Posted in health, Javeria Siddique, Pakistan, rain

ڈینگی بخار احتیاط واحد حل تحریر جویریہ صدیق

Screenshot_20190903-233809_Chrome
تحریر  …..جویریہ صدیق…..
ڈینگی بخار نے آج کل پھر عوام کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا ہے ،کراچی، راولپنڈی، ملتان اور پشاور کے عوام اس بخار سے سب سے زیادہ متاثر ہوئےہیں ۔
ڈینگی بخار کا علاج اگر بروقت نا کروایا جائے تو یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، ڈینگی بخار مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، یہ مچھر صاف پانی پر افزائش پاتا ہے اور اس کے کاٹنے سے انسان ڈینگی بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
یہ مچھر زیادہ تر گھروں میں افزائش پاتا ہے، اس مچھر کی ایک مخصوص پہچان ہے اس کے جسم پر سیاہ سفید نشان ہوتے ہیں، ڈینگی پھیلانے والا مچھر زیادہ تر گرم مرطوب علاقوں میں پایا جاتا ہے، اس مچھر کے کاٹنے سے ہر سال کروڑوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
ڈینگی چھوت کی بیماری نہیں ہے کسی متاثرہ مریض سے یہ صحت مند شخص کو نہیں ہوتا، یہ ایک مخصوص مچھر aedes aegypiti کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، ہر سال بائیس ہزار سے زائد افراد اس بخار کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس بخار کی علامتیں چار سے چھ دن میں ظاہر ہوتی ہیں، اچانک 104 فارن ہائٹ تکتیز بخار ، سر میں درد،جوڑوں میں درد،آنکھوں کے پیچھے درد، قے، جسم پر سرخ دھبے اس بخار کی علامات میں شامل ہیں، اگر اس کے علاج پر توجہ نا دی جائے تو یہ ڈینگی بخار ڈینگی ہیمرجک فیور میں تبدیل ہو جاتا ہے،جس کے باعث خون میں سفید خلیے بہت کم ہوجاتے ہیں، بلڈ پریشر لو ہوجاتا ہے، مسوڑوں، ناک، منہ سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے اور جگر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، انسان کومہ میں چلا جاتا ہے اور اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
ڈینگی بخار کو ایک بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے تشخیص کیا جاتا ہے، ٹیسٹ اگر مثبت آجائے تو فوری طور پر علاج شروع کیا جاتا ہے، اس مرض کے لئے کوئی مخصوص دوا تو دستیاب نہیں ہے، ڈاکٹر مریض کے جسم میں نمکیات پانی کی مقدار کو زیادہ کرتے ہیں اور ساتھ میں انہیں درد کو کم کرنے کی ادویات دی جاتی ہیں، ڈینگی ہمیرجک فیور میں پلیٹ لیٹس لگائی جاتی ہیں،اس مرض سے بچنے کا واحد حل احتیاط ہے.انسان خود کو مچھر کے کاٹنے سے بچائے۔
ڈینگی بخار سے بچنے کے لئے یہ احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں، سب پہلے تو کسی بھی جگہ پر پانی کھڑا نہ ہونے دیں، اگر پانی ذخیرہ کرنا ہو تو اس کو لازمی طور پر ڈھانپ دیں، گھر میں لگے پودوں اور گملوں میں پانی جمع نا ہونے دیں، کوڑاکرکٹ جمع نہ ہونے دیں، پرانے ٹائر خاص طور پر ان مچھروں کی آماجگاہ ہوتے ہیں انہیں گھر پر نا رکھیں، گھر میں پانی کی ٹینکی کو ڈھانپ کر رکھیں، باتھ روم میں بھی پانی کھڑا نا ہونے دیں اور اس کا دروازہ بند رکھیں، روم کولرز میں سے پانی نکال دیں، اسٹور کی بھی صفائی کریں اور وہاں بھی اسپرے کریں، اگر تب بھی مچھروں سے نجات نا ہو تو مقامی انتظامیہ سے اسپرے کی درخواست کریں۔
اپنی حفاظت کے لئےمچھر مار اسپرے استعمال کریں یا مچھربھگائو لوشن استعمال کریں، پورے بازو کی قمیض پہنیں اور جو حصہ کپڑے سے نا ڈھکا ہو جیسا ہاتھ ، پائوں، گردن وغیرہ وہاں پر لوشن لگائیں، گھر میں جالی لگوائیں اور بلاضرورت کھڑکیاں نا کھو لیں، ڈینگی کا مچھر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت زیادہ کاٹتا ہے، اس لئے اس وقت خاص طور پر احتیاط کریں، سوتے وقت نیٹ کے اندر سوئیںاورکوائیل کا استعمال کریں۔
ڈینگی کا علاج اگر بروقت شروع کروالیا جائے تو مریض جلد صحت یاب ہو جاتا ہے، اس بات کا خاص خیال رکھاجائےکہ مریض کوپانی ،جوس ،دودھ ،فروٹس اور یخنی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کروایا جائے، سیب کے جوس میں لیموں کا عرق بھی مریض میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے، اس کو ہرگز بھی اسپرین نا دی جائے۔
تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ستمبر، اکتوبر اور نومبر جو ڈینگی مچھر کے افزائش کے ماہ ہیں، ان میں متواتر اسپرے کروائیں، جہاں پانی کھڑا ہو وہاں پر خاص طور پر اسپرے بہت ضروری ہے۔
عوام میں اس مرض سے بچنے کے لئے آگاہی پھیلائیں، اسپتالوں میں ڈینگی بخار سے متعلق معلوماتی کائونٹر قائم کئے جائیں، اس مرض کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے اگر ان مچھروں کی افزائش نا ہونے دی جائے، 2011 جیسی صورتحال سے بچنے کے لئے تمام صوبائی حکومتوں اور مقامی حکومتوں کو کام شروع کردینا چاہئے۔
Javeria Siddique 
Twitter @javerias

یہ تحریر 2015 میں شائع ہوئی ۔

Posted in india, Javeria Siddique, Pakistan

شہزادہ، شہزادی اور سپہ سالار تحریر جویریہ صدیق

شہزادہ، شہزادی اور سپہ سالار

تحریر جویریہ صدیق

ایک دفعہ کا ذکر ہے دور دراز ایک ریاست تھی اس ریاست پر دو افراد کی حکمرانی تھی۔ایک شہزادہ اور ایک شہزادی ہر وقت لڑتے اور ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے کے بھی متحمل نہیں تھے ۔دونوں ایک دوسرے سے خائف رہتے تھے لڑتے جھگڑے اور اپنے دکھ  سپہ سالار کو سنانے پہنچ جاتے۔سپہ سالار بہت طاقت ور تھا۔شہزادہ اور شہزادی 

کبھی سپہ سالار سے مدد مانگتے، کبھی روتے تو کبھی شکایتیں کرتے۔جب بات نہ بن پاتی تو پڑوس کی ریاستوں کو خط لکھتے انہیں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے آگاہ کرتے ۔

دونوں ریاست کے مخلتف حصوں پر حکمرانی کرتے رہےلڑتے رہتے اور عوام بدحالی کا شکار ہونے لگے۔ شہزادے  اور شہزادی کو اچھے پکوان اچھے لباس اور اچھی سواری کا بہت شوق تھا۔یہ شوق عوام کی خون پسینے کی کمائی پر لگان لگا کر وصول کیا جانے لگا۔ریاست کے خزانے کو بے دریغ لوٹا جانے لگے۔عوام غریب سے غریب ہوتے گئے اور شاہی خاندان امیر سے امیر ہوتے ہوگے ۔شہزادے اور شہزادی نے جب یہ دیکھا کہ سپہ سالار کے تیور کچھ ٹھیک نہیں تو اپنی ناجائز دولت کا بہت سا حصہ کشتیوں میں چھپا کر دور سمندر پار پردیس منتقل کردیا۔شہزادے نے بھی جب تھوڑی طاقت حاصل کی تو اس نے شہزادی کو بہت تنگ کرنا شروع کردیا تو وہ حکمرانی چھوڑ کر چلی گئ اور دور کی ریاست میں آرام دہ زندگی بسر کرنے لگی۔

