Posted in child-sexual abuse, human-rights

بچوں کو جنسی تشدد سے بچائیں

تحریر جویریہ صدیق 

 

پاکستانی بچے جنسی تشدد کا شکار ہورہے اور معاشرتی خاموشی و سکوت اس برائی پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔عام طور پر خاندان بچے کو قصوروار ٹھہرا کر اسے خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔جبکے یہ بات یاد رکھنی چاہیے ایک معصوم بچہ جوکہ باہر کی دنیا کی گندگی اور خطرات سے واقف نہیں آپ اسکو مورد الزام نہیں ٹہرا سکتے۔حال ہی میں ایک پھر قصور شہر میں تین بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا ۔جو حکومت اور پولیس کی کارگردگی پر سوالیہ نشان ہیں کہ بچے اغوا ہورہے ہیں قتل ہورہے ہیں لیکن عوام کی کوئی شنوائی نہیں ۔
یہاں پر یہ سوال بھی جنم دیتا ہے کہ ہمارے بچوں کو کس کس سے خطرہ ہے اور ہم انہیں جنسی تشدد سے بچا کیسے سکتے ہیں۔
اس کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جنسی تشدد سے مراد کیا ہے اٹھارہ سال سے کم عمر انسان بچہ ہے کوئی بھی بالغ شخص بچے کے پوشیدہ اعضاء کو ہاتھ لگایے،چومے،بچے کےاعضاء دیکھے،بچے کی برہنہ ویڈیو بنایے،جنسی زیادتی کرے یا بد فعلی یا بچوں کو مجبور کرے کہ بالغوں کے اعضا کو ہاتھ لگایے یہ سب جنسی تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ عام طور پر ۵ سے ۱۲ سال کی عمر کے درمیان بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔
بچے صرف باہر ہی جنسی تشدد کا نشانہ نہیں بنتے بلکے گھر میں بھی یہ خطرہ ان پر منڈلاتا ہے بہت سے بچے اپنے انکلز،رشتہ داروں، گھروں میں ملازموں ،کزنز اور کچھ کیسز میں خواتین کی ہوس کا نشانہ بنتے ہیں۔کچھ بچےسکولز،ٹیوشنز،دوکاندار،محلے داروں ،اپنےمذہبی اساتذہ،وین بس اور کار ڈرایور کی حیوانیات کا شکار بن جاتے ہیں۔یہ بات لازم نہیں کہ بچے پر حملہ کویی عادی مجرم کرے گا بظاہر بہت شریف نظر آنے والے افراد اس مکروہ فعل کو انجام دیتے ہیں۔یہ مسلہ تمام سماجی طبقات کا مسلہ ہے۔
اس تمام صورتحال سے بچانے کے لیے ہمیں اپنے بچوں کو اس حوالے سے آگاہی دینا ہوگی۔ہمیں بچوں کو انکے جسم کے حوالے سے اور اپنی حفاظت کیسے کی جایے اس بارے میں انہیں مکمل اگاہی دینا ہوگی۔
بچوں کو یہ بتایا جایے کہ انکے جسم کے پوشیدہ حصے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔صرف ان کی ماما انہیں نہلا اور کپڑے تبدیل کرواسکتی ہیں اس کے علاوہ نانی دادی بڑی بہن یا ملازمہ وہ بھی والدین کی اجازت کے بعد یہ کام کرسکتی ہیں۔ ورکنگ خواتین کے بچوں کی زمہ داری اکثر انکے گھرکام کرنے والوں پر ہوتی ہے۔تاہم آپ اپنے ملازمین پر بھی مکمل اعتماد نہیں کرسکتے اپنے گھر کے بڑوں کو کہیں کہ انکی نگرانی میں بچے کے کام کیے جایں،اگر ورکنگ لیڈیز کا بجٹ اجازت دیتا ہے تو وہ بچوں کے کمرے اور لاونچ میں کیمرہ لگا لیں تاکہ دفتر سے بھی وہ اپنےبچے پر نظر رکھ سکیں۔اگر یہ سب ممکن نا ہو تو اپنے آفس والوں کو قائل کریں کہ آفس میں بچوں کی نرسرئ ہونی چاہیے تاکہ کام کے ساتھ ساتھ خاتون اپنے بچے کا بھی مکمل خیال کرسکے۔یہاں پر ایک بات کرنا بہت ضروری ہے کہ بچہ صرف ماں کی زمہ داری نہیں باپ بھی اسکی پرورش اور حفاظت کا مکمل ذمہ دار ہے۔
بچوں کو یہ بتایا جایے اگر انکوکوئی ہاتھ لگایے جس سے انکو برا محسوس ہو یا کویی انکے پوشیدہ حصے ( گھر میں ان اعضا کا آپ جو بھی نام لیتے ہیں اس ہی نام سے انہیں بتایں) کو ہاتھ لگایں تو وہ فوری طور پر آپ کوبتایں، شور مچا دیں اور اس جگہ سے بھاگ جایں اور سیدھا آپ کو شکایت کریں۔اگر آپ گھر پر نہیں ہیں تو آپ کو فون پر اطلا ع کریں یا گھر میں موجود کسی اور بڑے کو اعتماد میں لیں۔
بعض اوقات اگر کویی بچہ جنسی تشدد کا شکار ہو تو وہ خود کو مجرم محسوس کرنے لگتا ہے اور سہم کر رہ جاتا ہے۔جب بچے کا خوف زیادہ بڑھ جایے تو اس میں یہ علاماتیں نظر آنے لگتی ہیں۔بچے کی نیند خراب ہوتی ہے، وہ ڈرتا ہے، بستر گیلا کرتا ہے، گھر سے باہر جانے سے انکار کرتا ہے۔ سکول نا جانے کی ضد کرتا ہے بولنا کھیلنا کم کردیتا ہے۔ جلدی تھک جاتا ہے۔ ڈیپریشن کا شکار ہوجاتا ہے ،بعض اوقات بہت غصہ کرتا ہے اس کا جسم درد کرتا ہےاور جنسی زیادتی کی صورت میں اسکے نازک اعضاء سے خون رستا ہے اور زخم بھی ہوتے ہیں۔بعض اوقات بچہ خودکشی تک پر آجاتا ہے۔یہ علامات مختلف ایج گروپ میں مزید مخلتف ہوسکتی ہیں۔
اس صورتحال میں ماں یا باپ میں سے کویی بھی ایک بچے کو اعتماد میں لے کر ساری صورتحال کا پتہ کرے ۔اس کے لیے ماہر نفیسات کی بھی مدد لی جاسکتی ہے۔والدین خود بھی انٹرنیٹ سے مواد حاصل کرکے بچے کی مدد کرسکتے ہیں۔کرییر دولت سب انسان حاصل کرسکتا ہے لیکن صحت مند اولاد ہر بار نصیب نہیں ہوتی۔ جنسی تشدد کسی بھی بچے کو نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔اس لیے اپنے بچوں کو مکمل وقت دیں انہیں اپنا دوست بنایں تاکہ وہ اپنے دل کی ہر بات آپ سے کر سکیں۔
اگر بچہ خدانخواستہ جنسی تشدد کا شکار ہوگیا ہے تو اس کے علاج کے ساتھ اس کو روزمرہ زندگی کی طرف واپس لاییں اسکو سکول خود چھوڑ کر آئیں اور واپسی پر بھی خود لیں۔اگر اسکے ساتھ بیٹھنا بھی پڑے تو ساتھ بیٹھیں ،اسکو خود پارک لے کر جاییں اسکے ساتھ کھیلیں۔اسکو مکمل توجہ دیں اور اسکی بات سنیں۔اس ضمن اساتذہ بھی بہت بڑا رول ادا کرسکتے ہیں اور بڑے بہن بھایی بھی معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔یہ بات رکھیں بچہ اور بچی دونوں خطرے کی زد میں ہوتے ہیں تو دونوں کو مکمل تعلیم دی جایے کہ کس طرح سے وہ اپنی حفاظت کو یقینی بنایں۔بچوں کو اس بات کی تلقین کریں کہ وہ  ملازم رشتہ داروں اور اجنبیوں سے مناسب فاصلہ رکھیں کسی بھی شخص کی گود میں نا بیٹھیں اور آپ کی اجازت کے بنا کسی سے تحفہ نالیں۔اگر والدین گھر پر نہیں باہر گئے ہوئے ہیں تو بچوں کو نانا نانی دادا دادی یا بڑے بہن بھایی کے پاس چھوڑ کر جائیں انہیں ملازموں کے ساتھ اکیلا نا چھوڑیں۔آٹھ سال سے بڑے بچوں کو اپنی حفاظت کے حوالے سے کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔کبھی بھی اپنے بچے کو بازار ٹیوشن اور پارک اکیلا نا بھیجیں۔
رابعہ خان ماہر نفسیات ہیں 12 سال سے وہ اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ فیس بک پر اپنے پیج Healing-Souls-Rabia-Khan
سے شہریوں کو آگاہی فراہم کرتی ہیں ان کے مطابق اکثر بچے اس وجہ سے بھی جنسی تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں جب انہیں گھر سے مکمل توجہ نہیں مل رہی ہوتی ۔ان پر جنسی تشدد کرنے والا شخص اس بات سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے کہ بہت عرصہ انکے گھر میں یہ بات کسی کو بھی معلوم نہیں ہوگی نا ہی یہ بچہ خود بول سکے گا ۔بچے کو وہ شروع میں اپنے قریب کرنے کے لئے چاکلیٹ ٹافیوں آئیس کریم اور دیگر تحائف کا استعمال کرتا ہے جب بچے کا اعتماد جیت لیتا ہے اسکے بعد اپنے جال میں پھنس لیتا ہے۔وہ کہتی ہیں ۔
ماں باپ کو چاہیے وہ بلاوجہ بچوں کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ نا کریں انہیں اعتماد دیں ۔اگر بچہ کسی چیز سے انکار کررہا ہے تو اسکے انکار کو زبردستی اقرار میں تبدیل نا کریں اور وجہ جانیں بچہ منع کیوں کررہا ہے۔بچے جھوٹ نہیں بول رہے ہوتے وہ اتنی کم عمر میں کہانیاں نہیں بنا سکتے ۔والدین اپنی سوشل لائف ورکنگ لائف میں سے اپنی اولاد کے لئے بھی وقت نکالیں ۔
رابعہ خان کہتی ہیں بعض اوقات سب تعلیم اور آگاہی کے باوجود بچے جنسی تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ بچے معصوم ہیں اور انکی تاک میں بیٹھے لوگ شاطر ہیں ۔والدین تب بھی بچے کو الزام نہیں دے سکتے ۔سانحے کی صورت میں بچے کی بحالی پر مکمل توجہ دیں وہ علاج کے بعد دوبارہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ جائے گا۔
ہم میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد اور سول سوساسٹی کے ممبرا ن بھی اس ضمن بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کسی بچے کو بھی تکلیف میں دیکھ کر ہم اس کے والدین کو رازداری سے آگاہ کرسکتے ہیں۔کسی بھی بچے کو اکیلا دیکھ کر اسکے گھر تک پہنچا سکتے ہیں اور اسکے والدین سے یہ گزارش کریں کہ بچے کو اکیلا باہر نا بھیجیں۔اسکے ساتھ اپنے اردگرد بہت سے والدین کو اس حوالے سے آگاہی دیں کہ انکا بچہ گھر اور باہر کن خطرات سے دوچار ہوسکتا ہے۔یہ سانحہ کسی بھی عمر کے بچے کے ساتھ پیش آسکتا ہے بچہ کبھی بھی یہ سانحہ بھول نہیں پاتا اس لیے اسکو چپ یا خاموش کرنا مسلے کا حل نہیں ہے۔اسکو قصوروار نہیں ٹہرنا چاہیے اس کے ساتھ نرمی برتے ہویے اسکے علاج اور مکمل بحالی طرف توجہ دینا چاہیے ۔بچوں کو خطرہ صرف باہر نہیں گھر میں بھی موجود کچھ افراد سے ہوتا ہے یہ بہت چالاکی سے بچوں کا پھنس لیتے ہیں اس لیے اپنے بچوں کا مکمل خیال کریں۔ہمارے بچے اور بچیاں دونوں خطرے کی زد میں ہیں ہم سب مل کر ہی ان کی حفاظت کرسکتے ہیں۔جنسی تبدیلیوں اور تولیدی صحت پر بات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔بلوغت کے دور سے گزرنے والوں بچوں کو ماں باپ کی خصوصی ضرورت ہے انہیں جسمانی تبدیلوں کے بارے مکمل اگاہی دیں انکے سرکل پر نظر رکھیں انکی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کو بھی اپنے علم میں لایں کہیں انکو کویی بلیک میل تو نہیں کررہا۔اپنے بچوں کی مالی ضروریات اور جذباتی خواہشات کا خیال کریں تاکہ وہ استحسال کا شکار نا ہوسکیں۔آخر میں ایک بہت ضروری گزارش اگر کوئی بچہ یا بچی جنسی تشدد کا شکار ہوجائے تو اس کے لئے انصاف کی آواز اٹھانے سے پہلے اس بچے اور بچی اسکے خاندان کی پرایویسی کا خیال کریں اس کی
تصاویر اور شناخت نا ظاہر کریں ۔

