Posted in Army, Pakistan, Pakistan Air Force

پاک فضائیہ کا اسکواڈرن نمبر ۱۹ اور ۱۹۶۵ کی جنگ

پاک فضائیہ کا اسکواڈرن نمبر ۱۹ اور ۱۹۶۵ کی جنگ

پاکستان ڈائری

پاک فضائیہ کا 

اسکواڈرن نمبر ۱۹ اور ۱۹۶۵ کی جنگ

پاکستان ائیرفورس کے اس اسکواڈرن نمبر ۱۹ نے ۱۹۶۵ کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا اور دشمن کے دانت کھٹے ہوگئے ہیں۔پاک فضائیہ نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو زیر کردیا اور فضائی تاریخ میں یہ معرکہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔پاک فضائیہ نے نا صرف پاکستان آرمی کی پیش قدمی کے لئے راہ ہموار کی بلکے دشمن کی نقل حرکت پر بھی نظر رکھی اور ان کی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔اس ضمن پاک فضائیہ کے اسکواڈرن نمبر ۱۹ کا کردار بہت اہم رہا۔یوم دفاع اور یوم فضائیہ کے موقع پر ہم اس ہی اسکواڈرن کے حوالے سے بات کریں۔۱۹۶۵ کی جنگ میں اس اسکواڈرن نے جس کی قیادت سجاد حیدر کررہے تھے لاہور پر بھارتی ائیرفورس کے حملے کو ناکام بنایا اور انکو پیش قدمی سے روک دیا۔نمبر ۱۹ اسکواڈرن نے ۱۹۶۵ کی جنگ میں مشکل ترین مشن انجام دئے اورفضائی تاریخ میں ایسے معرکے رقم کئے جن کی مثال ملنا مشکل ہے۔اسکواڈرن نمبر ۱۹ پاک فضائیہ کا فائٹر اسکواڈرن ہے۔

اس اسکواڈرن کا قیام یکم فروری ۱۹۵۸ کو ماڑی پور میں عمل میں لایا گیا اس وقت اسکا حصہ ایف ۸۶ طیارے تھے۔۱۹۶۳ میں اس کی کمانڈ اسکواڈرن لیڈر سجاد حیدر کو دی گئ وہ پاک فضائیہ کے ماہر پائلٹس میں سے ایک تھے۔۱۹۶۴ میں اس اسکواڈرن کو پشاور منتقل کردیا گیا اور اس میں سعد حاتمی اور مسعود حاتمی جیسے ماہرپائلٹس بھی شامل ہوگئے۔سجاد حیدر کی قیادت میں یہ اسکواڈرن ابھر کر سامنے آیا۔

رن آف کچھ کے بعد سے جنگ کے بادل منڈلا رہ تھے ۔ائیر مارشل نورخان پاک فضائیہ کی قیادت سنبھال چکے تھے اور انہوں نے فوری طور پر اقدامات کا آغاز کیا۔ابھی جنگ کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ اسکوڈارن نمبر ۵ سے تعلق رکھنے والے اسکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی نے بھارت کے چار وئمپائر طیاروں کو نشانہ بنایا جس میں سے دو انہوں نے تباہ کئے اور ایک انکے ساتھی امتیاز بھٹی نے تباہ کیا۔یوں پاک فضائیہ کو نفسیاتی طور پر بھارتی ائیرفورس پر برتری حاصل ہوگئ۔

تین ستمبر کو پھر معرکہ ہوا فلائٹ لفٹینٹ یوسف نے اپنے ایف ۸۶ سیبر طیارے کے ساتھ بھارتی ائیر فورس کے چھے نیٹ طیاروں کا مقابلہ کیا۔۱۳ ستمبر کو انہوں نے بھارتی نیٹ مار گرایا ۔۴ ستمبر تک زیادہ تر آپریشن سرگودھا سے ہوئے تاہم چھ ستمبر ۱۹۶۵ اسکواڈرن نمبر ۱۹ پشاور کا دن تھا۔

سب سے پہلے اسکوڈارن ۱۹ کو سیالکوٹ کے محاذ پر چھ ایف ۸۶ سیبرطیاروں کے ساتھ پہنچے کا حکم دیا گیا تاکہ بھارتی انفینڑی مشن گینز اور ٹینکوں پر حملہ کیا جائے۔اسکواڈرن نمبر ۱۹ کو جب یہ خبر ملی کہ ہندوستان نے لاہور پر حملہ کردیا ہے تو انکا اولین دفاع لاہور تھا۔ اسکواڈرن نمبر ۱۹ نے لاہور شہر پرنچلی پروازیں کی اور ٹارگٹ کو تلاش کیا۔واہگہ کراس کرکے دشمن کے قافلوں اور بھارتی ٹنیکوں پر بمباری کردی۔اس حملے میں اسکواڈرن لیڈر سجاد کو اسکواڈرن لیڈر مڈل کوٹ نے ایف ۱۰۴ لڑاکا طیارے کے ساتھ معاونت دی ۔

اس فارمیشن نے بھارتی جہازوں ، ٹنیکوں ، چوکیوں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا۔اس فارمشین نے جی ٹی روڈ پر شدید حملہ کیا اور دشمن کولاہور کی طرف بڑھنے سے روکا۔اس حملے میں بھارت اسلحہ اور فوجی گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔اس مشن سے کامیاب واپسی کے بعد ری فیولنگ کی گئ اور اس فارمیشن کو ہدایت ملی کہ ۸ سیبر طیاروں کے ساتھ پٹھان کوٹ پر کھڑے طیاروں پر حملہ کیا جائے۔اس کی سربراہی بھی اسکواڈرن لیڈر سجاد نے کی۔اسکواڈرن کے پاس پٹھان کوٹ ائیربیس کے حوالے سے کوئی بھی معلومات نہیں تھیں۔تاہم پھر بھی اس فارمیشن کو کمانڈ کرتے ہوئے سجاد حیدر نے حملہ کیا۔

پاک فضائیہ کی طرف سے پٹھان کوٹ پر یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ ہندوستان کے تمام طیارے تباہ ہوئے جن میں  ۲مگ ۲۱ بھی شامل تھےبھارت کی ایک پوری اسکواڈرن کو پاک فضائیہ نے پٹھان کوٹ حملے میں تباہ کردیاپٹھان کوٹ کے معرکے میں  بھارتی فضائیہ کے دس طیارے جن کا تعلق اسکواڈرن نمبر ۳ سے تھا،نمبر ۳۱ کے دو طیارے،چھ طیارے مسٹریز اور دو مگ ۲۱ اور ایک فئیر چائلڈ پیکٹ تباہ ہوئے۔

یوں ۱۹۶۵ کی جنگ میں اسکواڈرن نمبر ۱۹ نے اپنا سکہ جما لیا اور اس اسکواڈرن نے ۱۹۶۵ کی جنگ میں ۵ تمغہ جرات حاصل کئے۔ اسکواڈرن نمبر ۱۹ نے ۷۰۶ گھنٹے پرواز کی اور ۵۵۴ سورٹیز کیری کی۔دشمن کے چودہ جہاز اور ۷۴ ٹینک تباہ کئے۔ گاڑیاں مشن گنز اور اسحلہ اس کے علاقہ تھا۔اس کے بعد یہ اسکواڈرن پشاور سے اسکو مسرور شفٹ کردیا گیا۔