پھر وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا سپہ سالار ایک دن خود اقتدار پر قابض ہوگیا ۔ شہزادےکو ملک بدر کردیا ۔جان بچ گئ شہزادہ آرام سے اپنی دولت پر عیش کرنے لگے لیکن حکمرانی کی یاد انہیں ستاتی تھی۔سپہ سالار کے دور میں بدامنی میں اضافہ ہوگیا جب اس سے کچھ بن نہ پایا وہ حکومت کرنے کے لئے نہیں تیار کیا گیا تھا اسکا فرض ریاست کی حفاظت تھا۔جب معاملات ہاتھ سے نکل گئےتو اس نے شہزادہ اور شہزادی کو معاف کردیا اور واپس ریاست کی حکمرانی دے دی۔

اب شہزادہ اور شہزادی عمر رسیدہ ہوگےتھے اور اپنی اولاد کو حکمرانی کے لئے تیار کرچکے تھے۔شہزادی کے بچے نئے  سپہ سالار کو اپنا دوست گردانتے تھے لیکن شہزادے کے بچے اپنی سینا اور سپہ سالار سے خائف رہے ۔شہزادہ اور شہزادی کے خاندانوں میں دوستی بھی ہوگئ تھی تو دونوں نے طے کیا مل کر بانٹ کر کھائیں گے لیکن شکایتیں لے کر سپہ سالار کے پاس نہیں جائیں گے۔اس کے پاس اگر جنگ لڑنے کی طاقت ہے تو ہمارے پاس بھی دولت کی طاقت ہے جس سے کچھ بھی ممکن ہے۔

20190711_171945

دونوں شاہی خاندان امیر سے امیر ترین ہوتے گئے خوب دولت لوٹی دنیا کی کوئی ایسی ریاست نہیں بچی کہ انکی دولت موجود نہ ہو۔شہزادہ شہزادی کے خاندان کے پاس بہت سے محلات آگئے، انکے بچے دنیا کے مہنگے ترین لباس پہننے لگے ،سب سے مہنگی سواری میں سفر کرنا انکے لئے عام بات تھی۔کچھ لوگ سپہ سالار کو شکایتیں کرنے لگے لیکن سپہ سالار بیرونی ریاستوں کے خطروں کو بھانپ چکا تھا اور نیا سپہ سالار بدامنی اور سرحدوں پر شورش کو ختم کرنے میں لگا رہا ۔

پر کچھ سچ بولنے والے قلم کاروں نے شہزادہ شہزادی کی دولت کا پول کھول دیا ۔بس پھرکیا تھا شاہی خاندانوں میں آہ و پکار مچ گئ۔سپہ سالار کے آگے رونے لگے ہمیں معافی دلوائی جائے ۔تاہم معاملہ کوتوال میں تھا اور شاہی خاندانوں کے بہت سے شہزادے شہزادیاں قید ہوگے۔درباریوں سے مدد مانگی گئ تجوریوں کے منہ کھول دیے گئے وہ درباری سر جھاڑ منہ پھاڑ بین کرنے لگے کہ ہمارے شہزادے شہزادی معصوم ہیں انکو چھوڑ دو۔اگر انکو نہیں چھوڑا گیا ریاست تباہ ہوجائے گی۔

پھر ریاست کے وسط سے ایک اور شہزادہ نمودار ہوا اس نے سب کو امید دلائی کہ سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن ریاست کی قسمت ہی اچھی نہیں تھی۔اس شہزادے کی جیب میں بھی کھوٹے سکے تھے اور درباری اسکے دربار کا حصہ بن گئے اور ریاست میں روٹی 20 روپے کی ہوگئ ۔ ۔

