جب سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیے وہ کیوں نا آئے۔
12 تاریخ سے آرمی پبلک سکو ل اور ملک کے تمام سکولوں میں تدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ۔تمام پاکستان کو اس وقت خوش گوار حیرت ہوئی جب بچوں کو پاکستان کے آرمی چیف راحیل شریف نے خود جا کر ریسو کیا۔اپنی اہلیہ کے ساتھ بچوں کی اسمبلی میں شرکت کی۔ سب بچوں سے ملے ان کا حوصلہ بڑھایا۔لواحقین منتظر رہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کب آئیں گے، تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کب آئیں گے، پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری کب آئیں گے لیکن کوئی نا آیا۔جب میڈیا پر بہت شور مچ گیا۔تو عمران خان جن کی پارٹی کی خیبر پختون خواہ میں حکومت ہے یہ کہا کہ ہمیں منع کیا گیا تھا کہ پہلے دن آرمی کا فنکشن ہے آپ مت آئیں۔مسلم لیگ ن نے تو وضاحت دینا بھی ضروری نا سمجھا یہ ہی حال پی پی پی کا ہے۔
14 جنوری کو تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان اکیس گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ آرمی پبلک سکول پہنچے۔ان کی آمد پر سیکورٹی پر مامور پولیس نے شہدائے سانحہ پشاور کے لواحقین سے بدتمیزی کی ، انہیں دھکے دئیے اور برا بھلا کہا۔شہدائے پشاور کے نیم زندہ والدین اس بات پر احتجاج کرنے لگے اور گو عمران گو کے نعرے لگائے۔اسفند یار شہید کی والدہ دہائی دیتی رہیں کہ یہ سیاستدان کیسے ہمارے ساتھ ہیں ؟ ہم تڑپ رہے ہیں یہ شادی کررہے تھے یہ صرف باتیں کرتے ہیں ہمارے لیے تبدیلی کی لیکن اصل میں ان کے یہاں آنے کامقصد صرف فوٹو شوٹ تھا۔احسان شہید کی والدہ بھی روتی رہیں اور کہتی رہیں عمران خان ، نواز شریف، آصف علی زرداری ہمارے دو دو بیٹے چلے گئے اور آپ سب کو احساس ہی نہیں۔
آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کی مائیں دہائیاں دیتی رہیں، روتی رہیں اور پشاور پولیس پروٹوکول کے نام پر ان کو دھکے دیتی رہی، خیبر پختون خواہ حکومت کے نمائندے انہیں برا بھلا کہتے رہے۔مائیں یہ پوچھتی رہیں کہ ہمارے بچوں کا چالیسواں بھی نہیں ہوا اور یہ سیاستدان خوشی کے شادیانے بجاتے رہے۔16 دسمبر کے بعد سے ہمیں تنہا چھوڑا ہوا ہے ۔اب ہمارے بچوں کی لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے آئے ہیں اور کچھ نہیں ان کا مقصد۔
عمران خان کے خلاف احتجاج پر صوبائی وزیر خیبر پختون خواہ مشتاق غنی نے یہ الزام عائد کردیا کہ احتجاج کرنے والے پلانٹڈ تھے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا کہ والدین نے احتجاج کیوں کیا ؟ اسکول آرمی کا ہے،صوبہ کے چیف پرویز خٹک ہیں تو میری آمد پر احتجاج کیوں ؟انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ مجھے بھی والدین نہیں لگے اس کے بعد انہوں نے پھر چار حلقے اور دھاندلی کی گردان شروع کردی۔
عابد رضا بنگش جن کے اپنے بیٹے رفیق بنگش نے آرمی بپلک سکول میں شہادت پائی اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ خیبر پختون خواہ کی حکومت نے انہیں یکسر فراموش کردیا ہے اور اب اوپر سے یہ بھی الزام عائد کیا جارہا ہے کہ احتجاج کرنے والے والدین نقلی تھے،ان کے مطابق اگر یہ بات ثابت ہوگی تو وہ شہدا فورم کو ختم کردیں گے۔
آج جو بھی ہوا بہت افسوس ناک ہے شہید ہونے والے پھولوں کی لاشوں پر سیاست کی کوشش،بچوں کے لواحقین کو نقلی کہنا ان کو پولیس کے ہاتھوں سے ذلیل کروانا ہمارے سیاست دان کہاں جا رہے ہیں ۔نیم مردہ والدین جن کی زندگی تو قبر میں دفن ہوگی، ان والدین پر تشدد کرنے کا کیا جوازہے جن کے بچے چلے گئے ،کیا وہ خیبر پختون خوانئےپاکستان میں احتجاج بھی نہیں کرسکتےِ ؟کیا ہمارے سیاستدانوں اور انتظامیہ میں سے انسانیت ختم ہوگی ہے ؟ آج کے واقعے کے بعد آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کے والدین نے مطالبہ کیا کہ ان پر تشدد کرنے والے ایس ایس پی آپریشن اور ڈپٹی کمشنر کو فوری طور پر معطل کیا جائے اور صوبائی حکومت میں ذمہ دار افراد مستعفی ہوں۔
سیاست دانوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ کہ سیاست برائے سیاست سے کہیں وہ عوام میں اپنی مقبولیت کھو نا دیں۔ کھوکھلے وعدے اور نعرے انقلاب بہت عرصہ تک عوام کو دلاسا نہیں دے سکتے۔اگر عوام کے لیے کچھ کرنا ہی ہےتو تمام سیاست دان سیاست برائے خدمت کریں۔عوام کے مفاد میں سیاست کی جائے اپنی ذاتی چپقلش اور عناد کو ایک طرف رکھ تمام سیاستدانوں کو دہشت گردی کے ستائے عوام کی داد رسی کے لیے فوری اقدام کرنا ہوں گے،ورنہ پاکستان کی آئندہ نسلوں کے سامنے یہ سر اٹھا کر نہیں چل سکیں گے۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10579#sthash.POoZxwGG.dpuf

