Posted in kashmir, Pakistan

زلزلہ اور نقشہ بی بی

جویریہ صدیق 

14 oct 2015 

https://twitter.com/javerias

IMG_20181008_121120

10اکتوبر2005  صبح کے آٹھ بج کر پچاس منٹ کو کوئی پاکستانی نہیں بھول سکتا.یہ تاریخ پلک جھپکتے میں سینکڑوں پاکستانیوں کی زندگی بدل گئ.زلزلے کے جھٹکے ہزاروں انسانوں کے خوابوں کو چکنا چور کرگیے. زندگی بھر کی کمائی جمع کرکےمحبت سے بنائے گھر منٹوں میں زمین بوس ہوگئے.علم حاصل کرنے والے بچے اپنی درس گاہوں میں کنکریٹ کے ملبے تلے دب گئے.اس قیامت خیز زلزلے میں چھیاسی ہزار سے زاید افراد جان بحق ہوئے اور پچھتر ہزار کے قریب زخمی ہوئے.اسلام آباد سے لے کر مظفرآباد ہر طرف پاکستانی نڈھال  اور زخموں سے چور تھے.سب سے زیادہ نقصان آزاد کشمیر میں ہوا. ہر طرف تباہی اور ملبہ جب تک امدادی کارکن کراچی لاہور اسلام آباد سے پہنچے بہت سے لوگ اپنی زندگی ہار چکے تھے.پاک آرمی نے زخمیوں کو ریسکیو کرکے ملک کے دیگر ہسپتالوں میں منتقل کرنا شروع کیا.ریسکو کے بعد ریلیف کا شروع ہوا.عالمی ادارے اور دوست ممالک کی امدادی اور طبی ٹیمز بھی پاکستان پہنچ گئی.

unnamed (1) (1)
ریسکیو اور ریلیف کے دوران اللہ نے اپنا معجزہ دیکھایا اور زلزلے کے 63 روز گزر جانے کے بعد ایک خاتون کو ملبے میں سے زندہ نکالا گیا . چالیس سالہ نقشہ بی بی زلزلے کے دوران اپنے کچن کے ملبے تلے دب گئ.اس کے رشتہ دار یہ سمجھتے رہے کہ وہ یا تو جاں بحق ہوگی ہے یا پھر کسی ریلیف کیمپ میں ہے.لیکن رشتہ داروں کو نقشہ ملبہ اٹھاتے وقت کچن سے ملی.وہ پہلے یہ سمجھے کہ وہ مر چکی ہے لیکن نقشہ نے جب آنکھیں کھولی تو سب حیران رہ گئے.نقشہ کو پہلے مظفرآباد منقل کیا گیا.اس کے بعد انہیں اسلام آباد پمز منتقل کردیا گیا.
نقشہ اتنے دن اکیلی بھوکی پیاسی ملبے تلے دبی رہی ڈاکٹرز کے مطابق اس ساری صورتحال نے اس کے اعصاب اور ذہنی صحت پر برا اثر ڈالا.کتنا عرصہ نقشہ کو ڈراپ پر اور مائع خوراک پر رکھا گیا کیونکہ وہ کھانے پینے سے قاصر تھی.اس کا وزن صرف پینتس کلو رہ گیا تھا.وہ چلنے پھرنے کے بھی قابل نا تھی. اتنا عرصہ ملبے میں رہنے کی وجہ سے اس کی بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کیا.ڈاکٹرز کی انتھک محنت کے بعد نقشہ نے اپنی بات اشاروں میں سمجھانا شروع کردی اور چلنا بھی شروع کردیا.

DSC_0628 (1)
پر افسوس نقشہ کے زیادہ تر رشتہ دار اس سانحے میں چل بسے تھے. بوڑھے باپ جس کی ٹانگ زلزلے کے بعد ڈاکٹرز نے اس کی جان بچانے کی خاطر کاٹ دی تھی اور غریب بھائی نے اس کی دماغی صحت کی خرابی کی بنا پر اس کو اپنانے سے انکار کردیا. چلا بانڈے میں وہ خود کیمپ میں مقیم تھے اور نقشہ کی کفالت کے قابل نہیں تھے.میری نقشہ سے پہلی ملاقات ہسپتال میں ہوئی اور دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب ان کو اسلام آباد ایدھی ہوم منتقل کردیا گیا.میرا جب بھی ایدھی ہوم جانا ہوتا تو نقشہ سے ملاقات ہوتی صاف ستھرے کپڑوں میں نقشہ خود چل پھر سکتی تھی اپنے ہاتھ سے کھانا بھی کہا لیتی لیکن وہ نا ہی وہ کسی بات کو سمجھ پاتی اور نا ہی جواب دیے پاتی.
دوہزار پندرہ مارچ تک نقشہ ایدھی ہوم میں رہی .دو ہزار پندرہ آٹھ اکتوبر کو جب زلزلے کو دس سال مکمل ہوگئے تو مجھے نقشہ کی یاد ستائی .لیکن ایدھی ہوم جاکر مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ جب میں نے نقشہ سے ملنا چاہا تو پتہ چلا.نقشہ تو یہاں سے چلی گئ.میں نے انچارج ایدھی ہوم شکیل احمد سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ نقشہ کو ملتان ایدھی ہوم بھیج دیا گیا.کیونکہ اس صحت گرتی جارہی ہے وہ سردی برداشت نہیں کرسکتی.
اب نقشہ کو ملتان میں ڈھونڈنا ایک مسلہ تھا میں نے ٹویٹر پر ملتان کے ٹویٹر صارف سے درخواست کی مجھے نقشہ بی بی کا پتہ معلوم کرکے دیں.بہت دن کی کوشش کی بعد بالآخر 13 اکتوبر کو نقشہ مل گئ.نقشہ کا خیال تو رکھا جارہا ہے لیکن وہ اندر سے بلکل ٹوٹ چکی ہے.پہلے جو کبھی وہ مسکرا دیتی تھی اب وہ نا ہی مسکراتی ہے نا ہی کوئی رسپانس دیتی ہے. 6 سال سے وہ اپنے کسی رشتہ دار سے نہیں ملی. اب ایدھی ہوم ہی اس کا گھر ہے اور یہاں کہ رہنے والے اس کے رشتہ دار ہیں.
اگر اس وقت کی حکومت زلزلہ زدگان کی مکمل بحالی کردیتی تو آج نقشہ اپنے پیاروں کے ساتھ ہوتی.  آٹھ اکتوبر کو بہت سے پیکج چلے نیوز آئیں پروگرام نشر ہوئے پر سب نقشہ کو فراموش کرگیے. شاید یہ تحریر پڑھ کر بہت سی مارننگ اور ایونگ شو کے اینکرز  نقشہ کے پاس پہنچ جائیں گے اس کا کرب دیکھا کر ریٹنگ بڑھانے کی کوشش کریں گے.پر یہ مسلہ کا حل نہیں ہے اگر نقشہ کے گھر والوں کی مکمل بحالی کردی جاتی اور مظفرآباد میں ہی ہسپتال سے اسے مفت طبی علاج معالجے کی سہولت تاحیات فراہم کردی جاتی .تو آج نقشہ اپنے پیاروں کے ساتھ مختلف زندگی گزار رہی ہوتی.
ایدھی ہوم ایک ایسا فلاحی ادارہ ہے جہاں لاکھوں لوگ پناہ لئے ہوئے ہیں.عبد الستار ایدھی اور بلقیس ایدھی نے کبھی اپنے فلاحی ادارے کو اپنی ذاتی تشہیر کے لئے استعمال نہیں کیا.چپ کرکے یہ دونوں عظیم شخصیت  اور ایدھی ہوم سے منسلک افراد خدمت خلق میں مصروف ہیں.ہر ہفتے نقشہ کا طبیمعائنہ ہوتا ہے ایک مددگار اس کو چلنے پھیرنے میں مدد دیتی ہے.اس کو کھانا کھلاتی ہے.میں سوچتی ہوں اگر حکومت زلزلہ متاثرین کی آبادکاری مکمل طور پر کردیتی تو آج نقشہ شاید ایک خوش گوار زندگی گزار رہی ہوتی.نقشہ آج بھی خلاؤں میں کچھ ڈھونڈتی رہتی ہے شاید زلزلے سے پہلے کے دن یاد کرتی ہوگی.
نقشہ کو دیکھ کر آٹھ اکتوبر کے وہ تمام درد یاد آجاتے ہیں  .اس  کے چہرے پر  آٹھ اکتوبر کا کرب دائمی طور پر نقش ہوگیا ہے. آٹھ کتوبر 2005 کو کس طرح لوگ ملبے تلے دبے مدد کے لئے پکار رہے تھے اور ہمارے ادارے ناکافی مشینری کے باعث انہیں نا بچا سکے.آج بھی صورتحال یہ ہی ہے کہیں آگ لگ جاتی کہیں چھت گر جاتئ ہے تو بھی ہمارے ریسکیو کی مشنری نا کافی ہے اور لوگ سسک سسک کر مرجاتے ہیں. ہماری حکومت اور اپوزیشن کی ترجیحات پر لوگوں کے لئے صحت عامہ کی سہولیات باعزت روزگار  مفت تعلیم اور سر چھپانے کے لئے ایک چھت مہیا کرنا کب آئے گا  کچھ معلوم نہیں. نقشہ کو زلزلہ تو نا مار سکا لیکن ہمارے معاشرے کی بے حسی ضرور اسے مار گئ ہے.25 اکتوبر ۲۰۱۵ کو نقشہ بی بی کا ایدھی ہوم ملتان میں انتقال ہوگیا۔