Screenshot_20190711-171820_Chrome

Posted in Javeria Siddique, Pakistan

پاکستان توڑو مہم پی ٹی ایم

IMG-20190502-WA0080

تحریر جویریہ صدیق

پی ٹی ایم پاکستان توڑو مہم 
ڈیرہ اسماعیل خان کے کچھ نوجوانوں نے 2014 میں  پی ٹی ایم (  جس کا مطلب میرے مطابق پاکستان توڑو موومنٹ ہے) کی بنیاد رکھی اور وی او دیوا کے رپورٹر کے 2016 کے ٹویٹ میں آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان نوجوانوں کے ہاتھ میں جو جھنڈا ہے وہ آزاد پشتونستان کا ہے۔بعد ازاں رپورٹر نے تو اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا لیکن تصاویر ہر جگہ وائرل ہوگی۔
IMG-20190502-WA0084
ان تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ان تصاویر میں مرکزی قیادت منظور پشتین کررہا ہے جو پشتون تحفظ موومنٹ کا چیرمین ہے۔
یہ ایک چھوٹی سی غیر فعال تنظیم تھی اور اس کے رکن عہدیداروں کی تعداد صرف اتنی تھی کہ انگلیوں پر گن لی جائے ۔پھر کراچی میں ایک خوبرو جوان نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔یہ خبر منظر عام پر آتی ہی پاکستان کے تمام طبقہ فکر کے لوگ غم و غصے میں ڈوب گئے ۔ہر طرف سے مطالبہ آنے لگا کہ راو انوار کو سزا دو۔یہ وہ ہی راو انوار ہے جس کو پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری اپنا بچہ کہہ چکے ہیں ۔جہاں ایک طرف پاکستانی نقیب کے لئے انصاف کی جہدوجہد کررہے تھے دوسری طرف پاکستان توڑو موومنٹ نے سوچا اس معصوم لاش کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال دیا جائے اور اس قتل کو لسانیت ، قومیت اور فرقہ واریت کی رنگ دے دیا جائے ۔اس سب کی آڑ میں آزاد پشتونستان کا کام کیا جائے اور افغانستان بھارت سے اس ضمن مدد لی جائے ۔
کوئی بھی تحریک بنا پیسے کے تو نہیں چل سکتی اور وہ نوجوان جو پہلے میلے کچلے کپڑوں میں سڑکوں پر پھرتے تھے وہ یکدم قیمتی گاڑیوں میں آگئے ۔اب یہ پیسے کہاں سے آرہے تھے اور کیسے آرہے تھے اس پر سوال اٹھنے لگے۔ریاست کا دل اتنا بڑا ہے کہتے رہے ہمارے بچے ہیں یہاں تک کہ پی ٹی ایم کے دو ممبر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ کر اسبملی پہنچ گئے ۔پی ٹی آئی نے بھئ اتنا بڑا دل دکھادیا اپنے امیدوار کو دستبردار کرالیا کہ یہ ہمارے بچے اسمبلی آسکیں ۔ان سے میں سے ایک فوج کو گالیاں کھلے عام دیتا رہا اور پنجابیوں کو کالا کالا کہتا رہا۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر ریاست پاکستان اور فوج کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا جن کی بائیو میں پی ٹی ایم لکھا ہوتا لیکن اکاونٹ جلال آباد افغانستان اور کلکتہ انڈیا سے آپریٹ ہورہے ہوتے تھے۔ان اکاونٹس کا ایک ہی مقصد نقلی پشتون بن کر پاکستان اور فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرنا اور جعلی تصاویر شئیر کرکے یہ شور مچانا کہ فوج پشتون عوام پر ظلم کررہی ہے جبکے یہ تصاویر اکثر افغانستان کی نکلتی۔پاکستان کے محب وطن سوشل میڈیا صارفین ان جھوٹے اکاونٹس کا  پردہ چاک کرنا شروع ہوگئے ۔
IMG-20190502-WA0085
دوسری طرف پاکستان کا نام نہاد لبرل میڈیا این جی اوز والی خواتین اور اینٹی پاکستان نظریہ رکھنے والے صحافی تجزیہ نگار بھی اس تنظیم کا حصہ بن گئے اور ان کے جلسوں میں انکی مخصوص ٹوپی پہن کر پارٹی کارکنان کی طرح شرکت کرنے لگے ۔کچھ اپنی شناخت سے تنگ لبرل بنے کی کوشش میں سوشل میڈیا صارفین بھی ان ریلیوں میں جانے لگے کہ ملک کے خلاف بات کرکے ہمیں بھی کوئی فارن ٹرپ یا فارن فنڈنگ مل جائے ۔
اسکے ساتھ عالمی میڈیا وہ حصہ جو پاکستان مخالف ہے اور بھارت کے قریب ہے وہ بھی پی ٹی ایم کی حمایت میں کود پڑا ۔جس میں وی او دیوا ، وی او اردو ، بی بی سی اردو اور نیویارک ٹائم شامل رہا۔وائس آف امریکہ باقاعدہ فیس بک اور ٹویٹر پر سپانسر کرکے پی ٹی ایم کے رہنماوں کے انٹرویو نشر کرنے لگے۔سب کا مشترکہ یہ ہی پروپیگنڈا کہ پاکستان میں پشتونوں پر ظلم ہورہا ہے۔
IMG-20190502-WA0083
ویسے یہ سب لوگ کہاں تھے جب طالبان لوگوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔اب جب ضرب عضب اور رد الفساد کے بعد امن ہوگیا ہے تو اپنی گندی سیاست چمکانے کے لئے بلوں سے باہر گئے۔پی ٹی ایم ، غیر ملکی میڈیا اور آزاد پشتونستان کی سازش زیادہ دیر چھپی رہی اور سب کچھ کھل کر سامنے آنے لگا۔
دہشتگردی کی جنگ میں سب نے قربانیاں دی چاہئے فوج ہو عوام ۔پشتونوں سے اس لئے علاقے خالی کروائے گئے کیونکہ انکے ہوتے ہوئے شر پسندوں کے خلاف آپریشن نہیں ہوسکتا تھا۔چیک پوسٹ اس لئے بنائی گئ کہ ہم وطنوں اور غیر ملکیوں میں فرق معلوم ہوسکے کوئی دہشتگرد عوام میں نا گھس جائے ۔وطن کارڈ اس لئے بنایا کہ آپ کی شناخت میں آسانی ہو۔یہ سب آپ کی حفاظت کے لئے کیا گیا۔
اب آزاد پشتونستان کا نعرہ لگانے والے کس طرح پاکستانی پشتون کے حامی ہوسکتے ان کا ایجنڈا نفرت اور تشدد پر مبنی ہے۔یہ اس وقت شروع ہوا جب ملک میں امن ہوچکا ہے اور آپریشن والے علاقوں میں بحالی کا کام شروع ہوچکا ہے۔اس موقعے پر ایسی تحریک بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے۔اسکو سپورٹ کرنے والے 99 فیصد لوگ پاکستان مخالف ہیں ۔ان کا فیس بک ٹویٹر اور تجزیے دیکھ لیں انکا کام صرف پاکستان کو توڑنا ہے۔
ہم 71 میں نہیں تھے لیکن اب سازش سمجھ آگئ ہے کہ پاکستان توڑو مہم اور شیخ مجیب الرحمن کا طریقہ واردات ایک ہے۔پہلے رنگ نسل قومیت کا نعرہ لگا کر نوجوانوں کو ریاست کے خلاف کرو بعد میں الگ ملک کا مطالبہ کردو۔71 میں بھی بہت سے سیاست دان صحافی تجزیہ نگار انکو ناراض بچے کہتے ہوگے عالمی میڈیا انکو سپورٹ کرتا ہوگا اور پاکستان کے خلاف اس کی فوج کے خلاف جھوٹی کہانیاں اس طرح پھیلائی گئی جیسے آج پی ٹی ایم کے سوشل میڈیا اکاونٹس افغانستان عراق یمن کی تصاویر کے پی کے اور وزیرستان کی بنا کر شئیر کرتے ہیں ۔اس ہی پروپیگنڈے نے ہمارے ہم وطنوں کے حوصلے پست کئے ہوگے وہ تذبذب کا شکار ہو کر جنگ ہار گئے ملک ٹوٹ گیا ۔
پر اب 71 کی نہیں 27 فروری 19 کی تاریخ دہرائی جائے گی ۔دشمن کی ہر جنگ کو ناکام بنایا جائے گا چاہیے وہ فضا میں ہو،زمین پر ہو، پانی میں ہو ،میڈیا پر ہو یا سوشل میڈیا پر پاکستانی قوم اپنی فوج کے ساتھ دشمن کے دانت کھٹے کردے گی۔دشمن نے جنگ کی حکمت عملی تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ انفارمیشن کی جنگ آئی ایس پی آر جیت گیا۔آگے بھی ایسا ہی ہوگا۔
پی ٹی ایم کو غیر ملکی فنڈنگ مل رہی جس میں این ڈی ایس اور راء سرفہرست ہے۔اس میں افغانستان جلال آباد میں بھارتی قونصل خانہ سرفہرست ہے۔یہ تنظیم ریاست کے خلاف عناصر کے ساتھ رابطے میں ہے۔کل وائس آف امریکہ کا انٹرویو میں منظور پشین لکھا ہوا اسکرپٹ پڑھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا ہم اینٹی ٹیررسٹ تنظیم ہیں اور ہم دہشت گردوں اور ان سہولت کاروں کو آشکار کررہے کوئی پوچھے تم کیا سیکورٹی فورسز ہو تم کیا خفیہ ایجنسی ہو جو تمہیں یہ معلومات ہیں اور کیا  تم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی نہیں ۔
تم لوگ وہ ہو نقیب اللہ محسود کی لاش کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے گدھ کی نوچتے رہے ۔اس معصوم کے قتل کو اپنے آزاد پشتونستان کے ناپاک ارادے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہو۔جو چندے کے باکس ان کے جلسوں میں آتے ہیں اس میں اتنے پیسے بھی جمع نہیں ہوجاتے کہ ایپل کے ائیر پوڈ خریدے جاسکیں اس لئے پی ٹی ایم اپنی فنڈنگ کا حساب دیں ۔ افواج پاکستان کے ترجمان کے مطابق 22 مارچ 18 کو این ڈی ایس نے پی ٹی ایم کو پیسے دئے ،اسلام آباد میں پی ٹی ایم کے دھرنے کے لئے راء نے فنڈنگ دی،8 مئی 18 کو انڈین قونصل خانے نے طورخم ریلی کے لئے پیسے دئے۔
IMG-20190502-WA0086
جب پی ٹی ایم کے دو بڑے مطالبے مان لئے گئے جن میں مائنز کا ختم کرنا اور چیک پوسٹ ختم کرنا مان لئے گئے تو اب بھی وطن مخالف مہم کیوں ۔جہاں تک بات ہے راو انوار کی تو پی ٹی ایم بلاول اور آصف علی زرداری سے اس حوالے سے سوال کیوں نہیں کرتی۔جنوری 2018 کے دھرنے کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ روڈ سے لینڈ کروز پر آگئ متعدد دورے جلسے کئے ایک سال میں یہ نوٹوں کی بارش کیسے ہوئی اس پر یہ تنظیم جواب دہ ہے۔کوئی شخص اس ملک کے آئین سے اوپر نہیں ہے اگر کوئی شخص اس ملک کو توڑنے کی طرف گامزن ہے تو وہ غدار ہے لیکن آج کل کے مصلحت آمیز منافق دانشور انکو سماجی کارکن اور امن کا داعی کہتے ہیں ۔کیونکہ ان کا دین ایمان صرف پیسہ ہے ۔عدم تشدد کی تحریک کا لبادہ اوڑھ کر اصل میں آزاد پشتونستان کی سازش کی جارہی ہے ۔یہاں پر میں آپ سے سوال کرتی ہو آپ ملک کو توڑنے کی سازش کرنے والو کے ساتھ ہیں یا ملک کو جوڑ کر رکھنے والی فوج کے ساتھ ہیں ۔ میں ریاست کو گالی دینے والو کے ساتھ نہیں، میں ریاست کے خلاف کام کرنے والو کے ساتھ نہیں، جو افغانستان اور بھارت کے ساتھ مل کر ہمارے اداروں اور شہیدوں کو گالی میں اسکو امن کا داعی لیڈر نہیں قرار دے سکتی ۔
ہمارے پشتون نمائندے اس وقت اسمبلی میں موجود ہیں اس ملک کا وزیر اعظم وزیر دفاع سب پشتون ہیں وہ ہئ ہمارے نمائندے ہیں پی ٹی ایم ہماری نمائندہ جماعت نہیں ویسے بھی یہ الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹر نہیں یہ جماعت بھی نہیں ایک چھوٹی سی لسانی تنظیم ہے جو صرف نسل پرستی کو فروغ دے کر آزاد پشتونستان کا حصول چاہتی ہے ۔
Posted in health, Javeria Siddique, Pakistan, rain, Uncategorized

