November 04, 2013 ۔۔۔ جویریہ صدیق ۔۔۔
پاکستان میں یوں تو اکثر عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں تاہم تین نومبر کو سندھ اسمبلی میں ایسا واقعہ رونما ہوا جوکہ آج تک تاریخ میں رونما نہیں ہوا۔سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے بھتیجے کی شادی کی تقریب سندھ اسمبلی میں منعقد کروا دی گی ۔یہ اسمبلی کی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب ایک ہزار کے قریب خواتین اور مرد حضرات خوب زرق برق ملبوسات میں ملبوس ہوکر اسمبلی پہنچے جہاں ان کی تواضع مشروبات اور انواع اقسام کے کھانوں سے کی گی ۔دلہا دلہن، مہمان، سیاسی شخصیات،وسیع وعریض شامیانے اور برقی قمقموں کی بھرمار ایسا منظر اس اسمبلی کی پر شکوہ عمارت نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا اور تو اور بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی ان وی وی آیی پی مہمانوں کے لیے معتدد سیکورٹی اہلکار بھی تعینات کیے گیے تھے تاکہ کسی بھی قسم کا ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔
جیو ٹی وی کی آنکھ سے یہ تقریب اوجھل نا رہ سکی اور پل بھر میں اسپیکر موصوف کا یہ کارنامہ پورے پاکستان کے سامنے تھا ۔ مہمان تو شادی سے لطف اندوز ہوتے رہے اور عوام یہ ٹی وی دیکھ کر یہ سوچتے رہے کہ اے کاش وہ بھی مفتے میں ایسے ہی شادیاں بھگتا لیا کریں سرکاری مفت کا ہال ، سرکاری پیسوں پر مفت کا کھانا، سرکار کی بجلی پر برقی قمقموں کی جگماگاہٹ اور سرکاری خرچے پر ہی مفت سیکیورٹی مل جایے تو مزہ ہی آجایے ۔
شادی کی تقریب رات گیے تک جاری رہی اور صبح انیس سو بیالس میں بنایی گی سندھ اسمبلی کی تاریخی عمارت مہمانوں کے زردے بریانیوں کے تھال ،استعمال شدہ برتنوں ، ٹشو پیپرز اور چھوڑے ہویے کھانے سے بھری پڑی تھی۔اکہتر سالہ پرانی عمارت جو کہ قومی ورثہ میں شامل ہے اس کو خود اس کے ہی اسپیکر کی طرف سے نقصان پہنچایا جانا قابل مذمت ہے ۔ موصو ف آغاہ سراج درانی اپنے کیے پر شرمندہ نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ گورنر ہاوس اور وزیراعلی ہاوس میں بھی تو شادیاں ہوتی ہیں ارے جی جناب ہوتی ہیں اس لیے کے گورنر اور وزیر اعلی کی رہایش گاہیں جو ان عمارتوں کے اندر ہیں لیکن جناب اسپیکر اسمبلی میں تو کسی کی رہایش گاہ نہیں تو پھر وہاں شادی کی تقریب کیوں ؟
اسپیکر موصوف ڈھٹائی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے ہیں کہ اسمبلی میں شادی کی تقریب کا انعقاد ان کا قانونی اور آیینی حق ہے اب امکان اس بات کا ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے اور کہیں مستقبل قریب میں ایسا نا ہونے لگے کہ شامیانے قومی اسمبلی کے احاطے میں بھی لگنے لگیں چلو قانون سازی نا سہی شادی خانہ آبادی ہی سہی۔ – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9235#sthash.jpoiG8Uj.dpuf