Category: ZarbeAzb
صبغہ فاطمہ کے نقصان کا خلا کبھی بھی پر نہیں ہوسکتا لیکن تمام پاکستانیوں کو اس کے والد کی قربانی اور اس کی والدہ کے صبر و استقامت پر پر فخر ہے ۔ ۔کیپٹن مجاہد اور ان جیسے دیگر پاک فوج کے شہداء کی قربانیوں کی بنیاد پر آج وطن عزیز میں امن قائم ہوا ہے ۔ اللہ تعالی ہمارے شہدا کے درجات بلند فرمائے ۔ آمین .
سانحہ اے پی ایس کے شہدا کی یاد میں دعائیہ تقریب جاری
پشاور: سانحہ اے پی ایس کے شہدا کی یاد میں دعائیہ تقریب جاری۔
جویریہ صدیق
۔سانحہ اے پی ایس کی دوسری برسی کے موقع پر حسن زیب شہید کے گھر پر دعائیہ تقریب میں لواحقین کی بڑی تعداد میں شرکت ۔لواحقین نے شہدا کے لئے شمعیں روشن کی اور فاتحہ خوانی کی ۔اس موقعے پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے ورثا دھاڑیں مار مار کر روتے رہے اور اپنے پیاروں کو یاد کرتے رہے۔حسن زیب شہید کے گھر میں تمام شہدا اے پی ایس کی تصاویر آویزاں ہیں لواحقین ان تصاویر کے آگے شمعیں جلا کر ان لمحات کو یاد کرتے رہے جو انہوں نے زندگی میں ساتھ گزرے تھے ۔والدین خاص طور پر سولہ دسمبر کی ہولناکی کو یاد کرکے روتے رہے ۔اپنے بچوں اور ان کے اساتذہ کے لئے فاتحہ خوانی کرنے کے ساتھ ساتھ خود کے لئے بھی صبر کی دعاء کرتے رہے ۔حسن زیب شہید نے سولہ دسمبر اپنے اساتذہ اور ساتھیوں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا تھا ۔دو سال سے ہر ماہ ان کے گھر میں اے پی ایس فیملیز دعائیہ تقریبات میں اکٹھی ہوتی ہیں ۔
جویریہ صدیق صحافی اور فوٹوگرافر ہیں ۔ سانحہ آرمی پبلک سکول شہدا کی یادداشیں کتاب کی مصنفہ ہیں۔آپ انہیں ٹویٹر پر فالو کرسکتے ہیں @javerias
سانحہ آرمی پبلک سکول چار خاندانوں کے دو دو بیٹے ان سے بچھڑ گئے
جویریہ صدیق
۔
سانحہ آرمی پبلک سکول سولہ دسمبرکو 2سال مکمل ہوجائے گا ۔لیکن ایسا لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو جب بچے ہنستے مسکراتے سکول گئے تھے لیکن واپس نا آسکے اور والدین کو اپنے بچے تابوت میں ملے۔دو سال مکمل ہونے گیے پر بہت سے والدین اس حقیقت کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ان کے بچے ہمیشہ ہمشہ کے لئے چلے گئے اور اب واپس نہیں آئیں گے۔جب بھی دروازے پر دستک ہو یا سکول وین کا ہارن سنائی دے توان کے دل میں یہ امید جاگ جاتی ہے کہ شاید ہمارا بیٹا واپس آگیا ہو۔
سانحہ اے پی ایس میں ایک سو سنتالیس افراد شہید ہوئے۔اس سانحے میں متاثر ہونے والے چار خاندان ایسے بھی ہیں جن کے دو دو بیٹے شہید ہوئے۔کسی بھی درد دل رکھنے والے شخص کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ ان خاندانوں پر کیا بیت رہی ہوگی۔شامویل طارق ننگیال طارق،نور اللہ درانی سیف اللہ درانی ،ذیشان احمد اویس احمد اور سید عبداللہ سید حسنین نے سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔
ننگیال طارق شہید تمغہ شجاعت شامویل طارق شہید تمغہ شجاعت
پندرہ سالہ شامویل طارق اور تیرہ سال کے ننگیال طارق بلترتیب نویں کلاس اور آٹھویں کلاس کے طالب علم تھے.دو سال پہلے ہی دونوں کو اچھی تعلیمی سہولیات کے باعث آرمی پبلک سکول ورسک روڈ میں داخل کروایا گیا۔دونوں کو پاک آرمی جوائین کرنے کا شوق تھا۔شہدا کی بہن مہوش جوکہ مقامی یونیورسٹی میں بی ایس آنر کر رہی ہیں وہ کہتی ہیں اس واقعے نے ہماری زندگی ویران کردی ہے.میرے دونوں بھائی بہت ذہین اور خوش اخلاق تھے۔
ہم آج بھی سولہ دسمبر دو ہزار چودہ میں سے نہیں نکل سکے۔ہمارے سامنے دونوں بھائیوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پڑی تھیں۔ وہ بھائی جو ہماری امیدوں کا مرکز تھے ہمارے والدین کے بڑھاپے کا سہارا تھے۔ ہمیں یقین نہیں آرہا تھا وہ چلے گئے۔میری والدہ کے آنسو اب بھی خشک نہیں ہوئے۔سولہ دسمبر سانحہ آرمی پبلک سکول ہمارے ہنستے بستے گھر کو ہمیشہ کے لئے اجڑ گیا۔.میں چاہتی ہوں کہ ان بچوں کو انصاف دیا جائے اور دہشتگردوں کو کڑی سزا دی جائے.
