Posted in ChildLabor, human-rights, Pakistan

محنت مزدوری کرتے پاکستانی بچے

محنت مزدوری کرتے پاکستانی بچے

  Posted On Tuesday, December 09, 2014   …..جویریہ صدیق……
پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد بد ترین مشقت کا شکار ہے،جس عمر میں عام بچے کھلونوں ،کارٹونز چاکلیٹ اور دیگر چیزوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اس عمر کے بارہ ملین بچے پاکستان میں مشقت کا شکار ہیں۔دنیا بھر کے مشقت کرنے والے بچوں کے لحاظ سے بدترین ممالک میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے۔بچے سے مشقت بہت سی صورتوں میں لی جاتی ہے جن میں صنعتوں میں مزدوری،معدنیات نکالنے کے لیے کان کنی،اینٹوں کے بھٹوں پر اینٹیں بنوانا،گھروں میں ملازم بنا کر کام کرانا،گلی کوچوں میں چیزیں بیچنا،ورکشاپ میں گاڑیوں کی مرمت کرتے بچے،کاشتکاری کرتے بچے اور ہوٹلوں میں گاہکوں کے جھوٹے برتن صاف کرتے تمام ہی بچوں سے مشقت کرنے کی مختلف اقسام ہیں۔
پاکستان میں بچوں سے مشقت کروانے کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں جن میں غربت،وسائل کی کمی اور آبادی میں بے تحاشہ اضافہ شامل ہے۔بہت سے افراد اپنے خاندان کا پیٹ نہیں پال سکتے اس لیے بچوں کو جبری مشقت پر بجھوا دیتے ہیں کچھ بچے گلی کوچوں میں کام کرتے ہیں تو کچھ گھروں اور کارخانوں کی چار دیواری میں۔ان بچوں کا استحصال اس ہی وقت سے شروع ہوجاتا ہے جب ان کو گھر کی دہلیز سے نکالا جاتا ہے۔ماں کی آغوش اور باپ کی شفقت سے محروم یہ بچے جب باہر کام کرتے ہیں تو ان کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اجرت کم دی جاتی ہے،تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، ان کی غذائی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا،انہیں موسم کے لحاظ سے لباس مہیا نہیں کیا جاتا اور بعض اوقات یہ بچے جنسی تشدد کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم سپارک کے شعبہ ریسرچ کے ہیڈ حمزہ احسن کے مطابق غربت اور بے روزگاری وہ بڑی اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو گھر سے باہر ملازمت کے لیے بھیج دیتے ہیں۔جب گھر میں کھانے والے زیادہ ہوں اور کمانے والے کم تب والدین بچوں کی آمدنی کا سہارا لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
عام طور پر بچوں کو مالکان انتہائی کم اجرت پر ملازم رکھتے ہیں ۔اس کے حوالے سے نا ہی کوئی نگرانی کی جاتی ہے نا ہی حکومت دلچسپی لیتی ہے ۔بچوں کے والدین چونکہ غریب ہوتے ہیں اس لیے وہ بھی کم اجرت پر خاموش ہی رہتے ہیں دو ہزار تیرہ میں کیے گئے سروے کے مطابق دس سے پندرہ سال کی عمر کے تقریباً چار عشاریہ چار فیصد بچے ملک کی افرادی قوت کا مستقل حصہ ہیں۔لیکن دس برس کے بچے اس سروے کا حصہ نہیں ایک اندازے کے مطابق دو عشاریہ اٹھاون ملین بچے وہ ہیں جو دس سال سے کم عمر ہیں۔
بین الاقوامی قوانین برائے لیبر کی شق سی ١۳۸ کے مطابق ملازمت کی کم ازکم عمر پندرہ سال ہے۔اگر ملکی قوانین اجازت دے تو بارہ سے پندرہ سال کے بچے کو ملازمت دی جاسکتی ہےلیکن اس کے تحفظ کے ساتھ کہ یہ ملازمت بچے کی جسمانی اورذہنی صحت پر کوئی اثر نہیں ڈالے گی اور نا ہی اس کی تعلیم متاثر ہوگی۔پاکستان بھی اس قانون کو مانتا ہے اور پاکستان کے قانون میں بھی مزدور کی عمر کم سے کم عمر چودہ سال رکھی گی ہے اور آئین کی شق پچیس ﴿اے کے مطابق مفت تعلیم ہر بچے کا حق ہے لیکن اس پر عمل درآمد بالکل نظر نہیں آتا۔