Posted in ArmyPublicSchool

شہیدصائمہ طارق جرات وعظمت کی مثال

10891447_500767603397936_768906388404956407_n

…جویریہ صدیق..….

گھر سے باہر جو پہلا رشتہ کسی بھی بچے کا ماں باپ کے بعد قائم ہوتا ہے وہ ہے استاد اور شاگرد کا رشتہ۔استاد کو روحانی ماں باپ کا درجہ حاصل ہے۔بچہ ماں کی گود سے نکل کر جب درسگاہ آتا ہے تو اس کی شخصیت کو بنانے میں اساتذہ کرام کا سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔بچہ جب تین سال کی عمر میں اسکول پہنچتا ہے تو روتا ہے مچلتا ہے کہ ماں باپ کے بنا اسے کہیں بھی نہیں رہنا وہ بار بار روتا ہے اور گھر جانے کی ضد کرتا ہے لیکن استاد اس بچے کا ننھا منا ہاتھ پکڑ اسے درسگاہ میں لا تا ہے وہ ایک شفقت بھرا لمس بچے کو غیر مانوس جگہ سے انسیت پیدا ہونے میں مدد دیتا ہے۔ استاد ہرجگہ بچے کا مددگار ہوتا انہیں لکھنا سکھاتا ہے، پڑھنا دین کی سمجھ دنیوی تعلیم اور معاشرے میں جینے کا طریقہ اور آگے چل کر یہ ہی استاد بچوں کو ترقی کرتا دیکھ کر فخر کرتے ہیں۔
آرمی پبلک اسکول میں بھی گیارہ سو سے زائد بچے ایسے ہی استاتذہ کے زیر چھائوں تعلیم حاصل کرنے میں مگن تھے۔جب والدین صبح اپنے بچوں کو اسکول چھوڑ کرجاتے تو یہ استاتذہ مسکراتے ہوئے بچوں کا استقبال کرتے۔ کتنے ہی چھوٹے چھوٹے بچے جب صبح ماں کے پہلو کے ساتھ چپک کر روتے تو یہ ہی استاتذہ اپنے ہاتھوں سے ان کے آنسو پونچھ کر گلے لگاتے اور تسلی دیتے کہ وہ سکول میں اکیلے نہیں ان کے لیے پیار شفقت تعلیم سب ہی کچھ موجود ہے۔نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے بچے تو اب استاتذہ کے دوستوں میں شمار ہوتے ۔ان کی تعلیم سے لے کر ان کے غیر نصابی مشاغل میں استاتذہ ان کے ہم قدم ان کی رہنمائی کرنے لیے موجود۔
اس ہی اسکول میں ایک ہر دل استاد صائمہ طارق بھی تھیں۔جنہوں نے اساتذہ کی تاریخ میں رحم دلی پیار محبت ایثار کی نی داستان رقم کر ڈالی۔آٹھویں کلاس کی ٹیچر جن کے ذمہ تمام سکیشنز کی انگریزی کی کلاس تھی۔صائمہ طارق شہید مردان سے تعلق رکھتی تھیں اور بی اے کرنے کے بعد ہی تدریس کا عمل شروع کردیا۔تدریس کے ساتھ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا پہلے انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور بعد میں ایجوکیشن میں ایم فل۔انیس سو اٹھانوے سے تدریس کا آغاز کیا اور مردان کے عزیز بھٹی شہید اسکول میں پندرہ سال تعلیم کی روشنی بانٹتی رہیں۔پاک فوج کے بریگیڈیر طارق سعید کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور شادی کے بعد بھی تدریسی عمل ترک نا کیا۔اپنے شوہر کی ٹرانسفر کی وجہ سے پشاور میں سکونت اختیار کی اور چھبیس اکتوبر کو آرمی پبلک سکول ورسک روڈ جوائن کیا۔
