Posted in health, human-rights, Pakistan, Uncategorized, ،خصوصی_افراد

 

 

پاکستان ڈائری-11

پاکستان ڈائری-

11

عمارہ انور پاکستان کی ایک باہمت بیٹی ہے۔عمارہ پیدائشی طور پر نابینا ہیں لیکن عمارہ نے اپنی تعلیم اور ترقی کی راہ میں اسکو کبھی حائل نہیں ہونے دیا۔انیس سو ستاسی میں پیدا ہونے والی عمارہ نے تمام تعلیم عام اداروں میں حاصل کی

17.03.2016 ~ 25.10.2016

پاکستان ڈائری-11

 
 
00:00/05:23

عمارہ انور پاکستان کی ایک باہمت بیٹی ہے۔عمارہ پیدائشی طور پر نابینا ہیں لیکن عمارہ نے اپنی تعلیم اور ترقی کی راہ میں اسکو کبھی حائل نہیں ہونے دیا۔انیس سو ستاسی میں پیدا ہونے والی عمارہ نے تمام تعلیم عام اداروں میں حاصل کی ۔ایف اے ایف سیون ٹو کالج اور بی بی اے اورایم بی اے کی ڈگری نمل یونیورسٹی سے حاصل کیااوراب جاب کررہی ہیں۔

میں نے خود زمانہ طالب علمی میں عمارہ کو بہت قریب سے دیکھا ہماری ملاقات اکثر تقریری مقابلوں میں ہوا کرتی تھی۔عمارہ زمانہ طالب علمی سے ہی بہت کانفیڈینٹ اور انڈیپنڈنٹ رہی ہے۔عمارہ نے کبھی اپنے لئے ہمدردی کو پسند نہیں کیا وہ بھی باقی طالب علموں کی طرح ہر چیز میں حصہ لیتی۔اکثر کالج اور یونیورسٹی کے لئے تقریری مقابلوں میں انعامات جیت کر آتیں۔ عمارہ اس وقت پاکستان فاونڈیشن فائٹنگ بلائنڈنس کے ساتھ منسلک ہیں۔

عمارہ کہتی ہیں کہ جب سے میرا جنم ہوا میں نے اپنی فیملی کو بہت سپورٹو پایا۔ ریٹینا ڈی ٹیچمنٹ کی وجہ سے میں دیکھ نہیں سکتی اورمیرا بھائی بھی نہیں دیکھ سکتا۔میرے والدہ اور والد نے جس قدر ہم پر محنت کی ہماری تعلیم اور صحت کا خیال رکھا وہ الفاظ میں بیان کرنے سے میں قاصر ہوں۔میرے والدین نے مجھے خود مختار بنایا مجھے ہمدردی سیمٹنے کا کوئی شوق نہیں میں پڑھی لکھی پاکستانی ہوں اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہوں

زمانہ طالب علمی کی تصاویر

عمارہ اپنے دور طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں نے ابتدائی تعلیم فیصل آباد میں حاصل کی اس کے بعد تمام تعلیم اسلام آباد میں حاصل کی۔مجھے ہمیشہ استاتذہ اور کلاس فیلوز نے مثبت رسپانس دیا۔میں نے تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا اور سکول کالج میں تقریری مقابلوں میں انعامات جیتے۔میری والدہ ہمیں خود پڑھاتی ہماری صلاحیتوں پر کام کرتیں۔وہ خود استاد رہیں ہیں تو انہوں نے جدید تکینک کےساتھ مجھے اور میرے بھائی کو پڑھایا۔

مسٹر اینڈ مسز انور

ایف اے تک تو میرے ساتھ پیر لکھنے کے لئے کوئی ہیپلر ہوتا تھا لیکن بی بی اے ایم بی اے میں کمپیوٹر کی مدد سے میں نے خود ٹائیپنگ کرکے پیپر دیے۔ماڈرن ٹیکنالوجی نے زندگی کو بہت آسان بنا دیا۔مجھے یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں تو اتنی ٹیکنالوجی عام نہیں تھی تو میرے والدین مجھے اور میرے بھائی کو بریل اور آڈیو کی مدد سے پڑھاتے تھے۔پر اب ہم فون ٹیبز اور لیپ ٹاپ کی مدد سے بہت آسانی کے ساتھ بہت سا کام کرجاتے ہیں۔

عمارہ کہتی ہیں کہ میرے والدین نے ہمشہ ہمیں عام تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائی کیونکہ وہ ہمیں معاشرے سے کاٹ کر نہیں رکھنا چاہتے تھے۔میں نے صرف تین سال سپیشل تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کی اس کے بعد صرف عام اداروں میں زیر تعلیم رہی۔اس کا مجھے بہت فائدہ ہوا۔وہ والدین غلط کرتے ہیں جو اپنے فزیکل چیلنجڈ بچوں کو ایک کمرے کی حد تک محدود کردیتے ہیں یا انہیں لوگوں سے چھپاتے ہیں۔دنیا کے ہر شخص میں کچھ نا کچھ کمی ہے کوئی بھی اس دنیا میں پرفیکٹ نہیں۔

عمارہ کہتی ہیں کہ خود کو ہمدردی کا مرکز بنانے سے بہتر ہے کہ انسان محنت کرے اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈالے۔میں دیگر لوگوں کی طرح تمام مسائل کا مقابلہ کرکے محنت کررہی ہوں ۔مشکلات کس کی زندگی میں نہیں آتی سب کی زندگی میں آتی ہیں بس ہمیں ان کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔میں اس وقت پاکستان فاونڈیشن فائٹنگ بلائنڈنس کے ساتھ پروگرام اسپیشلیسٹ کے طور پر کام کررہی ہوں اور ہمارا کام بنیائی سے محروم لوگوں کے لئے مختلف پراجیکٹس پر کام کرنا ہے۔جس میں آن لائن لائبری آڈیو ورلڈ اور آئی ٹی ریسرچ شامل ہے۔

عمارہ کہتی ہیں والدین کا رول بہت اہم ہے سب سے پہلے اپنے خصوصی بچوں کو پیار دیں ۔ان پر بھی انویسٹ کریں جیسے اپنے دیگر بچوں پر بھی کام کرتے ہیں۔خصوصی بچوں پر محنت کریں وہ کسی گناہ کا نتیجہ نہیں ہیں۔وہ فزیکلی چلینجڈ لیکن بلکل نارمل ہیں اللہ تعالی کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں۔سب ایسے بچوں کو تھوڑا زیادہ ٹائم اور زیادہ پیار کریں۔ان کے استاتذہ سے ملیں ان کے ساتھ مل بچوں کی زندگی آسان بنائیں۔ان کے مشاغل میں دلچسپی لیں اور ان کے ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے لئے والدین اور استاتذہ ان کا بھرپور ساتھ دیں۔اس طرح یہ بچے معاشرے کے کارآمد شہری بن جائیں گے۔

http://www.trt.net.tr/urdu/slslh-wr-prwgrm/2016/03/17/pkhstn-ddy-ry-11-452891

 

 

 

 

 

 

 

 

Posted in lifestyle, Pakistan, Uncategorized

ماں کا دودھ بچے کیلئےمکمل غذا

 

ماں کا دودھ بچے کیلئےمکمل غذا
Posted On Wednesday, August 19, 2015
….. جویریہ صدیق…..
پیدائش کے بعد سے چھ ماہ تک بچے کے لیے ماں کا دودھ مکمل غذا ہے،اس میں قدرتی طور وہ تمام اجزا شامل ہوتے ہیں جو بچے کی پرورش اور نگہداشت کے لیے ضروری ہیں۔جو بچے ماں کا دودھ پیتے ہیں وہ مختلف بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں،ان میں قوت مدافعت بھی زیادہ ہوتی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق ماں کا دودھ پینے والے بچے دیگر بچوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہوتے ہیں،ان بچوں کا آئی کیو اور کارکردگی ’فارمولا ملک‘ پینے والے بچوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ماں کا دودھ بچے کو نمونیا، کھانسی نزلے، دست،قبض،پیٹ کہ بیماریوں اور بدہضمی کے خلاف قوت مدافعت دیتا ہے۔

