Posted in media, Pakistan

ٹک ٹاک، ہنی ٹریپ اور پاکستان

تحریر جویریہ صدیق 

میں اتنی قدامت پسند تو نہیں کہ تفریح کو بند کرنے کی بات کرو لیکن اتنی روشن خیال بھی نہیں کہ بے حیائی کو تفریح مان کر اس سپورٹ کرو۔ٹک ٹاک ایک نئ وباء جس نےپاکستان میں لپیٹ میں لے لایا ہے۔جس کا دل کرتا ہے کچھ بھی بنا کر پوسٹ کردیتا ہے ۔بچے بڑے بوڑھے خواتین عجیب و غریب حرکتیں کرتے ہیں، گانوں پر ناچ، ڈائلاگز پر اداکاری تو کسی بھی اجنبی کے ساتھ ویڈیو جوڑ کر مکالمہ یا ناچ گانا یہ ٹک ٹاک کی پٹاری جس میں بہت کچھ ہے۔بچوں کے لئے تو بلکل مناسب ایپ نہیں لیکن اکثر ماں باپ غافل ہیں کہ بچے کیا کررہے ہیں ۔

ٹک ٹاک کی دنیا میں وہ لوگ بھی کود پڑے جو پہلے بازار حسن کی زینت تھے چونکہ بازار ختم ہوگئے تو یہ عام علاقوں میں چھپ کر اپنا کاروبار کرنے لگے ان کے گاہک بظاہر اس معاشرے کے مہذب افراد کہلاتے ہیں ۔ان افراد نے اپنے بزنس کے پھیلاو کے لئے ٹاک ٹاک کا خوب استعمال کیا یہاں تک کہ کچھ اس ملک کی ان ہستیوں تک پہنچ گئ جو خود کو اس ملک کا کرتا دھرتا کہلاتے ہیں ۔
images (6)
گاہک اور طوائف کے درمیان بھی کچھ راز داری کی شرائط طے ہوتی ہوگی لیکن اگر پیسے لے کر تماشا سرعام لگا دیا جائے تو اس کو بلیک میلنگ کہتے ہیں ۔اب یہ ہنی ٹریپ کسی کے ایماء پر کیا گیا یہ بھنورے عادت سے مجبور پھولوں پر منڈلانے لگے یہ تو سوچنے کی بات ہے لیکن اگر ملک کی اشرافیہ خود کو ٹاک ٹاک کے لیول تک گرا لے گی تو یہ ان کے عہدے کی توہین ہے۔بعض پھول دیکھنے میں تو خوشنما ہوتے ہیں لیکن جب مکھے اور بھنورے ان کے پاس آتے ہیں تو یہ پھول انکو سالم نگل جاتے ہیں ۔
پاکستان میں بہت سے ہنی ٹریپ طاقت کے ایوانوں میں دیکھے گئے ۔کچھ میں معاملہ پیسوں سے ختم ہوگیا تو کچھ میں شادیاں کرنی پڑ گئ جوکہ بعد میں طلاق کی نہج پر پہنچ کر ختم ہوگئی ۔مرد ہے دل تو رکھتا ہے زرا سا چلبلا پن دیکھا، زرا سی خوبصورتی اور شرارت دیکھی دل پھسل گیا بعد میں مذہبی حدود توڑنے کے بعد پریشانی پشیمانی ہی ملی۔ہمارے ہاں مرد سمجھتا ہے اسکو سب کرنے کی اجازت ہے وہ بیوی کے ہوتے ہوئے گرل فرینڈ، دوستیں اور رکھیل رکھ سکتا ہے ۔لیکن ایسا نہیں ہے مرد صرف دوسرا نکاح کرسکتا ہے وہ بھی جب وہ دونوں میں 
برابری کرسکے ۔
 مرد کو صرف اپنی شریک حیات تک محدود رہنا چاہئے جو مرد اخلاقی سماجی اور مذہبی حدود کو توڑ کر ناجائز تعلقات استور کرتے ہیں اس کا خمیازہ نا صرف وہ بلکے انکی اگلی نسل بھی انکے اثرات سے محفوظ نہیں رہتی ۔اس لیے مرد اپنی شریک حیات کا دل نہ توڑے جو پابندی عورت پر ہے وہ ہی مرد پر ہے زنا دونوں کے لئے حرام ہے۔
گندی صحبت انسان کو گندا کردیتی ہے پہلے لوگوں سے فائدہ لینا ،انکے پیسے پر عیش کرنا ،ان سے دوستیاں کرنا بعد میں ان کے پیغامات ریکارڈ کرکے پھیلا دینا، پھر عورت کارڈ کھیلنا اور یہ کہنا کہ پاکستان میں عورت محفوظ نہیں مکاری کی انتہا ہے۔لکھنو کی طوائفوں کے پاس لوگ تہذیب سیکھنے جاتے تھے شاید ڈیجیٹل طوائفوں کے کوئی اصول نہیں ۔
Posted in Army, media, Pakistan

میڈیا ، سیلف سنسر شپ اور جبری برطرفیاں

میڈیا ، سیلف سنسر شپ اور جبری برطرفیاں

جویریہ صدیق

20181018_205310

اسلام آباد:

 سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد جب میں نے شہدا پر کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا تو اندر ایک خوف تھا کہ کسی دن کوئی دیو قامت اہلکار گھر کا داخلی دروازہ توڑتے ہوئے آئیں گے اور میری گردن پر بوٹ رکھ کر مسودہ لے جائیں گے ۔انٹرویو کے دوران میں اکثر کہتی رہی کہ یہ مضامین دسمبر 2015 میں شائع ہوں گے لیکن کتاب کا تذکرہ کھل کر کسی سے نہیں کررہی تھی ۔کتاب کا ایک حرف حرف خود ٹائپ کیا۔ انگلیاں آنکھیں درد کرنے لگتیں لیکن بس یہ خوف طاری تھا بات باہر نکلی تو کتاب نہیں چھپ پائے گئ ۔کتاب بہت مشکل سے مکمل ہوئی کیونکہ جتنے لوگ اسلام آباد اور پشاور سے سانحہ کور کررہے تھے انہوں نے ایک نمبر تک شئیر کرنا گوارا نہیں کیا۔میں اپنی مدد آپ کے تحت پہلے خاندان تک پہنچی اور اسکے کے بعد ایک ایک کرکے بیشتر خاندان رابطے میں آگئے۔کتاب میں صرف یاداشتیں ہیں شائع ہوئی میں نے لواحقین کو تحفے میں دی اور کہا اتنی محنت میں نے کسی مقبولیت یا پیسے کمانے کے لئے نہیں کی ۔یہ میری طرف سے شہدا کے خاندانوں کے لئے ایک تحفہ ہے جس میں تمام شہدا کی تفصیل درج ہے اور انکی تصاویر شامل ہیں تاکہ تاریخ انہیں ہمیشہ یاد رکھے ۔

کتاب شائع ہوئے 3 سال ہوگئے لیکن مجھے کسی قسم کی دھمکی یا سنسر شپ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔کیونکہ وقت کے ساتھ حالات بدل بہت حد تک بدل گئے۔ضیاء دور ہماری نسل نے نہیں دیکھا سنا ہے اس دور میں بہت مظالم ہوئے بولنے کی آزادی نہیں تھی۔نواز شریف اور بے نظیر کے دو ادوار ہماری نسل کے بچپن کا دور تھا اس وقت سرکاری میڈیا، این ٹی ایم ، ریڈیو پاکستان، ایف ایم ون او ون ،ون ہنڈرڈ ، کارٹون نیٹ ورک  اور کچھ اخبارات اور رسالے شائع ہوتے تھے۔جس وقت پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو سب لوگ بہت ڈرے ہوئے تھے کہ پرویز مشرف بولنے لکھنے کی آزادی چھین لیں گے۔ان کے دور میں 3 نومبر کی ایمرجنسی اور میڈیا پر بندش رہی لیکن پرائیوٹ میڈیا کو آواز دینے کا سہرا بھی اس ہی آمر پرویز مشرف کو جاتا ہے۔۔

جس وقت میں نے اے ٹی وی پارلیمنٹ ڈائری کی میزبان کے طور پر جوائن کیا تو پی پی پی اقتدار میں آچکی تھی۔اس زمانے میں روز میڈیا کی عدالت لگتی تھی روز پی پی پی کا میڈیا ٹرائل ہوتا تھا اور وہ خندہ پیشانی سے اس سب کا سامنا کرتے رہے ۔کبھی کسی چینل اینکر یا رپورٹر کا بائیکاٹ نہیں کیا۔5 سال میڈیا ٹرائل اور عدالتی میڈیا کے ساتھ وہ مدت پوری گئے اور اگلی باری آئی مسلم لیگ ن کی ۔آمریت کی گود سے جنم لینے والی جماعت میڈیا کو کنٹرول کرنا بخوبی جانتی تھی۔اقتدار میں آتے ہی تنقیدی چینلز کے اشتہارات بند کردیے اور چینلز کا بائیکاٹ کردیا۔اپنے ناپسندیدہ اینکرز کو بین کرنے کے لئے ہزار جتن کئے۔دوسری طرف پی ٹی آئی نے دھرنے کےدوران مخالف میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیا ۔پرائیوٹ میڈیا بھی بالغ اور منہ زور ہوگیا اور کسی کے ہاتھ نہیں آرہا تھا۔دو ہزار چودہ کے بعد ہم نے میڈیا کے رنگ ڈھنگ بھی بدلتے دیکھے لیڈران کی نجی زندگی پر حملے ، ان کی شادیوں کی تاریخوں کا اعلان ازخود کیا جانے لگا ، کچھ کالم نگار بلاگرز ٹی وی چینلز  صحافی اینکرز پانامہ سکینڈل کے بعد باقاعدہ طور پر مسلم لیگ کے حصے کی مانند ان کے لئے مہم کرنے لگے کہ شریف خاندان بے قصور ہے ۔یہ دفاع اتنے روز و شور سے کیا جانے لگا کہ اصلی کارکنوں اور صحافیوں میں تفریق مشکل ہو گئ ۔نواز شریف دور میں من پسند چینلز پر اشتہارات کی بارش کردی گئ۔اپنے من پسند صحافیوں میں بھاری تنخواہوں کے ساتھ عہدے بانٹ دئے گئے اور یوں جمہوریت کے نام پر کرپشن کا دفاع شروع ہوگیا۔