جلد ہی صائمہ طارق کا شمار آرمی پبلک سکول ورسک روڈ میں زیرتعلیم بچوں کی ہر دلعزیز ٹیچر میں ہونے لگا آٹھویں جماعت کی کلاس ٹیچر ہونے کے ساتھ دیگر سکشینز کو انگریزی پڑھانے کا ذمہ بھی انہیں ملا۔صائمہ طارق نے ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ کیا تو بریگیڈیر طارق سعید نے انہیں کچھ عرصہ تدریسی عمل سے بریک لینے کا مشورہ دیا لیکن انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں گھر اسکول اور تعلیم کا سلسلہ آرام سے ہینڈل کر لو ںگی آپ فکر نا کریں ۔سولہ دسمبر کی صبح صائمہ طارق تہجد کی نماز پڑھنے کے بعد طالب علموں کی کاپیاں چیک کرنے لگیں ،کچن کے ضروری کاموں کو انجام دینے کے بعد اسکول کے لیے روانہ ہوگئیں ۔اہل خانہ کے مطابق گھر میں ملازمین ہونے کے باوجود وہ گھر کے سب کام خود کرنا پسند کرتی تھیں۔تہجدکے ساتھ ساتھ پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے پڑھا کرتی تھیں۔
اسکول میں تدریسی عمل کا آغاز ہوا اور صائمہ طارق کی کلاس نے ہال میں آرمی میڈیکل کور سے ابتدائی طبی امداد کی ٹرینگ لینا تھا۔صائمہ طارق تمام بچوں کو لے کر ہال میں گئیں اور نویں کلاس کے طالب عملوں نے بھی انہیں جوائن کرلیا۔تمام بچے اپنے استاتذہ کے ساتھ ہمہ تن گوش تھے اور ابتدائی طبی امداد سیکھنے لگے۔کسی زی روح کے گمان میں بھی یہ نا تھا کہ موت کے کالے سائے ان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اسکول میں فرسٹ ائیر سکینڈ ائیر کا پرچہ بھی تھا۔تدریسی عمل معمول کے مطابق جاری تھا کہ عینی شاہدین کے مطابق اچانک اسکول سے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔معصوم بچے سہم گئے اور استاتذہ نے ہال کے دروازے بند کردیے تاکہ بچے محفوظ رہ سکیں۔
لیکن ایسا نا ہوسکا طالبان نے ہال کے دو داخلی دروازے توڑ دیے اور موت بن کر بچوں پر گولیاں برسانا شروع کردیں۔ہال میں موجود ٹیچرز نے ہمت نا ہاری اور دہشت گردوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں۔انہوں نے بچوں کو ہال سے بھاگنے کے لیے کہا تاکہ بچے اپنی جان بچاسکیں لیکن ظالم دہشت گردوں نے ہال میں موجود صائمہ طارق پر کیمیکل پھینک کر انہیں زندہ جلا دیا اور سحر افشاں ،سیدہ فرحت کو گولیاں مار کے شہید کیا گیا ،ان خواتین استاتذہ کے آخری الفاظ یہ ہی تھے کہ بچوں جائو اپنی جان بچائو متعدد بچے ہال سے نکلنے میں کامیاب بھی ہوگئے لیکن شہید صائمہ طارق،شہید سیدہ فرحت اور شہید سحر افشاں سمیت ایک سو پچاس افراد جن میں بیشتر بچے تھے اس دہشت گردی کے واقعے میں جام شہادت نوش کیا۔
آرمی کی کوئیک رسپانس ٹیم اور ایس ایس جی کمانڈو پندرہ منٹ کے اندر اندر سکول پہنچے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا لیکن دہشت گرد کسی کو یرغمال بنانے نہیں آئے تھے ان کا مقصد صرف خون کی ہولی کھیلنا تھا۔آرمی پبلک اسکول کی پرنسل طاہرہ قاضی،استاتذہ اور 135 پھولوں نے اس سانحے میں شہادت پائی۔یوں ان سب نے بہادری اور جرات کی وہ داستان رقم کی ہے جو تا قیامت یاد رکھی جائے گی۔
