Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan

بینش عمر شہید تمغہ شجاعت

11899792_10153093634323061_6483232467340070293_n

. جویریہ صدیق……آج ماں سے محبت کا عالمی دن ہے۔ ماں ایک ایسا رشتہ جو بے غرض بے لوث محبت کرتا ہے۔ماں جب اپنی آغوش میں اولاد کو لیتی ہے ایک زمانے کے غم مٹا دیتی ہے۔اس کی آغوش کی ٹھنڈک میں ہر درد کی تاثیر ہے۔ماں قربانی احساس اور ایثار کا دوسرا نام ہے۔ماں کی بانہوں کا حصار بچے کو وہ سکون دیتا ہے جو دنیا کی کسی اور نعمت سے حاصل نہیں۔ پشاور کی اٹھایس سالہ بینش عمر شہید تمغہ شجاعت بھی ممتا کے خمیر سے بنی تھی۔کمپیوٹر ساینس میں ایم اے کیا۔ عمرزیب بٹ کے ساتھ رشتہ ازداوج میں منسلک ہویی اور اللہ نے تین بار بینش کے آنگن میں اپنی رحمت کا نزول کیا۔بڑی بیٹی حباء منجھلی بیٹی عنایہ اور سب سے چھوٹی گڑیا عفف ۔ممتا کے عہدے پر فایز ہونے کے بعد بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا،پھر جب جاب کرنے کا فیصلہ کیا تو درس و تدریس کا انتخاب کیا۔بینش ایک نی نسل کو اپنے ہاتھوں سے پروان چڑھانے کی خواہش مند تھیں۔آرمی پبلک سکول پشاور میں تدریس کا آغاز کیا اور آٹھویں جماعت کو کمپیوٹر پڑھانے لگیں۔

بچوں کو ہر دل استاد بینش کوشش کرتی کہ کمپیوٹر کی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ بچوں کی اخلاقی اور دینی اطوار پر تربیت کریں۔استاد اگر کم عمر ہو تو بہت جلد بچوں کا دوست بن جاتا ہے اور بچے بھی بلا جھجک اپنے مسایل استاد ساتھ زیر بحث لیے آتے ہیں۔بینش بھی اپنے طالب علموں کی بہترین دوست تھی۔ماں استاد اور دوست بینش نے سولہ دسمبر کو بھی اپنے بچوں کو تنہاہ نا چھوڑا۔سکول میں حباء کے جی کلاس میں تھی اور نھنی گڑیا عفف سکول کے ہی ڈے کیر میں تھی۔لیکن بینش نے اپنی اولاد کے بحایے اپنے روحانی بچوں کو فوقیت دی۔نہتی روحانی ماں نے دہشت گردوں کو للکارا معصوم بچوں کو جانے دو۔ان کا کیا قصور ہے۔بینش نے بچوں کو ہال سے نکالنے کی کوشش کی لیکن ظالم دہشت گرد جدید اسلحے کے ساتھ ہر طرف موجود تھے۔کچھ بچے نکلنے میں کامیاب بھی ہوگیے لیکن دہشت گردوں کی ایک گولی بنیش کے بازو میں پیوست ہویی اور وہ اسٹیج کے پاس گر گی اس کے بعد تو جسیے گولیوں کی بوچھاڑ ہوگی اور گردن میں لگنے والی گولی باعث بینش شہادت کے اس رتبے پر فایز ہوگیں ۔

بینش دنیا سے چلی گیئں لیکن زندہ جاوید ہوکر جب بھی طالب علم استاد کی عظمت کے بارے میں پڑھیں گے تو تاریخ کے اوراق پر روحانی ماں استانی بینش عمر شہید کا نام جلی حروف سے لکھا ہویا پایں گے۔بینش عمر شہید تمغہ شجاعت کے شوہر عمر زیب بٹ کہتے ہیں کہ میں نے اور بینش نے ساتھ تعلیم حاصل کی۔اپنی بہترین دوست کو ہی میں نے اپنا شریک حیات چنا۔بینش کہ آتے ہی میری زندگی میں بہار آگی خوش اخلاق سب سے شفقت اور احترام سے ملتی بینش پل بھر میں سب کو گرویدہ بنا لیتی۔امور خانہ داری میں ماہر مجھے ہر چیز بس تیار ملتی۔میرے والدین کی خدمت اپنے والدین کی خدمت اور ساتھ میں درس و تدریس لیکن کبھی تھکن کا شایبہ نہیں۔پندرہ دسبمر کو مجھے آفس فون کیا اور کہا کہ ایک عزیزہ ہسپتال میں داخل ہیں ان کی عیادت کے لیے جانا ہے۔میرے ساتھ گی ان کی خیریت دریافت کی بعد میں ہم بچوں کو بھی چیک اپ کے لیے گیے دو بیٹوں کی طبعیت ناساز تھی ۔میں نے بینش سے کہا بھی کہ کل سکول مت جاو لیکن بینش نے کہا چھٹی کرنے سے روحانی بچوں کا حرج ہوتا ہے۔

سولہ دسمبر عناییہ تو گھر پر ہی تھی لیکن حباء اور عفف بینش کے ساتھ ہی سکول گیں۔جب میں آفس جانے لگا تو روز کی طرح بینش میری ہر چیز تیار کرکے گی ہویی تھی،عناییہ کے لیے بھی ہر چیز رکھی ہویی تھی ۔میں آفس چلا گیا۔کہ اچانک دوست نے بتایا کہ آرمی پبلک سکول ورسک روڈ پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔میں دوست کے ساتھ ہی وہاں پہنچا بینش کو بہت فون کیے امید یہ ہی تھی کہ بینش خیریت سے ہوگی سب بچے محفوظ ہوں گے۔نا ہی بینش کا پتہ چل رہاتھا نا ہی میری دونوں بیٹوں کا ۔آرمی کا آپریشن چل رہا تھا تو ہم سکول میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔میری بیٹاں تو آرمی نے باحفاظت اپنی تحویل میں لے لیں تھیں اور ان کو قریب ہی محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا میرا بھایی انہیں لے کر گھر چلا گیا مجھے مزید حوصلہ ہوا کہ میری دوست میری محبت میری غم گسار بینش زندہ ہوگی۔لیکن تلاش اس وقت ختم ہویی جب ہسپتال میں شہید ہونے والوں کی فہرست میں بینش کا نام سرفہرست تھا۔میں ہسپتال گیا تو قیامت صغری برپا تھی ہر طرف چیخ و پکار نھنے بچوں کی کفن میں لپٹی ہویی لاشیں۔میں کیا پورا پشاور شہر رو رہا تھا کہ اتںے بے گناہوں کا خون ایک ساتھ پہلے کبھی نا بہا تھا۔میں بینش کو ڈھونڈتا رہا ایک کفن میں لپٹے ہویے جسد خاکی کا ہاتھ کچھ باہر تھا وہ میری بینش کا ہاتھ تھا۔’

بینش چلی گی اپنی جان اس وطن کے لیے قربان کرگی لیکن عمر بٹ کے مطابق حباء عنایہ تو اس عمر میں ہی نہیں ہیں کہ انہیں اپنی ماں کی قربانی کا ادراک ہو۔چار سال کی حباء ہر وقت اپنی ماں کا ڈوپٹہ لیے پھرتی ہے اور عنایہ کو کہتی ہے کہ میں ہو بنیش تمہاری ماما۔کبھی اپنی ماما کے جوتے پہن لیتی ہے تو کبھی ماما کی جیولری پہن کر گھر گھر کا کھیل کھیلتی ہے۔جب رات ہوتی ہے تو یہ دونوں روتی ہیں کہ ماما کہاں ہیں تو میں خود کو بہت بے بس محسوس کرتا ہوں کہ ماں کا لمس ان کے لیے نہیں لا سکتا۔عفف تو صرف چار ماہ کی تھی جب بینش چلی گی وہ تو اس کرب سے ابھی آشنا نہیں جس سے حباء اور عناییہ گزر رہی ہیں۔میں میری والدہ اور ساس ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ تینوں بچیوں کو کسی چیز کی کمی نا ہو لیکن والدہ کی کمی کویی پورا نہیں کرسکتا۔بینش کی شہادت کے بعد میری بیٹی حباء نے چند ہی روز بعد پارک جانے کی ضد کی میری لیے سوگ کی کفیت میں اسے پارک لیجانا مشکل تھا لیکن اس ضد کے آگے ہار مان کر جب میں پارک گیا تو وہ پارک میں بھی بینش کو دھونڈتی رہی کہ کہیں سے ماں سامنے آجایے اور ماں کو یاد کرکے زاروقطار روتی رہی۔اس وقت میرے دل پر جو گزری وہ میرا اللہ ہی جانتا ہے۔میں اپنی بچیوں کو ہر ہفتے انکی شہید ماں کی قبر پر لے جاتا ہوں ہم اس کی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہیں اور پھولوں سے اسے سجا دیتے ہیں۔اب چند دن پہلے ابھی ہم عمرے پر گیے تب بھی پاکستان سے سرزمین حجاز تک بینش کا ڈوپٹہ حباء کے ساتھ رہا۔’