موسم برسات میں احتیاط لازم

RAin-control۔۔

اسلام آباد….جویریہ صدیق….ملک اس وقت شدید بارشوں کی لپیٹ میں ہے اور محکمہ موسمیات نے ندی نالوں میں طغیانی اور نشیبی علاقوں کے زیر آب آنے کی پیشگوئی کی ہے۔ملک کے بالائی علاقوں کشمیر فاٹا خیبر پختون خواہ بالائی پنجاب اور جڑواں شہروں میں بھی گھن گرج کے ساتھ بارش کا سلسلہ جاری ہے جس نے سردی میں اضافہ کردیا ہے۔

مسلسل بارش کی وجہ سے متعدد مکانات بھی منہدم ہوئے۔بلوچستان کے علاقوں خضدار، قلات، چمن، چاغی اور زیارت بارش سے زیادہ متاثر ہوئے۔بارشوں کے باعث خیبر پختونخواہ اور فاٹا میں بھیمتعدد افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے۔

تاہم مسلسل بارش کے دوران کچھ احتیاطی تدابیر اپنا کر بہت سے حادثات کو ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔سب سے پہلے تو ٹی وی خبروں اخبارات ریڈیو یا محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ سے موسم کے حوالے سے آگاہ رہیں۔اگر آپ نشیبی علاقے میں رہائش پذیر ہیں توقیمتی سامان کو بالائی منزل پر شفٹ کرلیں۔

اگر ہوسکے تو ممکنہ سیلاب یا طغیانی سے بچنے کے لئے کسی رشتہ دار کے گھر چلے جائیں۔موسم ٹھیک ہونے پر واپس لوٹ آئیں۔چھت ڈالتے وقت یہ خیال رکھیں کہ وہ مضبوط اور پائیدار ہو۔ پاکستان میں بہت سے لوگ اپنی جان سے محض اس لئے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کہ کمزرو ہونے کی وجہ سے چھت گرتی ہے۔

بارشوں سے پہلے گھر میں چھت یا دیواروں کی لیکج کو چیک کروالیں۔گھر میں موجود ڈرینج سسٹم اور گٹر بھی چیک کروائیں۔ اگر کوئی بلاک ہے تو پلمبر اس کو کھول دے گا اوربارش میں نکاسی آب میں آسانی رہے گی۔ابتدائی طبی امداد کا سامان ادویات بھی خرید کر رکھ لیں تاکہ بارش میں نا جانا پڑے۔

اگر بارش اور سیلاب کی پیشنگوئی کی گئ ہو تو مناسب خوراک،اشیائے خوردونوش اور پینے کے صاف پانی کا بھی ذخیرہ کرلیں۔گھر میں ٹارچ سیل اور موم بتیاں بھی لازمی ہونی چاہیں۔تاہم اہم نمبر موبائل کے ساتھ ایک ڈائری میں لکھ کر بیگ یا پرس میں ساتھ رکھ لیں۔

بارش میں بہت سے حادثات بجلی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ کسی بھی گیلی تار یا ٹوٹی ہوئی تار کو ہاتھ لگانے سے پرہیز کریں۔ دوران بارش کسی بھی بجلی کی چیز کو ننگے پاوں یا گیلے ہاتھ نا لگالیں۔غیر ضروری بجلی کے آلات کو بند کردیں۔اگر بارش کے باعث کوئی بجلی کی تار یا چیز خراب ہوجائے تو خود ٹھیک کرنے سے پرہیز کریں اور الیکٹریشن ہو کو بلائیں ۔

اگر گھر میں پانی داخل ہوجائے تو گیس اور بجلی کے مین سوئچ بند کردیں۔خود ٹارچ یا پورٹیبل لیمپ کا استعمال کریں۔اگر پانی زیادہ داخل ہوجائے تو پہلے اپنی جان کی حفاظت کریں اور خود کو محفوظ مقام پر منتقل کریں۔

باہر کسی بھی بجلی کے پول اور سائن بورڈ سے دوررہیں۔ایمرجنسی کی صورت میں ریسکیو اداروں کو مدد کے لئے فون کریں۔

اس کے ساتھ ساتھ بارش میں حفظان صحت کے اصولوں کا بھی خیال رکھیں۔گندے ہاتھ منہ پر نا لگائیں۔کوئی بھی پھل ،سبزی بنا ہاتھ دھوئے نا کاٹیں نا کھائیں۔بازار کی اشیاء خاص طور پر پکوڑے، سموسے وغیرہ کھانے سے پرہیز کریں ۔پانی ابال کر پئیں۔

برسات میں خاص طور پر ہیضہ نزلہ زکام اسہال عام ہوجاتا ہے جس سے بچنے کا واحد حل حفظان صحت کے اصولوں پر کاربند رہنا ہے۔

برسات میں مچھروں کی بھی بہتات ہوجاتی ہے اس کے ساتھ کیڑے مکوڑے بھی ان سے بچنے کے لئے ریپلنٹ کا ستعمال کیا جائے اور اسپرے کیا جائے۔بچوں پر خاص نظر رکھیں اور انہیں برسات میں ندی نالوں میں نہانے سے منع کریں۔

دوران بارش ڈرائیونگ سے گزیز کریں اگر ڈارئیونگ کرنا ناگزیر ہو تو نشیبی علاقوں میں گاڑی لے جانے سے پرہیز کریں۔اپنے گھر والوں کو اپنے روٹ سے آگاہ کریں۔

نکلنے سے پہلے گاڑی کی لائٹس، وائپر، ہیٹر اور فیول چیک کرلیں۔موبائل ساتھ لازمی رکھیں۔گاڑی کی رفتار کم رکھیں اور آگے والی گاڑی سے مناسب فاصلہ رکھیں۔ہلکی آواز میں ریڈیو سنتے رہیں تاکہ حالات سے باخبر رہیں۔ہیڈ لائٹس آن رکھیں۔

کسی بھی راہ چلتے شخص یا موٹر سائیکل سوار کے پاس گاڑی کی رفتار بہت کم کردیں تاکہ وہ کیچڑ سے محفوظ رہیں۔اگر بارش زیادہ ہوجائے تو کسی محفوظ جگہ پر یا سروس اسٹیشن پر گاڑی پارک کرکے پارش کے تھمنے کا انتظار کریں۔کسی بھی ندی نالے کو کراس کرنے سے گریز کریں کیونکہ پانی کی رفتار گاڑی کو بہا لے کر جاسکتی ہے۔اس لئے متبادل راستہ اختیار کریں۔تیز رفتاری صرف آپ کے لئے نہیں بلکے اردگرد لوگوں کے لئے بھی خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔

بارشوں میں جلد پر بھی بہت سے جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں۔اس لئے جلد کی حفاطت کریں ۔منہ پر گندے ہاتھ نا لگائیں۔ہاتھوں کو صابن یا ہیںڈ واش سے دھویں اور منہ کو دن میں تین سے چار بار دھویں۔کوئی گندہ تولیہ یا کپڑا منہ پر نا استعمال کریں۔

سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ قدرتی طور پر ہوا سے آپ کا منہ خشک ہوجائے۔بارش بھی چند حفاظتی تدابیر اپنا کر ہم بہت سی بیماریوں اور حادثات سے بچ سکتے ہیں اور موسم کو بہترین طریقے سے انجوائے کرسکتے ہیں۔

 