ن لیگ کے متوالوں نے پانامہ کا ملبہ بھی آرمی آئی ایس آئی پر ڈالنے کی کوشش کی۔ جب اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو توپوں کا رخ عدلیہ کی طرف کردیا اور معزز ججوں کو متنازعہ کرنے کی کوشش کی گئ تاہم پاکستان کی عدلیہ نے تمام تر منفی مہم کے باوجود تاریخ ساز فیصلہ دیا ۔

میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز شریف  کے جیل جانے  کے بعد درباری میڈیا اور سوشل میڈیا ٹیم وقتی طور پر خاموش ہوگے ۔تاہم سوشل میڈیا پر درباری قلم نگار ،قومی سلامتی، فوج ، عدلیہ اور آئی ایس آئی کے خلاف ٹویٹس کرتے رہے ۔انکا صبح سے شام تک صرف ایک کام ہے وہ ہے کہ پاکستان کو عالمی دنیا کے سامنے متنازعہ کرنا ہے۔صبح سے شام تک یہ صرف منفی پہلو اجاگر کرتے ہیں جب کچھ نا ملے تو فوٹو شاپ تصاویر کے ساتھ کہانی گھڑ لیتے ہیں۔جب کہ پاکستان کا کوئی کھلاڑی تمغہ لے آئے کوئی پاکستانی عالمی ریکارڈ بنا لے تو ان دانشوروں کو لقوا مار جاتا ہے۔ 

آج کل مارکیٹ میں ایک اور سستا انقلابی نعرہ سامنے آیا وہ ہے سیلف سنسر شپ ۔یہ سب شروع کہاں سے ہوا جب کچھ آزاد پختونستان کا نعرہ لگانے والو نے نقیب محسود کے قتل کو اپنے عزائم اور مردہ سیاست میں روح پھونکے کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ۔پاکستان مخالف اور آرمی مخالف تقاریر شروع کردی گئ ۔اس پر کچھ صحافیوں نے فوری طور پر اس فتنے کا ساتھ دینا شروع کیا یہاں سے یہ نیا لفظ ایجاد ہوا سیلف سنسر شپ ۔اگر آپ کے ایڈیٹر کا ضمیر زندہ ہے اور وہ آپ پاکستان مخالف آرٹیکل شائع کرنے سے روک دیتا ہے یا آپ کا کرپشن کی حمایت میں لکھا مضمون اسکو صحافت کے اصولوں کے منافی لگتا ہے تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ کا آرٹیکل ردی کی ٹوکری میں چلا جاتا ہے۔

سنسر شپ پر میڈیا کے کچھ بڑے اتنا بول رہے ہیں کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی ۔ سنسر شپ بھی ایک کونے میں کانوں میں انگلیاں ٹھوس کر کہتی ہے دھیمابولو ، پہلے تولو پھر بولو اور کم ازکم سچ تو بولو ۔

اس وقت میڈیا ورکرز کے اوپر جو سب سے بڑی تلوار لٹک رہی ہے وہ میڈیا کے اندر سے ہی ہے باہر سے نہیں۔آپ کو کیا لگا سیلف سنسر شپ ان کے لئے سب سے بڑا خطرہ  ہے نا نا یہ تو باتیں آزادی صحافت کے تمغے لینے وغیرہ کے لئے پھیلائی جاتی ہیں ۔اصل سنسر شپ تو اس بات پر ہے کہ میڈیا میں اپنے ادارے میں جاری میڈیا ورکرز کے استحصال پر کچھ نا بولو۔آپ ٹویٹر کے کسی بھی صحافی دانشور کی ٹائم لائن پر اس سے مختلف میڈیا کے اداروں میں تنخواہ میں تاخیر اور جبری برطرفیوں کے حوالے سے سوال کریں وہ آپ کو جواب نہیں دیے گا لیکن ویسے وہ دانشور سارا دن مگرمچھ کے آنسو بہائے گا۔ 

اکثر یہ ہی میڈیا کے بڑے منٹوں میں مڈ کرئیر جونیئرز کو ادارے سے یہ کہہ کر نکلوا دیتے ہیں کہ یہ نکما ہے جبکہ وہ محنتی کارکن ہوتا ہے بس ان کچھ بڑوں کو انکی شکل پسند نہیں ہوتی ۔پھرمقافات عمل ہوتا ہے جب ان بڑوں

کومالکان کم ریٹنگ اور سفید ہاتھی ہونے پر نکال دیتے ہیں تو یہ مگرمچھ کے آنسو بہائے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت پسند ہیں نا اس لئے ہمیں نوکری سے نکال دیا ۔جبکے ان کچھ بڑوں کو آپ نے اداروں میں دیکھیں تو ان سے بڑا مطلعق العنان کوئی نہیں ۔