انیس سو سنتالیس میں پاکستان کے قیام کے وقت میرے خاندان کے سترہ افراد نے جام شہادت نوش کیا تھا اور سولہ دسبمر کو بنیش بھی پاکستان پر قربان ہوگی۔مجھے اپنی اہلیہ کی قربانی پر فخرہے۔جب تک میری اہلیہ حیات رہی اس کی زندگی کا مقصد بچوں کی اچھی تربیت تھا۔اس نے اپنے شاگردوں کی جان بچاتے ہویے اپنی جان قربان کی اور استاد شاگرد کے رشتے کو امر گرگی۔ہر بچہ کے لیے وہ ماں کی شفقت رکھتی تھی وہ اکثر کہتی تھی یہ میرے شاگرد نہیں میرے بیٹے ہیں۔گذشتہ برس عالمی یوم ماں پر بینش نے پورے گھر کو سجایا میری اور اپنی والدہ کو تحایف دیے اور ہماری بیٹیوں کو بھی اس دن کی اہمیت سے آگاہ کیا۔اس ماں کے عالمی دن پر میری بچیوں کے ماں ان کے پاس نہیں لیکن میں اپنی بیٹوں کے ساتھ میں یہ دن اپنی شہید اہلیہ کی قبر پر حاضری دیے کر منا رہا ہوں ۔میری بیٹاں اپنی شہید ماں کے لیے کارڈز اور پھول لے کر ان کی قبر کے پاس مدرز ڈے منا رہی ہیں

۔میرے خاندان نے قیام پاکستان کے لیے قربانی دی اور اب بینش نے اس ملک کی بقا کے لیے قربانی دی۔یہ وقت میری معصوم بیٹیوں کے لیے بہت کٹھن ہے لیکن بڑے ہوکر انہیں اپنی ماں پر فخر ہوگا۔میری گزارش ہے کہ حکومت اور آرمی ملک سے دہشت گردوں کا خاتمہ کردیں اور سانحہ پشاور کے مجرمان ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایں ۔لواحقین کے ساتھ تمام معلومات شئیر کی جایں۔اب وقت آگیا ہے تمام پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا اور ہمیں اپنی افواج اور حکومت کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا۔مجھے میری اہلیہ بنیش عمر شہید تمغہ شجاعت پر فخر ہے اس نے ایک عظیم ماں ایک عظیم استاد کی صورت میں اپنے روحانی بچوں کے لیے اس وطن کے لیے اپنی جان قربان کردی –

Posted On Sunday, May 10, 2015  

 

Posted in ArmyPublicSchool

اسحاق امین شہید

Posted On Thursday, February 26, 2015   ….. جویریہ صدیق…..
آرمی پبلک اسکول کا ایک اور پھول مرجھا گیا۔میاں اسحاق امین اپنے بھائی میاں عامر امین کے ساتھ معمول کے مطابق آرمی پبلک سکول و کالج ورسک روڈ کےلیے روانہ ہوا۔16دسمبر کو دونوں ہی بھائیوں کا پرچہ تھا۔اسحاق سیکنڈ ائیر پری میڈیکل اور میاں عامر سیکنڈ ائیر پری انجینئرنگ کا طالب علم تھا۔دونوں اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ پیپر دینے میں مشغول تھے کہ دہشت گردوں کا حملہ ہوگیا۔دونوں ہی بھائیوں کو شدید زخمی حالت میں سی ایم ایچ پہنچایا گیا۔اسحاق کو جبڑے اور بازو پر گولی لگی جبکہ عامرکو پیر اور کندھے پر گولیاں لگیں۔والدین پہلے تو اپنے بچوں کو ڈھونڈتے رہے لیکن اسکول میں انہیں نا پا کر اسپتال کا رخ کیا۔دونوں بچوں کا علاج چلتا رہا۔پاک آرمی کے چیف راحیل شریف کے احکامات پر سی ایم ایچ میں تمام بچوں کے علاج کو مفت کردیا گیا،لیکن کچھ بچوں کی تشویش ناک حالت پر نو تاریخ کو میڈیکل بورڈ بیٹھا اور یہ فیصلہ ہوا کہ30 بچوں کو کراچی آغا خان اسپتال بھجوایا جائے گا، ان بچوں میں اسحاق اور عامر بھی شامل تھے۔

وقت گزرتا گیا لیکن خیبر پختون خوا کی حکومت نے بچوں کے علاج معالجے کے لیے امدای چیک دینے میں تاخیر کی تو شہداء فورم نے خود ہی اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کو کراچی بھجوانے کے انتظامات کر لیے اور26بچے کراچی چلے گئے۔لیکن ڈاکٹرز نے تین بچوں کو سفر سے روک دیا کیونکہ ان کی حالت تشویشناک تھی جن میں اسحاق،انصار اور ولید شامل تھے۔اسحاق کے جبڑے میں گولی تھی جس کے باعث اس کے دماغ میں ائیر ببل بن گیا اوروہ بینایی سے محروم ہونے کے بعد کوما میں چلا گیا۔والدین کو امید تھی کہ خیبر پختون خوا کی حکومت زخمی بچوں کے علاج میں دلچسپی دکھائے گی لیکن ایسا نا ہوا اور اسحاق21 فروری کو سی ایم ایچ میں دم توڑ گیا۔

اسحاق امین پری میڈیکل کا طالب علم تھا ۔چھٹی جماعت سے آرمی پبلک اسکول میں زیرتعلیم تھا ۔ہمیشہ سے اسکو یہی شوق تھا کہ وہ آرمی ڈاکٹر بنے گا۔اس لیے پری میڈیکل میں ایڈمیشن لیا، منزل اس کے سامنے تھی لیکن 16 دسمبر دہشت گردوں نے اس کے تمام خواب چکنا چور کردئیے اور وہ دو ماہ سے زائد موت سے جنگ لڑنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گیا۔اسحاق کے والد میاں امین کہتے ہیں کہ ان کے چار بیٹے ہیں جن میں سے دو آرمی پبلک اسکول و کالج میں سیکنڈ ائیر کے طالب علم تھے ۔ پشاور سانحے میں ان کے دونوں بیٹے شدید زخمی ہوئے جس میں سے اسحاق چل بسا اور عامر کی حالت تشویشناک ہے۔ان کے مطابق اس مشکل کی گھڑی میں آرمی چیف اور پشاور کے کور کمانڈر نے ان کا ساتھ دیا لیکن وزیراعلیٰ خیبر پختون خواہ اور صوبائی حکومت کے رویے نے انہیں شدید مایوس کیا، انہوں کہا کہ میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے بھی ناراض ہوں۔ میرا جوان بیٹا چلا گیا میرے گھر میں قیامت برپا ہے، میرا دل غم سے پھٹ رہا ہے لیکن میرے دلجوئی کے لیے کوئی نا آیا،تاہم مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے کہ اسے شہادت نصیب ہوئی اور اس نے اپنی جان پاکستان کے لیے قربان کی۔

اسحاق کے بھائیوں وقار اور اسفند یار کے مطابق اسحاق بہت زندہ دل تھا گھر میں وہ ہمیشہ امی کا ہاتھ بٹاتا تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ محلہ داروں اور رشتہ داروں کی مدد میں پیش پیش رہتا۔ہم سب جب ٹی وی دیکھ رہے ہوتے تو وہ کچن میں امی کے ساتھ رات کے کھانے میں مدد کرتا کبھی سلاد بنا لیتا تو کبھی رائتہ۔اس کو ہمیشہ اس بات کا خیال رہتا کہ ہمارے کاموں کا زیادہ بوجھ ہماری والدہ پر نا پڑے۔اسحاق کا چلے جانا ان کے لے بہت بڑا سانحہ ہے۔دہشتگردی کے اس واقعے نے ان کا زندہ دل ہنستا مسکراتا بھائی ان سے چھین لیا۔اب ہمیں اپنے دوسرے بھائی عامر کی فکر لاحق ہے کہ اسکا علاج صیح طریقے سے ہوجائے کیونکہ اس کی حالت بھی غیر تسلی بخش ہے۔

اسحاق شہید کے والد میاں امین نے کہا کہ میرے جوان بیٹے نے اپنی جان اس وطن پر نثار کردی لیکن اس قربانی کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں متحد ہونا ہوگا ۔ہمیں کسی کے ڈر سے بھی اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے روکنا نہیں چاہیے ۔پاکستان کے سب بچوں کو چاہیے کہ وہ سب دل لگا کر پڑھیں اپنے استاتذہ کا احترام کریں۔ہم دہشت گردی انتہا پسندی کو صرف تعلیم سے ہی شکست دے سکتے ہیں۔

شہدا وغازی فورم پشاور کے سیکریٹری ابرار احمد یوسف زئی کے مطابق اس وقت26 بچوں کو ہم علاج کے لے کراچی آغا خان بجھواچکے ہیں خیبر پختون خوا کی حکومت نے ہمیں بہت تاخیر کرکے امدادی چیک دئیے جس میں سے آدھے تاحال کیش نہیں ہوسکے ۔ہم نے اپنی آپ مدد کے تحت پیسے جمع کرکے بچوں کو کراچی بھجوایا اور ان کے علاج کے ابتدائی پیسے بھی خود فورم نے جمع کروائے۔ابرار احمد کے مطابق دو بچے ولید اور انصار اب بھی پشاور میں ہی ہیں کیونکہ ان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ ہوائی سفر کرسکتے۔ان کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت بچوں کے علاج میں دلچسپی دکھائے تاکہ زخمی بچوں کی حالت مزید بگڑنے سے روکی جاسکے۔شہدا وغازی فورم کے صدر عابد بنگش نے کہا کہ کراچی میں بچوں کے لیے آغا خان میں بہترین انتظامات کیے گے ہیں اور وزیر صحت سندھ اور ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے بھی ہر ممکن مدد کا یقین دلایا ہے۔