صائمہ طارق شہید کو جب مردان میں دفن کیا گیا تو ان کے شاگرد دھاڑیں مار مار کر روتے رہے پندرہ سال مردان کے عزیز بھٹی شہید اسکول میں وہ ایک نسل کو تعلیم سےلیس کرگئی تھیں۔ ایک شاگرد کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ میں اپنی پیدا کرنے والی ماں کو تو بھول سکتا ہوں لیکن اپنی روحانی ماں صائمہ طارق کو کبھی فراموش نہیں کرسکتامیں آج جو کچھ ہوں اپنی استاد شہید صائمہ کی وجہ سے ہوں۔آرمی پبلک اسکول ورسک روڈ کے طالب علموں کا کہنا تھا کہ صائمہ طارق کا شفیق چہرہ ہم کبھی بھول نہیں سکتے ہیں اللہ نے ہماری میم کو شہادت جیسے بڑے رتبے پر فائز کیا ہے اور ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ ان سمیت ہمارے دیگر شہید ہونے والے استاتذہ کو بہادری کے تمغوں سے نوازا جائے۔
صائمہ طارق کے گھر والوں کا صبر کا قابل دید ہے ان کے شوہر بریگیڈیر طارق سعید ان کے بچے اور خاندان کے دیگر لوگ صائمہ طارق کی بہادری پر نازاں ہیں کس طرح اپنی جان کی پرواہ نا کرتے ہوئے روحانی ماں نے اپنے شاگردوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔اہل خانہ کے مطابق صائمہ بہت ہی ملنسار اور رحم دل شخصت کی مالک تھیں ان کی زندگی کا نصب العین صرف اور صرف بچوں میں علم کی روشنی بانٹنا تھا۔وہ صوم وصلوٰــۃ کی پابند تھیں اور بچوں کو بھی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دین اسلام پر عمل کرنے کی تلقین کرتی تھیں۔صائمہ شہید گھریلو کاموں میں بھی بہت دلچسپی لیتی تھیں اور خاص طور پر نت نئے کھانے بنانے کا شوق رکھتی تھیں۔اہل خانہ کے مطابق صائمہ شہید فوٹوگرافی کی بہت شوقین تھیں فون سے تصاویر لینے میں ماہر تھیں اس کے ساتھ ساتھ کیمرے سے بھی لمحات کو قید کرنے کی شوقین تھیں۔
صائمہ طارق کے اہل خانہ کے مطابق تصاویر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تو صائمہ کے ساتھ ہی چلا گیا جوکہ ان کے فون میں موجود تھا لیکن ان کے لکھے ہوئے مضامین اور افسانے گھر کے کمپیوٹر میں محفوظ تھے جوکہ اب ان کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔صائمہ طارق کے اہل خانہ کے مطابق ان کا پاکستان کے رہنے والوں کے لیے یہ ہی پیغام ہے ہمیں صائمہ طارق شہید اور دیگر شہدا کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دینا ہم سب کو مل کر دہشت گردی کے خلاف جہدوجہد کرنا ہوگی اور اس سوچ کو شکست دینا ہوگی جو دہشت گردی کو اس ملک میں پروان چڑھا رہی ہے۔ہمیں فخر ہے کہ صائمہ طارق نے اپنے شاگردوں کو بچاتے ہوئے اس ملک اور اپنے روحانی بچوں کے لیے جان قربان کی۔

