Posted in Uncategorized

اکتوبر چھاتی کے کینسر سے بچاؤ کا مہینہ

October 04, 2014   ……..جویریہ صدیق……..
پاکستانی خواتین میں چھاتی کا سرطان تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس موذی مرض سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیےعالمی دنیا اور پاکستان بھر میں ماہ اکتوبر بریسٹ کینسر سے بچاؤ کے طور پر منایا جاتاہے۔ ایشائی ممالک میں پاکستان میں چھاتی کے کینسر کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ہر سال 40ہزار سے زائد خواتین اس مرض کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہر دس میں سے ایک پاکستانی عورت کو چھاتی کے سرطان کا خطرہ لاحق ہے۔پاکستان میں چھاتی کے سرطان سے ہلاکت کی بڑی وجہ خواتین کا اس مرض کی تشخیص،علاج میں اور اس پر بات ہی کرنے سے کترانا ہے۔خواتین اس وقت ڈاکٹر کا رخ کرتی ہیں جس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔طبی ماہرین کے مطابق اگر اس مرض کی جلد تشخیص ہوجایے تو اس کا مکمل علاج ممکن ہے۔

چھاتی کے کینسر کی شناخت اور تشخیص خود خواتین سب سے پہلے کر سکتی ہیں۔خواتین اپنا معائنہ خود کریں اگر کوئی تبدیلی ان کو محسوس ہو تو فوری علاج پر توجہ دیں۔ مغربی ممالک میں بڑی عمر کی خواتین اس کا شکار ہوتی ہیں جن کی عمر 50اور 60کے درمیان ہو لیکن پاکستان میں کم عمر خواتین میں اس کی شرح زیادہ ہے اور 30سے 40کی عمر کی خواتین اس کا زیادہ شکار بنتی ہیں۔ اس کے ساتھ دیگر بہت سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے خواتین اس مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔ اگر یہ بیماری موروثی ہو اور خاندان کی دیگر خواتین اس کا شکار ہوچکی ہوں، اگر خاتون کا وزن زیادہ ہو اور وہ سہل پسندی کا شکار ہو، جن خواتین کو ماہواری بہت کم عمر میں شروع ہوئی ہوجیسے 8یا 9سال اور جن کا ماہانہ ایام کا دور 50سال کی عمر کے بعد بھی جاری رہے،جن خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش 30سال کے بعد ہو، ان سب میں چھاتی کے سرطان کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خواتین اپنی تشخیص خود کریں، اگر چھاتی یا بغل کی طرف گلٹی نمودار ہو، جلد پرزخم اور خراشیں جو ٹھیک نہیں ہو رہی ہوں، کھال کی ساخت یا رنگ میں تبدیلی آجائے تو طبی ماہرین سے فوری رابطہ کریں۔ ضروری نہیں کہ تمام زخم یا گلٹیاں سرطان کی ہی علامات ہوں لیکن احتیاط بہترہے۔ اگر اس مرض کی تشخیص بروقت ہوجائے تو علاج کے ذریعے مکمل صحت یاب ہونے کی شرح 80فیصد ہے۔

ازخود معائنے کے بعد خواتین کو فوری طور پر معالج سے رجوع کرکے میمو گرافی اور کلینکل بریسٹ ایگزامینشن کروانا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ صحت مند خواتین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ 30سال عمر کے بعد کم ازکم 5سال میں ایک مرتبہ میمو گرافی ضرور کروائیں۔ 40سال کی عمر کے بعد ہر 2سال بعد اور 50سال عمر ہوجانے کے بعد ہر سال میمو گرافی کروانی چاہیے۔ میمو گرافی ایک خاص قسم کا ایکسرے ہوتا ہے جس سے چھاتی میں موجود ہر طرح کے سرطان کی تشخیص ہوجاتی ہے۔

دنیا بھر میں 16فیصد خواتین بریسٹ کینسر کے شکار ہو جاتی ہیں اور اس کے باعث 5لاکھ موت کے منہ چلی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً 40ہزار خواتین اس موذی مرض میں مبتلا جان سے جاتی ہیں۔یہ تعداد صرف ان خواتین کی ہے جو علاج کےلیے اسپتالوں کا رخ کرتی ہیں، ان کے کا تو شمار ہی نہیں جو اسپتالوں میں شرم اور غربت کے باعث آنے سے قاصر ہیں۔ اس مرض سے بچنے کے لیے آگاہی بہت ضروری ہے، خواتین جیسے ہی کوئی بھی گلٹی محسوس کریں تو فوری طور پر اپنے شوہر یا دیگر اہل خانہ کو اعتماد میں لیں اور ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ کینسر پہلے مرحلے میں تو مخصوص خلیوں میں ہی رہتا ہے لیکن دوسرے مرحلے کے آغاز سے یہ جسم کے دیگر حصوں میں پھیلنا شروع ہوجاتا ہے جو بہت خطر ناک ثابت ہوتا ہے۔ چھاتی کے کینسر کے ابتدائی دنوں میں درد محسوس نہیں ہوتا اس کی وجہ سے علاج میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ اس لیے کسی بھی قسم کے زخم رطوبت یا گلٹی کی صورت میں دیر نہ کریں، ڈاکٹر کے پاس جائیں اور ٹیسٹ کروائیں۔ پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے لیے مختلف طریقے موجود ہیں جن میں سرجری، ریڈی ایشن، آپریشن، کیموتھراپی شامل ہیں۔

پاکستانی خواتین کی بڑی تعداد اس بیماری سے محفوظ رہ سکتی ہیں اگر وہ اپنے طرز رہن سہن میں تبدیلی لے آئیں۔ گھر کے کام سے فارغ ہوکر مناسب ورزش کا اہتمام کریں۔ روزانہ 30منٹ چہل قدمی کریں، وزن بالکل نہ بڑھنے دیں۔ کالے رنگ کے زیر جامے دھوپ میں نکلتے وقت ہرگز بھی نہ پہنیں۔ متوازن غذا کا استعمال کریں۔ چکنائی، گوشت سے پرہیز کریں، تازہ پھل، دالیں، گندم، باجرہ، مکئی کا آٹا اور سبزیاں کھا ئیں۔گوشت میں صرف مرغی اور مچھلی استعمال کریں وہ بھی بھاپ میں پکائیں۔ تیل اور گھی کا استعمال کم سے کم کریں۔ زیادہ تر پاکستانی خواتین تمباکو نوشی کی عادی نہیں لیکن آج کل فیشن میں شیشے کا استعمال بڑھ رہا ہے، اس سے پرہیز کیا جائے کیونکہ کہ تمباکو کے دھوئیں سے کینسر کا امکان بڑھ جاتاہے۔ پیٹرول، ڈیزل کا دھواں بھی خواتین کے لیے خطرناک ہے، باہر جاتے وقت منہ کو ماسک سے ڈھانپ لیں۔ دورانِ گفتگو چھاتی کے سرطان کو زیرموضوع لائیں تاکہ جن خواتین کو اس مرض کے حوالے سے آگاہی نہیں وہ بھی اس سے آگاہ ہوجائیں۔ آگاہی، تشخیص اور علاج کے ذریعے بہت سی قمیتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

Javeria Siddique writes for Daily Jang

Contact at https://twitter.com/#!/javerias

javeria.siddique@janggroup.com.pk   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10253#sthash.o1QKZgS5.dpuf