نور اللہ درانی شہید تمغہ شجاعت سیف اللہ درانی شہید تمغہ شجاعت
نور اللہ سیف اللہ دونوں بھائی آرمی پبلک سکول میں
نویں کلاس اور آٹھویں کے طالب علم تھے.دونوں بچپن سے ہی آرمی پبلک سکول و کالج ورسک روڈ میں زیر تعلیم تھے.شرارتی نٹ کھٹ نور اللہ اور سیف اللہ گھر بھر کی جان تھے..اکثر دونوں کھلونا بندوقیں خریدتے اور پھر آرمی بن کر دہشتگردوں کو پکڑنے کا کھیل کھیلتے. دونوں کو آرمی میں جانے کا بہت شوق تھا نور کو بری فوج میں اور سیف کو پاک فضائیہ جوائین کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا.نور یہ کہتا تھا میں فوج میں جاکر تمام ملک دشمنوں کا خاتمہ کروں گا اور سیف کو تو جہاز اڑنے کا شوق تھا وہ کہتا تھا میں ایف سولہ طیارہ اڑاوں گا اور دشمن کے ٹھکانوں پر بمباری کرکے انہیں نیست و نابود کردوں گا..شہید طالب علموں کی بہن ثناء کہتی ہیں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا کہ وہ یاد نا آتے ہوں ہم کھانا بھی کھانا چاہیں پر چند لقموں کے بعد نوالے حلق میں پھنس جاتے ہیں.میرے والدین صبر ہمت کی مثال ہیں لیکن ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جس میں ہم روتے نا ہو.میں بس یہ دعاء کرتی ہوں کہ اللہ تعالی سب والدین کو صبر دے آمین۔
سید عبداللہ شاہ شہید تمغہ شجاعت سید حسنین رضا شہید تمغہ شجاعت
سانحہ آرمی پبلک سکول اپنے پیچھے بہت سی دردناک داستانیں چھوڑ گیا ہے.جس میں ایک دل سوز داستان سید فضل حسین کی بھی ہے.جن کے دونوں بیٹوں سید عبداللہ اور سید حسنین نے آرمی پبلک سکول و کالج ورسک روڈ میں سولہ دسمبر کو شہادت پائی.عبداللہ دسویں حماعت کے طالب علم تھے اور ڈاکٹر بن کر ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔جبکے سید حسنین آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے ان کی والدہ انہیں فوج میں بھیجنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ سانحے کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے لیکن والدین کی نگاہیں اب بھی ان دونوں کی راہ تک رہے ہیں.گھر سے دو بچوں کا چلے جانا کسی قیامت سے کم نہیں۔.
شہدا کے والد فضل حسین کہتے ہیں کہ ہمارا گھر ان کے جانے بعد کسی کھنڈر کا سا سماں پیش کرتا ہے ان کی والدہ بچوں کے کپڑوں کو نکال کر چومتی ہیں اور روتی ہیں۔ہمارے بچے شروع سے ہی اے پی ایس میں زیر تعلیم تھے عبد اللہ خاص طور پر پوزیشن ہولڈر تھا۔عبداللہ کی شہادت کے بعد جب اس کا نتیجہ آیا اس کی پہلی پوزیشن تھی۔ان دوںوں کے بعد ہماری زندگی تباہ ہوگئی ان کے لئے ہمارے سارے ارمان ادھورے رہ گئے۔پر اس بات سے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ انہوں نے وطن کی خاطر جان دی۔۔پاک آرمی کے افسران نے ہمارا بہت ساتھ دیا مشکل کی گھڑی میں ہمیں اکیلا نہیں چھوڑا۔اللہ تعالی ہماری صفوں میں اتحاد کردے اس وطن میں امن و امان کردے آمین۔
ذیشان احمد شہید تمغہ شجاعت اویس احمد شہید تمغہ شجاعت
ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے صوبیدار ر اکرام اللہ کے دو بیٹوں نے بھی سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہادت پائی۔ذیشان احمد دسویں کلاس میں اور اویس احمد آٹھویں کلاس میں تھے۔پلے گروپ سے ہی دونوں اے پی ایس میں زیر تعلیم تھے۔ذیشان ڈاکٹر بننا چاہتے تھے اور اویس کی دلچسپی کمپیوٹر میں تھی۔شہید بچوں کے والد اکرام اللہ کہتے ہیں کہ میرے دونوں بچے بہت اخلاق والے تھے۔ہمیشہ سب کی مدد کرتے۔ہمیں لگتا ہے کہ جیسے آج بھی ہم کہیں سولہ دسمبر دو ہزار چودہ میں ہی کھڑے ہیں۔ان کی والدہ بہت ہی رنجیدہ رہتی ہیں ۔میں نے خود ساری زندگی فوج میں رہ کر وطن کی خدمت کی مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے بیٹوں نے پاکستان کے لئے اپنی جان دی۔ان بچوں کی قربانی کے بعد پاکستان کے امن و امان پر بہت فرق پڑا اور صورتحال بہتر ہوئی۔میری دعاء ہے کہ اللہ تعالی پاکستان کو امن کا گہوارا بنادے آمین۔
جویریہ صدیق صحافی اور فوٹوگرافر ہیں ۔ سانحہ آرمی پبلک سکول شہدا کی یادداشیں کتاب کی مصنفہ ہیں۔آپ انہیں ٹویٹر پر فالو کرسکتے ہیں @javerias
اے پی ایس کا غازی
![]() |
|
|||||
.