— جو بچے غربت کے باعث گھروں سے دور ہیں وہ جنسی زیادتی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں یہاں پر لڑکے اور لڑکی دونوں اس کی زد میں آتے ہیں ۔جس کا واحد حل یہ ہے کہ ان بچوں کو حکومت اور مخیر حضرات ملازمتوں سے ہٹائیں اور ان کی تعلیم کھانے پینے اور رہائش کا بندوبست کریں ۔بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے غلیظ لوگوں کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ دیگر لوگ یہ مکروہ فعل کرنےکی ہمت نہ کریں ۔

IMG-20171001-WA0229IMG-20171001-WA0228IMG-20171001-WA0230

 

 

 Javeria Siddique
 Journalist and Photographer  
 Turkish Radio and Television Corporation 
 Author of Book on Army Public School Attack Peshawar 
Posted in health, human-rights, Pakistan, Uncategorized, ،خصوصی_افراد

 

 

پاکستان ڈائری-11

پاکستان ڈائری-

11

عمارہ انور پاکستان کی ایک باہمت بیٹی ہے۔عمارہ پیدائشی طور پر نابینا ہیں لیکن عمارہ نے اپنی تعلیم اور ترقی کی راہ میں اسکو کبھی حائل نہیں ہونے دیا۔انیس سو ستاسی میں پیدا ہونے والی عمارہ نے تمام تعلیم عام اداروں میں حاصل کی

17.03.2016 ~ 25.10.2016

پاکستان ڈائری-11

 
 
00:00/05:23

عمارہ انور پاکستان کی ایک باہمت بیٹی ہے۔عمارہ پیدائشی طور پر نابینا ہیں لیکن عمارہ نے اپنی تعلیم اور ترقی کی راہ میں اسکو کبھی حائل نہیں ہونے دیا۔انیس سو ستاسی میں پیدا ہونے والی عمارہ نے تمام تعلیم عام اداروں میں حاصل کی ۔ایف اے ایف سیون ٹو کالج اور بی بی اے اورایم بی اے کی ڈگری نمل یونیورسٹی سے حاصل کیااوراب جاب کررہی ہیں۔

میں نے خود زمانہ طالب علمی میں عمارہ کو بہت قریب سے دیکھا ہماری ملاقات اکثر تقریری مقابلوں میں ہوا کرتی تھی۔عمارہ زمانہ طالب علمی سے ہی بہت کانفیڈینٹ اور انڈیپنڈنٹ رہی ہے۔عمارہ نے کبھی اپنے لئے ہمدردی کو پسند نہیں کیا وہ بھی باقی طالب علموں کی طرح ہر چیز میں حصہ لیتی۔اکثر کالج اور یونیورسٹی کے لئے تقریری مقابلوں میں انعامات جیت کر آتیں۔ عمارہ اس وقت پاکستان فاونڈیشن فائٹنگ بلائنڈنس کے ساتھ منسلک ہیں۔

عمارہ کہتی ہیں کہ جب سے میرا جنم ہوا میں نے اپنی فیملی کو بہت سپورٹو پایا۔ ریٹینا ڈی ٹیچمنٹ کی وجہ سے میں دیکھ نہیں سکتی اورمیرا بھائی بھی نہیں دیکھ سکتا۔میرے والدہ اور والد نے جس قدر ہم پر محنت کی ہماری تعلیم اور صحت کا خیال رکھا وہ الفاظ میں بیان کرنے سے میں قاصر ہوں۔میرے والدین نے مجھے خود مختار بنایا مجھے ہمدردی سیمٹنے کا کوئی شوق نہیں میں پڑھی لکھی پاکستانی ہوں اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہوں

زمانہ طالب علمی کی تصاویر

عمارہ اپنے دور طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں نے ابتدائی تعلیم فیصل آباد میں حاصل کی اس کے بعد تمام تعلیم اسلام آباد میں حاصل کی۔مجھے ہمیشہ استاتذہ اور کلاس فیلوز نے مثبت رسپانس دیا۔میں نے تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا اور سکول کالج میں تقریری مقابلوں میں انعامات جیتے۔میری والدہ ہمیں خود پڑھاتی ہماری صلاحیتوں پر کام کرتیں۔وہ خود استاد رہیں ہیں تو انہوں نے جدید تکینک کےساتھ مجھے اور میرے بھائی کو پڑھایا۔

مسٹر اینڈ مسز انور

ایف اے تک تو میرے ساتھ پیر لکھنے کے لئے کوئی ہیپلر ہوتا تھا لیکن بی بی اے ایم بی اے میں کمپیوٹر کی مدد سے میں نے خود ٹائیپنگ کرکے پیپر دیے۔ماڈرن ٹیکنالوجی نے زندگی کو بہت آسان بنا دیا۔مجھے یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں تو اتنی ٹیکنالوجی عام نہیں تھی تو میرے والدین مجھے اور میرے بھائی کو بریل اور آڈیو کی مدد سے پڑھاتے تھے۔پر اب ہم فون ٹیبز اور لیپ ٹاپ کی مدد سے بہت آسانی کے ساتھ بہت سا کام کرجاتے ہیں۔

عمارہ کہتی ہیں کہ میرے والدین نے ہمشہ ہمیں عام تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائی کیونکہ وہ ہمیں معاشرے سے کاٹ کر نہیں رکھنا چاہتے تھے۔میں نے صرف تین سال سپیشل تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کی اس کے بعد صرف عام اداروں میں زیر تعلیم رہی۔اس کا مجھے بہت فائدہ ہوا۔وہ والدین غلط کرتے ہیں جو اپنے فزیکل چیلنجڈ بچوں کو ایک کمرے کی حد تک محدود کردیتے ہیں یا انہیں لوگوں سے چھپاتے ہیں۔دنیا کے ہر شخص میں کچھ نا کچھ کمی ہے کوئی بھی اس دنیا میں پرفیکٹ نہیں۔