بچے کی پیدائش کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر بچے کو پہلی دودھ کی خوراک دیے دینی چاہئے،ابتدائی طور پرر زردی مائل دودھ نکلتا ہے اس کو کولسٹرم کہتے ہیں،جسے بالکل ضائع نہیں کرنا چاہیے،یہ غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے اور بچے کے لئے بہت مفید ہے،شروع میں بچے کو دودھ پلانے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا،بچہ رو کر اپنی بھوک کا اظہار کرتا ہے اور ماں کو اس ہی وقت بچے کو دودھ پلانا چاہیے.لیکن چھ ماہ کے بعد یہ روٹین بدل جاتی ہے اور دودھ کے ساتھ بچے کو ہلکی غذا شروع کروادی جاتی ہے تو بچہ چوبیس گھنٹے میں صرف آٹھ سے دس بار دودھ پیتا ہے۔

ماں کے دودھ میں چکنائی وٹامن معدنیات اور کاربوہائیڈریٹس موجود ہیں،ماں اس بات کا خیال کرے کہ وہ اپنے آپ کو صاف رکھے اور غسل کا باقاعدگی سے اہتمام کرے،بچہ بار بار دودھ مانگتا ہے اس لیے ماں کو اپنی خوراک کا بھی خاص خیال رکھے.ماں کو چاہیے وہ پھل سبزیوں دودھ اور پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرے، کیونکہ بچہ اپنی تمام غذائیت ماں سے لیتا ہے۔

تمام مائوں کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ بچوں کو اپنا دودھ پلائیں ڈبے کا دودھ پینے والے بچے بار بار بدہضمی اور ڈائریا کا شکار ہوجاتے ہیں،کیونکہ تمام تر احتیاط کے باوجود پانی اور فیڈر کی وجہ سے جراثیم بچے کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں جو ان کو بیمار کرتے ہیں،اس کی نسبت ماں کا دودھ پینے والے بچے کم ہی انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں،دودھ پلانے والی ماں کا وزن بھی دوبارہ کم ہوجاتا ہے،اس کے ساتھ دوسرے بچے کی پیدائش میں قدرتی وقفہ بھی آجاتا ہے،دودھ پلانے والی خاتون میں چھاتی کے کینسر کا امکان بھی کم رہ جاتا ہے۔

ماں بچے کو دس سے پندرہ منٹ تک چھاتی کے ساتھ لگائے رکھے صحت مند بچے جلدی اور کمزور بچے آہستہ دودھ پیتے ہیں،ماں بچے کو لیٹ کر بھی اور بیٹھ کر بھی دودھ پلا سکتی ہے،بچے کو مکمل طور پر ماں کے قریب ہونا چاہیے۔ دودھ پلانے کے بعد بچے کو ڈکار دلائی جائے تاکہ پیٹ میں جانے والی ہوا باہر آجائے اور بچہ بے آرام نا ہو۔

بچے کو دو سال تک دودھ پلانا بہترین ہے لیکن چھٹے ماہ میں اسے ہلکی ٹھوس غذا بھی شروع کروادینی چاہیے،جس میں سوجی، ساگودانہ، کھچڑی، کھیر ،پھل پیس کر اور تازہ جوس وغیرہ شامل ہیں،لیکن شروع میں ٹھوس اجزاء بہت کم مقدار دیئے جائیں کیونکہ زیادہ دینے سے بچہ بیمار ہوسکتا ہے،آہستہ آہستہ ٹھوس غذا کو بڑھایا جائے بچہ خود ہی ماں کا دودھ پینا کم کردیتا ہے۔

اس دوران اگر دودھ پلانے والی ماں اپنی چھاتیوں میں تکلیف محسوس کرے تو فوری طور پر ڈاکٹر یا لیڈی ہیلتھ ورکرز کو معائنہ کروائے،دودھ پلانے والی ماں اپنے آپ کو صاف رکھے .آرام کرے اور اپنی غذائیت کا خیال رکھے،ہر سال آٹھ لاکھ سے زائد بچے اپنے پانچویں سالگرہ نہیں دیکھ پاتے،ان میں زیادہ تر بچے پیٹ کی بیماروں نمونیا ڈائریا کے باعث اپنی جان سے جاتے ہیں،ان بیماریوں کی بڑی وجہ گندا پانی اور فیڈر کے ذریعے سے جانے والے جراثیم ہیں،ماں کے دودھ سے آٹھ لاکھ میں سے ایک چوتھائی بچوں کی جان بچائی جاسکتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق بچے کو چھ ماہ تو ماں کا دودھ لازمی طور پر پلایا جائے،تاہم پاکستان میں بوتل سے دودھ پلانے کا رواج زیادہ ہے اور بریسٹ فیڈنگ کم ہے،اس کو فیشن کہیں رواج یا گھر والوں کا عدم تعاون کہ بہت سی خواتین بچوں کو فیڈر لگا دیتی ہیں۔

2002 میں بریسٹ فیڈنگ اور چائلڈ نیوٹریشن آرڈیننس پاس کیا گیا ہے لیکن اس پر عملدرآمد نظر نہیں آتا،نا ہی خواتین کو اس کی افادیت کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے نا ہی انہیں ایسا ماحول دیا جاتا ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلاسکیں،ملازمت پیشہ خواتین کوایسی کوئی سہولت نہیں دی جاتی کہ وہ اپنا شیر خوار بچہ دوران ملازمت ساتھ رکھ سکیں،اس وجہ سے مائیں اپنے بچوں کو فارمولا ملک اور فوڈ شروع کروادیتی ہیں۔

اگر ہم صحت مند ماں اور صحت بچے کی بنیاد پر معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس قدرتی نظام کو عام کرنے کے لیے بات کرنا ہوگی،بچے اگر اپنی ماں کا دودھ پئیں گے تو وہ صحت مند ہوں گے اور خود ماں بھی متعدد بیماروں سے محفوظ رہے گی،اس لیے خواتین کو دوران ملازمت ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ وہ اپنے شیرخوار بچوں کی ضروریات کو پورا کرسکیں۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
twitter @javerias

Posted in Pakistan, Uncategorized, ZarbeAzb

بچوں کے کھلونے ٹوٹ گئے

بچوں کے کھلونے ٹوٹ گئے
Posted On Monday, March 28, 2016
۔۔۔ جویریہ صدیق ۔۔۔۔ کل پھر عالم برزخ میں معصوم نہتے پاکستانی بچوں کا ایک غول اڑ کر پہنچا ۔یہ معصوم سوچ رہے ہیں ہم تو پارک میں مزے سے جھولے لئے رہے تھے ابھی تو پاپ کارن ، بھنے چنے ،برگر ،آئیس کریم اور میٹھے لچھے کھانا باقی تھے ۔ابھی تو کشتی کی سیر کرنی تھی چڑیا گھر بھی جانا تھا پر ایک زور دار آواز کے بعد ہم سب بچے رونے لگے پھر ہم یکدم یہاں کیسے آگئے امی ابو کہاں گئے۔

ایک بچہ دوسرے بچے سے کہنے لگا میں نے کوئی ضد بھی نہیں کی تھی نا کسی چیز کی فرمائش پھر بھی ہم یہاں کیسے آگئے۔دوسرے بچے نے کہا میرے امتحان ابھی ختم ہوئے تھے 31 مارچ کو میرا نتیجہ آنا تھا میں تو خود فرمائش کرکے پارک آیا تھا کیونکہ میں نے ماما پاپا کو بتا دیا تھا کلاس میں اس بار میں ہی فرسٹ آوں گا۔ میں گلشن اقبال پارک آیا خوب کشتی کی سیر پھر یکدم دھماکہ ہوا ہر طرف شور آگ اور مٹی کا طوفان پھر مجھے کچھ یاد نہیں۔دہشت گرد گندے ہیں وہ کبھی ہمارے سکولوں تو کبھی پارکوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

تیسرا بچہ بولا جب میں بڑے گول والے ویل میں بیٹھا تھا تو سب کچھ کتنا اچھا لگ رہا تھا جب جھولا یکدم نیچے آتا تو مجھے کتنا ڈر لگتا لیکن نیچے ہاتھ ہلاتے امی ابو کو دیکھ کر میں بہادر بننے کی کوشش کرتا اور چہرے پر خوف کو طاری نا ہونے دیتا کیونکہ میں خود فرمائش کرکے گلشن اقبال پارک جو آیا تھا۔مجھے معلوم تھا امی ابو مجھے مالز میں بنے مہنگے انڈور پارکس میں نہیں لئے کر جاسکتے وہاں جھولوں کے ٹکٹ مہنگے جو ہوئے۔

