Posted in Pakistan

متوازن غذا حاملہ خواتین کی اولین ضرورت

Posted On Wednesday, March 11, 2015   …..جویریہ صدیق……
ماں 9 مہینے کی مشقت اور تکلیف کے بعد بچے کو جنم دیتی ہے ۔پھر بہت پیار سے بچے کو پروان چڑھاتی ہے ۔ اس ہی لیے کہا جاتا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ دنیاوی رشتوں میں ماں ہی ایک ایسا بے لوث رشتہ ہے جو بنا کسی غرض کے اپنے بچے سے محبت کرتی ہے۔ماں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس بچے کو ہلکی سی خراش بھی نا آئےاور اس کی تعلیم و تربیت میں کوئی بھی کمی نا ہو۔بس ماں کی کل کائنات اس کی اولاد ہی ہوتی ہے۔کسی بھی عورت کا ماں بننا صرف اس ہی کے لیے نہیں بلکہ اس کے سارے خاندان کے لیے مسر ت کا باعث ہوتا ہے ،گھر کے تمام ہی افراد ننھے مہمان کی آمد کا سن کر ہی اس کے استقبال کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں۔ہر کسی کو انتظار ہوتا ہے کیسے گزرے گا یہ وقت اور ایک چھوٹے ننھے منے سے بچے کی کلکاریوں سے ان کا گھر گونج اٹھے گا۔لیکن اس دوران جو سب اہم بات جو اکثر نظر انداز کردی جاتی ہے وہ حاملہ خاتون کی صحت اور اس کے لیے متوازن غذا کا انتخاب کرنا ہے۔انسانی نسل کی بقا کے لیے ضروری کے ماں صحت مند ہو تب ہی وہ اپنی کوکھ سے ایک صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔

راولپنڈی اسلام آباد کی معروف سینر گائنا کولوجسٹ مسز رشید کے مطابق حاملہ خاتون کے شوہر اور اہل خانہ کی ذمہ داری ہے کہ اس کو اچھی غذا اور مکمل آرام فراہم کیا جائے۔بچے کی اعضاء کی مکمل نشوونما اس کی دماغی صحت کے لیے ضروری ہے کہ ما ں مکمل متوازن غذا کا استعمال کرے۔اگر اسے مناسب غذا نا ملے تو بچہ کمزور پیدا ہوگا اور اس میں قوت مدافعت بھی کم ہوگی۔اگر ماں غذائی کمی کا شکار ہو تو دوران زچگی خود اسکی اور بچے کی جان کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور بعض اوقت قبل از وقت پیدایش کا بھی باعث بنتا ہے۔

دوران حمل جن غذائی اجزا کا استعمال ناگزیر ہے وہ کچھ یوں ہیں۔غذا میں لحمیات، نشاستہ،وٹامن ، چکنائی ، کیلشیم ، منرل ، فولاد اور پانی کا استعمال ضروری ہے۔حاملہ خاتون اپنی غذا میں دودھ، دہی، انڈا، مچھلی، پنیر، مرغی گوشت شامل کرے ،یہ اس کے اور بچے کے خلیات کی نشوونما میں اہم کردار ادا کریں گے۔اس کے ساتھ دالوں اور اناج میں بھی لحمیات یعنی پروٹین کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے ۔پورے دن میں70گرام پروٹین کا استعمال کافی ہے۔ حاملہ خاتون کو اپنی غذا میں نشاستے کا استعمال بھی متوازن رکھنا چاہئے۔ نشاستہ، پھل ،سبزیوں، چاول گندم،بریڈ، جوار اور باجرہ سے حاصل ہوتا ہے۔اس کے استعمال سے حاملہ ماں اور اس کے ہونے والے بچے کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔

لحمیات اور نشاستے کے بعدحاملہ عورت کے لیے ضروری ہےکہ وہ مناسب تعداد میں چکنائی کا استعمال بھی کرے۔ چکنائی ماں کی کھوکھ میں موجود بچے کی آنکھوں ، نروس سسٹم اور دماغی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔چکنائی حاملہ ماں کو دودھ سے بنی ہوئی اشیاء،گوشت، میوہ جات ،بیکری کی اشیاء کیک بسکٹ،مکھن،مارجرین،چپس ،کریم اور گھی سے ملتی ہے۔30سے 40ملی گرام چکنائی حاملہ ماں کے لیے موزوں ہے۔چکنائی کا زیادہ استعمال ہرگز نا کیا جائے۔ حیاتین یا وٹامن بھی حاملہ ماں اور بچے کے لیے بہت ضروری ہے۔وٹامن اے اور بی کے باعث بچے کی ہڈیوں اور دانتوں کی نشوونما میں مدد ملتی ہے اور وٹامن اے بی دودھ ،انڈوں،گاجروں،پالک ،بروکلی،آلو ، حلوہ کدو میں موجود ہے،حاملہ خاتون کیلئے روزآنہ 700 مائیکرو گرام وٹامن بی اور اے بہت ضروری ہے۔ وٹامن سی ماں اور بچےدونوں میں خلیوں کی حفاظت، قوت معدافت اور فولاد کو جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ ترش پھلوں،آلو،ٹماٹر اور بروکلی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔وٹامن ڈی بھی حاملہ ماں اور اس کے بچے کی ہڈیوں کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس لیے حاملہ ماں کو دودھ اور مچھلی کا استعمال لازمی کرنا چاہیے۔وٹامن ای بچے کے ریڈ بلڈ سیل اور اعصاب کے لیے ناگزیر ہے، حاملہ خاتون میوہ جات، دلیہ ،پالک کے استعمال سے اسے حاصل کرسکتی ہے۔

کیلشیم حاملہ خاتون کی بہت اہم ضرورت ہے کیونکہ بچہ نشوونما کے لیے غذائیت ماں سے لے رہا ہوتا ہے اس لیے ماں جتنی اچھی خوارک لے گی بچہ اتنا ہی صحت مند ہوگا۔کیلشم دہی ، دودھ ، پنیر،آیس کریم ،لسی کے ساتھ ساتھ لوبیا،ہرے پتوں والی سبزییوں،دلیے اور چنوں میں شامل ہے۔دن میں ہزار ملی گرام سے لے کر 13سو گرام کیلشیم لینا ضروری ہے۔فولاد اور فولک ایسڈ بی ایک ایسا غذائی جز ہے جو حاملہ ماں اور بچے کے لیے بہت اہم ہے یہ جسم کے اندر سرخ خلیے بناتا ہے اور حاملہ خاتون کو خون کی کمی سے بچاتا ہے۔بچوں میں جلد پیدائش کے خطرے کو کم کرتا ہے،ایک دن میں600 مائیکرو گرام فولک ایسڈ اور27ملی گرام فولاد بہت کافی ہے۔پانی بھی بہت اہم جزو ہے۔

سینئرگائناکولوجسٹ مسز رشید کے مطابق متوازن غذا کے ساتھ یہ بہت ضروری ہے کہ حاملہ ماں کو مکمل سکون اور آرام دہ ماحول دیا جائے۔دوران حمل خاص طور پر خاوند کو اپنی زوجہ کے ساتھ بہت شفقت بھر ارویہ اختیار کرنا چاہئے، اس کے ساتھ سسرال واے بھی حاملہ خاتون کو ہر طرح کے دبائو سے دور رکھیں اور اپنی بہو کو مکمل آرام کرنے کا موقع دیں ۔اس کے ساتھ اس کا طبی معائنہ ضرور کروائیں تاکہ کسی بھی قسم کی پیچدگی سے بچا جاسکے۔ غذا کا متوازن ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر غذا متوازن نہیں ہوگی تو بچے کے قبل از وقت پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے، کچھ کیسز میں زیادہ خون بہنا شروع ہوجاتا ہے۔اس لیے بہت ضروری کہ ماں حمل سے لے کر زچگی اور دودھ پلانے کے عرصے تک متوازن غذا کا استعمال کرے تاکہ وہ خود بھی صحت مند رہے اور اس کا بچہ بھی۔ماں کا بیمار رہنا یا زچگی کے دوران گزر جانا صرف خاندان ہی نہیں بلکے معاشرے کا نقصان ہے ۔رویوں میں تبدیلی اور مناسب طبی سہولیات سے ایک صحت مند معاشرہ پروان چڑھ سکتا ہے۔
Javeria Siddique writes for Jang
twitter@javerias   – See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10728#sthash.OnBahw76.dpuf