اسحاق امین تو اس دنیا سے شہادت کا درجہ پا کر رخصت ہوگیا لیکن اس کے لواحقین بہت کرب سے گزر رہے ہیں ایک جوان بیٹا دنیا سے چلا گیا دوسرااسپتال میں موجود ہے تو ان والدین پر کیا بیت رہی ہو کوئی بھی حساس طبیعت کا مالک شخص اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ارباب اختیار کو یہ بات سوچنا ہوگی کہ اب بھی وہ صرف سیاست برائے سیاست کرتے رہیں گے یا سیاست برائے خدمت بھی کریں گے۔

وفاق اور صوبائی نمائندوں کو چاہیے کہ شہدا آرمی پبلک سکول کے لواحقین کی داد رسی کریں،جو بچے زخمی ہیں وہ بچے پاکستان کے بہادر غازی ہیں ان کی علاج معالجے کے لیے اگر انہیں حکومتی خرچ پر باہر بھی بھیجنا پڑے تو دریغ نا کریں۔اپنے سرکاری بابوئوں کو احکامات جاری کریں کہ فائلیں ادھر ادھر گھمانے سے پرہیز کریں اور زخمی بچوں کے علاج کے لیے فنڈز جاری کریں۔ایک ایک گزرتا لمحہ کہیں زخمی بچوں کو زندگی سے دور نا کردے۔دکھی ماں باپ کے غموں کا کچھ تو احساس ہو سیاست تو ہوتی رہے گی تھوڑی عوام کی خدمت بھی ہوجائے ۔وزیر اعظم نواز شریف کو خود چاہیے کہ اس معاملے میں وہ دلچسپی لیں، وہ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں اگر بچوں کو امدادی چیک پہلے ہی مل جاتے تو شاید آج اسحاق امین ہم سب کے درمیان موجود ہوتا۔اس وقت آرمی پبلک اسکول کےشدید زخمی بچے صوبہ سندھ میں موجود ہیں ،گورنر عشرت العباد اور وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے ان بچوں کے علاج پر فوری توجہ دینا چاہیے اور زخمی بچوں کے لیے فنڈز مختص کرنا چاہیے تاکہ یہ بچے زندگی کی طرف واپس لوٹ سکیں ۔
Javeria Siddique writes for Jang
Twitter @javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10693#sthash.eLSJxASM.dpuf

Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan

پشاور کے بچوں کے لہو پر سیاست

  Posted On Thursday, January 15, 2015   …..جویریہ صدیق…….
کسی بھی انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کے بچے ہوتے ہیں۔ماں اپنی کوکھ میں نو ماہ رکھ کر بچے کو پیدا کرتی ہے تو ورثا بچے کی آمد پر پھولے نہیں سماتے ۔ بچے کے ناز نخرے اس کی کلکاریاں اس کی شرارتیں بس خاندان بھر کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔اگر بچہ کو ہلکی سی بھی چوٹ لگ جایے یا معمولی سی بیماری آجایے تو ماں کے دل پر جو قیامت بیتی ہے اس کا حال صرف ماں ہی بیان کرسکتی ہے۔باپ بھی اتنی ہی شفقت بچے کو دیتا ہے جتنی ماں بچے کو محبت دیتی ہے۔دونوں کی کوشش ہوتی ہے بچے کو ایک ہلکی سی خراش بھی نا پہنچے۔
آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچے بھی اپنے والدین کی آنکھوں کا تارہ تھے ان کے دل کا قرار اور زندگی کا کل اثاثہ ۔موت طالبان کی صورت میں آئی اور بچوں کے ساتھ وہ حیوانیت برتی گی کہ ظلم و بربریت کی ایسی مثال پہلے ملتی ہی نہیں۔مائوں نے اپنے جیتےجاگتے شہزادے سکول بھیجے تھے جب واپس ملے تو کسی کے چہرے پر گولیاں تھیں کسی کا گلا کاٹ دیا گیا تھا کسی پھول کا جسم گولیوں سے چھلنی ملا تو کسی تو جلا دیا گیا تھا۔پشاور کی مائیں روتی رہیں چیختی رہیں لیکن ان کے ہنستے کھیلتے بچے تابوتوں میں بے جان پڑے تھے۔مائیں ان کا نام لیتی رہی ان کو اٹھنے کا کہتی رہیں لیکن جنت کے پھول تو واپس جنت جا چکے تھے۔
اس سانحے کے بعد امید تھی کی سیاسی قیادت ایک ہوجائے لیکن ایسا نا ہوا کچھ دن سوگ کا لبادہ اوڑھے رکھنے کی بیکار کوشش کے بعد وہ ہی آپس کے الزامات،طعنے،لڑائی کی سیاست کا آغاز کردیاگیا۔اس دوران لواحقین کو یکسر فراموش کردیا۔پہلے ایک دو دن تو فوٹو شوٹ کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتی ارکان کے وزٹ ہوتے رہے اس کے بعد وہ ہی دھاندلی دھاندلی کا واویلا شروع ہوگیا۔پھر انقلابی لیڈر کی شادی آگئی۔لواحقین اگر یاد رہے تو صرف آرمی کو لواحقین کے مطابق ٰصرف آرمی کے نمائندے ہماری دلجوئی کرنے آئے۔انہیں گلہ ہے اس بات کا جب سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیے وہ کیوں نا آئے۔
12 تاریخ سے آرمی پبلک سکو ل اور ملک کے تمام سکولوں میں تدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ۔تمام پاکستان کو اس وقت خوش گوار حیرت ہوئی جب بچوں کو پاکستان کے آرمی چیف راحیل شریف نے خود جا کر ریسو کیا۔اپنی اہلیہ کے ساتھ بچوں کی اسمبلی میں شرکت کی۔ سب بچوں سے ملے ان کا حوصلہ بڑھایا۔لواحقین منتظر رہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کب آئیں گے، تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کب آئیں گے، پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری کب آئیں گے لیکن کوئی نا آیا۔جب میڈیا پر بہت شور مچ گیا۔تو عمران خان جن کی پارٹی کی خیبر پختون خواہ میں حکومت ہے یہ کہا کہ ہمیں منع کیا گیا تھا کہ پہلے دن آرمی کا فنکشن ہے آپ مت آئیں۔مسلم لیگ ن نے تو وضاحت دینا بھی ضروری نا سمجھا یہ ہی حال پی پی پی کا ہے۔
14 جنوری کو تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان اکیس گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ آرمی پبلک سکول پہنچے۔ان کی آمد پر سیکورٹی پر مامور پولیس نے شہدائے سانحہ پشاور کے لواحقین سے بدتمیزی کی ، انہیں دھکے دئیے اور برا بھلا کہا۔شہدائے پشاور کے نیم زندہ والدین اس بات پر احتجاج کرنے لگے اور گو عمران گو کے نعرے لگائے۔اسفند یار شہید کی والدہ دہائی دیتی رہیں کہ یہ سیاستدان کیسے ہمارے ساتھ ہیں ؟ ہم تڑپ رہے ہیں یہ شادی کررہے تھے یہ صرف باتیں کرتے ہیں ہمارے لیے تبدیلی کی لیکن اصل میں ان کے یہاں آنے کامقصد صرف فوٹو شوٹ تھا۔احسان شہید کی والدہ بھی روتی رہیں اور کہتی رہیں عمران خان ، نواز شریف، آصف علی زرداری ہمارے دو دو بیٹے چلے گئے اور آپ سب کو احساس ہی نہیں۔
آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کی مائیں دہائیاں دیتی رہیں، روتی رہیں اور پشاور پولیس پروٹوکول کے نام پر ان کو دھکے دیتی رہی، خیبر پختون خواہ حکومت کے نمائندے انہیں برا بھلا کہتے رہے۔مائیں یہ پوچھتی رہیں کہ ہمارے بچوں کا چالیسواں بھی نہیں ہوا اور یہ سیاستدان خوشی کے شادیانے بجاتے رہے۔16 دسمبر کے بعد سے ہمیں تنہا چھوڑا ہوا ہے ۔اب ہمارے بچوں کی لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے آئے ہیں اور کچھ نہیں ان کا مقصد۔
عمران خان کے خلاف احتجاج پر صوبائی وزیر خیبر پختون خواہ مشتاق غنی نے یہ الزام عائد کردیا کہ احتجاج کرنے والے پلانٹڈ تھے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا کہ والدین نے احتجاج کیوں کیا ؟ اسکول آرمی کا ہے،صوبہ کے چیف پرویز خٹک ہیں تو میری آمد پر احتجاج کیوں ؟انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ مجھے بھی والدین نہیں لگے اس کے بعد انہوں نے پھر چار حلقے اور دھاندلی کی گردان شروع کردی۔
عابد رضا بنگش جن کے اپنے بیٹے رفیق بنگش نے آرمی بپلک سکول میں شہادت پائی اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ خیبر پختون خواہ کی حکومت نے انہیں یکسر فراموش کردیا ہے اور اب اوپر سے یہ بھی الزام عائد کیا جارہا ہے کہ احتجاج کرنے والے والدین نقلی تھے،ان کے مطابق اگر یہ بات ثابت ہوگی تو وہ شہدا فورم کو ختم کردیں گے۔
آج جو بھی ہوا بہت افسوس ناک ہے شہید ہونے والے پھولوں کی لاشوں پر سیاست کی کوشش،بچوں کے لواحقین کو نقلی کہنا ان کو پولیس کے ہاتھوں سے ذلیل کروانا ہمارے سیاست دان کہاں جا رہے ہیں ۔نیم مردہ والدین جن کی زندگی تو قبر میں دفن ہوگی، ان والدین پر تشدد کرنے کا کیا جوازہے جن کے بچے چلے گئے ،کیا وہ خیبر پختون خوانئےپاکستان میں احتجاج بھی نہیں کرسکتےِ ؟کیا ہمارے سیاستدانوں اور انتظامیہ میں سے انسانیت ختم ہوگی ہے ؟ آج کے واقعے کے بعد آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کے والدین نے مطالبہ کیا کہ ان پر تشدد کرنے والے ایس ایس پی آپریشن اور ڈپٹی کمشنر کو فوری طور پر معطل کیا جائے اور صوبائی حکومت میں ذمہ دار افراد مستعفی ہوں۔
سیاست دانوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ کہ سیاست برائے سیاست سے کہیں وہ عوام میں اپنی مقبولیت کھو نا دیں۔ کھوکھلے وعدے اور نعرے انقلاب بہت عرصہ تک عوام کو دلاسا نہیں دے سکتے۔اگر عوام کے لیے کچھ کرنا ہی ہےتو تمام سیاست دان سیاست برائے خدمت کریں۔عوام کے مفاد میں سیاست کی جائے اپنی ذاتی چپقلش اور عناد کو ایک طرف رکھ تمام سیاستدانوں کو دہشت گردی کے ستائے عوام کی داد رسی کے لیے فوری اقدام کرنا ہوں گے،ورنہ پاکستان کی آئندہ نسلوں کے سامنے یہ سر اٹھا کر نہیں چل سکیں گے۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10579#sthash.POoZxwGG.dpuf