۔اس کے ساتھ ۱۹۶۶ میں اس ہی اسکواڈرن نے فلائٹ سیفٹی ٹرافی شیرافگن ٹرافی اور بہترین اسلحہ بردار اسکواڈرن کیے اعزازت اپنے نام کئے۔اب ایف سولہ اس اسکواڈرن کا حصہ ہیں۔۱۹۶۵ کی جنگ میں جو جرات اور بہادری کی داستانیں اس اسکواڈرن نے رقم کئ وہ آج بھی زندہ و جاوید ہیں اور یہ اسکواڈرن فاٗٹٹر پائلٹس کے لئے تربیت گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔۱۹۶۵ کے ہیرو سجاد حیدر اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں اور نئے پائلٹس کے لئے مشعل راہ ہیں کہ کس ساتھ کورڈینشن کے ساتھ حملہ کرکے دشمن کے دانت کھٹے کئے جاسکتے ہیں۔ ان کی سوانح عمری شاہین کی پرواز میں بہت سے حقائق درج ہیں اس کا مطالعہ ضرور کریں ۔ہمارے شہدا اور غازیوں کو سلام

Posted in media, Pakistan

ٹک ٹاک، ہنی ٹریپ اور پاکستان

تحریر جویریہ صدیق 

میں اتنی قدامت پسند تو نہیں کہ تفریح کو بند کرنے کی بات کرو لیکن اتنی روشن خیال بھی نہیں کہ بے حیائی کو تفریح مان کر اس سپورٹ کرو۔ٹک ٹاک ایک نئ وباء جس نےپاکستان میں لپیٹ میں لے لایا ہے۔جس کا دل کرتا ہے کچھ بھی بنا کر پوسٹ کردیتا ہے ۔بچے بڑے بوڑھے خواتین عجیب و غریب حرکتیں کرتے ہیں، گانوں پر ناچ، ڈائلاگز پر اداکاری تو کسی بھی اجنبی کے ساتھ ویڈیو جوڑ کر مکالمہ یا ناچ گانا یہ ٹک ٹاک کی پٹاری جس میں بہت کچھ ہے۔بچوں کے لئے تو بلکل مناسب ایپ نہیں لیکن اکثر ماں باپ غافل ہیں کہ بچے کیا کررہے ہیں ۔

ٹک ٹاک کی دنیا میں وہ لوگ بھی کود پڑے جو پہلے بازار حسن کی زینت تھے چونکہ بازار ختم ہوگئے تو یہ عام علاقوں میں چھپ کر اپنا کاروبار کرنے لگے ان کے گاہک بظاہر اس معاشرے کے مہذب افراد کہلاتے ہیں ۔ان افراد نے اپنے بزنس کے پھیلاو کے لئے ٹاک ٹاک کا خوب استعمال کیا یہاں تک کہ کچھ اس ملک کی ان ہستیوں تک پہنچ گئ جو خود کو اس ملک کا کرتا دھرتا کہلاتے ہیں ۔
images (6)
گاہک اور طوائف کے درمیان بھی کچھ راز داری کی شرائط طے ہوتی ہوگی لیکن اگر پیسے لے کر تماشا سرعام لگا دیا جائے تو اس کو بلیک میلنگ کہتے ہیں ۔اب یہ ہنی ٹریپ کسی کے ایماء پر کیا گیا یہ بھنورے عادت سے مجبور پھولوں پر منڈلانے لگے یہ تو سوچنے کی بات ہے لیکن اگر ملک کی اشرافیہ خود کو ٹاک ٹاک کے لیول تک گرا لے گی تو یہ ان کے عہدے کی توہین ہے۔بعض پھول دیکھنے میں تو خوشنما ہوتے ہیں لیکن جب مکھے اور بھنورے ان کے پاس آتے ہیں تو یہ پھول انکو سالم نگل جاتے ہیں ۔
پاکستان میں بہت سے ہنی ٹریپ طاقت کے ایوانوں میں دیکھے گئے ۔کچھ میں معاملہ پیسوں سے ختم ہوگیا تو کچھ میں شادیاں کرنی پڑ گئ جوکہ بعد میں طلاق کی نہج پر پہنچ کر ختم ہوگئی ۔مرد ہے دل تو رکھتا ہے زرا سا چلبلا پن دیکھا، زرا سی خوبصورتی اور شرارت دیکھی دل پھسل گیا بعد میں مذہبی حدود توڑنے کے بعد پریشانی پشیمانی ہی ملی۔ہمارے ہاں مرد سمجھتا ہے اسکو سب کرنے کی اجازت ہے وہ بیوی کے ہوتے ہوئے گرل فرینڈ، دوستیں اور رکھیل رکھ سکتا ہے ۔لیکن ایسا نہیں ہے مرد صرف دوسرا نکاح کرسکتا ہے وہ بھی جب وہ دونوں میں 
برابری کرسکے ۔
 مرد کو صرف اپنی شریک حیات تک محدود رہنا چاہئے جو مرد اخلاقی سماجی اور مذہبی حدود کو توڑ کر ناجائز تعلقات استور کرتے ہیں اس کا خمیازہ نا صرف وہ بلکے انکی اگلی نسل بھی انکے اثرات سے محفوظ نہیں رہتی ۔اس لیے مرد اپنی شریک حیات کا دل نہ توڑے جو پابندی عورت پر ہے وہ ہی مرد پر ہے زنا دونوں کے لئے حرام ہے۔
گندی صحبت انسان کو گندا کردیتی ہے پہلے لوگوں سے فائدہ لینا ،انکے پیسے پر عیش کرنا ،ان سے دوستیاں کرنا بعد میں ان کے پیغامات ریکارڈ کرکے پھیلا دینا، پھر عورت کارڈ کھیلنا اور یہ کہنا کہ پاکستان میں عورت محفوظ نہیں مکاری کی انتہا ہے۔لکھنو کی طوائفوں کے پاس لوگ تہذیب سیکھنے جاتے تھے شاید ڈیجیٹل طوائفوں کے کوئی اصول نہیں ۔
Posted in health, Javeria Siddique, Pakistan, rain