...جویریہ صدیق.…. طلحہ کے والد محمد علی کہتے ہیں میرے تین بچوں میں طلحہ سب سے چھوٹا ہے،نرسری کلاس سے ہی طلحہ آرمی پبلک سکول میں زیر تعلیم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سولہ دسمبر کو پشاور میں بہت ٹھنڈ تھی طلحہ نے کہا آج سکول نہیں جاتا کیونکہ سیشن کا اختتام تھا اور چھٹیاں ہونے والی تھی،لیکن پھر اٹھ گیا تیار ہوا میں خود اسے سکول چھوڑ کر آیا۔ مجھے کوئی دس بجے کے بعد اطلاع ملی کے اسکول پر حملہ ہوگیا ہے تو میں فوری طور طلحہ کو لینے کے لئے بھاگا،کچھ بچوں کو اسکول سے متصل ڈیفنس پارک میں منتقل کردیا گیا تھا، وہاں مجھے ایک بچے نے بتایا کے انکل طلحہ کو گولی لگی ہے، میں بس وہاں ہی ساکت ہوگیا، نا مجھے کچھ سنائی دے رہا تھا نا ہی دکھائی، اس بچے نے مجھے کہا انکل اس کو منہ پر گولی ہے، میں اسپتال کی طرف گیا تو ہر طرف ننھے پھولوں کی لاشیں ہی لاشیں تھیں، میں طلحہ کو ڈھونڈتا رہا نہیں ملا تو نڈھال ہو کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں سی ایم ایچ میں ایک نیک دل بریگیڈیئر صاحب نے مجھے تسلی دی ،پانی پلایا اور اس کے بعد مجھے پتہ چلا کے طلحہ آپریشن تھیٹر میں ہے،طلحہ کی والدہ شدت غم سے نڈھال تھیں، میں نے ان کو تسلی دی کے وہ زخمی ہے، جب آپریشن کے بعد میں نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو منہ کا ایک حصہ گولی کی وجہ سے اڑ چکا تھا، میرے بیٹے کا جبڑا اور ایک طرف کے سارے دانت ٹوٹ گئے تھے زبان بھی زخمی اور جسم پر دھماکے اور گولیوں کے نشان۔ ایسا کون سا حصہ نہیں تھا جس پر زخم نا ہو میں پتہ نہیں کیسے یہ منظر دیکھ رہا تھا، مجھے لگ رہا تھا۔میں نے بہت ہمت پیدا کرکے اپنے بیٹے کو دیکھا لیکن اپنی اہلیہ کو بہت دن طلحہ کو اس حالت میں نہیں دیکھنے دیا، کیونکہ اگر وہ پہلے دن طلحہ کو ایسے دیکھ لیتی تو اپنے ہوش گنوا دیتی،جب طلحہ ہوش میں آیا تو میں اس کی والدہ کو لے کر گیا، سی ایم ایچ کے ڈاکٹرز اور عملے نے ہمارا بہت خیال رکھا، ان کی شفقت اور محنت کی بدولت طلحہ کی صحت بہتر ہونا شروع ہوئی۔ طلحہ کے چہرے پر اب بھی 16 دسمبر کی یادیں نمایاں ہیں، ایک طرف سے وہ کھانا نہیں کھا سکتا ،سخت چیزیں نہیں کھاسکتا کیونکہ تمام دانت گولی لگنے سے ٹوٹ گئے تھے.طلحہ پھر بھی خود کو نفسیاتی اور جسمانی طور ہر مضبوطی سے سنبھالے ہوئے ہے، طلحہ نے میٹرک کا امتحان اس ہی حالت میں دیا اور نو سوسے زائد نمبر حاصل کئے،اب وہ فرسٹ ائیر میں ہے لیکن ناسازی طبیعت کے باعث ریگولر کلاس نہیں لے پارہا۔ غازی طلحہ کہتے ہیں میرے حوصلے بلند ہیں اس سانحے کے بعد میرے اندر بہت ہمت آگئی ہے، میں نے پری انجینئرنگ میں ایڈمیشن لے لیا ہے، میرا خواب ہے کہ میں سول انجینئر بنوں، مجھے میتھس، فزکس اور مطالعہ پاکستان بہت پسند ہیں، اب میں طبیعت میں بہتری محسوس کرتا ہوں تو کرکٹ کھیلنا پسند کرتا ہوں لیکن امی کو فکر ہوتی ہے وہ مجھے کہتی ہے ان ڈور گیم کھیلو۔ جب بھی16 دسمبر یاد آتا ہے تو چلے جانے والے دوست بہت یاد آتے ہیں، پر میں اسے وطن کی خاطر ایک عظیم قربانی گردانتا ہوں، جب اس دن کی ہولناکی یاد آتی ہے تو میں اس وطن عزیز پر جان قربان کرنے والوں کی داستانیں پڑھتا ہوں، اس سے میرے اندر جذبہ حب الوطنی مزید بڑھ جاتا ہے، میرے منہ پر گولی لگی اب بھی میرے زخم مکمل طور پر بھرے نہیں لیکن پھر بھی میرا جذبہ جوان ہے، مجھے باہر جاتے ہوئے ماسک پہنا پڑھتا ہے لیکن پھر بھی میں زندگی کی جنگ لڑ رہا ہوں۔ مجھے امید ہے مزید علاج سے میں مکمل طور پر نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئوں گا، میں اس بات سے مکمل آگاہ ہوں کہ مکمل صحت یاب ہونے میں کافی وقت لگے گا، لیکن میں خود کو نفسیاتی طور پر مکمل صحت مند محسوس کرتا ہوں اورخود کو خوش رکھتا ہوں، میرے والدین میرے خاندان اور دوستوں کی توجہ اور پیار نے مجھے ٹوٹنے نہیں دیا۔