یہ تحریر ۲۰۱۵ میں جنگ میں شایع ہویی۔

Posted in Uncategorized

سعید اجمل کی معطلی اور سوشل میڈیا

September 11, 2014   …...جویریہ صدیق……
پاکستانی آف اسپنر سعید اجمل کے بولنگ ایکشن کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ان پر پابندی عائد کردی ہے۔آئی سی سی کے مطابق آف اسپنر کی تمام گیندیں 15ڈگری سے تجاوز کر رہی تھیں، اس حوالے سے آسٹریلیا میں بائیو میکینکل ٹیسٹ کیا گیا اور نتائج آنے کے بعدان پر پابندی عائد کردی گئی ۔اس خبر کے نشر ہوتے ہوئے عوامی سطح پر غم اور مایوسی پھیل گی۔ون ڈے کرکٹ کے نمبر ون آف اسپنر سعید اجمل کا جادو صرف پاکستان ہی نہیں عالمی دنیا میں سر چڑھ کر بول رہا ہے اور ایسے وقت میں ان پر پابندی نے ان کے شائقین کو بے حد مایوس کیا ہے۔1977 میں پیدا ہونے والے سعید اجمل ٹیسٹ کرکٹ میں 178ون ڈے میچز میں 183اور ٹی ٹوینٹی میں 85وکٹیں لے چکے ہیں۔ سعید اجمل پر یہ اعتراض کچھ نیا نہیں 2009میں بھی ان کی بولنگ پر اعتراض کیا گیا تھا تاہم بعد میں ان کو کلیئر کردیا گیا۔ اس وقت سعید اجمل آئی سی سی کی عالمی ون ڈے رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہیں، لیکن پاکستان اور سری لنکا کے درمیان گال ٹیسٹ میں امپائرز نے سعید اجمل کے بولنگ ایکشن کو 15ڈگری سے تجاوز ہونے کی رپورٹ کی تھی۔ اس کے بعد انٹرنیشنل کونسل نے سعید اجمل کا آسٹریلوی شہر برسبین میں ان کا ٹیسٹ لیا اور دو ہفتے بعد ٹیسٹ کی رپورٹ کے مطابق کے سعید اجمل کے بولنگ ایکشن کو قواعد و ضوابط کے منافی قرار دے کران پر پابندی عائد کردی۔ ایکشن کی درستگی تک وہ بین الاقوامی میچز میں بولنگ نہیں کرسکتے۔ اس پابندی کے سبب وہ آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں حصہ نہیں لے سکیں گے اور 2015ورلڈ کپ میں بھی ان کی شمولیت مشکوک ہوگئی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان نے کہا ہے کہ سعید اجمل پر پاپندی پر اپیل کا فیصلہ ایک سے دو دن میں کر لیا جائے گا۔ اگر یہ اپیل قبول ہو جاتی ہے تو سعید اجمل پر پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔

سوشل میڈیا پر بھی سعید اجمل پر پابندی کے بعد بہت بے چینی اور غصہ نظر آیا۔ خبر کے بعد سے ہی یہ ٹویٹر پر ہائی ٹرینڈ بن گیا، ہر منٹ میں دس ٹویٹ سعید اجمل کے حوالے سے کیے گئے اور اب تک 15ہزار ٹویٹ کیے جا چکے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ٹویٹ کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو پوری قوت کے ساتھ آئی سی سی میں سعید اجمل کا مقدمہ لڑنا چاہیے۔ سابق کرکٹر ثقلین مشتاق نے ٹویٹ کیا کہ میری تمام حمایت سعید اجمل کے لیے ہے اور میں ان کی ہر ممکن مدد کروں گا۔ سابق وزیر سینیٹر بابر اعوان نے ٹویٹ کیا کہ آئی سی سی کا یہ فیصلہ یک طرفہ ہے، اگر ملنگا کرکٹ کھیل سکتا ہے تو سعید اجمل کیوں نہیں، میں احتجاج کرتا ہوں۔ دی نیوز کے صحافی عثمان منظور نے ٹویٹ کیا کہ بگ تھری سعید اجمل کا مقابلہ تو نہیں کرسکتے اس لیے ان کو بین کردیا گیا۔ جیو ٹی وی کے رپورٹر اور کرکٹ ایکسپرٹ فیضان لاکھانی نے کہا کہ سعید اجمل اب بھی ورلڈ کپ کھیل سکتے ہیں بس اتنا کرنا ہے کہ وہ اپنے ایکشن میں بہتری لائیں، ڈیزل فوسٹر اس میں مدد کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعید اجمل کو بین نہیں معطل کیا گیا ہے۔ ٹی وی اینکر سدرہ اقبال نے کہا کہ آج کل بری خبروں کا موسم ہے۔ افسوس کہ سعید اجمل پر پابندی عائد کردی گئی۔ صحافی مدیحہ انور نے ٹویٹ کیا کہ 111ون ڈے میچز اور 35ٹیسٹ میچیز کے بعد آئی سی سی کو پتہ چلا کہ سعید اجمل کا بولنگ ایکشن غیر قانونی ہے، حیرت ہے لیکن ہم سب سعید اجمل کے ساتھ ہیں۔

منزہ عباسی نے ٹویٹ کیا کہ بگ تھری کا پہلا شکار سعید اجمل ہوگئے۔ احمر خان نے کہا کہ اگر آپ کسی کو ہرا نہیں سکتے تو اس پر پابندی عائد کردیں، آئی سی سی کا فیصلہ افسوس ناک ہے، سعید اجمل کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ پاکستانی ہے۔ شاہد نبی نے ٹویٹ کیا کہ سعید اجمل دنیا کا نمبر ون بولر ہے، اچانک آئی سی سی کو خیال آتا ہے کہ نمبر ون بولر کا تو بولنگ ایکشن ہی غیر قانونی ہے، کیا بات ہے آئی سی سی کی سمجھ بوجھ کی۔ حرا شاہ نے ٹویٹ کیا کہ آئی سی سی صرف ہمارے کھلاڑیوں کو ہی ورلڈ لپ سے پہلے بین کیوں کرتا ہے؟علی حیدر نے ٹویٹ کیا آئی سی سی جانبدار ہے اور ورلڈ کپ سے پہلے سعید اجمل کو معطل کرنا پلان کاحصہ ہے۔فہد خان نے ٹویٹ کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کہاں ہے ؟ارسلان عبید نے کہا کہ پاکستانی کرکٹ بورڈ کی لابی بہت کمزور ہے۔محمد شہزاد نے کہا کہ آئی سی سی کو دوسرے بولرز کا مشکوک بولنگ ایکشن کیوں نہیں نظر آتا ؟سحر سمیع نے کہا کہ ورلڈ نمبرون آف اسپنر پر پابندی افسوس ناک ہے۔

بلال عباسی نے طنزیہ کہا کہ اس فیصلے کے خلاف آئی سی سی ہیڈ کوارٹر کے باہر دھرنا دینا ہوگا۔احمد خیام نے کہا کہ یہ بگ تھری کا تحفہ ہے پاکستانیوں کے لیے۔علی نے ٹویٹ کیا کہ ملنگا کا بولنگ ایکشن تو نظر نہیں آتا لیکن سعید اجمل ان کی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔احسن جوکہ سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہیں انہوں نے ٹویٹ کیا آئی سی سی آپ ہمیں بالکل اچھے نہیں لگتے۔سلمان نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ آئی سی سی کو اپنا نام انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے بدل کر انٹرنیشنل کرکٹ کامیڈی کر لینا چاہیے۔

تاہم حالات چاہے جو بھی ہوں سعید اجمل کے حوصلے بلند ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔پاکستان کے سنجیدہ حلقے اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس وقت کرکٹ بورڈ کو فوری طور پر سعید اجمل کے بو لنگ ایکشن کو درست کرنے پر توجہ دےاور تمام اعتراضات دور کرے۔اس کے ساتھ ساتھ دیگرکھلاڑیوں پر بھی توجہ دی جائے تاکہ ورلڈ کپ میں پاکستان متاثر کن کارکردگی دکھا سکے۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10181#sthash.s2qmQD9l.dpuf