آج اتوار کا دن تھا اور ایسٹر بھی میری طرح بہت بچے پارک میں مزے کر رہے تھے۔کوئی جھولے لئے رہا تھا کوئی دوڑ لگا رہا تھا تو کوئی مزے مزے کی چیزیں کھا رہا تھا۔ہم سب خوشی سے کبھی ایک جھولے تو دوسرے جھولے پر جارہے تھے۔بس یکدم ایک آواز آئی ہر طرف چیخ و پکار مچ گئ ۔میرے سارے پسندیدہ جھولے ٹوٹ گئے۔جو دوست میں نے پارک میں آکر بنائے تھے وہ سب خون سے نہا گئے۔مجھے امی ابو بھی نہیں مل رہے تھے اور میں کب یہاں پہنچ گیا معلوم نہیں۔

ان لاہور کے بچوں کے پاس اے پی ایس پشاور کے بچے آکر پوچھنے لگے ہم تو سمجھ رہے تھے کہ ہماری قربانی کے بعد شاید پاکستان میں آگ و خون کا کھیل رک گیا ہوگا ۔شاید ہمارے جانے کے بعد انکل نواز نے انکل راحیل اور انکل عمران کے ساتھ مل کر دہشتگردی کا خاتمہ کردیا ہوگیا۔کیا آج بھی پاکستانی متحد نہیں کیا آج بھی دہشتگردوں کو اچھے برے کی تفریق سے جانا جاتا ہے۔کیا آج بھی دہشتگرد ہمارے معصوم بچوں کو نشانہ بناریے ہیں۔

لاہور اور پشاور کے شہید بچے پھر سسکتے ہوئے دعا کرنے لگے کہ اے اللہ پاکستانیوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کر۔ پاکستانی اپنے اصل دشمنوں کو پہچان سکیں اور اپنے بچوں کو دہشتگردی سے محفوظ رکھ سکیں ۔پھر کوئی والدین اپنے بچوں کو دہشتگردی میں ہمیشہ کے لئے کھو دینے کے کرب سے نا گزرے جس سے ہمارے والدین گزر رہے ہیں۔پھر کبھی کسی بچے کا بستہ خون سے تر نا ہو پھر کسی بچے کے پسندیدہ جھولے نا ٹوٹیں ۔ آمین

Posted in health, Pakistan, Uncategorized

زکا وائرس

 

زکا وائرس
Posted On Wednesday, February 03, 2016
… جویریہ صدیق … زکا وائرس اڈیس مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔یہ وہی مچھر ہے جس کے باعث ڈینگی بخار اور زرد بخار پھیلتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کے مطابق 1947 میں پہلی بار یوگنڈا میں اس کا پہلا کیس سامنے آیا۔حال ہی میں برازیل میں اس کی وبا پھوٹ پڑی ہے اس کے ساتھ یہ جنوبی امریکا کے 20 ممالک میں پھیل گیا ہے۔اس سے سب سے زیادہ خطرہ حاملہ خواتین کو ہے ۔ زکا وائرس کی شکار خواتین کے بچے چھوٹے سر کے ساتھ پیدا ہورہے ہیں۔

پھیلاو :

زکا وائرس ایک مخصوص مچھر aedes aegypiti کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔اڈیس مچھر صبح سویرے اور شام کے اوقات میں کاٹتا ہے۔یہ مچھر صاف پانی پر پرورش پاتا ہے۔یہ مچھر زیادہ تر گھروں میں افزائش پاتا ہے.اس مچھر کی ایک مخصوص پہچان ہے اس کے جسم پر سیاہ سفید نشان ہوتے ہیں. یہ مچھر زیادہ تر گرم مرطوب علاقوں میں پایا جاتا ہے.

انسانوں سے انسانوں میں منتقلی

بنیادی طور پر تو یہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔کچھ کیسز میں متاثرہ شخص کے خون کے ذریعے سے یہ صحت مند انسان میں منتقل ہوسکتا ہے ۔اگر مریض کا خون یا استعمال شدہ سرنج یا اس کے ساتھ دوران بیماری جنسی ملاپ کیا جائے ۔زکا وائرس جسم میں صرف ایک ہفتے تک رہتا ہے پھر ختم ہوجاتا ہے۔

علامات :

اس کی علامات میں بخار،جوڑوں میں درد، آنکھوں کا سرخ ہونا،جسم پر لال دھبے ،سر درد شامل ہے ۔کچھ لوگوں میں تو یہ علامات عام زکام کی طرح آتی ہیں ان کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ زکا وائرس کا شکار ہوگئے ہیں۔

احتیاطی تدابیر :

اس وائرس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خود کو مچھر کے کاٹنے سے محفوظ رکھے۔ان کی افزائش کو ختم کیا جائے۔مکمل لباس پہنا چاہیے تاکہ مچھر کے کاٹنے سے محفوظ رہیں۔پانی نا کھڑا ہونے دیں۔فالتو سامان کو پھینک دیں۔ پرانے ٹائر گھر سے نکال دیں.اگر پانی ذخیرہ کرنا ہو تو اس کو لازمی طور پر ڈھانپ دیں.گھر میں لگے پودوں اور گملوں میں پانی نا جمع نا ہونے دیں پرانے.باتھ روم میں بھی پانی کھڑا نا ہونے دیں اور اس کا دروازہ بند رکھیں.روم کولرز میں سے پانی نکال لیں۔

اپنی حفاظت کے لئےمچھر مار اسپرے استعمال کریں یا رپلینٹ کا استعمال کریں .گھر میں جالی لگوائیں اور بلا ضرورت کھڑکیاں نا کھو لیں. ڈینگی کا مچھر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت زیادہ کاٹتا ہے اس لئے اس وقت خاص طور پر احتیاط کریں.سوتے وقت نیٹ کے اندر سوئیں.کوائیل کا استعمال کریں.

علاج :

اس بیماری کے لئے کوئی مخصوص علاج نہیں ہے۔نا ہی ویکسین دستیاب ہے ۔بس مریض کو بہت سا پانی پلایا جائے،تازہ پھلوں کے جوس اور سوپ ۔اس کے ساتھ درد کم کرنے کے لئے ادویات۔مریض کو آرام کروایا جائے۔یہ جان لیوا بیماری نہیں ہے۔

حاملہ خواتین اور زکا وائرس :

اگر حاملہ خواتین کو زکا وائرس ہوجائے تو ہونے والے بچے کے اعصاب کو متاثر کردیتی ہے۔بچےmicrocephaly کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کا سر چھوٹا رہ جاتاہے۔ برازیل میں اب تک 270 سے زاید بچے چھوٹے سر کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے اسے ایبولا کی طرح ایمرجنسی قرار دیا ہے۔ماہرین کے مطابق حاملہ خواتین کو لاطینی امریکا کے ممالک سفر سے گریز کرنا چاہیے۔

زکا وائرس صرف ایک ہفتے تک جسم میں رہتا ہے ۔اس کے بعد ختم ہوجاتاہے۔لیکن اس کے پھیلاو سے عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کو بہت تشویش ہے۔اس کی کوئی ویکسین تو موجود نہیں اس لئے احتیاط ہی میں اس کا علاج ہے۔خاص طور پر حاملہ خواتین کو ان علاقوں میں جانے سے پرہیز کرنا چاہیے جہاں زکا کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Twitter @javerias

Posted in human-rights, Pakistan, Uncategorized

معاشی بدحالی کا شکار اساتذہ

معاشی بدحالی کا شکار اساتذہ‎
Posted On Sunday, December 20, 2015
  ……جویریہ صدیق…..
چونتیس روز سے شہر اقتدار کے اساتذہ ڈی چوک میں بیٹھے ہیں لیکن ان کوئی شنوائی ہی نہیں،یہ اساتذہ کسی دور دراز علاقے سے تعلق نہیں رکھتے یہ سب اساتذہ اسلام آباد میں واقع ماڈل کالجز میں پڑھاتے ہیں.بہت سے اساتذہ پی ایچ ڈی، ایم فل اور ڈبل ماسٹرز ہیں لیکن ملازمت کرتے ہوئے سات آٹھ سال ہونے کے باوجود یہ اب بھی ڈیلی ویجز پر کام کررہے ہیں،دوسرے الفاظ میں کہا جائے یہ بھی دیہاڑی دار مزدور ہیں کام پر آئے تو چار سو روپے یومیہ مل جائیں گے نہیں آئیں گے تو تنخواہ میں پیسے کٹ جائیں گے۔