575d63910d6a9

Posted in Javeria Siddique, Pakistan, Uncategorized

راج دلارا

راج دلارا

جویریہ صدیق

o-father-son24-facebook

بس میری شروع سے خواہش تھی کہ پہلا تو بیٹا ہی ہونا چاہیے ۔بات یہ نہیں تھی کہ مجھے بیٹوں سے نفرت تھی ۔لیکن نسل چلانے کے لئے بھی کوئی ہونا چاہیے ۔رقیہ جب امید سے تھی تو میں نے صاف کہہ دیا مجھے تو پہلا بیٹا چاہیے وہ چپ کرکے میری بات سنتی رہی ۔ویسے بھی ہمارے معاشرے میں مرد صرف بولنے اور عورت صرف سننے کے لیے پیدا ہوئی ہے۔میں تو خوشی سے نہال تھا جیسے جیسے دن قریب آرہے تھے۔اتوار بازار سے کتنے ہی کھلونے لئے آیا نیلے کالے سفید رنگ کے کپڑے بھی ۔گھر جاتے وقت کبھی دودھ ربڑی لئے جاتا تو کبھی چکن کڑاہی نان۔رقیہ بھی اپنے نصیب پر نازاں تھی کہ مجھ جیسا اتنا پیار کرنے والا شوہر ملا ۔آخر وہ گھڑی آن پہنچی میں دائی نسرین کو لئے آیا اور خود بے صبری سے باہر انتظار کرنے لگا۔رقیہ کا چیخیں مجھے بے چین کررہی تھیں ۔میں بھاگ کر گلی کی نکڑ والی مسجد میں چلا گیا اور رونے لگا مولوی صاحب مجھے آکر تسلی دینے لگے ۔دل کا بوجھ ہلکا کرکے میں گھر لوٹا تو رقیہ درد سے اب بھی چلا رہی تھی۔میں نے دائی سے پوچھا خطرے کی کوئی بات نہیں انہوں نے کہا کچھ نہیں ہوتا تم فکر نا کروشوکت ۔

کچھ دیر میں رقیہ کی آواز خاموش ہوئی اور بچے کی رونے کی آواز آنے لگی۔میں تو خوشی سے نہال ہوگیا ۔میرا راج دلارا جو آگیا تھا ۔دائی میرے سامنے کپڑے میں لپیٹ کر لائی اور مجھے مبارک دی مبارک ہو راج دلاری آئی ہے مبارک ہو شوکت تیرے گھر اللہ کی رحمت آئی ہے۔

مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے مجھے بیٹا چاہئے تھا یہ منحوس بیٹی کہاں سے پیدا ہوگئ۔مجھے بیٹا چاہیے تھا ۔دائی کو دل پر پتھر رکھ کر پیسے اور تحائف کے ساتھ رخصت کیا۔اندر گیا تو رقیہ میری منتظر تھی میں نے کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھایا اسکو کو مارنا شروع کردیا ۔وہ تو شاید میری طرف شفقت محبت کی طالب گار تھی۔وہ حیران ہی رہ گئ ۔میرا دل کررہا تھا اس منحوس اور اسکی پیدا کی ہوئی لڑکی کا گلا دبا دوں ۔میرے ماں بیچ میں آگیی اس نے میری بیوی کو مار سے بچایا۔

میرا غصہ پھر بھی کم نہیں ہوا میں نے صحن میں لگے تندور میں کپڑے اور کھلونے جلا دیے ۔میری اماں بہت منع کرتی رہی بس نفرت غصے کی آگ میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا

مسجد میں مولوی صاحب نے مجھے بہت سمجھایا بیٹی اللہ کی رحمت ہے ۔بیٹوں کی احسن طریقے سے پرورش کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی ہے ۔اس کے بعد میں خاموش ہوگیا اور سمجھوتہ کرلیا۔گھر کا ماحول بلکل بدل گیا ۔رقیہ جہاں ہنسا بولا کرتی تھی اب کسی مشین کی ماند کام کرتی رہتی تھی۔بیٹی کو مجھ سے دور رکھتی اور رات کو اس کو اماں کی کمرے سلاتی ۔

رقیہ اور میری اماں نے اس کا نام مریم رکھا ۔مریم دو سال کی ہوئی ۔تو ہمارے گھر میں پھر ننھے مہمان کی آمد

کی نوید ہوئی ۔میں نے ہر وقت دعا شروع کردی ۔اس بار بیٹا ہو۔میں رقیہ کے بہت ناز اٹھاتا وہ بہت سہمی ہوئی رہتی تھی۔شاید ایسے یقین نہیں تھا کہ اس بار بیٹا ہو۔

اس بار بھی وہ ہوا ایک اور بیٹی پیدا ہوئی۔میں نے رقیہ مریم دونوں کو بہت مارا ۔ڈھائی سال کی مریم روتی رہی ۔ہمیں نا مارو۔ہمیں نا مارو ۔پر میرے اندر کا شیطان کا روکنے کو نہیں آرہا تھا۔میری ماں نے مجھے بہت مشکل سے روکا ۔میں پورے ایک ہفتے گھر سے غائب رہا ۔مجھے رقیہ اور اسکی پیدا کی ہوئی بیٹوں سے نفرت ہورہی تھی۔

میرے رشتہ دار مجھے سمجھا کر واپس گھر لئے آئے۔اماں نے بیٹی کا نام زینب رکھا ۔گھر میں شیرینی بنا کر محلے میں بانٹ دی۔

مجھے سب چیزوں سے نفرت ہوتی جارہی تھی۔جب دایی نسرین نے بتایا رقیہ ایک پھر پیٹ سے ہے ۔میں نے سوچا میں گاوں سے لاہور چلا جاو۔وہاں سے کما کر بھیجتا رہوں کم از مجھے ان عورتوں کا منہ نہیں دیکھنا پڑے گا۔

ٹھیک سات ماہ بعد ماں نے مجھے خط بھیجا کہ میرے گھر بیٹا ہوا۔مجھے لگا کسی نے مذاق کیا۔رفیق کی دوکان فون کیا اور پوچھا کیا واقعی ہی ایسا ہے گھر سے پتہ کرے۔تھوڑی میں رفیق کا ٹیلی فون آیا دوسری طرف ماں کی ہانپتی ہوئی آواز آئی مبارک  ہوتیرا بیٹا ہوا ہےچل واپس آ اسکا نام رکھ عقیقہ کر۔میں نے لاہور میں کام ختم کیا۔بچے کے لئے بہت سارے کھلونے کپڑے سونے کی ایک انگوٹھی خریدی ۔

گھر آیا تو اماں رقیہ اور بیٹیاں مجھے دیکھ کر بہت خوشی ہوئیں ۔بیٹیاں میری طرف دیوانہ وار لپکی میں نے جھٹکے سے پیچھا کیا دفع ہو جاو اپنی منحوس شکلیں مجھے نا دیکھاو۔وہ ڈر کر چھپ گئ۔

میں نے اپنے بیٹا کو گود میں لیا اور وہ ناچا کہ وہ پیسے وارے ۔اس کے عقیقے میں 4 بکرے کٹوائے وہ دعوت چلی کہ پورے گاوں نے نہیں دیکھی تھی ۔

بیٹے کا نام شان شوکت رکھا وقت گزرتا گیا میں نے ہر موقع پر بیٹوں کو ہر موقعے پر دھتکارا اور بیٹے کو آگے آگے رکھا۔گھر میں گوشت صرف میرے اور شان کے لئے پکتا رقیہ زینب مریم دال کھاتی۔شان خود سر ہوتا رہا میں اس کی جوانی کو دیکھ کر اتراتا ۔بیٹوں کو تو مڈل کے بعد میں نے سکول نہیں جانے دیا ۔گھر میں سلائی کڑھائی میں لگا دیا۔شان کو پڑھنے لاہور بھیج دیا ۔