آتش و دہن میں کھڑی تھی تو
گلشن کے تحفظ میں کڑی تھی تو
درندے گھس آئے تھے وہاں
معصوم کلیوں کا تھا جو گلستاں
استاد بڑے شجیع ہوتے ہیں
سمندر جیسے وسیع ہوتے ہیں
شہید ہو کر امر ہوئی
وحشت پر ممتا لے گئی بازی

Javeria Siddique

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

Posted On Monday, December 22, 2014

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10466#sthash.C8ypURJ2.dpuf

Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan

گل رعنا کا دکھ

گل رعنا کا دکھ

  Posted On Thursday, December 25, 2014   …..جویریہ صدیق……
مردان طورو سے تعلق رکھنے والی گل رعنا کے گھر محمد علی کی پیدایش12 اکتوبر1998 کو ہوئی۔گل رعنا اور ان کے شوہر شہاب الدین کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔تین بہنوں کا اکلوتا بھائی اسکا نام بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام کی مناسبت سے محمد علی رکھا گیا۔محمد علی کو شروع سے ہی آرمی میں جانے کا شوق تھا اور وہ بچپن میں جب بھی مچل مچل کر گاڑی جہازفوجی ٹینک والے کھلونوں کی ضد کرتا تو شہاب الدین مسکراتے ہوئے جابجا کھلونے اس کو لے دیتے اکلوتا جو تھا ۔گل رعنا کی آنکھوں کی ٹھنڈک اس کے دل کا قرار جب گھر سے تعلیم کے حصول کے لیے نکلا تو اس کے لیے اس کو شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے آرمی پبلک سکول ورسک روڈ کا انتخاب کیا گیا۔محمد علی کا تعلیمی سلسلہ شروع ہوا ہر مضمون میں بہترین اور ساتھ میں سکول کی باسکٹ بال ٹیم کا سب سے بہترین کھلاڑی۔سکول میں شوٹنگ میں بھی سب سے آگے اور ہمیشہ نشانے لیے ہوئے کہتا کہ ایک دن وہ دہشت گردوں پر بھی اسی ہی طرح نشانہ رکھ کر انہیں جہنم واصل کرےگا ۔گل رعنا کا شرارتی بیٹا ہر چیز میں آگے تھا گھر میں بہنوں کے ساتھ خوب شرراتیں ماما سے فرمائش، ماما چپس بنا دیں، ماما کیچپ دیں، ماما فرنچ ٹوسٹ کہاں ہے، ماما ریموٹ کہاں ہے میں نے سی آئی ڈی دیکھنا ہے بس جہاں کہیں ایکشن سسپنس سے بھرپور ڈرامہ یا پروگرام آرہا ہو وہاں ریموٹ صرف اس کاہی ہوتا۔محمد علی اپنے والد شہاب الدین کا خاص لاڈلا تھا گل رعنا پھر بھی سختی کرتی تھیں کہ اکلوتا ہے کہیں خود سر نا ہوجائے لیکن شہاب الدین تو کہتے کہ گل میرے بیٹے کو کچھ نا کہو کرنے دو اسکو شرارتیں یہ ہی دن ہیں ان کے کھیلنے کودنے کے پھر بڑا ہوجائے گا تو کہاں وقت ملےگا ۔
نوجوانی کی دہلیز پر دستک دیتا محمد علی کبھی دوستوں کے ساتھ کرکٹ کبھی باسکٹ بال تو کبھی کیرم کی بازی جہاں کہیں بھی محمد علی کھیل رہا ہوتا گل رعنا ایک نظر اس کو چپکے سے دیکھ ہی آتی جب محمد علی ان کو دیکھتا تو گھر آکر خفا ہوتا ماما اب میں بڑا ہوگیا میرے سب دوست دیکھتے ہیں کہ جہاں علی جاتا ہے اس کی ماما اس کو ضرور ایک نظر دیکھ کر جاتی ہیں لیکن گل رعنا مسکرا کر کہتی بیٹا یہ ماں کا دل ہے تم نہیں سمجھو گے۔دس دسمبر کو محمد علی باسکٹ بال میں میڈیل جیت کر آیا تو ماں نے بے ساختہ دعا دی بیٹا تم فخر خاندان ہو خدا تمہیں فخر پاکستان بنائے اور تم دیکھنا ایک دن اخبارات میں تمہاری تصاویر آئیں گی لیکن کسی کو کیا معلوم تھا محمد علی کی گل رعنا کے ساتھ ہی تصاویر آئیں گی لیکن سانحہ پشاور کے بعد۔