Posted in Uncategorized

پولیو کی روک تھام کیسے؟

July 15, 2014   ……جویریہ صدیق…… پاکستان میں صحت کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے ۔زبانی کلامی تو اس شعبے کی بحالی کے حوالے سے بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن عملی طور پر اقدامات کا فقدان ہے۔بات کی جائے اگر پولیو کی تو پولیو ایک ایسا مرض ہے جو دنیا بھر سےتقریبا ختم ہوچکا ہے لیکن سوائے تین ممالک کے جن میں پاکستان،نائیجیریا اور افغانستان شامل ہے۔ انسداد پولیو کے عالمی مانیٹرنگ بورڈ کی پولیو سے متعلق رپورٹ میں یہ حقیقت عیاں ہے کہ پاکستان پولیو کے پھیلائو میں سب سے آگے ہے۔دو ہزار چودہ میں دنیا میں پولیو کے شکار ہر پانچ میں سے چار کیسز پاکستان میں ہیں۔گذشتہ چھ ماہ میں پاکستان سے پولیو وائرس شام،اسرائیل اور غزہ منتقل ہوا۔اس صورتحال کے بعد عالمی ادارہ صحت نے پاکستانی مسافروں پر انسداد پولیو ویکسین کا سرٹیفکیٹ لازم قرار دے دیا ہے۔اگر کسی بھی مسافر نے پولیو ویکسن کی خوراک نا پی ہو اور انسداد پولیوویکسین سرٹیفیکٹ نا ہو تو اس مسافرکو ملک بدر کردیاجایےگا۔ پاکستان کے لیے صورتحال لمحہ فکریہ ہے کہ صحت کے شعبے میں پاکستان کا نام نائیجیریا اور افغانستان جیسے کم ترقی یافتہ ملکوں میں آتا ہے اور اب اس پر سفری پابندیاں بھی عائد کر دی گی ہیں۔

پاکستان میں اگر پولیو کی صورتحال کا جائزہ لیں تو دو ہزار گیارہ میں ایک سو اٹھانوے پولیو کیسز سامنے آئے،دو ہزار بارہ میں چھپن بچے اس مرض میں مبتلا ہویے۔دو ہزار تیرہ میں پچاسی کیسز مزید سامنے آئے،جائزہ لیں اگر دو ہزار چودہ کا تو پانچ جولائی تک ملک بھر میں نوے پولیو کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں فاٹا میں اڑسٹھ کیسز ہیں شمالی وزیرستان میں پچپن، جنوبی وزیرستان میں پانچ،خیبر ایجنسی میں چھ اور ایف آر بنوں میں دو شامل ہیں۔ خبیر پختون خواہ میں پندرہ کیسز سامنے آئے جن میں پانچ پشاور، نو بنوں، ایک مردان میں ہے۔صوبہ سندھ میں سات کیسز جن میں سات کے سات کراچی میں ہیں ایک بلدیہ، ایک اورنگی ،تین گڈاپ، ایک سائٹ اور ایک لانڈھی سے سامنے آیا۔بات ہو بلوچستان کی اور پنچاب کی تو اس سال دونوں صوبوں میں کوئی پولیو کیس اب تک سامنے نہیں آیا۔

خیبر پختون خوا اورفاٹا میں پولیو کیسز سیکورٹی خدشات اور انسداد پولیو ٹیمز پر حملوں کی وجہ سے متاثر ہونے والی مہمات کی وجہ سے زیادہ ہوئےہیں۔ پاکستانی عوام میں انسداد پولیو مہم کو لے کر بہت سے خدشات موجود ہیں یہ بات عام ہے کہ اس ویکسین کی وجہ سے انسان بانجھ پن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔یہ صرف مفروضہ ہی ہے علماء اور ماہرین انسداد پولیو ویکسین کو بالکل محفوظ قرار دیتے ہیں۔نیز یہ کہ اس میں کوئی حرام اجزا بھی شامل نہیں۔بات صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوتی انسداد پولیو مہم کو سب سے بڑا جھٹکا پاکستان میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کا اسامہ بن لادن کی جاسوسی ایک ہیلتھ ورکر کے روپ میں کیے جانے کی وجہ سے لگا ۔ اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد سے عسکریت پسندوں نے ہیلتھ ورکرز پر حملے شروع کردیئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ان حملوں میں خواتین ،مرد ہیلتھ ورکرز اور سیکورٹی اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی جان کی بازی ہاری۔ان تمام واقعات اور قدامت پسندی کی وجہ سے پولیو کیس سب سے زیادہ فاٹا اور کے پی کے میں ہیں اور یہاں سے ہی یہ وایرس دنیا بھر میں منتقل ہورہا ہے۔

حکومت اور محکمہ صحت پولیو سے نمٹنے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کررہے ہیں لیکن فاٹا میں امن امان کی صورتحال اور فوجی آپریشن کے باعث اہداف مکمل کرنا ناممکن ہے ۔اس وقت آپریشن ضرب عضب کے باعث نقل مکانی کرنے والے نو لاکھ افراد کو بھی پولیو ویکسن دی جارہی ہے تاکہ اس مرض کو پھیلنے سے روکا جائے۔

پاکستان اس وقت مختلف انسداد پولیو مہمات کے ذریعے سے پولیو پر قابو کرنے کی کوشش کررہا،گھر گھر جا کر ہیلتھ ورکرز بچوں کو ویکسن پلارہے ہیں۔اسپتالوں میں بھی خصوصی کاونٹرز قائم ہیں اور بیرون ملک جانے والے مسافروں کے لیے ہوائی اڈوں پر پولیو ویکسن کی خوراک دی جارہی ہے۔ سعودیہ عرب نے بھی اس ضمن پاکستان کو ایک کروڑ پولیو ویکسن کی خوراکیں فراہم کی ہیں۔ یہ خوراک ہوائی اڈوں پر استعمال ہوگی۔

تاہم ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے صرف حکومت پر نہیں ہمیں توہم پرستی کی پٹی آنکھوں سے اتار کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم آنے والی نسلوں کو مفلوج مستقبل دینا چاہتے ہیں یا پھر روشن مستقبل ؟علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ انسداد پولیو ویکسن میں کوئی حرام اجزا نہیں نا ہی اس میں کوئی بانجھ پن پیدا کرنے کی اجزاء ہیں۔ علماء کا یہ بھی مزید کہنا ہے کہ ہیلتھ ورکرز پر حملے اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں ان کو روکنا ہوگا ۔اس کے ساتھ عالمی دنیا کو بھی اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ صحت کے اہلکاروں کا جاسوسی کی کاروایوں میں استعمال نا کیا جائے،صحت کے اہلکار صرف صحت سے متعلق سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ ہیلتھ ورکرز کی تنخواہ اور مراعات میں بھی اضافے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ شعبہ صحت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اگر ان کو مناسب مراعات فراہم کر دی جائیں تو یہ مزید مستعد ہوکر پولیو کے خلاف جنگ حصہ ڈال سکیں گے – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9974#sthash.ecjZ3rxi.dpuf

Posted in Uncategorized

پہلا پارلیمانی سال اور ارکان کی کارکردگی

May 30, 2014   …جویریہ صدیق…

پاکستان کی چودہویں منتخب اسمبلی نے اپنا پہلا پارلیمانی سال مکمل کرلیا۔ یہ ایوان 2013 میں ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ پہلے پارلیمانی سال کی مدت یکم جون 2013 سے 30 مئی 2014 پر مشتمل ہے۔اس بار ایوان میں اکثریت مسلم لیگ نواز کی ہے اوران کی نشستوں کی تعداد 190 ہے جن میں ایک 149 جنرل نشستیں، 35 مخصوص نشستیں اور 6 اقلیتی ارکان شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بعد اسمبلی میں بڑی تعداد پیپلز پارٹی کی ہے جن کی نشستوں کی تعداد 46 ہے جس میں 37جنرل نشستیں، 8 مخصوص نشستیں اور ایک اقلیتی رکن کی نشست ہے۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کا نمبر ہے جو34 نشستوں کے ساتھ پارلیمان میں تیسرے نمبر پر ہے جن میں 27 جنرل،6 مخصوص اور ایک نشست اقلیتی رکن کی ہے۔ چوتھی بڑی جماعت ایم کیوایم ہے اور اس کے ارکان کی تعداد 24 ہے، جس میں 19 جنرل، 4 مخصوص، ایک اقلیتی نشست ہے۔ پانچویں نمبر پر جمعیت علمائے اسلام ہے، جس کی کل 13 نشستیں ہیں، 9 جنرل، 3 مخصوص اور ایک اقلیتی نشست۔ مسلم لیگ (ف) 5 ، جماعت اسلامی 4، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی 4، نیشنل عوامی پارٹی 2، پاکستان مسلم لیگ 2،اے این پی 2، بی این پی ایک، قومی وطن پارٹی شیر پاؤ گروپ ایک، مسلم لیگ ضیا ایک، نیشنل پارٹی ایک،عوامی مسلم لیگ ایک،اے جے ائی پی ایک، اے پی ایم ایل ایک اور آٹھ نشستوں کے ساتھ آزاد امیدوار نشستوں کے ساتھ نمایاں ہیں۔ قومی اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 342 ہے۔

اس پارلیمانی سال کا آغازیکم جون دو ہزار تیرہ سے ہوا اورپارلیمانی سال کا آخری اجلاس پانچ مئی دوہزار چودہ سے شروع ہوا اور سولہ مئی دو ہزار چودہ تک جاری رہا۔ اس پارلیمانی سال میں گیارہ اجلاس ہوئے اور ایک اجلاس مشترکہ بھی تھا جس میں صدر پاکستان نے خطاب کیا۔ اگر کارکردگی کی بات کریں تو یوں پارلیمانی کارروائی میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں رہا جس میں ایوان سے تمام تین سو بیالیس ارکان موجود ہوں۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف ایوان میں صرف سات بار آئے اور وزرا کا حال بھی کچھ ایسا ہی رہا، ایوان میں اکیس بار کورم نا پورا ہونے کی نشاندھی کی گئی۔