اس کی کمپیوٹر میں ڈگری مکمل ہوئی جاب بھی لگ گی مجھے لگا دن پھیرنے کو ہیں اب میں بھی گھر پر آرام کروں گا ۔پر شان ڈگری کے ساتھ بہو بھی لئے آیا مجھے بہت غصہ آیا اس نے میرے سارے ارمانوں پر پانی پھیر دیا ۔میں نے سوچا کوئی بات نہیں جوان خون ہے بہک گیا ۔شادی ہی کی ہے کوئی گناہ تو نہیں ۔میں نے دھوم دھام سے ولیمہ کیا لوگوں نے بہت باتیں کی لیکن میں پرواہ نہیں کہ بیٹیاں ابھی بیٹھی ہیں اور میں نے بیٹے کی شادی پہلے کردی۔

شان نے جب کہا کہ وہ اب گاؤں نہیں رہے گا اور لاہور میں رہے گا ۔تو میرا دل ٹوٹ سے سا گیا ۔چند دن میں وہ واپس چلا گیا ۔

میں رقیہ کو لے کر لاہور بھی گیا پر وہ اتنی گرمجوشی سے نہیں ملا ۔اس کی بیوی نے بھی ہماری خاص عزت نہیں کی مجھے بہت افسوس ہوا ایسا لگا دل میں کچھ چبھ سا گیا ہے ۔

گاؤں آتے ہی فالج نے مجھے آن لیا۔رقیہ نے لاہور بہت فون کیے لیکن نوکروں نے بتایا شان صاحب اپنی بیگ

کے ساتھ دبی گئے ہوئے ہیں ۔میں تڑپ رہا تھا اور میرا راج دلارا میرے پاس نہیں تھا ۔مریم اور زینب ڈرتے ڈرتے میری تیمار داری کرتیں ۔مجھے دوائی دینا میری مالش کرنا میرے منہ میں نرم غذا ڈالنا۔یہ دونوں وہ ہی تھیں جن کو میں نے منحوس چڑیلیں کہا تھا ۔جن کے پیدا ہونے پر میں انہیں مارنا چاہا تھا ۔میری وہ بیوی جس کو میں ڈنڈے سے مارا کرتا تھا خود میرا لباس تبدیل کرواتی مجھے صاف کرتی۔میں ندامت سے گڑ جاتا ۔

ایک مہینے بعد جب شان لوٹا تو مجھے فون کرکے خیریت دریافت کی اور تب بھی ملنے نہیں آیا ۔میرے راج دلارے کے پاس میرے لئے وقت نہیں تھا۔میں جس کو ہمیشہ پیار دیا لاڈ دیا وہ تو نہیں آیا۔پر اللہ کی رحمت میری بیٹوں نےمیرے تمام زخموں کو بھر دیا۔میں نے ہاتھ جوڑ کر ان سے معافی مانگی وہ رونے لگیں اور میرے گلے لگ گئ

Javeria Siddique is a Journalist , Author and Photographer

Twitter @javerias

https://www.facebook.com/OfficialJaverias/

575d63910d6a9

Posted in Javeria Siddique, TRT Urdu, Uncategorized, جویریہ صدیق

. آگاہی ایوارڈ پاکستان سے ٹی آر ٹی اُردو سروس کو جویریہ صدیق کے پروگرام “پاکستان ڈائری” پر ایوارڈملکی اورغیر ملکی کوریج

 

آگاہی ایوارڈ پاکستان سے ٹی آر ٹی اُردو سروس کو جویریہ صدیق کے پروگرام “پاکستان ڈائری” پر ایوارڈ

آگہی ایوارڈ نے پاکستان ڈائری میں لکھے گئے گھریلو باغبانی کے آرٹیکل اور ریڈیو پروگرام کو ایوارڈ کا حقدار ٹھہرایا ۔اس آرٹیکل میں گھر میں کیمیکل سے پاک سبزیوں اور پھلوں کو اگانے کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی گئی تھی

12.12.2016 ~ 15.12.2016

آگاہی ایوارڈ پاکستان سے  ٹی آر ٹی اُردو سروس کو  جویریہ صدیق کے پروگرام

سلام آباد : مختلف شعبہ جات میں اعلی کارکردگی

کا مظاہرہ کرنے والے صحافیوں کو آگہی میڈیا ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ٹی آر ٹی اردو سروس سے وابستہ صحافی جویریہ صدیق کو شعبہ زراعت میں 2016 کے بہترین صحافی ہونے کا ایوارڈ دیا گیا۔جویریہ صدیق کے سلسلہ وار پروگرام پاکستان ڈائری نے عوام میں بہت کم وقت میں مقبولیت پائی ۔ٹی آر ٹی اردو سروس کی اس مثبت کاوش کو پاکستان بھر میں سراہا گیا۔

آگہی ایوارڈ نے پاکستان ڈائری میں لکھے گئے گھریلو باغبانی کے آرٹیکل اور ریڈیو پروگرام کو ایوارڈ کا حقدار ٹھہرایا ۔اس آرٹیکل میں گھر میں کیمیکل سے پاک سبزیوں اور پھلوں کو اگانے کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

اگہی ایوارڈ 2016 میں مارچ 2015 سے اگست 2016 تک نشر اور شائع ہونے والی رپورٹس شامل تھیں ۔آگہی ایوارڈ کے منتظمین عامر جہانگیر اور پریوش چوہدری کے مطابق اس سال 3500 سے زائد نامزدگیاں سامنے آئی جس میں سے 48 صحافیوں کو ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا۔آگہی ایوارڈ پاکستان میں کام کرنے والوں صحافیوں کے لئے واحد ایوارڈ ہیں۔جس میں پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا ریڈیو اور ان لائن میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو ان کی اعلی کارکردگی پر ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔2012 میں پہلی بار اس ایوارڈ کا اجرا ہوا تھا۔

2016 کے بہترین نیوز اینکر کے ایوارڈ وسیم بادامی اور عائشہ بخش کے نام ہوئے ۔مستند ترین اینکر نسیم زہرہ قرار پائیں ۔جب کے انویسٹیگٹیو جرنلسٹ آف دی دئیر کا مشترکہ ایوارڈ  اے ار وائی کے پروگرام پاور پلے پروگرام کے اینکر ارشد شریف اور پروڈیوسر عدیل راجہ کے نام ہوا۔مقبول ترین چینل اے آر وائی قرار پایا۔


http://www.trt.net.tr/urdu/pkhstn/2016/12/12/aghy-ywrdd-pkhstn-sy-tty-ar-tty-urdw-srws-khw-jwyryh-sdyq-khy-prwgrm-pkhstn-ddy-ry-pr-ywrdd-628962

پاکیستانین اوسکاری صاحب‌لرینه وئریلدی

آگاه اؤدول‌لری اوچون بو ایل اؤلکه سویه‌سینده اوچ مین 500دن چوخ شخص یازی‌لی مطبوعات، تلویزیون، رادیو و اینترنت مئدیاسی داخیل 35 کاتگوریده نامیزد گؤستریلدی

13.12.2016 ~ 15.12.2016

پاکیستانین اوسکاری صاحب‌لرینه وئریلدی

پاکیستانین اوسکاری اولا‌راق بیلینن آگاه اؤدولو صاحب‌لرینه وئریلدی.

ایسلام آباددا گئچیریلن اؤدول مراسیمینده ت‌رت تورکیه‌نین سسی رادیوسو اوردوجا سرویسی اوچون پروگرام حاضرلایان جوریه صدیقی 2016 تاریم کاتگوریسینده اؤدول قازاندی.

صدیقی پروگرامی پاکیستان جمعیتی و تورکیه‌نین سسی رادیوسونون اوردوجا پروگرامی پاکیستاندا قیسا بیر مدتده شؤهرت قازاندی.

آگاه اؤدولو اونون باغچی‌لیق ایله علاقه‌لی یازی‌لاری و رادیو پروگرامین‌دان اؤترو وئریلمیش‌دیر.

اونون یازی‌لاری اینسان‌لاری میوه و یاشیللیقلاری نئجه یئتیش‌دیره بیله‌جگی قونوسوندا حساسلاشدیرمیشدیر.

آگاه اؤدول‌لری اوچون بو ایل اؤلکه سویه‌سینده اوچ مین 500دن چوخ شخص یازی‌لی مطبوعات، تلویزیون، رادیو و اینترنت مئدیاسی داخیل 35 کاتگوریده نامیزد گؤستریلدی.