عمارہ کہتی ہیں کہ خود کو ہمدردی کا مرکز بنانے سے بہتر ہے کہ انسان محنت کرے اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈالے۔میں دیگر لوگوں کی طرح تمام مسائل کا مقابلہ کرکے محنت کررہی ہوں ۔مشکلات کس کی زندگی میں نہیں آتی سب کی زندگی میں آتی ہیں بس ہمیں ان کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔میں اس وقت پاکستان فاونڈیشن فائٹنگ بلائنڈنس کے ساتھ پروگرام اسپیشلیسٹ کے طور پر کام کررہی ہوں اور ہمارا کام بنیائی سے محروم لوگوں کے لئے مختلف پراجیکٹس پر کام کرنا ہے۔جس میں آن لائن لائبری آڈیو ورلڈ اور آئی ٹی ریسرچ شامل ہے۔

عمارہ کہتی ہیں والدین کا رول بہت اہم ہے سب سے پہلے اپنے خصوصی بچوں کو پیار دیں ۔ان پر بھی انویسٹ کریں جیسے اپنے دیگر بچوں پر بھی کام کرتے ہیں۔خصوصی بچوں پر محنت کریں وہ کسی گناہ کا نتیجہ نہیں ہیں۔وہ فزیکلی چلینجڈ لیکن بلکل نارمل ہیں اللہ تعالی کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں۔سب ایسے بچوں کو تھوڑا زیادہ ٹائم اور زیادہ پیار کریں۔ان کے استاتذہ سے ملیں ان کے ساتھ مل بچوں کی زندگی آسان بنائیں۔ان کے مشاغل میں دلچسپی لیں اور ان کے ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے لئے والدین اور استاتذہ ان کا بھرپور ساتھ دیں۔اس طرح یہ بچے معاشرے کے کارآمد شہری بن جائیں گے۔

http://www.trt.net.tr/urdu/slslh-wr-prwgrm/2016/03/17/pkhstn-ddy-ry-11-452891

 

 

 

 

 

 

 

 

Posted in human-rights, Uncategorized

انسانیت پانی میں بہہ گیی

 

Posted On Sunday, September 06, 2015
…..جویریہ صدیق…..
انسان نے ہی زمین پرانسانوں کا جینا مشکل کردیا ہے،مسلسل خانہ جنگیوں اور بڑی طاقتوں کے جنگی جنون نے پوری دنیا کے امن کو تباہ کر رکھا ہے۔کہنے کو تو یہ بڑے ممالک چھوٹے ممالک پر اس لئے حملہ کرتے ہیں کے ہم دہشت گرد ختم کررہے ہیں۔لیکن نا ہی دہشتگرد ختم ہوتے ہیں اور نا ہی پکڑے جاتے ہیں۔ پر شہری آبادیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔اچھے بھلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد سڑکوں پر دربدر ہوجاتے ہیں۔کچھ ملکوں کے مطلق العنان حکمران عوام پر وہ ظلم ڈھا رہے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی ۔

مشرق وسطی کا امن ایک منظم سازش کے تحت تباہ کیا گیا ہے تاکہ اسرائیل کی خطے میں اجاہداری قائم ہوجائے۔ مسلم امہ میں اتفاق نہیں اسی لیے شام ،عراق،لیبا اور یمن جنگ کی وجہ سے بدحال ہیں۔وہاں کے نہتے عوام خانہ جنگی پریشان ہوکر قریبی ممالک میں پناہ لینا چاہتے ہیں لیکن کوئی عرب ملک ان کو لینے کے لئے تیار نہیں ، نا ہی دوسرے اسلامی ملک سوائے ترکی کے جس نے روہنجیا مسلمانوں کی بھی مدد کی اور اب شام کے مسلمان بہن بھائیوں کی بھی مدد کررہا ہے۔

شام خانہ جنگی کا شکار ہے۔ملک میں بشار الاسد کے جیسا حکمران اور دوسری طرف داعش کا خوف کوئی بھی انسان ایسے ماحول میں نہیں رہنا چاہتا۔اپنے لئے اچھی زندگی کون نہیں چاہتا۔لیکن جنگ کے حالات میں دیگر پڑوسی ممالک پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کردیتے ہیں۔اس کی وجہ سے بہت سے جنگ متاثرین غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کی کوشش میں موت کا شکار بن جاتے ہیں۔اس سب صورتحال میں انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کی چاندی ہے جو ہجرت کرنے والوں سے بھاری رقوم لوٹتے ہیں اور انہیں بیچ سمندر میں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔یہ ہی سب عبداللہ کردی کے ساتھ ہوا ، شام سے جان بچا کر نکلے ترکی میں پناہ لی لیکن غیرقانونی طور پر یورپ جاتے ہوئے اپنی کل کائنات اپنا خاندان گنوا بیٹھے۔عبداللہ نے کینڈا میں پناہ کے حصول کی درخواست دی لیکن رد ہوگئی پھر ترکی سے یورپ جاتے ہوئے عبداللہ کی کشتی الٹ گئی جس کے نتیجے میں اس کی بیوی اور دو بیٹے جاں بحق ہوگئے۔عبداللہ کے تین سالہ بیٹے ایلان کی لاش ترکی کے جزیرے بوردم کے ساحل سے ملی ۔ترک کوسٹ گارڈز نے بھی کیا منظر دیکھا کہ ایک ننھا وجود ساحل پر بے جان پڑا تھا۔ایک کم سن غیر قانونی تارک وطن جس کو اس لفظ کا مطلب بھی نہیں پتہ دنیا سے جا چکا تھا۔

عبداللہ کہتے ہیں جیسے ہی کشتی الٹنے لگی تو وہ ایجنٹ جس نے ہمیں یونان پہنچانے کا وعدہ کیا تھا فوری طور پر کشتی سے اتر گیا، پیچھے رہ گئے میں میری بیوی اور دو بیٹے ہمارے پاس لائف جیکٹ بھی نہیں تھی۔میری بیوی کو پانی سے بہت ڈر لگتا تھا ایک ایک کرکے وہ سب میری آنکھوں کے سامنے ڈوب گئے میں کسی کو نہیں بچا سکا۔ اب کچھ نہیں بچا میری زندگی میں۔عبداللہ کہتے ہیں میں اب اپنے اہل خانہ کو کوبانی میں دفن کرنے کے بعد کہیں نہیں جائوں گا کیونکہ ہجرت میں ان کی وجہ سے کرنا چاہتا تھا، ان کو روشن مستقبل دینا کا خواہشمند تھا۔ میں اپنی بیوی اور بچوں کو پرامن زندگی دینا چاہتا تھا۔اب یہ کوبانی میں مدفون ہیں تو میں بھی ساری زندگی یہاں ہی رہوں گا۔

ایلان کی ساحل پر تصویر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انسانیت واقعی ہی پانی میں بہہ گئی۔برطانیہ کی لکھاری ورسن شائر نے تبصرہ کیا سب کو سمجھنا ہوگا کوئی بھی انسان اس وقت تک اپنے بچوں کو کشتی میں نہیں بٹھاتا جب تک پانی زمین سے زیادہ محفوظ نا لگنے لگے۔ ورسن بالکل صحیح کہتی ہیں عبداللہ کو بھی زمین پر اور اس پر رہنے والوں سے زیادہ سمندر اور کشتی پر اعتماد تھا کہ وہ اسے ایک پرامن مقام تک لے جائے گی۔کیونکہ شام میں تو ان کے لیے زمین تنگ کردی گئی تھی۔انا پرست حکمران عوام پر جنگیں مسلط کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اس کے کتنے بھیانک اثرات نکلیں گے۔ایلان جیسے کتنے اور پھول بنا کھلے مرجھا گئے۔عبداللہ جیسے کتنے باپ ہیں جو اپنا تمام اثاثہ لٹا چکے ہیں۔لیکن طاقت ور افراد کا جنگی جنون کم ہونے کو نہیں آرہا۔

ایلان کی ساحل پر مردہ حالت میں تصویر دیکھ کر سوشل میڈیا پر بھونچال آگیا ، ملکی اور غیر ملکی فیس بک اور ٹوئٹر صارفین نے اپنے غم کا اظہار کیا۔ پانچ ،چھ ٹرینڈ ایلان کی اس دردناک موت کو زیر بحث لانے کے لیے بنائے گئے۔ مغربی ممالک میں لوگ خوش آمدید پناہ گزین اور انسانیت پانی میں بہہ گئی ٹرینڈ کے ساتھ اپنے دل کا غبار نکلتے رہے۔ برطانوی صحافی امول راجن نے ٹویٹ کیا ڈیوڈ کیمرون آپ اس وقت بہت بے حس لگ رہے آپ کو جنگ سے متاثرین افراد کو برطانیہ میں پناہ دینی چاہیے۔سابق برطانوی وزیر ڈیوڈ ملی بینڈ نے ٹویٹ کیا ہمارا یہ ہی پیغام ہے کہ اردن سے لے کر جرمنی تک اور برطانیہ سے امریکا ہر جگہ پناہ گزنیوں کو خوش آمدید کہا جائے۔

جبکہ پاکستانی سوشل میڈیا یوزرز نے’’ عرب حکمرانوں شرم کرو‘‘ اور’’ بشار الاسد بچوں کا قاتل‘‘ ٹرینڈ کیا۔ صحافی نوشین یوسف نے ٹویٹ کیا اس وقت شام کے دو اعشاریہ چھ ملین بچے تعلیم سے محروم ہوچکے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ دو ملین بچے پناہ گزین کے طور پر ہمسایہ ممالک میں مقیم ہیں۔شینا عابدہ نے طنزیہ ٹویٹ کیا لاکھوں شامی ہجرت کرگئے میدان صاف ہے اب شام ، لبنان کو اسرائیل کے حوالے کردو۔حماد ذوالفقار نے ٹویٹ کیا