16 دسمبر کے بعد سے مجھے رات کو جلد نیند نہیں آتی تو میں خود کو کتابوں میں مگن کرلیتا ہوں،پر میرے بہت سے غازی ساتھی بہت تکلیف میں ہیں وہ ڈرتے ہیں رات کو سو نہیں پاتے جسمانی اور نفسیاتی تکلیف سے وہ نڈھال ہیں۔ طلحہ کہتے ہیں اس سانحے نے ہم میں وہ جذبہ بیدار کردیا ہے کہ دہشتگردی کو ختم ہم نے ہی کرنا ہے، اچھی تعلیم حاصل کرکے ہر شعبے میں ترقی کرکے اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ اس سانحے نے مجھے وطن کی قدر سیکھا دی ہے، کس طرح ہمارے بڑوں نے قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا اب ہم بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ نوجوان غازی کا حوصلہ اور جذبہ اپنی جگہ لیکن اب بھی طلحہ کو علاج کی ضرورت ہے اور اچھی تعلیم کی بھی لیکن یہ حکومتی معاونت کے بغیر ممکن نہیں، طلحہ کی ناک سرجری چہرے کی سرجری اور دوبارہ دانت لگنے کا عمل جاری ہے، جنرل راحیل شریف کی ہدایت پر اے پی ایس سانحے کے تمام بچوں کا علاج سی ایم ایچ میں مفت ہوا،لیکن اب پھر سے اے پی ایس کے بہت سے غازی دوبارہ فالو اپ چیک کے منتظر ہیں، بچوں کے چہروں کی سرجری، ان کی ہڈیوں کی بحالی اور نفسیاتی صحت پر کام فوری طور پر کرنا ہوگا۔ Posted On Tuesday, September 08, 2015 |
||||||
بچوں کے کھلونے ٹوٹ گئے
پاکستانی قیادت کا امن مشن
|
|||||
Posted On Wednesday, January 20, 2016 | |||||
سفارتی حلقے اس دورے کو بہت اہم قرار دئے رہے ہیں۔دو بڑے اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی کسی طور پر بھی امہ کے حق میں نہیں ہے۔دوسرا اس کشیدگی کی وجہ سے خطے کا امن خطرے میں ہے۔پاکستان اس بات کا خواہاں ہے کہ بات چیت کے ذریعے سے مسائل کو حل کیا جائے۔اس موقعے پر پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت کا ایک پیج پر ہونا بہت ہی خوش آئند بات ہے۔ ۔مشرق وسطی کی موجودہ صورتحال سے امت مسلمہ میں نفاق پیدا ہوا رہا ہے اس موقعے پر پاکستانی قیادت کا یہ دورہ امن و آشتی کی طرف پہلا قدم ہے۔دورے کے پہلے حصے میں وزیر اعظم نوازشریف اور جنرل راحیل نے سعودیہ عرب کے فرمانروا شاہ سلیمان سے ملاقات کی۔آج ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات کرکے دونوں ممالک کے درمیان خلیج کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ سوشل میڈیا پر بھی یوزرز نے اس مصالحتی دورے کا خیر مقدم کیا.ایم پی اے حنا بٹ نے ٹویٹ کیا دونوں شریف پیس مشن پر ہیں۔ایم این اے مائزہ حمید نے ٹویٹ کیا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور راحیل شریف خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ صحافی وسیم عباسی نےٹویٹ کیا یہ ایک بہترین اقدام ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے ہم امت مسلمہ کے خیر خواہ ہیں اور نیوٹرل ہیں دوسری طرف سول ملٹری قیادت ایک پیج پر ہے۔ مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس دورے کو سراہتے رہے ۔مریم مصطفی نے ٹویٹ کیا کہ وزیراعظم نوازشریف اسلامی ممالک میں امن کے خواہاں ہیں جس کے لئے وہ بہت سنجیدگی سے کام کررہے ہیں۔عثمان دانش نے ٹویٹ کیا دونوں شریفوں کی امن کے لئے کاوشیں قابل تحسین ہیں۔شہزادہ مسعود نے ٹویٹ کیا عالم اسلام میں امن اور یکجہتی کے لئے ایک اچھا قدم ہے اللہ اس نیک کام میں وزیراعظم نوازشریف اور جنرل راحیل شریف کو کامیابی دے۔ مبشر اکرم نے ٹویٹ کیا پاکستان مسلم ممالک کے حوالے سے جدید ڈپلومیسی رکھتا ہے پاکستان کی ضمانت پر یہ معاملہ حل ہوجائے گا۔عاطف متین انصاری نے ٹویٹ کیا اس دورے سے پاکستان مخالف قوتوں کا خواب چکنا چور ہوگیا جو سمجھتے تھے کہ پاکستان کو فرقہ واریت کی جنگ میں جھونکا جاسکتاہے۔