ڈینگی بخار احتیاط واحد حل تحریر جویریہ صدیق

Screenshot_20190903-233809_Chrome
تحریر  …..جویریہ صدیق…..
ڈینگی بخار نے آج کل پھر عوام کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا ہے ،کراچی، راولپنڈی، ملتان اور پشاور کے عوام اس بخار سے سب سے زیادہ متاثر ہوئےہیں ۔
ڈینگی بخار کا علاج اگر بروقت نا کروایا جائے تو یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، ڈینگی بخار مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، یہ مچھر صاف پانی پر افزائش پاتا ہے اور اس کے کاٹنے سے انسان ڈینگی بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
یہ مچھر زیادہ تر گھروں میں افزائش پاتا ہے، اس مچھر کی ایک مخصوص پہچان ہے اس کے جسم پر سیاہ سفید نشان ہوتے ہیں، ڈینگی پھیلانے والا مچھر زیادہ تر گرم مرطوب علاقوں میں پایا جاتا ہے، اس مچھر کے کاٹنے سے ہر سال کروڑوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
ڈینگی چھوت کی بیماری نہیں ہے کسی متاثرہ مریض سے یہ صحت مند شخص کو نہیں ہوتا، یہ ایک مخصوص مچھر aedes aegypiti کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، ہر سال بائیس ہزار سے زائد افراد اس بخار کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس بخار کی علامتیں چار سے چھ دن میں ظاہر ہوتی ہیں، اچانک 104 فارن ہائٹ تکتیز بخار ، سر میں درد،جوڑوں میں درد،آنکھوں کے پیچھے درد، قے، جسم پر سرخ دھبے اس بخار کی علامات میں شامل ہیں، اگر اس کے علاج پر توجہ نا دی جائے تو یہ ڈینگی بخار ڈینگی ہیمرجک فیور میں تبدیل ہو جاتا ہے،جس کے باعث خون میں سفید خلیے بہت کم ہوجاتے ہیں، بلڈ پریشر لو ہوجاتا ہے، مسوڑوں، ناک، منہ سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے اور جگر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، انسان کومہ میں چلا جاتا ہے اور اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
ڈینگی بخار کو ایک بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے تشخیص کیا جاتا ہے، ٹیسٹ اگر مثبت آجائے تو فوری طور پر علاج شروع کیا جاتا ہے، اس مرض کے لئے کوئی مخصوص دوا تو دستیاب نہیں ہے، ڈاکٹر مریض کے جسم میں نمکیات پانی کی مقدار کو زیادہ کرتے ہیں اور ساتھ میں انہیں درد کو کم کرنے کی ادویات دی جاتی ہیں، ڈینگی ہمیرجک فیور میں پلیٹ لیٹس لگائی جاتی ہیں،اس مرض سے بچنے کا واحد حل احتیاط ہے.انسان خود کو مچھر کے کاٹنے سے بچائے۔
ڈینگی بخار سے بچنے کے لئے یہ احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں، سب پہلے تو کسی بھی جگہ پر پانی کھڑا نہ ہونے دیں، اگر پانی ذخیرہ کرنا ہو تو اس کو لازمی طور پر ڈھانپ دیں، گھر میں لگے پودوں اور گملوں میں پانی جمع نا ہونے دیں، کوڑاکرکٹ جمع نہ ہونے دیں، پرانے ٹائر خاص طور پر ان مچھروں کی آماجگاہ ہوتے ہیں انہیں گھر پر نا رکھیں، گھر میں پانی کی ٹینکی کو ڈھانپ کر رکھیں، باتھ روم میں بھی پانی کھڑا نا ہونے دیں اور اس کا دروازہ بند رکھیں، روم کولرز میں سے پانی نکال دیں، اسٹور کی بھی صفائی کریں اور وہاں بھی اسپرے کریں، اگر تب بھی مچھروں سے نجات نا ہو تو مقامی انتظامیہ سے اسپرے کی درخواست کریں۔
اپنی حفاظت کے لئےمچھر مار اسپرے استعمال کریں یا مچھربھگائو لوشن استعمال کریں، پورے بازو کی قمیض پہنیں اور جو حصہ کپڑے سے نا ڈھکا ہو جیسا ہاتھ ، پائوں، گردن وغیرہ وہاں پر لوشن لگائیں، گھر میں جالی لگوائیں اور بلاضرورت کھڑکیاں نا کھو لیں، ڈینگی کا مچھر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت زیادہ کاٹتا ہے، اس لئے اس وقت خاص طور پر احتیاط کریں، سوتے وقت نیٹ کے اندر سوئیںاورکوائیل کا استعمال کریں۔
ڈینگی کا علاج اگر بروقت شروع کروالیا جائے تو مریض جلد صحت یاب ہو جاتا ہے، اس بات کا خاص خیال رکھاجائےکہ مریض کوپانی ،جوس ،دودھ ،فروٹس اور یخنی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کروایا جائے، سیب کے جوس میں لیموں کا عرق بھی مریض میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے، اس کو ہرگز بھی اسپرین نا دی جائے۔
تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ستمبر، اکتوبر اور نومبر جو ڈینگی مچھر کے افزائش کے ماہ ہیں، ان میں متواتر اسپرے کروائیں، جہاں پانی کھڑا ہو وہاں پر خاص طور پر اسپرے بہت ضروری ہے۔
عوام میں اس مرض سے بچنے کے لئے آگاہی پھیلائیں، اسپتالوں میں ڈینگی بخار سے متعلق معلوماتی کائونٹر قائم کئے جائیں، اس مرض کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے اگر ان مچھروں کی افزائش نا ہونے دی جائے، 2011 جیسی صورتحال سے بچنے کے لئے تمام صوبائی حکومتوں اور مقامی حکومتوں کو کام شروع کردینا چاہئے۔
Javeria Siddique 
Twitter @javerias

یہ تحریر 2015 میں شائع ہوئی ۔

Posted in india, Javeria Siddique, Pakistan

شہزادہ، شہزادی اور سپہ سالار تحریر جویریہ صدیق

شہزادہ، شہزادی اور سپہ سالار

تحریر جویریہ صدیق

ایک دفعہ کا ذکر ہے دور دراز ایک ریاست تھی اس ریاست پر دو افراد کی حکمرانی تھی۔ایک شہزادہ اور ایک شہزادی ہر وقت لڑتے اور ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے کے بھی متحمل نہیں تھے ۔دونوں ایک دوسرے سے خائف رہتے تھے لڑتے جھگڑے اور اپنے دکھ  سپہ سالار کو سنانے پہنچ جاتے۔سپہ سالار بہت طاقت ور تھا۔شہزادہ اور شہزادی 

کبھی سپہ سالار سے مدد مانگتے، کبھی روتے تو کبھی شکایتیں کرتے۔جب بات نہ بن پاتی تو پڑوس کی ریاستوں کو خط لکھتے انہیں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے آگاہ کرتے ۔

دونوں ریاست کے مخلتف حصوں پر حکمرانی کرتے رہےلڑتے رہتے اور عوام بدحالی کا شکار ہونے لگے۔ شہزادے  اور شہزادی کو اچھے پکوان اچھے لباس اور اچھی سواری کا بہت شوق تھا۔یہ شوق عوام کی خون پسینے کی کمائی پر لگان لگا کر وصول کیا جانے لگا۔ریاست کے خزانے کو بے دریغ لوٹا جانے لگے۔عوام غریب سے غریب ہوتے گئے اور شاہی خاندان امیر سے امیر ہوتے ہوگے ۔شہزادے اور شہزادی نے جب یہ دیکھا کہ سپہ سالار کے تیور کچھ ٹھیک نہیں تو اپنی ناجائز دولت کا بہت سا حصہ کشتیوں میں چھپا کر دور سمندر پار پردیس منتقل کردیا۔شہزادے نے بھی جب تھوڑی طاقت حاصل کی تو اس نے شہزادی کو بہت تنگ کرنا شروع کردیا تو وہ حکمرانی چھوڑ کر چلی گئ اور دور کی ریاست میں آرام دہ زندگی بسر کرنے لگی۔

پھر وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا سپہ سالار ایک دن خود اقتدار پر قابض ہوگیا ۔ شہزادےکو ملک بدر کردیا ۔جان بچ گئ شہزادہ آرام سے اپنی دولت پر عیش کرنے لگے لیکن حکمرانی کی یاد انہیں ستاتی تھی۔سپہ سالار کے دور میں بدامنی میں اضافہ ہوگیا جب اس سے کچھ بن نہ پایا وہ حکومت کرنے کے لئے نہیں تیار کیا گیا تھا اسکا فرض ریاست کی حفاظت تھا۔جب معاملات ہاتھ سے نکل گئےتو اس نے شہزادہ اور شہزادی کو معاف کردیا اور واپس ریاست کی حکمرانی دے دی۔