اپوزیشن بھی اس دوڑ میں پیچھے نا رہی، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پورے پارلیمانی سال میں صرف گیارہ بار ہی ایوان میںآ ئے۔ مولانا فضل الرحمان بھی کیوں پیچھے رہتے وہ بھی صرف پندرہ دن ایوان کو اپنا دیدار کرا گئے، یہی حال پرویز الہٰی کا بھی رہا۔ایوان کی کاروائی ایک سو اکتالیس دن چلی لیکن نیشنل پارٹی کے کامل خان اور آذاد امیدوار عثمان ترکئی صرف دو دن ہی ایوان میں آنے کا وقت نکال سکے۔ شاید ان سب معزز ممبران کو پارلیمان سے بھی کچھ زیادہ اہم کام نمٹانے ہوں گے۔ گیارہ بار اسمبلی کا اجلاس صرف اس ہی وجہ سے ملتوی ہوا کہ ارکان کی تعداد بہت کم تھی۔

پرائیویٹ ممبران کی طرف سے 43 بل ایوان میں پیش کیے گیے، جن میں سے ایک بھی منظور نا ہوسکا۔ گذشتہ پارلیمانی سال میں حکومت نے تیرہ بل اور بارہ آرڈیننس پیش کیے جن میں سے گیارہ بل منظور ہوئے جن میں فنانس بل دو ہزار تیرہ، فیڈرل کورٹ بل دوہزار چودہ، انسداد دہشت گردی ترمیمی بل دو ہزار چودہ، انسداد دہشت گردی دوسرا ترمیمی بل دو ہزار چودہ، لیگل پریکٹشنر و بار کونسل ترمیمی ایکٹ دو ہزار چودہ، نیشنل جوڈیشل کمیٹی ایکٹ دو ہزار چودہ،لاء اور جسٹس کمیشن آف پاکستان ترمیمی ایکٹ دوہزار چودہ، فیڈرل پبلک سروس کمیشن ترمیمی ایکٹ دو ہزار چودہ، سروے اور میپنگ ایکٹ دو ہزار چودہ، سروس ٹریبونل ترمیمی ایکٹ دو ہزار چودہ اور پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ شامل ہے۔

اگر ارکان کی کارکردگی اور حاضری کا جائزہ لیں تو فافن کے مطابق گیارہ اجلاس بلائے گئے، جن میں ننانوے نشستوں میں اسپیکر ایاز صادق تراسی بار ، ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی چھیاسٹھ بار ایوان میں آٰئے۔ لیڈر آف اپوزیشن خورشید شاہ ننانوے میں سے پیچھتر بار آئے اور نواز شریف وزیر اعظم پاکستان نے صرف سات بار ہی دیدار کرایا۔

پہلے پارلیمانی سال میں تو ایوان میں اراکین کی کارکردگی مایوس کن رہی اور صرف گیارہ بل ہی پاس ہوئے جن میں سے کوئی بھی قانون کی صورت اختیار نا کرسکا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ایوان بالا میں اکثریت پی پی کی ہے اور ایوان زیریں میں مسلم لیگ کی۔ حکومتی ارکان کی بھی عدم توجہی عروج پر رہی اور وہ ایوان سے زیادہ تر غیر حاضر رہے۔ امید پر دنیا قائم ہے دو جون سے دوسرے پارلیمانی سال کا آغاز ہو رہا ہے اور عوام کی یہ خواہش ہے ان کے منتخب نمائندے دوسرے پارلیمانی سال میں دل جمعی کے ساتھ کام کریں اور حاضری کو بھی یقینی بنایں اور موثر قانون سازی کریں تاکہ عوام کو اسکے ثمرات مل سکیں۔ – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9876#sthash.7irsL1hi.dpuf

Posted in Uncategorized

ماحولیات کا عالمی دن اور ہماری ذمہ داریاں

June 05, 2014   .…جویریہ صدیق….آپ بھی سوچ رہے ہوں گے پاکستان میں اتنا کچھ ہو رہا ہے، سیاسی ماحول میں اتنی ہلچل ہے، حکومت نے نئے مالیاتی سال کا بجٹ پیش کر دیا ہے اور میں بلاگ لکھ رہی ہوں ماحولیات پر؟ ایسا کیوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ماحولیات یا ماحولیاتی آلودگی سننے میں تو شاید بہت بورنگ لگتا ہے لیکن بنی نوع انسان کی بقا صرف اس ہی بات میں ہے کہ فوری طور پر ماحولیات کو پہنچنے والے نقصانات کو کم کرنے کے لئے ہمیں ماحول دوست اقدامت کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں 5جون کو عالمی یوم ماحولیات منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں ماحول کی حفاظت کے حوالے سے آگاہی کو مزید پھیلانا ہے۔ اس بار یہ دن ’’آواز بلند کریں سطح سمندر بلند نہ کریں‘‘ کے عنوان کے ساتھ چھوٹے جزیروں کی حفاظت کے لیے منایا جارہا ہے۔ اس عنوان سے صاف ظاہر ہے انسانی سرگرمیاں درجہ حررات کو مسلسل بلند کر رہی ہیں جس کی وجہ سے گرمی اور سیلاب کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور چھوٹے جزیرے اپنا وجود کھو رہے ہیں۔ کرۂ ارض کے درجہ حررات میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور ان کے پانی سے دریاؤں میں طغیانی آرہی ہے جو کہ سیلاب کی صورت میں بستیوں کی بستیاں اجاڑ جاتے ہیں اور سطح سمندر میں اضافہ کررہے ہیں۔

انسانی سرگرمیوں نے ہی ماحول کو تبدیل کیا ہے، کارخانوں سے نکلنے والا دھواں، گاڑیوں، موٹرسائیکلوں سے نکلنے والا دھواں، فریج اے سی اور پرفیوم سے نکلنے والی گیس، کیڑے مار ادویات، پینٹ سازی کی صنعت میں، گاڑیاں بنانے میں، دھاتوں کی صفائی میں، پلاسٹک کی صنعت میں کاربن ٹیٹرا کلورائیڈ کا استمعال ماحول کو بہت نقصان پہنچا چکا ہے اور پہنچا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلات کی کٹائی، گندے فضلہ جات کا صاف پانی میں ڈال دینا، کچرا پھیلا دینا اور زمین پر زہریلے کیمیکلز کا چھڑکاؤ دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں سے سی ایف سی اور سی ٹی سی گیسز پیدا ہوتی ہیں جن سے اوزان کی تہہ میں شگاف آگیا ہے اور یوں ہم سورج کی آنے والی الٹرا وائیلٹ شعاعوں(بالائے بنفشی شعاؤں کی تابکاری) سے بھی متاثر ہیں اور اپنی ہی سرگرمیوں سے بنی ہوئی زہریلی گیسوں کا نشانہ بھی۔

گرین ہاؤس گیسز اور گلوبل وارمنگ نے آج نباتات کی نشوونما، ایکو سسٹم، بارش کا نظام، زراعت اور موسموں کی بروقت تبدیلی کا نظام درہم برہم کردیا ہے۔ موسمی تغیرات کی ہی وجہ سے کبھی سونامی، کبھی سیلاب، کبھی گرمی، کبھی آبی مخلوق کی اموات اور کبھی خشک سالی نے انسانوں کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ متعدد بیماریاں جن میں جلد کا سرطان، پھپڑوں کا سرطان، دمہ، بلڈ پریشر، بہرہ پن، قوت مدافعت میں کمی اور اندھا پن، آنکھوں کی دیگر بیماریاں شامل ہیں جو انسان کو تنگ کیے ہوئے ہیں۔ ان تمام تبدیلوں اور بیماریوں کے پیچھے صرف اور صرف ہماری ماحول دشمن سرگرمیاں کار فرما ہیں۔

ہم سے پہلے نسلیں جتنا ماحول کو نقصان پہنچا سکتی تھیں وہ یہ کر چکی ہیں، اب اس وقت ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان نقصانات کا ازالہ کریں۔ سب سے پہلے ہمیں شجرکاری پرزور دینا ہوگا، جتنے زیادہ پودے لگائے جائیں گے اتنا ہی گرمی کی شدت میں کمی ہوگی اور ماحول میں آکسیجن کی شرح زیادہ ہوگی۔ زمین کا سرکنا، کٹاؤ کم ہوگا، ہم لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب سے بھی محفوظ رہیں گے۔ کوڑا کرکٹ کو سڑکوں پر کھلے عام نہ پھینکیں بلکہ باقاعدہ طریقے سے تلف کریں۔ پلاسٹک کے شاپر بلکل استعمال نہ کریں بلکہ کپڑے کا تھیلا استعمال کریں، پلاسٹک یا ٹائر بلکل نہ جلائیں، اپنی گاڑی کی مکمل ٹوننگ کرائیں تاکہ وہ کم دھواں چھوڑے۔ پانی کے صاف پانی میں کوڑا کرکٹ یا فضلہ ڈالنے سے گریز کریں، کارخانوں کے مالکان فیکٹری سے نکلنے والے مواد اور دھویں پر فلٹریشن پلانٹ نصب کریں تاکہ ماحول کو مضر صحت کیمکلز سے محفوظ رکھا جاسکے۔ کیڑے مار ادویات کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔ فصلوں کو کیڑے کے حملوں سے بچانے کے لیے صرف ایسے اسپرے یا ادویات کا استعمال کیا جائے جو میتھائل برومانیڈ سے پاک ہوں۔ اے سی فریج یا پرفیوم باڈی اسپرے تک خریدتے ہوئے دیکھیں کیا ان پر اوزن فرینڈلی لکھا ہے اور سی ایف سی گیس سے پاک ہیں۔ اس کے ساتھ ہم سب اپنے گھر کے لان، کیاری یا بالکونی میں بھی باغیچہ بنا سکتے ہیں جس سے ماحول بھی خوشگوار رہے گا اور مزے مزے کے پھل اور سبزیاں بھی ہمیں مفت ملیں گی۔