سول حکومت کےتدبر اور فوج کی عسکری قوت سے پاکستان کا مستقبل تابناک ہے ۔محمد عثمان نے ٹویٹ کیا انشاء اللہ پاکستان کی کوششوں سے ایران اور سعودیہ عرب میں کشیدگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔جون ایلیا نے ٹویٹ کیا وقتی طور پر ایران اور سعودیہ عرب میں کشیدگی ختم ہوجائے گی ۔ شہریار علی نے ٹویٹ کیا انشاءاللہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا مشترکہ دورہ ایران سعودیہ سود مند ثابت ہوگا۔عرفان علی نے ٹویٹ کیا پاکستان نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اسلام کا قلعہ ہے۔ہینڈسم منڈا نے ٹویٹ کیا یہ ایک اچھا قدم ہے ایران اور سعودیہ کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں ان کے درمیان کشیدگی پاکستان پر اثرانداز ہوگی۔عبد الخالق نے فیس بک پر پوسٹ کیا مجھے امید ہے اور میں خداکے حضوردعاگو ہوں کہ وہ وزیراعظم اورآرمی چیف کے سعودی عرب اورایران کے اس دورے کو کامیاب بنائے ، دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کاخاتمہ ہو، برادرانہ تعلقات قائم ہوں اورمشرق وسطیٰ میں پوری دنیا میں دیرپا امن واستحکام قائم ہو آمین جویریہ صدیق صحافی،مصنفہ اور فوٹوگرافر ہیں۔ان کی کتاب سانحہ آرمی پبلک سکول شہدا کی یادداشتں حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ ان کا ٹویٹر اکاونٹ @javerias ہے ۔ |
آپریشن ضرب عضب کا ایک سال
آپریشن ضرب عضب کا ایک سال |
Posted On Monday, June 15, 2015 …..جویریہ صدیق……
امریکا میں تو نائن الیون جیسا دہشتگردی کا واقعہ ایک بار ہوا لیکن اس واقعے کی قیمت پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں اتحادی بننے کے بعد ہر روز چکائی۔سیکڑوں نائن الیون جیسے واقعات پاکستان میں رونما ہوئے جس میں70 ہزار سے زائد پاکستانی اپنی جان سے گئے۔ طالبان ہوں القاعدہ ہو یا ’را‘ کے آلہ کار سب کے نشانے پر معصوم پاکستانی۔ دہشت گردی نے پاکستانی عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔کچھ مصلحت پسند سیاست تب بھی دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا راگ الاپتے رہے،لیکن کراچی میں اصفہانی ہینگر پر دہشت گردانہ حملے کے بعد عوام کی طرف سے یہ مطالبہ شدت اختیار کرگیا کہ دہشتگردوں کے خلاف فوری بڑے آپریشن کا آغاز کیا جائے،پاک آرمی اس پہلے بھی آپریشن راہ راست، آپریشن راہ نجات،آپریشن المیزان اور آپریشن راہ حق کے ذریعے سے شدت پسندی کا خاتمہ کرچکی تھی،لیکن شمالی وزیرستان میں بڑے آپریشن کی اشد ضرورت کی جارہی تھی۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نواز شریف نے جون 2014 میں ضرب عضب آپریشن کا آغاز کیا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار مبارک پر اس آپریشن کا نام رکھا گیا، یہ تلوار رسول اللہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ بدر اور غزوہ احد میں استعمال کی، اس کا مطلب ہے کاٹ دینے والی ضرب۔آپریشن ضرب عضب سے پہلے عام شہریوں کو علاقہ چھوڑنے کی تلقین کی گئ۔ساڑھے دس لاکھ لوگوں نے نقل مکانی کی جنہیں بنوں اور بکا خیل میں عارضی طور پر پناہ دی گئ۔آرمی نے تمام لوگوں کو باقاعدہ رجسٹر ڈکرکے کیمپوں میں منتقل کیا۔15 جون کو پہلی کاروائی میں 120 دہشت گرد مارے گئے اور بارودی ذخیرے تباہ ہوئے۔آپریشن میں ابتدائی طور پر لڑاکا جیٹ طیاروں،گن شپ ہیلی کاپٹر کوبرا نے اہداف کو نشانہ بنایا بعد میں زمینی کاروائی کا آغاز ہوا۔میر علی، میران شاہ،ڈانڈے درپہ خیل،غلام علی ،شوال،بویا،سپلگاہ،زراتا تنگی میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا،ان کاروائیوں میں دہشتگردوں کو بھاری نقصان پہنچا اور متعدد گولہ بارود کے ٹھکانے تباہ کئے گئے۔