عام میڈیا ورکرز کی بات کی جائے تو میڈیا میں کوئی جاب سیکورٹی نہیں جب کسی بڑے کا دل کرے وہ چھوٹے کو لات مار کر باہر کردے گا۔بیورو میں جھاڑو پھیر کر محنتی رپورٹرز کو فالتو سامان کی طرح باہر کردیا جاتا ہےتب جمہوریت یا آزادی صحافت خطرے میں نہیں آتی۔خاتون اینکر شادی کرلے یا حاملہ ہوجائے اس نوکری خطرے کی زد میں آجاتی ایچ آر کے مطابق موٹی لڑکی کا بھلا ٹی وی پر کیا کام ؟۔جو بیچاری نوکری بچا بھی لے اسکا بچہ گھر میں اسکے بنا تڑپتا ہے کیونکہ بہت سے دفاتر میں نرسری نام کی چیز نہیں ۔اکثر سفارشیوں کی چاندی ہوجاتی اور محنتی لوگ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔جاب کے تو کوئی ٹائمنگ نہیں کہا جاتا ہے کہ آپ میڈیا میں ہوکر نو سے پانچ والی جاب چاہتے ہو ایسا تو ممکن نہیں۔پر جب سیلری کی بات آئے وہ فکسڈ رہتی ہے رپورٹر کیمرہ مین میڈیا ورکر اس امید پر بوڑھا ہوجاتا کہ شاید اب اسکی سیلری میں ایک صفر بڑھ جائے ایسا بمشکل ہوتا ہے بلکے ناممکن ہے۔

میڈیا کو حکومت سے بڑی بڑی رقوم اشتہارات کی مد میں ملتی رہیں لیکن تنخواہ کی بات کریں تو حالات بہت خراب ہیں آپ اپنی تنخواہ کیوں مانگ رہے ہیں زیادہ مسئلہ ہے تو دوسری جگہ چلے جائیں ورکرز خاموش ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے یہ نوکری گئ تو دوسری نہیں ملے گئ ۔نئ جاب اوپنگز تو آتی ہی نہیں ہر سال نئے گریجویٹس انٹرن شپ کے نام پر بیگار کی طرح کام کرتے ہیں اور آخر میں ادارے کی طرف سے ملنے والے سرٹیفکیٹ کو لے کر گھر بیٹھ جاتے ہیں ۔میڈیا میں کوئی معاشی بحران نہیں ہے۔

بس میڈیا مارکیٹ میں بہت سے چینلز آگئے اکثر نئے ٹی وی لانچ ہوکر فلاپ ہوجاتے ہیں بڑے ناموں کی وجہ سے چھوٹے بھی ادھر کا رخ کرتے ہیں ۔پر ہوتا کیا ہے بڑے صحافی فوری طور “اصولی” موقف اپناتے ہوئے ڈیل اور یوٹرن مار جاتے اور چھوٹے دربدر ہوجاتے ہیں نا نئے دفتر جوگے رہتے ہیں نا پرانے میں جانے کی جگہ ملتی ہے ۔بہت سے میڈیا ورکرز کو چھٹی نہیں ملتی، میڈیکل نہیں ملتا، فیول نہیں ملتا، تنخواہ نہیں ملتی لیکن پھر بھی میڈیا ورکر اس انڈسٹری کو اپنے پتھر باندھے پیٹ اور کمزور کندھوں پر لے کر چل رہا ہے ۔اس سب پر وہ لوگ کیوں نہیں کچھ بولتے جو اس ملک میں آزادی صحافت کے چمپیئن بنے پھر رہے انہوں نے خود پر کیا سیلف سنسر شپ عائد کرلی ہے کہ صحافی بھائی کے لئے تو نہیں بولنا۔ ویسے تو بہت بولتے ہیں اتنا بولتے ہیں کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی سیاسی لیڈر کی چپل چادر بیگ آنسو چشمے مسکراہٹ لباس ہر چیز پر بولتے ہیں لیکن بس صحافی کے لئے نہیں بولتے۔میڈیا میں، سنسر شپ، تنخواہوں میں تاخیر اور جبری برطرفیوں کی زمہ دار حکومت، آرمی اور آئی ایس آئی نہیں خود میڈیا مالکان ، انتظامیہ ،اور میڈیا کے بڑے ہیں ۔ میڈیا کے درد کا مداوا کون کرے گا جب پی ایف یو جے خود تین حصوں میں تقسیم ہوچکی ہو۔جب صحافی خود جھوٹ بولیں کہ انہیں جمہوریت کا ساتھ دینے پر نکال دیا گیا جبکہ اصل وجہ یہ ہوکہ سیٹھ یا مالکن کو اپنا کاروباری مفاد عزیز ہو۔ وہ ادارے میں ڈوان سایزنگ کرے اور الزام آپ ایجنسی پر لگا دیں یہ تو صحافتی بددیانتی ہے۔میڈیا کے حالات خراب نہیں حالات صحافیوں کے خراب ہیں انہیں چاہیے کہ سچ بولیں اور میڈیا کی سیاست کو عیاں کر دیں ۔
ہر چیز کی زمہ داری فوج پر ڈال معاملات حل نہیں ہوگے مسئلے کا حل اپنی صفوں میں تلاش کریں۔