آگاه اؤدول‌لرینه ژورنالیستلر ماراق گؤستردی و آگاه اؤدول‌لری پاکیستاندا سوسیال مئدیا یولو ایله 6 میلیون‌دان چوخ انسانا چاتدی و خالق‌لارین سئچه‌نگی اؤدول‌لری کاتگوریلری اوچون اس‌ام‌اس یولو ایله هارداسا 1.5 میلیون نفره اولاشیلدی.

بؤلگه‌ده ایلک دفعه آگاه اؤدول‌لری خالق‌لارین سئچه‌نگی کاتگوریلرینی اؤلچه‌بیلمک اوچون بؤیوک بیر بیلگی و دویارلی‌لیق تحلیلی ائتدیرمیش‌دیر

http://www.trt.net.tr/turki/khwltwr-w-sn-t/2016/12/13/pkhystnyn-wskhry-shblrynh-wy-ryldy-629798

В Исламабаде состоялась церемония награждения AGAHI

Жаверия Сиддик (Javeria Siddique), занимающаяся подготовкой программ для радио Голос Турции на языке урду, была удостоена награды в категории Сельское хозяйство – 2016

13.12.2016 ~ 15.12.2016

В Исламабаде состоялась церемония награждения AGAHI

В Исламабаде состоялась церемония награжденияAGAHI – награды, которую называют пакистанским Оскаром.

Жаверия Сиддик (Javeria Siddique), занимающаяся подготовкой программ для радио “Голос Турции” на языке урду, была удостоена награды в категории “Сельское хозяйство – 2016”.

Программа “Общество Пакистана”, автором которой является Жаверия Сиддик,  стала очень популярной. В этой программе она рассказывает о том, как нужно правильно выращивать фрукты и овощи.

На получение премий AGAHI в 35 категориях были номинированы более трех с половиной тысячи представителей всех видов СМИ – прессы, телевидения, радио и интернета.


Pakistan: Großes Interesse für AGAHI-Preise

Auszeichnung für Programmgestalterin der Urdu-Redakiton der TRT-Stimme der Türkei

13.12.2016 ~ 15.12.2016

Pakistan: Großes Interesse für AGAHI-Preise

Die als Oscar Pakistans bekannten AGAHI-Preise sind verliehen worden. Bei der Preisverleihung in Islamabad wurde Javeria Siddique, die Programme für die Urdu-Redaktion von TRT – Stimme der Türkei vorbereitet, in der Agrar Kategorie 2016 ausgezeichnet. Das Programm von Siddique erlangte in der pakistanischen Gesellschaft und im Urdu-Programm der Stimme der Türkei in kürzester Zeit großen Ruhm. Der AGAHİ-Preis wurde ihr für ihre Artikel und Radioprogramme zu Gartengestaltung verliehen. Mit ihren Artikeln wurden Menschen zum Obst- und Gemüseanbau sensibiliert. Dieses Jahr wurden in ganz Pakistan mehr als 3500 Menschen aus Printmedien, Fernsehen, Radio und Internet für die AGAHİ-Preise nominiert. Die AGAHI-Preise erreichten in Pakistan über die sozialen Netzwerke mehr als 6 Millionen Menschen, für die Kategorie Preise des Volkes wurden über SMS 1,5 Millionen Menschen errreicht.


..

La Voz de Turquía recibe el premio de AGAHI, el Óscar de Pakistán

Javeria Siddique, quien prepara un programa para el departamento de Urdú de la Voz de Turquía de la TRT, ganó el premio en la categoría de Agricultura 2016

13.12.2016 ~ 15.12.2016

La Voz de Turquía recibe el premio de AGAHI, el Óscar de Pakistán

Se entregaron los premios de AGAHI conocidos como el Óscar de Pakistán.

Javeria Siddique, quien prepara un programa para el departamento de Urdú de la Voz de Turquía de la TRT, ganó el premio en la categoría de Agricultura 2016.

Siddique ganó el premio por sus artículos y su programa sobre jardinería.

Los artículos de Siddique narran cómo se cultivan frutas y verduras.

A los premios de AGAHI se presentaron candidatos más de tres mil 500 artículos en 35 categorías, entre ellas prensa escrita, televisión, radio e internet.

Los premios de AGAHI alcanzaron más de 6 millones de personas a través de la red social, y obtuvieron el voto de casi 1,5 millones de personas para la categoría de “Premios de la Elección del Pueblo”.

Los premios de AGAHI por primera vez analizaron la información y la sensibilidad del pueblo gracias a la categoría de la “Elección del Pueblo”.


فارسی

جوایز AGAHI به صاحبانشان اعطا شد

Javeria Siddique تهیه کننده برنامه برای سرویس زبان اردو در رادیو صدای ترکیه تی آر تی، در رشته کشاورزی 2016 جایزه دریافت کرد

13.12.2016 ~ 15.12.2016

جوایز AGAHI  به صاحبانشان اعطا شد

جوایز AGAHI که بعنوان اسکار پاکستانی شناخته می شود به صاحبانشان اعطا شد.

در مراسم اعطای جوایز که در اسلام آباد ترتیب یافت، Javeria Siddique تهیه کننده برنامه برای سرویس زبان اردو در رادیو صدای ترکیه تی آر تی، در رشته کشاورزی 2016 جایزه دریافت کرد.

برنامه Javeria Siddique با عنوان جامعه پاکستان و برنامه رادیو صدای ترکیه به زبان اردو در کوتاه مدت در پاکستان به شهرت دست یافت.

جایزه AGAHI بخاطر مقالات مربوط به باغچه داری و برنامه هایی رادیوی به وی اعطا شده است.

نوشتجات وی انسانها را در رابطه با نحوه پرورش میوه و سبزیجات حساستر کرده است.

برای جوایز AGAHI در سطح این کشور بیش از هزار و 500 نفر در 35 رشته منجمله مطبوعات، تلویزیون، رادیو و اینترنت بعنوان نامزد نشان داده شدند.

جامعه روزنامه نگاران به جوایز مذکور توجه خاصی نشان دادند. بطوریکه جوایز AGAHI از طریق رسانه های اجتماعی پاکستان به بیش از 6 میلیون نفر و جوایز گزینه ملتها نیز از طریق اس ام اس به حدود 1 و نیم میلیون نفر رسیده است.


Agahi’  mükafatı sahiblərinə təqdim  edilib

Pakistanın  Oscarı   olaraq  qəbul  edilən    ‘Agahi’  mükafatı sahiblərini  tapdı.

14.12.2016 ~ 15.12.2016

‘Agahi’  mükafatı sahiblərinə təqdim  edilib

İslamabadda təşkil edilən mükafat mərasimində TRT Türkiyənin Səsi Radiosunun Urduca  departamentinin yayım  proqramında   efirə   buraxılmaq  üzrə   hazırlanan  Pakistan Cəmiyyəti veriliş 2016 Kənd Təsərrüfatı nominasiyasında mükafata   layiq  görüldü.   Verilişin  müəllifi  Javeria Siddique olub.

Javeria Siddiquein,  Türkiyənin   səsi    radiosunun   Urduca   rəhbərliyinin  yayım  proqramı   üçün  hazırladığı  ‘Pakistan Cəmiyyəti’  adlı  veriliş  Pakistanda reytinq   rekordu qırdı.

Qeyd  edək  ki, 2016  Agahi Mükafatlarına  üç min 500-dən çox  məqalə,  məktub  və şərh, televiziya, radio və internet mediası daxil  olmaqla   35   kateqoriyada namizəd göstərildi.