اوزون میں شگاف کی وجہ سے زمین کا درجۂ حرارت پچھلی صدی سے ایک فارن ہائیٹ بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس ہی لیے ہمیں ماحول دشمن کیمیائی عناصر کے استعمال کے خاتمے کے لیے قانوں سازی اور مناسب پالسیوں کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نواز شریف سے گزارش کے وہ پاکستان ماحولیات کے غیر فعال اداروں کو دوبارہ سے فعال کریں تاکہ ہم سب مل کر کرۂ ارض کو تباہی سے بچا سکیں۔ –

See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9893#sthash.0zXTFDuU.dpuf

Posted in Pakistan

کولیسٹرول

December 19, 2013

…جویریہ صدیق…
انسانی جسم میں جگر قدرتی طور پر کولیسٹرول بنانے کا سبب ہے یہ انسانی جسم میں خلیوں کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
کولیسٹرول کی دو اقسام ہیں۔
مفید کولیسٹرول HDL
مضر کولیسٹرول LDL
مفید کولیسٹرول میں اومیگا تھری اور اومیگا سکس شامل ہیں اور سبزیوں کے تیل ، زیتون ،گری ،سویابین،سورج مکھی،مکئی اور خشک میوہ جات میں پایا جاتا ہے۔مضر کولیسٹرول بڑے گوشت،مکھن،مارجرین،چربی اور بیکری کی اشیاء میں شامل ہے اور یہ سیچوریٹیڈ فیٹس کہلاتے ہیں۔
اگر کولیسٹرول کی مقدار کا تناسب برقرار رکھے تو یہ جسم کے لیے مفید ہے یہ جسم میں جمتا نہیں ہے اور زائد کولیسٹرول کو جسم سے خارج کردیتا ہے۔نقصان دہ کولیسٹرول میں یہ شریانوں میں جمع جاتا ہے اور شریانوں کو تنگ کردیتا ہے۔اس کی بڑی وجہ چکنائی سے بھرپور اشیاء کا استعمال ہے جس کی وجہ سے جسم میں کولیسٹرول کی مقدار بڑجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سگرٹ نوشی ،ذہنی پریشانی ، جسمانی ورزش کی کمی،روغنی غذا کا استعمال آپ کو کولیسٹرول کی زیادتی میں مبتلا کر سکتا ہے۔
اگر خون میں کولیسٹرول کا تناسب خطرناک حد تک بڑھ جائے تو دل کی بیماری لاحق ہونے کے سو فیصد امکان ہے کیونکہ دل کو خون فراہم کرنے والی شریانوں پر کولیسٹرول کی تہہ جمتی جاتی ہے اور دل کو خون کی فراہمی میں کمی جاتی ہے اور دل کا دورہ پڑنے کا اندیشہ غالب آجاتا ہے۔
کولیسٹرول کی زیادتی سے بچنے کے لیے گھی،چربی،انڈے کی زردی،بالائی،بڑے گوشت،مکھن،پنیر، بسکٹ اور بیکری کی اشیاء سے ہر ممکن پرہیز کرنا چاہئے۔اگر چکنائی کا استعمال ناگزیر ہو تو کینولا، مکئی، سورج مکھی کا تیل استعمال کیاجائے اور دیگر چکنائی زیتون مچھلی، خشک میوہ جات، اجناس سے حاصل کی جاسکتی ہے یہ چکنائی مضر صحت نہیں لیکن اس کو بھی اعتدال کے ساتھ استعمال کیا جائے۔
پھل، سبزیاں، اناج اور دالیں زیادہ استعمال کی جائیں اور ہری سبزیوں اور سلاد جیسی غذا سے ایک طرف وزن گھٹانے میں معاون ہو گی دوسری طرف کولیسٹرول کو بھی اعتدال میں رکھے گی۔معالج کی طرف سے دی جانے والی ادویات کو بھی باقاعدگی سے کھائیں اور ان کی اجازت کے بنا ادویات کی مقدار کو کم یا زیادہ نا کریں۔اپنا تمام میڈیکل ریکارڈ محفوظ رکھیں اور تما م ٹیسٹ وقت پر کراتے رہیں۔
غذا کو متوازن کرنے کے بعد ورزش بھِی کولیسٹرول کو کنٹرول رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے روزانہ پندرہ سے پچیس منٹ چہل قدمی یا سائیکلنگ اور تیراکی مفید ہے۔ تمباکو نوشی کا بھی کولیسٹرول بڑھانے میں کلیدی کردار ہے اس لے بتدریج یہ عادت ترک کرکے صحت مندانہ زندگی کے طریقوں کی طرف راغب ہونا چاہئے۔اگر تمباکو نوشی ترک نا کی جائے تو یہ بھی کولیسٹرول کو دل کو خون فراہم کرنے والی شریانوں پر کولیسٹرول کو تہہ لگانے میں معاونت دیتا ہے جس سے دل کو خون کی فراہمی کم ہو جاتی ہے۔
ان تمام باتوں کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایک صحت مند انسان کو یومیہ صرف تیس گرام چکنائی کی ضرورت ہے۔ اس سے زائد چکنائی کا استعمال آہستہ آہستہ ایک صحت مند انسان کو بیماریوں کی طرف لے جاتا ہے۔ علاج کے ساتھ ساتھ اگر مکمل احتیاط کی جائے تو بیماری کو مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔
جو لوگ اس بیماری کا شکار نہیں انہیں بھی کھانے میں اعتدال پسندی کا مظاہرکر نا چاہئے مرغن، چربی چکنائی والے کھانوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔اجناس،دالیں، سبزیوں سلاد کا استعمال زیادہ کرنا چاہئے اور ہر سال اپنا کولیسٹرول لیول چیک کروانا چاہیے۔اس سے ہم صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer. Contact at https://twitter.com/javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9396#sthash.o30Hx1Ep.dpuf

Posted in Uncategorized

کالا موتیا ایک مہلک مرض

March 12, 2014   جویریہ صدیق…
آنکھیں انسان کی شخصیت کا اہم حصہ ہیں۔ آنکھوں کی ہی مدد سے انسان روزمرہ معمولات بخوبی انجام دے پاتا ہے۔جس قدر یہ کارآمد ہیں اتنی ہی نازک بھی اور دیکھ بھال بھی مانگتی ہیں لیکن پاکستانی عوام عام طور پر صرف اس ہی وقت ماہر امراض چشم کا رخ کرتے ہیں جب تک کہ آنکھوں کا درد ان کو بے چین نہ کردے۔یہ بہت غلط ہے کہ ڈاکٹر کے پاس صرف اس ہی وقت جایا جائے جب درد ہمیں بے قرار کردے۔ ہمیں سال میں کم از کم دو بار اپنی آنکھوں کا معائنہ کروانا چاہے تاکہ مختلف امراض چشم سے بچا جا سکے۔ آنکھوں کی بہت سی بیماریاں عام ہیں جن میں نظر کی کمزوری، بھینگا پن، پردہ بصارت کا متاثر ہونا، آنکھوں کی الرجی، سفید موتیا اور کالا موتیا قابل ذکر ہیں۔ ان سب میں سب سے مہلک بیماری گولکوما یعنی کالا موتیا ہے۔ اس بیماری کے حوالے سے ہیں دنیا بھرمیں 9 سے 15مارچ کو اس کی آگا ہی کا ہفتہ منایا جاتا ہے۔ اندھے پن کی بڑی وجہ یہ بیماری کالا موتیا ہی ہے۔ موتیا اور ذیابیطس سے ہونے والے اندھے پن کے 70فیصد واقعات کو جلد تشخیص اور موزوں علاج سے قابو کیا جاسکتا ہے۔