یہ کہاں کا انصاف ہے ایم فل اور ایم ایس سی اساتذہ کو صرف بارہ تیرہ ہزار ماہانہ تنخواہ پر رکھا جائے اور ملازمت کرتے ہوئے پانچ چھ سال گزارنے کے باوجود نا ہی ان کی تخواہ میں اضافہ کیا گیا اور نا ہی کوئی مراعات ملیں، پھر بھی ڈیلی ویجز پر اساتذہ پوری لگن کے ساتھ بچوں کو پڑھاتے رہے لیکن صبر کا پیمانہ جب لبریز جب مارچ کے بعد ان کو تنخواہ ملنا بند ہوگئ،جب گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے تو اساتذہ مجور ہوکر گھر سے نکلے اور احتجاج کرنے لگے۔

34 روز سے یہ اساتذہ سخت سردی میں احتجاج کررہے ہیں لیکن حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی، احتجاج کرنے والی ٹیچر فاطمہ جنہوں نے مطالعہ پاکستان اور انگریزی ادب میں ماسٹر کر رکھا ہے کہتی ہیں کہ میں پانچ سال سے ملازمت کررہی ہوں لیکن میری تنخواہ کسی ڈرائیور سے بھی کم ہے یہ نا انصافی ہے یا نہیں،ہم ایک ایک کلاس میں چالیس سے پچاس بچوں کو پڑھاتے ہیں لیکن حکومت کو ہمارا احساس ہی نہیں۔

ڈیلی ویجز پر کام کرنے والی اسلامیات کی استاد نازش رحیم کہتی ہیں کہ عدالتی احکامات آنے کے باوجود ہمیں ریگولر نہیں کیا جارہا، ہم بیوروکریسی کے ہاتھوں خوار ہونے کے بعد اب سڑک کر بیٹھ کر اپنے حق کے لئے احتجاج کررہے ہیں،کیڈ کے وزیر طارق فضل چوہدری جب تک وزیر نہیں بنے تھے ہمارے مطالبات سنے آئے لیکن وزیر کا قلمدان ملتے ہی ان کا بھی کچھ نہیں پتہ۔

ثناء ناز ایم ایس سی فزکس ہیں وہ کہتی ہیں کہ میری تنخواہ صرف دس ہزار ہے وہ بھی آٹھ ماہ سے نہیں ملی، بلدیاتی الیکشن میں بھی ہم نے ڈیوٹی دی لیکن ویسے ہمیں اس تعلیمی نظام کا حصہ نہیں سمجھا جاتا اور اب تک ہم مستقل نہیں ہوئے۔

ایم فل انگلش لٹریچر استاد عظمیٰ کہتی ہیں کہ سڑک پر بیٹھنا آسان نہیں لیکن ہم مارچ سے تنخواہوں سے محروم ہیں، معاشی بدحالی ہمیں آج سڑک تک لئے آئی ہم نے ریگولر اساتذہ کے ساتھ مل کر سات آٹھ سال سے بچوں کی تعلیمی ضروریات کا خیال کررہے ہیںلیکن ہماری ضروریات کا کسی کو خیال نہیں، وزیر اعظم اساتذہ کو عزت و تکریم دیں ان کے جائز مطالبات تو مان لیں،اگر اسکول میں اساتذہ ہی ناکافی ہوں تو بچوں کو پڑھائے گا کون ؟

اس وقت وزیر اعظم کی صحت اور تعلیم کی پالیسی آنے کو ہے لیکن کیا اس پالیسی میں اساتذہ کا کوئی حصہ نہیں، اب تو بہت سے اساتذہ کی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحان دینے کی بھی عمر نکل چکی ہے لیکن کیا تجربہ اور قابلیت ان کو ریگولر کرنے کے لئے کافی نہیں ؟ عدالتی حکم آنے کے باوجود ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے اساتذہ کو ریگولر نہیں کیا جارہا کیوں؟ اساتذہ کے بنا ہم اپنے بچوں کو کیسے پڑھا سکتے،اسکول کو نیا رنگ و روغن کرنے سے یا نئی کرسیاں رکھنے سے تعلیمی اصلاحات نہیں ہوسکتیں، اساتذہ کو باعزت تنخواہ ، مستقل نوکری اور نصاب کو جدید سطح پر استوار کرکے ہی ہم تعلیمی انقلاب لاسکتے ہیں، جس ملک میں استاد ہی فاقہ کشی پر مجبور ہو وہ اپنے بچوں کو پڑھا لیں بڑی بات ہوگی۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Twitter @javerias

 

 

Posted in Army, Pakistan, Uncategorized

قوم کی عظیم بیٹی مریم مختیار

 

قوم کی عظیم بیٹی مریم مختیار

  Posted On Sunday, November 29, 2015
  …..جویریہ صدیق…..
مریم مختیارشہید جیسی بیٹیاں صدیوں میں جنم لیتی ہیں، ایسی بیٹیاں قوم کا اثاثہ اور باعث فخر ہوتی ہیں، پاکستان کی پہلی خاتون شہید پائلٹ مریم 1992 میں کراچی میں پیدا ہوئیں۔

والد کرنل (ر) مختیار احمد شیخ کو دیکھ کر مریم کے دل میں بھی پاک افواج میں جانے کا شوق پیدا ہوا،ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی اور سول انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی۔

بعد ازاں پاکستان ائیر فورس میں شمولیت اختیار کی،لڑاکا طیاروں کو اڑانے کی تربیت کا آغاز کیا اور پی اے ایف رسالپور اکیڈمی سے 2014 میں گریجویٹ کیا،فلائنگ آفیسر مریم مختیار پاکستان کے پہلے جنگی جہاز اڑانے والی خواتین کے گروپ میں سے ایک تھیں، شاہین صفت مریم کو آسمان کی بلندیوں پر پرواز کا شوق تھا، یہ شوق انہیں آگےبڑھنےمیں مدد دیتارہا۔

مریم مختیار نے اپنی شہادت سے پہلے انٹرویو میں کہا مجھے شروع سے ہی ائیر فورس میں جانے کا شوق تھا، مجھے ائیر فورس کا یونیفارم اور شان وشوکت شروع سے پسند تھے، وطن کے لئے کچھ ہٹ کر کرنے کا جذبہ مجھے ائیر فورس میں لئے آیا، مجھے میرا کام بہت پسند ہے۔دنیا کو دیکھنا چاہیے کہ پاکستان میں خواتین کو کام کرنے کی کتنی آزادی ہے، مجھے پاک فضائیہ نے مزید پر اعتماد بنا دیا ہے۔

24 نومبر کو مریم مختیار اسکواڈرن لیڈر ثاقب عباسی کے ساتھ روٹین کی فلائٹ پر تھیں کہ میانوالی کے قریب طیارے میں فنی خرابی ہوگئ، فلائٹ آفیسر مریم مختیار اور ان کے ساتھ اسکواڈرن لیڈر نے کمال مہارت کے ساتھ طیارے کو شہری آبادی پر گرنے سے بچایا،اس ہی جدوجہد میں 24 سالہ مریم مختیار نے جام شہادت نوش کیا اور اسکواڈرن لیڈر ثاقب عباسی زخمی ہوگئے اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

میڈیا پر یہ خبر آتے ہی کہ فلائٹ آفیسر مریم مختیار نے طیارہ کریش میں جام شہادت نوش کیا ہے ہر طرف سوگ کی کیفیت طاری ہوگی، ہر طرف پاکستان کی اس بہادر بیٹی کے چرچے ہونے لگے۔ آفرین ہے شہید مریم مختیار کے خاندان پر انہوں نے بہت حوصلے سے جواں سال بیٹی کی اچانک موت پر بہت صبر کا مظاہرہ کیا، شہید کے والد اور والدہ دونوں نے کہا ہمیں اپنی بیٹی کی شہادت پر فخر ہے۔