Posted in journalist, media, Uncategorized

صحافی کی بیوی کا نوحہ

depressed-woman-400x400

جویریہ صدیق
Twitter @javerias

ہائے رے قسمت۔ میرا ہی رشتہ صحافی کے ساتھ جڑنا تھا، معقول شکل کے ایم ایس سی ابلاغیات پاس صحافی کا رشتہ آیا تو ہم کافی خوش ہوئے تھے کہ چلو سہلیوں میں شو ماریں گے ہمارا شوہر ٹی وی پر آتا ہےاور ویسے بھی آجکل ان ٹی وی یا فلم کے ہیروز کو کون دیکھتا ہے آج کل تو سکرین پر صرف صحافی حضرات اور اینکرز صاحبان کا راج ہے۔خواب انکھوں میں سجائے جب ہم ان کے گھر پہنچے تو منہ دیکھائی میں انہوں نے چند کتابیں ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ صحافی کی بیگم کو بھی حالات حاضرہ سے واقف ہونا چاہیے۔

ہم جو سونے کےسیٹ کی آس لگائے بیٹھے تھے، خون کا گھونٹ پی کر رہ گے اور دل کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں دل کے ارمان ہنی مون پر نکالیں گےلیکن صبح کے چار بجے اچانک ایک بھیانک رنگ ٹون نے ہماری چیخ ہی نکال دی اور ہمارے شوہر نامدار خفیہ انداز میں باتیں کرنے لگے۔

ہماری حیرانگی کو دیکھتے ہوئے اس موئے فون والے کو ہولڈ کروا کے کہنے لگے۔بیگم آپ سو جائیں میں سورس سے بات کر رہا ہوں۔خیر ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ اب کی بار ان کی چیخ نے تو ہمارے اوسان ہی خطا کر دئیے، بیگم اٹھیں بریکنگ نیوز!!

ہم نے کہا اللہ خیر۔کہیں زلزلہ آگیا ہے؟ وہ کہنے لگے سورس نے ایسی سٹوری دی ہے کہ حکومت ہل کر رہ جائےگی۔ہمیں فورا حکم دیا کہ ناشتہ بنائیں اور خود تیار ہونے میں مصروف ہوگئے ہم اپنے حنائی ہاتھوں کے ساتھ ان کے لیے ناشتہ بنا کر لائے تو میاں جی کسی کراچی اسٹاک ایکسچینج کے اسٹاک بروکر کی طرح تین فون کانوں کو لگائے بیٹھے تھے اور اسی حال میں ناشتہ زہر مار کرکے یہ جا وہ جا!!

ہم ششدر ہی رہ گے کہ ہماری تعریف تو درکنار ناشتے کی بھی تعریف نہ کی۔ ہمیں اسی وقت یہ پتا چل گیا کہ اس گھر میں آج سے ہی ڈیوٹی شروع۔میاں تو آفس جاکر ہمیں ایسا بھولےجیسے واپڈا لوڈشیڈنگ کے بعد عوام کو،جب ہم نے ان سے بات کرنا چاہی تو فون مصروف۔۔۔۔۔ جب خدا خدا کر کے ہماری باری آئی تو یہ کہ کر فون پٹخ دیا کہ بیگم سورس کے ساتھ میٹنگ میں ہوں۔سورس نہ ہوا بخت ماری میری سوکن ہوگئی!!۔

صبح چھ بجے کے گئے ہوئے، ان کا دیدار رات کے نو بجے خبرنامے میں ہوا تو دل کو تسلی ہوئی کہ چلو اب تو کچھ دیر کی بات ہے، شوہر نامدار گھر تشریف لے آئیں گے۔اسی خیال سے ہم نے فوراً میز پر کھانا لگا دیا کہ بس ابھی آتے ہی ہوں گے اور کھانے کے بعد کہیں باہر چلیں گے کیونکہ صبح سے اکیلے بیٹھے بیٹھے اب گھر سر پہ گرتا محسوس ہو رہا تھا۔ہم سجے سنورے انتظار کرتے رہے اور موصوف دوستوں کی محفل سے رات ایک بجے گھر آئے۔

ہم جو نیم وا آنکھوں کے ساتھ کھانے پر ان کے منتظر تھے۔ ہمارے دل پہ یہ کچوکہ لگا کر سونے چل دیے کہ میں تو کھانا کھاکر آیا ہوں۔یوں شادی کا پہلے ہی دن ہماری آئندہ زندگی کو ہمارے سامنے عیاں کر گیا۔ہمیں شادی پہ جانا ہو تو موصوف کی شام کی ڈیوٹی،ہمیں شاپنگ کرنی ہو تو ان کا آفیشل ڈنر،ہم نے باہر کھانے کی فرمائش کی تو جناب کی کوریج پہ ڈیوٹی،مووی دیکھنے کا پلان ہوتو جناب کا نوبجے کے بلیٹن میں وڈیو بیپر، رات کو نیند پوری کرنی ہو توتمام پاکستان کےبیوروز سےفونز﴿ خود تو یہ رات کو کالزکرنے والے زیادہ ترطلاق یافتہ ہیں ہماری بھی کروانا چاہتے ہیں منحوس﴾اور فونوں کالاتعداد سلسلہ اس وقت تھمتا ہےجب یہ موصوف (میرے میاں اور کون) اگلی صبح دفتر کے لیئے نکل جاتے ہیں۔بیڈ روم میں فون،کھانے کے کمرے میں فون اورتواورباتھ روم میں بھی فون۔اف