قدرت کی طرف سے آنکھوں میں خوراک کی فراہمی ایک نظام بنایا گیا جس کے تحت ایک خاص مواد خون سے بن کر آنکھوں میں آتاہے اورایک خاص دباوٴ کے ساتھ آنکھوں میں رہتا ہے اورپھر واپس چلا جاتا ہے لیکن اگر یہ دباوٴ ایک مقررہ حد سے بڑھ جائے اور مواد واپس نہ جائے تو یہ نظر کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور کیفیت کو گلوکوما یعنی کالا موتیا کہتے ہیں۔ عام طور پر آنکھوں کا دباوٴ 20سے نیچے ہوتا ہے تاہم اس بیماری میں یہ 40سے 50ایم ایم ایچ جی تک پہنچ جاتاہے۔ اس کی عام علامتوں میں آنکھوں میں درد، سر درد، نظر میں کمی، سر کابھاری ہونا، چکر آنا، آنکھوں کا سرخ ہونا اوردھندلاپن شامل ہے، ان علامتوں کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ اگر کالا موتیا کی علاج فوری طور پر نہ شروع کیا جائے تو بینائی جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس بیماری کا علاج اب ممکن ہے، دوائی اور لیزر کے ذریعے سے اس بیماری پر قابو پایا جاسکتا ہے، لیکن اس بیماری کی سب سے خطرناک بات یہ ہے علامتیں جب ظاہر ہوتی ہیں جب بینائی کا بہت نقصان ہوگیا ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 70لاکھ افراد اس مرض کی وجہ سے اپنی بینائی کھو چکے ہیں جبکہ پاکستان میں نابینا افراد کی تعداد 12لاکھ کے قریب ہے۔ جن افراد کو شوگر اور بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہے ان کو موتیا کی بیماری میں لاحق ہونے کا امکان قدرے زیادہ ہے۔ اس بیماری کی خطرناک بات یہ ہے کہ اس کی علامتیں بہت دیر بعد ظاہر ہوتی ہیں، اس لیے ماہرامراض چشم سے متواتر معائنہ ضروری ہے۔ اس کے علاج میں سب سے پہلے جو چیز کنٹرول کی جاتی ہے وہ ہے آنکھوں کا پریشر یعنی دباوٴ، یہ لازمی طور پر 21ایم ایم ایچ جی سے کم ہونا چاہیے۔ علاج کے دوسرے مرحلے میں ڈاکٹر کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بینائی کو اور کم ہونے سے روکا جاسکے۔ اس کے بعد سرجری یا لیزر کا آپشن بھی استعمال کیا جاتاہے۔

ماہر امراض چشم ڈاکٹر عرفان اللہ کنڈی کے مطابق یہ مرض کسی کو بھی لاحق ہوسکتا ہے لیکن اگر خاندان میں یہ مرض موجود ہے تو پھر دیگر اہل خانہ کو بھی اپنی آنکھوں کا معائنہ کروانا چاہیے کیونکہ یہ دیگر اہل خانہ کو ہونے کا قوی امکان ہے۔ ان کے مطابق اب اس کا علاج موجود ہے، فیوگو پلازما بلیڈ کے ذریعے اس مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے، یہ علاج کم وقت میں بنا تکلیف کے مریض کی بینائی کو متاثر ہونے سے روک دیتا ہے۔ ڈاکٹر کنڈی کے مطابق آنکھوں کو ہر وقت صاف رکھنا چاہیے اور اگر ہر دو سے تین گھنٹے بعد آنکھوں کو سادہ پانی سے دھو لیا جائے تو معتدی امراض سے بچا جا سکتا ہے۔ اگر آنکھوں میں درد ہو یا دباوٴ محسوس ہو تو فورا ڈاکٹر سے رجوع کریں اور 30سال کی عمر کے بعد اپنا متواتر معائنہ کروائیں۔

9تا15مارچ کالے موتیے کے حوالے سے آگاہی کا ہفتہ منایا جاتا ہے، اس ضمن حکومت اور محکمہ صحت کو عوام کے لیے فری کمیپ لگانے چاہئیں تاکہ اس مرض پر قابو پایا جاسکے۔ پاکستان میں 20لاکھ کے قریب کالا موتیا میں مبتلا مریض ہیں اس لیے ارباب اختیار کو اس بیماری کے حوالے سے آگاہی اور روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer.

Contact at https://twitter.com/javerias  

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9642#sthash.bjtxkctC.dpuf

Posted in Pakistan

دھرنوں کے بجائے کارکردگی پر توجہ

May 13, 2014  

……جویریہ صدیق……
پی ٹی آئی نے 2013ء میں خواب تو اقتدار میں آنے کے دیکھے تھے لیکن قسمت کا لکھا کچھ اور تھا اور کامیابی کا ہما مسلم لیگ ن کے سر پر آکر بیٹھ گیا۔ الیکشن کو ہوئے پورا ایک سال 11مئی کو مکمل ہوگیا تاہم پی ٹی آئی اپنی شکست کو ابھی تک تسلیم نہیں کرسکی۔ 365دن کے بعد پھر زخم تازہ ہوئے اور دھاندلی کا شور مچاتے ہوئے ڈی چوک میں دھرنا دے ڈالا۔ دھرنے کے نام پر بامشکل 15ہزار لوگ جمع ہو پائے اور حاصل وصول کچھ نہیں لیکن عمران خان ایک نئے مطالبے کے ساتھ سامنے آئے کہ جب تک الیکشن کمیشن کی دوبارہ تشکیل نہیں کی جاتی تب تک ان کی جماعت ہر جمعے کو دھرنے دے گی۔ صرف الیکشن کمیشن ہی کو نہیں بلکے ریٹرننگ آفیسرز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں رہی بلکے عمران خان نے جیو پر الزامات کی بوچھاڑ کی اور یہ فرماتے رہے کہ جیو ٹی وی بھی اس دھاندلی میں شریک ہے۔ اب ذرا کوئی یہ بتائے کہ ایک ٹی وی چینل دھاندلی میں کیسے ملوث ہوسکتا ہے؟ فافن کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر مدثر رضوی نے ان الزامات کو بچکانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی میڈیا گروپ الیکشن میں دھاندلی نہیں کراسکتا۔

دھرنے میں حکومت، الیکشن کمیشن اور جنگ جیو گروپ پر تنقید تو خوب رہی لیکن عوامی مسائل پر کوئی خاص بات نہیں کی گئی۔ عمران خان نے دھرنے میں کھڑے ہو کر اپنی جماعت پی ٹی آئی کی ایک سالہ کارکردگی پر نظر کیوں نہیں ڈالی؟ کیا پورے سال ایسا کوئی بھی کام نہیں ہوا جو لیڈر موصوف فخر کے ساتھ اپنے چاہنے والے کارکنوں کو گوش گزار کرتے۔ عمران خان کی جماعت نے الیکشن 2013ء کے بعد سب سے پہلے حکومت بنانے میں پہل کی اور صوبہ خیبر پختون خواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت قاثم ہوگی، اب کیا عمران خان اس بات کا جواب دینا پسند کریں گے کہ اس دورانیے میں انہوں نے صوبے کی فلاح و بہود کے لیے کیا کیا اقدامات اٹھاثے؟

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مطابق 2013ء میں ملک بھر میں 2سو فرقہ وارانہ حملے ہوئے، جن میں سب سے زیادہ عوام پشاور، ہنگو، پارا چنار، کراچی اور کوئٹہ میں جان سے گئے، اب تبدیلی کے دعوے دار عمران خان صرف یہ بتائیں اپنے صوبے کی عوام کے لیے انہوں نے کیا کیا؟ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اب تک عمران خان کے صوبے میں 8سو سے زائد پولیس اہلکار شہید ہوئے عمران خان اور ان کے حکومت نے نمائندوں نے حکومت میں آکر ان اہلکاروں کے لواحقین کی داد رسی کی؟

جون 2013ء سے مارچ 2014ء تک خیبر پختون خواہ میں 93دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 444افراد مارے اور 665زخمی ہوئے۔ کیا عمران خان کی حکومت نے ان مرنے والوں اور ان کے لواحقین کے لیے کچھ کیا؟ اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والے 208شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا کیا عمران خان نے اقلیتی فرقے کی حفاظت کے لیے پورا سال اقدامات کیے ؟ گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں دہشت گردی کے تین بڑے واقعات ہوئے جن میں پشاور میں مسیحی عبادت گاہ میں دو بم دھماکوں نے نتیجے میں 87افراد مارے گئے اور ان گنت زخمی ہوئے۔ پھر پشاور میں ہی بس میں دھماکا ہوا جس میں 19افراد اپنی جان سے گئے اور اس دھماکے کے ٹھیک 2دن بعد پشاور کے قصہ خوانی بازار میں 4افراد نے جام شہادت نوش کیا لیکن عمران خان کی حکومت تو اس وقت دہشت گردوں کے ساتھ فل رومانس میں مصروف تھی تو ایک بار پھر نہ ہی مرنے والوں کو یاد رکھا گیا اور نہ ہی لواحقین کو منہ لگانا پسند کیا گیا۔