اب شہزادہ اور شہزادی عمر رسیدہ ہوگےتھے اور اپنی اولاد کو حکمرانی کے لئے تیار کرچکے تھے۔شہزادی کے بچے نئے  سپہ سالار کو اپنا دوست گردانتے تھے لیکن شہزادے کے بچے اپنی سینا اور سپہ سالار سے خائف رہے ۔شہزادہ اور شہزادی کے خاندانوں میں دوستی بھی ہوگئ تھی تو دونوں نے طے کیا مل کر بانٹ کر کھائیں گے لیکن شکایتیں لے کر سپہ سالار کے پاس نہیں جائیں گے۔اس کے پاس اگر جنگ لڑنے کی طاقت ہے تو ہمارے پاس بھی دولت کی طاقت ہے جس سے کچھ بھی ممکن ہے۔

20190711_171945

دونوں شاہی خاندان امیر سے امیر ترین ہوتے گئے خوب دولت لوٹی دنیا کی کوئی ایسی ریاست نہیں بچی کہ انکی دولت موجود نہ ہو۔شہزادہ شہزادی کے خاندان کے پاس بہت سے محلات آگئے، انکے بچے دنیا کے مہنگے ترین لباس پہننے لگے ،سب سے مہنگی سواری میں سفر کرنا انکے لئے عام بات تھی۔کچھ لوگ سپہ سالار کو شکایتیں کرنے لگے لیکن سپہ سالار بیرونی ریاستوں کے خطروں کو بھانپ چکا تھا اور نیا سپہ سالار بدامنی اور سرحدوں پر شورش کو ختم کرنے میں لگا رہا ۔

پر کچھ سچ بولنے والے قلم کاروں نے شہزادہ شہزادی کی دولت کا پول کھول دیا ۔بس پھرکیا تھا شاہی خاندانوں میں آہ و پکار مچ گئ۔سپہ سالار کے آگے رونے لگے ہمیں معافی دلوائی جائے ۔تاہم معاملہ کوتوال میں تھا اور شاہی خاندانوں کے بہت سے شہزادے شہزادیاں قید ہوگے۔درباریوں سے مدد مانگی گئ تجوریوں کے منہ کھول دیے گئے وہ درباری سر جھاڑ منہ پھاڑ بین کرنے لگے کہ ہمارے شہزادے شہزادی معصوم ہیں انکو چھوڑ دو۔اگر انکو نہیں چھوڑا گیا ریاست تباہ ہوجائے گی۔

پھر ریاست کے وسط سے ایک اور شہزادہ نمودار ہوا اس نے سب کو امید دلائی کہ سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن ریاست کی قسمت ہی اچھی نہیں تھی۔اس شہزادے کی جیب میں بھی کھوٹے سکے تھے اور درباری اسکے دربار کا حصہ بن گئے اور ریاست میں روٹی 20 روپے کی ہوگئ ۔ ۔