لیکن پھر بھی دل کو تسلی تھی کہ گدھوں کی طرح کام کرتے ہیں تو اگلے مہینے کی پہلی کو موٹی رقم میرے ہاتھ پر رکھیں گے لیکن حواسوں پر بم اس وقت گرا جب یہ بولےکہ بیگم ہمارے چینل کی تنخواہیں تین ماہ کی تاخیر سے آتی ہیں تو بار بار پیسے مانگ کرشرمندہ نہ کرنا بس یہ بات تو ہم دل پر لےگئے اور ایک سو دو بخار چڑھا بیٹھے۔

ہماری یہ حالت دیکھ کر صحافی میاں کے اندر کا انسان پہلی بار جاگا اور موصوف پورے ایک دن کی چھٹی لے آئے صرف ہماری تیماداری کے لیئے۔خیرتیماداری کیاکرنی تھی وہاں بھی موبائل کی گھنٹیاں،چائے ،سگریٹ ،اخباریں اونچی آواز میں ملکی حالات پر تبصرے۔ہم سے تو ہوگئی غلطی آپ خدارا کسی صحافی سے شادی مت کیجیئے گا۔

Posted in media, Pakistan

؟؟ آئٹم سانگ فلم کی کامیابی کی ضمانت

 ؟

Posted On Friday, May 08, 2015   …….جویریہ صدیق…….

ایک زمانہ ہوتا تھا جب فلم ساز بڑے بڑے ادیبوں سے فلم کا اسکرپٹ لکھواتے تھے اور حب بات آتی تھی فلم میں موسیقی اور شاعری کی تو نامور شاعر وہ بول لکھتے تھے کہ گیت آج بھی زندہ ہیں۔آہستہ آہستہ فلم آرٹ کمرشلزم کی بھینٹ چڑھ گیا اور اب بیشتر فلموں میں نہ ہی اسکرپٹ جاندار ہوتا ہے اور نہ ہی گانوں کی شاعری مسحورکن۔پاکستان میں تو ویسے بھی فلم انڈسٹری زبوں حالی کا شکار ہے،اس کے پیچھے ان ہدایت کاروں اور فنکاروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے جو مرحوم سلطان راہی کے انداز کو کوئی دو سو تین سو فلموں میں کاپی کرگئے۔ جس زمانے میں جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ فلمیں بن رہی ہوں وہاں کون گنڈاسے والی فلم دیکھنے آئے گا۔ ایک ہی جیسے موضوعات سلطان راہی جیسا ہیرو اس کے پچھے نچاتی گاتی ہیروئین تھوڑے غنڈے، ایکشن اور آخر میں ہیرو ہیروئین کی شادی کون ایسی فلم دیکھنے آتا ہے۔

پاکستانی فلم بینوں کی بڑی تعداد بھارتی فلمیں دیکھنے پر مجبور ہے۔ ہندی مووی بگ بجٹ کے ساتھ دنیا کی حسین ترین لوکشنز پر شوٹ کی جاتی ہیں، جاندار موسیقی بڑے بڑے فلمی نام شائقین کو فلم دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بھارت اپنی فلموں سے دنیا بھر میں اپنی ثقافت سے کو اجاگر کر رہاہے۔ پاکستانی سینما مالکان بھی ہندی فلموں کو ہی چلانے پر مجبور ہیں کیونکہ پاکستان میں فلمیں بہت کم تعداد میں بن رہی ہیں ۔سال میں صرف ایک دو ہی ایسی فلمیں آتی ہیں جو پاکستانیوں کو سنیما کی طرف جانے کی مجبورکرتی ہیں۔نوجوان ہدایت کار اور بہت سے اداکار اب فلم انڈسٹری کو سہارا دے رہے ہیں۔شائقین کو سال میں تین، چار اچھی پاکستانی فلمیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔

لیکن نئے ہدایت کار بھی ہندی فلموں سے بہت متاثر نظر آرہے ہیں اور ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کوئی نہ کوئی آئٹم سانگ ڈال کر فلم میں مصالحہ ڈالا جائے۔ اچھی فلموں سے ضرور متاثر ہو لیکن ہو بہو بھارت کا کلچر اپنی فلموں میں دیکھنا کہاں کا انصاف ہے۔پہلے پاکستانی فلم ساز بارش میں گانا عکس بند کرواتے تھے جس میں ایک فربہ وزن ہیروئین تنگ کپڑے پہنے گانے کے آخر تک کود کود کر اپنا برا حال کرلیتی تھی۔ پر نیے ہدایت کار وہ بارش والا گانا تو نہیں لیکن ایک بار یا کلب میں بالکل ہندی فلم جیسا آئٹم سانگ ضرور ڈالتے ہیں۔جس میں ایک حسینہ چست لباس میں رقص کررہی ہوتی ہے اور بہت سے اس کے دیوانے ولایتی مشروبات لیے اس کو سراہ رہے ہوتے ہیں۔ بھارت میں تو شاید بار کلچر ہو کلبز بھی ہوں گے لیکن پاکستان میں تو ایسا کہیں بھی دیکھنے کونہیں ملتا۔پھر فلم ساز اس کو پاکستان کا کلچر بنا کر کیسے دیکھا سکتے ہیں۔ اگر بھارت کا ہی کلچر دیکھنا ہے تو ہم ان کی فلم میں دیکھ لیں ٹکٹ خرید کر اگر ہم سینما میں پاکستانی فلم دیکھنے جاتے ہیں تو فلم بینوں کا اتنا تو حق ہے کہ انہیں صاف ستھری تفریح ملے۔