کعبے کی قسم عرش پہ محشر کی گھڑی تھی

اک طفل کی جان موج طلاطم سے لڑی تھی

کل شام سے جنت میں بھی ماتم کا سماں ہے

پانی کے کنارے پہ کوئی لاش پڑی تھی۔

دوسری طرف مشرق وسطی خلیجی ریاستوں میں سوشل میڈیا یوزر نے اپنی حکومتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ شام کے پناہ گزینوں کی ذمہ داری یورپ پر نہیں ہم پر زیادہ عائد ہوتی ہے۔سوال تو یہاں یہ پیدا ہوتا ہے ہر بات میں امت مسلمہ کے بڑے بھائی بننے والے سعودیہ عرب اور ایران کہاں ہیں۔اس موقع پر کیا ان کا فرض نہیں بنتا ہے وہ شامی بھائیوں کی مدد کے لیے سامنے آئیں۔دیگر امیر اسلامی ممالک کہاں ہیں ؟ پاکستان بنگلہ دیش متحدہ عرب امارت کویت قطر کوئی تو آئے جو ان لوگوں کی مدد کرے جو ترکی سے یونان تک زندگی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔

کیا امت مسلمہ صرف نصابی کتابوں اورجہادی لٹریچر تک محدود ہے۔کیا واقعی ہی اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو اپنا ذاتی مفاد اور فرقہ بندیاں زیادہ عزیز ہیں۔ننھے ایلان کی موت بھی کیا ان حکمرانوں کو غفلت کی نیند سے نہیں اٹھا سکی۔ اب بھی وقت ہے اسلامی ممالک کو اتحاد کرکے اس خانہ جنگی کو ختم کرنا چاہیے اپنی سرحدیں جنگ متاثرہ افراد کے لیے کھول دینا چاہئیں، ورنہ بہت سے ایلان زندگی کی بازی ہار جائیں گے اور اللہ کے حضور یہ ہی ننھے پھول مسلم امہ کےحکمرانوں کے خلاف مقدمہ لڑیں گے۔دنیا میں تو شاید وقتی بچت ہوجائے لیکن ایلان کے مجرمان روز قیامت کہیں بھی پناہ نہیں حاصل کرسکیں گے۔

ایلان تو چلا گیا لیکن اپنے دیگر شامی بہن بھائیوں کے لیے یورپ کی سرحد قانونی طور پر کھول گیا اس ننھے فرشتے کی قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی جس نے پورے پورپ کو ہلا کر رکھ دیا ۔ وہاں کے عوام سراپا احتجاج ہوکر اپنی حکومتوں سے مطالبہ کرنے لگے کہ جنگ متاثرین کو پناہ دی جائے۔ان کی حکومتوں نے ایسا ہی کیا اور اب شامی مہاجرین کو پناہ دینے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔پر افسوس اسلامی ممالک کے حکمران کے دل ایلان کی اس قربانی پر بھی نا پگھل سکے اور نا ہی ساحل پر پڑی ایلان کی لاش ان میں انسانیت کو جگا سکی۔
Javeria Siddique writes for Daily jang
twitter@javerias

Posted in human-rights, lifestyle, qandeel,, Uncategorized

اور قندیل بجھ گئی

 

اور قندیل بجھ گئی Share
Posted On Wednesday, July 20, 2016
جویریہ صدیق ۔۔۔۔ قندیل کسی کو بھی پسند نہیں تھی کسی کے لئے رول ماڈل نہیں تھی لیکن حیرت کی بات ہے وہ تیس سیکنڈ کی بھی وڈیو اپ لوڈ کرتی تھی تو کچھ ہی لمحوں میں ہزاروں ویوز سینکڑوں شئیرز اور کئی سو کمنٹس آجاتے تھے۔ہم ایک منافق قوم ہیں اس لئے سچ بولنے اور اس کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔گناہ کرنے سے باز نہیں آتے چھپ چھپ کر گناہ کرتے ہیں۔دوسروں کے سامنے پارسا بن کر انہیں برا ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔یہ قندیل کے ساتھ ہوتا تھا۔معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت بڑے افراد کی تعداد روانہ اس کے فیس بک انسٹاگرام اور ٹویٹر پر اس صرف اس لئے آتی کہ آج کیا مصالحہ دیکھنے کے لیے موجود ہے۔

پہلا طبقہ وہ جو چھپ کر اس کی ویڈیوز صرف اس لئے دیکھتے تھے کہ بعد میں اس کی اس بے باکی پر تبصرے کرسکیں اور اس کو ہماری معاشرتی قدروں کے منافی قرار دے سکیں لیکن دیکھتے تھے۔دوسرا طبقہ وہ ہے جو اس کے خدوخال دیکھ کر خوش ہوتا تھا اور جواز یہ پیش کرتا تھا کہ وہ دیکھاتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں حالانکہ وہ نظریں نیچی بھی کرسکتے تھے۔تیسرا طبقہ وہ تھا جو کہ اس کا فیس بک فین بھی تھا اس کی ویڈیوز بھی دیکھتا تھا لیکن کمنٹس میں اس کو فاحشہ بے غیرت لکھ کر اس کو مرنے کی بد دعا دیتا تھا۔

آخر میں ایک طبقہ وہ بھی تھا جو اس کے درد تکلیف محرومیوں کو سمجھتے ہوئے اس کی ان حرکتوں پر تاسف کا اظہار کرتا کہ پتہ نہیں پیچھے کیا درد ناک کہانی ہے جس نے اس لڑکی کو قندیل بنا دیا۔یہ طبقہ اس کی ویڈیوز بھی دیکھتا اسکو شییر بھی کرتا لیکن قندیل کی برایی نہیں کرتا تھا۔قندیل نے بہت کوشش کی کہ کس ہی طرح کوئی بڑا بریک مل جائے وہ بھی رات و رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائے،ہر ٹی وی میگزین ریڈیو پر اس کا چرچا ہو۔ دولت اس کے گھر کی باندی ہو ۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا میڈیا نے اسکی بےباکی ،اداؤں، بے وقوفیوں کو کیش کروا کر ریٹنگز تو خوب لی لیکن قندیل کو کچھ نہیں دیا ۔

وہ اکثر مارنگ شوز میں ہونی والی شادیوں میں مہمان بن کر آتی تھی۔وہاں بھی اداکاروں کے ساتھ سلفیز ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ تاکہ کچھ فیس بک لائکس مل جائیں ۔پر کسی نے اسے کام نہیں دیا کیا وہ اتنی ٹیلینٹڈ بھی نہیں تھی کہ ایک میوزک شو ہوسٹ کرلیتی۔وہ بہت اچھی اداکارہ اور گلوکارہ بن سکتی تھی لیکن کسی نے موقع ہی نہیں دیا۔میڈیا اور معاشرے نے اسے اپنے اپنے حساب سے استعمال کیا ۔

جب قندیل نے دیکھا کہ کام تو اسکو نہیں مل رہا تو وہ مزید بے باک ہوگی اس نے سوچا اگر کپڑے مزید کم کردوں گی تو پڑوسی ملک میں تو کام مل جائے ۔اس دوران اس کے فیس بک فالورز کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئ۔لیکن فیس بک سے کہاں پیٹ بھرتا ہے اس کے لئے روٹی چاہیے ہوتی ہے۔مہنگے مہنگے ہوٹلوں کے کمروں سے قندیل کی ویڈیوز اپ لوڈ ہونا بہت سےغیرت مندوں کےمنہ پرطمانچہ ہیں۔

کسی نےبھی اسکی محرومیوں کا ازالہ نہیں کیا۔

پھر ایک دن ایک رپورٹر بریکنگ کی دوڑ میں اسکو پھر قندیل سے فوزیہ بنا گیا ۔جس جگہ سے نکلنے میں اس کو سالوں لگے ایک بار پھر وہاں کھڑی تھی۔وہ سچی تھی روتے ہوئے مان گئ کہ ہاں وہ فوزیہ عظیم ہے جس کی شادی کم عمری میں کردی گئ تھی ۔جہاں وہ اپنے جاہل شوہر سے روز مار کھاتی تھی۔اس سے تعلیم کا حق چھین لیا گیا۔بیٹا پیدا ہوا تب بھی حالات نہیں بدلے۔

روز ماں باپ کو کہتی کے مجھے واپس آنا ہے لیکن وہ کہتے اب تمہارا گھر وہ ہی ہے ۔ایک دن تشدد سے تنگ اکر وہ بھاگ کر دار الامان چلی گئ۔اس نے سب چیزوں کا اعتراف میڈیا کے سامنے کرلیا کہ وہ زندگی میں پڑھ لکھ کر آگے بڑھنا چاہتی تھی۔معاشرے نے اسے ڈاکٹر انجینئر پائلٹ تو نہیں بننے دیا لیکن ہوٹلوں کے کمروں سے ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والی قندیل بنا دیا۔جب تک وہ قندیل بلوچ تھی تو اس کی کمائی سے گھر والے بھی خوش تھے لیکن جس دن وہ فوزیہ عظیم کے طور پر میڈیا پر ابھری تو ایک بے غیرت بھائی کی غیرت جاگ گئی اور اس نے قندیل کا گلا گھونٹ کر اس کو مار دیا ۔نیند کی وادی سے قندیل موت کی وادی میں چلی گی۔