Screenshot_20190711-171820_Chrome

Posted in Javeria Siddique, Pakistan

پاکستان توڑو مہم پی ٹی ایم

IMG-20190502-WA0080

تحریر جویریہ صدیق

پی ٹی ایم پاکستان توڑو مہم 
ڈیرہ اسماعیل خان کے کچھ نوجوانوں نے 2014 میں  پی ٹی ایم (  جس کا مطلب میرے مطابق پاکستان توڑو موومنٹ ہے) کی بنیاد رکھی اور وی او دیوا کے رپورٹر کے 2016 کے ٹویٹ میں آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان نوجوانوں کے ہاتھ میں جو جھنڈا ہے وہ آزاد پشتونستان کا ہے۔بعد ازاں رپورٹر نے تو اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا لیکن تصاویر ہر جگہ وائرل ہوگی۔
IMG-20190502-WA0084
ان تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ان تصاویر میں مرکزی قیادت منظور پشتین کررہا ہے جو پشتون تحفظ موومنٹ کا چیرمین ہے۔
یہ ایک چھوٹی سی غیر فعال تنظیم تھی اور اس کے رکن عہدیداروں کی تعداد صرف اتنی تھی کہ انگلیوں پر گن لی جائے ۔پھر کراچی میں ایک خوبرو جوان نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔یہ خبر منظر عام پر آتی ہی پاکستان کے تمام طبقہ فکر کے لوگ غم و غصے میں ڈوب گئے ۔ہر طرف سے مطالبہ آنے لگا کہ راو انوار کو سزا دو۔یہ وہ ہی راو انوار ہے جس کو پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری اپنا بچہ کہہ چکے ہیں ۔جہاں ایک طرف پاکستانی نقیب کے لئے انصاف کی جہدوجہد کررہے تھے دوسری طرف پاکستان توڑو موومنٹ نے سوچا اس معصوم لاش کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال دیا جائے اور اس قتل کو لسانیت ، قومیت اور فرقہ واریت کی رنگ دے دیا جائے ۔اس سب کی آڑ میں آزاد پشتونستان کا کام کیا جائے اور افغانستان بھارت سے اس ضمن مدد لی جائے ۔
کوئی بھی تحریک بنا پیسے کے تو نہیں چل سکتی اور وہ نوجوان جو پہلے میلے کچلے کپڑوں میں سڑکوں پر پھرتے تھے وہ یکدم قیمتی گاڑیوں میں آگئے ۔اب یہ پیسے کہاں سے آرہے تھے اور کیسے آرہے تھے اس پر سوال اٹھنے لگے۔ریاست کا دل اتنا بڑا ہے کہتے رہے ہمارے بچے ہیں یہاں تک کہ پی ٹی ایم کے دو ممبر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ کر اسبملی پہنچ گئے ۔پی ٹی آئی نے بھئ اتنا بڑا دل دکھادیا اپنے امیدوار کو دستبردار کرالیا کہ یہ ہمارے بچے اسمبلی آسکیں ۔ان سے میں سے ایک فوج کو گالیاں کھلے عام دیتا رہا اور پنجابیوں کو کالا کالا کہتا رہا۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر ریاست پاکستان اور فوج کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا جن کی بائیو میں پی ٹی ایم لکھا ہوتا لیکن اکاونٹ جلال آباد افغانستان اور کلکتہ انڈیا سے آپریٹ ہورہے ہوتے تھے۔ان اکاونٹس کا ایک ہی مقصد نقلی پشتون بن کر پاکستان اور فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرنا اور جعلی تصاویر شئیر کرکے یہ شور مچانا کہ فوج پشتون عوام پر ظلم کررہی ہے جبکے یہ تصاویر اکثر افغانستان کی نکلتی۔پاکستان کے محب وطن سوشل میڈیا صارفین ان جھوٹے اکاونٹس کا  پردہ چاک کرنا شروع ہوگئے ۔
IMG-20190502-WA0085
دوسری طرف پاکستان کا نام نہاد لبرل میڈیا این جی اوز والی خواتین اور اینٹی پاکستان نظریہ رکھنے والے صحافی تجزیہ نگار بھی اس تنظیم کا حصہ بن گئے اور ان کے جلسوں میں انکی مخصوص ٹوپی پہن کر پارٹی کارکنان کی طرح شرکت کرنے لگے ۔کچھ اپنی شناخت سے تنگ لبرل بنے کی کوشش میں سوشل میڈیا صارفین بھی ان ریلیوں میں جانے لگے کہ ملک کے خلاف بات کرکے ہمیں بھی کوئی فارن ٹرپ یا فارن فنڈنگ مل جائے ۔
اسکے ساتھ عالمی میڈیا وہ حصہ جو پاکستان مخالف ہے اور بھارت کے قریب ہے وہ بھی پی ٹی ایم کی حمایت میں کود پڑا ۔جس میں وی او دیوا ، وی او اردو ، بی بی سی اردو اور نیویارک ٹائم شامل رہا۔وائس آف امریکہ باقاعدہ فیس بک اور ٹویٹر پر سپانسر کرکے پی ٹی ایم کے رہنماوں کے انٹرویو نشر کرنے لگے۔سب کا مشترکہ یہ ہی پروپیگنڈا کہ پاکستان میں پشتونوں پر ظلم ہورہا ہے۔
IMG-20190502-WA0083
ویسے یہ سب لوگ کہاں تھے جب طالبان لوگوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔اب جب ضرب عضب اور رد الفساد کے بعد امن ہوگیا ہے تو اپنی گندی سیاست چمکانے کے لئے بلوں سے باہر گئے۔پی ٹی ایم ، غیر ملکی میڈیا اور آزاد پشتونستان کی سازش زیادہ دیر چھپی رہی اور سب کچھ کھل کر سامنے آنے لگا۔
دہشتگردی کی جنگ میں سب نے قربانیاں دی چاہئے فوج ہو عوام ۔پشتونوں سے اس لئے علاقے خالی کروائے گئے کیونکہ انکے ہوتے ہوئے شر پسندوں کے خلاف آپریشن نہیں ہوسکتا تھا۔چیک پوسٹ اس لئے بنائی گئ کہ ہم وطنوں اور غیر ملکیوں میں فرق معلوم ہوسکے کوئی دہشتگرد عوام میں نا گھس جائے ۔وطن کارڈ اس لئے بنایا کہ آپ کی شناخت میں آسانی ہو۔یہ سب آپ کی حفاظت کے لئے کیا گیا۔
اب آزاد پشتونستان کا نعرہ لگانے والے کس طرح پاکستانی پشتون کے حامی ہوسکتے ان کا ایجنڈا نفرت اور تشدد پر مبنی ہے۔یہ اس وقت شروع ہوا جب ملک میں امن ہوچکا ہے اور آپریشن والے علاقوں میں بحالی کا کام شروع ہوچکا ہے۔اس موقعے پر ایسی تحریک بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے۔اسکو سپورٹ کرنے والے 99 فیصد لوگ پاکستان مخالف ہیں ۔ان کا فیس بک ٹویٹر اور تجزیے دیکھ لیں انکا کام صرف پاکستان کو توڑنا ہے۔
ہم 71 میں نہیں تھے لیکن اب سازش سمجھ آگئ ہے کہ پاکستان توڑو مہم اور شیخ مجیب الرحمن کا طریقہ واردات ایک ہے۔پہلے رنگ نسل قومیت کا نعرہ لگا کر نوجوانوں کو ریاست کے خلاف کرو بعد میں الگ ملک کا مطالبہ کردو۔71 میں بھی بہت سے سیاست دان صحافی تجزیہ نگار انکو ناراض بچے کہتے ہوگے عالمی میڈیا انکو سپورٹ کرتا ہوگا اور پاکستان کے خلاف اس کی فوج کے خلاف جھوٹی کہانیاں اس طرح پھیلائی گئی جیسے آج پی ٹی ایم کے سوشل میڈیا اکاونٹس افغانستان عراق یمن کی تصاویر کے پی کے اور وزیرستان کی بنا کر شئیر کرتے ہیں ۔اس ہی پروپیگنڈے نے ہمارے ہم وطنوں کے حوصلے پست کئے ہوگے وہ تذبذب کا شکار ہو کر جنگ ہار گئے ملک ٹوٹ گیا ۔
پر اب 71 کی نہیں 27 فروری 19 کی تاریخ دہرائی جائے گی ۔دشمن کی ہر جنگ کو ناکام بنایا جائے گا چاہیے وہ فضا میں ہو،زمین پر ہو، پانی میں ہو ،میڈیا پر ہو یا سوشل میڈیا پر پاکستانی قوم اپنی فوج کے ساتھ دشمن کے دانت کھٹے کردے گی۔دشمن نے جنگ کی حکمت عملی تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ انفارمیشن کی جنگ آئی ایس پی آر جیت گیا۔آگے بھی ایسا ہی ہوگا۔
پی ٹی ایم کو غیر ملکی فنڈنگ مل رہی جس میں این ڈی ایس اور راء سرفہرست ہے۔اس میں افغانستان جلال آباد میں بھارتی قونصل خانہ سرفہرست ہے۔یہ تنظیم ریاست کے خلاف عناصر کے ساتھ رابطے میں ہے۔کل وائس آف امریکہ کا انٹرویو میں منظور پشین لکھا ہوا اسکرپٹ پڑھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا ہم اینٹی ٹیررسٹ تنظیم ہیں اور ہم دہشت گردوں اور ان سہولت کاروں کو آشکار کررہے کوئی پوچھے تم کیا سیکورٹی فورسز ہو تم کیا خفیہ ایجنسی ہو جو تمہیں یہ معلومات ہیں اور کیا  تم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی نہیں ۔
تم لوگ وہ ہو نقیب اللہ محسود کی لاش کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے گدھ کی نوچتے رہے ۔اس معصوم کے قتل کو اپنے آزاد پشتونستان کے ناپاک ارادے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہو۔جو چندے کے باکس ان کے جلسوں میں آتے ہیں اس میں اتنے پیسے بھی جمع نہیں ہوجاتے کہ ایپل کے ائیر پوڈ خریدے جاسکیں اس لئے پی ٹی ایم اپنی فنڈنگ کا حساب دیں ۔ افواج پاکستان کے ترجمان کے مطابق 22 مارچ 18 کو این ڈی ایس نے پی ٹی ایم کو پیسے دئے ،اسلام آباد میں پی ٹی ایم کے دھرنے کے لئے راء نے فنڈنگ دی،8 مئی 18 کو انڈین قونصل خانے نے طورخم ریلی کے لئے پیسے دئے۔
IMG-20190502-WA0086
جب پی ٹی ایم کے دو بڑے مطالبے مان لئے گئے جن میں مائنز کا ختم کرنا اور چیک پوسٹ ختم کرنا مان لئے گئے تو اب بھی وطن مخالف مہم کیوں ۔جہاں تک بات ہے راو انوار کی تو پی ٹی ایم بلاول اور آصف علی زرداری سے اس حوالے سے سوال کیوں نہیں کرتی۔جنوری 2018 کے دھرنے کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ روڈ سے لینڈ کروز پر آگئ متعدد دورے جلسے کئے ایک سال میں یہ نوٹوں کی بارش کیسے ہوئی اس پر یہ تنظیم جواب دہ ہے۔کوئی شخص اس ملک کے آئین سے اوپر نہیں ہے اگر کوئی شخص اس ملک کو توڑنے کی طرف گامزن ہے تو وہ غدار ہے لیکن آج کل کے مصلحت آمیز منافق دانشور انکو سماجی کارکن اور امن کا داعی کہتے ہیں ۔کیونکہ ان کا دین ایمان صرف پیسہ ہے ۔عدم تشدد کی تحریک کا لبادہ اوڑھ کر اصل میں آزاد پشتونستان کی سازش کی جارہی ہے ۔یہاں پر میں آپ سے سوال کرتی ہو آپ ملک کو توڑنے کی سازش کرنے والو کے ساتھ ہیں یا ملک کو جوڑ کر رکھنے والی فوج کے ساتھ ہیں ۔ میں ریاست کو گالی دینے والو کے ساتھ نہیں، میں ریاست کے خلاف کام کرنے والو کے ساتھ نہیں، جو افغانستان اور بھارت کے ساتھ مل کر ہمارے اداروں اور شہیدوں کو گالی میں اسکو امن کا داعی لیڈر نہیں قرار دے سکتی ۔
ہمارے پشتون نمائندے اس وقت اسمبلی میں موجود ہیں اس ملک کا وزیر اعظم وزیر دفاع سب پشتون ہیں وہ ہئ ہمارے نمائندے ہیں پی ٹی ایم ہماری نمائندہ جماعت نہیں ویسے بھی یہ الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹر نہیں یہ جماعت بھی نہیں ایک چھوٹی سی لسانی تنظیم ہے جو صرف نسل پرستی کو فروغ دے کر آزاد پشتونستان کا حصول چاہتی ہے ۔
Posted in Kitchen gardening, Pakistan, Uncategorized