بھارت کی فلموں میں آئٹم سونگ کا رواج 2010ءسے بڑھا منی بدنام ہوئی،شیلا کی جوانی، چکنی چمبیلی، بے بی ڈول میں سونے کی، ہلکٹ جوانی، ببلی ہے پیسے والوں کی وغیرہ جیسے گانے تقریباً ہر فلم کا حصہ ہیں۔ جس کی شاعری واہیات ہے۔ان گانوں کی عکس بندی میں بھی اداکارہ کو ایسے ایسے زاویوں سے دکھایا جاتا ہے کہ وہ خواتین اور رقص کی توہین ہے۔ اس طرح کے گانوں میں ہر طرح کی اداکارائیں کام کررہی ہیں جبکہ یہ انہیں سوچنا چاہیے کہ لوگ انہیں ان کی اداکاری پر سراہ سکتے ہیں، بلاوجہ ایکپسوز کرنا قطعی مناسب نہیں۔ کوئی غیر معروف اداکارہ صف اول کی ہیروئین بننے کے لیے آئٹم سانگ کرے تو سمجھ بھی آتا ہے کہ وہ شہرت کی سیڑھیاں چڑھنے کی جلد خواہش مند ہے لیکن جب کترینہ کیف، کرینہ کپور اور پریانکا چوپڑا جیسی صف اوّل کی اداکارائیں آئٹم گرل بن کر آئیں تو یہ ان کی بہترین اداکارنہ کی صلاحیتوں کی توہین ہے۔

خود بھارت میں بہت سی سماجی تنظیمیں ان گانوں پر پابندی کا مطالبہ کررہی ہیں کہ یہ گانے خواتین کی توہین ہیں اور خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں،عام فلم بین کو محسوس ہوتا ہے کہ ہر لڑکی ہی شاید آئٹم گرل جیسی ہے۔ایسا بالکل نہیں ہے، گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین آئٹم گرل نہیں ہیں، وہ بھی پروفیشنل ہیں جو اپنے گھر کے چولھے میں ایندھن ڈالنے کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ ان گانوں نے عام فلم بین کے دماغ کو آلودہ کردیا ہے۔اب یہ ہی سلسلہ پاکستان کا رخ کر رہا ہے۔فلم میکنگ میں اعلیٰ ڈگری یافتہ ہدایت کار نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی آئٹم سانگ کو فلم کی کامیابی کا لازمی حصہ سمجھ رہے ہیں۔

میں ہوں شاہد آفریدی فلم نے پاکستان بھر میں بہت اچھا بزنس کیا لیکن اس فلم کے گانے بس تیری ہی کمی ہے میں متھیرا اور ماہ نور بلوچ کے آئٹم سانگ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ شاہد آفریدی بھی کہہ اٹھے بزرگ فنکارہ کا گانا فلم میں غیر ضروری ہے۔ بزرگ وہ ما نور کو کہہ رہے تھے لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ ماہ نور جیسی سینئر اداکارہ کیسے آئٹم سنگ کے لیے مان گئی۔اس ہی سال وار مووی بھی ریلیز ہوئی جس میں کوئی آئٹم سانگ نہیں تھا، فلم کی مضبوط کہانی اور اداکاروں کی بہترین پرفارمنس کے باعث اس فلم نے 23کروڑ کا بزنس کیا۔اسی طرح صباء قمر جیسی سینئر اداکارہ بھی مستانی بنی نظر آئیں جو فلم ۸۹۶۸ میں ان پر فلمایا گیا، نہ ہی اس گانے کے بول سننے کے قابل ہیں اور رقص بھی ویسا ہی ہے جیسے کسی بھی آئٹم سانگ میں ہوتا ہے۔صباء قمر جیسی منجھی ہوئی اداکارہ بالکل بھی آئٹم گرل کے لیے موزوں نہیں۔

اس کے بعد مہوش حیات پاکستان کا ایک خوبصورت چہرہ بلی بنے نظر آئی۔نا معلوم افراد فلم میں یہ کہاں کا کلچر دیکھایا گیا ہے جہاں ایک خاتون ایک مجمع میں نچاتی ہے اور کہتی ہے میں ہوں بلی۔اسی سال فلم دختر بھی ریلز ہوئی جس میں بچوں کی شادیوں جیسا حساس موضوع اٹھایا گیا اس میں تو کوئی آئٹم سانگ نہیں تھا پھر بھی فلم نے اچھا بزنس کیا۔ بات ہو اگر جلیبی فلم کی جو اس سال ریلیز ہوئی اس میں ژالے سرحدی آئٹم سانگ میں نظر آئیں۔ شوخ جوانی گانے پر رقص کرتی ژالے کو بھی سب دیکھ کر حیران تھے کہ پاکستانی فلمیں کہاں جارہی ہیں۔ اب ایک اور فلم آرہی ہے کراچی سے لاہور اس کے سب پہلے ٹریلر میں عائشہ عمر جو کہ پاکستان کا پسندیدہ ترین چہرہ ہیں کو چولی اور لہنگے میں دکھایا گیا ہے، ٹریلر صرف ان کی کمر سے شروع ہوکر ان کمر پر ختم ہوجاتا ہے، کیا ہدایت کار کو اپنی صلاحیتوں پر یقین نہیں، کیا وہ یہ سمجھتا ہے سنجیدہ فلم شائقین صرف کمر کو دیکھ کر فلم دیکھنے آئیں گے۔ جب اس فلم کا دوسرا ٹریلر ریلز ہوا تو پتہ چلا کہ اسٹوری بہت اچھی ہے لیکن خاتون کو شو پیس بنا کر پیش کرنا سمجھ سے باہر ہے۔عائشہ عمر نے اداکاری بھی اچھی کی ہوگی ہم وہ دیکھنے کے لیے بھی سینما آسکتے ہیں۔کیونکہ سنجیدہ شایق پاکستان کی فلم انڈسٹری کا عروج چاہتے ہیں۔