Agahi Mükafatlarına jurnalistlərin də  böyük  marağı olub

Posted in Army, ArmyPublicSchool, Javeria Siddique, ZarbeAzb, جویریہ صدیق

سانحہ آرمی پبلک سکول چار خاندانوں کے دو دو بیٹے ان سے بچھڑ گئے

page

جویریہ صدیق

Javeria Siddique 

۔

سانحہ آرمی پبلک سکول  سولہ دسمبرکو 2سال مکمل ہوجائے گا ۔لیکن ایسا لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو جب بچے ہنستے مسکراتے سکول گئے تھے لیکن واپس نا آسکے اور والدین کو اپنے بچے تابوت میں ملے۔دو سال مکمل ہونے گیے پر بہت سے والدین اس حقیقت کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ان کے بچے ہمیشہ ہمشہ کے لئے چلے گئے اور اب واپس نہیں آئیں گے۔جب بھی دروازے پر دستک ہو یا سکول وین کا ہارن سنائی دے توان کے دل میں یہ امید جاگ جاتی ہے کہ شاید ہمارا بیٹا واپس آگیا ہو۔

سانحہ اے پی ایس میں ایک سو سنتالیس افراد شہید ہوئے۔اس سانحے میں متاثر ہونے والے چار خاندان ایسے بھی ہیں جن کے دو دو بیٹے شہید ہوئے۔کسی بھی درد دل رکھنے والے شخص کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ ان خاندانوں پر کیا بیت رہی ہوگی۔شامویل طارق ننگیال طارق،نور اللہ درانی سیف اللہ درانی ،ذیشان احمد اویس احمد اور سید عبداللہ سید حسنین نے سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔

ننگیال طارق شہید تمغہ شجاعت  شامویل طارق شہید تمغہ شجاعت

unnamed-3

پندرہ سالہ شامویل طارق اور تیرہ سال کے ننگیال طارق بلترتیب نویں کلاس اور آٹھویں کلاس کے طالب علم تھے.دو سال پہلے ہی دونوں کو اچھی تعلیمی سہولیات کے باعث آرمی پبلک سکول ورسک روڈ میں داخل کروایا گیا۔دونوں کو پاک آرمی جوائین کرنے کا شوق تھا۔شہدا کی بہن مہوش جوکہ مقامی یونیورسٹی میں بی ایس آنر کر رہی ہیں وہ کہتی ہیں اس واقعے نے ہماری زندگی ویران کردی ہے.میرے دونوں بھائی بہت ذہین اور خوش اخلاق تھے۔

ہم آج بھی سولہ دسمبر دو ہزار چودہ میں سے نہیں نکل سکے۔ہمارے سامنے دونوں بھائیوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پڑی تھیں۔ وہ بھائی جو ہماری امیدوں کا مرکز تھے ہمارے والدین کے بڑھاپے کا سہارا تھے۔ ہمیں یقین نہیں آرہا تھا وہ چلے گئے۔میری والدہ کے آنسو اب بھی خشک نہیں ہوئے۔سولہ دسمبر سانحہ آرمی پبلک سکول ہمارے ہنستے بستے گھر کو ہمیشہ کے لئے اجڑ گیا۔.میں چاہتی ہوں کہ ان بچوں کو انصاف دیا جائے اور دہشتگردوں کو کڑی سزا دی جائے.

 

 

نور اللہ درانی شہید  تمغہ شجاعت  سیف اللہ درانی شہید تمغہ شجاعت

unnamed-2

نور اللہ سیف اللہ دونوں بھائی آرمی پبلک سکول میں
نویں کلاس اور آٹھویں کے طالب علم تھے.دونوں بچپن سے ہی آرمی پبلک سکول و کالج ورسک روڈ میں زیر تعلیم تھے.شرارتی نٹ کھٹ نور اللہ اور سیف اللہ گھر بھر کی جان تھے..اکثر دونوں کھلونا بندوقیں خریدتے اور پھر آرمی بن کر دہشتگردوں کو پکڑنے کا کھیل کھیلتے. دونوں کو آرمی میں جانے کا بہت شوق تھا نور کو بری فوج میں اور سیف کو پاک فضائیہ جوائین کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا.نور یہ کہتا تھا میں فوج میں جاکر تمام ملک دشمنوں کا خاتمہ کروں گا اور سیف کو تو جہاز اڑنے کا شوق تھا وہ کہتا تھا میں ایف سولہ طیارہ اڑاوں گا اور دشمن کے ٹھکانوں پر بمباری کرکے انہیں نیست و نابود کردوں گا..شہید طالب علموں کی بہن ثناء کہتی ہیں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا کہ وہ یاد نا آتے ہوں ہم کھانا بھی کھانا چاہیں پر چند لقموں کے بعد نوالے حلق میں پھنس جاتے ہیں.میرے والدین صبر ہمت کی مثال ہیں لیکن ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جس میں ہم روتے نا ہو.میں بس یہ دعاء کرتی ہوں کہ اللہ تعالی سب والدین کو صبر دے آمین۔

 

سید عبداللہ شاہ شہید تمغہ شجاعت  سید حسنین رضا شہید تمغہ شجاعت

unnamed-1

سانحہ آرمی پبلک سکول اپنے پیچھے بہت سی دردناک داستانیں چھوڑ گیا ہے.جس میں ایک دل سوز داستان سید فضل حسین کی بھی ہے.جن کے دونوں بیٹوں سید عبداللہ اور سید حسنین نے آرمی پبلک سکول و کالج ورسک روڈ میں سولہ دسمبر کو شہادت پائی.عبداللہ دسویں حماعت کے طالب علم تھے اور ڈاکٹر بن کر ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔جبکے سید حسنین آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے ان کی والدہ انہیں فوج میں بھیجنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ سانحے کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے لیکن والدین کی نگاہیں اب بھی  ان دونوں کی راہ تک رہے ہیں.گھر سے دو بچوں کا چلے جانا کسی قیامت سے کم نہیں۔.
شہدا کے والد فضل حسین کہتے ہیں کہ ہمارا گھر ان کے جانے بعد کسی کھنڈر کا سا سماں پیش کرتا ہے ان کی والدہ بچوں کے کپڑوں کو نکال کر چومتی ہیں اور روتی ہیں۔ہمارے بچے شروع سے ہی اے پی ایس میں زیر تعلیم تھے عبد اللہ خاص طور پر پوزیشن ہولڈر تھا۔عبداللہ کی شہادت کے بعد جب اس کا نتیجہ آیا اس کی پہلی پوزیشن تھی۔ان دوںوں کے بعد ہماری زندگی تباہ ہوگئی ان کے لئے ہمارے سارے ارمان ادھورے رہ گئے۔پر اس بات سے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ انہوں نے وطن کی خاطر جان دی۔۔پاک آرمی کے افسران نے ہمارا بہت ساتھ دیا مشکل کی گھڑی میں ہمیں اکیلا نہیں چھوڑا۔اللہ تعالی ہماری صفوں میں اتحاد کردے اس وطن میں امن و امان کردے آمین۔

 

ذیشان احمد شہید تمغہ شجاعت  اویس احمد شہید تمغہ شجاعت

unnamed

ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے صوبیدار ر اکرام اللہ کے دو بیٹوں نے بھی سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔ذیشان احمد دسویں کلاس میں اور اویس احمد آٹھویں کلاس میں تھے۔پلے گروپ سے ہی دونوں اے پی ایس میں زیر تعلیم تھے۔ذیشان ڈاکٹر بننا چاہتے تھے اور اویس کی دلچسپی کمپیوٹر میں تھی۔شہید بچوں کے والد اکرام اللہ کہتے ہیں کہ میرے دونوں بچے بہت اخلاق والے تھے۔ہمیشہ سب کی مدد کرتے۔ہمیں لگتا ہے کہ جیسے آج بھی ہم کہیں سولہ دسمبر دو ہزار چودہ میں ہی کھڑے ہیں۔ان کی والدہ بہت ہی رنجیدہ رہتی ہیں ۔میں نے خود ساری زندگی فوج میں رہ کر وطن کی خدمت کی مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے بیٹوں نے پاکستان کے لئے اپنی جان دی۔ان بچوں کی قربانی کے بعد پاکستان کے امن و امان پر بہت فرق پڑا اور صورتحال بہتر ہوئی۔میری دعاء ہے کہ اللہ تعالی پاکستان کو امن کا گہوارا بنادے آمین۔

جویریہ صدیق صحافی اور فوٹوگرافر ہیں ۔ سانحہ آرمی پبلک سکول شہدا کی یادداشیں کتاب کی مصنفہ ہیں۔آپ انہیں ٹویٹر پر فالو کرسکتے ہیں @javerias