موسم سرما کی سبزیاں اور گھریلو باغبانی

تحریر جویریہ صدیق

فیس بک پر آپ سب نے وہ ویڈیو تو دیکھی ہو گی جس میں ایک شخص کمال مہارت سے نقلی بند گوبھی بنا رہا ہے۔اسکے ساتھ ساتھ بہت بار دوکان دار سبزیوں پر رنگوں والے سپرے بھی کررہے ہوتے ہیں جس سے وہ تروتازہ نظر آئیں ۔اکثرہری سبزیوں میں ہرا رنگ کا کیمیکل ڈائی لگایا جاتا ہے دیگر سبزیوں پر چمک کے لئے گاڑی کی پالش والا اسپرے بھی کردیا جاتا ہے۔بہت سے کاشتکار بھی ایک مخصوص کیمکل کا انجیکشن سبزیوں کو لگا دیتے ہیں جس سے سبزیوں کا وزن بڑھ جاتا ہے۔دیکھنے میں یہ سبزیاں بہت تروتازہ لگتی ہیں لیکن اصل میں کیمکل کی وجہ سے زہر آلود ہو جاتی ہیں۔

یہ سب انٹرنیٹ پر دیکھ کر بہت سے لوگ خواہش کرتے ہیں کیوں نا ہم گھر پر کسی جگہ پر سبزیوں اگالیں۔کیمیکل اور سپرے سے پاک سبزیاں خود اگائیں اور مزے سے کھائیں ۔گھر میں سبزیاں لگا کر ہم آرگینک طریقوں سے صحت مند اور کیمیکلز سے پاک غذا کا حصول ممکن بنا سکتے ہیں۔تاہم بہت سے لوگ طریقہ کار سے واقف نہیں اس ہی لئے ہم گھر میں سبزیوں کی کاشت کے حوالے سے طریقہ کار شئیر کریں گے تاکہ سب گھر پر آسانی سے سبزیاں اگالیں ۔سب سے پہلے جگہ بیجوں کا انتخاب اور وہ سبزی جو گھر میں شوق سے کھائی جاتی ہو  زمین تیار کی جائے ۔اگر گھر پر لان یا اضافی زمین نہیں تو سبزیاں بڑے گملوں، بوتلوں کے کریٹ، پلاسٹک کے پاٹس میں بھی سبزیاں لگائی جاسکتی ہیں ۔موسم سرما میں ہم مٹر ،پالک ، ٹماٹر،بروکلی، شلجم ، سرسوں، سلاد پتہ ، شملہ مرچ، سپرنگ انین، چقندر، میتھی،لہسن،مولی، کدو، گاجر،آلو،سیلری، پیاز،پودینہ،میتھی،مرچ اور بند گوبھی لگا سکتے ہیں۔اسکے ساتھ ہربز جیسے منٹ،اورگینو،پارسلے،روزمیری اور تھائم گھر میں لگایا جاسکتا ہے۔تمام بیج اور پنیریاں بازار میں اسانی سے دسیتاب ہیں۔

مٹی کی تیاری اگر زمین میں سبزیاں لگانی ہوں تو مٹی کو دس سے بارہ انچ تک نرم کرے اُس میں گوبر کی پرانی کھاد، گلے سڑے پتوں کی کھاد یا گھر میں بنائی ہوئی کچن ویسٹ کھاد کا استعمال کریں،مٹی کی تیاری گملوں اور کریٹس کے لیے بھی ایسے ہی کرنی ہے۔اس کے بعد اگلہ مرحلہ بیج لگانے کا ہے مطلوبہ بیجوں کو تیار کردہ جگہ میں لگا کر پانی دیا جاتاہے ۔

جس جگہ بھی سبزیاں لگائی جائیں وہاں اس بات کا خیال کریں کہ وہاں ہوا کا گزر ہو اور سورج کی روشنی کا گزر 4 سے 5  گھنٹے ضرور ہو۔اگر سبزی زمین کے بجائے کریٹ یا گملے کی کیاری میں لگائی جارہی ہے تواس میں بوری یا کاٹن کا کپڑا بچھائیں ۔اس کے بعد میں تیار شدہ مٹی ڈالیں ۔جس میں کھیت یا نہر کی مٹی ، پرانے پتے اور گوبر کی کھاد وغیرہ شامل ہوتے ہیں ۔اگر اپ ایسی کھاد نہیں بنا سکتے تو نرسری سے تیار کھاداور مٹی خرید لیں ۔ ویسے گھر میں بھی اورگینک کھاد بنانا بہت آسان ہے۔ گھر میں روزمرہ میں بچ جانے والے پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے، بچا ہوا کھانا، پرانے  پتے، چائے کی استعمال شدہ پتی اور جانوروں کا فضلہ گوبر مٹی یا بند باسکٹ میں دباتے جائیں دو سے تین ماہ میں بہترین کھاد تیار ہوجائے گی۔ مٹی میں صرف ایک حصہ کھاد ملائیں۔ اب اس کھاد ملی مٹی میں آپ سبزیاں لگائیں۔

 سبزیاں لگانے کے بعد باقاعدگی سے گوڈی کریں ۔پودوں میں 18 انچ کا فاصلہ موزوں ہے.ان سبزیون کو کیڑوں سے بچانے کے لئے کوئی زہریلا اسپرے استعمال نہیں کیا جایے ، پانی میں ایک چمچ برتن دھونے کا لیکویڈ ، سرکہ اور مرچیں ملا کر پودوں پر سپرے کرتے ہیں کوئی کیڑا بھی پودوں کے نزدیک نہیں آئے گا۔

شروع میں چھوٹے اور کم پودوں کے ساتھ کام کا آغاز کریں۔ایک بعد یاد رکھیں کہ موسم کی سبزیاں موسم میں کھائیں اور بہت چمک دار سبزیاں نا خریدیں ۔کیمیکل والی سبزیاں معدے کی بیماریوں اور کینسر کا باعث ہیں۔

Posted in Army, media, Pakistan

میڈیا ، سیلف سنسر شپ اور جبری برطرفیاں

میڈیا ، سیلف سنسر شپ اور جبری برطرفیاں

جویریہ صدیق

20181018_205310

اسلام آباد:

 سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد جب میں نے شہدا پر کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا تو اندر ایک خوف تھا کہ کسی دن کوئی دیو قامت اہلکار گھر کا داخلی دروازہ توڑتے ہوئے آئیں گے اور میری گردن پر بوٹ رکھ کر مسودہ لے جائیں گے ۔انٹرویو کے دوران میں اکثر کہتی رہی کہ یہ مضامین دسمبر 2015 میں شائع ہوں گے لیکن کتاب کا تذکرہ کھل کر کسی سے نہیں کررہی تھی ۔کتاب کا ایک حرف حرف خود ٹائپ کیا۔ انگلیاں آنکھیں درد کرنے لگتیں لیکن بس یہ خوف طاری تھا بات باہر نکلی تو کتاب نہیں چھپ پائے گئ ۔کتاب بہت مشکل سے مکمل ہوئی کیونکہ جتنے لوگ اسلام آباد اور پشاور سے سانحہ کور کررہے تھے انہوں نے ایک نمبر تک شئیر کرنا گوارا نہیں کیا۔میں اپنی مدد آپ کے تحت پہلے خاندان تک پہنچی اور اسکے کے بعد ایک ایک کرکے بیشتر خاندان رابطے میں آگئے۔کتاب میں صرف یاداشتیں ہیں شائع ہوئی میں نے لواحقین کو تحفے میں دی اور کہا اتنی محنت میں نے کسی مقبولیت یا پیسے کمانے کے لئے نہیں کی ۔یہ میری طرف سے شہدا کے خاندانوں کے لئے ایک تحفہ ہے جس میں تمام شہدا کی تفصیل درج ہے اور انکی تصاویر شامل ہیں تاکہ تاریخ انہیں ہمیشہ یاد رکھے ۔

کتاب شائع ہوئے 3 سال ہوگئے لیکن مجھے کسی قسم کی دھمکی یا سنسر شپ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔کیونکہ وقت کے ساتھ حالات بدل بہت حد تک بدل گئے۔ضیاء دور ہماری نسل نے نہیں دیکھا سنا ہے اس دور میں بہت مظالم ہوئے بولنے کی آزادی نہیں تھی۔نواز شریف اور بے نظیر کے دو ادوار ہماری نسل کے بچپن کا دور تھا اس وقت سرکاری میڈیا، این ٹی ایم ، ریڈیو پاکستان، ایف ایم ون او ون ،ون ہنڈرڈ ، کارٹون نیٹ ورک  اور کچھ اخبارات اور رسالے شائع ہوتے تھے۔جس وقت پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو سب لوگ بہت ڈرے ہوئے تھے کہ پرویز مشرف بولنے لکھنے کی آزادی چھین لیں گے۔ان کے دور میں 3 نومبر کی ایمرجنسی اور میڈیا پر بندش رہی لیکن پرائیوٹ میڈیا کو آواز دینے کا سہرا بھی اس ہی آمر پرویز مشرف کو جاتا ہے۔۔

جس وقت میں نے اے ٹی وی پارلیمنٹ ڈائری کی میزبان کے طور پر جوائن کیا تو پی پی پی اقتدار میں آچکی تھی۔اس زمانے میں روز میڈیا کی عدالت لگتی تھی روز پی پی پی کا میڈیا ٹرائل ہوتا تھا اور وہ خندہ پیشانی سے اس سب کا سامنا کرتے رہے ۔کبھی کسی چینل اینکر یا رپورٹر کا بائیکاٹ نہیں کیا۔5 سال میڈیا ٹرائل اور عدالتی میڈیا کے ساتھ وہ مدت پوری گئے اور اگلی باری آئی مسلم لیگ ن کی ۔آمریت کی گود سے جنم لینے والی جماعت میڈیا کو کنٹرول کرنا بخوبی جانتی تھی۔اقتدار میں آتے ہی تنقیدی چینلز کے اشتہارات بند کردیے اور چینلز کا بائیکاٹ کردیا۔اپنے ناپسندیدہ اینکرز کو بین کرنے کے لئے ہزار جتن کئے۔دوسری طرف پی ٹی آئی نے دھرنے کےدوران مخالف میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیا ۔پرائیوٹ میڈیا بھی بالغ اور منہ زور ہوگیا اور کسی کے ہاتھ نہیں آرہا تھا۔دو ہزار چودہ کے بعد ہم نے میڈیا کے رنگ ڈھنگ بھی بدلتے دیکھے لیڈران کی نجی زندگی پر حملے ، ان کی شادیوں کی تاریخوں کا اعلان ازخود کیا جانے لگا ، کچھ کالم نگار بلاگرز ٹی وی چینلز  صحافی اینکرز پانامہ سکینڈل کے بعد باقاعدہ طور پر مسلم لیگ کے حصے کی مانند ان کے لئے مہم کرنے لگے کہ شریف خاندان بے قصور ہے ۔یہ دفاع اتنے روز و شور سے کیا جانے لگا کہ اصلی کارکنوں اور صحافیوں میں تفریق مشکل ہو گئ ۔نواز شریف دور میں من پسند چینلز پر اشتہارات کی بارش کردی گئ۔اپنے من پسند صحافیوں میں بھاری تنخواہوں کے ساتھ عہدے بانٹ دئے گئے اور یوں جمہوریت کے نام پر کرپشن کا دفاع شروع ہوگیا۔

ن لیگ کے متوالوں نے پانامہ کا ملبہ بھی آرمی آئی ایس آئی پر ڈالنے کی کوشش کی۔ جب اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو توپوں کا رخ عدلیہ کی طرف کردیا اور معزز ججوں کو متنازعہ کرنے کی کوشش کی گئ تاہم پاکستان کی عدلیہ نے تمام تر منفی مہم کے باوجود تاریخ ساز فیصلہ دیا ۔

میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز شریف  کے جیل جانے  کے بعد درباری میڈیا اور سوشل میڈیا ٹیم وقتی طور پر خاموش ہوگے ۔تاہم سوشل میڈیا پر درباری قلم نگار ،قومی سلامتی، فوج ، عدلیہ اور آئی ایس آئی کے خلاف ٹویٹس کرتے رہے ۔انکا صبح سے شام تک صرف ایک کام ہے وہ ہے کہ پاکستان کو عالمی دنیا کے سامنے متنازعہ کرنا ہے۔صبح سے شام تک یہ صرف منفی پہلو اجاگر کرتے ہیں جب کچھ نا ملے تو فوٹو شاپ تصاویر کے ساتھ کہانی گھڑ لیتے ہیں۔جب کہ پاکستان کا کوئی کھلاڑی تمغہ لے آئے کوئی پاکستانی عالمی ریکارڈ بنا لے تو ان دانشوروں کو لقوا مار جاتا ہے۔ 

آج کل مارکیٹ میں ایک اور سستا انقلابی نعرہ سامنے آیا وہ ہے سیلف سنسر شپ ۔یہ سب شروع کہاں سے ہوا جب کچھ آزاد پختونستان کا نعرہ لگانے والو نے نقیب محسود کے قتل کو اپنے عزائم اور مردہ سیاست میں روح پھونکے کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ۔پاکستان مخالف اور آرمی مخالف تقاریر شروع کردی گئ ۔اس پر کچھ صحافیوں نے فوری طور پر اس فتنے کا ساتھ دینا شروع کیا یہاں سے یہ نیا لفظ ایجاد ہوا سیلف سنسر شپ ۔اگر آپ کے ایڈیٹر کا ضمیر زندہ ہے اور وہ آپ پاکستان مخالف آرٹیکل شائع کرنے سے روک دیتا ہے یا آپ کا کرپشن کی حمایت میں لکھا مضمون اسکو صحافت کے اصولوں کے منافی لگتا ہے تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ کا آرٹیکل ردی کی ٹوکری میں چلا جاتا ہے۔