Posted in ArmyPublicSchool

شہیدصائمہ طارق جرات وعظمت کی مثال

10891447_500767603397936_768906388404956407_n

…جویریہ صدیق..….

گھر سے باہر جو پہلا رشتہ کسی بھی بچے کا ماں باپ کے بعد قائم ہوتا ہے وہ ہے استاد اور شاگرد کا رشتہ۔استاد کو روحانی ماں باپ کا درجہ حاصل ہے۔بچہ ماں کی گود سے نکل کر جب درسگاہ آتا ہے تو اس کی شخصیت کو بنانے میں اساتذہ کرام کا سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔بچہ جب تین سال کی عمر میں اسکول پہنچتا ہے تو روتا ہے مچلتا ہے کہ ماں باپ کے بنا اسے کہیں بھی نہیں رہنا وہ بار بار روتا ہے اور گھر جانے کی ضد کرتا ہے لیکن استاد اس بچے کا ننھا منا ہاتھ پکڑ اسے درسگاہ میں لا تا ہے وہ ایک شفقت بھرا لمس بچے کو غیر مانوس جگہ سے انسیت پیدا ہونے میں مدد دیتا ہے۔ استاد ہرجگہ بچے کا مددگار ہوتا انہیں لکھنا سکھاتا ہے، پڑھنا دین کی سمجھ دنیوی تعلیم اور معاشرے میں جینے کا طریقہ اور آگے چل کر یہ ہی استاد بچوں کو ترقی کرتا دیکھ کر فخر کرتے ہیں۔
آرمی پبلک اسکول میں بھی گیارہ سو سے زائد بچے ایسے ہی استاتذہ کے زیر چھائوں تعلیم حاصل کرنے میں مگن تھے۔جب والدین صبح اپنے بچوں کو اسکول چھوڑ کرجاتے تو یہ استاتذہ مسکراتے ہوئے بچوں کا استقبال کرتے۔ کتنے ہی چھوٹے چھوٹے بچے جب صبح ماں کے پہلو کے ساتھ چپک کر روتے تو یہ ہی استاتذہ اپنے ہاتھوں سے ان کے آنسو پونچھ کر گلے لگاتے اور تسلی دیتے کہ وہ سکول میں اکیلے نہیں ان کے لیے پیار شفقت تعلیم سب ہی کچھ موجود ہے۔نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے بچے تو اب استاتذہ کے دوستوں میں شمار ہوتے ۔ان کی تعلیم سے لے کر ان کے غیر نصابی مشاغل میں استاتذہ ان کے ہم قدم ان کی رہنمائی کرنے لیے موجود۔
اس ہی اسکول میں ایک ہر دل استاد صائمہ طارق بھی تھیں۔جنہوں نے اساتذہ کی تاریخ میں رحم دلی پیار محبت ایثار کی نی داستان رقم کر ڈالی۔آٹھویں کلاس کی ٹیچر جن کے ذمہ تمام سکیشنز کی انگریزی کی کلاس تھی۔صائمہ طارق شہید مردان سے تعلق رکھتی تھیں اور بی اے کرنے کے بعد ہی تدریس کا عمل شروع کردیا۔تدریس کے ساتھ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا پہلے انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور بعد میں ایجوکیشن میں ایم فل۔انیس سو اٹھانوے سے تدریس کا آغاز کیا اور مردان کے عزیز بھٹی شہید اسکول میں پندرہ سال تعلیم کی روشنی بانٹتی رہیں۔پاک فوج کے بریگیڈیر طارق سعید کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور شادی کے بعد بھی تدریسی عمل ترک نا کیا۔اپنے شوہر کی ٹرانسفر کی وجہ سے پشاور میں سکونت اختیار کی اور چھبیس اکتوبر کو آرمی پبلک سکول ورسک روڈ جوائن کیا۔
جلد ہی صائمہ طارق کا شمار آرمی پبلک سکول ورسک روڈ میں زیرتعلیم بچوں کی ہر دلعزیز ٹیچر میں ہونے لگا آٹھویں جماعت کی کلاس ٹیچر ہونے کے ساتھ دیگر سکشینز کو انگریزی پڑھانے کا ذمہ بھی انہیں ملا۔صائمہ طارق نے ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ کیا تو بریگیڈیر طارق سعید نے انہیں کچھ عرصہ تدریسی عمل سے بریک لینے کا مشورہ دیا لیکن انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں گھر اسکول اور تعلیم کا سلسلہ آرام سے ہینڈل کر لو ںگی آپ فکر نا کریں ۔سولہ دسمبر کی صبح صائمہ طارق تہجد کی نماز پڑھنے کے بعد طالب علموں کی کاپیاں چیک کرنے لگیں ،کچن کے ضروری کاموں کو انجام دینے کے بعد اسکول کے لیے روانہ ہوگئیں ۔اہل خانہ کے مطابق گھر میں ملازمین ہونے کے باوجود وہ گھر کے سب کام خود کرنا پسند کرتی تھیں۔تہجدکے ساتھ ساتھ پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے پڑھا کرتی تھیں۔
اسکول میں تدریسی عمل کا آغاز ہوا اور صائمہ طارق کی کلاس نے ہال میں آرمی میڈیکل کور سے ابتدائی طبی امداد کی ٹرینگ لینا تھا۔صائمہ طارق تمام بچوں کو لے کر ہال میں گئیں اور نویں کلاس کے طالب عملوں نے بھی انہیں جوائن کرلیا۔تمام بچے اپنے استاتذہ کے ساتھ ہمہ تن گوش تھے اور ابتدائی طبی امداد سیکھنے لگے۔کسی زی روح کے گمان میں بھی یہ نا تھا کہ موت کے کالے سائے ان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اسکول میں فرسٹ ائیر سکینڈ ائیر کا پرچہ بھی تھا۔تدریسی عمل معمول کے مطابق جاری تھا کہ عینی شاہدین کے مطابق اچانک اسکول سے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔معصوم بچے سہم گئے اور استاتذہ نے ہال کے دروازے بند کردیے تاکہ بچے محفوظ رہ سکیں۔
لیکن ایسا نا ہوسکا طالبان نے ہال کے دو داخلی دروازے توڑ دیے اور موت بن کر بچوں پر گولیاں برسانا شروع کردیں۔ہال میں موجود ٹیچرز نے ہمت نا ہاری اور دہشت گردوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں۔انہوں نے بچوں کو ہال سے بھاگنے کے لیے کہا تاکہ بچے اپنی جان بچاسکیں لیکن ظالم دہشت گردوں نے ہال میں موجود صائمہ طارق پر کیمیکل پھینک کر انہیں زندہ جلا دیا اور سحر افشاں ،سیدہ فرحت کو گولیاں مار کے شہید کیا گیا ،ان خواتین استاتذہ کے آخری الفاظ یہ ہی تھے کہ بچوں جائو اپنی جان بچائو متعدد بچے ہال سے نکلنے میں کامیاب بھی ہوگئے لیکن شہید صائمہ طارق،شہید سیدہ فرحت اور شہید سحر افشاں سمیت ایک سو پچاس افراد جن میں بیشتر بچے تھے اس دہشت گردی کے واقعے میں جام شہادت نوش کیا۔
آرمی کی کوئیک رسپانس ٹیم اور ایس ایس جی کمانڈو پندرہ منٹ کے اندر اندر سکول پہنچے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا لیکن دہشت گرد کسی کو یرغمال بنانے نہیں آئے تھے ان کا مقصد صرف خون کی ہولی کھیلنا تھا۔آرمی پبلک اسکول کی پرنسل طاہرہ قاضی،استاتذہ اور 135 پھولوں نے اس سانحے میں شہادت پائی۔یوں ان سب نے بہادری اور جرات کی وہ داستان رقم کی ہے جو تا قیامت یاد رکھی جائے گی۔
صائمہ طارق شہید کو جب مردان میں دفن کیا گیا تو ان کے شاگرد دھاڑیں مار مار کر روتے رہے پندرہ سال مردان کے عزیز بھٹی شہید اسکول میں وہ ایک نسل کو تعلیم سےلیس کرگئی تھیں۔ ایک شاگرد کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ میں اپنی پیدا کرنے والی ماں کو تو بھول سکتا ہوں لیکن اپنی روحانی ماں صائمہ طارق کو کبھی فراموش نہیں کرسکتامیں آج جو کچھ ہوں اپنی استاد شہید صائمہ کی وجہ سے ہوں۔آرمی پبلک اسکول ورسک روڈ کے طالب علموں کا کہنا تھا کہ صائمہ طارق کا شفیق چہرہ ہم کبھی بھول نہیں سکتے ہیں اللہ نے ہماری میم کو شہادت جیسے بڑے رتبے پر فائز کیا ہے اور ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ ان سمیت ہمارے دیگر شہید ہونے والے استاتذہ کو بہادری کے تمغوں سے نوازا جائے۔
صائمہ طارق کے گھر والوں کا صبر کا قابل دید ہے ان کے شوہر بریگیڈیر طارق سعید ان کے بچے اور خاندان کے دیگر لوگ صائمہ طارق کی بہادری پر نازاں ہیں کس طرح اپنی جان کی پرواہ نا کرتے ہوئے روحانی ماں نے اپنے شاگردوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔اہل خانہ کے مطابق صائمہ بہت ہی ملنسار اور رحم دل شخصت کی مالک تھیں ان کی زندگی کا نصب العین صرف اور صرف بچوں میں علم کی روشنی بانٹنا تھا۔وہ صوم وصلوٰــۃ کی پابند تھیں اور بچوں کو بھی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دین اسلام پر عمل کرنے کی تلقین کرتی تھیں۔صائمہ شہید گھریلو کاموں میں بھی بہت دلچسپی لیتی تھیں اور خاص طور پر نت نئے کھانے بنانے کا شوق رکھتی تھیں۔اہل خانہ کے مطابق صائمہ شہید فوٹوگرافی کی بہت شوقین تھیں فون سے تصاویر لینے میں ماہر تھیں اس کے ساتھ ساتھ کیمرے سے بھی لمحات کو قید کرنے کی شوقین تھیں۔
صائمہ طارق کے اہل خانہ کے مطابق تصاویر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تو صائمہ کے ساتھ ہی چلا گیا جوکہ ان کے فون میں موجود تھا لیکن ان کے لکھے ہوئے مضامین اور افسانے گھر کے کمپیوٹر میں محفوظ تھے جوکہ اب ان کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔صائمہ طارق کے اہل خانہ کے مطابق ان کا پاکستان کے رہنے والوں کے لیے یہ ہی پیغام ہے ہمیں صائمہ طارق شہید اور دیگر شہدا کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دینا ہم سب کو مل کر دہشت گردی کے خلاف جہدوجہد کرنا ہوگی اور اس سوچ کو شکست دینا ہوگی جو دہشت گردی کو اس ملک میں پروان چڑھا رہی ہے۔ہمیں فخر ہے کہ صائمہ طارق نے اپنے شاگردوں کو بچاتے ہوئے اس ملک اور اپنے روحانی بچوں کے لیے جان قربان کی۔