پاکستان میں بچوں کو غلام بنانے سے لے کر گھریلو ملازم تک جبری مشقت سے لے کر منشیات کے کاروبار میں استعمال کرنے سے لے کر انہیں خود کش حملوں اور دہشت گردی میں استعمال کا ظلم جاری ہے۔اس کی بڑی وجہ ہمارے معاشرتی رویے اور قانون پر عمل درآمد نا کرنا ہے۔اس وقت ان بچوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔اگر بچہ اپنی گھریلو مجبوریوں کی باعث گھر سے کام کرنے نکلا ہے تو اس سے ایسے کام لیے جائیں جو اس صحت ذہنی اور جسمانی دونوں کے لیے نقصان دہ نا ہو۔ایسے بچوں کو پانچ سے سولہ سال تک حکومت مفت تعلیم فراہم کرے۔اگر کوئی بھی شخص بچوں سے خطرناک مزدوری کروائے تو اس پر جرمانہ عائد کیا جائے یا قید کی سزا سنائی جائے۔مزدور بچوں کی کم سے کم اجرت کو بڑھایا جائے۔جبری مشقت کا خاتمہ صرف قانون نفاذ کرنے والے ادارے ہی ختم کرواسکتے ہیں جہاں بھی مزدور بچوں کو غلام بنا کر کام کروایا جارہا اسکے خلاف آواز بلند کریں اور قانون نفاذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کریں۔گھریلو ملازم بچے کو مناسب رہائش ،بروقت تنخواہ کی ادائیگی،طبی سہولیات،مناسب لباس مہیا کیا جائے اور ہر طرح کی جسمانی سزا سے حفاظت یقنی بنائی جائے۔
قومی اسمبلی میں بیٹھے قانون سازوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مزدور بچوں کے حقوق کے لیے موثر قانون سازی کریں۔جو بھی قانون سازی ہو وہ آئی یل او کے کنونشنز کے مطابق ہونی چاہیے۔ سپارک کے حمزہ احسن کے مطابق اگر کوئی بچہ اپنے حالات یا غربت کے باعث مزدوری کرنے پر مجبور ہے تو یہ حکومت کا فرض ہے کہ بیت المال سے اسکے لیے وظیفہ مقرر کرے اور اسکی تعلیم کا ذمہ بھی خود لے۔پاکستان کے بیشترسکول شام میں خالی ہوتے ان تمام بچوں کو شام کو بلایا جاسکتا ہے اور وہ تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ اگر والدین کو مکمل طور پر خود کفیل کردیا جائے تو بچوں کو کام کرنے کی ضرورت ہی پیش نا آئے اور اگر بچوں سے کام لینا مقصود ہو تو سکول میں بھی انہیں ہنر سکھا کرآمدنی کا ذریعہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔
ہم ان سب مشقت کا شکار بچوں کی ملازمت ایک دم سے تو نہیں چھڑوا تو نہیں سکتے لیکن تعلیم اور شفقت سے ہم انہیں ایک بھرپور اور کامیاب زندگی جینے کا موقعہ دے سکتے ہیں۔کارخانے دوکان یا گھر کہیں بھی ایک چھوٹا بچہ ملازمت کرتا نظر آئے تو اگر آپ میں ایک بھی اسکی تعلیم کا ذمہ خود لے لیے تو وہ بچہ سارا زندگی غربت کی چکی نہیں پسے گا۔مشقت کرنے والوں بچوں سے پیار سے پیش آئیں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ان کو تضحیک کا نشانہ نا بنائیں ان کی مالی امداد بھی کریں اور اخلاقی بھی۔
حکومت،این جی اوز،مخیر حضرات سب مل کر ہی اس مسلے پر قابو پا سکتے ہیں کسی بھی انسان کے لیے سب سے خوبصورت دور اس کا بچپن ہوتا ہے اس لیے ہمیں اپنے اردگرد بہت سے انسانوں کے اس خوبصورت دور کو بد صورت ہونے سے روکنا ہے۔بچوں پر ظلم و زیادتی،بچوں کو غلام بنانا،بچوں سے بد فعلی،جسمانی سزایں،جسم فروشی اور دہشت گردی میں بچوں کا استعمال ان کی آنے والی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے اور بہت سے بچے اس باعث اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اس لیے ہم سب کو مل کر ان کے لیے کام کرنا ہوگا ۔صرف حکومت کا اقدامات سے ہم ان مسائل کو قابو نہیں کرسکتے ابھی اٹھیں اپنے گھر میں کام کرتے ہویے بچے کا ہاتھ نرمی
سے روکیں اور اس کے ہاتھ میں کتابیں تھما دیں۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10435#sthash.cD1wkR1F.dpuf