سنسر شپ پر میڈیا کے کچھ بڑے اتنا بول رہے ہیں کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی ۔ سنسر شپ بھی ایک کونے میں کانوں میں انگلیاں ٹھوس کر کہتی ہے دھیمابولو ، پہلے تولو پھر بولو اور کم ازکم سچ تو بولو ۔

اس وقت میڈیا ورکرز کے اوپر جو سب سے بڑی تلوار لٹک رہی ہے وہ میڈیا کے اندر سے ہی ہے باہر سے نہیں۔آپ کو کیا لگا سیلف سنسر شپ ان کے لئے سب سے بڑا خطرہ  ہے نا نا یہ تو باتیں آزادی صحافت کے تمغے لینے وغیرہ کے لئے پھیلائی جاتی ہیں ۔اصل سنسر شپ تو اس بات پر ہے کہ میڈیا میں اپنے ادارے میں جاری میڈیا ورکرز کے استحصال پر کچھ نا بولو۔آپ ٹویٹر کے کسی بھی صحافی دانشور کی ٹائم لائن پر اس سے مختلف میڈیا کے اداروں میں تنخواہ میں تاخیر اور جبری برطرفیوں کے حوالے سے سوال کریں وہ آپ کو جواب نہیں دیے گا لیکن ویسے وہ دانشور سارا دن مگرمچھ کے آنسو بہائے گا۔ 

اکثر یہ ہی میڈیا کے بڑے منٹوں میں مڈ کرئیر جونیئرز کو ادارے سے یہ کہہ کر نکلوا دیتے ہیں کہ یہ نکما ہے جبکہ وہ محنتی کارکن ہوتا ہے بس ان کچھ بڑوں کو انکی شکل پسند نہیں ہوتی ۔پھرمقافات عمل ہوتا ہے جب ان بڑوں

کومالکان کم ریٹنگ اور سفید ہاتھی ہونے پر نکال دیتے ہیں تو یہ مگرمچھ کے آنسو بہائے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت پسند ہیں نا اس لئے ہمیں نوکری سے نکال دیا ۔جبکے ان کچھ بڑوں کو آپ نے اداروں میں دیکھیں تو ان سے بڑا مطلعق العنان کوئی نہیں ۔

عام میڈیا ورکرز کی بات کی جائے تو میڈیا میں کوئی جاب سیکورٹی نہیں جب کسی بڑے کا دل کرے وہ چھوٹے کو لات مار کر باہر کردے گا۔بیورو میں جھاڑو پھیر کر محنتی رپورٹرز کو فالتو سامان کی طرح باہر کردیا جاتا ہےتب جمہوریت یا آزادی صحافت خطرے میں نہیں آتی۔خاتون اینکر شادی کرلے یا حاملہ ہوجائے اس نوکری خطرے کی زد میں آجاتی ایچ آر کے مطابق موٹی لڑکی کا بھلا ٹی وی پر کیا کام ؟۔جو بیچاری نوکری بچا بھی لے اسکا بچہ گھر میں اسکے بنا تڑپتا ہے کیونکہ بہت سے دفاتر میں نرسری نام کی چیز نہیں ۔اکثر سفارشیوں کی چاندی ہوجاتی اور محنتی لوگ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔جاب کے تو کوئی ٹائمنگ نہیں کہا جاتا ہے کہ آپ میڈیا میں ہوکر نو سے پانچ والی جاب چاہتے ہو ایسا تو ممکن نہیں۔پر جب سیلری کی بات آئے وہ فکسڈ رہتی ہے رپورٹر کیمرہ مین میڈیا ورکر اس امید پر بوڑھا ہوجاتا کہ شاید اب اسکی سیلری میں ایک صفر بڑھ جائے ایسا بمشکل ہوتا ہے بلکے ناممکن ہے۔

میڈیا کو حکومت سے بڑی بڑی رقوم اشتہارات کی مد میں ملتی رہیں لیکن تنخواہ کی بات کریں تو حالات بہت خراب ہیں آپ اپنی تنخواہ کیوں مانگ رہے ہیں زیادہ مسئلہ ہے تو دوسری جگہ چلے جائیں ورکرز خاموش ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے یہ نوکری گئ تو دوسری نہیں ملے گئ ۔نئ جاب اوپنگز تو آتی ہی نہیں ہر سال نئے گریجویٹس انٹرن شپ کے نام پر بیگار کی طرح کام کرتے ہیں اور آخر میں ادارے کی طرف سے ملنے والے سرٹیفکیٹ کو لے کر گھر بیٹھ جاتے ہیں ۔میڈیا میں کوئی معاشی بحران نہیں ہے۔

بس میڈیا مارکیٹ میں بہت سے چینلز آگئے اکثر نئے ٹی وی لانچ ہوکر فلاپ ہوجاتے ہیں بڑے ناموں کی وجہ سے چھوٹے بھی ادھر کا رخ کرتے ہیں ۔پر ہوتا کیا ہے بڑے صحافی فوری طور “اصولی” موقف اپناتے ہوئے ڈیل اور یوٹرن مار جاتے اور چھوٹے دربدر ہوجاتے ہیں نا نئے دفتر جوگے رہتے ہیں نا پرانے میں جانے کی جگہ ملتی ہے ۔بہت سے میڈیا ورکرز کو چھٹی نہیں ملتی، میڈیکل نہیں ملتا، فیول نہیں ملتا، تنخواہ نہیں ملتی لیکن پھر بھی میڈیا ورکر اس انڈسٹری کو اپنے پتھر باندھے پیٹ اور کمزور کندھوں پر لے کر چل رہا ہے ۔اس سب پر وہ لوگ کیوں نہیں کچھ بولتے جو اس ملک میں آزادی صحافت کے چمپیئن بنے پھر رہے انہوں نے خود پر کیا سیلف سنسر شپ عائد کرلی ہے کہ صحافی بھائی کے لئے تو نہیں بولنا۔ ویسے تو بہت بولتے ہیں اتنا بولتے ہیں کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی سیاسی لیڈر کی چپل چادر بیگ آنسو چشمے مسکراہٹ لباس ہر چیز پر بولتے ہیں لیکن بس صحافی کے لئے نہیں بولتے۔میڈیا میں، سنسر شپ، تنخواہوں میں تاخیر اور جبری برطرفیوں کی زمہ دار حکومت، آرمی اور آئی ایس آئی نہیں خود میڈیا مالکان ، انتظامیہ ،اور میڈیا کے بڑے ہیں ۔ میڈیا کے درد کا مداوا کون کرے گا جب پی ایف یو جے خود تین حصوں میں تقسیم ہوچکی ہو۔جب صحافی خود جھوٹ بولیں کہ انہیں جمہوریت کا ساتھ دینے پر نکال دیا گیا جبکہ اصل وجہ یہ ہوکہ سیٹھ یا مالکن کو اپنا کاروباری مفاد عزیز ہو۔ وہ ادارے میں ڈوان سایزنگ کرے اور الزام آپ ایجنسی پر لگا دیں یہ تو صحافتی بددیانتی ہے۔میڈیا کے حالات خراب نہیں حالات صحافیوں کے خراب ہیں انہیں چاہیے کہ سچ بولیں اور میڈیا کی سیاست کو عیاں کر دیں ۔
ہر چیز کی زمہ داری فوج پر ڈال معاملات حل نہیں ہوگے مسئلے کا حل اپنی صفوں میں تلاش کریں۔