مریم مختیار کی والدہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئےکہا میں اپنی بیٹی کو کہتی تھی سورج بنو، اپنی روشنی اور قابلیت سے دنیا کے کام آئو، وہ کہتی ہیں زندگی ایسی گزار کر جانا چاہیے کہ دنیا فخر کرے، میری بیٹی کو ائیر فورس نے تراش کر ہیرا بنا دیا، آج مریم مختیار شہید کی زندگی اور شہادت پر سب کو فخر ہے، مریم شہید کے والد کہتے ہیں مجھے امید ہے مریم کی شہادت کے بعد مزید بچیاں اس شعبے میں آکر مریم کا مشن آگے لے کر چلیں گی، وہ بہت بہادر تھی اس نے مجھے کہا بابا جب پائلٹ کا جہاز کا کریش ہوتا ہےتو اس کی صرف راکھ ملتی ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی قوم کی اس شیر دل بیٹی کو سب خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ حنا طاہر نواز نے ٹوئٹ کیا ریسٹ ان پیس مریم مختیار۔ مہوش راجپوت نے ٹوئٹ کیا پاکستان کی شہزادی مریم مختیار ہمیں تم پر فخر ہے۔طاہر اکبر نے ٹوئٹ کیا پوری قوم کو شہید مریم کی شہادت پر فخر ہے۔ماریہ چوہدری نے ٹوئٹ کیا مریم شہید پاکستان کی پہلی خاتون شہید پائلٹ ہیں۔ضمیر احمد ملک نے ٹوئٹ کیا مریم مختیار صرف24سال کی عمر میں شہادت کا درجہ پاگئ۔ قوم کی اس عظیم بیٹی کو سلام۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Twitter@javerias

 
Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan, Uncategorized

ایک ماں کی فریاد

Posted On Sunday, May 17, 2015   …..جویریہ صدیق…..
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات نے بہت سے خوبصورت چہرے ذہین فطین انسان ہم سے چھین لیے۔ایسی بہت سی کلیاں وقت سے پہلے ہی مرجھا گیں جنہیں تو ابھی گلستان میں مہکنا تھا۔ دہشت گردی نے ہمارے چمن کو خزاں آلود کر رکھا ہے۔ہر روز بہت سے پاکستانیوں کو لرزہ خیز دہشت گردی کے واقعات میں جاں بحق ہونے کے بعد منوں مٹی تلے دفنا دیا جاتا ہے۔ مٹی تلے جانے والے شخص کے ساتھ اس کا خاندان بھی زندہ درگور ہو جاتاہے۔ جسم سے روح صرف اس شخص کی نہیں نکلتی جو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کا سارا خاندان بھی ایک زندہ لاش کی صورت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتاہے۔کیونکہ کوئی بھی پیارا اتنی اچانک اور تکلیف دہ موت کے بعد ساتھ چھوڑ جائے تو لواحقین کے لیے بھی زندگی سے دلچسپی اور پیار ختم ہو جاتا ہے۔وہ جیتے ہیں اس لیے کہ سانس چل رہی ہے۔

16 دسمبر سانحہ آرمی پبلک سکول اور کالج کو پورے پانچ ماہ مکمل ہوگئے جس میں کم عمر بچے اور ان کے استاتذہ کو طالبان نے اپنی بربریت کی بھینٹ چڑھا دیا۔جو بچے حصول علم کے لیے اپنی درسگاہ گئے تھے لیکن زندہ واپس نا لوٹ سکے۔گئے تو یونیفارم میں تھے لیکن واپس آئے کفن میں۔مائوں کے چاند مائوں کے پھول گئے تو مامتا کی آغوش سے نکل کر تھے لیکن واپس ملے تواتنی گولیاں پیوست تھی کہ بیان سے باہر۔ہنستے بولتے خوبصورت بچے اور ان کے استاد ابدی نیند سو گئے۔ان سب نے اپنی جانیں وطن عزیز پر قربان کردیں اور پاکستان کی تاریخ میں امر ہوگے۔

افعت اقبال آرمی پبلک کالج گرلز برانچ میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ان کے بیٹے محمد زین اقبال نے16 دسمبر کو سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔افعت اقبال کہتی ہیں زین کیا گیا میرے گھر سے رونق ہی چلی گی نا ہی اب یہاں کوئی ہنستا ہے اور ہر طرف خاموشی ہے۔زین اقبال شہید سیکنڈ ایئر پر ی میڈیکل کا طالب علم تھا۔میرا بیٹا کے جی سے سیکنڈ ایئر تک آرمی پبلک اسکول و کالج میں زیر تعلیم رہا۔آنکھوں میں ایک خواب تھا کہ ڈاکٹر بننا ہے۔ اسکول میں ہر کلاس میں پوزیشن لی اور بورڈ میں بھی ٹاپ کیا۔گذشتہ رمضان اعتکاف میں بیٹھا۔لیکن دہشت گردوں نے مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا۔16 دسمبر کو زین کا کیمسٹر ی کا پرچہ تھا،وہ بیالوجی لیب میں اپنا پیپر دے رہا تھا اور اس ہی دوران دہشت گرد نے حملہ کر ڈالا۔میرا بیٹا چلا گیا ،میرا زین چلا گیا ۔اس کے بعد سے اب زندگی سے اعتبار سا اٹھ گیا ہے۔مجھے اب مرنے کا خوف نہیں رہا مجھے اب موت سے ڈر نہیں لگتا۔

زین کی صبح کا آغاز میرے ساتھ ہوتا تھا جس ڈریسنگ ٹیبل پر میں تیاری ہوتی تھی خود بھی وہ وہاں تیار ہوتا بار بار مجھےگلے لگتا۔کبھی مجھے چومتا۔میں جب بھی اسکو دیکھتی تو سوچتی یہ کتنا شفیق اور رحم دل ڈاکٹر بنے گا۔زین خود گاڑی چلاتا اور مجھے بھی کالج ڈراپ کرتا، اس کے بعد ورسک روڈ آرمی پبلک سکول و کالج چلا جاتا۔صبح بھی اس کے پاس بہت سی باتیں ہوتی تھیں اور کالج واپسی سے تو بس شام تک اس پاس بہت سی باتیں جمع ہوتی صرف مجھ سے شیئر کرنے کے لیے وہ میرا بیٹا نہیں میرا دوست بھی تھا۔زین کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ فٹنس کا بھی بہت شوق تھا ،وہ ہر روز ورزش کرتا تھا، زرا سا وزن زیادہ ہو جاتا تو فوری تو طور پر ڈائٹنگ شروع کر دیتا ۔ہر چیز میں وہ سب سے آگے تھا اس لیے موت بھی اس کی غیر معمولی آئی اور شہید ہوکر اس نے اپنی جان پاکستان کے لیے قربان کردی۔

ابھی پورے پاکستان نے مائوں کا عالمی دن منایا لیکن میں یہ دن نہیں منایا کیونکہ میرا بیٹا جو ہر مدرز ڈے پر مجھے پھول دیتا تھا کارڈز بنا کر دیتا تھا، وہ اس بار میرے ساتھ نہیں تھا ۔ہم زندگی گزر رہے ہیں اس لے کیونکہ سانس چل رہی ہے لیکن جی نہیں رہے۔حکومت نے ہماری داد رسی نہیں کی بس کچھ کام دنیا دکھاوے کے لیے کردئیے ہیں۔ مشکل کی گھڑی میں ہمیں بالکل تنہا چھوڑے رکھا۔کوئی امداد دینے کی بات کررہا تھا تو کوئی اسکول کے نام تبدیل کرنے کی بات کرتا رہا۔پر ہم سب ایک حقیقی ہمدردی سے محروم رہے۔میں خیبر پختون خواہ کے حکمرانوں اور عمران خان سے کہنا چاہتی ہوں اپنے بچوں کو واپس لائیں انہیں بھی خیبر پختون خوا کے تعلیمی اداروں میں داخل کروائیں ۔تاکہ انہیں احساس ہو کہ عوام کس قسم کی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔اب بھی بچے خوف کے سائے تلے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ان کی شخصیت پر اس کے کیا اثرات کیا پڑیں گے حکمران اس سے واقف نہیں۔

افعت اقبال کہتی ہیں کہ میرا بیٹا زین میرا سب سے اچھا دوست اس دنیا سے چلا گیا میرے لیے اس دنیا میں کوئی کشش نہیں لیکن میں چاہتی ہوں کہ باقی سب بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت فوری طور پر اقدام کرے۔میری اس قوم کی مائوں سے بھی التجا ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت پر بہت دھیان دیں، ماں کی اولاد کی تربیت میں غفلت کا خمیازہ پوری قوم بھگتی ہے۔میں نے اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانا چاہا ،اس پر دن رات محنت کی لیکن منزل کہ قریب آکر ایک ایسی ماں کا بیٹا جس کی ماں نے اسکی تربیت میں کوتاہی برتی مجھ سے اور اس قوم سے ایک قابل اور سنہرے مستقبل والے بچے کو چھین لیاگیا۔دہشت گرد بھی ایک ماں کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور ایک ڈاکٹر بھی اس قوم کی مائوں کو دیکھنا ہوگا کہ ان بچوں کی کیا سرگرمیاں ہیں کہیں وہ کسی ملک دشمن عناصر کی برین واشنگ کا شکار تو نہیں ہوگیا۔ماں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اس بچہ کیا پڑھ رہا کس کے ساتھ اٹھ بیٹھ رہا ہے۔