آتش و دہن میں کھڑی تھی تو
گلشن کے تحفظ میں کڑی تھی تو
درندے گھس آئے تھے وہاں
معصوم کلیوں کا تھا جو گلستاں
استاد بڑے شجیع ہوتے ہیں
سمندر جیسے وسیع ہوتے ہیں
شہید ہو کر امر ہوئی
وحشت پر ممتا لے گئی بازی

Javeria Siddique

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

Posted On Monday, December 22, 2014

– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10466#sthash.C8ypURJ2.dpuf

Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan

گل رعنا کا دکھ

گل رعنا کا دکھ

  Posted On Thursday, December 25, 2014   …..جویریہ صدیق……
مردان طورو سے تعلق رکھنے والی گل رعنا کے گھر محمد علی کی پیدایش12 اکتوبر1998 کو ہوئی۔گل رعنا اور ان کے شوہر شہاب الدین کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔تین بہنوں کا اکلوتا بھائی اسکا نام بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام کی مناسبت سے محمد علی رکھا گیا۔محمد علی کو شروع سے ہی آرمی میں جانے کا شوق تھا اور وہ بچپن میں جب بھی مچل مچل کر گاڑی جہازفوجی ٹینک والے کھلونوں کی ضد کرتا تو شہاب الدین مسکراتے ہوئے جابجا کھلونے اس کو لے دیتے اکلوتا جو تھا ۔گل رعنا کی آنکھوں کی ٹھنڈک اس کے دل کا قرار جب گھر سے تعلیم کے حصول کے لیے نکلا تو اس کے لیے اس کو شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے آرمی پبلک سکول ورسک روڈ کا انتخاب کیا گیا۔محمد علی کا تعلیمی سلسلہ شروع ہوا ہر مضمون میں بہترین اور ساتھ میں سکول کی باسکٹ بال ٹیم کا سب سے بہترین کھلاڑی۔سکول میں شوٹنگ میں بھی سب سے آگے اور ہمیشہ نشانے لیے ہوئے کہتا کہ ایک دن وہ دہشت گردوں پر بھی اسی ہی طرح نشانہ رکھ کر انہیں جہنم واصل کرےگا ۔گل رعنا کا شرارتی بیٹا ہر چیز میں آگے تھا گھر میں بہنوں کے ساتھ خوب شرراتیں ماما سے فرمائش، ماما چپس بنا دیں، ماما کیچپ دیں، ماما فرنچ ٹوسٹ کہاں ہے، ماما ریموٹ کہاں ہے میں نے سی آئی ڈی دیکھنا ہے بس جہاں کہیں ایکشن سسپنس سے بھرپور ڈرامہ یا پروگرام آرہا ہو وہاں ریموٹ صرف اس کاہی ہوتا۔محمد علی اپنے والد شہاب الدین کا خاص لاڈلا تھا گل رعنا پھر بھی سختی کرتی تھیں کہ اکلوتا ہے کہیں خود سر نا ہوجائے لیکن شہاب الدین تو کہتے کہ گل میرے بیٹے کو کچھ نا کہو کرنے دو اسکو شرارتیں یہ ہی دن ہیں ان کے کھیلنے کودنے کے پھر بڑا ہوجائے گا تو کہاں وقت ملےگا ۔
نوجوانی کی دہلیز پر دستک دیتا محمد علی کبھی دوستوں کے ساتھ کرکٹ کبھی باسکٹ بال تو کبھی کیرم کی بازی جہاں کہیں بھی محمد علی کھیل رہا ہوتا گل رعنا ایک نظر اس کو چپکے سے دیکھ ہی آتی جب محمد علی ان کو دیکھتا تو گھر آکر خفا ہوتا ماما اب میں بڑا ہوگیا میرے سب دوست دیکھتے ہیں کہ جہاں علی جاتا ہے اس کی ماما اس کو ضرور ایک نظر دیکھ کر جاتی ہیں لیکن گل رعنا مسکرا کر کہتی بیٹا یہ ماں کا دل ہے تم نہیں سمجھو گے۔دس دسمبر کو محمد علی باسکٹ بال میں میڈیل جیت کر آیا تو ماں نے بے ساختہ دعا دی بیٹا تم فخر خاندان ہو خدا تمہیں فخر پاکستان بنائے اور تم دیکھنا ایک دن اخبارات میں تمہاری تصاویر آئیں گی لیکن کسی کو کیا معلوم تھا محمد علی کی گل رعنا کے ساتھ ہی تصاویر آئیں گی لیکن سانحہ پشاور کے بعد۔
سولہ دسمبر کا دن طلوع ہوا محمد علی نے صبح کے وقت قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھا گل رعنا نے آواز دی بیٹا تیار ہوکر ناشتہ کرلو علی سکول کے لیے تیار تو ہوگیا لیکن ناشتہ نا کیا اور دوبارہ قرآن کی تلاوت شروع کردی ماں نے پھر آواز دی تو کہا امی میں چاہتا ہوں وین آنے سے پہلے سپارہ ختم کرلوں۔مامتا سے مجبور ماں نے کہا چائے ہی پی لو بس دو گھونٹ چائے پی اور سکول کے لیے روانہ ہوگیا ۔علی کےتمام دوست سکول کی باسکٹ بال ٹیم کا حصہ تھے۔باسکٹ بال کی پریکٹس کی بعد میں روٹین کی پڑھائی۔ اس دن ہال میں طبی امداد کی ٹرینگ دی جانی تھی اور میڈم افشاں کے ساتھ علی کی کلاس نائن ڈی بھی ہال میں آگئی ۔دوسری طرف گل رعنا اپنی بیٹیوں اور بیٹے کو سکول بھیجنے کے بعد گھر کے کاموں میں مصروف ہوگی ۔
موت طالبان ظالمان کی صورت آرمی پبلک سکول میں داخل ہوئی اور بچوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی گئی۔ طالبان کی طرف سےحیوانیت کا وہ کھیل کھیلا گیا کہ عرش کانپ اٹھا ۔میڈیم افشاں دہشت گردوں اور بچوں کے بیچ میں آگئی اور بچوں کو ہال سے بھاگنے کے لیے کہا۔محمد علی ان کچھ چند خوش نصیب بچوں میں تھا جوکہ ہال میں نکلنے سے کامیاب ہوگئے لیکن جب پیچھے دیکھا تو اس کے باسکٹ بال کے پلیئر ساتھی اس کے دوست اس کے کلاس فیلو اذان علی ،علی رحمان اور وقار تو پیچھے ہی رہ گئے تھے وہ پھر پلٹا تو ظالم دہشت گردوں نے گل رعنا کے پھول جیسے بیٹے کی ٹانگوں پر گولیاں ماردی۔وہ گر پڑا لیکن ہمت نا ہاری زمین پر رینگتا ہوا سکول کے گیٹ کی طرف بڑھا لیکن وحشی درندوں نے ایک بار پھر اس معصوم کو نشانہ بنایا اور گولیوں سے چھلنی کردیا یوں محمد علی اس وطن پر قربان ہوگیا۔