مرتے مرتے بھی میڈیا کو ریٹنگ دی گئی اس کا نام سی این این بی بی سی سے لے کر ہر غیر ملکی اور ملکی نشریاتی ادارے پر تھا۔بڑی شخصیت جنہوں نے اس کی زندگی میں اس سے ملنا یا بات تو دور کی بات ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا اس کے لئے تعزیتی پیغامات چھوڑے اس کے قتل کی مذمت کی۔اس کے لئے دعا کی گی اس کے لئے شمعیں روشن کی جب قندیل بجھ گئ۔

کوٴیی گناہگار نہیں سواٴے قندیل کے نا وہ ماں باپ جو اسے زندگی کی بنیادی سہولیات نا فراہم کرسکے نا وہ ریاست جس نے اس کو بنیادی تعلیم مفت دی نا ہی کم عمری کی شادی سے بچایا نا ہی وہ بھایی گناہگار جن کے ہوتے ہویے بھی اسے روٹی کپڑا مکان کے لیے اس کو قندیل بنانا پڑا۔ نا ہی وہ شوہر گناہ گار ہے جو روز اس کو مارتا تھا ۔نا ہی وہ لوگ گناہ گار ہیں جس نے اس کو میڈیا میں باعزت نوکری کے بجایے ہوٹل کے بند کمروں میں پہنچایا۔نا ہی وہ لوگ گناہ گار ہیں جو اس کی زندگی کی قیمت پر رینٹنگز کمارہے تھے۔نا ہی وہ لوگ مجرم ہیں جو اس کی ویڈیوز کے نیچے لکھتے تھے اسے مر جانا چاہیے لیکن یہ لکھنے سے پہلے آنکھ بھر کر اسکودیکھتے ضرور تھے۔سب پارساوں نے فوزیہ کو قندیل بنایا پھر اسے مار دیا یہ کہہ کر کہ بری عورت تھی۔

images (76)

Twitter @javerias

Posted in human-rights, india, Uncategorized, ZarbeAzb

پاکستانی قیادت کا امن مشن

 

پاکستانی قیادت کا امن مشن Share
Posted On Wednesday, January 20, 2016
… جویریہ صدیق ۔۔۔۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا دورہ سعودیہ عرب اور ایران بہت اہمیت کا حامل ہے۔یہ دورہ ایران اور سعودیہ عرب کے مابین بڑھتی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔اس امن مشن کےدوران وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف مصالحت کے لئے مختلف تجاویز دونوں ممالک کے آگے رکھیں گے۔

سفارتی حلقے اس دورے کو بہت اہم قرار دئے رہے ہیں۔دو بڑے اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی کسی طور پر بھی امہ کے حق میں نہیں ہے۔دوسرا اس کشیدگی کی وجہ سے خطے کا امن خطرے میں ہے۔پاکستان اس بات کا خواہاں ہے کہ بات چیت کے ذریعے سے مسائل کو حل کیا جائے۔اس موقعے پر پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت کا ایک پیج پر ہونا بہت ہی خوش آئند بات ہے۔

۔مشرق وسطی کی موجودہ صورتحال سے امت مسلمہ میں نفاق پیدا ہوا رہا ہے اس موقعے پر پاکستانی قیادت کا یہ دورہ امن و آشتی کی طرف پہلا قدم ہے۔دورے کے پہلے حصے میں وزیر اعظم نوازشریف اور جنرل راحیل نے سعودیہ عرب کے فرمانروا شاہ سلیمان سے ملاقات کی۔آج ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات کرکے دونوں ممالک کے درمیان خلیج کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

سوشل میڈیا پر بھی یوزرز نے اس مصالحتی دورے کا خیر مقدم کیا.ایم پی اے حنا بٹ نے ٹویٹ کیا دونوں شریف پیس مشن پر ہیں۔ایم این اے مائزہ حمید نے ٹویٹ کیا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور راحیل شریف خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ صحافی وسیم عباسی نےٹویٹ کیا یہ ایک بہترین اقدام ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے ہم امت مسلمہ کے خیر خواہ ہیں اور نیوٹرل ہیں دوسری طرف سول ملٹری قیادت ایک پیج پر ہے۔

مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس دورے کو سراہتے رہے ۔مریم مصطفی نے ٹویٹ کیا کہ وزیراعظم نوازشریف اسلامی ممالک میں امن کے خواہاں ہیں جس کے لئے وہ بہت سنجیدگی سے کام کررہے ہیں۔عثمان دانش نے ٹویٹ کیا دونوں شریفوں کی امن کے لئے کاوشیں قابل تحسین ہیں۔شہزادہ مسعود نے ٹویٹ کیا عالم اسلام میں امن اور یکجہتی کے لئے ایک اچھا قدم ہے اللہ اس نیک کام میں وزیراعظم نوازشریف اور جنرل راحیل شریف کو کامیابی دے۔

مبشر اکرم نے ٹویٹ کیا پاکستان مسلم ممالک کے حوالے سے جدید ڈپلومیسی رکھتا ہے پاکستان کی ضمانت پر یہ معاملہ حل ہوجائے گا۔عاطف متین انصاری نے ٹویٹ کیا اس دورے سے پاکستان مخالف قوتوں کا خواب چکنا چور ہوگیا جو سمجھتے تھے کہ پاکستان کو فرقہ واریت کی جنگ میں جھونکا جاسکتاہے۔سول حکومت کےتدبر اور فوج کی عسکری قوت سے پاکستان کا مستقبل تابناک ہے ۔محمد عثمان نے ٹویٹ کیا انشاء اللہ پاکستان کی کوششوں سے ایران اور سعودیہ عرب میں کشیدگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔جون ایلیا نے ٹویٹ کیا وقتی طور پر ایران اور سعودیہ عرب میں کشیدگی ختم ہوجائے گی ۔

شہریار علی نے ٹویٹ کیا انشاءاللہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا مشترکہ دورہ ایران سعودیہ سود مند ثابت ہوگا۔عرفان علی نے ٹویٹ کیا پاکستان نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اسلام کا قلعہ ہے۔ہینڈسم منڈا نے ٹویٹ کیا یہ ایک اچھا قدم ہے ایران اور سعودیہ کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں ان کے درمیان کشیدگی پاکستان پر اثرانداز ہوگی۔عبد الخالق نے فیس بک پر پوسٹ کیا مجھے امید ہے اور میں خداکے حضوردعاگو ہوں کہ وہ وزیراعظم اورآرمی چیف کے سعودی عرب اورایران کے اس دورے کو کامیاب بنائے ، دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کاخاتمہ ہو، برادرانہ تعلقات قائم ہوں اورمشرق وسطیٰ میں پوری دنیا میں دیرپا امن واستحکام قائم ہو آمین

جویریہ صدیق صحافی،مصنفہ اور فوٹوگرافر ہیں۔ان کی کتاب سانحہ آرمی پبلک سکول شہدا کی یادداشتں حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ ان کا ٹویٹر اکاونٹ @javerias ہے ۔

Posted in human-rights, Pakistan, Uncategorized

معاشی بدحالی کا شکار اساتذہ

معاشی بدحالی کا شکار اساتذہ‎
Posted On Sunday, December 20, 2015
  ……جویریہ صدیق…..
چونتیس روز سے شہر اقتدار کے اساتذہ ڈی چوک میں بیٹھے ہیں لیکن ان کوئی شنوائی ہی نہیں،یہ اساتذہ کسی دور دراز علاقے سے تعلق نہیں رکھتے یہ سب اساتذہ اسلام آباد میں واقع ماڈل کالجز میں پڑھاتے ہیں.بہت سے اساتذہ پی ایچ ڈی، ایم فل اور ڈبل ماسٹرز ہیں لیکن ملازمت کرتے ہوئے سات آٹھ سال ہونے کے باوجود یہ اب بھی ڈیلی ویجز پر کام کررہے ہیں،دوسرے الفاظ میں کہا جائے یہ بھی دیہاڑی دار مزدور ہیں کام پر آئے تو چار سو روپے یومیہ مل جائیں گے نہیں آئیں گے تو تنخواہ میں پیسے کٹ جائیں گے۔

یہ کہاں کا انصاف ہے ایم فل اور ایم ایس سی اساتذہ کو صرف بارہ تیرہ ہزار ماہانہ تنخواہ پر رکھا جائے اور ملازمت کرتے ہوئے پانچ چھ سال گزارنے کے باوجود نا ہی ان کی تخواہ میں اضافہ کیا گیا اور نا ہی کوئی مراعات ملیں، پھر بھی ڈیلی ویجز پر اساتذہ پوری لگن کے ساتھ بچوں کو پڑھاتے رہے لیکن صبر کا پیمانہ جب لبریز جب مارچ کے بعد ان کو تنخواہ ملنا بند ہوگئ،جب گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے تو اساتذہ مجور ہوکر گھر سے نکلے اور احتجاج کرنے لگے۔

34 روز سے یہ اساتذہ سخت سردی میں احتجاج کررہے ہیں لیکن حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی، احتجاج کرنے والی ٹیچر فاطمہ جنہوں نے مطالعہ پاکستان اور انگریزی ادب میں ماسٹر کر رکھا ہے کہتی ہیں کہ میں پانچ سال سے ملازمت کررہی ہوں لیکن میری تنخواہ کسی ڈرائیور سے بھی کم ہے یہ نا انصافی ہے یا نہیں،ہم ایک ایک کلاس میں چالیس سے پچاس بچوں کو پڑھاتے ہیں لیکن حکومت کو ہمارا احساس ہی نہیں۔