سولہ دسمبر کا دن طلوع ہوا محمد علی نے صبح کے وقت قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھا گل رعنا نے آواز دی بیٹا تیار ہوکر ناشتہ کرلو علی سکول کے لیے تیار تو ہوگیا لیکن ناشتہ نا کیا اور دوبارہ قرآن کی تلاوت شروع کردی ماں نے پھر آواز دی تو کہا امی میں چاہتا ہوں وین آنے سے پہلے سپارہ ختم کرلوں۔مامتا سے مجبور ماں نے کہا چائے ہی پی لو بس دو گھونٹ چائے پی اور سکول کے لیے روانہ ہوگیا ۔علی کےتمام دوست سکول کی باسکٹ بال ٹیم کا حصہ تھے۔باسکٹ بال کی پریکٹس کی بعد میں روٹین کی پڑھائی۔ اس دن ہال میں طبی امداد کی ٹرینگ دی جانی تھی اور میڈم افشاں کے ساتھ علی کی کلاس نائن ڈی بھی ہال میں آگئی ۔دوسری طرف گل رعنا اپنی بیٹیوں اور بیٹے کو سکول بھیجنے کے بعد گھر کے کاموں میں مصروف ہوگی ۔
موت طالبان ظالمان کی صورت آرمی پبلک سکول میں داخل ہوئی اور بچوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی گئی۔ طالبان کی طرف سےحیوانیت کا وہ کھیل کھیلا گیا کہ عرش کانپ اٹھا ۔میڈیم افشاں دہشت گردوں اور بچوں کے بیچ میں آگئی اور بچوں کو ہال سے بھاگنے کے لیے کہا۔محمد علی ان کچھ چند خوش نصیب بچوں میں تھا جوکہ ہال میں نکلنے سے کامیاب ہوگئے لیکن جب پیچھے دیکھا تو اس کے باسکٹ بال کے پلیئر ساتھی اس کے دوست اس کے کلاس فیلو اذان علی ،علی رحمان اور وقار تو پیچھے ہی رہ گئے تھے وہ پھر پلٹا تو ظالم دہشت گردوں نے گل رعنا کے پھول جیسے بیٹے کی ٹانگوں پر گولیاں ماردی۔وہ گر پڑا لیکن ہمت نا ہاری زمین پر رینگتا ہوا سکول کے گیٹ کی طرف بڑھا لیکن وحشی درندوں نے ایک بار پھر اس معصوم کو نشانہ بنایا اور گولیوں سے چھلنی کردیا یوں محمد علی اس وطن پر قربان ہوگیا۔
گل رعنا اور شہاب الدین کو جب اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو فوری طور پر سکول کی طرف بھاگے لیکن وہاں آرمی آپریشن شروع ہوچکا تھا وہاں سے اسپتال کا رخ کیا تو گل رعنا کو یہ ہی امید تھی اس کا اکلوتا بیٹا اسکا نور نظر زندہ ہوگا ہسپتال میں قیامت صغری برپا تھی ہر طرف آرمی پبلک سکول کے ننھے پھولوں کی مسخ لاشیں تھیں۔اسپتال کے ایک کونے میں آرمی پبلک سکول کی پوری باسکٹ بال کی ٹیم کی لاشیں بھی موجود تھیں اسکول کی پوری باسکٹ بال ٹیم ہی ختم ہوگئی۔وہ بچے جو سنہرے خواب آنکھوں میں سجائے سکول گئے تھے اب ان کی بے نور آنکھیں سوال کر رہی تھیں کہ ہمارا کیا قصور تھا ہمیں کیوں اس نے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا؟گل رعنا کا جیتا جاگتا بیٹا جس کو گھر سے سکول تعلیم کے لیے بھیجا تھا جس کو ابھی پاک فوج میں بھیج کر ملک کا پاسبان بننا تھا جس کے سہرے کے پھول ابھی دیکھنے تھے وہ بچہ دیگر ایک سو پینتیس بچوں کے ساتھ سفید کفن میں ملبوس تھا۔زمین کیوں نا پھٹی آسمان کیوں نا ٹوٹ پڑا آہ گل رعنا کی کل کاینات اس کا بیٹا محمد علی چلا گیا۔