مجھے وفاقی اور صوبائی حکومت نے مایوس کیا ،اگر صدر ،وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ ہماری حفاظت کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے، دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی نہیں کراسکتے تو مستعفی ہوجائیں۔میرے بیٹا اگر زندہ ہوتا تو بہت قابل ڈاکٹر بنتا لیکن مجھے فخر ہے کہ وہ شہید ہوا اس کا لہو اس وطن کے لیے بہا ۔دہشت گردی سے نڈھال عوام کے لیے بہت سے اقدامات کی فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے بچوں کے قاتلوں کو سخت سزا دی جائے۔حکومت اس حادثے سے متاثر ہونے والے خاندانوں کی ذہنی نفسیاتی صحت کی بحالی کے لیے مستقل بنیادوں پر کام کرے۔ میری گزارش ہے کہ 16 دسمبر کو عام تعطیل ہونی چاہیے اور نصاب میں بھی ان بچوں اور ان کے استاتذہ کی قربانی اسباق کو شامل کرنا چاہیے۔شہدا آرمی پبلک سکول اور کالج کی شہدا کی یادگار تعمیر کی جائے تاکہ ان کی قربانی کو تا قیامت پاکستان کے لوگ یاد رکھیں۔میرا بیٹا میرا خواب تھا میرا خواب کی تعبیر سے پہلے ہی اس توڑ دیا گیا ۔ حکومت اور آرمی دہشت گردوں کا خاتمہ کرے تاکہ پھر کوئی ماں یہ دن نا دیکھے۔ – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10847#sthash.GwYJB2Nk.dpuf

Posted in cricket, Pakistan, Uncategorized, کرکٹ

پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ اورسوشل میڈیا

پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ اورسوشل میڈیا

  Posted On Sunday, May 24, 2015   …..جویریہ صدیق…..
پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا سورج22مئی کو ایک بار پھر طلوع ہوا۔سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملے کے بعد آنے والے تعطل کو زمبابوے کی کرکٹ ٹیم نے ختم کیا اور یوں پاکستانی شائقین نے ایک عرصے بعد ہوم گروانڈ پر میچ دیکھا۔پاکستانی شایقین کرکٹ نے جمعہ کی نماز کے بعد سے ہی قذافی اسٹیڈیم کا رخ کرلیا حالانکہ میچ شام کو شروع ہونا تھا۔طویل لمبی قطاریں لیکن شائقین نے بہت حوصلے کے ساتھ گرمی برداشت کی اور سیکورٹی اہلکاروں سے بھرپور تعاون کیا۔جو شائقین ٹی وی پر میچ دیکھ رہے تھے انہوں نے تمام کام صبح ہی ختم کرلیے بس دل میں یہ دعا تھی کہ پاکستان جیت جائے اور میچ کے دوران بجلی نا جائے۔

میچ شروع ہوا پاکستانی شائقین نے کھل کر زمبابوے کی ٹیم کو بھی سپورٹ کیا اور پاکستانی ٹیم کوبھی۔پاکستانی اس بات پر بہت خوش ہیں کہ زمبابوے نے تمام تر مشکل حالات کے باوجود پاکستان کا رخ کیا۔شائقین نے پاک زمبابوے کرکٹ دوستی کے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔بہت سے شائقین نے میچ کے لیے خصوصی لباس زیب تن کیا اور سب کی نظروں کا مرکز رہے۔زمبابوے کی ٹیم نے مقررہ اورز میں172 رنز بنائے۔محمد سمیع نے چار اورز میں36 رنز دے کر تین کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا ،وہاب ریاض نے 38 رنز دے کر دووکٹیں لیں۔پاکستانی ٹیم نے جب اپنی اننگز کا آغاز کیا تو احمد شہزاد اور احمد مختار کی بیٹنگ نے جیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔پاکستان نے مطلوبہ ہدف 19اعشاریہ 3 اوورز میں پانچ وکٹ پر حاصل کیا۔83 رنز بنا کر احمد مختار مین آف دی میچ قرار پائے۔

جہاں شائقین کرکٹ اسٹیڈیم اور گھروں میں اس میچ سے لطف اندوز ہوئے ،وہاں سوشل میڈیا پرٹوئپس پل پل ٹوئٹس کرکے اپنی خوشی کا اظہار کرتے رہے۔وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے ٹوئٹ کیا، دہشت گردی سے ستائے لوگوں اور شہروں کو واپس نارمل زندگی کی طرف جاتا دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے ۔جے یو آئی کے رہنما جان اچکزئی نے ٹوئٹ کیا ،ویل ڈن پاکستان اور شاباش ٹیم زمبابوے انکی ٹیم نے بھی اچھا کھیلا۔ایم پی اے حنا بٹ حیات نے ٹوئٹ کیا آج پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کا بڑا دن ہے۔ایم این اے اسد عمر نے ٹوئٹ کیا ، لالا نے ایک شاٹ میں دل خوش کردیا ایک بار پھر یاد دلایا کہ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ ایم این اے مایزہ حمید نے ٹوئٹ کیا۔

پاک خون شہیداں کی ہم کو قسم

پھول ہر سو امن کے کھلائیں گے ہم

میچ سے قبل اور فتح کے بعد بھی کھلاڑیوں اور سابق سینئر کھلاڑیوں نے بھی ٹوئٹ کیے شعیب ملک نے ٹویٹ کیا یہ اعزاز کی بات ہے کہ میں گرین کٹ میں ملبوس ہوں اور یہ بات خوش آئند ہے کہ انٹرنشل کرکٹ آج پھر سے پاکستان میں بحال ہوگئی۔احمد شہزاد نے ٹوئٹ کیا ہر دکھ کے بعد سکھ آتا ہے اور آج پاکستان میں یہ ثابت ہوگیا الحمد اللہ آج پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوگئی۔عمر اکمل نے ٹوئٹ کیا شائقین کا شکریہ جنہوں نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کیا اور ہم پر اعتماد کرنے کے لیے شکریہ زمبابوے۔سعید اجمل نے ٹوئٹ کیا ہم زمبابوے کو خوش آمدید کہتے ہیں ہماری قوم کرکٹ سے محبت کرتی ہے۔ وسیم اکرم نے ٹوئٹ کیا ،کیاشائقین ہیں، کیا ٹیم ہے، کیا ملک ہے اور کیا جیت ہے کرکٹ واپس پاکستان آگئی۔

فنکار اور گلوکار بھی ہرے رنگ کے ملبوسات میں ملبوس ہوکر شائقین کرکٹ کا جذبہ بڑھاتے رہے اور ٹوئٹ کرتے رہے۔گلوکار کیو بی نے ٹوئٹ کیا کرکٹ سے محبت پاکستانیوں کے خون میں ہے۔میرا ہاشمی نے ٹوئٹ کیا کہ آج پاکستان جیتا ہے ہر دہشت گرد سے ہر طالبان کے حامی سے ۔ اداکارہ مائرہ خان نے ٹوئٹ کیا چھ سال بعد کرکٹ ملک میں واپس آیا مجھے امید ہے سب اچھا ہوگا۔اداکار عدنان ملک نے ٹوئٹ کیا 30ہزار لوگ ایک ساتھ اسٹیڈیم میں ترانہ پڑھ رہے ہیں پاکستان زندہ باد۔