Posted in ChildLabor, Pakistan

دس سالہ ارم کی قاتل ناصرہ یا معاشرہ؟

January 08, 2014   …جویریہ صدیق…

دس سالہ ارم نے نہ عام بچوں کی طرح کبھی کھلونوں سے کھیلا اور نہ ہی کبھی ٹافی یا چاکلیٹ کے ضد کی۔ گلی سے ہر روز قلفی والا اور چھلی ریت کی آواز لگاتا ہوا ریڑھی والا بھی گزرتا تھا تاہم ارم کبھی بیس روپے کا نوٹ دبائے گلی کے طرف نہیں بھاگی۔ کبھی کبھی بندر کا تماشہ دکھانے والا مداری بھی آتا اور ساتھ بھالو بھی لاتا لیکن ارم کو اس تماشے پر تالی بجانے کا حق نہیں تھا اور وہ اس نظارے سے بھی محروم تھی۔ جب دوسرے سارے بچے یونیفارم پہن کر سکول جاتے تو ارم ان کے جھوٹے برتن سیمٹتی۔ جب دوپہر کو بچے تعلیم کا زیور حاصل کرکے گھر آتے تو ارم سارے گھر کا جھاڑو پونچا اور برتن دھو کر اس انتظار میں ہوتی کہ کب یہ بچے کھانا کھایں تو ان کا بچا ہوا جھوٹا کھانا اس کے نصیب میں آئے۔شام کو جب علاقے کے سب بچے میدان میں خوب دوڑتے، کرکٹ کھیلتے، پتنگیں اڑاتے تو ارم بھی یہ سوچتی کے کاش وہ بھی اڑ سکتی اور اڑتے اڑتے ایک ایسے گھر میں چلی جاے جہاں وہ بھی صبح ماں کی نرم آواز کے ساتھ اٹھے، ماں اس کو اپنے ہاتھوں سے نوالے کھلائے، اس کے بال سنوارے، اس کو اسکول بھیجے، جب وہ اسکول سے واپس آیے تو اس کی ماں اس کو آغوش میں لے کر خود کھانا کھلائے۔وہ اپنی ماں کی گود میں لیٹے گھنٹوں کارٹون دیکھے،اس کے کمرے میں خوب سارے کھلونے ہوں خوب ساری ٹافیاں، چپس اور جوس ہوں۔

لیکن ارم کی زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ باپ کا سایہ اٹھنے کے بعد ماں اس کو لاہور کے ایک گھر میں غلام بنا گئی۔آج کل ان غلام بچوں کو میڈ یا سرونٹ کہا جاتاہے۔ لاہور کے الطاف اور ناصرہ کو صرف دوہزار ماہوار پر ارم کی صورت میں غلام مل گیا۔ارم اپنے ننھے منے ہاتھوں سے سارا سارا دن برتن دھوتی، جھاڑو پونچا اور کپڑوں کی دھلائی ایسا کیا کام نہیں تھا جو دس سالہ ارم کے ذمے نہ ہو۔ ذرا سی بھی غلطی کی گنجائش نہیں تھی۔ اگر کبھی ننھی ارم سے کوئی غلطی ہوجاتی تو ناصرہ اس کو زدوکوب کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی اور اس کو کھانا بھی نہ دیتی۔

پھر ایک دن ناصرہ نے دس سالہ ارم پر رقم چوری کا الزام لگا دیا۔دو دن تک کمرے میں اس کو بھوکا پیاسا باندھے رکھا اور اس پر تشدد کرتی رہی اور پیسوں کا مطالبہ کرتی رہی لیکن ارم کے پاس اس الزام کا کوئی جواب ہی نہیں تھا، جو جرم اس سے سرزد ہی نہیں ہوا تو وہ کیا جواب دیتی۔ ناصرہ اس کو مارتی رہی اور ارم دم توڑ گئی۔ ارم کے خون کے چھینٹے کس کے گریبان پر ہیں، کیا ناصرہ اکیلی اس کی قاتل ہے یا معاشرہ اس کا قاتل ہے؟؟

دستیاب اعدادوشمارکے مطابق پاکستان میں 14سال سے کم عمر33لاکھ سے زائد بچے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں جن میں 24لاکھ لڑکے جبکہ 9لاکھ بچیاں شامل ہیں۔ جبری مشقت کے شکار یہ بچے سارا سارا دن کام کرتے ہیں اور یوں ان بچوں کی معصوم خواہشیں معاشرتی نا ہمواریوں اور معاشی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔

پاکستان کے آئین کے مطابق 14سال سے کم عمر بچوں سے مشقت پرپابندی ہے اور آئین کے ارٹیکل25 Aکے مطابق ہر بچے کی تعلیم کی ذمے داری ریاست پر عائد ہوتی ہے تاہم پاکستان میں ان قوانین پرعملدرآمد نظرنہیں آتا۔

پاکستان میں بچوں کے حقوق کی تنظیم سیو دی چلڈرن کے ارشد محمود کے مطابق 2010ء سے اب تک گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کے 45واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 22بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ایسے بے شمار کیسز ہیں جو رپورٹ ہوئے ہی نہیں۔ ان کے مطابق جبری مشقت کے خلاف نئی قانون سازی کی فوری ضرورت ہے اور حکومت اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، وطن عزیز کے روشن مستقبل کیلئے ان نونہالوں کو مشقت کی تاریکیوں سے نکال کر تعلیم کی روشنی سے منور کرنا ہو گا۔ تفکرات کی تصویر بنے ان معصوم چہروں پر زندگی کی مسکراہٹیں بکھیرنا، حکومت ہی نہیں پوری قوم کی ذمے داری ہے۔ معاشرے کو اس لعنت کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی اور جو بھی بچوں کو ملازمت پر رکھے یا رکھوائے ان دونوں پر جرمانہ عائد کرنا چاہیے تاکہ معصوم بچوں کا قتل عام اور استحصال بند ہو۔

Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer.

Contact at https://twitter.com/javerias

See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9447#sthash.XdsgQGw4.dpuf