محمد علی کے تابوت سے لپٹ کر روتی رہی اسکو اٹھنے کا کہتی رہی گھنٹوں روتہ رہی پھر بیٹا نا اٹھا کیونکہ محمد علی تو اپنی جان اس وطن کے لیے قربان کرکے شہید کا درجہ حاصل چکا تھا۔گل رعنا جس وقت اپنے بیٹے کے لیے تڑپ تڑپ کر رو رہی تو متعدد کیمروں نے اس کی اپنے شہید بیٹے کے ساتھ تصویر محفوظ کرلی،جس جس پاکستانی نے یہ تصویر دیکھی وہ تڑپ اٹھا گل رعنا کی تکلیف دیکھ کر جس بیٹے کو نو ماہ کوکھ میں رکھ کر پیدا کیا راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس کی دیکھ بھال کی اتنی محنت کرکے پندرہ سال کا کیا آنے والے درندوں نے پندرہ منٹ بھی نا لگائے او گل رعنا کی امیدوں ارمانوں اور خوشیوں کا خون کرکے چلے گئے۔محمد علی کے جنازے میں پشاور اور مردان طورو میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔علاقے کا ہر شخص محمد علی کی تابع داری اور بڑوں کے ساتھ حسن سلوک کا چرچا کرتا رہا۔مردان میں طورو کے علاقے میں ننھے شہید محمد علی کو سپرد خاک کردیاگیا۔
گل رعنا کے وجود کا حصہ اس کی پندرہ سال کی محنت اس کا پیار اس کی آنکھوں کی تارہ اب ایک سرد قبر کا مکین ہے وہ بچہ جسے کو ماں نے کبھی ایک پل آنکھ سے دور نا کیا تھا آج مردان میں ابدی نیند سو رہا ہے۔گل رعنا کے گھر پاک فوج کے افسران اور اے این پی کے لیڈران حاجی غلام احمد بلور،ہارون بشیر بلور،میاں افتخار حسین اور شگفتہ مالک آئے اور انہیں تسلی دی اور دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے کا عندیہ دیا۔لیکن گل رعنا انتظار کرتی رہی کہ کب وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف،وزیر اعلی خیبر پختون خواہ پرویز خٹک کب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان،مریم نواز شریف اورپی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس کے گھر آئیں گے اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھیں گے ،شہاب الدین کو تسلی دیں گے محمد علی کی تین کم سن بہنوں کے آنسو پونچھیں گے لیکن ایسا نا ہوا کوئی بھی نا آیا۔ جب ووٹ لینے کے لیے لیڈران ہمارے علاقوں اور گھروں میں آسکتے ہیں تو ہمارے غم میں شرکت کرنے کیوں نہیں آسکتے جب گل رعنا کو یہ پتہ چلا کہ عمران خان آرمی پبلک سکول آرہے ہیں تو گل رعنا سوگ کی کیفیت میں اسکول چلی گئی اور عمران خان سے سوال کیا کہ یہ ہے وہ تبدیلی جس کا خواب آپ سب کو دیکھا رہے ہیں ؟ ہمارے بچے چلے گئے اور ہمیں پرسہ دینے بھی کوئی نہیں آیا۔آپ کب طالبان کے خلاف ایکشن لیں گے ؟ ہمارے بچوں کو انصاف کون دےگا؟ لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین کے پاس کوئی جواب نا تھا۔
گل رعنا کہتی ہیں کہ میرا بیٹا محمد علی تو اس ملک پر اپنی جان نچھاور کرگیا لیکن میں نہیں چاہتی کہ اس قربانی رائیگاں جائے۔میں چاہتی ہوں میرے بیٹے کے لہو کی قربانی سے ملک میں امن آجائے اور کوئی ماں ایسا غم پھر نا دیکھے جو میں نے اور دیگر ایک سو چونتیس بچوں کی مائوں نے دیکھا ہے۔گل رعنا نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ انکے بیٹے باقی شہید ہونے والے بچوں کوسرکاری طور پر شہید کا درجہ دیا جائے اور آرمی پبلک کے شہدا کی یاد میں ایک یادگار تعمیر کی جائے۔انہوں نے آرمی اور حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ ایک ایک دہشت گرد کو اسکو انجام تک پہنچایا جائے تاکہ پھر کسی ماں کی گود نا اجڑے۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at :Twitter @javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10477#sthash.1OdFvxwO.dpuf