گل رعنا اور شہاب الدین کو جب اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو فوری طور پر سکول کی طرف بھاگے لیکن وہاں آرمی آپریشن شروع ہوچکا تھا وہاں سے اسپتال کا رخ کیا تو گل رعنا کو یہ ہی امید تھی اس کا اکلوتا بیٹا اسکا نور نظر زندہ ہوگا ہسپتال میں قیامت صغری برپا تھی ہر طرف آرمی پبلک سکول کے ننھے پھولوں کی مسخ لاشیں تھیں۔اسپتال کے ایک کونے میں آرمی پبلک سکول کی پوری باسکٹ بال کی ٹیم کی لاشیں بھی موجود تھیں اسکول کی پوری باسکٹ بال ٹیم ہی ختم ہوگئی۔وہ بچے جو سنہرے خواب آنکھوں میں سجائے سکول گئے تھے اب ان کی بے نور آنکھیں سوال کر رہی تھیں کہ ہمارا کیا قصور تھا ہمیں کیوں اس نے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا؟گل رعنا کا جیتا جاگتا بیٹا جس کو گھر سے سکول تعلیم کے لیے بھیجا تھا جس کو ابھی پاک فوج میں بھیج کر ملک کا پاسبان بننا تھا جس کے سہرے کے پھول ابھی دیکھنے تھے وہ بچہ دیگر ایک سو پینتیس بچوں کے ساتھ سفید کفن میں ملبوس تھا۔زمین کیوں نا پھٹی آسمان کیوں نا ٹوٹ پڑا آہ گل رعنا کی کل کاینات اس کا بیٹا محمد علی چلا گیا۔
محمد علی کے تابوت سے لپٹ کر روتی رہی اسکو اٹھنے کا کہتی رہی گھنٹوں روتہ رہی پھر بیٹا نا اٹھا کیونکہ محمد علی تو اپنی جان اس وطن کے لیے قربان کرکے شہید کا درجہ حاصل چکا تھا۔گل رعنا جس وقت اپنے بیٹے کے لیے تڑپ تڑپ کر رو رہی تو متعدد کیمروں نے اس کی اپنے شہید بیٹے کے ساتھ تصویر محفوظ کرلی،جس جس پاکستانی نے یہ تصویر دیکھی وہ تڑپ اٹھا گل رعنا کی تکلیف دیکھ کر جس بیٹے کو نو ماہ کوکھ میں رکھ کر پیدا کیا راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس کی دیکھ بھال کی اتنی محنت کرکے پندرہ سال کا کیا آنے والے درندوں نے پندرہ منٹ بھی نا لگائے او گل رعنا کی امیدوں ارمانوں اور خوشیوں کا خون کرکے چلے گئے۔محمد علی کے جنازے میں پشاور اور مردان طورو میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔علاقے کا ہر شخص محمد علی کی تابع داری اور بڑوں کے ساتھ حسن سلوک کا چرچا کرتا رہا۔مردان میں طورو کے علاقے میں ننھے شہید محمد علی کو سپرد خاک کردیاگیا۔
گل رعنا کے وجود کا حصہ اس کی پندرہ سال کی محنت اس کا پیار اس کی آنکھوں کی تارہ اب ایک سرد قبر کا مکین ہے وہ بچہ جسے کو ماں نے کبھی ایک پل آنکھ سے دور نا کیا تھا آج مردان میں ابدی نیند سو رہا ہے۔گل رعنا کے گھر پاک فوج کے افسران اور اے این پی کے لیڈران حاجی غلام احمد بلور،ہارون بشیر بلور،میاں افتخار حسین اور شگفتہ مالک آئے اور انہیں تسلی دی اور دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے کا عندیہ دیا۔لیکن گل رعنا انتظار کرتی رہی کہ کب وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف،وزیر اعلی خیبر پختون خواہ پرویز خٹک کب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان،مریم نواز شریف اورپی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس کے گھر آئیں گے اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھیں گے ،شہاب الدین کو تسلی دیں گے محمد علی کی تین کم سن بہنوں کے آنسو پونچھیں گے لیکن ایسا نا ہوا کوئی بھی نا آیا۔ جب ووٹ لینے کے لیے لیڈران ہمارے علاقوں اور گھروں میں آسکتے ہیں تو ہمارے غم میں شرکت کرنے کیوں نہیں آسکتے جب گل رعنا کو یہ پتہ چلا کہ عمران خان آرمی پبلک سکول آرہے ہیں تو گل رعنا سوگ کی کیفیت میں اسکول چلی گئی اور عمران خان سے سوال کیا کہ یہ ہے وہ تبدیلی جس کا خواب آپ سب کو دیکھا رہے ہیں ؟ ہمارے بچے چلے گئے اور ہمیں پرسہ دینے بھی کوئی نہیں آیا۔آپ کب طالبان کے خلاف ایکشن لیں گے ؟ ہمارے بچوں کو انصاف کون دےگا؟ لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین کے پاس کوئی جواب نا تھا۔
گل رعنا کہتی ہیں کہ میرا بیٹا محمد علی تو اس ملک پر اپنی جان نچھاور کرگیا لیکن میں نہیں چاہتی کہ اس قربانی رائیگاں جائے۔میں چاہتی ہوں میرے بیٹے کے لہو کی قربانی سے ملک میں امن آجائے اور کوئی ماں ایسا غم پھر نا دیکھے جو میں نے اور دیگر ایک سو چونتیس بچوں کی مائوں نے دیکھا ہے۔گل رعنا نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ انکے بیٹے باقی شہید ہونے والے بچوں کوسرکاری طور پر شہید کا درجہ دیا جائے اور آرمی پبلک کے شہدا کی یاد میں ایک یادگار تعمیر کی جائے۔انہوں نے آرمی اور حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ ایک ایک دہشت گرد کو اسکو انجام تک پہنچایا جائے تاکہ پھر کسی ماں کی گود نا اجڑے۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at :Twitter @javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10477#sthash.1OdFvxwO.dpuf

Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan

باقر کی آنکھیں سوال کرتی ہیں

باقر کی آنکھیں سوال کرتی ہیں

  Posted On Friday, January 16, 2015   ……جویریہ صدیق……
بچہ دنیا میں آکر جو پہلا پیار کا لمس محسوس کرتا ہے وہ ماں کا ہے۔ بچہ روتا ہے چیختا ہے ضد کرتا ہے لیکن ماں کی گود میں آکر بالکل چپ ہوجاتا ہے۔ ماں کی گرم آغوش بچے کو تسکین فراہم کرتی ہے۔ باقر نے جب 15سال پہلے آنکھ کھولی تو پہلا لمس محسوس کیا وہ سیدہ فرحت کا تھا۔ اس کی ماں سیدہ فرحت کوئی عام خاتون نہیں تھی۔ حافظ قرآن، ایم اے اسلامیات، ایم اےعربی اور بی ایڈ فرحت درس و تدریس کے شعبے سے منسلک تھی۔ 1996ء میں پشاور سے تعلق رکھنےوالے سید عابد علی شاہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ پہلے سید سطوت کی پیدائش ہو ئی پھر سید باقر نے ان کی زندگی مکمل کردی۔ سید باقر نے ہوش سنبھالا تو اپنے ارداگرد تعلیمی ماحول پایا۔ والدہ سیدہ فرحت صبح جب اسے اور سطوت کو اٹھاتیں تو پورا گھر صاف، ان کے یونیفارم تیار اور ساتھ میں گرما گرم ناشتہ تیار ہوتا۔ ایک ساتھ ناشتے کرکے یہ روز ایک ہی ساتھ آرمی پبلک اسکول ورسک روڈ کے لیے روانہ ہوتے۔ سطوت فرسٹ ائیر میں اور باقر نویں جماعت میں اور ان کی والدہ سیدہ فرحت فرسٹ ائیر کی استاد ۔ سیدہ فرحت اپنے سکول آرمی پبلک کی مقبول ترین اساتذہ میں سے ایک تھیں۔ صوم وصلاۃ کی پابند اور قاریہ بھی تھیں۔ خوش اخلاق اور ملنسار سیدہ فرحت طالب علموں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتی اور ان کی اخلاقی تربیت میں پیش پیش رہتیں۔
باقر کو تو یہ بہت ہی اچھا لگتا تھا کہ جہاں وہ پڑھتا ہے مما بھی وہاں ہی پڑھاتی ہیں لیکن باقر کی مما اس کو کہتیں بیٹا میں گھر میں آپ کی مما ہوں لیکن اسکول میں آپ کی استاد اس لیے کوئی مارجن نہیں ملے گا۔ کتنی بار ایسا ہوتا کہ باقر اپنی مما کی کلاس کے پاس سے گزرتا، ان کی ایک جھلک دیکھ کر پھر اپنی کلاس میں جاتا، کتنا اچھا لگتا ہے ناں ماں اسکول میں بھی بچے کے ساتھ ہو اور گھر میں بھی۔ باقر اسکول بریک میں مما کے ہاتھ کا بنا مزے مزے کا لنچ کرتا۔ کتنی بار ہوتا کہ پیار بھری ضد سے وہ اپنی مما سے پیسے بھی لیے لیتا اور کینٹین سے بھی چیزیں خریدتا۔ گھر واپسی ہوتی تو باقر اور سطوت مزے سے سو جاتے۔ فرحت گھر کے کام کاج میں لگ جاتیں شام کو بچوں کو چائے اور مزے مزے کے اسنیکس کے ساتھ اٹھاتیں، کبھی شامی کباب، کبھی چکن بوٹیاں تو کبھی نوڈلز۔ اس کے بعد وہ خود بچوں کو پڑھاتیں، ساتھ میں اسکول کا کام بھی کرتی رہتیں، بچوں کی کاپیاں، کبھی پیپرز تو کبھی نوٹس۔ رات گئے جب سید عابد گھر واپس آتے سب مل کر ٹی وی دیکھتے، کبھی تو باقر اور سطوت کا ٹی وی ریموٹ پر ہی جھگڑا ہو جاتا تو فرحت بہت پیار سے دونوں کی صلح کروادیتیں۔ رات کا کھانا سب مل کر ساتھ کھاتے۔ زندگی کتنی خوش گوار تھی۔
16دسمبر کو بھی معمول کے مطابق دن کا آغاز ہوا، سیدہ فرحت اٹھیں، فجر کی نماز پڑھی، گھر کی صفائی کیلئے کچن میں گئیں، اپنے شوہر اور بچوں کے لیے ناشتہ بنایا لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ فرحت کا بنایا ہوا یہ ناشتہ ان کا آخری ناشتہ ہوگا، اس کے بعد سطوت اور باقر کبھی بھی ان کے ہاتھ کا ذائقہ دوبارہ محسوس نہیں کرپائیں گے۔ اپنے ہاتھوں سے اپنےبچوں کے کپڑے استری کیے، ان کے جوتے پالش کیے۔ باقر اور سطوت دونوں ہی کہتے تھے کہ مما اب ہم بڑے ہوگئے ہیں، کر لیں گے کام، لیکن ماں کے لیے تو بچے ہمیشہ بچے ہی رہتے ہیں۔ بچے تیار ہوگئے، پھر اپنے شوہر کو ناشتہ کروایا، ان کو تیار ہونے میں مدد کی۔ سیدہ فرحت راستے میں سورۂ یٰسین پڑھتی رہیں جوکہ ان کا روز کا معمول تھا، وہ سفر میں کم بات کرتی تھیں، قرآنی آیات کا ورد کرنا ان کا معمول تھا۔ فرسٹ ائیر کا پرچہ تھا۔ سید سطوت اور سیدہ فرحت اوپر کی منزل کی طرف چلے گئے اورسید باقر نیچے ہال میں۔
فرسٹ ائیر، سکینڈ ائیر جس کا پرچہ تھا، سیدہ فرحت بھی وہاں موجو د تھیں، ان کی ڈیوٹی کمرۂ امتحان میں تھی اور باقر کی کلاس اور نویں جماعت کے سارے سیکشنز نے ہال میں ابتدائی طبی امداد کی تربیت لینی تھی۔ اچانک دہشت گردوں نے اسکول پر حملہ کردیا اور ہال میں آکر فائرنگ شروع کردی۔ اساتذہ کو جلایا گیا اور بچوں پر گولیاں برسائیں۔ سیدہ فرحت نے جب فائرنگ سنی تو وہ اوپر کی منزل سے نیچے کی طرف بھاگیں جہاں سے فائرنگ کی آواز آرہی تھی، انہوں نے بچوں کو بچانے کی کوشش کی، باقر بھی ان ہی بچوں میں کہیں تھا، ہر طرف شور اور آہ و پکار تھی۔ دہشت گردوں نے اپنی گولیوں کا رخ فرحت کی طرف کردیا اور یوں اپنے شاگردوں کے ساتھ سیدہ فرحت بھی شہادت کے درجے پر فائز ہوگئیں۔ باقر بھی وہاں ہی تھا، ایک گولی چھوتی ہوئی اس کے سر کے پاس سے نکل گئی، خوش قسمتی سے اس کی جان تو بچ گئی لیکن اس کی ماں سیدہ فرحت اس کے سامنے جام شہادت نوش کرگئیں۔
ہنستا کھیلتا باقر اب بالکل چپ ہوکررہ گیا ہے، وہ سب کام تو کررہا ہے لیکن کسی روبوٹ کی طرح، وہ سب سے خفا ہے لیکن اپنی خفگی ظاہر نہیں کررہا۔ سید عابد کہتے ہیں کہ فرحت کو دفناتے وقت انہوں نے خود کو بہت تنہا محسوس کیا، سیاسی قیادت میں سے کوئی بھی ان ساتھ کھڑا نہ ہوا۔ وہ منتظر رہے کہ تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کا کوئی نمائندہ تو آئے گا لیکن کوئی نہ آیا۔ باقر زخمی تھا لیکن سید عابد اس گھر لے آئے کیونکہ اس کی والدہ کا جنازہ تھا، باقر کی دلجوئی کے لیے بھی کوئی نہ آیا۔ کہتے ہیں بچے تو سب کے ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن شاید سیاستدانوں کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ سید عابد کے مطابق ہماری داد رسی کے لیے صرف پشاور کے کور کمانڈر آئے اور بعد میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ہمیں بلایا اور ہمارے غم کو بانٹا۔
سید عابد علی شاہ کہتے ہیں کہ میری اہلیہ سیدہ فرحت تو شہادت کا رتبہ پا کر اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوگئیں تاہم میرے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد کرگئی۔ اب میں خود صبح اٹھتا ہوں، سطوت اور باقر کے لیے ناشتہ بناتا ہوں، ان کے لیے آفس سے واپس آکر کھانا بناتا ہوں۔ مگر مجھے یہ معلوم ہے ان کی زندگی میں ماں کی کمی کا خلا اب کوئی بھی پورا نہیں کرسکتا۔ میرے بچےبہت بہادری سے اسکول دوبارہ جانا شروع ہوگئے ہیں تاہم میں یہ جانتا ہوں کہ ان کے دل پر کیا بیت رہی ہے۔
سطوت اور باقر نے 12جنوری سے دوبارہ اسکول جانا تو شروع کردیا ہے لیکن اب سب چیزیں بدل گئی ہیں، اب ان کو ماں کے ہاتھ کا کھانا میسر نہیں، ماں کی آغوش میسر نہیں، ماں کا ساتھ میسر نہیں۔ باقر اور سطوت کے اسکول میں اب ان کی ماں استاد سیدہ فرحت موجود نہیں۔ اب سکول میں کبھی بھی وہ اس ماں کو نہیں دیکھ سکیں گے جن کے ساتھ وہ لنچ کرتے تھے اور پیسے لے کر کینٹین بھی جاتے تھے۔ اس سانحے کے بعد بھی باقر اس کلاس کے آگے سے گزرا ہوگا جہاں فرحت پڑھاتی تھیں۔اس کرب کو بیان کرنے کے لیے باقر کی نیم سرخ اور سوجی ہوئی آنکھیں ہی کافی ہیں۔ باقر کی کلاس 9بی کے 8بچے شہید ہوگئے، کلاس میں ان کی خالی کرسیاں باقی ہم جماعتوں کے لیے بہت تکلیف دہ ہیں۔
اب ذمہ داری حکمرانوں پر ہے جن ظالم دہشت گردوں کی وجہ سے باقر نے اپنی کل کائنات کو کھو دیا، ان سے حساب کب لیں گے۔ باقر کے لب خاموش ہیں لیکن آنکھوں میں بہت سے سوال ہیں، اس کو اپنی ماں کی اور ساتھیوں کی شہادت پر فخر ہے لیکن وہ خفا بھی ہےکیونکہ جن کے ساتھ زندگی کی شروعات کی وہ تمام ساتھی ابدی نیند سو گئے۔ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت جن کو سیاست سے ہی فرصت ہی نہیں اور اب انہوں نے شہدائے پشاور پر بھی الزامات کی سیاست شروع کردی ہے، اس طرح سے سانحہ پشاور کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوسکتا۔ 16جنوری کو سانحہ پشاور کو ایک ماہ مکمل ہوگیا، اس وقت ہمیں ضرورت ہے کہ باقر جیسے بچوں کو آگے بڑھ کر گلے لگائیں ان کو کھل کر رونے کا موقع دیں، ان کے آنسو صاف کریں، ان کے گلے شکوے سنیں، ان کو یہ احساس دلائیں کہ وہ مشکل کی گھڑی میں اکیلے نہیں پورا پاکستان ان کے ساتھ ہے۔ اگر اب بھی سیاستدان اپنے مفادات کی سیاست کرتے رہے، یہی ہوتا رہا اور کچھ جماعتوں کی مجرمانہ خاموشی اس ہی طرح جاری رہی تو قوم کے نونہال انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ خیبر پختون خوا حکومت کو اب دوسرے صوبوں کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ دو سا ل ہونے کو ہیں، انہوں نے تبدیلی کے کھوکھلے نعروں کے علاوہ کچھ صوبے کو دیا بھی ہے یا نہیں اور وفاق میں مسلم لیگ کو بھی اپنی مجرمانہ غفلت ختم کرکے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا خاتمہ کرے۔ عوام ان کی ذاتی چپقلش اور عناد کا کافی تماشہ دیکھ چکے ہیں، اب بہتری اسی میں ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے کام کیا جائے تاکہ باقر اور اس کے دوستوں کو انصاف مل سکے۔
Javeria Siddique writes for Daily Jang
Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10585#sthash.898ki5Xp.dpuf