ڈیلی ویجز پر کام کرنے والی اسلامیات کی استاد نازش رحیم کہتی ہیں کہ عدالتی احکامات آنے کے باوجود ہمیں ریگولر نہیں کیا جارہا، ہم بیوروکریسی کے ہاتھوں خوار ہونے کے بعد اب سڑک کر بیٹھ کر اپنے حق کے لئے احتجاج کررہے ہیں،کیڈ کے وزیر طارق فضل چوہدری جب تک وزیر نہیں بنے تھے ہمارے مطالبات سنے آئے لیکن وزیر کا قلمدان ملتے ہی ان کا بھی کچھ نہیں پتہ۔

ثناء ناز ایم ایس سی فزکس ہیں وہ کہتی ہیں کہ میری تنخواہ صرف دس ہزار ہے وہ بھی آٹھ ماہ سے نہیں ملی، بلدیاتی الیکشن میں بھی ہم نے ڈیوٹی دی لیکن ویسے ہمیں اس تعلیمی نظام کا حصہ نہیں سمجھا جاتا اور اب تک ہم مستقل نہیں ہوئے۔

ایم فل انگلش لٹریچر استاد عظمیٰ کہتی ہیں کہ سڑک پر بیٹھنا آسان نہیں لیکن ہم مارچ سے تنخواہوں سے محروم ہیں، معاشی بدحالی ہمیں آج سڑک تک لئے آئی ہم نے ریگولر اساتذہ کے ساتھ مل کر سات آٹھ سال سے بچوں کی تعلیمی ضروریات کا خیال کررہے ہیںلیکن ہماری ضروریات کا کسی کو خیال نہیں، وزیر اعظم اساتذہ کو عزت و تکریم دیں ان کے جائز مطالبات تو مان لیں،اگر اسکول میں اساتذہ ہی ناکافی ہوں تو بچوں کو پڑھائے گا کون ؟

اس وقت وزیر اعظم کی صحت اور تعلیم کی پالیسی آنے کو ہے لیکن کیا اس پالیسی میں اساتذہ کا کوئی حصہ نہیں، اب تو بہت سے اساتذہ کی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحان دینے کی بھی عمر نکل چکی ہے لیکن کیا تجربہ اور قابلیت ان کو ریگولر کرنے کے لئے کافی نہیں ؟ عدالتی حکم آنے کے باوجود ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے اساتذہ کو ریگولر نہیں کیا جارہا کیوں؟ اساتذہ کے بنا ہم اپنے بچوں کو کیسے پڑھا سکتے،اسکول کو نیا رنگ و روغن کرنے سے یا نئی کرسیاں رکھنے سے تعلیمی اصلاحات نہیں ہوسکتیں، اساتذہ کو باعزت تنخواہ ، مستقل نوکری اور نصاب کو جدید سطح پر استوار کرکے ہی ہم تعلیمی انقلاب لاسکتے ہیں، جس ملک میں استاد ہی فاقہ کشی پر مجبور ہو وہ اپنے بچوں کو پڑھا لیں بڑی بات ہوگی۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Twitter @javerias

 

 

Posted in human-rights, روہنگیا

روہنگیا دنیا کی مظلوم ترین قوم

’روہنگیا دنیا کی مظلوم ترین قوم

  Posted On Thursday, June 11, 2015   …..جویریہ صدیق……
مہذب معاشروں میں اب بھی غیر مہذب افراد بستے ہیں جو رنگ نسل مذہب کی بنیاد پر دیگر افراد کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے جنہیں خود ساختہ مہذب کہلانے والے میانمار (برما)کے بدھ مت اکثریتی آبادی کے مظالم کا سامنا کرنا پڑرہا ہے،دو سو سال سے روہنگیا مسلمان اس خطے میں مقیم ہیں اور اب میانمار کی حکومت انہیں اپنا شہری ماننے پر تیار نہیں،میانمار کی حکومت کہتی ہے یہ بنگلہ دیشی ہیں اور بنگلہ دیش کی حکومت یہ کہتی ہے کہ یہ ہمارے شہری نہیں۔امن کا نوبل انعام سر پر سجائے لیڈر آنگ سان سوچی بھی اس معاملے پر چپ سادھ کر بیٹھے ہوئے ہیں،کیوں نا چپ ہوں جب اسلامی ممالک چپ بیٹھے ہیں تو ایک بدھ مت کے پیروکار لیڈر سے کیا امید لگائی جائے۔

روہنگیا مسلمانوں پر میانمار میں طرح طرح کی غیر انسانی پابندیاں عائد ہیں،نا ہی وہ کوئی کاروبار کرسکتے ہیں نا ہی ان کو زمین خریدنے کا اختیار حاصل ہے،نا ہی انکے پاس شہریت ہے یہاں تک کہ ان کے شادی کرنے بچے پیدا کرنے اور تعلیم پر بھی بہت سی پابندیاں عائد ہیں،میانمار حکومت کی پالیسی مسلمانوں سے نفرت اور تعصب پر مبنی ہے،اقوام متحدہ نے اپیل کی تمام روہنگیا مسلم کا اندراج کیا جائے لیکن میانمار نے کہا کہ اگر وہ خود کو بنگالی مسلمان کہیں گے تو ٹھیک ورنہ روہنگیا کو ہم نہیں مانتے۔

ریاست راخائن میں بددھوں نے روہنگیا مسلمانوں پر وہ مظالم ڈھائے جس کی مثال نہیں ملتی،مردوں کو جلایا گیا عورتوں کی عصمت دری کرکے ان کے اعضاء کاٹ کر درختوں پر لٹکا دیے گئے اور معصوم بچے ان کو بھی نہیں بخشا گیا ان کے گلے کاٹ دئیے گئے.اقوام عالم چپ رہی امت مسلمہ چپ رہی کسی نے بھی میانمار کی حکومت پر دباؤ نہیں ڈالا کسی نے اپنے سفیر احتجاجی طور پر واپس نہیں بلائے،کیونکہ مرنے والے مسلمان اور مارنے والے بدھ مت کے پیروکار جو تھے۔

کچھ روہنگیا مسلمانوں نے سوچا میانمار کی زمین تو ہم پر تنگ کردی گئ ہے کیونکہ نا کسی قریبی ممالک میں پناہ لی جائے، بدترین طریقے سے ہزاروں افراد چند کشتیوں میں ٹھونس دئیے گئے۔ ایجنٹس کو پیسے دے کر سمندر میں پہنچے تو ملائشیا، تھائی لینڈ اورانڈونیشیا نے انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا، تین ممالک کے درمیان یہ بھٹکتے رہے،بھوک تنگ دستی ہزاروں لوگ کشتیوں پر اور ہر سو پھیلا وسیع سمندر، پر مہذب دنیا کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

لوگ سمندر میں تڑپ تڑپ کر جان دینے لگے کئی افراد آبی مخلوق کا لقمہ بن گئے،لیکن وہ مغربی ممالک جن کے ہاں کتے بلیوں کو بھی حقوق حاصل ہیں انہوں نے بھی سسکتے بلکتے انسانوں کےلیے آواز نہیں بلند کی، انڈونیشیا کے قریب جب روہنگیا مسلمانوں کی کشتیوں پر خوراک پھینکی گئی تو لڑائی چھینا چھپٹی میں سینکڑوں جانیں چلی گئیں۔

ایران سعودیہ عرب متحدہ عرب امارات، پاکستان کسی بڑے اسلامی ملک کی حکومت نے مدد تو کیا آواز بھی اٹھانا مناسب نہیں سمجھا،اس موقع پر گیمبیا جیسے ایک چھوٹے افریقی ملک نے روہنگیا مسلمانوں کو اپنانے کا اعلان کیا،اس ملک نے گزارش کہ ہے کشتیوں پر پھنسے انسانوں کو بڑے ممالک کے بحری بیڑے ہمارے ملک چھوڑ جائیں،ہم ان کی آباد کاری کے لیے تیار ہیں۔

یہ بات تمام بڑے ممالک کے منہ پر ایک طمانچہ نہیں کہ گیمبیا نے روہنگیا مسلمانوں کے لیے آواز بلند کی اور اپنی سر زمین بھی پیش کردی،جبکہ دیگر بڑے اسلامی ممالک اور مغربی ممالک تماشہ دیکھتے رہے،ہاں سنا ہے پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھی ایک قرارداد پاس کی ہے،وزیراعظم نے بھی ایک کمیٹی بنائی ہے،لیکن اس کا فائدہ کیا بوٹ میں سوار لوگوں کے لیے ایک منٹ تاخیر کا مطلب موت ہےلیکن اسلامی ممالک کی مصلحتیں مغربی ممالک کی اسلام دشمنی کہیں بے گناہ انسانوں کی جان خطرے میں ڈال رہی ہے۔

کیا محسوس کررہے ہوں گے کشتیوں پر سوار انسان نیچے سمندر اوپر آسمان نا ہی کوئی خشکی کا ٹکڑا دور دور تک اور نا ہی انسانیت کا کچھ اتہ پتہ.مسلمان فرقہ بندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں مغربی ممالک کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی ہے کیا کوئی انسان بھی اس زمین پر بستے ہیں جو مشکل میں گھیرے انسانوں کو سمندر سے بچا کر لے آئیں۔

اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی سب سے ستائی ہوئی قوم قرار دیا ہے لیکن میرا خیال میںیہ انہیں روہنگیا کو دنیا کی سوتیلی قوم قرار دینا چاہیے تھا کیونکہ اتنی بڑی زمین پر نا ہی ان کے لئے خشکی کا ٹکڑا ہے اور نا ہی کوئی قوم ان کو پناہ دینے کو تیار ہے،سمندروں میں صرف انسان ہی نہیں انسانیت بھی دم توڑ رہی ہے۔