اکتوبر میں ضرب عضب کے ساتھ ساتھ خیبر ایجنسی میں خیبر ون اور ٹو کا بھی آغاز کردیا گیا۔ضرب عضب نے کامیابی سے اپنے اہداف پورے کرنا شروع کئے تو پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں طور پر کمی آئی،تاہم بزدل دشمن نے بدلے کی آگ میں پشاور میں آرمی پبلک سکول و کالج پر حملہ کردیا،ان کا مقصد بچوں کو یرغمال بنانا نہیں تھا ،ان بزدل دہشتگردوں کا مقصد صرف پاک افواج اور پاکستانی شہریوں کے قلب پر حملہ کرنا تھا،پر بزدل طالبان اور بھارت کے پالتو دہشتگرد پاکستانیوں کے حوصلے کو پست نہیں کرسکے،سانحہ پشاور کے بعد قوم نے ایک بار پھر متحد ہوکر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا فیصلہ کیا۔اس موقع پر آرمی چیف راحیل شریف کا کردار قابل ستائش ریا، جہاں وہ ایک شفیق بڑے بھائی کی طرح سانحہ پشاور کے شہدا کو دلاسا دیتے رہے تو دوسری طرف ماہر سپہ سالار کی طرح دہشت گردی کے خلاف نئی حکمت علمی ترتیب دیتے گئے۔
وزیراعظم نواز شریف نے پھانسی پر عائد پابندی کو ختم کردیا اور ملٹری کورٹس کی منظوری دےدی،دہشتگردوں کو پھانسیاں دے کر انہیں زمانے بھر کے آگے نشان عبرت بنا ڈالا یو ں دوسرے بزدل دہشت گردوں کے حوصلے بھی مزید پست ہوگئے،اب دہشتگردی کی کاروائیاں گذشتہ سالوں کے مقابلے میں کم ہوگئیں۔
آپریشن ضرب عضب کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے اور اس دوران 2763 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیاگیا۔
آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق شمالی وزیرستان سے 18087 ہتھیار اور 253 ٹن دھماکہ خیز مواد برآمد کیاگیا،دہشت گردوں کے 837 خفیہ ٹھکانے تباہ کئے گئے،اس آپریشن کے نتیجے میں بیشتر علاقہ دہشتگردوں سے خالی کروالیا گیا،ملک کی خاطر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے 347 فوجی جوانوں اور افسران نے جام شہادت نوش کیا.یہ ان نوجوانوں کی قربانی کا نتیجہ ہے کہ وزیرستان کے لوگ آج واپس اپنے علاقوں میں لوٹ رہے ہیں،اب ان افراد کو یہ اطمینان ہے کہ وہ اپنے گھر کو لوٹ رہے ہیں جو اب مکمل طور پر پرامن ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق اس آپریشن پر 44 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں اور اس آپریشن نے اپنے اہداف کامیابی سے حاصل کئے۔ان کے مطابق آئی ڈی پیز کی واپسی اور مکمل بحالی کے لیے 130 ارب روپے خرچ ہوں گے۔پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عندیہ دیا ہے دہشتگردوں کے خلاف اس وقت تک کاروائی جاری رہے گی جب تک کہ ملک سے شدت پسندوں کا خاتمہ نا ہوجائے۔
پاکستانیوں کی بھی یہ ہی خواہش ہے کہ یہ آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچے اور وطن عزیز میں مکمل امن ہوجائے، تاہم اب بھی ایک بہت بڑا چیلنج درپیش ہے چین کے صدر ژی جن پنگ کے دورہ پاکستان جس میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا اعلان کیا گیا،اس کے بعد سے دہشتگردی کی ایک نئی لہر سامنے آئی اور یہ ثبوت عیاں ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را اس میں ملوث ہے۔پاک فوج کو سندھ اور بلوچستان میں ان عناصر کا خاتمہ کرنا ہوگا جو دشمن کے آلہ کار ہیں۔پاکستان کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا ،نئی بندرگاہوں کی تعمیر ناگزیر ہے،جس طرح ضرب عضب میں دہشتگردوں کی کمر توڑی گئ اس ہی طرح پاکستان کے دیگر شہروں میں وطن دشمن سرگرمیوں میں مصروف افراد اور مافیا کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کرنا ہوگا،قوم کی نگاہیں راحیل شریف کی طرف ہیں کس طرح سپہ سالار قوم کو مکمل طور پر دہشت گردی سے نجات دلوائے گا،قوم کے ہر اس سپوت کو سلام جس نے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ضرب عضب میں حصہ لیا اور دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا،قوم کی ان مائوں کو سلام جن کے جوان بیٹوں نے مادر وطن پر اپنی جان نچھاور کردی اور ان کے حوصلے اب بھی بلند ہیں،قوم کے ان غازیوں کو بھی سلام جن کی بدولت آج دہشتگردی میں قدرے کمی آئی ہے۔
پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد
Javeria Siddique writes for Daily Jang
twitter @javerias – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10891#sthash.Ps7IQwTT.dpuf
شہید رفیق رضا بنگش
…..جویریہ صدیق……
یوں تو آرمی پبلک اسکول کے شہید اساتذہ اور بچوں کا چالیسواں ہوچکا ہے لیکن لواحقین کے لیے16 دسمبر کے بعد سے وقت تھم گیاہے۔وہ زندگی سے وابستہ امیدیں اور تمام رونقیں منوں مٹی تلے دبا چکے ہیں۔شہدا کے لواحقین ہیں اس لیے صبر و استقامت کی مثال تو ہیں لیکن ہیں تو انسان ہی نا جیتے جاگتے، اپنے پیاروں کو کھو دینے کا غم انہیں اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے۔جانے والے چلے گئے لیکن لواحقین کو زندگی بھر کا روگ دے گئے۔جہاں پہلے پھول مسکرایا کرتے تھے اب وہاں خزاں کا موسم ہے۔
رفیق رضا بنگش بھی ان ہی ایک پھولوں میں ایک پھول ہے جو 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر حملے کے دوران مرجھا گیا۔رفیق شہید بھی ہال میں دوسرے بچوں کے ساتھ موجود تھا ،جہاں ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی جارہی تھی۔طالبان ظالمان موت کی صورت میں نازل ہوئے اور بچوں ان کے استاتذہ پر گولیاں برسانی شروع کردی۔رفیق بنگش کو بھی سر میں گولی لگی اور یوں صرف 15 سال کی عمر میں اس نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ جام شہادت نوش کرلیا۔
زندگی سے بھرپور تابعدارمیٹرک کا طالب علم رفیق رضا بنگش ہمیشہ کلاس میں پوزیشن لیتا تھا۔پانچ سال سے آرمی پبلک سکول میں زیر تعلیم تھا ،والدین نے اس لیے آرمی پبلک سکول میں داخل کروایا کیونکہ یہ پشاور کے بہترین اسکولوں میں شمار میں ہوتا ہے۔رفیق کے ساتھ ہی اس کے چھوٹے بھائی مرتجب رضا بنگش کو بھی آرمی پبلک سکول میں داخل کروایا گیا اور یوں دونوں بھائی روزانہ ساتھ اسکول جاتے۔ رفیق پوزیشن ہولڈر ہونے کے ساتھ ساتھ اسکول میں نعت خوانی کرتا اور رمضان ،ربیع الاول میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ضرور حصہ لیتا۔
رفیق رضا بنگش سائنس کا طالب علم تھا لیکن وہ سائنس کو روزمرہ زندگی پر بھی اپلائی کرتا،گھر میں کوئی چیز بھی خراب ہوجاتی رفیق اپنا ٹول بکس اٹھاتا اور خود ہی گھر میں چیزیں ٹھیک کرنا شروع کردیتا اور اکثر کامیابی سے انہیں ٹھیک کردیتا۔رفیق کو بچپن سے ہی گاڑیوں کا بہت شوق تھا پہلے تو خوب سارے کھلونے جمع کرتا اور پھر خوب کار ریسنگ ہوتی۔عمر کے ساتھ ساتھ گاڑیوں میں اس قدر دلچسی بڑھی کہ ڈرایونگ ہی سکھ ڈالی۔اپنی ایک چھوٹی سے گاڑی ڈیزائن کی اور اسکول کے بعد بس ایک ہی مشغلہ اس چھوٹی گاڑی کو روز جدید چیزوں سے لیس کرتے رہنا۔رفیق کی یہ خواہش تھی کہ وہ اسکول کے سائنس پراجیکٹس کی نمائش میں اپنی یہ چھوٹی ڈیزائن کردہ گاڑی کو لے کر جائے گا لیکن ایسا نا ہوا اور وہ اپنی اس خواہش کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگیا۔