Posted in Uncategorized

ماں کا دودھ بچے کی مکمل غذا

… نوزائیدہ بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما میں ماں کا دودھ سب سے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔یہ بچوں کے لیے بہترین اور مکمل غذا ہے۔اس میں قدرتی طور پر پانی اور وہ تمام غذایت موجود ہے جس کی بچے کو ابتدائی ایام میں ضرورت ہوتی ہے۔ماں کسی بھی تیاری کے بنا بچے کو اپنا دودھ پلا سکتی ہے اور فیڈر کے خرچ سے بھی بچ سکتی ہے۔ماں کا دودھ بچوں میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے اور ان کوبدہضمی،پیٹ کا درد، دست ، کھانسی ونزلہ،نمونیا اور یرقان سے محفوظ رکھتے ہیں۔بچے کی پیدایش کے آدھے گھنٹے کے اندر اس کو ماں کا دودھ دینا شروع کردینا چاہیے۔ماں کا ابتدائی دودھ جو کولسڑم کہلاتا ہے ، بچے کے لیے بہت مفید ہوتا ہے اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ چھ ماہ تک بچے کو چوبیس گھنٹوں کے اندر کم ازکم دس سے بارہ دفعہ دودھ پلانا چاہیے۔چھ ماہ کے بعد بچے کو نرم غذا بھی شروع کروا دینی چاہیے اور ماں کو بچوں کو کم ازکم دودھ دو سال پلانا چاہیے۔

لاہورچلڈرن اہسپتال کے شعبہ نوزائیدہ اطفال کے سربراہ ڈاکٹر عرفان وحید کے مطابق ماں کا دودھ پلانا بچے کے لیے بہت اہم ہے یہ اس کو بہت سی بیماریوں سے بچاتا ہے پاؤڈر کے دودھ سے ہر ممکن اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ یہ ماں کے دودھ کا نعم البدل نہیں۔ڈاکٹر عرفان کے مطابق دودھ پلانے والی ماں غذایت سے بھرپور اشیا خوردنوش کا استعمال کرے اور بچہ جتنی بار دودھ مانگے اسے دودھ پلایا جائے۔ان کے مطابق جو بچے پاڈور کے دودھ کے برعکس ماں کا دودھ پیتے ہیں ان کا ہاضمہ درست رہتا ہے اور یہ بچے پیٹ درد،اسہال،ہیضے اور قبض سے محفوظ رہتے ہیں اور ماں بچے کے مابین محبت کا ایک خوبصورت رشتہ قائم ہوجاتاہے۔

آٹھ جنوری دو ہزار چودہ کو پنجاب حکومت نے بریسٹ فیڈنگ اور چائلڈ نیوٹریشن کے حوالے سے بورڈ کے قیام کا نوٹیفیکشن کا جاری کیا جس کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ والدین کو اس بات کی آگاہی دی جائے کہ نوزائیدہ بچوں کو ماں کے دودھ دیا جانا بہت ضروری ہے۔اس کے علاوہ سرکاری اسپتالوں میں ماں کی دودھ کی افادیت پر مواد فراہم کیا جائے اور فارمولہ دودھ تیار کرنے والی کمپنیوں کی نگرانی کی جائی گی اور اس بات کا خاص خیال رکھا جائے گا کہ ڈبے کا دودھ اور غذا کی تشہیرنا ہو۔اس بورڈ میں ماتحت عملے اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ٹریننگ بھی شامل ہے۔ بورڈ کی تشکیل تو ہوگئی تاہم اب تک اس پر عمل درآمد نظر نہیں آرہا۔ سادہ لوح عوام اسپتالوں اور میڈیکل اسٹورزمیں لگے ڈبے کے دودھ کے لگے اسشتہارات سے متاثر ہوکر اپنے بچوں کو فارمولہ ملک شروع کروادیتے ہیں جوکہ بچوں کی صحت کے لیے مفید نہیں۔ڈبے کا دودھ گھر کے بجٹ کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور اگر فیڈر جراثیم سے پاک نا ہو تو بچہ مہلک امراض میں مبتلا ہوکر والدین کے لیے اور پریشانی کا باعث بن سکتاہے۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ اس بورڈ کی نوعیت کی طرح کے بورڈ ملک بھر میں قائم کیے جائیں اور منصوبہ بندی پر عمل درآمد بھی کروایا جائے۔اسپتالوں میں خصوصی کاؤنٹر قائم کیے جائیں جن کا کام والدین کو ماں کے دودھ کے حوالے سے آگاہی دینا ہو۔آج کل غذائی قلت کا بھی چرچا عام ہے ڈبے کا دودھ اس کے علاج میں بھی مفید نہیں، صرف ماں کا دودھ اور نرم غذا اورمعالجین کی تجویز کردہ ادویات فائدہ مند ہیں۔ حکومت کو ماں اور بچے کے صحت کے حوالے سے مراکز تحصیل اور ضلع کی سطح پر بھی قائم کرنے چاہئیں۔ شہروں تک پہنچتے ہوئے زچہ یا بچہ بہت بار اپنی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اس لیے صحت کا پیغام اور سہولیات عام کرنے کی اشدضرورت ہے۔اس حوالے سے حکومت سنجیدہ اقدامات کرے تاکہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کو کم کیا جاسکے۔ –

See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9664#sthash.BAHjeHeK.dpuf

@javerias