Posted in ArmyPublicSchool, Pakistan

پشاور میں قیامت صغریٰ

  Posted On Tuesday, December 16, 2014   ………جویریہ صدیق………
پشاور میں 16دسمبر کی صبح کتنی ہی ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کو اٹھایا ہوگا کہ بیٹا اٹھ جاؤ ہاتھ منہ دھو لو، میں ناشتہ بنا رہی ہوں اور کتنے ہی بچوں نے نرم گرم بستر کو چھوڑنے سے انکار کیا ہوگا۔ سردیوں کی صبح اٹھنا کتنا مشکل ہوتا ہے نا؟؟ بہت سے ماؤں نے پیار سے ناشتہ بستر میں ہی اپنے بچوں کو کروا دیا ہوگا۔ اپنے ہاتھ سے نوالے کھلائے ہوں گے۔ کتنے ہی بچوں نے ناشتہ نہ کرنے کی ضد کی ہوگی لیکن مامتا کے آگے کون جیت سکتا ہے؟ کسی ماں نے اپنے لال کو پراٹھا انڈا کھلایا ہوگا کسی ماں نے جیم بریڈ اور چائے کسی بچے نے صبح توس کھانے کی فرمائش کی ہوگی، کسی نے کہا ہوگا امی مجھے صرف دودھ چاہیے اور کچھ نہیں۔ یوں ضد لاڈ میں بچے تیار ہوئے ہوں گے۔ماؤں نے اجلے یونیفارم خود پہنائے ہوں گے، موزے جوتے بھی۔ کچھ بچوں نے کہا ہوگا کہ امی میں اب بڑا ہوگیا ہوں میں خود پہن سکتا ہوں، آپ کیوں میرے کام کرتی ہیں۔ لیکن ماؤں نے پھر بھی مامتا سے مجبور سارے کام خود کیے ہوں گے۔ کچھ بچےجنہوں نے ابھی نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہوگا امی سے چھپ کر جیل کر لگا کر ہیر اسٹائل بھی بنا یا ہوگا لیکن امی نے تو آکر اس ہیئر اسٹائل پر اونی ٹوپی رکھ دی ہوگی کہ بیٹا باہر بہت ٹھنڈ ہے، بنا ٹوپی کے باہر مت جانا۔ بچوں کی تیاری کے دوران ماؤں نے بہت سارے ٹفن لنچ بکس بھی تیار کیے ہوں گے، گرما گرم پراٹھے، کباب، بریڈ، آملیٹ اور کیا نعمت نہیں، اس چھوٹے سے ڈبے میں چپس، کیچپ، سوسج، مفن کیا نہیں۔کتنے ہی بچوں نے اپنے والد سےبھی پیسے نکلوائے ہوں گے کہ کینٹین سے بھی چیزیں کھائیں گے اور دوستوں بھی کھلائیں گے۔
کوئی بچہ اسکول وین میں گیا ہوگا تو کوئی اسکول بس میں، کوئی ڈرائیور کے ساتھ تو کسی نے ماں باپ کے ساتھ درس گاہ کا رخ کیا ہوگا۔ ماؤں نے کتنی دیر ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے بچوں کو خداحافظ کہا ہوگا، جب تک وہ اوجھل نہیں ہوا ہوگا، ماں کا ہاتھ رکا نہیں ہوگا۔ کتنی دعائیں کرکے اسکول بھیجا ہوگا کیونکہ آج تو اسکول میں پیپر تھا۔ کتنے ہی باپ بھی اپنے بچوں کی کامیابی کے لیے دعاگو رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ میرے بچے کو امتحان میں سرخرو کرنا۔ زندگی معمول کے مطابق تھی، بچے مسکول میں، مائیں اپنے گھروں میں اور والد اپنے اپنے دفاتر میں۔ مائیں تو بچوں کے لیے دوپہر کا کھانا بنانے میں مصروف اور سوچتی ہوں گی جب میرا بیٹا میرالال واپس آئے گا تو اس کا من پسند کھانا کھلاؤں گی،لیکن یہ دن تو شروع ہی ہوا تھا قیامت صغریٰ میں تبدیل ہونے کے لیے۔ بچے اپنی اپنی کلاسوں میں امتحان دینے میں مشغول تھے کہ اچانک دہشت گردوں نے اسکول پر حملہ کردیا، ڈیڑھ ہزار نہتے طالب علم اوران کے نہتے110اساتذہ اس صورتحال کے لیے تیا ر نہیں تھے،لیکن پھر بھی اساتذہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ بچوں کو بچایا جائے۔والدین کے بعد دنیا کا سب سے مقدس رشتہ اساتذہ کا ہے، کتنے ہی اساتذہ نے دہشت گردوں سے کہا ہوگا کہ ان کے شاگردوں کو کچھ مت کہا جائے لیکن دہشت گرد کہاں انسانیت کی زبان جانتے ہیں۔ انہوں نے اندھا دھند بچوں اور اساتذہ پر فائر کھول دیا۔
جس وقت گھروں میں مائیں اپنے بچوں کے لیے انواع واقسام کے کھانے بنا رہی تھیں اس وقت دہشت گرد چن چن کر ان کے بچوں کو گولیوں سے چھلنی کررہے تھے۔ بچوں کے اجلے یونیفارم خون کے لال رنگ سے رنگے گئے، ان کی کتابیں بستے سب دہشت گرد اپنے پاؤں تلے روندتے گئے اور مزید لوگوں کو نشانہ بنانے نکل گئے۔ جب یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی تو مائیں گھروں سے نکلیں۔شفقت سے بھرپور باپ دفاتر کاروباری مراکز سے بھاگے کہ اپنے جگر گوشوں کو بچائیں لیکن ان کے بچے تو دہشت گردوں نے یرغمال بنا لیے تھے۔ پاک آرمی نے آپریشن کا آغاز کیا، بچوں اور اساتذہ کو دہشت گردوں کے چنگل سے چھڑوانے کا آغاز کیا۔ اب تک بیشتر بچوں اور اساتذہ کو بحفاظت نکال لیا گیالیکن بہت سے ذی روح جان کی بازی ہار گئے۔ مائیں بلکتی رہیں اور اسکول سے لاشیں نکلتی رہیں،وہ جو خواب ان بچوں نے دیکھے تھے وہ سب چکنا چور ہوگئے، جو امیدیں والدین کی تھیں وہ بھی ایک گولی کی وجہ سے ختم ہوگئیں۔
پورا پشاور خون میں نہا گیا، وہ بھی ننھے منے پھولوں کےخون سے۔وہ پھول جو بنا کھلے مرجھا گئے۔وہ پھول جنہوں نے ابھی پائلٹ، ڈاکٹر، صحافی، سیاستدان، انجینئر، فوجی، بینکار بن کر اس ملک کی باگ ڈور کو سنبھالنا تھا۔ وہ بچے جن کی ماؤں نے ان کے سہرے کے پھول دیکھنے تھے سب منوں مٹی تلے جا سوئے۔ جس ماں نے نو مہینے اپنی کھوکھ میں رکھ کر پیدا کیا راتوں کو جاگ جاگ کر اپنے بچوں کو بڑا کیا، آج وہ یہ رات ان کے بنا کیسے گزاریں گے، اس کا جواب کون دے گا؟والدین اسپتالوں میں اپنے بچوں کو دیوانہ وار ڈھونڈتے رہے اور اس وقت بچوں کی کراہنے کی آوازیں اور لواحقین کی آہ و زاری کی وجہ سے قیامت کا سماں ہےلیکن اب بھی قوم کے حوصلے بلند ہیں۔ بچوں کی لاشیں وصول کرتے وقت بھی والدین کہتے رہے ہمیں اپنے بچوں کی شہادت پر فخر ہے اور حکومت اور پاک فوج چن چن کر ان دہشت گردوں کا خاتمہ کرے۔
سوشل میڈیا پر بھی عوام غم و حسرت کی تصویر نظر آئے اور پل پل اس واقعے کی مذمت کرتے رہے اور آنسو بہاتے رہے۔ آج ساری قوم متحد نظر آرہی ہے، اسی جذبے کے ساتھ ہم دہشت گردی کو شکست دے سکتے ہیں۔ جن ماؤں کے جگر گوشے چلے گئے وہ کبھی واپس نہیں آسکتے اور کوئی ان کے غم کا مداوا نہیں کرسکتا لیکن حکومت اور فوج مل کر بیٹھے اورحکمت عملی تیار کرے کہ آئندہ اس طرح کے واقعات کا سدباب کیسے کرنا ہے تاکہ کسی اور ماں کی گو د نہ اجڑے اور کوئی بھی بچہ اس صورتحال کا سامنا نہ کرے جس دہشت بربریت اور ظلم کے نشانہ بچے آج بنے۔
ظلم کی وہ داستاں کہ کانپے قلم جو ہو رقم
روحوں کے وہ زخم جو لفظوں سے بھر نہ پائیں گے
جو نگاہیں خامشی سے راہ ہماری دیکھتی ہیں
جان لو پتھر اگیں گر وہ ہماری آس ہیں
خون سے رنگے ہوئے ان منظروں کو دیکھتے
تو کیا ہمارا روپ ہوگا مختلف قاتل سے پھر
آنے والی نسل جب تاریخ کے اوراق پر
کاغذ کے منہ پہ خود پڑھے گی سب لکھا اس طور سے
تو کیا گوارہ وہ کرے گی شکل ہماری دیکھنا

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias
– See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10446#sthash.1cGsGD6V.dpuf