رفیق رضا بنگش کے والد عابد بنگش نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کا لخت جگر ان کو یوں اچانک چھوڑ جائے گا۔ 16 دسمبر کو وہ اپنے دفتر میں کام میں مصروف تھے کہ میسج آیا آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوگیا ہے ماتحت سے موٹر سائیکل لی کیونکہ وہاں گاڑی لے کر جانا ناممکن تھا ، راستہ جام ہوچکا تھا وہاں پہنچے ۔موٹر سائیکل جانے تک کی جگہ نہیں تھی اور وہ پیدل ہی اپنے بچوں کو ڈھونڈتے رہے مرتجب رضا بنگش تو اللہ کے کرم سے محفوظ رہا لیکن رفیق رضا بنگش کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔عابد بنگش نے مختلف اسپتالوں میں چکر لگائے اپنے بیٹے کو ڈھونڈتے رہے ۔بیٹے کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتے رہے لیکن ان کی تلاش سی ایم ایچ میں اس وقت ختم ہوئی جب ان کے شہید بیٹے رفیق رضا بنگش کا جسد خاکی ان کے سامنے موجود تھا ۔سفید کفن میں لپٹا معصوم ننھا شہید وطن کی خاطر اپنی جان قربان کر چکا تھا۔
رفیق بنگش کے ساتھ اس کے دوستوں مبین شاہ اور محمد یاسین نے بھی شہادت پائی۔یہ سب ساتھ پلے بڑھے اور ایک ساتھ ہی سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔رفیق رضا بنگش شہید کی والدہ بہت بے چین ہیں ان پر غموں کا پہاڑ جو ٹوٹ پڑا اتنا نازوں سے پالا بیٹا طالبان کی بربریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔وہ ہر وقت ہر پل اس بات کی منتظر رہتی ہیں کہ کب کون سا لمحہ آئے اور وہ رفیق کو چاہےا یک پل کیوں نا ہو دوبارہ دیکھ سکیں ،بس کسی طرح ان کا لخت جگر واپس آجائے لیکن ایسا ممکن نہیں۔رفیق تو شہادت کا درجہ پا کر جنت میں چلا گیا۔ماں کا دل بے قرار ہے ہر پل ہروقت ہر آہٹ پر وہ صرف اپنے بیٹے کو پکار رہا ہے۔رفیق کی کاپیاں کتابیں کھلونے کپڑے سب ہی تو موجود ہیں وہ گاڑی بھی جس کو اس نے سائنسی نمائش میں لے کر جانا تھا بس اگر کوئی موجود نہیں ہے تو وہ رفیق خود ہے۔جو اپنے تمام پیاروں کو چھوڑکر چلا گیا۔
رفیق بنگش کے والد عابد بنگش کہتے ہیں کہ اس واقعے نے ان سب کی زندگی کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ رفیق جیسے انمول کو کھونے کا کرب بیان سے باہر ہے لیکن وطن پر جان نچھاور کرکے اس نے ہم سب کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی بار ان کی ہمشیرہ انہیں کینیڈا امیگریشن کے لیے کہہ چکی ہیں لیکن رفیق جب تک زندہ رہا اس نے ہر بار کہا کہ ہماراو طن پاکستان ہے اور ہمیں کسی غیر ملک میں جاکر کبھی نہیں رہیں گے۔ہمارا جینا بھی یہاں ہےاور مرنا بھی یہاں ہے یہ بات وہ سچ کرگیا اور اس مادر وطن پر اپنی جان نثار کردی۔شہید رفیق رضا بنگش کے بھائی مرتجب رضا بنگش کے مطابق میرا بھائی ہم سب کو بہت پیارا تھا لیکن میرے خیال میں اللہ تعالی کو وہ ہم سب سے زیادہ پیارا تھا اس لیے اس کو شہادت کے رتبے پر فائز کرکےاللہ نے اپنے پاس بلوالیا۔ مرتجب کا کہنا ہے میں نے اپنے آنسو روک لیے ہیں کیونکہ میرے بھائی کو میرے آنسو سے تکلیف نا ہو ۔میں نے اسکول جانا دوبارہ شروع کردیا ہے کیونکہ ہم پاکستانی بچے کسی دہشتگرد سے نہیں ڈرتے لیکن بھائی کی کمی کا احساس مجھے شدت سے ہے پہلے ہم دونوں ساتھ جاتے تھے اور اب میں اکیلا اسکول جاتا ہوں۔
رفیق رضا بنگش شہید کے خاندان کے مطابق ہم اپنے بیٹے کی قربانی پر نازاں ہے لیکن یہ وقت قوم کے متحد ہونے کا ہے ہم سب کو اپنے مفادات کو پس پشت رکھتے ہوئے اب صرف اس مادر وطن کے لیے متحد ہونا ہوگا۔ سول سوسائٹی کو مل کر فوج کا ساتھ دینا ہوگا تب ہی ہم سن مل کر ہی اس دہشت گردی کو ختم کرسکتے ہیں۔بچوں کی قربانی کو ہم رائیگاں نہیں جانے دےسکتے ،صرف متحد ہو کر ہی ہم دہشت گردی کے اس ناسور کو معاشرے سے اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں ۔
تمام پاکستانی جہاں شہید بچوں کے لیے رنجیدہ ہیں وہاں انہیں ان ننھے شہیدوں پر فخر بھی ہے کہ آرمی پبلک سکول میں بچوں اور استاتذہ نےموت کا جرات سے سامنا کیا اور وطن کے لیے جان قربان کردی،شہید رفیق رضا بنگش کو سلام، آرمی پبلک اسکول کے تمام شہدا کی عظمت اور جرات کوسلام۔
Posted On Thursday, January 22, 2015