ترکی نے اب اپنا امدادی جہاز بھیجا ہے ایک ملین ڈالر امداد کا بھی اعلان کیا ہےلیکن دیگر اسلامی ممالک کہاں ہیں کیا تم اسلامی ممالک فوری طور پر اپنے بحری بیڑے بھیج کر ان مسلمانوں کو بچا کر دوبارہ آباد کرنا چاہیے،بنگلہ دیش کی بھارت نواز وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کہہ رہی ہیں کہ غیر ملکی تارکین وطن ملک کی شبیہہ خراب کررہے ہیں شاید ان جیسے حکمرانوں میں خدا خوفی ختم ہوگئ ہے لیکن پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف ،ترکی کے صدر طیب اردوان، سعودیہ عرب کے شاہ سلیمان کو فوری طور پر مشترکہ امدادی کاروائیاں کرکے ان مسلمانوں کو بچانا چاہیے۔

اس کے ساتھ میانمار پر سفارتی دبائو ڈال کر وہاں رہنے والے روہنگیا مسلمانوں کو انکے بنیادی حقوق دلوائے جائیں،اب تک صرف چار ہزار روہنگیا قوم کے افراد کو بچایا جاچکا ہے لیکن اب سینکڑوں کھلے سمندر میں بھوکے پیاسے بھٹک رہے ہیں۔

میانمار (برما) کی سفاکی تو سب کے سامنے کھل کر عیاں ہے جوکہ تیرہ لاکھ سے زائد آبادی والے روہنگیا کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہےلیکن عالمی دنیا کی مجرمانہ خاموشی اس مسئلے کو مزید گھمبیر کررہی ہے،میانمار کی نسل پرستانہ اور روہنگیا دشمن پالیسی کو مزید نظرانداز کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوگا،میانمار پر عالمی دنیا زور دے کہ انسانیت سوز پالیسیاں تبدیل کرے اور روہنگیا مسلمانوں کو حقوق دے،کشتیوں میں پھنسے افراد کو فوری طور پر خشکی پر لا کر آباد کیا جائے،انہیں شہریت ملنی چاہئے اور مساوی حقوق بھی۔اقوام متحدہ اور عالمی امن فوج اس ضمن میں بہترین کردار ادا کرسکتی ہے، عالمی برادری اور مسلم امہ خواب غفلت سے جاگے اور اپنا کردار ادا کرے۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Twitter @javerias    35 – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10887#sthash.bpKpuoa1.dpuf

Posted in Army, human-rights, Pakistan, Uncategorized, ZarbeAzb

آپریشن ضرب عضب کا ایک سال

آپریشن ضرب عضب کا ایک سال

Posted On Monday, June 15, 2015   …..جویریہ صدیق……
امریکا میں تو نائن الیون جیسا دہشتگردی کا واقعہ ایک بار ہوا لیکن اس واقعے کی قیمت پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں اتحادی بننے کے بعد ہر روز چکائی۔سیکڑوں نائن الیون جیسے واقعات پاکستان میں رونما ہوئے جس میں70 ہزار سے زائد پاکستانی اپنی جان سے گئے۔ طالبان ہوں القاعدہ ہو یا ’را‘ کے آلہ کار سب کے نشانے پر معصوم پاکستانی۔ دہشت گردی نے پاکستانی عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔کچھ مصلحت پسند سیاست تب بھی دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا راگ الاپتے رہے،لیکن کراچی میں اصفہانی ہینگر پر دہشت گردانہ حملے کے بعد عوام کی طرف سے یہ مطالبہ شدت اختیار کرگیا کہ دہشتگردوں کے خلاف فوری بڑے آپریشن کا آغاز کیا جائے،پاک آرمی اس پہلے بھی آپریشن راہ راست، آپریشن راہ نجات،آپریشن المیزان اور آپریشن راہ حق کے ذریعے سے شدت پسندی کا خاتمہ کرچکی تھی،لیکن شمالی وزیرستان میں بڑے آپریشن کی اشد ضرورت کی جارہی تھی۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نواز شریف نے جون 2014 میں ضرب عضب آپریشن کا آغاز کیا۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار مبارک پر اس آپریشن کا نام رکھا گیا، یہ تلوار رسول اللہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ بدر اور غزوہ احد میں استعمال کی، اس کا مطلب ہے کاٹ دینے والی ضرب۔آپریشن ضرب عضب سے پہلے عام شہریوں کو علاقہ چھوڑنے کی تلقین کی گئ۔ساڑھے دس لاکھ لوگوں نے نقل مکانی کی جنہیں بنوں اور بکا خیل میں عارضی طور پر پناہ دی گئ۔آرمی نے تمام لوگوں کو باقاعدہ رجسٹر ڈکرکے کیمپوں میں منتقل کیا۔15 جون کو پہلی کاروائی میں 120 دہشت گرد مارے گئے اور بارودی ذخیرے تباہ ہوئے۔آپریشن میں ابتدائی طور پر لڑاکا جیٹ طیاروں،گن شپ ہیلی کاپٹر کوبرا نے اہداف کو نشانہ بنایا بعد میں زمینی کاروائی کا آغاز ہوا۔میر علی، میران شاہ،ڈانڈے درپہ خیل،غلام علی ،شوال،بویا،سپلگاہ،زراتا تنگی میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا،ان کاروائیوں میں دہشتگردوں کو بھاری نقصان پہنچا اور متعدد گولہ بارود کے ٹھکانے تباہ کئے گئے۔

اکتوبر میں ضرب عضب کے ساتھ ساتھ خیبر ایجنسی میں خیبر ون اور ٹو کا بھی آغاز کردیا گیا۔ضرب عضب نے کامیابی سے اپنے اہداف پورے کرنا شروع کئے تو پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں طور پر کمی آئی،تاہم بزدل دشمن نے بدلے کی آگ میں پشاور میں آرمی پبلک سکول و کالج پر حملہ کردیا،ان کا مقصد بچوں کو یرغمال بنانا نہیں تھا ،ان بزدل دہشتگردوں کا مقصد صرف پاک افواج اور پاکستانی شہریوں کے قلب پر حملہ کرنا تھا،پر بزدل طالبان اور بھارت کے پالتو دہشتگرد پاکستانیوں کے حوصلے کو پست نہیں کرسکے،سانحہ پشاور کے بعد قوم نے ایک بار پھر متحد ہوکر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا فیصلہ کیا۔اس موقع پر آرمی چیف راحیل شریف کا کردار قابل ستائش ریا، جہاں وہ ایک شفیق بڑے بھائی کی طرح سانحہ پشاور کے شہدا کو دلاسا دیتے رہے تو دوسری طرف ماہر سپہ سالار کی طرح دہشت گردی کے خلاف نئی حکمت علمی ترتیب دیتے گئے۔

وزیراعظم نواز شریف نے پھانسی پر عائد پابندی کو ختم کردیا اور ملٹری کورٹس کی منظوری دےدی،دہشتگردوں کو پھانسیاں دے کر انہیں زمانے بھر کے آگے نشان عبرت بنا ڈالا یو ں دوسرے بزدل دہشت گردوں کے حوصلے بھی مزید پست ہوگئے،اب دہشتگردی کی کاروائیاں گذشتہ سالوں کے مقابلے میں کم ہوگئیں۔

آپریشن ضرب عضب کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے اور اس دوران 2763 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیاگیا۔

آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق شمالی وزیرستان سے 18087 ہتھیار اور 253 ٹن دھماکہ خیز مواد برآمد کیاگیا،دہشت گردوں کے 837 خفیہ ٹھکانے تباہ کئے گئے،اس آپریشن کے نتیجے میں بیشتر علاقہ دہشتگردوں سے خالی کروالیا گیا،ملک کی خاطر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے 347 فوجی جوانوں اور افسران نے جام شہادت نوش کیا.یہ ان نوجوانوں کی قربانی کا نتیجہ ہے کہ وزیرستان کے لوگ آج واپس اپنے علاقوں میں لوٹ رہے ہیں،اب ان افراد کو یہ اطمینان ہے کہ وہ اپنے گھر کو لوٹ رہے ہیں جو اب مکمل طور پر پرامن ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق اس آپریشن پر 44 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں اور اس آپریشن نے اپنے اہداف کامیابی سے حاصل کئے۔ان کے مطابق آئی ڈی پیز کی واپسی اور مکمل بحالی کے لیے 130 ارب روپے خرچ ہوں گے۔پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عندیہ دیا ہے دہشتگردوں کے خلاف اس وقت تک کاروائی جاری رہے گی جب تک کہ ملک سے شدت پسندوں کا خاتمہ نا ہوجائے۔

پاکستانیوں کی بھی یہ ہی خواہش ہے کہ یہ آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچے اور وطن عزیز میں مکمل امن ہوجائے، تاہم اب بھی ایک بہت بڑا چیلنج درپیش ہے چین کے صدر ژی جن پنگ کے دورہ پاکستان جس میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا اعلان کیا گیا،اس کے بعد سے دہشتگردی کی ایک نئی لہر سامنے آئی اور یہ ثبوت عیاں ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را اس میں ملوث ہے۔پاک فوج کو سندھ اور بلوچستان میں ان عناصر کا خاتمہ کرنا ہوگا جو دشمن کے آلہ کار ہیں۔پاکستان کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا ،نئی بندرگاہوں کی تعمیر ناگزیر ہے،جس طرح ضرب عضب میں دہشتگردوں کی کمر توڑی گئ اس ہی طرح پاکستان کے دیگر شہروں میں وطن دشمن سرگرمیوں میں مصروف افراد اور مافیا کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کرنا ہوگا،قوم کی نگاہیں راحیل شریف کی طرف ہیں کس طرح سپہ سالار قوم کو مکمل طور پر دہشت گردی سے نجات دلوائے گا،قوم کے ہر اس سپوت کو سلام جس نے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ضرب عضب میں حصہ لیا اور دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا،قوم کی ان مائوں کو سلام جن کے جوان بیٹوں نے مادر وطن پر اپنی جان نچھاور کردی اور ان کے حوصلے اب بھی بلند ہیں،قوم کے ان غازیوں کو بھی سلام جن کی بدولت آج دہشتگردی میں قدرے کمی آئی ہے۔

پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد
Javeria Siddique writes for Daily Jang
twitter @javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10891#sthash.Ps7IQwTT.dpuf

Posted in ChildLabor, human-rights, Pakistan

محنت مزدوری کرتے پاکستانی بچے

محنت مزدوری کرتے پاکستانی بچے

  Posted On Tuesday, December 09, 2014   …..جویریہ صدیق……
پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد بد ترین مشقت کا شکار ہے،جس عمر میں عام بچے کھلونوں ،کارٹونز چاکلیٹ اور دیگر چیزوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اس عمر کے بارہ ملین بچے پاکستان میں مشقت کا شکار ہیں۔دنیا بھر کے مشقت کرنے والے بچوں کے لحاظ سے بدترین ممالک میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے۔بچے سے مشقت بہت سی صورتوں میں لی جاتی ہے جن میں صنعتوں میں مزدوری،معدنیات نکالنے کے لیے کان کنی،اینٹوں کے بھٹوں پر اینٹیں بنوانا،گھروں میں ملازم بنا کر کام کرانا،گلی کوچوں میں چیزیں بیچنا،ورکشاپ میں گاڑیوں کی مرمت کرتے بچے،کاشتکاری کرتے بچے اور ہوٹلوں میں گاہکوں کے جھوٹے برتن صاف کرتے تمام ہی بچوں سے مشقت کرنے کی مختلف اقسام ہیں۔
پاکستان میں بچوں سے مشقت کروانے کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں جن میں غربت،وسائل کی کمی اور آبادی میں بے تحاشہ اضافہ شامل ہے۔بہت سے افراد اپنے خاندان کا پیٹ نہیں پال سکتے اس لیے بچوں کو جبری مشقت پر بجھوا دیتے ہیں کچھ بچے گلی کوچوں میں کام کرتے ہیں تو کچھ گھروں اور کارخانوں کی چار دیواری میں۔ان بچوں کا استحصال اس ہی وقت سے شروع ہوجاتا ہے جب ان کو گھر کی دہلیز سے نکالا جاتا ہے۔ماں کی آغوش اور باپ کی شفقت سے محروم یہ بچے جب باہر کام کرتے ہیں تو ان کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اجرت کم دی جاتی ہے،تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، ان کی غذائی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا،انہیں موسم کے لحاظ سے لباس مہیا نہیں کیا جاتا اور بعض اوقات یہ بچے جنسی تشدد کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم سپارک کے شعبہ ریسرچ کے ہیڈ حمزہ احسن کے مطابق غربت اور بے روزگاری وہ بڑی اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو گھر سے باہر ملازمت کے لیے بھیج دیتے ہیں۔جب گھر میں کھانے والے زیادہ ہوں اور کمانے والے کم تب والدین بچوں کی آمدنی کا سہارا لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
عام طور پر بچوں کو مالکان انتہائی کم اجرت پر ملازم رکھتے ہیں ۔اس کے حوالے سے نا ہی کوئی نگرانی کی جاتی ہے نا ہی حکومت دلچسپی لیتی ہے ۔بچوں کے والدین چونکہ غریب ہوتے ہیں اس لیے وہ بھی کم اجرت پر خاموش ہی رہتے ہیں دو ہزار تیرہ میں کیے گئے سروے کے مطابق دس سے پندرہ سال کی عمر کے تقریباً چار عشاریہ چار فیصد بچے ملک کی افرادی قوت کا مستقل حصہ ہیں۔لیکن دس برس کے بچے اس سروے کا حصہ نہیں ایک اندازے کے مطابق دو عشاریہ اٹھاون ملین بچے وہ ہیں جو دس سال سے کم عمر ہیں۔
بین الاقوامی قوانین برائے لیبر کی شق سی ١۳۸ کے مطابق ملازمت کی کم ازکم عمر پندرہ سال ہے۔اگر ملکی قوانین اجازت دے تو بارہ سے پندرہ سال کے بچے کو ملازمت دی جاسکتی ہےلیکن اس کے تحفظ کے ساتھ کہ یہ ملازمت بچے کی جسمانی اورذہنی صحت پر کوئی اثر نہیں ڈالے گی اور نا ہی اس کی تعلیم متاثر ہوگی۔پاکستان بھی اس قانون کو مانتا ہے اور پاکستان کے قانون میں بھی مزدور کی عمر کم سے کم عمر چودہ سال رکھی گی ہے اور آئین کی شق پچیس ﴿اے کے مطابق مفت تعلیم ہر بچے کا حق ہے لیکن اس پر عمل درآمد بالکل نظر نہیں آتا۔
پاکستان میں بچوں کو غلام بنانے سے لے کر گھریلو ملازم تک جبری مشقت سے لے کر منشیات کے کاروبار میں استعمال کرنے سے لے کر انہیں خود کش حملوں اور دہشت گردی میں استعمال کا ظلم جاری ہے۔اس کی بڑی وجہ ہمارے معاشرتی رویے اور قانون پر عمل درآمد نا کرنا ہے۔اس وقت ان بچوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔اگر بچہ اپنی گھریلو مجبوریوں کی باعث گھر سے کام کرنے نکلا ہے تو اس سے ایسے کام لیے جائیں جو اس صحت ذہنی اور جسمانی دونوں کے لیے نقصان دہ نا ہو۔ایسے بچوں کو پانچ سے سولہ سال تک حکومت مفت تعلیم فراہم کرے۔اگر کوئی بھی شخص بچوں سے خطرناک مزدوری کروائے تو اس پر جرمانہ عائد کیا جائے یا قید کی سزا سنائی جائے۔مزدور بچوں کی کم سے کم اجرت کو بڑھایا جائے۔جبری مشقت کا خاتمہ صرف قانون نفاذ کرنے والے ادارے ہی ختم کرواسکتے ہیں جہاں بھی مزدور بچوں کو غلام بنا کر کام کروایا جارہا اسکے خلاف آواز بلند کریں اور قانون نفاذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کریں۔گھریلو ملازم بچے کو مناسب رہائش ،بروقت تنخواہ کی ادائیگی،طبی سہولیات،مناسب لباس مہیا کیا جائے اور ہر طرح کی جسمانی سزا سے حفاظت یقنی بنائی جائے۔
قومی اسمبلی میں بیٹھے قانون سازوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مزدور بچوں کے حقوق کے لیے موثر قانون سازی کریں۔جو بھی قانون سازی ہو وہ آئی یل او کے کنونشنز کے مطابق ہونی چاہیے۔ سپارک کے حمزہ احسن کے مطابق اگر کوئی بچہ اپنے حالات یا غربت کے باعث مزدوری کرنے پر مجبور ہے تو یہ حکومت کا فرض ہے کہ بیت المال سے اسکے لیے وظیفہ مقرر کرے اور اسکی تعلیم کا ذمہ بھی خود لے۔پاکستان کے بیشترسکول شام میں خالی ہوتے ان تمام بچوں کو شام کو بلایا جاسکتا ہے اور وہ تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ اگر والدین کو مکمل طور پر خود کفیل کردیا جائے تو بچوں کو کام کرنے کی ضرورت ہی پیش نا آئے اور اگر بچوں سے کام لینا مقصود ہو تو سکول میں بھی انہیں ہنر سکھا کرآمدنی کا ذریعہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔
ہم ان سب مشقت کا شکار بچوں کی ملازمت ایک دم سے تو نہیں چھڑوا تو نہیں سکتے لیکن تعلیم اور شفقت سے ہم انہیں ایک بھرپور اور کامیاب زندگی جینے کا موقعہ دے سکتے ہیں۔کارخانے دوکان یا گھر کہیں بھی ایک چھوٹا بچہ ملازمت کرتا نظر آئے تو اگر آپ میں ایک بھی اسکی تعلیم کا ذمہ خود لے لیے تو وہ بچہ سارا زندگی غربت کی چکی نہیں پسے گا۔مشقت کرنے والوں بچوں سے پیار سے پیش آئیں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ان کو تضحیک کا نشانہ نا بنائیں ان کی مالی امداد بھی کریں اور اخلاقی بھی۔
حکومت،این جی اوز،مخیر حضرات سب مل کر ہی اس مسلے پر قابو پا سکتے ہیں کسی بھی انسان کے لیے سب سے خوبصورت دور اس کا بچپن ہوتا ہے اس لیے ہمیں اپنے اردگرد بہت سے انسانوں کے اس خوبصورت دور کو بد صورت ہونے سے روکنا ہے۔بچوں پر ظلم و زیادتی،بچوں کو غلام بنانا،بچوں سے بد فعلی،جسمانی سزایں،جسم فروشی اور دہشت گردی میں بچوں کا استعمال ان کی آنے والی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے اور بہت سے بچے اس باعث اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اس لیے ہم سب کو مل کر ان کے لیے کام کرنا ہوگا ۔صرف حکومت کا اقدامات سے ہم ان مسائل کو قابو نہیں کرسکتے ابھی اٹھیں اپنے گھر میں کام کرتے ہویے بچے کا ہاتھ نرمی
سے روکیں اور اس کے ہاتھ میں کتابیں تھما دیں۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10435#sthash.cD1wkR1F.dpuf