بات کریں اگر 2014ء سے لے اب تک عمران خان کا صوبہ آگ میں جلتا رہا، دھماکوں اور حملوں میں شہری مرتے رہے لیکن عمران خان صرف وفاق اور دوسرے صوبوں میں عیب نکلتے رہے۔ 21جنوری کو 6پولیس اہلکار بمع طالب علم چارسدہ میں بم دھاکے کے نتیجے میں جان سے گئے۔ 23جنوری کو 6افراد پشاور میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے۔ 26جنوری کو ہنگو میں 6بچے بارودی مواد پھٹنے کی وجہ سے موت کی وادی میں چلے گیے۔2فروری کو پشاور میں بم دھماکے میں 5شہری ہلاک اور 30زخمی ہوئے اور ان کا جرم کیا تھا، سینما میں فلم دیکھنا اور اس واقعے کے بعد کے پی کے میں متعدد سینما بند ہوگئے۔ 4فروری کو ایک بار پھر قصہ خوانی بازار میں دھماکا ہوا اور 9افراد مارے گئے۔ 10فروری کو ایک بار پھر گھر کے قریب دھماکے میں پشاور کی 4خواتین جان سے گئیں۔ 11فروری کو شمع سینما میں دھماکا ہوا اور متعدد افراد جان کی بازی ہارگئے اور سلسلہ رکا نہیں اب بھی جاری ہے، ان ذکر کیے گیے واقعات سے لے اب تک مزید 45افراد دہشت گردی کی نظر ہوئے۔

چلیں پی ٹی آئی یہ الزام لگاتی ہے کہ وفاق سنجیدہ نہیں کہ ملک کے مسائل حل ہوں لیکن ذرا یہ تو باتیں کہ آپ کس حد تک سنجیدہ ہیں، ان تمام واقعات پر لواحقین کی داد رسی کی؟ بیشتر واقعات میں مزاحمت یا تعزیت بھی سامنے نہیں آئی۔ کیا آپ نے صوبے میں امن و امان کے حوالے سے کوئی پالیسی بنائی کوئی مربوط اقدام اٹھایا؟ نہیں، کیونکہ آ پ کہ دلچسپی تو صرف وفاق میں اقتدار پر قبضہ کرنے پر مرکوز ہے۔

بات ہو اگر آپ کی کابینہ کی تو الیکشن سے پہلے تو بہت وعدے کیے گیے کہ ہم تبدیلی لائیں گے، انقلاب زندہ باد، لیکن ایسا نہیں ہوا، 14وزراء کچھ کم نہیں تھے جو مزید 5کو کابینہ میں شامل کرلیا اور یہ 19بھی صوبہ سنبھالنے میں اب تک نا کام ہی نظر آئے۔ وعدہ تو یہ بھی کیا گیا تھا کہ وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کو پبلک لائبریری میں تبدیل کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور وزیر اعلیٰ کو اس رہائش گاہ کے ساتھ ساتھ دو رہائش گاہیں مزید نواز دی گئیں۔

بات کرتے ہیں پولیو کی اور عالمی ادارہ صحت پشاور کو پولیو وائرس کا گڑھ قرار دے چکا ہے۔ 2013ء میں پولیو کے 91کیس سامنے آئے اور اس سال اب تک 85کیس سامنے آچکے ہیں، جن میں زیادہ تر کیس کے پی کے اور فاٹا سے تھے۔ بات ہو اگر انسدادِ پولیو مہم میں کارکنوں پر حملوں کی تو 40افراد صرف پچھلے سال نشانہ بنے جن میں سے 20کا تعلق خیبر پختون خوا سے تھا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اسی وجہ سے خیبر پختون خواہ میں 25ہزار بچے پولیو ویکسین سے محروم رہ گیے۔ جنوری 2014ء میں صوابی میں پورا حفاظتی ٹیکوں کا مرکز دھماکے سے اڑا دیا گیا لیکن صوبائی حکومت صرف دوسرے صوبوں کے عیب تلاش کرتی رہی۔ عمران خان ان کی باری بھر کم کابینہ نے عملی اقدامات کے بجائے صحت کے انصاف کے نام سے اشتہارات چلانے پر فوقیت دی۔

بات ہو تعلیم کی تو عمران خان کی صوبے میں حکومت کے بعد سے 20اسکول بم دھماکے سے اڑا دیئے گئے جن میں سے ایک اسکول پر حملے روکتے ہوئے اعتزاز احسن طالب علم نے جام شہادت نوش کیا لیکن حکومت نے نہ ہی اسکولوں کی تعمیر کے لیے کوئی اقدامات اٹھائے نہ ہی طالب علموں کی دل جوئی کی۔

خواتین کی بات کریں تو عمران خان کی حکومت قائم ہونے کے بعد صوبے میں غیرت کے نام پر 45قتل سامنے آئے اور ایک سو ستائیس خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آئے جن میں سے کسی ایک مجرم کو سز ا نہ ہوئی اور یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے۔

اب یہ تو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے اپنے صوبے خیبر پختون خوا کی صورتحال ہے، اب کیا ایسی صورتحال میں اچھا لگتا ہے کہ اب وفاقی حکومت کو نا اہل، الیکشن کمیشن کو دھندلی کا ذمہ دار اور جیو ٹی وی جیسے معتبر ادارے کو غدار کہیں؟کسی اور پر الزام دھرنے سے پہلے خود اپنے گربیان میں جھانکنا بھی ضروری ہے، اگر یوں روز روز دھرنوں کی کال دیتے رہے تو بچے کچھے کارکنان بھی بد دل ہو کر گھر نہ بیٹھ جائیں۔ اس لیے وقت کا اہم تقاضہ ہے کہ مزید اقتدار کے لالچ کے بجائے جس صوبے میں عوام نے آپ کو منتخب کیا ہے اس کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جائے وگرنہ اگلے الیکشن میں بھی ملنا ناممکن ہوگا۔

Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer.

Contact at https://twitter.com/javerias

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9807#sthash.viXjkzKl.dpuf

Posted in Uncategorized

تپ دق سے آگاہی کا عالمی دن

March 24, 2014   …جویریہ صدیق…چوبیس مارچ کو دنیا بھر میں ٹی بی ”تپ دق“ کے مرض سے بچاوٴ کے حوالے سے عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد تپ دق کے حوالے سے عوام الناس میں آگاہی پھیلانا ہے اور اس بیماری سے مقابلے کے طریقہ کار کو عام کرنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں تقریبا 16لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں اور ہر سال 4لاکھ نئے مریضوں کا مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

یہ موذی مرض مائیکرو بیکٹریم ٹیوبر کلوسس نامی جراثیم کے باعث ہوتا ہے۔یہ بیماری انسان پر حملہ آور ہوکر اس کے پھیپھڑوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ جسم کے دیگر حصوں کو بھی انفیکشین میں مبتلا کرسکتی ہے جن میں دماغ، اعضائے تولید، گردے اور جلد شامل ہے۔ متاثرہ شخص کے کھانسنے تھوکنے سے یہ بیماری اور پھیلتی ہے۔ اگر اس کا علاج نہ شروع کروایا جائے تو مریض کی وجہ سے مزید 10سے 15افراد اس بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ ایک ہی جگہ پر زیادہ لوگوں کا رہنا، تازہ ہوا کا گزرنا ہو اور گندگی کے باعث یہ مزید پھیلتا ہے۔ اس کے جراثیم ہوا کے ذریعے سے خون میں شامل ہوکر جسم کو متاثر کردیتے ہیں۔

اس کی ابتدائی علامتوں میں مسلسل بخار، تین سے چار ہفتے تک کھانسی کا کم نہ ہونا، رات کو ٹھنڈے پسینے آنا، تھوک میں خون کا آنا، بھوک میں کمی اور وزن میں کمی شامل ہے۔ ان علامتوں کی صورت میں فوری طور پر طبی معائنہ کروایا جائے اور تین اوقات میں بلغم کے نمونے لے کر ٹیسٹ کروایا جائے اور سینے کا ایکسرے بھی کروانا بھی ضروری ہے۔

ٹی بی اب مکمل قابل علاج ہے، مریض کو چھ ماہ مسلسل دوائیاں دی جاتی ہیں، اس طریقہٴ علاج کو ڈاٹس کہا جاتا ہے۔ اس علاج میں 2ماہ، 5ماہ اور علاج مکمل پر بلغم کا جائزہ کیا جاتا ہے۔ ٹی بی کا علاج شروع ہوتے ہی مریض صحت مند محسوس کرنے لگتا ہے لیکن اس کا 8ماہ تک علا ج مکمل کرنا ضروری ہے کیونکہ اگر اس کا علاج مکمل نا کروایا جائے تو یہ بیماری سر دوبارہ اٹھا لیتی ہیں پھر بعض اوقات اس پر ٹی بی کی ادویات بھی کام نہیں کرتی اور مرض لاعلاج ہوجاتا ہے۔ اس لیے بہت ضروری کے علاج کو بیچ میں نہ چھوڑا جائے۔

ٹی بی سے بچاوٴ بھی ممکن ہے اگر نومولود بچوں کو بی سی جی ویکسین لگوا دی جائے تو یہ ان کو ٹی بی سے محفوظ رکھنے میں معاون ہے۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا اس کو جگہ جگہ تھوکنے سے پرہیز کرنا چاہیے، کھانستے یا چیھنکتے وقت رومال سے منہ ڈھانپ لیا جائے تو دیگر رشتہ دار اس سے محفوظ رہیں گے۔ ٹی بی کے مریض کو روشن اور ہوا دور کمرے میں رکھیں۔ علاج کے ابتدائی ہفتوں میں بچوں اور پبلک مقامات سے دور رہیں، تاہم علاج کے درمیانی دورانیے میں مریض سے جراثیم کسی کو منتقل نہیں کرسکتا اور دیگر لوگ اس کے جراثیم سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر ماں ٹی بی میں مبتلا ہے تب بھی وہ اپنے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے تاہم کھانستے اور چھینکتے وقت اپنے منہ پر رومال رکھے کیونکہ ماں کا دودھ تو جراثیم سے مکمل پاک ہے لیکن کھانسنے اور چھینکنے سے یہ جراثیم بچے کو منتقل ہوسکتے ہیں۔ مریض کے کپڑوں، چادروں اور استعمال کی چیزوں کو بھی دھوپ لگوائی جائے۔