سینئر صحافی حامد میر نے ٹوئٹ کیا آج پاکستان اور زمبابوے نے مل کر قذافی اسٹیڈیم میں دہشت گردی کو شکست دی۔نیوز کاسٹر رابیعہ انعم نے ٹوئٹ کیا، پاکستان جیت گیا اور دہشت گردی ہار گئی۔صحافی فیضان لاکھانی نے ٹوئٹ کیا تو آج پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ایک بار پھر سے بحا ل ہوگیا۔صحافی نوشین یوسف نے ٹوئٹ کیا، شکریہ زمبابوے آپ کی ٹیم کے پاکستان آنے کی وجہ سے آج پاکستانی شائقین کے چہروں پر خوشی ہے۔رائٹر سمیع چوہدری نے ٹوئٹ کیا اوئے آئی سی سی، ہن آرام اے۔فکشن رائٹر مبشر علی زیدی نے ٹویٹ کیا ،زمبابوے نے دل جیت لیا اور پاکستان نے میچ جیت لیا۔براڈکاسٹر نازیہ میمن نے ٹوئٹ کیا آج پاکستان نے عمدہ کارکردگی دکھائی بہترین بیٹنگ۔

مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ٹوئٹ کرتے رہے اور پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی اور پاکستان کی جیت کو سراہتے رہے۔جاوید آفریدی نے ٹوئٹ کیا شکر الحمد اللہ آج پاکستانیوں کے مسکراتے چہروں کے ساتھ حالات نارمل کی طرف لوٹ آئے۔صہیب اظہر نے ٹوئٹ کیا،شکریہ زمبابوے شکریہ پی سی بی آج چھ سال بعد کرکٹ پاکستان واپس آئی۔افشاں منصب نے ٹوئٹ کیا، زمبابوے کی ٹیم کی حفاظت پر مامور پنجاب پولیس زندہ با،د دوسرے ٹوئٹ میں کہا میچ کوئی بھی جیتے اصل فتح کھیل ،مسکراہٹ اور پاکستان کی ہوئی۔ ہاری ہے تو دہشت اور ہارا ہے تو دشمن۔ جمیل قاضی نے ٹوئٹ کیا مختار اور شہزاد کی اننگز نے اکتوبر 1997 میں قذافی اسٹیڈیم کے پاک بھارت میچ میں آفریدی اور اعجاز کی اننگز یاد دلا دی۔نومی فہیم نے ٹوئٹ کیا پاکستان ٹیم اور تمام کرکٹ لورز کو کرکٹ کی پاکستان واپسی اور ہوم گرئوانڈ پر فتح مبارک ہو۔

کچھ ٹوئپس مزاحیہ ٹوئٹس بھی کرتے رہے ،سرفراز احمد نے کہا کہ خادم اعلیٰ نے لاہور سے زمبابوے تک فلائی اوور بنانے کا اعلان کردیا۔محسن حجازی نے ٹوئٹ کیا موقع ہے اب تو مشہور بھی ہے زمبابوے کے تمام کھلاڑیوں کو رعایتی نرخوں پر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی دی جاسکتی ہے۔حیدر نقوی نے ٹوئٹ کیا جس طرح لاہوری قذافی اسٹیڈیم پہنچ رہے ہیں لگتا ہے میچ کے بعد کھانے کا بھی انتظام ہے۔آم اچار نے ٹوئٹ کیا ،شاباش مختار احمد جیو اور جیتے رہو شہزادے۔اریب نے ٹوئٹ کیا ،میں حیران ہوں احمد شہزاد اتنی دیر بنا سیلفی لیے کیسے گرائونڈ میں کھڑا رہے۔
Javeria Siddique writes for Jang

twitter@javerias

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10854#sthash.FEBAtDTj.dpuf

Posted in health, lifestyle, Pakistan, Smoking, تمباکونوشی

تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر

                                                                                                                                                تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر

  Posted On Monday, June 01, 2015   …..جویریہ صدیق……
دنیا بھر میں 31مئی کو انسداد تمباکو نوشی کا دن منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس میں تمباکو کے استعمال سے پہنچنے والے نقصانات سےآگاہ کرنا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال ایک ارب افراد تمباکو کا استعمال کرتے ہیں جن میں سے تقریبا ًچھ ملین افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، ان میں دس فیصد وہ ہیں جو خود تو سگریٹ نہیں پیتے لیکن اپنے اردگرد تمباکو نوشی کے دھویں سے متاثر ہوتے ہیں۔ہر سال سولہ فیصد مرد اور آٹھ فیصد خواتین تمباکو نوشی کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔بات کی جائے پاکستان کی تو ہر سال ایک لاکھ افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے لقمہ اجل بنتے ہیں۔

پاکستان میں تمباکو کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے،نوجوان نسل سگریٹ ،شیشہ اور گٹکا کی دلدادہ ہے اور بنا اس کے نقصانات کو جانے اس کا استعمال کررہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق 45فیصد مرد اور چھ فیصد خواتین پاکستان میں تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہیں۔ سگریٹ ہو سگار ہو ،گٹکا،یا حقہ اگر آپ تمباکو استعمال کررہے ہیں تو پھیپھڑوں کا سرطان،خوراک کی نالی کا سرطان، منہ کا کینسر،عارضہ قلب، کولیسٹرول، ٹی بی،دمہ اور ہائی بلڈ پریشر جیسے خطرناک امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔اگر تمباکو نوشی خواتین کریں تو ان بیماریوں کے ساتھ ساتھ ماہانہ ایام کی خرابی،اسقاط حمل اور کمزور قبل از وقت بچوں کی پیدائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

صحبت کے زیر اثر لوگ تمباکو نوشی کا استعمال تو شروع کردیتے ہیں لیکن جب یہ اپنا اثر دیکھنا شروع کرکے انسان کو بیمار کرنا شروع کرتا ہے تو اس لت سے جان چھڑانا آسان کام نہیں. لیکن اگر انسان پختہ ارادہ کرلے تو پھر آہستہ آہستہ تمباکو نوشی ترک کی جاسکتی ہے،تمباکو کی لت انسان کی نفسیاتی اور جسمانی ضرورت بن جاتی ہے اس لیے اس کو ترک کرنے کے لیے دماغ اور جسم دونوں پر کام کرنا پڑتا ہے،جب بھی یہ ارادہ کریں کہ آپ تمباکو نوشی ترک کررہے ہیں تو اپنے اہل خانہ اور دوستوں کو اعتماد میں لیں تاکہ وہ آپ کے ساتھ تعاون کریں۔

اگر آپ پوری سگریٹ کی ڈبی پیتے ہیں تو پلان کے پہلے پندرہ دن اس کو آدھا استعمال کریں سولہویں دن سے چوتھائی اور دوسرے مہینے میں تین سے چار اور45دن بعد ایک یا دو کر دیں،جس وقت آپ کو زیادہ سگریٹ کی طلب ہو اپنا دھیان ہٹائیں ،اپنے اس پلان میں ورزش کو شامل کریں،پانی زیادہ سے زیادہ پئیں،پھلوں کا استعمال کریں۔اگر زیادہ بے چینی ہو تو ببل گم چبائیں یا گاجر پودینے کا استعمال کریں۔ نفسیاتی طور پر اپنے آپ سے خود بات کریں اپنے آپ کو سمجھائیں کے تمباکو آپ کے لیے بہت خطرناک ہے۔

تمباکو نوشی ترک کرتے ہوئے پہلے چند ہفتے انسان بہت چڑچڑا ہوجاتا ہے،کیونکہ تمباکو میں شامل نکوٹین وقتی طور پر جسم اور دماغ کو سکون پہنچاتی ہے.اس لیے اس کو استعمال نا کرنے پر انسان غصہ کرنے لگتا ہے سر میں درد، نیند کی کمی، بے چینی ،کھانسی میں اضافہ،ڈپریشن،قبض،پیٹ کی خرابی اور توجہ مرکوز کرنے میں دشواری عام طور پر تمباکو چھوڑنے کی علامتوں میں شامل ہے،ان سب چیزوں سے گھبرائیں نہیں بلکے ان کا مقابلہ کریں۔

پھلوں سبزیوں اور پانی کا زیادہ استعمال کریں،خود کومصروف رکھیں، ہلکی ورزش کریں روز نہائیں،اس دورانیہ میں ایسے ماحول سے کچھ عرصہ دور رہیں جو آپ کو سگریٹ نوشی کی طرف راغب کرتا ہو ۔اگر آپ اپنی مدد آپ نہیں کرسکتے تو معالج سے رجوع کریں ان کی ادویات اور کونسلنگ فائدہ مند ہے، تمباکو نوشی ترک کرتے ہی آپ کی صحت بتدریج بہتر ہونا شروع ہوجائے گی،بلڈ پریشر دل کی دھڑکن نارمل ہوجائے گی،کھانسی،الرجی بھی نا ہونے کے برابر رہ جائیں گی،سرطان ،فالج اور دل کے دورے کا امکان بھی نارمل افراد جتنا ہوجائے گا۔