پہلے ہی اداکارہ صائمہ، نرگس اور دیدار کے بارش والے گانے ہمارے انڈسٹری کو بہت نقصان پہنچا چکے ہیں۔کیا اب نئے فلم ساز بھی اسی ڈگر پر چلیں گے جس پر چل کر 1990ءکے اوائل سے لے کر 2005ءتک پاکتسان کی فلم انڈسٹری کو تباہ کردیا۔پاکستان کا کلچر بھارت سے مختلف ہے۔ بھارت میں ہوں گی بار ڈانسرز یا آئٹم گرل لیکن پاکستانی معاشرے میں یہ چیزیں عام نہیں ہیں۔ پاکستان کی اداکاراؤں کو چاہیے وہ اداکاری کے میدان میں اپنے جوہر دکھائیں، آئٹم سانگ سے انکار کریں،آئٹم سانگ کی شاعری اس کا رقص عورت کی تذلیل ہے۔ میں خواتین کے فلموں میں کام کرنے یا رقص کرنے کے خلاف نہیں لیکن اداکارائیں کم ازکم گانے کی شاعری تو سنیں اس کے بعد فیصلہ کریں کہ کیا انہیں اس گانے پر رقص کرنا چاہیے۔جن گانوں کا میں نے تذکر کیا ہے مستانی،بلی،شوخ جوانی وغیرہ وغیرہ کیا ان کا فلم کی کامیابی میں کوئی کردار تھا یا نہیں۔فلم صرف اس لیے ہٹ جاتی ہے اگر اس کی اسٹوری اچھی ہو، اداکاروں نے کردار کو اچھی طرح نبھایا ہو اور فلم کو خوبصورتی سے عکس بند کیا ہو۔

فلمیں بنائیں ان میں گانے بھی ہوں، اچھے رقص بھی ہوں، ہیرو ہیروئین کی اٹھکیلیاں بھی ہوں، بس اس میں عورت کی تذلیل نہ ہو، آئٹم سانگ عورت کی تذلیل ہے، میں ایسے آرٹ نہیں مانتی جس میں عورت کو کم کپڑوں میں غیر مناسب زوایوں سے دکھایا جائے اور ذومعنی الفاظ والے گانوں پر رقص کرایا جائے۔ عورتوں کو فلموں میں مضبوط کردار ملنے چاہئیں تاکہ وہ بھی اپنے فن کا کھل کر مظاہرہ کریں اور اپنی اداکاری کے جوہر سب کو دکھائیں۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری بہت مشکل سے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی ہورہی ہے آرٹ کے نام پر عورت کے جسم کو نہ بیچیں۔ پاکستانیوں کو صاف ستھری تفریح کی ضرورت ہے ،آئٹم سانگ کے زہر سے انہیںآلودہ نہ کریں۔

اگر پاکستان کی اب تک سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلموں پر نظر ڈالیں جن میں خدا کے لیے ،بول اور وارمیں کوئی آئٹم سانگ نہیں تھا۔ اس لیے فلم ساز اس بات کو ذہن سے نکال دیں کہ آئٹم سانگ فلم کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ فلم کی کامیابی کے لیے بہترین اسکرپٹ، عمدہ موسیقی، خوبصورت شاعری، جان دار اداکاری اور حسین لوکیشنز کے لوازمات پورے کرنا ضروری ہیں۔ پاکستان کی سینئر اور پسندیدہ اداکاراؤں کو بھی چاہیے کہ چند پیسوں کی خاطر گھٹیا شاعری اور ایکسپوزنگ والے رقص سے پرہیز کریں۔ بھارت تو عورتوں کے خلاف جرائم میں بہت آگے نکل چکا ہے جس کی بڑی وجہ عورت کو عورت کو نمود ونمائش کی چیز کے طور پر پیش کرنا ہے۔ پاکستانیوں کو سوچنا ہوگا کہیں تفریح کے نام پر ہم نوجوان ذہنوں کو آلودہ تو نہیں کررہے۔ سنسر بورڈ اور پیمرا صرف پاکستانی ہی نہیں ان بھارتی آئٹم سانگز پر بھی پابندی لگائے جن کی شاعری یا رقص میں خواتین کی تذلیل نمایاں ہے۔

Javeria Siddique writes for Jang

Twitter @javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10833#sthash.QOXf6iMU.dpuf