غربت اور لاعلمی کی وجہ سے مرض بہت تیزی سے دنیا میں پھیل رہا ہے اور ہر سال دنیا میں 30لاکھ افراد اس بیماری کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پاکستان اس بیماری کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے اور یہاں اس مرض پھیلنے کی بڑی وجہ حکومت اور محمکہ صحت کی عدم توجہی ہے اور اس کے علاوہ عوام کا حفظان صحت کے اصولوں اور صاف صفائی کا خیال نہ رکھنا اور گندگی میں یہ مرض زیادہ سر اٹھاتا ہے۔ اس مرض پر قابو پانے کے لیے اس مرض کے حوالے سے آگاہی کا ہونا بہت ضروری ہے کہ یہ مرض مکمل قابل علاج ہے اور ادویات کے مکمل کورس سے اس مرض سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ ماحول کو گندگی سے پاک رکھ کر بھی ہم اس مرض کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں اور اپنے اردگر لوگوں کو ازخود آگاہی سے بھی اس مرض کو کم کیا جاسکتا ہے۔

Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer.

Contact at https://twitter.com/javerias  

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9673#sthash.6m3KNFLX.dpuf

Posted in Uncategorized

آزادی صحافت پر حملہ

April 20, 2014   …جویریہ صدیق…
آخرصحافی حامد میر کا قصور کیا ہے ؟ کیا پاکستان میں سچ بولنا،عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا اور سوال کرنے کی یہ قمیت چکایی جاتی ہے جو آج حامد میر نے ادا کی ہے۔ گھر سے کراچی کے لیے روانہ ہویے ایرپورٹ سے منزل جیو کراچی کا دفاتر تھا لیکن راستے میں دہشت گردوں نے نہتے حامد میر پر گولیاں برسا کر ان کو ہسپتال پہنچا دیا۔ صحافی نہتا روز سچ کے جہاد کے لیے صرف قلم کی طاقت کے ساتھ لیس ہوکر اس لیے گھر سے نکلتا ہے کہ وہ اس بات کو متمنی ہے کہ کسی دن تو پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنا پایے جہاں سب سے پہلے صرف غریب عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کیا جایے اور شب روز صرف وطن عزیز کی ترقی میں صرف ہوں لیکن یہ خواب دیکھنے کی اتنی بڑی سزا کیا کیوں؟حامد میر کون ہے حامد میر ایک جدوجہد کا نام ہے جو اس ملک کے کرپٹ عناصر کے خلاف ہے لیکن وطن دشمن عناصر سے یہ بات برداشت نہیں اور وہ بزدلانہ حملے کرکے حوصلے پست کرنا چاہ رہےہیں لیکن وہ یہ جانتے نہیں کہ پاکستانی صحافیوں کے حوصلے بلند ہیں ۔

جیو اور جنگ گروپ پر یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ نہیں دو ہزار تیرہ میں شمالی وزیرستان میں جیو کے رپورٹرملک محمد ممتاز کو گولی مار کر قتل کردیا گیا۔دو ہزار تیرہ میں ہی جیو کے پروڈیوسر سالک جعفری انچولی دھماکے میں زخموں کی تاب نا لاتے ہویے چل بسے۔ چھبسھ نومبر دو ہزار بارہ کو حامد میر کی گاڑی کے نیچے سے دھماکہ خیز مواد ملا تھا تاہم خوش قسمتی سے وہ اس حملے میں بال بال بچ گے۔اس سے پہلے دو ہزار گیارہ میں جیو کے رپورٹر ولی خان بابرکو کراچی میں ہی نشانہ بنایا گیا اور وہ جانبر نا ہوسکے۔سترہ جون دو ہزار گیارہ میں ہی جیو جنگ گروپ کے انگریزی روزنامے دی نیوز سے تعلق رکھنے والے ٹرینی رپورٹر سیف اللہ خان نے بم دھماکے میں جام شہادت نوش کیا گیا۔دو ہزار دسں میں دی نیوز کے صحافی عمر چیمہ کو اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سنگین نتایج کی دھمکیاں دی گی ۔ دو ہزار نو میں جیو کے ہی موسی خان خیل کو سوات میں بے رحمانہ طریقے سے قتل کردیاگیا۔دو ہزار آٹھ میں جنگ گروپ کے رسالے اخبار جہاں سے تعلق رکھنے والے کالم نویس چشتی مجاہد کو کویٹہ میں گولیوں سے چلھنی کردیا گیا اور وہ خالق حقیقی سے جاملے۔اس ہی طرح دو ہزار سات میں روزنامہ جنگ سے تعلق رکھنے والے صحافی زبیر احمد کو میر پور خاص میں موت کی گھاٹ اتار دیاگیا۔

اس کے علاوہ جیو جنگ گروپ کے دفاتر پر معتدد بار حملے ، کارکنان کو لا تعداد دھمکی آمیز کالز جن میں حال ہی میں جیو ٹی وی کے کنٹرولر نیوز انصار علی نقوی ،دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی اور سنیر صحافی تسنیم نورانی کو ملنے والی دھمکیاں بھی نمایاں ہیں لیکن اس ادارے کے کارکنوں نے اپنا حوصلہ نا ہاراور شب و روز عوام الناس کے لیے سچ بولتے رہے اور سچ لکھتے رہے۔ آخر پاکستان کے سب سے بڑے نشریاتی اور اشاعتی ادارے جیو اور جنگ گروپ کا قصور کیا ہے کیا عوام کو آگاہی دینا ان کے لیے آواز اٹھا نا جرم ہے ؟ اسلام ہمیں سچ بولنے کی تلقین کرتا ہے اور جھوٹ کی آمیزش سے منع کرتا ہے لیکن یہ کون لوگ ہیں جو سچ بولنے والوں سچی خبریں دینے والوں کو معاشرے میں خبر بنا دیتے ہیں۔

بات اگر کریں دو ہزار چودہ کی تو اب تک مخلتف اداروں میں کام کرنے والے دو صحافیوں شان ڈاہر اور افضل خواجہ،چار میڈیا کارکنان اور فوٹو گرافر ابرار تنولی کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا یہ صرف اس سال کے پہلے چار ماہ کی صورتحال ہے اور رضا رومی کے بعد اب حامد میر کو قاتلانہ حملے میں نشانہ بنا کرآزاد میڈیا کی آواز کو مسلسل دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پاکستان میں اب تک چوہتر صحافی اپنے فرض کی اداییگی میں اپنی جان سے ہاتھ گنوا بیٹھے ہیں اور آج تک کسی بھی صحافی کے قاتل کو سزا نہیں سنایی گی ۔ صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس(سی پی جے) کے مطابق صحافیوں کے لیے پاکستان دنیا کا پانچواں خطرناک ملک ہے۔عوامل چاہیے کچھ بھی ہوں جرنلسٹ کلنگ کے پیچھے دہشت گرد ہوں یا خفیہ ہاتھ لیکن آج تک کسی بھی صحافی کے قاتل کو سزا نہیں ہویی سوایے ولی خان بابر کیس میں وہ بھی صرف اس لیے کہ جیو اور جنگ گروپ نے انصاف کے حصول کی لڑایی بلا تعطل جاری رکھی اور اپنے مرحوم ساتھی کے لواحقین کو اکیلا نا چھوڑا۔

حکومت پاکستان کا موجودہ حالات میں فرض بنتا ہے کہ انسانی حقوق کے مسلمہ بین الاقوامی معیار کے مطابق صحافیوں کی ہلاکتوں اور اغواء کے واقعات کی مکمل اور جامع تحقیقات کرائے اور ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لائےکیونکہ ورثا اور صحافی برادری انصاف کے لئے منتظر ہے

عارف خان ہو یا مصری خان ،ابرار تنولی ہو یا افضل خواجہ،شان ڈاہر ہوں یا موسی خیل ہوں یا چشتی مجاہد، ہدایت اللہ خان ہوں یا عامر نواب ، مکرم خان ہو، راجہ اسد حمید ، فضل وہاب ہوں یا صلاح الدین، غلام رسول ہوں یا عبد الرزاق ،محمد ابراہیم ، ساجد تنولی ہوں یا شاہد سومرو یا لالہ حمید بلوچ ہوں یہ تمام صحافی صرف حق کی راہ کے شہید ہیں۔اگر ان تما م جان سے جانے والے صحافیوں کے قتل کی تحقیقات موثر طریقے سے ہوتی تو آج حامد میر پر قاتلانہ حملہ نا ہوتا۔میری دعا ہے اللہ اس سچ کی راہ کی سپاہی کو صحت کاملہ عطا کرے آمین۔

Javeria Siddique is a Journalist and Award winning photographer.

Contact athttps://twitter.com/javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9757#sthash.4HbE5lzl.dpuf