حکومت انسداد تمباکو نوشی کے حوالے سے موثر اقدامات کرے،پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی سے سختی سے عمل درآمد کروائے،اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو سگریٹ اور شیشہ مہیا کرنے والے دکانداروں اور کیفے ہوٹلز پر جرمانہ عائد کیا جائے، سگریٹ اسمگلنگ پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دی جائے،تمباکو سے بنی اشیاء کے اشتہارات پر مکمل پابندی ہو اور پیکٹ پر وزارت صحت کی وارننگ لازمی چھپی ہوئی ہو۔اس کے ساتھ ساتھ حکومت اس انڈسٹری پر اور پراڈکٹس ٹیکس عائد کرے تاکہ یہ قوت خرید سے نکل جائے۔

ایسی عادت کو ترک کردینا چاہیے جو آپ کے ساتھ آپ کے اہل خانہ کے لیے بھی مضر ہے،زندگی کی طرف واپس آئیں اور محسوس کریں زندگی تمباکو نوشی کے بنا کتنی حسین ہے،کسی بھی چیز کی لت اچھی نہیں اس لیے اپنی صحت زندگی خاندان کہ خاطر اس زہر کو پینا چھوڑ دیں۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Twitter @javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10868#sthash.1XPr1xX1.dpuf

Posted in india, Pakistan, Uncategorized

قصہ ایک معصوم کبوتر کا‎

قصہ ایک معصوم کبوتر کا‎

  Posted On Thursday, June 04, 2015   …..جویریہ صدیق ……
بھلا کبوتر کو کیا پتہ کہ وہ پاکستان سے اڑ کر بھارت نہیں جاسکتا، اس پرندے پر یہ حقیقت آشکار نہیں کہ بھارتی حکام پاکستان سے کتنا بغض رکھتے ہیں،معصوم کبوتر کو کیا معلوم انسانوں نے زمینی کیا فضائی کیا سمندری حدود بھی مقرر رکھی ہیں اور کوئی پاسپورٹ ویزہ اور دیگر سفری دستاویزات کے بنا ان جغرافیائی لکیروں کی پار نہیں کرسکتا۔ اس کبوتر نے پھر بھی جسارت کر ڈالی پاکستان سے اڑا اور بھارت کی حدود میں دھر لیا گیا وہ بھی جاسوسی کے الزام میں.بیچارے کبوتر کو جیل میں ڈال کر تفتیش کی گئی ،وہ بے زبان کیا بولتا قصور تو اس کا صرف یہ تھا کہ وہ پاکستان سے اڑ کر بھارت آگیا،ایکسرے ہوئے ،الٹرا سائونڈ بھی کروایا گیا لیکن بھارتی حکام کے ہاتھ کچھ نا آیا۔ پاکستان کے بغض میں مبتلا بھارتی میڈیا بھی اس کبوتر کی خبر کو اچھالنے لگ گیا کہ سرحد پار کرتے ہوئے ایک جاسوس دھر لیا گیا۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہی ہے کہ ایک معصوم پرندے کو جاسوسی کے الزام میں دھر لیا گیا اور شور یہ ڈالا گیا کہ اس کے پاس اردو میں لکھا ایک خط بھی ہے اور پاکستان کے ضلع نارووال کا فون نمبر بھی درج ہے،پتہ نہیں کسی کبوتر باز عاشق کا یہ پیغام رساں بھارت کے علاقے پٹھان کوٹ پہنچ گیا اور وہاں اس بیچارے کو پابند سلاسل کردیا گیا،بیچارے کبوتر کا قصور صرف پاکستانی کبوترہونا ہے،بھارتی پولیس اور خفیہ ادارے کی مشترکہ کاروائی میں امن و محبت کی علامت کبوتر کو گرفتار کر لیا گیا۔

اب اس معصوم بے قصور کبوتر کے ساتھ کیا ہو وہ تو کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن بھارتی حکام کی پاکستان دشمنی کھل کر سامنے آگئی ۔ایک کبوتر کو جاسوسی کے الزامات میں زیر حراست رکھنا بھارتی حکام کی بوکھلاہٹ کو صاف ظاہر کرتا ہے،یہ خبر جیسے ہی منظر عام پر آئی بھارت کی میڈیا اور سوشل میڈیا پر خوب جگ ہنسائی ہوئی۔ٹوئپس بھارت کے ساتھ اگلے پچھلے حسابات چکتا کرتے نظر آئے۔

مشکت عمیر نے تصویری ٹوئٹ کیا پاکستان کا ایس ایس جی کبوتر اسکواڈ مشن کے لیے تیار ہے۔سارہ احمد نے ٹوئٹ کیا پاکستانی کبوتر نے بھارت پر حملہ کردیا۔سب سے دلچسپ ٹوئٹ عمار مسعود نے کیا،شرم کرو حیا کرو،ہمارا کبوتر رہا کرو۔چوہدری جہانزیب نے ٹوئٹ کیا ،میں کبوتر ہوں دہشت گرد نہیں۔ فرحان خان نے ٹوئٹ کیا بھارت ہمارا معصوم کبوتر واپس کرو۔صائم رضوی نے ٹوئٹ کیا،بڑا انڈیا بنا پھرتا ہے

ایک کبوتر سے ڈرتا ہے۔ہادیہ شاہ نے ٹوئٹ کیا ایک زمانہ تھا بھارت ہمارے ایٹم بم سے ڈرتا تھا ، اب تو ان کو ڈرانے کے لیے ایک کبوتر ہی کافی ہے۔عثمان علی خان نے ٹوئٹ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست کہلانے والے ملک کو ایک پاکستانی کبوتر سے ڈر لگتا ہے.بہت ہی حیرت ناک اور شرمناک بات ہے ، عمران لودھی نے ٹوئٹ کیا قوم کا کبوتر واپس لایا جائے۔

بھارت پاکستان دشمنی میں اتنا آگے جا چکا ہے کہ اس کی نفرت کا نشانہ ایک معصوم کبوتر بھی بن گیا،بھارت خود اپنے تمام پڑوسی ممالک میں دہشتگردی میں ملوث پایا گیا ہے، حالیہ کراچی اور بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردی کے واقعات کے تانے بانے بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے جا کر ملتے ہیں،بھارت کی یہ عادت ہے وار بھی خود کرتا ہے اور شور بھی خود ہی مچاتا ہے۔

ایک کبوتر کر ہی کیا سکتا ہے پرانے وقتوں میں لوگ ایسے پیغام رسانی کے لیے استعمال کرتے تھے وہ بھی اب متروک ہوگیا،اس کبوتر پر اگر کچھ درج بھی تھا تو ہوسکتا ہے اس مالک نے اسکی شناخت کے لیے لکھوایا ہو،پر بھارت کو پاکستان پر الزام تراشی کا موقع چاہیے.ایک کبوتر گرفتار کیا اور پاکستان کے خلاف زہر افشانی شروع۔چند دن پہلے ہی بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ سرحد پار سے ہونے والی دہشتگردی کا مقابلہ دہشت گرد بھیج کر ہی کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا دہشت گرد تیار کرکے سرحد پار بھجیں جائیں۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ردعمل میں کہا یہ بیان پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں بھارت کے ملوث ہونے کا ثبوت ہے۔

بھارت کو ہوش کے ناخن لینا ہوگے جس ملک میں خود اتنی غربت دہشتگردی اور علیحدگی کی تحاریک چل رہی ہوں اسے پڑوسی پر نظر رکھنے بجائے اپنے داخلی مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔پاکستان بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے لیکن بھارت کی طرف سے الزام تراشیاں اور دہشتگردوں کی پشت پناہی کوئی نیک شگون نہیں،اگر 2015 میں بھی بھارت مہذب پڑوسی کی طرح رہنا نہیں سیکھ سکتاتو یہ رویہ خطے کے امن کو متاثر کرسکتا ہےاور کبوتر جیسے معصوم پرندے کو جیل میں ڈالنا اور کچھ نہیں بھارت کی اپنی کم علمی جہالت اور پاکستان دشمنی کا شاخسانہ ہے جو ان کی جگ ہنسائی کرواگیا۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Twitter @javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10875#sthash.XJQ0NK5J.dpuf